خطبہ مسنونہ کے بعد
اِن مسابقات کے کنوینر عالی قدر حضرت قاری احمد تھانوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ، وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم، سٹیج پر موجود اکابر علماٸے کرام، مشاٸخ عظام، طلباء عزیز، برخورداران ملت، خدام قرآن، میرے بھاٸیوں، میری بہنوں اور بیٹیوں قرآن کریم کی نسبت سے اِس عظیم الشان اجتماع پر اور مسابقات کے تمام مراحل کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچنے پر میں وفاق المدارس کو اور اِس کے تمام ذمہ داران کو دل کی گہراٸیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، اللّٰہ تعالیٰ اِس محنت کو قبول فرماٸے ۔
جناب رسول اللّٰہﷺ کا ارشاد ہے فرمایا کہ جو لوگ اللّٰہ کے گھر میں اکھٹے ہو جاٸیں اور اللّٰہ کی کتاب کو پڑھیں اور ایک دوسرے کو سمجھاٸیں تو اللّٰہ تعالیٰ اُس اجتماع اور اُس میں شریک ہونے والوں پر نقد کچھ انعامات نازل فرماتے ہیں، پہلا انعام یہ کہ اُس اجتماع میں شریک ہونے والوں پر سکینہ نازل کرتے ہیں سکینہ، سکون، تسکین یہ ضد ہے اضطراب اور پراگندگی کے، اور علماء فرماتے ہیں کہ سکینہ دل کی اُس کیفیت کا نام ہے جس وقت اُس پر انوار کا نزول ہورہا ہوتا ہے اور اُس مجلس اور اُس میں شریک ہونے والوں کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے، اللّٰہ تعالیٰ اُن کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لیتا ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ ایسے مجالس پر ملاٸکہ رشک کرتے ہیں، اور جب اللّٰہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کا فیصلہ کیا اور روٸے زمین پر اُس کی خلافت کا اعلان کیا تو ملاٸکہ نے اُس وقت کہا کہ آپ ایک ایسی مخلوق کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں کہ جو روٸے زمین پر فساد مچاٸیں گے اور خون بہاٸیں گے اور اپنے بارے میں انہوں نے کہا کہ جب کہ ہم تو آپ کی تحمید و تقدیس کرتے ہیں، اب دونوں کردار سامنے اگٸے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل تھا، تو جب ایسی مجالس ہوتی ہیں تو ملاٸکہ کو اپنی وہ بات یاد اتی ہے کہ ہم نے انسان کے بارے میں کچھ اور سوچا تھا کہ اُس کو جس خمیر سے پیدا کیا گیا ہے اور اُس کے اندر جو عناصر شامل ہیں اُن عناصر کے اندر آگ بھی ہے یہ تو مشتعل ہوگا، یہ تو فساد مچاٸے گا، یہ تو خون بہاٸے گا اور ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ وہی انسان بیٹھ کر قرآن پڑھ رہا ہے، اللّٰہ کا ذکر کررہا ہے، اللّٰہ کا دین ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہیں، اللّٰہ کا کتاب ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہیں اور یہ اتنا عظیم الشان منظر ہوگا کہ زمین سے لے کر اسمانوں تک ملاٸکہ تہہ بہ تہہ اُس منظر کو دیکھ رہے ہوں گے اور رشک کریں گے کہ اِس انسان کے بارے میں ہم نے کیا کہہ دیا تھا ۔
آج جو علماٸے کرام مدارس دینیہ میں علم دے رہے ہیں اور علم کے بعد اُس علم پر عمل سکھانے کا طریقہ بتاتے ہیں، ایک ہے تعلیم اور ایک ہے تربیت، جناب رسول اللّٰہﷺ کی ایک حیثیت معلم کی تھی جیسا کہ فرماتے ہیں کہ ” میں استاد بناکر بھیجا گیا ہو “ اور دوسری حیثیت آپ نے فرمایا کہ ” میں بلند اخلاق اور اعلیٰ تربیت دینے کے لیے بھیجا گیا ہو“ ۔
تو ایسی مجلس کو اللّٰہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور ملاٸکہ اُس مجلس کو گھیر لیتے ہیں، اُس کے اوپر رشک کرتے ہیں اور اپنی مجلس میں اللّٰہ اُس میں شریک ہونے والوں کو یاد کرتے ہیں، ہم جیسے بے کار قسم کے لوگوں کو بلکہ غریب اور پسماندہ لوگوں کو، یہ ہمارے لیے کتنا بڑا اعزاز ہوتا ہے، اُس کے اوپر ہم فخر کرتے ہیں، تو جن لوگوں کو اللّٰہ کی مجلس میں یاد کیا جاٸے گا وہاں اپنے ماحول میں جن کو یاد کرے گا اُس سے بڑا عظمت والا کون ہوسکتا ہے اور اِس سے بڑھ کر اِس پر فخر کرنے والا کون ہوسکتا ہے، سو اگر آپ آج اِس مجلس میں شرکت پر ناز کرتے ہیں تو بجا کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہﷺ نے آپ جیسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے ۔
تو میرے محترم دوستو! اب یہی قرآن ہے، یہی کتاب ہے اِس پر عمل کروگے تو اسی سے انسانیت اوپر بھی جاتی ہے اور اسی سے انسانیت نیچے بھی اتی ہے، معیار قرآن کریم ٹہرایا گیا ہے، قرآن پر عمل کروگے اور یا نہیں کروگے تو دونوں پہلووں کا جاٸزہ لینا چاہیے کہ عمل کرنے کا انجام کیا ہے اور عمل نہ کرنے کا انجام کیا ہے، جس نے اِس کی قدر و قیمت کو پہچانا، اُس نے اِس کو سینے سے لگایا، اُس نے اِس کو اپنے دل کا نور بنایا، اپنے انکھوں کی روشنی بنایا اور اسی پر ہدایت حاصل کی اور راستہ بنایا اور راستہ بھی کہاں کا جنت کا، ”قرآنی ایت“ اور ایک دوسرے سے اگے بڑھو بخشش کے لیے اپنے رب کی طرف سے، رحمت کے لیے ایک دوسرے سے اگے بڑھو تاکہ جنت حاصل کرسکو، وہ جنت کہ جس کی چوڑاٸی سارے آسمان اور زمین صرف چوڑاٸی، اسی لیے یہ مسابقے ہیں ۔
تو کامیابی کا واحد راستہ یہی ہے کہ دنیوی زندگی کھیتی ہے کھیتی میں محنت کروگے تو پھر کچھ ملے گا نا اور آخرت کماٸی کا، اب اگر مدارس یہ کام کرے لوگوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرے، قرآنی علوم کی طرف متوجہ کرے، جناب رسول اللّٰہﷺ قرآن کریم کی تشریح ہے، صحابہ کرام رضوان اللّٰہ اجمعین کی جماعت اُس قرآن پر عمل کرنے کا ایک نمونہ ہے انسانیت کے سامنے، کیسا معلّم اللّٰہ نے انسانيت کو عطا کیا، دشمن بھی آج تک چودہ سو سال ہوگٸے آپ کے کردار پر انگلی نہیں رکھ سکتا لیکن جو آنکھوں کے اندھے ہیں اور دل کے بھی اندھے ہیں اُن کا کیا کرے، لیکن میں اِس پہلووں پہ بات کرنا چاہتا ہوں ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم رمضان شریف میں نازل ہوا، بلکل ٹھیک ہے بلکہ باقی کتب بھی رمضان شریف میں نازل ہوٸے اِس مہینے کو بہت بڑی منزلت حاصل ہے اور ہم پاکستانيوں کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان بھی رمضان شریف میں بنا، اب آپ مجھے بتائيں کہ قرآن بھی رمضان میں اور قیام پاکستان کی نسبت بھی رمضان کو، تو پھر قرآن کا جو حق پاکستان پر ہے وہ شاٸد کسی اور پہ نہیں، اور جو پچھتر سال سے ہم اِس قرآن کا حق ادا کررہے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہیں، تو پھر نتيجہ کیا ہوگا ”قرآنی ایت“ اور اپنی بری معیشت پر پھر روتے ہو، پھر یہ تو ہوگا، ”قرآنی ایت“ اللّٰہ تعالیٰ ایک ایسی آبادی کی مثال پیش کرتا ہے جہاں امن بھی تھا اور اطمینان بھی تھا اور پھر اُس امن اور اطمينان کی ایک علت بھی بیان کردیتا ہے کہ معیشت بھی خوشحال تھی، ہر طرف سے رزق کی فراوانی تھی لیکن انہوں نے قدر نہیں کی، نافرمانیاں شروع کردی، جب نافرمانیاں شروع کردی تو ”قرآنی ایت“ معاشی تنگی بھی مسلط کردی، بھوک اور پیاس بھی اور خوف بھی اور بدامنی بھی، اپنی بدامنیوں کا اندازہ لگاٸیں ایک دن بلوچستان میں حادثہ ہوتا ہے بیالیس آدمی شہید، اگلے دن ایک دینی مدرسے میں حادثہ ہوتا ہے اور آج پشاور میں جو ہوا، ہماری پوری ہمدردی اُن کے اور اُن کے پورے خاندانوں کے ساتھ ہے، اللّٰہ تعالیٰ اُن کے لواحقين کو صبر جمیل عطا فرمائیں، جو اِن حادثات کا نشانہ ہوٸے ہیں اللّٰہ اُن کی مغفرت نصیب فرماٸیں، مسلمان تھے اور ہم پر وہ مغفرت کی دعاٶں کا حق رکھتے ہیں، آپ ہی کے ساتھی تھے، قرآن پڑھنے والے تھے چھوٹے بچے تھے ۔
ہم بدامنیوں کا شکار ہورہے ہیں، مہنگائی ہیں روز ہم رو رہے ہیں، قیمتیں بڑھ گٸی ہیں اور بڑھ رہی ہیں، حکومت ناکام ہے، گالیاں دے رہے ہیں لیکن اپنے اعمال کی طرف کسی نے توجہ نہیں کرنی، من حیث القوم بات کررہا ہوں، افراد کی بات نہیں کررہا اور جہاں من حیث القوم اِس طرح کا کردار اپناٸیں گے تو پھر حکمران بھی ناکام ہوجاتے ہیں ۔
لیکن بہرحال ہمارے دینی مدارس نے علم کو تقسیم نہیں کیا، واضح کہہ دینا چاہتا ہوں، علم کو انگریز نے تقسیم کیا ہے، علی گڑھ کا مدرسہ قاٸم ہوا تو نصاب انگریز نے دیا، آج بھی کوٸی عالم دین علی گڑھ مدرسے سے اختلاف نہیں کررہا اتنا کہتا ہے کہ برصغیر میں قرآن کا علم تھا وہ نصاب میں کیوں نہیں، برصغیر میں حدیث کا علم تھا وہ نصاب میں کیوں نہیں، برصغیر میں فقہ کا علم تھا وہ نصاب میں کیوں نہیں، برصغیر کی سرکاری زبان فارسی تھی تم نے اُس کو کیوں نکالا اور دیوبند کا مدرسہ قاٸم ہوگیا پھر اور مدارس قاٸم ہوگٸے، آج سب سے زیادہ تنقید مدارس پر ہوتی ہے، بچوں کو ضائع کررہے ہو، اِن کو مدارس کے اندر پڑھنے والے نوجوانوں کی معیشت کا احساس نہیں ہے، بھٸی تمہارے کالجز یونیورسٹیوں میں جو گریجویٹ بن رہے ہیں، بڑے بڑے اسناد حاصل کررہے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں ڈگریاں اپنی بغل میں لیے قطار در قطار کھڑے تم اُن کو روزی مہیا نہیں کرسکتے، معیشت مہیا نہیں کرسکتے اور میری فکر آپ کو لگ گٸی اُن کو تو پہلے پورا کرو، لیکن میں واضح الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں جتنا بھی کوٸی خوبصورت الفاظ کے ساتھ کوٸی مقدمہ پیش کرے، کوٸی مٶقف پیش کرے آج کی بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ، امریکہ، مغربی دنیا وہ دینی مدارس کا خاتمہ چاہتی ہے اور ہم اِس وطن عزیز میں اُن کے ایجنڈے پر عمل درامد کرنا چاہتے ہیں، بس یہی کچھ ہے لیکن ان شاء اللّٰہ اِن کا یہ خواب پورا نہیں ہوگا، کبھی پورا نہیں ہوگا ان شاء اللّٰہ ۔
مدارس ایک حقیقت ہے، اُمت نے قبول کیا ہے، جس چیز کو اُمت قبول کرے بخدا یہ ہوسکتا ہے کہ سرکار کے انتظام کے تحت قاٸم مدارس، مکاتب، سکول وہ شاٸد کہی پر ابھی بھی نہ ہو اور لوگ مطالبہ کرے کہ ہمارے ہاں پراٸمری سکول کھول دو لیکن ایسی جگہ آپ کو کہیں بھی نہیں ملے گی جہاں قرآن و حدیث کے لیے کوٸی مکتب موجود نہ ہو، الف ب پڑھنے کے لیے بچوں کا مکتب نہ ہو، اللّٰہ نے ایسی قبولیت عطا کی، اور ہم نے کب کہا کہ آپ نصاب کو تقسیم کریں حضرت شیخ الہند رحمہ اللّٰہ مالٹا سے واپس اٸے اور اپنے زندگی کے وہی چند مہینے سال بھی پورا نہ کرسکے اسی میں علی گڑھ گٸے اور کہا نصاب ایک کرے، انہوں نے پذیرائی نہیں دی، شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللّٰہ انہوں نے مشترک نصاب بناکر ہند و ستان میں مشتہر کیا لیکن پذیرائی نہیں ملی، پاکستان قاٸم ہوا حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللّٰہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے والد گرامی سن 47 سے لے کر سن 51 تک انتظار کرتے رہے اور زور ڈالتے رہے کہ مشترک نصاب، یہاں کہ بیوروکریسی نے قبول نہیں کیا، یہاں کہ اسٹبلشمنٹ نے قبول نہیں کیا، پھر ہمارے خلاف تقریریں کہ تم لوگوں کی صلاحيتيں برباد کررہے ہو، آو آج بھی ہم اِس بات کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ کہ ہم نے تمہیں کچھ مدرسے حوالہ کیے تھے اُس کا جو انجام ہم نے دیکھا پچھتر سال کے بعد بھی ہم تم پر اعتبار کریں کہ تم دینی مدرسہ اور دینی علوم کی حفاظت کروگے، اور خان عبدالغفار خان کا ایک مدرسہ اتمانزٸی میں وہ ہمارے حوالے ہوا آج وہ اپنے علاقے کا سب سے بڑا مدرسہ دارلعلوم ہے، ہم نے اُس کی حفاظت کی ہے اور ٹھیک ٹھاک کی ہے، اُس کو برباد نہیں ہونے دیا، ہم کسی کے خدمات کو ضائع نہیں کرتے، اُس کی قدر کرتے ہیں ۔
اب میرے محترم دوستو! اُس کے باوجود بھی تنگ نظر آپ کو کہا جاتا ہے مولوی صاحب بڑا تنگ نظر ہے بلکہ مولوی صاحب سے پہلے مسلمان بڑا تنگ نظر ہے، یورپ بڑا وسیع النظر ہے، یورپ میں آزادی ہے، مسلمانوں میں تو تنگی اور قید ہے، کیوں جھوٹ بولتے ہو دیکھو سیدھی سادھی بات ہے ہم یہو دیوں سے بھی کہنا چاہتے ہیں، مسیحیوں سے بھی کہنا چاہتے ہیں دنیا کے عیساٸیوں سے بھی کہنا چاہتے ہیں کہ یہو دیوں کا ایمان اگر تورات پر ہے اور یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا پیغمبر مانتے ہیں ہم بھی اُن پر ایمان لاتے ہیں، ہم تورات پر بھی اور موسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان لاتے ہیں، نصاری سے کہنا چاہتے ہیں کہ اگر تمہارے نزدیک انجیل مقدس وہ اللّٰہ کی کتاب ہے، اللّٰہ کی طرف سے ہے ہم بھی اُس پر ایمان لاتے ہیں، اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کے پیغمبر ہیں ہم بھی اُس پر ایمان لاتے ہیں، لیکن انبیاء کا سلسلہ جب حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر مکمل ہوتا ہے اور کتابوں کا سلسلہ قرآن کریم پر مکمل ہوتا ہے تو آپ ہمارا انکار کرتے ہیں ہم آپ کا انکار نہیں کرتے، سو ہم اقرار کرتے ہیں اقرار کرنے والا وسیع النظر ہوتا ہے اور تم انکار کرنے والے ہو تو انکار کرنے والا تنگ نظر ہوا کرتا ہے ۔
تو یہ ہے قرآن کریم کی وہ وسعت، اسلام کی وسعت، اُس کا اعتدال اور انسانيت کے لیے اُس کی تربیت کا نظام، یہ فاصلے کس نے پیدا کیے ہیں، اِن فاصلوں کا ذمہ دار کون ہے، اور میری تو عادت ہے جمعیت علماء اسلام ملک کی سیاست کا ایک حصہ ہے لیکن ہم حکومت کے خلاف ہو یا حکومت کے اندر ہو دینی علوم، مدارس اور قرآن و سنت کے قانون کے لیے ہماری خدمات رہتی ہے حکومت میں رہ کر بھی اختلاف کرتے ہیں اگر معاملہ گڑبڑ ہو تو، حکومت کی وجہ سے مٶقف تبدیل نہیں کرتے اور ہمارے یہ سارے اکابر گواہ ہیں اپنا مقدمہ ہر جگہ لے جاتے ہیں اور دلائل سے پیش کرتے ہیں کوٸی اشتعال میں ہم نہیں اتے، جھگڑا ہم نہیں کرتے، لیکن اِس چیز کو ہم لاتے ہیں، اور یہ مغرب اتنا تنگ نظر یہ جو قرآن کو جلاتے ہیں تو یہ لوگ غیض و غضب میں اکر اِس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں، مسلمانوں کو کیا اشتعال دیں گے تم خود اشتعال میں یہ کررہے ہو، تم ہمیں کیا وسیع النظری کا درس دوگے تم اپنے تنگ نظری کا مظاہرہ کررہے ہو، تم ہمیں کیا شاٸستگی بتاوگے تم اپنی غلاظت اور خباثت کا مظاہرہ کررہے ہو ۔
ایسی کوٸی بات نہیں، ہم مقابلہ کریں گے اور اسلام قاٸم ہونے کے لیے ہے حق ہمیشہ رہنے کا نام ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ کے لیے مٹنے کا نام ہے سو تم ہمیشہ کے لیے مٹنے والے ہو اور ہم ہمیشہ کے لیے قاٸم رہنے والے ہیں ان شاء اللّٰہ العزیز ۔
تو میرے محترم دوستو! اِن باتوں کو مدنظر رکھیں اور مدارس کے طلباء پھر یہ معصوم بچے انہوں نے قرآن یاد کیا، انگریز نے بھی ایسا کیا کہ سب سے بڑا مسٸلہ یہ ہے کہ اِن کے بیچ ایک کتاب ہے وہ کتاب اصل مسٸلہ ہے اُس کے نسخے اکھٹے کیے اور اُس کو آگ لگاٸی اور ہمارے اکابر نے دو بچے اگے کیے جنہوں نے بسم اللّٰہ سے والناس تک پورا قرآن سنایا اور کہا کہ اِن کے سینوں سے کیسے نکالوگے، تو ہم اِن چیزوں سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں اپنا منہ کالا کررہے ہو اور اِس قسم کی حرکتوں سے مسلمان نہ مرعوب ہوتے ہیں نہ ہی اسلام کا مشن رکتا ہے وہ اگے بڑھتا رہتا ہے ۔
تو یہ وہ حقائق ہے جن کی بنیاد پہ ان شاء اللہ العزیز ہم نے اگے بڑھنا ہے اور یہ جمعیت مدارس کی، طلباء کی، علماء کی ان شاء اللہ العزیز نظم کے ساتھ اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اگے بڑھے گا، اللّٰہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اِس کے خادم بنے اور اِس سلسلے کو اگے بڑھاٸیں اور جنہوں نے کامیابی حاصل کی ہے چاہے وہ ڈویژن لیول پر ہے چاہے صوبے لیول پر ہے چاہے یہاں مرکزی لیول پر ہے میں کامیاب طلباء اور پوزیشن لینے والے طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اُن کے والدین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اُن کے مدارس اور اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور میری خوش قسمتی ہے کہ جو پہلے نمبر پر ایا ہے وہ ایسے مدرسے کا بچہ ہے کہ جس کا مہتمم صاحب جو ہے وہ میرا کلاس فیلو ہے تو اِس وجہ سے یہ میری بھی خوش قسمتی ہے کہ میرے دوست کا ایک برخوردار آج وہ پہلے نمبر پر پورے ملک میں ارہا ہے، اللّٰہ تعالیٰ قبولیت فرماٸے ۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں