اسلام آباد: قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا میڈیا سے گفتگو تحریری صورت میں 17 مارچ 2023


اسلام آباد: قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا میڈیا سے گفتگو تحریری صورت میں

 17 مارچ 2023


ذمہ داران تشریف فرما ہیں، میں آپ تمام حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں اور آج کی اِس مجلس کا فاٸدہ اٹھاتے ہوٸے کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا ۔

آپ سب جانتے ہیں اور بار بار ہمارے اِس مٶقف کا اعادہ ہوا ہے کہ عمران خان باقاعدہ برطانیہ کے اندر کنزرویٹیو فرینڈز آف اسرا ٸیل کا حامی رہا ہے، اُن کے الیکشن کمپین میں بنفس نفیس وہاں گیا، وہاں پر نیو کوون کے نام سے ایک تنظیم ہے یعنی نیو کنزرویٹیوز، اور وہاں پر جو کانگریس میں کمیٹی ہے اسرا ٸیل فرینڈز کمیٹی اُس کا بھی وہ چیٸرمین ہے براڈ شرمین، جو باقاعدہ اسرا ٸیل کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف اور یہاں تک کے پاکستان کے اندر علیحدگی پسند تنظیموں کا حامی ہے اور ایک انتہائی پسندانہ اور متشددانہ سوچ رکھتا ہے ہر چند کے وہ ڈیمو کریٹس کا رکن ہے، چاٸنہ کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی بات کرتا ہے، پاکستانی مٶقف کے بلکل برعکس نیوکورا کارا باغ کو ارمینیا کا حصہ سمجھتا ہے اور الجزیرا چینل پر پابندی کا مطالبہ کررہا ہے صرف اِس بات پر کہ وہ حماس کی حمایت کرتا ہے، تو اِس حد تک یہود یوں کا ایک نمائندہ اور آج وہ عمران خان کی حمایت میں رطب للسان ہے، اُن کے ساتھ ٹیلیفون پہ رابطے کررہا ہے، اب یہ عنصر اگر اِس وقت میدان میں اترا ہے اور پھر اِس کے علاوہ زلمے خلیل زاد جس کا نام یہاں ہر کوٸی جانتا ہے ہر چند کے وہ ا ف غ ا ن نژاد ہے لیکن وہ سی اٸی کا رکن ہے اُس کا ایجنٹ ہے اُس کا ملازم ہے اور اُس کی اہلیہ یہو دٸی المذہب ہے اور اِس وقت وہ ایک اعلی منصب پر اُن کے لیے کام کررہی ہے، انہوں نے گزشتہ چند مہینوں کے اندر خفیہ دورہ کرکے عمران خان سے ملاقات کی ہے اور دو تین گھنٹے کی تفصیلی ملاقات کے بعد وہ واپس گیا ہے اور ابھی پرسوں ترسوں انہوں نے باقاعدہ عمران خان کی حق میں ٹویٹ کیا ہے، یہ امریکہ کے اندر سے اِس لیول کے لوگوں کی اُن کو ایک سپورٹ کی خبریں اِس وقت جو تازہ ترین سامنے ارہی ہے ۔

اسی طریقے سے ایک سخت گیر قسم کا برطانوی یہو دی ہے، گریک مرے سابق سفیر بھی رہا ہے، انسانی حقوق کی تنظیم بھی چلاتا ہے لیکن یہ اسلام کے مقدسات اور مقدس شخصیات کے کارٹون بنانے کا حامی بھی ہے، اتنا اسلام دشمن اور رسول اللّٰہﷺ کے خاکے بنانے والوں کی حمایت میں سب سے فرنٹ مین یہ آج عمران خان کے حق میں بیانات دے رہا ہے ۔

اسی طریقے سے بڑے گول مول کرکے وہ اپنے نظریے کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم پاکستان میں سب لوگوں کو قانون کے برابر سمجھتے ہیں اِس میں وہ قادیا نیوں کو بھی سب کے برابر سمجھنے کی بات کرتا ہے لیکن اُس کو چھپانے کے لیے وہ یہ جملہ استعمال کرتا ہے ۔

بنیادی چیز یہ ہے کہ اِس میں کوٸی شک نہیں کہ ریاست کے اندر کسی بھی مذہب سے وابستہ کوٸی بھی شہری قانون کی نظر میں یکساں ہیں لیکن اُس کے اساس کیا ہو، اُس کے اساس یہ ہو کہ وہ پاکستان کے آٸین کو تسلیم کرے کیوں کہ آٸین وہ چیز ہے جس کی وساطت سے ریاست تسلیم کی جاتی ہیں، یہی جھگڑا ہے کہ قادیا نی جو ہے وہ ریاست کو تسلیم نہیں کررہا، اُس کے آٸین کو تسلیم نہیں کررہا لیکن اصف محمود قادیا نی کہ جو لاس اینجلس کے ایک الیکشن میں کھڑا ہوا اور یہی عمران خان تھا جس نے اُس کی حمایت کی اور بھرپور طور پر کی، کوٸی اُس کو احساس نہیں ہوا کہ میں مسلمانوں کی جذبات سے کھیل رہا ہوں اور بڑے فلسفیانہ انداز سے وہ بات کرتا ہے ۔

اِس کے علاوہ آج ایک بیان چل رہا ہے جارج گلبے کا، وہ اپنے بیان میں کہہ رہا ہے کہ ایک قانونی وزیراعظم کے گھر پر حملہ کیا گیا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو وہ شاٸد سلاخوں سے واپس زندہ نہ اسکے، اور سب سے خطرناک بات جو اُس نے کی ہے وہ یہ کہ عمران خان سے اِس لیے ڈر رہے ہیں کہ اگر وہ حکومت میں اتے ہیں تو وہ آٸین کو تبدیل کردے گا اور پاکستانی آٸین کو تبدیل کرنا، اُس کے اسلامی حیثیت کو ختم کرنا، اُس کے اسلامی دفعات کو ختم کرنا، یہ سارا ایک بین الاقوامی ایجنڈہ ہے جس پر ہم ہمیشہ سے کہتے ارہے ہیں کہ عمران خان اُس بین الاقوامی ایجنڈے کا نمائندہ ہے آج اُس کے زبان سے خود یہ بات نکلی ہے، کہتا ہے کہ آٸین کو تبدیل ہونا چاہیے یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو اب نہیں چھوڑا جارہا ۔

جس وقت شہباز شریف، نواز شریف اور اُن کی بیٹی اور اُن کا خاندان وہ بھی تو ملک کے وزیراعظم رہ چکے تھے، وہ بھی تو صوبوں کے وزراء اعلی رہ چکے تھے، اُس وقت جب وہ جیلوں میں تھے اور یہ اُن کے خلاف کارواٸی کررہا تھا اُس وقت اِں کے انسانی حقوق کہاں چلے گیے تھے، اُس وقت اُن شخصیتوں کے بارے میں انہوں نے آواز کیوں نہیں کی، آج وہ یہ باتیں کررہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں عمران خان کس کا ایجنٹ ہے اور اُس کے پشت پر کون سی قوتیں ہیں ۔

تو یہ ایک بڑا حساس صورتحال سامنے ارہی ہے، ایک کرسٹینا لیم جس کو پاکستان مخالف اقدامات اور حرکتوں کی وجہ سے پاکستان کے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا آج وہ کس ایجنڈے پر عمران خان کے حق میں بیان دے رہی ہے، ساری وہ چیزیں ہیں وہ شخصیتیں ہیں جو بڑے ٹاپ لیول کے متعارف شخصیتیں ہیں امریکہ کی مغرب کی، اور اِس وقت اُن کو عمران خان یاد ارہا ہے جب ہماری کورٹ کہتی ہے کہ اُس کو گرفتار کرکے پیش کیا جاٸے، کبھی کہتے ہیں جیل بھرو کبھی جیل بچو، کہاں گیا جیل بھرو کا وہ جذبہ، کہاں گٸی اُس کی وہ جرات، اور اب غریب کارکنوں کو ڈھال بناکر اپنی ذاتی تحفظ کے لیے استعمال کررہا ہے، یہ جیلیں ہم پر بھی گزری ہے، پاکستان کے ہر سیاستدان پہ گزری ہے، اور آپ نے دیکھا کہتے ہیں نواز شریف ملک سے بھاگ گیا بھٸی نواز شریف تو پیشی کے لیے وہاں سے ایا اُس نے اٸیرپورٹ پر گرفتاری دی ہے، وہ کیوں یاد نہیں کررہے ، اگر وہ گیا ہے تم نے اُس کو بھیجا ہے، کیوں بھیجا ہے ۔

اب بنیادی بات یہ ہے کہ اِس ساری صورتحال میں ایک شخص نے وہاں لاہور میں ایک نوگو ایریا بنادیا ہے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، کس قانون کے تحت اُس کو اِس بات کی اجازت دی جارہی ہے کہ وہ اپنے گھر کو اور اردگرد کے علاقے کو ایک جنگ گاہ بنائے، ریاست کے خلاف وہ ہتھیار اٹھاٸیں، ہمارے انصا ر الاسلام صرف خاکی یا پیلے کپڑے پہن لیتی ہے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ڈنڈا اُن کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہاں پر تو یہ کہتی ہے کہ اِن پر پابندی لگادینی چاہیے اور آج اپنے ٹاٸیگرز بندوق اٹھاکر، پتھر اٹھاکر اور پولیس کو پٹرول بم مار رہے ہیں، تو مشرف کے زمانے میں کون سا آرڈر تھا جب اُس نے لال مسجد پر حملہ کیا تھا، سپریم کورٹ کا کون سا آرڈر تھا جب اُس نے بگٹی صاحب پہ حملہ کیا، آج اُن کو یہ یاد ارہے ہیں ۔

تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو اِس وقت ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عدالتوں کا جو رویہ ہے اُس پر قوم اعتماد نہیں کررہی، وہ جانبدارانہ ہے، وہ ایک مجرم کو تحفظ دینے کے مرتکب ہورہے ہیں اور پبلک میں یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے، نہ وہ کسی عدالت میں پیش ہورہا ہے نہ وہ کسی وارنٹ کو خاطر میں لارہا ہے، نہ وہ قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو خاطر میں لارہا ہے، اُن کا مذاق اڑا رہا ہے، اُن پر حملے کررہے ہیں، جتھے لے کر عدالتوں میں پیش ہونے کے نام پر عدالتوں پر حملے کررہے ہیں، اور جو آج کی عدالتی کارواٸی ہوٸی ہے کیا سمجھا جاٸے کہ کیا پولیس پر حملہ کرنا اور پٹرول پھینکنا قانونی تھا، اُن کو کیوں تحفظ دیا جارہا ہے، کیوں دنیا یہ سمجھتی ہے کہ عدالت واحد وہ ادارہ رہ گیا ہے جو اُس خلاف آٸین خلاف قانون تحفظ دے رہا ہے، جج بھی اِس ملک کے شہری ہیں ہم بھی اِس ملک کے شہری ہیں، تھوڑا بہت اچھے برے کو ہم بھی جانتے ہیں، اور پھر عجیب سی صورتحال یہ ہے سپریم کورٹ، ایک بڑا تاثر پیدا کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کے حوالے سے فیصلہ دے دیا ہے اور پھر تین اور دو کا فیصلہ، اِس فیصلے میں ججوں کے آراء کے اختلاف کا ذکر تو ہے لیکن آرڈر آف دی کورٹ موجود نہیں ہے، جب آرڈر آف دی کورٹ ہی موجود نہیں ہے تو اِس کو عدالت کا فیصلہ کیسے کہا جاٸے، جب کہ اُس کی تشریح وزیر قانون کرتا ہے کہ نہیں چار اور تین کا فیصلہ ہے کیوں کہ اُس میں صرف اختلاف راٸے کا تذکرہ ہے آرڈر آف دی کورٹ موجود نہیں ہے اور اگر ریویو کیا جاٸے تو کس چیز کے خلاف کیا جاٸے، تو یہ ہمارے آٸینی ماہرین کی بڑی جچی تلی راٸے ہے اور اِس کو ایڈجسٹ ہونا چاہیے ۔

نو رکنی بنچ کے تشکیل کے بعد دو ججوں نے تو اعتراضات کردیے اور کہا کہ ہم اِس میں نہیں بیٹھ رہے پھر اُس کے بعد بنچ کی تبدیلی کا نیا آرڈر انا چاہیے نا، کہ نو رکنی نہیں اب سات رکنی، سات رکنی نہیں اب تین رکنی، تو کورٹ کی بنچ کی نٸی فارمیشن کا آرڈر کدھر ہے، کس طرح اِس کو بنچ کہا جاسکتا ہے جب کے اُس کے حوالے سے باضابطہ احکامات ہی نہیں ہے، کیا کھلواڑ اِس قوم کے ساتھ اِس ملک کے ساتھ کیا جارہا ہے اور ساری باتیں صرف عمران خان کے لیے کی جارہی ہے ۔

میں نے پہلے بھی ایک پریس کانفرنس میں اپنے جماعت کا مٶقف واضح کیا تھا کہ جمعیت علماٸے اسلام ایک جمہوری جماعت ہے وہ نہ الیکشن سے بھاگتی ہے نہ عبوری حکومتوں کو طول دینے کا اُس کا کوٸی ارادہ ہے لیکن ہمیں زمینی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، اسلام اباد، لاہور اور بنگلوں میں بیٹھے ہوٸے اور محفوظ ماحول میں بیٹھے ہوٸے اُن کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے لوگ کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، جن علاقوں کا انضمام کیا گیا ہے وہاں تو انتخابی ماحول ہی نہیں ہے، ابھی تک مردم شماری ہورہی ہے، اب جب مردم شماری ہورہی ہے اور آپ اپریل میں پرانی مردم شماری پہ ایک الیکشن کریں گے اور تین مہینے بعد نٸی مردم شماری پر کریں گے اور اگر اِس دوران ضمنی الیکشن اگیا تو کس بنیاد پر ہوگا، پچھلی والی پر ہوگا یا نٸی والی پر ہوگا، وہ نٸے والے کے لیے حلقہ کدھر ہوگا وہ حلقے تبدیل ہوچکے ہوں گے، کچھ سمجھ میں نہیں ارہا کہ ہمارے لوگ کس جذبے اور کس احساس کے ساتھ سوچ رہے ہیں ۔

تو یہ ساری صورتحال ہم کیسے بھلا سکتے ہی، مردم شماری درمیان میں چل رہی ہے، امن و امان کی صورتحال ہے، میں اپنے علاقے کو جانتا ہوں میں شاٸد اپنے حلقے میں انتخابی کمپین نہ چلا سکوں، آپ سب دوست بھی اُس علاقے سے ہیں کس طریقے سے ہم اِن حالات میں انتخابی کمپین چلاٸیں گے کیوں ہمارے عدالتوں کو اِس بات کا احساس نہیں ہے، انتخاب ضروری ہیں لیکن کیا اُس سے پہلے ریاست ضروری نہیں ہے، اور پھر جب کام ہورہا ہے امن و امان کی قیام کے لیے ریاستی ادارے کام کررہی ہے اِس دوران میں اُن کے کام کو ڈسٹرب کرنا وہ نہ آپ کا ساتھ دے سکیں گے، نہ اُدھر سے پیچھے ہٹ سکیں گے، وہ لوگ کدھر جاٸیں گے، تو یہ پوری ریاستی اداروں کو معطل کرنا، اپاہج کرنا اور ڈبل ماٸنڈڈ اُن کو بنانا کہ ایک طرف رخ کرکے وہ کچھ کر بھی نہ سکے یہ وہ ساری چیزیں ہیں کہ جس کی بنیاد پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے اِن زمینی حقائق کو تو دیکھ لے، پاکستان جب سے بنا ہے یہ ہمارے ہاں ایک ساٸیکل رہا ہے کہ پورے ملک کا الیکشن ایک جگہ پر ہوتا ہے ، یہ ملک کے الیکشن کو صوبوں کی سطح پر تقسیم کرنے کی سازش کہاں ہوٸی ہے اور اُن کو ہمارے ادارے سپورٹ کیسے کررہے ہیں کہ جی آٸین کا تقاضا ہے، آٸین کا تقاضا نوے دن کے لیے ہے تو مشرف کے لیے نوے دن کیوں نہیں تھا اُس کے لیے تین سال کیوں تھا، کس بنیاد پر ۔

تو یہ ساری وہ صورتحال ہے کس طریقے سے امریکہ، یہو دی لابی، اُن کی بڑی اہم شخصیتیں وہ اِس وقت عمران خان کے لیے متحرک ہیں اور ہمارا جو مٶقف ہے کہ یہ غیر ملکی ایجنٹ ہے، یہو دی ایجنٹ ہے، پاکستان کے خلاف اُس کا ایجنڈہ ہے، پاکستان کے آٸین کے خلاف اُس کا ایجنڈہ ہے، پاکستان کے نظریہ کے خلاف اُس کا ایجنڈہ ہے، کس طرح ملک کو تباہ کرنے کی اجازت دی جاٸے، ہم تو اِس سوچ اور اِس نظریے کے خلاف جہا د لڑرہے ہیں، اِس کے خلاف ہم میدان جنگ میں ہے اور پاکستان کو بچاٸیں گے، ملک کو ان شاء اللہ العزیز اِس قسم کے سازشوں سے، اِس قسم کے نظریے سے، اِس قسم کی سوچ سے بچاٸیں گے، یہ غلامانہ سوچ ہے امریکہ کے خلاف نکل اٸے، میں امریکہ سے آزادی چاہتا ہوں، سارے امریکہ والے آج اِس کی حمایت کررہے ہیں، قوم کے سامنے ڈرامے مچاتے ہو، صبح ایک بیان شام کو دوسرا بیان، تو اِن چیزوں سے سیاست نہیں چلتی، اِس حوالے سے ہم بڑی واضح مٶقف رکھتے ہیں، ہمارے ہاں کوٸی جھجک نہیں ہے، ہم بلکل مطمئن ہے، اپنے مٶقف پر مطمئن ہے اور جس محاذ پر ہم جنگ لڑرہے ہیں وہ کوٸی جہا د سے کم نہیں، ہم اپنے دین کی بھی حفاظت کررہے ہیں، اپنے آٸین کی بھی حفاظت کے لیے یہ جنگ لڑرہے ہیں، اپنے وطن اور ریاست کی حفاظت کی بھی جنگ لڑرہے ہیں ۔

اللّٰہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، آپ سب کا بہت بہت شکریہ، بڑی مہربانی جی

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات

#teamjuiswat

1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں