جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا باچا خان اور ولی خان سیمینار سے خطاب 28 جنوری 2023


جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا باچا خان اور ولی خان سیمینار سے خطاب 
 28 جنوری 2023

خطبہ مسنونہ کے بعد
کافی دنوں سے طبعیت ناساز ہے لیکن جب باچا خان اور ولی خان کے عنوان سے پروگرام کی دعوت ملی تو اپنی ناسازی بھول گیا اور اس کو بہت ضروری سمجھا اور میری سعادت ہے کہ میں اس میں شامل ہورہا ہوں، لیکن اپنی زندگی میں آج ہم جس ماحول میں بیٹھے ہیں اور جس محیط میں اس اجتماع کا اہتمام ہورہا ہے جہاں میں باچا خان کا نام دیکھتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ جناح کنونشن سنٹر میں ہورہا ہے تو یہ سمٹتے ہوٸے فاصلوں پر میں خوش آمدید کہتا ہوں ۔
جناب ایمل ولی خان، اے این پی کے مقتدر قاٸدین، بڑا اچھا ہوتا اگر آج یہاں اسفندیار ولی خان بھی ہوتے، میری دعا ہے اللّٰہ تعالیٰ اُن کو صحت نصیب فرمائے اور اِس طرح کی اجتماعات میں اُن کے ساتھ مل بیٹھنے کی اللّٰہ تعالیٰ ہمیں مواقع نصیب فرمائے ۔
خان عبدلولی خان کو میں نے بہت بچپن میں، جب میں ابھی اپنے گاٶں سے بھی نہیں نکلا تھا، اپنے گاٶں میں دیکھا، ہمارے گاٶں میں خداٸی خدمت گار کے کچھ لوگ تھے اور وہ اُن کے مہمان تھے، تو پہلی زیارت میری اُس عمر میں ہوٸی تھی، اُس کے بعد جب وہ افغا نستا ن میں اور جلاوطنی کا عرصہ گزار رہے تھے تو مجھے یاد ہے جب 1972 میں نیپ جمعیت حکومت قاٸم ہوٸی تو تورخم پر میرے والد قبلہ گاہ مولانا مفتی محمودؒ نے اُن کا استقبال کیا تھا اور ٹرک پر ایک ہی صوفے میں بیٹھ کر وہ خان صاحب کو پشاور میں لاٸے تھے اور بحیثیت وزیراعلی اپنے صوبے میں اپنے وطن میں اُن کو خوش آمدید کہا اور وہ حالات پیدا ہوٸے کہ جہاں پختونخواہ کی سرزمین پر پاکستان کی سرزمین پر انہیں دوبارہ اپنا عظیم کردار ادا کرنے کے مواقع ملے ۔
ہم طالب علم تھے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ میں تو دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھتا تھا اور خان صاحب چارسدہ میں ہوتے تھے، رزڑ میں ہوتے تھے، شاہی باغ میں ہوتے تھے، ولی باغ میں ہوتے تھے تو اُن کے پاس انا جانا بھی ہوتا تھا، ملاقاتيں بھی ہوتی تھی اور اُن کی انکھوں میں جو چمک میں نے دیکھا تھا وہ صرف انکھوں کی چمک نہیں تھی وہ برصغیر کی تاریخ کی ایک چمک تھی اور اسی سے ہم برصغیر کی تاریخ سمجھتے ۔
ہم بے باک سے تھے، جوانی تھی، بچپنہ تھا تو بے باکی سے باتیں کرلیتے تھے میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے کہا کہ بابا جی یہ کیا لوگ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کے علماء سے اختلاف ہیں تو مجھے سیدھا دیکھا اور کہا کہ شیخ الہند تمہارا لیڈر تھا یا میرا لیڈر تھا، شیخ الہند تمہارا استاد تھا یا میرا استاد تھا، شیخ الہند کی جمعیت علماء تو نے بناٸی تھی یا میں نے بنائی تھی اور اسی پر انہوں نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا ۔
ہشتنغر کے سرزمین کو بھی ایک بڑا مقام حاصل ہے کہ حاجی صاحب ترنگزٸی اسی سرزمین سے، باچا خان اسی سرزمين سے، حاجی محمد امین اسی سرزمین سے اور انہوں نے آزادی کے لیے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی، اگر آزادی کا مفہوم کوٸی سمجھنا چاہے تو شیخ الہند کے پیروکاروں سے سمجھے، اگر آزادی کا مقام اور اُس کی قدر و قیمت کوٸی سمجھنا چاہے تو باچا خان اور خداٸی خدمت گاروں سے سمجھے، آج تو ہر آدمی چوراہے پہ کھڑے ہوکر غلامی کی علامت ہوکر بھی کہتا ہے ہم آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، آزادی کی قیمت انہیں معلوم ہیں جنہوں نے ہزاروں ہزاروں کی تعداد میں، ایک تعداد پچاس ہزار بتائی جارہی ہیں کہ جو سولیوں پر لٹکاٸے گٸے، توپوں کے سامنے کھڑے کٸے گٸے اور ایک انگریز کہتا ہے کہ ہزاروں لوگ قطار میں تھے ایک ایک ادمی سے کہا گیا کہ اتنا کہہ دو میرا اِس تحریک سے کوٸی تعلق نہیں تو ہم آپ کو چھوڑ دیں گے، ہم نے سب کو توپ سے اڑایا اور ایک ادمی ایسا نہیں تھا جس نے یہ کہا ہو کہ میرا اِس تحریک آزادی سے تعلق نہیں ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان بنا لیکن اِس میں قربانی دینے والے اور آزادی کے لیے لڑنے والے اور انگریز سے پنجہ آزماٸی کرنے والوں کو قدر نہیں ملتی، حالانکہ اُن کو اِس سرزمین پر ہیرو کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی، تاریخ میں تحریک خلافت کا انکار نہیں کیا جاسکتا وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن ہماری کتابوں میں تحریک خلافت کا کوٸی تذکرہ نہیں ہے، ہے بھی تو الٹے سیدھے انداز کے ساتھ، لیکن بہر حال میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں باچا خان بڑے ادمی تھے اور ایک دن تو مجھے ایسی حیرت سے اُن کو دیکھنا پڑا میں تفصیل تو بیان نہیں کروں گا، جب میں اُن کے ساتھ بیٹھا ہوں شاٸد ولی باغ میں ہم بیٹھے تھے، مشہور یہ تھا کہ باچا خان بڑی سختی کرتے ہے اور مہمان کو جب چاٸے پلاتے ہیں تو بڑے کنٹرول کے ساتھ کہ ایک کپ سے زیادہ نہیں پینا، اِس سے زیادہ روٹی نہیں کھانی اور مجھے اتنا یاد ہے کہ جب بھٹو صاحب کے زمانے میں تحریک چل رہی تھی تو خان عبدلولی خان، مفتی صاحب، چوہدری ظہور الہی، مولانا نصراللّٰہ خان یہ قافلے میں چل رہے ہوتے تو خان عبدالغفار خان بھی اُن جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے تھے تو پھر یہ سارے حضرات باچا خان سے چھپ چھپا کے ایک گھر میں چاٸے کھانا بیٹھ کر کھایا کرتے تھے، اور جب خان صاحب کو پتہ چلتا تھا تو پھر اُن کو ڈانٹ بھی ملتی تھی کہ تم کیا انقلاب برپا کروگے جو تم یہ عیاشیاں کرتے ہو، تو ایک دن میں اُن کا مہمان ہوا، میرے مہمان بننے کا سبب یہ تھا کہ دہلی میں جمعیت علماء ہند نے حضرت شیخ الہند سیمینار رکھا تھا تو میری ڈیوٹی لگاٸی تھی کہ آپ نے باچا خان کے پاس جاکر اُن کو دعوت دینی ہے تاکہ وہ یہاں دہلی اکر اُس میں شریک ہوسکے تو اِس وجہ سے میں اُن کے پاس گیا تھا، تو میں نے دیکھا کہ میز کے اوپر مٹھاٸی بھی پڑی ہوٸی ہے اور چاٸے بھی، میں نے ڈرتے ڈرتے ایک کپ پیا تو خیال کیا کہ اب تو باچا خان ہمیں دوسرا کپ پینے نہیں دیں گے تو باچا خان نے کہا مولانا صاحب کو دوسرا کپ بھی بھرکے دو، تو اُس کے بعد جب سب میں مٹھاٸی تقسیم کی تو واپس اکے کہا کہ مٹھاٸی مولانا صاحب کے سامنے رکھو، میں نے سوچا کہ آج معمول سے رویے بدلے ہوٸے ہیں یہ اُن کی ایک شفقت تھی، محبت تھی جن کا انہوں نے اظہار کیا اور اِس سے اگے جاکر میں آپ کو عجوبہ سناوں گا میں نے کبھی اِس کا اظہار نہیں کیا لیکن آج اُن کا تذکرہ ہے تو اچھا ہے ہونے دے تو میرے طرف دیکھ کر کہا کہ فضل الرحمن بات سنو یہ ولی کو ذرا سمجھاو اِس کو سیاست کرنی نہیں اتی، اب میں ہکا بکا اُن کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ چلو ولی کہنا تو آپ کا حق ہے آپ کا بیٹا ہے لیکن میرے لیے تو اُن کی حیثیت باپ کی ہے میں تو اُن سے سیاست سیکھتا ہوں میں نے اُن کو کیا سمجھانا ہے ۔
تو اِس طرح کا والہانہ عقیدت کا ایک تعلق، اور اِس محبت کے ساتھ جب خان صاحب کا جنازہ تھا ہم جنازے میں شریک تھے اور میں نے دیکھا کہ خان عبدلولی خان جس افسردگی کے ساتھ، وہاں سے میں نے ایک سبق سیکھی کہ باپ بیٹے کے لیے عمر کی کوٸی قید نہیں ہے، جس طرح چھوٹا بچہ یتیم ہوکر باپ کے جانے کا احساس کرتا ہے بڑی عمر میں بھی میں نے خان صاحب کو اسی احساس کے ساتھ دیکھا، اور ان کے ایک اور رفیق تھے اسیر مالٹا عزیر گل رحمہ اللّٰہ کاکا خیل تھے اور ہم سخاکوٹ جاتے تھے اور وہاں سے، میاگانوں سیرٸی میں وہاں رہتے تھے ہم اُن کی خدمت کے لیے وہاں حاضر ہوتے تھے ، اُن کو بھی اللّٰہ نے بڑی لمبی زندگی دی تھی بس یہ دو ہی دوست تھے حضرت شیخ الہند کے جو لمبے عرصے تک اِس دنیا میں رہے اور اُن کے فیوضات سے دنیا نے استفادہ کیا، تو مجھے خاص طور پر کہا کرتے تھے کہ بیٹا جب تم واپس جاو سخاکوٹ میں، تو میرا ایک دوست ہے اُن کے گھر ضرور جانا، وہ خداٸی خدمت گار تھے، تو مجھے خاص طور پر ہدایت دیتے تھے کہ آپ میرے دوست کے گھر ضرور حاضری دینی ہے، پھر میں نے یہ سلسلہ نیک عمل خان تک اور اُس کے بعد تک جاری رکھا اور اُن کے دیرے پر حاضری دیتا ہوں، وقت کے ساتھ ساتھ خاندان بڑھتے ہیں، حجرے تبدیل ہو جاتے ہیں، میزبان تبدیل ہو جاتے ہے یہ اللّٰہ پاک کا ایک قدرتی نظام ہے ۔
تو یہ ایک رشتہ اور تعلق ہے اور جب خان صاحب دنیا سے چلے گٸے تو، مجھے یاد ہے جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو میں جیل میں تھا بیاسی میں، تو اُس وقت باچا خان صاحب ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لے اٸے اور کہا کہ میں فضل الرحمن کو ملنے جیل جاوں گا اور سارے پولیس اور فوج الرٹ ہوگٸے کہ خان صاحب کیسے جیل میں اٸے گا، میرے پاس جیل والے اگٸے کہ باچا خان کی ضد ہے کہ میں فضل الرحمن سے ملوں گا اور اجازت ہے نہیں، تو میں نے کہا پھر اُن کے ساتھ کیا کروگے، انہوں نے کہا وہ بھی کھڑے رہیں گے ہم بھی کھڑے رہیں گے کیا کرسکتے ہیں، تو یہ اُن کی محبت تھی اور پھر وہ عبدلخیل میرے گھر گٸے، بغیر اطلاع کے، اتنی بڑی شخصیت اور بغیر اطلاع اور پروٹوکول کے، اور جب میرے حجرے پہ اٸے تو کوٸی بھی گھر میں نہیں تھا سواٸے ایک میرے سب سے چھوٹے بھاٸی کی جن کی عمر دو ڈھاٸی سال کی تھی تو کہا اسی کو لے او، اور اُس کو گھر سے لایا گیا اور باچا خان نے اُن کو گود میں بٹھایا اور کہا بس میرا میزبان مجھے مل گیا ہے میں اگیا ہوں، مولانا صاحب کو اطلاع کردینا کہ میں اگیا ہوں ۔
اب یہ وہ یادیں ہیں جو ہماری زندگی کا متاع ہیں، میری سیاسی زندگی کا اثاثہ ہے، اور میں آج بھی میرے دل سے ولی خان کے لیے دعا نکلتی ہے جب میں اُن کے گھر گیا اور ہم ایم ار ڈی میں تھے مارشل لاء کے خلاف تحریک تھی، تو میں اُن کے ساتھ بیٹھا تو مجھے کہا کہ بیٹا فضل الرحمن میں نے بھی جوانی میں سیاست شروع کی تھی آپ ہی کے عمر میں تھا جب میں نے سیاست شروع کی اور جوانی میں ادمی جذباتی ہوتا ہے اور جذبات میں جب مقصد حاصل نہیں ہوتا، منزل نہیں ملتی تو ادمی مایوس ہوجاتا ہے، تو تیرے اوپر بھی ایسے مراحل اٸیں گے خبردار مایوس نہیں ہونا، اگے بڑھنا ہے، بخدا بہت سے مراحل میرے پاس اٸے لیکن یہ بات اُس وقت مجھے سہارا دے گٸی اور آج تک میں اُس سہارے کو استعمال کرتا ہوں ۔
تو یہ وہ علاقہ اور تعلق ہے اور اسی پر میں اُن کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور عقیدت کے پھول اُن کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، بڑا اچھا کیا آپ نے کہ مجھے بھی یہ سعادت بخشی اور باچا خان اور ولی خان کو یاد کرنے کے لیے اسی اجتماع کی وساطت سے مجھے کچھ وقت مل گیا، اللّٰہ تعالیٰ اُن کے قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرماٸے، اُن کے خدمات کو اللّٰہ قبول فرمائے اور انسان ہیں اللّٰہ اُن کی خطاوں سے درگذر فرمائے، ہم سب کو اللّٰہ تعالیٰ اُن کی قربانیوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments