قائد جمعیت علماء اسلام پاکستان و سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا محسن حجاج کانفرنس سے خطاب 11 جولائی 2023

 

قائد جمعیت علماء اسلام پاکستان و سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا محسن حجاج کانفرنس سے خطاب    

11 جولائی 2023 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

 فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [سورة البقرة:128] 

 صدق اللہ العظیم

اس اجتماع کے میزبان جناب سلمان گیلانی صاحب اور اس کے مہمان خصوصی جناب سینیٹر طلحہ محمود صاحب اجتماع میں موجود تمام علماء کرام، بزرگان دین اور میرے انتہائی قابل احترام صحافی حضرات، قابل رحم سب سے زیادہ اس وقت صحافی بھائی ہیں کہ ان کی ترجیحات اپنی ہوتی ہیں انہوں نے خبر لگانے ہوتی ہے خبر لینی ہوتی ہے تو آپ کو جو زحمت گوارہ کرنی پڑی ہے میں اس کے لیے خصوصی طور پر معذرت کرتا ہوں آپ سے۔ یہ بہت اچھی بات ہے اور ہمیں اس روش کو فروغ دینا چاہیے کہ کسی کا اچھا کردار، اس کی اچھی خدمات، اس کو منظر شہود پر لایا جائے، انسان کوتاہیوں کا پتلا ہے ہر انسان میں کمزوریاں ہیں لیکن یہ ہماری ایک معاشرتی بیماری ہے کہ ہم کمزوریوں کو اچھالنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور کسی کی اچھائیاں اجاگر کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے ایسے دوست سے جو مکر کرتا ہے، دوسری روایت میں ہے جو دھوکے باز ہوتا ہے اور اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اچھائیوں کو چھپاتا ہے اور کمزوریوں کو اچھالتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ میں حج اپریشن میں اس کے حسن کارکردگی پر جناب طلحہ محمود صاحب کو ہدیہ تبریک و تحسین پیش کرتا ہوں، حج ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے لاکھوں انسان پوری دنیا سے اکٹھے ہوتے ہیں اور یہ اللہ کے گھر کی برکت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ جو ایک چھوٹا سا شہر ہے کس طرح وہ لاکھوں انسانوں کے لیے وہاں پر وسعت پیدا کر دیتا ہے ایک ہی دن میں سارے حجاج بیک وقت مِنیٰ منتقل ہو جاتے ہیں ایک دن گزارتے ہیں اور پھر یہ لاکھوں حجاج بیک وقت پھر عرفات منتقل ہو جاتے ہیں اور شام کو پھر یہ حجاج واپس مزدلفہ منتقل ہو جاتے ہیں اور اس سے آگے پھر مِنیٰ منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی خدمات اور اس طرح کی خدمات کے لیے نظم و انتظام، میں اس کے لیے سعودی عرب کی حکومت کو خادم الحرمین شریفین کو، ولی عہد کو اور سعودی عوام کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ الحمدللہ پچھلے سال بھی ہمارے وزیر حج کی کارکردگی نہایت قابل تعریف تھی لیکن پچھلے سال اور اس سال میں ایک فرق تھا کہ ہمارے پاس پاکستان کے کل حجاج 80 ہزار کے لگ بھگ تھے اور اس سال ایک لاکھ اسی ہزار سے زیادہ، تو ظاہر ہے اس سفر میں مشکلات آتی ہیں اور بڑی مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہے جو انسان کے بس میں ہوتا ہے اس حد تک تو ذمہ داری ہوتی ہے کہ بہتر سے بہتر سہولتیں مہیا کی جائیں لیکن پھر بھی اتنی انسانوں میں کہیں کمی تو رہ جاتی ہے۔ ابتدا میں کچھ مشکلات آئیں میں وزیراعظم پاکستان کا شکر گزار ہوں کہ ان دنوں وہ بیرونی ملک سفر پہ تھے اور ان کو کچھ شکایات پہنچی اس وقت فوراً انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ مِنیٰ وغیرہ میں حج کے انتظامات کے بارے میں کچھ شکایتیں آرہی ہیں میں نے یہی سے طلحہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں کچھ مشکلات ہیں میں مسلسل وزارتِ حج سعودی عرب کے ساتھ رابطے میں ہوں اور ہم ان شاءاللہ اس کو حل کر رہے ہیں، پھر اس کے بعد حجاج کے تبصرے سوشل میڈیا پہ آنے لگ گئے، خود انڈیا کے حجاج کے تبصرے جو ریکارڈ پہ سامنے آئے اور اعتراف کرتے رہے کہ پاکستان کے انتظامات ہم سے اچھے ہیں۔ تو یہ ہم سب کے لیے اعزاز کی بات ہے اپنے انتظامات اور بہتر کرنے چاہیے اور اس سے بھی اس لیے نہیں کہ ایک وزیر کا تعلق سیاسی طور پر جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ہے جو بھی پاکستان کا وزیر ہو اس کی نسبت پاکستان کی طرف ہوتی ہے اور یہ نیک نامی پاکستان کے سر ہونی چاہیے، ہماری یہی تمنا ہے۔ حرمین شریفین ہمارے لیے مقدس مقامات ہیں، اسلام دشمن قوتیں ان کی نظریں حرمین پر بھی ہیں عالم غرب ان کو صحراؤں سے کیا دلچسپی ہے، ان کو اگر کھٹک رہا ہے تو حرمین کی قبولیت، مسلمانوں کے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں ڈھانچہ یہاں ہوتا ہے دل وہاں گھوم رہا ہوتا ہے ہر مسلمان کے دل و دماغ پر حرم شریف کا احترام چھایا ہوتا ہے اور ان شاء اللہ العزیز امت مسلمہ حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے میدان میں ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ مسجد اقصیٰ یہو د یوں کے نرغے میں ہے ایک لمبا عرصہ ہو گیا اور اقوام متحدہ ہو، بین الاقوامی برادری ہو، بیت المقدس کی جغرافیائی حیثیت کو متنازعہ تسلیم کرتی ہے، حیرت و اقوام متحدہ پر ہے کہ جو انسانیت کے مشکلات کو دور کرنے کے لیے معرض وجود میں آیا لیکن انسانیت کی مشکلات میں اضافی کے علاوہ اس کی اور کوئی کارکردگی نہیں۔ اس لیے وجود میں آیا کہ وہ انسانوں کی، قوموں کی ازادی کی حفاظت کرے گا لیکن اگر سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو امریکہ ہو یا مغربی قوتیں، وہ انہی بین الاقوامی اداروں کی وساطت سے پسماندہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کو غلام بنانے کی کوشش کرتی ہیں، ان کے انسانی حقوق کے ادارے انسانی حقوق کی پامالی کے علاوہ اور کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ہے اور ایک ایسی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم جیسے ممالک کی آزادی کو جام کر دیتے ہیں۔ آج اگر اقوام متحدہ ہو، سلامتی کونسل ہو، انسانی حقوق کا کوئی ادارہ ہو، کمیشن ہو وہاں سے اگر ایک فیصلہ صادر ہو جاتا ہے ایک قرارداد پاس ہو جاتا ہے ایک قانون پاس ہو جاتا ہے تو ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہمارا اپنا ائین غیر موثر ہو جاتا ہے، ہمارا اپنا قانون غیر موثر ہو جاتا ہے اور ان کا قانون یہاں پر نافذ اور عمل ہو جاتا ہے۔ مالیاتی حوالے سے دیکھیں آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، ورلڈ بینک، ایشین بینک اور کیا کیا نام ہے۔ پیرس گروپ لندن کو قرضہ دینے والے ساری دنیا کو قرضوں میں جکڑنے کی پالیسی سود کے لعنت میں گرفتار کرنے والی پالیسیاں اور مالیاتی حوالے سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسر ا ئیل جو امریکہ اور مغرب کے ہاتھوں کا ایک خنجر ہے جو اس نے عرب دنیا کے سینے میں پھونک دیا فلس طین پر قبضہ کر لیا، بیت المقدس پہ قبضہ کر لیا ہے اور عالمی قوت اس کا تحفظ کر رہی ہے، ایک ناجائز ملک کو تحفظ دے رہی ہے۔ یہ وہ ملک ہے اور میں پاکستانیوں کو بتانا چاہتا ہوں، نوجوان نسل کو بتانا چاہتا ہے کہ پاکستان 1947 میں وجود میں آیا اسر ا ئیل 1948 میں موجود میں آیا اور وجود میں آنے کے بعد اس کے پہلے وزیراعظم اپنی خارجہ پالیسی پر پہلا پالیسی بیان دیا کہ اسر ا ئیل کی خارجہ پالیسی کا اساس اور اس کا بنیادی ہدف دنیا میں ایک نو زائدہ مسلم ریاست کا خاتمہ ہوگا اسر ا ئیل اپنی قیام کے بعد اپنی اپنی زندگی کا آغاز پاکستان کے خاتمے کے اہداف سے کرتا ہے اور پاکستان میں لوگ پھر رہے ہیں کہتے ہیں جی اسر ا ئیل کو تسلیم کردیا جائے۔ یہ ہے وہ غلامانہ ذہنیت اور آج تو آپ نے سن لیا ہوگا نا کہ اسر ا ئیل نے کل کیا کہا، اقوام متحدہ کے فورم پر کہا کہ پاکستان کے اندر ناجائز گرفتاریاں پاکستان کے اندر تشدد اور پھر تشدد سے آگے ان پر جنسی تشدد کا الزام۔ اب یہ تین الفاظ کس کے ہیں؟ ناجائز گرفتاریاں یہ آج کے وقت میں پاکستان میں کس کی زبان ہے؟ اس وقت تشدد یہ کس کا عنوان ہے اور اس کے بعد ان پر جنسی تشدد کی باتیں پاکستان میں کس نے کی ہے۔ اقوام متحدہ میں اسر ا ئیل کے مندوب نے پی ٹی آئی کی زبان بولی ہے وہاں پر، تو پھر ذرا ہم نے ماننا پڑے گا نا آپ کو، کہ ہم نے جو نشاندہی کی تھی وہ صحیح تھی یا غلط۔ یہاں تک کہتا ہے کہ پاکستان میں ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکالا جائے، پاکستان میں یہ لوگ تو آپ کو ذرا نظر آتے ہوں گے کچھ سمجھ میں تو آرہا ہوگا۔ یہ وہ جنگ ہے جو ہم لڑ رہے ہیں یہ تہذیب کی جنگ ہے اور صرف تہذیب کی جنگ نہیں اس کے پیچھے سیاسی جنگ ہے اس کے پیچھے اقتصادی جنگ ہے، پاکستان جو کلمے کے نام پہ حاصل کیا گیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر پاکستان حاصل کیا گیا، اس پاکستان کے قیام میں برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں، ہماری ماؤں بہنوں کی عصمتیں قربان ہوئی ہیں، 75 سالوں سے آپ بتائیں کہاں ہیں وہ لا الہ الا اللہ اور نائن الیون کے بعد جو تسلسل کے ساتھ ہماری پالیسیاں چل رہی ہیں تسلسل کے ساتھ، اس نے پاکستان کا مذہبی شناخت ختم کر دیا ہے اور ایک سیکولر سٹیٹ کا روپ دھار دیا ہے، آج پاکستان میں اگر سب سے زیادہ معتوب ہے وہ آپ کا مذہبی طبقہ ہے، وہ آپ کے علماء ہیں، وہ آپ کے دینی مدارس ہیں، دینی مدارس میں پڑھنے والے طلباء ہیں، مساجد ہیں، مساجد کے ائمہ خطباء ہیں، اگر تھوڑی سی کوئی ایسی حرکت اس سے سرزد ہوئی اور سیدھا جناب یہ تو دہشتگرد ہیں اور کوئی لفظ ہی نہیں۔ مغربی دنیا جس دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا کو بلیک میل کر رہی ہے ہمارے ملک کی نظام میں مذہبی طبقے کو بلیک میل کیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان کو چلایا جا رہا ہے۔ ساری چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں لیکن مذہبی طبقے کے گردن پر ہر وقت چھرا ہوتا ہے اور دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ آپ بے فکر رہیں جس مذہب سے آپ کو خطرہ ہے وہ مذہب ہماری چھری کے نیچے ہے۔ میں جس سیاسی میدان میں ہوں میں جس ماحول میں ہوں میں اس تاثر کو مٹانا چاہتا ہوں اور ان شاءاللہ مٹا کر دم لیں گے۔ مذہب سے جنگ نہیں لڑی جاسکتی اور اب بھی ہم امریکہ اور مغرب سے مرعوب رہیں، کچھ تو ذرا آدمی اپنے اندر کو ٹٹو لے، اپنی عزت نفس کو ٹٹولے، ہمارے بالکل پڑوس میں جو امریکہ ا فغان ستان سے شکست کھا کر نکلا ہوا بھاگا ہے اب بھی ہم اسی سے مرعوب ہیں، کس بات پہ؟ آئیں سیاسی بات کریں، یہ سیاسی لوگ ہیں مدارس نے سٹیٹ کا ساتھ دیا ہے علماء نے سٹیٹ کا ساتھ دیا ہے آئین کا ساتھ دیا ہے ریاست کا ساتھ دیا ہے اس کی بے قدری کرو گے تو پھر پاکستان کا تحفظ کرنے والا کوئی طبقہ یہاں نہیں رہے گا۔ جس نے گزشتہ ساڑھے تین سال حکومت کی، وہ پلانٹڈ تھا، وہ اس ملک کے خاتمے کے لیے اس کو ایجنڈا دیا گیا تھا، وہاں قول و فعل میں تضاد تھا، لوگوں کے سامنے کہو امریکہ مردہ باد اور کاغذ پہ دستخط کرو تو امریکہ زندہ باد، کہتی اور کرتی میں بڑا فرق ہے تضاد، امریکہ کے ایجنٹوں یہو د یوں کے ایجنٹوں، اس کی مخالفت میں اپنا چورن نہ بیچا کرو ہم تمہیں جانتے ہیں۔  

 بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش

من اندازِ قدت را مے شناسم

ان شاءاللہ العزیز اس مناسبت سے ہم جس راستے پہ جا رہے ہیں ہم یہ ثابت کریں گے کہ ملک کے وفادار بھی ہم ہیں ملک پر مشکل آئی تو اس کی حفاظت کے لیے بھی اول دستہ ہم ہوں گے ان شاءاللہ اور یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے ہم خود ان شاءاللہ اس کی حفاظت کے لیے کافی ہیں اور کوئی مائی کا لال وہ نہ سوچے کہ ہم دین اسلام اور لا الہ الا اللہ کو پاکستان سے باہر کردینگے، یہی رہے گا ان شاءاللہ قائم رہے گا ہم نے آگے بڑھنا ہے اور ہم نے اس کو ٹھیک کرنا ہے۔ کچھ اخلاق ہوتے ہیں کچھ تہذیب ہوتی ہے کچھ نظریہ ہوتا ہے ان کے نظریہ پاکستان کا نہیں ہے صرف ائیڈیل چند جملوں کے ساتھ سیاست کرے گا۔ ان شاءاللہ جنازہ ہم نے اس کا نکالا ہے اور دفن بھی کریں گے ان شاءاللہ۔ لیکن قوم ذرا حوصلہ میں رہیں، ہم قوم کو تنہا نہیں رہنے دیں گے، دنیا کو بھی ہم پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم سیاسی لوگ ہیں آزادی ہمارا حق ہے بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہمارا حق ہے اگر ہماری آزادی پہ حملہ کیا جائے گا تو ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ دینی مدارس ادارے ہیں لوگوں کے چندوں سے چلنے والے آزاد ادارے ہیں ان شاءاللہ اس کو کسی بالادستی کا شکار نہیں ہونے دیں گے اور آزادی کے ساتھ قرآن و حدیث کی علوم کی حفاظت کرتے رہیں گے اللہ تعالی اس کو زندہ رکھے تابندہ رکھیں پائندہ رکھے اور جمعیت علماء اسلام کو اللہ تعالی ترقیوں سے سرفراز فرمائے اور جو خدمات ہمارے طلحہ صاحب نے حج کے دوران سرانجام دیے ہیں رب العزت اس کو قبول فرمائے اور دنیا و آخرت میں ان کو اجر عطاء فرمائے۔ 


ضبط تحریر: #محمدریاض 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat .

0/Post a Comment/Comments