قائد جمعیت علماء اسلام پاکستان و سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو 12 مئی 2023


قائد جمعیت علماء اسلام پاکستان و سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو  
12 مئی 2023 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم 
آج کے اجلاس میں پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس میں شرکت کی، میاں نواز شریف صاحب اور مریم نواز شریف صاحبہ زوم پر اجلاس میں شریک رہے، صورتحال اس وقت یہ ہے کہ ہماری سپریم کورٹ جرم کے خاتمے کی بجائے جرم کو تحفظ دے رہے ہیں، مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے مجرم کو تحفظ دے رہے ہیں، اس وقت جب انہیں گرفتار کیا گیا عمران خان کو، تو 60 ارب کے غبن کے کیس میں اس کو گرفتار کیا گیا، سپریم کورٹ نے اس حوالے سے جو ان کو سہولتیں مہیا کی، سپریم کورٹ نے غبن کو تحفظ دیا، غبن اور غبن کرنے والے کی حوصلہ افزائی کی اور آج ہائی کورٹ نے بھی جو فیصلے دیے ہیں کہ 9 مئی کے بعد جو واقعات ہوئے ہیں اس حوالے سے درج کسی مقدمے پر کاروائی نہ کی جائے، عمران خان کے خلاف کسی بھی مقدمے میں ان کو گرفتار نہ کیا جائے، یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی مقدمے کا ان کو علم بھی نہ ہو تب بھی اس مقدمے میں ان کو گرفتار نہیں کیا جائے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہماری عدلیہ کہاں کھڑی ہے اور کس طرح وہ آئین اور قانون سے ماورا فیصلے دے رہی ہے، کیا یہ رعایت تین دفعہ ملک کا وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف صاحب کو دی گئی؟ جب ان کو اطلاع ملی تھی کہ ان کی اہلیہ آئی سی یو میں چلی گئی تو انہوں نے منت سماجت کی کہ مجھے ان کی خیریت تک پوچھنے دیجئے، ان کو ٹیلی فون تک مہیا نہیں کیا گیا اور جب وہ واپس اپنے سیل میں گئے، تین گھنٹے کے بعد ان کو بتایا گیا کہ آپ کی اہلیہ فوت ہو گئی، کیا اس قسم کی کوئی رعایت مریم نواز شریف کو دی گئی؟ کیا ایسی کوئی رعایت فریال تالپور کو دی گئی؟ آج جس طرح ان کو پروٹوکول دیا جا رہے ہیں، وی وی آئی پی پروٹوکول، اور پورے ملک میں غنڈہ گردی ہو رہی ہے، دہشت گردی ہو رہی ہے اور عدالت اس دہشت گردی کو تحفظ دے رہے ہیں، آرمی چیف کے ہیڈ کوارٹر پہ حملہ ہو رہا ہے، کور کمانڈر کے گھر پہ حملہ ہو رہا ہے، جہاں چوراہوں کے اوپر سرزمین وطن کے لیے قربانی دینے والوں کے یادگاروں کو اکھیڑا جا رہا ہے، ریاست کے محافظ اداروں کی جس طرح توہین و تذلیل کی جا رہی ہے، عدالت ان کے تحفظ کے لیے ہے! آج ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب سپریم کورٹ کے رویے کے خلاف احتجاج ہوگا، میں پی ڈی ایم کی قیادت کی نمائندگی کرتے ہوئے پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں، آج جمعہ کا دن ہے، کل ہفتہ ہے، پرسوں اتوار اور اس کے فوراً بعد سوموار کے دن پوری قوم اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جائے، سپریم کورٹ کے سامنے بہت بڑا دھرنا دیا جائے گا، زبردست احتجاج کیا جائے گا اور ان کو بتایا جائے گا کہ سپریم کورٹ مدر آف دی لاء ہے مدر ان لاء نہیں ہے۔
 آسمان سے یہ اترے ہوئے نہیں، ہماری طرح کے گوشت پوشت کے انسان ہیں، آئین سے اس حد تک ماورا جائیں گے کہ وہ پارلیمنٹ کو بھی سپریم نہیں سمجھیں گے! آسان طریقہ یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے کو نااہل قرار دو۔ ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب سن لیجئے ہم تین دو کا فیصلہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، ہمارے نزدیک چار تین کا فیصلہ کورٹ کا فیصلہ ہے، قانون بن جانے کے بعد اب آپ اکیلے از خود نوٹس نہیں لے سکتے کسی مسئلے کی، تو آج کا متفقہ اعلان سوموار کے روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے آگے ملک بھر کا عوام اور ہمارے پارٹی کے ایک ایک کارکن گھر سے نکلے گا، کوئی یہ نہیں سوچے گا کہ میرا فلانا کام ہے میں اس کے لیے رک رہا ہوں، اس کو سب کچھ چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف آنا ہوگا اور سپریم کورٹ کے آگے پرامن احتجاج دینا ہوگا۔
  صحافی کو جواب: نہیں پرامن ہوگا، احتجاج ہوگا اور ہماری تو آپ نے تاریخ دیکھی ہے، ہم یہاں اسلام آباد آئے ہیں، آپ کے آنکھوں کے سامنے 15 دن ہم رہے ہیں، اتنا بڑا ہجوم یہاں رہا لیکن آپ نے دیکھا کہ ہم نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کسی نے ہماری طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا، کسی نے ہم پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی تو ڈنڈے سے بھی جواب دیا جائے گا، روڑے سے بھی جواب دیا جائے گا، مکے سے بھی جواب دیا جائے گا اور تھپڑ سے بھی جواب دے گا۔
 صحافی کو جواب: میں حکومت کی بات نہیں کر رہا ہوں، پی ڈی ایم کی بات کر رہا ہوں، پی ڈی ایم حکومت کا حصہ ہے حکومت نہیں، پی ڈی ایم ایک سیاسی قوت ہے، پی ڈی ایم ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے، میں نے پی ڈی ایم کے فیصلے سے آپ کو آگاہ کر دیا ہے، اگر ارام سے گھی ڈبے سے باہر نہیں نکلے گا تو پھر ٹیڑھی انگلی سے اس کو نکالنا پڑیگا۔
صحافی کو جواب: دیکھیے اگر کوئی فوج کے اندر، اس کا کوئی ریٹائرڈ جنرل اس وقت بھی عمران خان کو سپورٹ کرنے کے لیے لابی کر رہا ہے، تو ادارہ موجود ہے ادارہ اس کا خود احتساب کریں لیکن ہم اداروں سے اختلاف کیے بھی ہیں ہم نے لیکن اس کی بھی حدود ہوتے ہیں اور اگر کسی نے بھی توڑ پھوڑ کی اس کا معنی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی کوئی شرپسند ہمارے صفوں میں داخل ہوئے ہیں، اسی وقت کو پکڑا جائے گا۔ 
صحافی کو جواب: یہ مسئلہ اب ہمارا نہیں ہے ہم اس سے آگے نکل چکے ہیں۔
صحافی کو جواب: حضرت ملک کے معیشت ہو، ملک کے اخلاق ہو، ملک کے قانون ہو، ملک کا آئین ہو سب کچھ عمران خان کے لیے داؤ پہ لگایا گیا ہے، آج 
صرف حکومت اپنا فرق پورا نہیں کرنا، پاکستان کے ایک ایک شہری نے اس ملک کے آئین کے تحفظ کے لیے، جمہوریت کے تحفظ کے لیے، اداروں کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔
صحافی کو جواب: پارلیمنٹ میں بھی پارلیمنٹ کی قراردادیں موجود بھی ہیں، پارلیمنٹ کی قراردادیں موجود بھی ہیں اور پارلیمنٹ آگے بھی اپنے اقدامات کریں گے۔
صحافی کو جواب: حضرت بات یہ ہے کہ یہ احتمالات ہیں، میں جو بات کر رہا ہوں یقین کی بنیاد پر کر رہا ہوں، احتمال سے میرے یقین کی باتوں کو مت اڑائیں۔ 
صحافی کو جواب: وہ تو بتا دیا ہے نا، جو کریں گے تو جواب دیں گے، ڈنڈے سے بات کرو گے تو ڈنڈے سے جواب دیں گے، مکے سے بات کرو گے تو مکے سے جواب دیں گے، روڑے سے بات کرو گے تو روڑے سے جواب دیں گے، ایسا جواب دیں گے کہ پھر چھٹی کا دودھ یاد دلایا جائے گا۔
صحافی کو جواب: میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ اس کے لیے دہشت گردی کا لفظ نا کافی ہے، یہ بغاوت اور غداری کے زمرے میں آتا ہے لیکن ظاہر ہے اس کی جو اپنے ادارے موجود ہیں۔ 
صحافی کو جواب: الیکشن کا معاملہ الگ ہے، وہ الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے، جو دہشت گردی ظاہر ہے کہ جو جو حملے کیے گئے ہیں، جو دہشتگردی کی گئی ہے، جو غنڈہ گردی کی گئی ہے، جو ریاست پہ حملے ہوئے ہیں، یہ اگر طا لبان کرے تو پھر غداری، اگر کوئی ایک تنظیم کرے تو بین اور صرف ایک پارٹی کو اجازت ہے وہ جس کے ساتھ جو کھلواڑ کرے! بہت شکریہ جی۔

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat

 


0/Post a Comment/Comments