لاہور :قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ایاز صادق کی رہائشگاہ پر میڈیا سے گفتگو
05 جون 2023
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
صادق ایاز صاحب ہمارے قابل احترام دوست بھی ہے کولیگ بھی ہے اُن کے بھاٸی کی وفات پر میں چوں کہ ملک سے باہر تھا تو واپسی پر میں نے سوچا کہ اُن کے گھر تعزیت کے لیے حاضر ہو جاؤں، اللّٰہ تعالیٰ اُن کی مغفرت نصیب فرمائے اور اُن کے درجات بلند فرمائے، تو میرے آنے کا مقصد تو بس اتنا ہی تھا آگے آپ جانے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آج کل جو سیاسی صورتحال ہے اُس پر خاص طور پر بین الاقوامی محاذ پر بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ سٹیٹ کے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع ہوگیا ہے، جوڈیشری جو ہے وہ فوٹیج اور ایوڈنس سب کچھ ہونے کے باوجود بری کرتی جارہی ہے تو ایسی صورتحال میں کس کے خلاف کارروائی ہوگی ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے اِس پر ہماری راٸے بڑی واضح ہے اور جوڈیشری نے جو جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا اُس پر ہم عوامی عدالت میں بھی گٸے، اسلام اباد میں پبلک بہت بڑی تعداد میں اٸی اور انہوں نے ملک میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے اپنے تشویش کا اظہار کیا اور اُس سے عدل و انصاف کے لیے کہا، جانبداری کا جو رویہ ہے اُس کو انہوں نے محسوس کیا ہے اور اُن کے خیرخواہ ہیں بدخواہ نہیں ہے، بہرحال ملک کا ادارہ ہے اگر اُن کے کارکردگی پر پبلک کو اعتراض ہوتا ہے تو جمہوریت میں یہی ہوتا ہے کہ عوام اپنی راٸے دیتے ہیں اور عوامی راٸے کا احترام کیا جاتا ہے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب گزشتہ سالوں میں ہم نے دیکھا کہ تحریک لبیک والوں نے مظاہرے کیے، جس میں اتنے پرتشدد واقعات ہوٸے کہ پولیس والے بھی جان بحق ہوگٸے، شہید ہوگٸے لیکن ریاست نے نہ یہ کہ اُن کو معاف کیا بلکہ جماعت پر جو پابندی لگی تھی وہ بھی ختم کردی، اب ایک سیاسی جماعت ہے جس کے کارکنوں کی طرف سے کچھ ایسے واقعات اٸے وہ واقعات ایسے ہیں کہ اُس پر ملٹری کورٹ میں کیس چل رہے ہیں کیا اُن کے لیے معافی کی کوٸی گنجائش ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے بنیادی بات یہ ہے کہ اُن کے جو مظاہرے تھے وہ سیاسی نوعیت کے تھے، قانون کے اندر تھے اور سڑکوں پہ تھے، انہوں نے ریاستی اداروں پر حملے نہیں کیے، جی ایچ کیو پر حملہ نہیں کیا، نہ کور کمانڈر پر حملہ کیا نہ قلعہ بالا حصار پر کیا، نہ کسی فوجی قلعے پہ کیا، تو ایسی کوٸی بات تو ہمیں اُس وقت نظر نہیں اٸی ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ پاکستان تحریک انصاف پر حکومت نے پابندی کی بھی بات کی لیکن بعض ن لیگی رہنما یہ بیان دے رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف پر بطور سیاسی جماعت پابندی نہیں لگنی چاہیے، تو اِس حوالے سے پی ڈی ایم کا کوٸی واضح موقف ہے کہ پابندی لگنی چاہیے یا ماٸنس عمران فارمولہ ہونا چاہیے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے میں ابھی سوال کا جواب مکمل نہیں کرچکا تھا امید کرتا ہوں آپ کے سوال کا جواب بھی اُس میں اجاٸے گا، اب سوال یہ ہے کہ انہوں نے تو ریاستی اداروں پہ حملے کیے ہیں جب آپ جی ایچ کیو پر حملہ کریں گے اور کور کمانڈر کے گھر جاٸیں گے، قلعہ بالا حصار پہ جاٸیں گے، آپ چکدرہ میں اُن کے قلعے پر حملہ کریں گے تو پھر آرمی ایکٹ حرکت میں اٸے گا، ظاہر ہے کہ وہ مستقل مدعی بن گٸے، لہذا اِس حوالے سے بلکل ایک نٸی صورتحال ہے جس کو ماضی کی کسی واقعے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، جلسے ہم نے بھی کیے ہیں اور جتنا بھی میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا نے عمران خان کے جلسوں کو پروجيکٹ کیا اُس وقت بھی ہمارے جلسوں کے مقابلے میں اُن کے جلسے جلسڑیان ہی تھیں، لیکن قانون کی کوٸی خلاف ورزی نہیں ہوٸی، ہم تو سپریم کورٹ کے سامنے گملوں، پھولوں اور کیاریوں کی بھی حفاظت کررہے تھے، تو اِس صورتحال میں اب آرمی ایکٹ ضرور حرکت میں ہے اور وہ بھی ایک ایکٹ ہے اور اُس کی قانون میں ایک حیثیت ہے اور پھر اُس کے خلاف اپیل بھی ہوسکتی ہے کوٸی ایسی بات نہیں کہ اپیل نہیں ہوسکتی، اب آپ بار بار معافی کا لفظ کیوں استعمال کررہے ہیں میں ایکٹ کی بات کررہا ہوں میں اُس کی کورٹ کی بات کررہا ہوں اور اُس حوالے سے وہ خود مدعی ہیں اور جو مدعی ہیں کبھی آپ اُن سے جاکر سوال کرے کہ آپ معاف کرتے ہیں یا نہیں ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب ایسا ہے کہ زرداری صاحب بھی مسلسل الیکشن پر زور دے رہے ہیں، پی ڈی ایم سربراہ کہ طور پر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن اِس سال ہونے چاہیے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: ہم نے ماضی میں جتنے بھی فیصلے کیں ہیں اختلاف راٸے کے باوجود ہم ایک اتفاق راٸے پر پہنچے ہیں اور ہم نے فیصلے کیں ہیں چاہے عدم اعتماد کا ہو، چاہے اب الیکشن کی بات ہو اُس پر متفقہ فیصلہ ہم کریں گے، ہم الیکشن کے لوگ ہیں ہم نے چودہ ملین مارچ کیں، ہم نے اسلام اباد میں آزادی مارچ کیا، لاکھوں لوگوں کے اجتماعات کیے الیکشن کا ہی مطالبہ تھا، ہم نے دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کو تسلیم نہیں کیا ہے ہم کسی بھی معاملے میں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کو معیار نہیں سمجھتے، لہذا اب نٸے الیکشن ہوں گے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی صورتحال کیا ہے، اِس ملک کی صورتحال کو ہم کیا نٸے ہنگاموں کے اور نٸے پریکٹیسز کے بھینٹ چڑھا دے یا یہ کہ کچھ ملک کو اپنے حالات پہ کھڑا کرکے چلاٸیں میں نے یہ کہا کہ اِس پر مشاورت ہوسکتی ہے، گفتگو کی جاسکتی ہے جو ملک کے لیے مفید ہوگا وہی فیصلہ کریں گے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب ملک کی جو معاشی حالات ہیں ملک میں مہنگائی ہے پی ڈی ایم اپنے ووٹرز کو اٹریکٹ کرسکے گی ؟ اِس کے ساتھ ایڈ کرے اگر الیکشن ہورہے ہیں تو ایک عام تاثر ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاٸے گی ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: میں بڑا کلیٸر کردوں کہ پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ہے اور انتخابی اتحاد میں زیادہ سے زیادہ ہم علاقائی سطح پر ڈسٹرکٹ لیول پر ایڈجسٹمنٹ کرسکتے ہیں تو ہمارا اتنا ایک تعلق ڈیولپ ہوا ہے کہ تمام صوبوں کے اندر انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہمارے لیے اسان ہوگی، تو اُس حوالے سے کوٸی ٹینشن نہیں ہے بہرحال ہر ایک پارٹی کا اپنا ایک منشور ہے اور اسی پر وہ چلتے ہیں، جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے پریشانی ہمیں یہی ہے اور میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ابھی ہماری حکومت نہیں اٸی تھی اور عمران خان کی حکومت تھی لیکن میں نے بڑے بڑے جلسوں میں یہ بات کہی کہ ملک کی معشیت اِس حد تک گرچکی ہے کہ نٸی حکومت جب اٸے گی تو اُس کو اٹھا نہیں سکے گی اور جب نٸی حکومت اٸی تو اُس پر میری تجاویز یہی تھی کہ ہمیں فورا الیکشن کی طرف جانا چاہیے لیکن جب سب دوستوں نے کہا نہیں اب ہم نے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں تو ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہیے، تو ان شاء اللہ پبلک بھی یہ بات سمجھ رہی ہے کہ ملک کو اِس دلدل کی طرف کس نے دھکیلا ہے اور اِس سے نکلنے میں کتنی دقت سامنے ارہی ہے وہ جو ہمارے اندازے تھے وہ صحیح ثابت ہورہے ہیں، ساری مشکلات انہی کی وجہ سے ہوٸیں دو ہزار اٹھارہ میں جو معشیت اوپر جارہی تھی اُس وقت جو گروتھ تھی اُس کے بعد جو وہ گری ہے تو اُس کو دوبارہ اٹھانا اور اب جو ایک امید کی صورتحال پیدا ہوگٸی ہے ملک کی معشیت کی بہتری کے لیے متبادل راستے پیدا ہورہے ہیں ۔
صحافی کا سوال: عمران خان پہلے مذاکرات کی بات نہیں کرتے تھے اب کہہ رہے ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، کمیٹی بھی بنائی ہے کیا سمجھتے ہیں آپ اُن سے مذاکرات کریں گے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: ہم پہلے بھی نہیں کررہے تھے اور اب بھی نہیں کررہے ہیں ۔
صحافی کا سوال: پی ٹی اٸی پر پابندی کی باتیں بھی ہورہی ہے، آپ بتائے آپ کی ذاتی راٸے کیا ہے پابندی لگنی چاہیے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: جی یہ فیصلے کورٹ نے کرنے ہے اور اگر کورٹ یہ سمجھتا ہے کہ اِس پر پابندی ہو جانی چاہیے تو خس کم جہاں پاک
صحافی کا سوال: مولانا صاحب ابھی آپ کی شہباز شریف صاحب سے ملاقات ہوٸی ہے پہلے نون لیگ کے اندر ایک مختلف بیانیہ سامنے ارہا تھا مریم نواز مذاکرات کی حامی نہیں تھی کیا شہباز شریف صاحب بھی اُسی موقف پر اچکے ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ کوٸی مذاکرات نہیں ہونے چاہیے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: جو میں کہہ رہا ہوں وہی پی ڈی ایم ہے ۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں