پشاور: مفتی محمود مرکز میں قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اجلاس کے بعد اہم پریس کانفرنس تحریری صورت میں 12 جون 2023


 پشاور: مفتی محمود مرکز میں قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اجلاس کے بعد اہم پریس کانفرنس  
 12 جون 2023

گزشتہ دو روز یہی مفتی محمود مرکز میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا دو روزہ اجلاس ہوا، اُس اجلاس میں ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر تفصيلی غور کیا گیا اور آپ کے لیے جو امانت اُس اجلاس کے حوالے سے میرے حوالے کی گٸی وہ میں آپ کے حوالے کررہا ہوں ۔
اِس میں کوٸی شک نہیں ہے کہ عمرانی حکومت نے ملکی معشیت کو جس بے رحمی کے ساتھ زمین بوس کیا میں یہ بات اُس زمانے میں بھی کہتا رہا ہوں اور آپ کی نوٹس میں ہے کہ ملکی معشیت اِس قدر گرچکی ہے کہ اُس کو اگلی حکومت اٹھاٸے گی کیسے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا، آج وہ ساری باتیں سامنے ارہی ہے ہر چند کے پاکستان اِس وقت معاشی بحران کے زد میں ہے اور اِں حالات میں جو بجٹ پیش کیا گیا ہے قومی بجٹ اُسے متوازن قرار دیا گیا ہے البتہ معشیت کی بحالی اور عام آدمی کو سہولت مہیا کرنے کی جدوجہد اُس میں جمعیت علماء اسلام اپنا ایک بھرپور کردار ادا کرتے رہے گی، حکومت کا حصہ ہوتے ہوٸے بھی ہمارا ہدف یہی ہوگا کہ ہم حکومت کی کاوشوں کی سمت اُس جانب موڑ دے جہاں جلد سے جلد عام آدمی کو ریلیف مہیا کیا جاسکے ۔

اجلاس میں نو مٸی کو ہونے والے واقعات اور ریاستی اداروں پر حملہ کرنے کے واقعات کو تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا جہاں شدید الفاظ میں ایسے واقعات کی مذمت کی گٸی ہے وہاں حکومت کو واضح طور پر یہ تجویز دی گٸی ہے کہ اِس طرح کے فتنے کی بیخ کنی ہونی چاہیے اور سخت سے سخت اقدامات اٹھانے چاہیے ۔

ہم دیکھ رہے ہیں ملکی سیاست سے وابستگی کی ہماری ایک طویل تاریخ ہے اور اپنے نظریاتی سفر کے اتار چڑھاو کو ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے، گزشتہ سالوں میں ایسا نظر ارہا ہے کہ دنیا میں جو پاکستان کا تعارف تھا ایک اسلامی پاکستان کے حوالے سے، ہمارے اُس تعارف اور شناخت کو تبدیل کردیا گیا ہے اور آج دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک سیکولر ریاست کا روپ دار چکا ہے جب کہ قیام پاکستان کا بنیادی مقصد اسلام کا عادلانہ نظام ہے، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی مجلس شوریٰ نے جماعت کے تمام کارکنوں کو ہدایت دی ہے کہ ملک کی اسلامی شناخت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے اپنے جدوجہد کو ازسر نو منظم کریں اور اسے انتخابی مہم کا حصہ بنائے، یہ ہماری زندگی کی بنیادی اہداف میں سے ہے، پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے، معشیت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے، اسلام کے زریں اصولوں پر عمل درامد کرتے ہوٸے انسانی حقوق کی تحفظ کے لیے ازسر نو باقاعدہ مہم کا آغاز کیا جاٸے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اعتدال پر مبنی رویوں کو فروغ دیا جاٸے ۔

جمعیت علماء اسلام کی نظر میں ہماری خارجہ پالیسی کا محور پاکستان کا مفاد ہونا چاہیے، کسی بھی ملک کے ساتھ باہمی تعلقات دوطرفہ مفادات کی تحفظ کی ضمانت پر مبنی خارجہ پالیسی تشکیل دی جاٸے، علاقائی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات، دوطرفہ مفادات کے تحفظ پر مبنی تعلقات یہ ہماری ترجیح ہے تاہم ہ ن د و ستان کے پڑوسی ممالک کے خلاف جارحانہ رویوں کو ناپسند کرتے ہیں ، اُن کی جارحانہ رویوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، کشمیر پر قبضہ عمران مودی کی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے، کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے لیے اقدامات کرنا یہ ایک جارحانہ عمل ہے، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے سن 49 کے قراردادوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے جمعیت علماء اسلام پاکستان کشمیری بھاٸیوں کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کرتی ہے ۔

مرکزی مجلس شوریٰ نے عام انتخابات کے لیے چاروں صوبائی جماعتوں کو تیاری کرنے کی ہدایت دے دی ہے، میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جمعیت علماء اسلام کا منتخب ڈھانچہ جس سطح کا بھی ہو جب چار سال پورے ہو جاتے ہیں تو پھر ہم پورے ملک میں رکن سازی کی مہم چلاتے ہیں، پرانے ساتھی اپنی رکنیت کی تجدید کرتے ہیں اور نٸے لوگوں کو رکنیت کی دعوت دی جاتی ہے سو یکم محرم الحرام بمطابق 1445 ھ انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے نٸی رکنیت سازی کا آغاز کیا جاٸے گا ۔

ہم پاکستان کے مختلف شعبوں میں چین کی سرمایہ کاری کے پیش کش کا خیر مقدم کرتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ ستر سال کے بعد سی پیک منصوبے کی صورت میں پاکستان چین دوستی ایک معاشی دوستی میں تبدیل ہوٸی، وہ دوستی جسے بحرالکاہل سے زیادہ گہری، شہد سے زیادہ میٹھی، ہمالیہ سے زیادہ اونچی اور لوہے سے زیادہ مضبوط قرار دیا جارہا تھا سی پیک منصوبے کو ایک بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت فریز کیا گیا اور امریکہ کے خارجہ تعلقات کے لیے محور بن گیا کہ اگر کوٸی سی پیک منصوبے کے حق میں ہے وہ امریکہ کا دشمن اور کوٸی اُس کے خلاف ہے تو امریکہ کا دوست، پاکستان میں عمران خان کی حکومت نے اِس منصوبے کو اپنی بنیادی ایجنڈے کا حصہ بناتے ہوٸے فریز کیا، ستر ارب سے زیادہ کی چین کی سرمایہ کاری کو ڈبویا، اُس کے اعتماد کو تباہ کیا، ضرورت ہے کہ چین کے ساتھ اعتماد کو بحال کیا جاٸے، اُس پر پیش رفت جاری ہے اور ان شاء اللّٰہ یہ اعتماد بحال ہوگا اور پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں اُس کو سرمایہ کاری کے لیے دعوت دی جاٸے گی، ظاہر ہے تب ہی ہوسکتا ہے عمران خان اپنے آپ کو صادق اور آمین کہتا ہے لیکن پاکستان کا کوٸی دوست ملک اگر دوبارہ اُس کو لانے کے امکانات ہوں گے تو پاکستان کو امداد دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس کو وہ چور کہتا ہے انہیں سارے دوست پیسے دینے کے لیے تیار ہیں یہ کیا الٹی گنگا ہے جو پاکستان میں بہاٸی جارہی ہے قوم کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔

کل پرسوں میں جو ہمارے صوبے میں بھی اور کچھ حصے پنجاب میں بھی ایک بہت ہی سخت طوفان ایا، بنوں لکی مروت اور کرک میں تو کافی جانی مالی نقصان بھی ہوٸے ہے، مالی نقصان تو لوگوں کا بہت زیادہ ہے اُس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا، قیمتی جانوں کی ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوٸے فاتحہ خوانی بھی کی گٸی اور ہم نے فوری طور پر مرکزی حکومت کو بھی اور صوبائی حکومت کو بھی یہ کہا ہے کہ بحالی کے لیے فوری اقدامات کرے اور وہاں کے جو ہمارے نمائندے ہیں وہ اِس وقت بھی عوام کے صفوں میں موجود ہے وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں اور نقصانات کا جاٸزہ لے رہے ہیں اور ان شاء اللہ متاثرہ علاقوں کو مکمل تعاون دینے کے لیے جمعیت علماء اسلام اپنا کردار ادا کرے گی ۔

جمعیت علماء اسلام کی مرکزی شوریٰ نے ترکی کے صدر طیب اردگان کی تیسری مرتبہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی ہے، اُن کی قیادت میں ترک قوم کی ترقی کا سفر جاری رہے گا، پاکستان اور عالم اسلام کے ساتھ ترکی کے تعلقات نٸے منازل طے کرے گی، اللّٰہ تعالیٰ ہمارے برادر اسلامی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے ہم اُن کے ساتھ انتہائی بہتر تعلقات کے حق میں ہے، پوری اسلامی دنیا کے باہمی تعلقات کو اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں، چین کی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران کی تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات ہوٸے ہیں ہم اُس کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں ، ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری اُس کا بھی ہم خیر مقدم کرتے ہیں اور پورے عالم اسلام کے ایک قوت بننے کے لیے ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے ۔

🌺 سوال و جواب 🌺

صحافی کا سوال: 
قاٸد جمعیت کا جواب: جی آپ کا یہ بڑا اچھا سوال ہے بنیادی طور پر پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جب الیکشن ہوتے ہے تو ہر پارٹی اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوٸے حکمت عملی وضع کرتی ہے، یقیناً تمام پارٹیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے رہے ہیں، ضمنی الیکشنز میں ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے تو علاقائی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا ماحول موجود رہے گا اور اُس حوالے سے میرا یہ خیال ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا ماحول بنا سکیں گے جب کہ اُصولی طور پر جمعیت علماء اسلام پورے ملک میں ہر سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا کرے گی تو جہاں جہاں پر ایڈجسٹمنٹ کی صورت بن سکے گی ہم ضرور بنائيں گے لیکن اپنے پلیٹ فارم سے 
ان شاء اللّٰہ ہم الیکشن لڑیں گے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب کیا آپ کو انتخابات دکھاٸی دے رہے ہیں یہ جو اکتوبر نومبر کا کہہ رہے ہیں، اِس کے ساتھ ساتھ تھوڑا اِس پہ بھی بتا دیجیے یہاں پر جو اتحادی پارٹیاں ہیں جن کے آپ سربراہ ہیں اُن کے جمعیت سے کوٸی گلے شکوے ہیں گورنر صاحب اور دیگر رہنماؤں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں تو کیا یہاں اِس حوالے سے اجلاس بلانے کا اور اُن کے گلے شکوے دور کرنے کا آپ کا کوٸی ارادہ ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے الیکشن تو آپ نے جیسے خود کہا جلد یا بادیر وہ تو ہوں گے ہی کیوں کہ آٸین کا تقاضہ ہے، آٸین کے تقاضے کے مطابق ملک میں الیکشن تو ہوں گے تو اِس حوالے سے تو کوٸی ابہام موجود نہیں ہے اور اگر الیکشن تاخیر سے ہوتے ہیں جو ہمارا آٸینی مدت ہے اُس سے اگے بڑھتا ہے تو وہ فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے نہ کہ کسی پارٹی نے کرنا ہے نہ کسی شخصيت نے کرنا ہے پارليمنٹ نے وہ فیصلہ کرنا ہے اور اگر آٸینی مدت کے اندر ہونے ہے تو پھر الیکشن کا شیڈول الیکشن کمیشن نے دینا ہے نہ میں نے دینا ہے نہ آپ نے دینا ہے نہ وزیراعظم نے دینا ہے ۔

صحافی کا سوال: زرداری صاحب نے کہا ہے جب میں چاہوں گا تب ہوں گے ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: گپ شپ میں کوٸی بات ہو جاتی ہے آپ ہر بات کو اٹھا دیتے ہیں ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتائے کہ ہمارے ملک میں کب تک نفرت کی سیاست ہوتی رہے گی، آپ بڑے ہیں کیا آپ نے مل بیٹھ کر کوٸی کردار ادا کیا ہے کہ ملک کی ترقی کا سوچیں، ایک دوسرے کو چور لٹیرا ڈاکو کہنا ترک کردے، دوسرے صحافی کا سوال مولانا صاحب اسی سے ریلیٹڈ عمران خان نے آپ کے ساتھ بیٹھنے اور آپ کے پاس انے کی افر کی ہے ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: پہلی بار صاحب کا لفظ استعمال کیا ہے، میں گزارش کروں جی کہ یہ جو ہماری سیاست کے غلط رجحانات پیدا ہوٸے ہیں یہ میں نے پہلے نہیں دیکھے، میرے خیال میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی دو تہائی اکثریت کا حامل ملک کا وزیراعظم تھا میرے والد صاحب اُن کے مقابلے میں لیڈر آف اپوزیشن تھے لیکن میں نے کبھی بھی کسی جلسے میں اپنے والد کی زبان سے اُن کے نام کو بگاڑتے ہوٸے نہیں سنا، ہمیشہ جناب بھٹو یا بھٹو صاحب، سخت تنقید میں بھی وہ نام احترام سے پکارتے تھے ، وہ چیزیں کہاں چلی گٸی، ہمارے وہ اقدار کہاں چلے گٸے، ہمارے بیچ سیاست میں بچپنہ کیوں اگیا، ایک دوسرے کی تذلیل کرنا، قیادت کی سطح پر لوگوں کے ناموں کو بگاڑ کے پیش کرنا، یہ جو ہماری نٸی نسل کے اخلاق کو بگاڑا ہے یہ قابل نفرت چیزیں ہیں، ہم اِس گند سے نفرت کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اِس کی اصلاح ہو جاٸے، ہمارے نوجوان کو اخلاقی تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور میں تو یہاں تک ضروری سمجھتا ہوں کہ باقاعدہ ہمارے نظام تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے، ابھی جو ہمارے نوجوان پڑھ رہے ہیں اسکولوں میں ہے، کالجز یونیورسٹیوں میں ہے ایک باقاعدہ پیریڈ ہونا چاہیے جس میں اُن کو اسلام کے حوالے سے اخلاقیات، مشرقی طور اطوار زندگی، وطنی اخلاقیات باقاعدہ پڑھاٸے جاٸے تاکہ ہم ایک دوسرے کا ادب تو سیکھیں، چھوٹے بڑے کا ادب تو سیکھیں، یہ تو یورپ کا تہذیب ہے کہ باپ بیٹے کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، خاندان کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے، کیا ہم بھی اپنے باپ دادا کو بھول جاٸیں، کیا ہم بھی اُن کے روایات کو چھوڑ جاٸیں، یہ تو تباہ شدہ قوموں کی علامت ہوتی ہے کہ اپنے بزرگوں کے ساتھ انسان کا رشتہ ختم ہو جاٸے اور کہے کہ میں تو خود پیدا ہوا ہوں، خود بڑا ہوگیا ہوں ۔
تو یہ جو اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا ہے یہ وہ لوگ ہے اِس کے بعد آپ کہتے ہیں آپ نفرت کرتے ہیں ہم نفرت نہیں کرتے یہ قابل نفرت چیزیں ہیں اِس کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب استحکام پاکستان کے نام سے ایک نٸی پارٹی وجود میں اگٸی ہے تو کیا کسی ایسے عنصر کی گنجائش ہے یا ضرورت محسوس کی جارہی تھی ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: تو پھر پی ٹی اٸی سے جو لوگ نکلے ہیں اُس کو آپ کہاں کھپاتے (مولانا صاحب کا قہقہہ)

صحافی کا سوال: پی ٹی اٸی سے جو لوگ جارہے ہیں اگر وہ جے یو اٸی میں انا چاہے تو کیا اُن کے لیے جے یو اٸی کے دروازے کھلے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: ابھی تک کسی نے رابطہ نہیں کیا جب کریں گے تو اُس وقت بات کریں گے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب نو مٸی کے واقعات ہوٸے ہیں اُس کے بعد جو صورتحال ہے جو کچھ ہورہا ہے اُس سے آپ مطمئن ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے بنیادی بات یہ ہے اگر میرے گھر پر حملہ ہوگا تو اُس کے کَرب کا احساس مجھے ہوگا، ممکن ہو کہ میرے ردعمل کو آپ مناسب نہ سمجھے ہم نے یہی بات کہی ہے برطانیہ میں اگر برمنگھم پیلس پر حملہ ہو جاٸے، اگر وہاں کے پارليمنٹ پر ہو جاٸے یا جب ہوا تھا تو وہاں کے حکومت کا ردعمل کیا تھا، ابھی جو کیپٹل ہلز پر حملہ ہوا ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا امریکہ میں، اور جب ہمارے ہاں ہوتا ہے تو پھر اُن کو تشویش ہوتی ہے، پھر یہ اُن کو غیر جمہوری رویے نظر اتے ہیں تو اپنے آٸینے میں جو آپ کو اپنا چہرہ نظر اتا ہے اسی آٸینے میں آپ ہمیں بھی دیکھے، اگر اپنے لیے ایک چیز کو جاٸز نہیں کہتے تو میرے ملک میں ایسے اقدامات کو آپ جاٸز کیوں کہتے ہیں پھر جو مدعی ہے اسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنا دعویٰ کس طرح داٸر کرتا ہے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ کیا سمجھتے ہیں عمران خان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہیے یا نہیں دوسری بات اور آٸندہ انے والے انتخابات میں آپ کو کیا لگتا ہے عمران خان انتخابات کا حصہ ہوں گے یا نہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: یہ تو نہ میرا اختیار ہے نہ وہ میرے سامنے عدالت میں پیش ہورہا ہے البتہ اتنی بات ضرور ہے اور ہم وفاقی حکومت پر بھی زور ڈال رہے ہیں اور اپنے شریک حکومت کے ہوتے ہوٸے کہ جو میگا کرپشنز ہے کیوں اُس کے خلاف ابھی تک ایف اٸی آر نہیں ارہے ہیں اور اب صرف اسی کو دیکھیں گے کہ نو مٸی کے واقعات، کیا آپ پشاور کے صحافی حضرات میرے سامنے بیٹھے ہیں کچھ برخوردار ہیں کچھ اپنے بھاٸی ہیں کیا یہاں پر بی ار ٹی کا مسٸلہ نہیں ہے، کیا بلین ٹریز کا مسٸلہ یہاں نہیں ہے، کیا ملم جبہ سکینڈل کا مسٸلہ نہیں ہے، صحت کارڈ کرپشن کا مسٸلہ نہیں ہے، پھر وہاں پر جو توشہ خانے کا مسٸلہ اگیا، بڑے بڑے میگا قسم کے کرپشنز سامنے ارہے ہیں اُن ساری چیزوں کو اگر تین دفعہ وزیراعظم رہنے والا وہ راتوں رات گرفتار ہوسکتا ہے، اُس کو سی کلاس میں ڈالا جاسکتا ہے بیٹی بھی اُس کے ساتھ جیل میں، بیٹی کو اُس کے ساتھ ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اہلیہ جو ہے بستر مرگ پر ہے اُس کے ساتھ ٹیلیفون پر رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے، جو رویہ دوسروں کے ساتھ رکھا گیا ہم نہیں چاہتے کہ یہ رویہ اُن کے ساتھ ہو، ہم یہ بھی تو نہیں چاہتے کہ سیاسی لوگ گرفتار ہو لیکن یکطرفہ قانون نہیں چلنا چاہیے، جو اپنے آپ کو آمین اور صادق کے لباس میں چھپاٸے ہوٸے ہیں اور وہ اندر سے تاریخ کے بہت بڑے مجرم ہے اُن کو سامنے لانا چاہیے، عجب بات تو یہ ہے کہ آج ہماری عدلیہ جو ہے وہ جرم کے تحفظ کے لیے رہ گٸی ہے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ کی ایک بات جو ہم پسند کرتے تھے کہ جب عمران خان کی حکومت تھی تو آپ کہتے تھے کہ اسے ایک دھکے کی ضرورت ہے، پھر آپ نے پی ڈی ایم بنایا، آپ کا تعلق کب تک پی ڈی ایم سے ہے اور کب آپ راہیں جدا کررہے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: ہمارا پی ڈی ایم سے راستے جدا کرنا میں تو خود پی ڈی ایم کا صدر ہوں میرا کام تو اسے تحفظ فراہم کرنا، آپ ابھی بچے ہیں ناں

صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ جو پی ٹی اٸی کی قیادت تتر بتر ہے ایک سوال ایا جس کا جواب آپ نے نہیں دیا کہ آٸندہ الیکشن میں آپ کو پی ٹی اٸی انتخابات میں حصہ لیتی نظر ارہی ہے یا نہیں، آپ نے پی ٹی اٸی لیڈر شپ کے کھپانے کا حل تو بتادیا لیکن پی ٹی اٸی کا جو ووٹر ہے اُس کو آپ کیا نصیحت کریں گے کہ وہ ووٹ کس کو دے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے اُس کے ووٹرز کو بھی سوچنا چاہیے اور اُس کا ووٹر خود اپنے قیادت سے سوال کرے کہ آپ نے ساڑھے تین سالہ حکومت کی اپنی ایک کارکردگی بتادو کہ آپ نے اِس ملک کے لیے کیا کیا، جو ہمارے منصوبے تھے اُس وقت وہ نیچے چلے گٸے، ملکی معشیت انڈوں اور کٹوں پہ اگٸی، جو پبلک ٹو پبلک ایک دوسرے کے ساتھ گاٶں میں کررہے تھے، آپ خود ہی اندازہ لگاٸے کہ ملکی کی معشیت کو کہاں پر پہنچایا گیا اور جس نے اُن کو ووٹ دیا ہے وہ کیا اپنے آپ کو اِس کا ذمہ دار نہیں سمجھے گا، کیا وہ یہ نہیں سوچے گا کہ میرے ووٹ سے اتنا بڑا مجرم پاکستان پر مسلط رہا اور اُس نے پاکستان کا بیڑہ غرق کردیا، یعنی آپ سوچیں کہ 2017-18 کو جو بجٹ میں پاکستان کا گروتھ ریٹ بتایا گیا تھا اور جو بڑے بڑے منصوبے ملک میں چل رہے تھے کیا وہ سب نیچے نہیں اگٸے کیا اُن کے دور میں پاکستان کے سالانہ جی ڈی پی ریشو وہ زیرو سے نیچے نہیں چلا گیا تھا ، یہ ساری چیزیں ہر آدمی کو جاننا چاہیے اگر وہ واقعی نظریاتی لوگ ہیں اگر اُن کو واقعی پاکستان کی فکر ہے اگر اُس کو اپنی خوشحالی کی فکر ہے تو اِن ساری چیزوں کو کارکردگی کی نظر سے دیکھنا چاہیے کہ ملک کو کون اگے بڑھانا چاہتے ہیں اور پاکستان کا دیوالیہ کس نے کیا ہے اخلاقی لحاظ سے بھی، مالیاتی لحاظ سے بھی اور ہر لحاظ سے ملک یچے چلا گیا ہے اِس ملک کو دوبارہ اٹھانے کی ضرورت ہے اگر کوٸی سمجھتا ہے کہ عمران خان دوبارہ اٸے گا اور اِس ملک کو بنائے گا تو حدیث شریف کا ترجمہ ” مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا “ ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب پی ٹی آٸی پر پابندی ہونی چاہیے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: میرے خیال میں تو یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے اگر غیر جانبدار ہو ورنہ میری نظر میں تو اِس پارٹی کو ہونا ہی نہیں چاہیے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب مومن سے مراد اسٹبلشمنٹ ہے یا عوام ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: عوام کو میں کہہ رہا ہوں ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب جماعت اسلامی عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کررہی ہے اِس ساری صورتحال میں آپ کا کردار کیا ہوگا کیا آپ اُن کا ساتھ دیں گے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: مجھے تو پتہ نہیں اُن کی کاوشیں کہاں ہے مجھے تو نظر نہیں ارہی، اگر کوٸی گیا ہے تو طلحہ صاحب بھی گٸے تھے ملاقات بھی ہوٸی تھی، میں بھی اُن کے گھر گیا ہوں ہم نے بھی یکجہتی کا اظہار کیا تھا لیکن اب رکاوٹ کیا ہے یہ وہ راز کی بات ہے جو نہ مجھے کوٸی بتانے کو تیار ہے نہ آپ کو کوٸی بتانے کو تیار ہے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتائے کہ آپ نے بتایا کہ عمران خان کے دور میں پاکستان کی شناخت بین الاقوامی سطح پر ایک سیکولر ملک کے طور پر کیا گیا وہ کون سے اقدامات تھے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: میرے خیال میں یہ صرف عمران خان کی حکومت تک محدود نہیں ہے یہ کافی عرصہ پیچھے آپ جاٸیں گزشتہ دس بارہ سالوں میں یہ پورا دورانیہ اِس پر مشتمل ہے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتائے اگر پرویز خٹک آپ کے جماعت میں انا چاہیے تو کیا اُس کے لیے آپ کے دروازے کھلے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے اِن ساری چیزوں کو جماعتیں دیکھتی ہے، جماعتیں اندھی نہیں ہوا کرتی، جمعیت علماء اسلام ایک نظریاتی جماعت ہے اُس کو سوچنا ہوتا ہے میں کہتا ہوں کہ اگر ایک شخص جمعیت میں انا چاہتا ہے جمعیت کے دروازے ہر وقت ہر آدمی کے لیے کھلے ہیں لیکن جمعیت میں انے سے بھی اُس کا جرم معاف نہیں ہو جاتا، جرم اپنی جگہ پر جرم ہے جس کو عدالت کا سامنا کرنا چاہیے اور اپنے مراحل سے گزرنا چاہیے میری تو یہ راٸے ہے ایک کارکن کی حیثیت سے میں یہی سوچتا ہوں لیکن یہ کہ اِس کی جو حکمت عملی جہاں بنی ہے انہوں نے اِس کی کیا حکمت عملی بنائی ہے اُس کے لیے کیا ایسی باتیں کہ جس میں کچھ چیزیں ہیں جو منظر عام پر نہیں لاٸی جاسکتی ۔

صحافی کا سوال: 
قاٸد جمعیت کا جواب: صوبے کے پلاننگ کمیشن اور جو فنانس منسٹری ہے اُس کی ایک ملاقات میرے ساتھ وہاں اسلام اباد میں بھی ہوٸی تھی اور پھر اُس کے بعد پھر ہم نے پراٸم منسٹر صاحب سے درخواست کی تو وہ بھی یہاں پشاور تشریف لاٸے اور گورنر ہاٶس میں یہ تمام پارٹیاں بھی موجود تھی، پلاننگ اور فنانس منسٹری بھی موجود تھی، اسحاق ڈار صاحب بھی اٸے تھے، پلاننگ منسٹر احسن اقبال صاحب بھی اٸے تھے، اب آپ مجھے بتاٸے پچھلے حکومت نے ساڑھے چار سو ارب روپے یہاں لاٸی ہے وہ ساڑھے چار سو ارب روپے کہاں چلا گیا، میرا صوبہ آج کہہ رہا ہے کہ تین صوبوں میں ایک پیکج ملازمین کو دیا گیا صرف ہمارے صوبے میں ہم اِس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ہم کسی کو ایک پیکج دے سکے کیوں ہم اتنا گرے تھے کس نے ہمیں گرایا اتنا بڑا پیسہ ہونے کے باوجود ہم تنخواہیں دینے کی پوزیشن میں نہیں ارہے اور وفاق اِس وقت خصوصی پیکج صوبے کو دینے کی تیاری کررہی ہے تاکہ کسی بھی طریقے سے ہم اپنے صوبے کو مشکلات سے نکالیں اور کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے، جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے یہ بات تو مجھے اپنے حکومت سے بھی اختلاف تھا کہ فاٹا کو دس سال تک ہر سال سو ارب دیے جاٸیں گے سن 2017 سے لے کر آج 2023 اگیا ہے اسّی ارب بھی میرے خیال میں اُن کو پورے نہیں کیے گٸے ہوں گے اور جہاں ایک سال میں آپ نے سو ارب اُن کو دینے تھے وہاں کے انفراسٹرکچر کو بڑھانے کے لیے، کالجز یونیورسٹیاں بنانے کے لیے، تعلیمی ادارے اور ہسپتال کھولنے کے لیے، سڑکیں بنانے کے لیے، بجلی کا نظام، لوگوں کی معیار زندگی اٹھانے کے لیے اور جلدی تھی انضمام کی، انضمام کرلیا تو وہاں پر کتنی مشکلات ہیں کیا انتظاميہ وہاں پر ہے کیا وہ اپنا کردار ادا کررہی ہے تو ہم یہی سوچتے ہیں کہ ہم بڑی سنجیدگی سے تجاویز دیتے ہیں لیکن ہماری تجاویز کو سنجیدگی سے لیا جاٸے یہ نہیں کہ پارٹی کی کوٸی ضد ہے، کوٸی ضد نہیں ہے یہ ملک ہمارا ہے اور اِس ملک میں ہماری بات کو سنجيدگی سے لیا جاٸے تو ان شاء اللّٰہ معاملات خراب نہیں ہوں گے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہے ساری جماعتوں کو بڑے قریب سے دیکھا ہے آٸندہ انے والی حکومت میں کس پارٹی کو اپنے ساتھ شریک اور کس کو اپوزیشن میں دیکھ رہے ہیں، جداٸی تو ہوگی لازمی ایک حصہ پی ڈی ایم کا اپوزیشن میں ہوگا تو کس کو حکومت میں اور کس کو اپوزیشن میں دیکھ رہے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: جو جمعیت کو سوٹ کرے گا اسے ساتھ دیکھنا چاہیں گے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتائے گا کہ آپ پی ڈی ایم کے بڑے ہیں اور بڑے ایکٹیو ہے نواز شریف صاحب کے بارے میں آپ کو ذاتی حیثیت میں کیا اطلاعات ہیں کیا وہ الیکشن سے پہلے آٸیں گے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: یہ فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے، ہمارے ساتھ کوٸی رابطہ اِس سلسلے میں نہیں کیا ہے انہوں نے خود فیصلہ کرنا ہے وہ جس وقت چاہے اجاٸے اُس کا ملک ہے وہ تین دفعہ وزیراعظم رہے ہیں تو ایسی کون سی بڑی بات ہے ۔
بہت بہت شکریہ جی

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments