قائد جمعیت علماء اسلام پاکستان و سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی میں منعقدہ آئین پاکستان کے گولڈن جوبلی کی تقریب سے خطاب تحریری صورت میں 10 مئی 2023


 قائد جمعیت علماء اسلام پاکستان و سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی میں منعقدہ آئین پاکستان کے گولڈن جوبلی کی تقریب سے خطاب    

10 مئی 2023

خطبہ مسنونہ کے بعد

میں سب سے پہلے اپنے معزز مہمانان گرامی جو بیرونی ملک دوست ممالک سے یہاں پاکستان تشریف لاٸے ہوٸے ہیں اور آج جب پوری قوم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اٸین کی گولڈن جوبلی منا رہی ہے وہ ہماری اِن تقریبات میں ہمارے ساتھ شرکت کررہے ہیں ہمیں اُن کی شرکت پر فخر ہے اور ہم دل کی گہرائیوں سے اپنے اُن تمام معزز مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔


اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں ہماری پارليمنٹ کو مجلس شوریٰ سے تعبیر کیا گیا ہے، شوریٰ ایک قرانی اصطلاح ہے اور قوم کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارليمان اسے ہمارے اٸین نے لفظ شوریٰ سے یاد کیا ہے، وحی کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور قیامت تک کے لیے بند ہے لیکن شوریٰ کا دروازہ کھلا ہے اور قیامت تک کے لیے کھلا ہے، قوموں نے اپنے اجتماعی معاملات میں، مملکتی امور میں صاحب الراٸے لوگوں پر مشتمل ادارہ قاٸم کیا ہے اور وہ ایک بااختیار ادارہ ہے، جناب رسول اللّٰہﷺ ایسے تمام معاملات جس کا قران و سنت میں کوٸی واضح قسم کے ہدایات موجود نہ ہوتی تھی تو پھر فقہاء و عابدین کو اکھٹا کرتے تھے، اُن سے راٸے لیتے تھے اور اُن کی راٸے کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، غزوہ احد کے موقع پر جب صحابہ کرام کو مشکل کا سامنا ہوا اور فتح بظاہر شکست میں تبدیل نظر اٸی، ستر سے زیادہ صحابہ کرام اور جلیل القدر صحابہ کرام شہید ہوٸے، ظاہر ہے کہ رسول اللّٰہﷺ پر اُس کے اثرات تو ہوں گے، باوجود اُس کرب کے باوجود اُس ناگواری کے اللّٰہ رب العزت نے آپ سے صحابہ کرام کی سفارش کی، قرآنی ایت، یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ آپ جیسی قیادت اپنے لوگوں کے لیے نرم طبع ثابت ہوٸی ہے اگر آپ سخت طبع ہوتے تو لوگ آپ سے کیسے استفادہ کرتے، آپ کے نور سے کیسے منور ہوتے، آپ کی تعلیمات سے کیسے اراستہ ہوتے، اُن پر تو آپ کا رعب ہوتا، دبدبہ ہوتا، وہ آپ کی مجلس میں انے میں دقت محسوس کرتے، تو آپ کو اُن کے لیے نرم خو پیدا کیا گیا، اگر کوٸی کوتاہی ہو بھی گٸی ہے اجتہادی طور پر، تب آپ اُن کو معاف کرتے، ممکن ہے اللّٰہ سے بخشش مانگے اور اِن سے مشورے کے عمل ترک نہ کرے، اُن کے ساتھ مشورے کا عمل جاری رکھے، اور جب آپ کسی فیصلے پر پہنچ گٸے اور عزم کیا اب اللّٰہ پہ توکل کر، حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ آپ سے پوچھا گیا یارسول اللّٰہ عزم کس کو کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا ”مشاورت اہل العلم اتباع“ اہل علم لوگوں سے مشورہ کرنا اور پھر جب فیصلہ ہو جاٸے پھر اُس کی تابعداری کرنا، اسی طریقے سے حضرت علیؓ ہی کی روایت ہے جب آپ سے پوچھا گیا یارسول اللّٰہ اگر ہم قران و سنت میں کچھ نہ پاٸے تو ایسی صورت میں کوٸی مسٸلہ درپیش ہو جاٸے تو ہم کیا کریں گے آپ نے فرمایا فقہاء اور عابدین کو اکھٹا کرو اُن سے مشورہ کرو اور کسی ایک شخص کی راٸے پر مت چلا کرو اُس پر حکم نہ دیا کرو، لفظ فقیہ استعمال ہوا ہے اور لفظ عابد استعمال ہوا ہے یعنی وہ سمجھدار بھی ہو اور صاحب الراٸے ہو اور پھر اللّٰہ کی بندگی بھی کرتا ہو ۔


اِس تصور کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پارليمان کو مجلس شوریٰ قرار دیا گیا ہے، دنیا کے تمام دساتیر میں اداروں کے اندر تقسیم کار کا نظام موجود ہے، پاکستان کا اٸین بھی اداروں کے اندر اختیارات کی تقسیم کرتا ہے، بنیادی طور پر ہم نے اداروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے مقننہ، عدلیہ اور انتظاميہ، ہر ایک کا اپنا ایک داٸرہ کار ہے، ہر ایک کا اپنا ایک داٸرہ اختیار ہے، پارلیمان قانون بناتا ہے، قانون میں ترميم کرتا ہے، اٸین میں ترميم کرتا ہے، اب ظاہر ہے کہ اٸین اور قانون جب پارليمنٹ کی تخلیق ہے تو اٸین اور قانون بنانے والا ادارہ سمجھ میں اتا ہے کہ وہ پھر سب سے زیادہ طاقتور ہوگا، ہمارے ہاں اختیارات کے مسٸلے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے ہمارے ادارے اپنے داٸرہ اختیار سے باہر دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کے پارليمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کی جاتی ہے اور یہی دراصل ہمارے ہاں آج جو مشکلات ہیں، ملک کو جو مشکلات ہیں، عدم استحکام اتا ہے تو اُس عدم استحکام کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اٸین کے اِس بنیادی اصول کا احترام نہیں کیا کہ اگر احترام ہو تو یقیناً ملک ایک صحیح رخ پر اگے بڑھے گا اور ترقی کی راہ لے گا ۔

اگر اٸین کا کوٸی ارٹیکل، کوٸی قانون، قانون کا کوٸی شق اگر مبہم ہے تو ایسی صورت میں ہم ضرور عدليہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عدليہ اُس کی تشریح کرتی ہے لیکن ہم جب اپنی ماضی پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں قانون اور اٸین کے مبہم حصوں کی تشریح کم نظر اتی ہے اور اپنی مفہوم میں بڑی واضح شقیں اور اٸین کے ارٹیکلز اُس حوالے سے ہماری عدليہ جو چاہے اُس کی تشریح کردیتی ہے آج تک جو میں سمجھا ہوں اِس پارليمان سے وہ یہی ہے کہ اگر ایک مبہم شق بھی عدالت میں جاٸے گی تو عدالت کا کام نہیں کہ وہاں سے قانون جاری کرے بلکہ اگر ابہام ہے تو اُس کی نشاندہی کرکے پارليمان کے پاس بھیجے کہ آپ یہاں یہاں پر چیزیں مبہم ہیں اِس کو قانون سازی کے ذریعے واضح کردے ۔

اِس طرح کی بے جا اور بے محل تشریحات نے مارشلاوں کو جواز فراہم کیا ہے، ذرا اٸین کی رو سے پارليمنٹ کی موجودگی میں کسی مارشل لاء کا کیا تصور کیا جاسکتا ہے اتنے واضح اٸین کے باوجود ہماری عدلیہ کی طرف سے ہی مارشلاوں کو نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جواز فراہم کیا گیا ہے، یہ ہماری تاریخ کا المیہ ہے۔

اِس حوالے سے اٸین پورے ملک، ملک کے اندر تمام صوبوں کے رہنے والے لوگ، ہر صوبے میں رہنے والے لوگوں کی اپنی اپنی قومیت یہ اِن سب کے درمیان ایک میثاق ملّی ہے، پاکستان کے ساتھ پاکستان کے ہر شہری کی جو کمٹمنٹ ہے وہ اِس اٸین کی وساطت سے ہے اگر اٸین بیچ میں نہ رہا تو کوٸی شخص ایک دوسرے کے لیے پابند نہیں ہے، ضروری ہے کہ اِس اٸین کو تحفظ دیا جاٸے، ضروری ہے کہ اِس اٸین کے ساتھ کھلواڑ بند کردیا جاٸے، ہمیں من حیث القوم اِس میثاق ملّی کو رہنما سمجھتے ہوٸے اگے بڑھنے چاہیے ۔

قومیں ترقی کررہی ہیں، اقتصادی طور پر مضبوط اور مستحکم ہورہی ہیں، نٸی نٸی ایجادات میں اگے بڑھ رہی ہیں، ساٸنسی ترقی ہورہی ہے، ستاروں پہ کھمنڈ ڈالے جارہے ہیں، فضاٶں کو مسخر کیا جارہا ہے، زمین کی تہہ تک پہنچا جاتا ہے اور انسانيت کے فاٸدے کے لیے وہاں سے اللّٰہ کی دی ہوٸی ذخائر قوموں کے مفاد میں استعمال ہوتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ آج بھی ہمارے ہاں ہمارا نظام بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں ہے، سیاسی طور پر ہمارا دعوی ہے کہ ہماری پارليمنٹ خودمختار ہے، ہماری پارليمنٹ قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے لیکن اگر عالمی ادارہ، اقوام متحدہ اُس کی جنرل اسمبلی ، اُس کی سلامتی کونسل، انسانی حقوق کے ادارے اپنے فورم پر فیصلہ دے دیں وہ ہمارے ملک میں موثر ہوگا اور اُس کے مقابلے میں ہمارے ملک کا اپنا اٸین اور ہمارے ملک کا اپنا قانون غیر موثر ہو جاتا ہے، اِس کے لیے طاقتور ملک بننے کی ضرورت ہے سیاست ہو، حکومت ہو، مملکت ہو اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو طاقتور بن کر چلنا ہے کمزور ملک ہمیشہ غلام ہوا کرتا ہے وہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر اگے نہیں بڑھ سکتا ۔

اقتصادی لحاظ سے ہمارے فیصلے ایف اے ٹی ایف کرتا ہے، ہمارے فیصلے اٸی ایم ایف کرتا ہے ہماری معشیت ہمارے قرضے ورلڈ بینک، ایشین بینک، پیرس گروپ، لندن گروپ اِن پر ہمارا انحصار ہوتا ہے کہی سے کوٸی قرضہ ملے گا کہی سے کوٸی بھیک ملے گی تو ہم اپنے ملک کو چلاٸیں گے میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی لحاظ سے بھی بین الاقوامی ادارے ہمیں کنٹرول کررہے ہیں اور ہمیں اپنے اداروں پر کوٸی اختیار نہیں ہے، آج ہم اپنا بجٹ خود بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔


مجھے اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اٸین سے ماورا قانون سازی ہوتی ہے ہمارے پارليمنٹ پہ دباؤ ایا، ہمارے حکومت پہ دباؤ ایا، ہم نے ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پہ یہاں قانون سازی کی جمعیت علماء اُس کا حصہ نہیں بنی، ہم نے اٸی ایم ایف کے دباؤ پہ یہاں قانون سازی کی جمعیت علماء اُس کا حصہ نہیں بنی، ریکوڈکٹ کے حوالے کے قانون سازی ہوٸی میرا خیال یہ ہے کہ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو دی ہوٸی اختیار اُس پر کلہاڑا مارا لیکن الحَمْدُ ِلله ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہے صوبے کے حق پر سودا کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

ہمیں یہ بات بھی واضح کرنی چاہیے کہ ہمارا اٸین کچھ بنیادیں رکھتا ہے، اُس کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے جس کی وضاحت اٸین بھی کرتا ہے اور جس پر پارليمنٹ بھی اپنا اتفاق راٸے ظاہر کرچکی ہے ہمیں اُس حوالے سے بھی سوچنا چاہیے، ہمارے اٸین کا سب سے بنیادی ستون وہ اسلام ہے اور اٸین کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللّٰہ رب العالمین کی ہوگی اور اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، قرآن و سنت کے منافی کوٸی قانون سازی نہیں ہوگی اور قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہوگی یہ ہمارا اٸین کہتا ہے، دوسرا ستون اُس کا جمہوریت ہے کہ فیصلے انتخاب عوام کی راٸے سے ہوگا اور عوام کی منتخب نمائندے حکومت بھی بناٸیں گے اور قانون سازی بھی کریں گے، تیسرا ستون اِس ملک کا پارلیمانی نظام ہے، پارليمانی نظام کا معنیٰ پارلیمانی نظام کے علاوہ صدارتی نظام ہو یا کوٸی اور ہو وہ پاکستان میں نہیں چلے گا، اٸین کی رو سے پاکستان پارلیمان کے ذریعے سے چلایا جاٸے گا اور یہ بھی کہ پاکستان کا ایک وفاقی نظام ہوگا، ایک وفاق کی تحت وحدتیں ہوگی جنہیں ہم صوبہ کہتے ہیں اور صوبوں کے اپنے اختیارات ہونے چاہیے، 1973 کے اٸین میں صوبوں کو جو اختیارات دیے گٸے تھے اُس کو مکمل کرنے کے لیے ایک محدود وقت دیا گیا لیکن اُس محدود وقت میں وہ اختیارات نہیں مل سکے بالاخر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سے وہ اختیارات دیے گٸے تاہم ابھی کچھ کام باقی ہے لیکن اب تو اٹھارویں ترمیم سے بھی واپس ہم سے اختیارات وصول کرنے کے جگت ہورہے تھے جسے الحَمْدُ ِلله ہم نے ناکام بنایا ۔

میں سوچتا ہوں اٸین کے تقاضوں کو پورا کیا جاٸے اگر صوبوں کو حقوق نہیں دیے گٸے اُس میں تاخیر کی گٸی یہ بھی اٸین کے تقاضے کی نفی کی گٸی، جو نقصان ہوا صوبوں میں اضطراب بڑھتا چلا گیا، چھوٹے صوبے محکومیت اور محرومیت کے نعرے لگانے لگے ہمیں اِس حوالے سے بھی دیکھنا ہوگا کہ 1973 میں بنایا گیا یہ اٸین اور اسی وقت اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام اور آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کے تمام سفارشات قرآن و سنت کے مطابق موجود غیر متنازعہ اور اتفاق راٸے کے ساتھ لیکن سن 73 سے لے کر اب تک ایک قانون سازی بھی اُن سفارشات کے بنیاد پر نہیں ہوسکی، تو ظاہر ہے جب مایوسیاں بڑھے گی اور لوگ جمہوریت کا راستہ چھوڑیں گے اور احتجاج کی طرف جاٸیں گے اور کفر کہیں گے اور بندوق اور اسلحے کی طرف جاٸیں گے جو پاکستان کے علماٸے کرام، مذہبی طبقے، تمام مکاتب فکر پاکستان کے ساتھ کمٹٹڈ ہے، اٸین کے ساتھ کمٹٹڈ ہے، جمہوریت کے ساتھ کمٹٹڈ ہے کیا اِس روش سے ہمارے لیے جمہوریت کا مقدمہ کمزور نہیں ہو جاتا، ہم جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں ہم اُس کا استحکام چاہتے ہیں، ہم جمہوری ماحول اندر ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں لیکن ہمارے لیے مقدمہ لڑنا مشکل ہو جاتا ہے محض کسی کو کہنا کہ تم دہش ت گرد ہو، واجب القتل ہو جو بھی آپ سے ہو وہ فتوے جاری کردیتا ہے، مسٸلے کا حل کیا ہے، کیا جنگ مسائل کا حل ہے، کبھی بھی جنگ مسٸلے کا حل نہیں پارلیمنٹ اور جمہوریت اسی لیے ہوتی ہے کہ ہم باہم مل کر بڑے اچھے ماحول میں اِس ملک کے اندر وہ اصلاحات کرے کہ جہاں ہر شہری کو اطمینان و سکون حاصل ہو اور اُس کی تشنگی سیراب ہوسکے ۔


سو اِس حوالے سے ہمیں اِس کو ہر لحاظ سے دیکھنا ہوگا، ہم نے صوبوں کو کیسے مطمئن کرنا ہے، ہم نے وفاق کو کیسے مستحکم کرنا ہے اور اگر ہم نے داخلی طور پر امن حاصل کرنا ہے تو داخلی امن کا تعلق بھی معاشی خوشحالی کے ساتھ ہے، اگر ہم نے کامیاب خارجہ پالیسی بنانی ہے تو دنیا کے مفادات کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے کے لیے بھی داخلی معاشی استحکام کی ضرورت ہے، اِس لیے ہم نے تجویز کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کی بجاٸے نیشنل اکنامک ایکشن پلان پہ کام کیا جاٸے، ہماری سوچ مثبت ہے اور ہم اِس مثبت سوچ کے ساتھ تمام دوستوں کو لے کر اگے چلنا چاہتے ہیں، ایک مضبوط قسم کی جمہوریت ہونی چاہیے، دھاندلیوں والی جمہوریت ہمیں نہیں چاہیے، دھاندلیوں کے ذریعے نااہل دنیا قوم پر مسلط ہو جاتی ہے، ووٹ تو بیعت ہے، میں بیعت کسی اور کے ہاتھ میں کرتا ہوں نتیجہ نکلتا ہے تو پرچے میں کسی اور کے ہاتھ پر بیعت ہو چکا ہوتا ہے، یہ الٹی گنگا ہے اور میں معروضی صورتحال پر آج زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا یہاں پر باہر کے مہمان بھی بیٹھے ہوٸے ہیں لیکن ایک بات اخر میں ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جو واقعات کل سے رونما ہورہے ہیں اور ہم اُن کا مشاہدہ کررہے ہیں اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ اِن لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کا کوٸی فاٸدہ نہیں یہ عقل و شعور اور جمہوری رویوں سے ناواقف لوگ ہیں اور آج شاٸد سب اِس کا اعتراف کررہے ہیں، ہمیں ایک مثبت سوچ کے ساتھ ملک کو ترقی کے طرف اگے لے جانا چاہیے اور اب جو گفتگو آپ حضرات کے ساتھ اٸندہ ہوگی اور ہمارے انتہائی قابل اور اہم ماہرین آپ سے گفتگو کریں گے ایک سال میں کیا پیش رفت ہوٸی ہے یقیناً وہ ہمارے مہمانوں کو بھی اور ہمارے نوجوانوں کو بھی اِس حوالے سے بتاسکیں گے کہ ہم نے کتنی پیش رفت کی ہے اور کتنا اگے بڑھے ہیں اور ہمیں مضبوطی کے ساتھ مذید اگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ اِس ملک کو مستحکم اور پاٸیدار بنایا جاسکے ۔

پاکستان زندہ باد اسلام پاٸندہ باد

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات

#teamjuiswat


0/Post a Comment/Comments