قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سانحہ باجوڑ کے بعد ویڈیو پیغام
31 جولائی 2023
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سانحہ باجوڑ نے پوری امت کو نڈھال کر دیا ہے، ایسے پاکیزہ لوگوں کا اجتماع، علماء، طلباء، دین دار مسلمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم لہراتے ہوئے، اس لیے اکٹھے تھے کہ امن کا پیغام دیا جائے، امن کے نام سے ورکرز کنونشن منعقد ہوا لیکن سفاکوں کو جن کے منہ کو خون لگ چکا ہے، قتل و غارت گری، انسانیت کا، مسلمانوں کا قتل، ان کی زندگی کا مشغلہ بن چکا ہے، انہوں نے مسلمانوں کے اس اجتماع کو جو امن کے عنوان سے منعقد تھا اس پر حملہ کیا اور پورے جلسے میں ایسی آگ بھڑکی کہ اس وقت تک جو اطلاعات ہیں 46 لوگ شہید ہو چکے ہیں اور 100 سے 200 کے درمیان زخمی ہیں، ہسپتالوں میں ہیں، زیر علاج ہیں، یہ ایسا دل کو ہلا دینے والا ایک کربناک واقعہ ہے کہ صرف جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں پر حملہ نہیں بلکہ پورے پاکستان پر حملہ ہے، پوری اُمت مسلمہ پر حملہ ہے، لیکن ایک چیز بڑی واضح ہو گئی کہ امن اور فساد ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئے، جمعیت علماء کے کارکن امن کی آواز بلند کر رہے تھے اور مفسدین نے فساد کا وہاں پر مظاہرہ کیا، اللہ رب العزت کی مشیت کیا ہے؟ اللہ رب العزت فرماتے ہیں "جب بھی انہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی اللہ نے اسے بجھایا اور یہ لوگ روئے زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اللہ فساد پیدا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا (القرآن)۔
ہمیں اطمینان ہے کہ ہم امن کے طرفدار ہیں، ہم مشیت الٰہی کے علمبردار ہیں اور ہماری آواز امت مسلمہ کی آواز ہے، ہماری اواز قرآن کی اواز ہے، ہماری آواز جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی مقدس جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی آواز ہے، اور ان شاءاللہ ان واقعات سے یہ سلسلہ رک نہیں سکتا۔
بڑے امتحان آئے، ہم پر حملے ہوئے، ہمارے کارکن شہید ہوئے، تمام تر قربانیوں کے باوجود ہم نے حق کا پرچم بلند رکھا اور کسی محاذ پر ہم نے حق کا پرچم جھکنے نہیں دیا الحمدللہ، سو ایک نظریہ کی جنگ ہے ایک طرف امن کے علمبردار ہیں دوسری طرف فساد کے علمبردار ہیں، جو تمام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں ان کی ایمان کا انکار کرتے ہیں، یہ جاہل ہیں، یہ سفاک ہیں، یہ قاتل ہیں، یہ اسلام دشمن ہیں، یہ مسلمان دشمن ہیں اور ان کے خلاف ہماری امن کی تحریک جاری رہے گی، ہم پاکستان کی بقا کی جنگ لڑیں گے، ہم امت مسلمہ کی بقا کی جنگ لڑیں گے اور ان شاءاللہ اس میں ہمیں سرخروئی ہوگی، ہمیں اللہ کی ذات پر یقین ہیں۔
میرے محترم دوستو! یہ جو گمبیر صورتحال پیدا ہوئی ہے جتنے ہمارے ساتھی شہید ہوئے ہیں، نوجوان شہید ہوئے ہیں، بزرگ شہید ہوئے ہیں، علماء شہید ہوئے ہیں، حفاظ قرآن شہید ہوئے ہیں، دین دار مسلمان شہید ہوئے ہیں، میں سب سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، ہر چند کہ میں خود اس کا مستحق ہوں کہ مجھ سے تعزیت کی جائے کیونکہ یہ میرا خون ہے، یہ میرے بھائی ہیں، یہ میرے ساتھی ہیں، جمیعت علماء اسلام کے کارکن ہیں جو پوری دنیا میں عالم کفر کے مقابلے میں حق کا علم بلند کیے ہوئے ہیں، سیاسی محاذ پر آج جمعیت علماء اسلام ایک مسلمہ قوت ہے، ایسے فساد پیدا کر کے ہمارا راستہ روکا جا رہا ہے، ہم سیاسی عمل سے وابستہ ہیں، ہم سیاسی جدوجہد سے وابستہ ہیں، ان واقعات سے ہمارے راستے رو کے جا رہے ہیں، عوام سے ہمارے رابطے توڑے جا رہے ہیں، عوام سے ہمارا تعلق توڑا جا رہا ہے، سو ہم نے گزشتہ 20 سالوں میں اس بات کا تجربہ کیا ہے کہ یہ چند دنوں کی ایک لہر ہوتی ہے، آتی ہے گزر جاتی ہے، وہ اپنا بھیانک اور اپنا کالا کردار تاریخ کے اوراق پہ رقم کر کے فارغ ہو جاتے ہیں، لیکن جمعیت علماء اسلام تاریخ کا وہ روشن باب ہے کہ جو اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان تمام تر مشکلات، ان تمام تر آزمائشوں کے باوجود ملک میں اس نے ترقی کی ہے، عوام میں اس نے مقبولیت حاصل کی ہے، تو اس گھناؤ نے انداز کے ساتھ اور گھناؤنے جرم کے ساتھ تم نہ پہلے ہمارا راستہ روک سکے ہو اور نہ تمہارے آج کا یہ واقعہ ہمارا راستہ روک سکے گا ان شاءاللہ العزیز۔
اس کی پشت پہ کون ہے؟ دنیا میں وہی قوتیں ہیں جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، جو پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنا چاہتی ہے، غرب، صیہونیت، یہ سب پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو ان کا مہرہ بنتے ہیں، یہ جہلا بھی ہیں اس سفہا بھی ہیں، یہ سفاک بھی ہیں اور یہ روئے زمین پر فساد پھیلانے والے لوگ ہیں۔ چند لوگ کون ہوتے ہیں بیٹھ کر سارے مسلمانوں کو کافر کہلا دینا، تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے؟ اس بات پر تم ہوتے کون ہو؟ ہمارا خون کا ایک ایک قطرہ بھی تمہیں فسادی کہے گا، تمہیں مجرم کہے گا، تمہیں سفاک کہے گا اور ان ہربوں سے تم ہمیں اپنے فکر سے ہٹا سکو گے؟ ہمیں اپنی نظریے سے ہٹا سکو گے؟ ہمارا عہد اللہ کے ساتھ ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ اپنے عہد پر پورا ہونے کی توفیق عطا فرمائے توفیق اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔
ان شاءاللہ جمعیت علماء اسلام کی اپنی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس بھی 5 اور 6 اگست کو بلایا گیا ہے لیکن سب سے پہلے میں یہ چاہوں گا کہ ہم قبائلی زعماء کا جرگہ بلائیں، تمام قبائلی بیٹھے، اس خطے کی پشتون قیادت بیٹھے اور اپنے اس خطے کے بارے میں سوچیں، ابھی حال ہی میں خیبر ایجنسی کے اندر دو واقعات ہوئے جس میں مسلمانوں کا خون بہا ہے، کچھ عرصہ پہلے کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکائے گئے اور اس خطے کے مسلمانوں کا خون بہایا گیا، پورا پشتون بیلٹ آج جل رہا ہے، چاہے وہ بلوچستان میں ہو چاہے وہ خیبر پختونخواہ میں ہو، بلوچ بیلٹ جل رہا ہے، کراچی تک فسادات کی ایک لہر ہے جو تھم نہیں رہی ہے، ملک کو کیسے مستحکم کرنا ہے؟ کیا ہمارے ریاستی ادارے صرف اس بات کے رہ گئے ہیں کہ وہ کسی مدرسے میں جا کر ایک مولوی صاحب کو، ایک غریب مولوی صاحب کو پکڑ کے تھانے لے کے آئے اور ان پر الزامات لگائے کہ تمہارے پاس تو کسی نے کھانا کھایا ہے، تمہارے پاس تو کسی نے چائے پی ہے، اسی کے رہ گئے ہیں، یہی ان کی توانائی و صلاحیتیں ہیں! 26 ادارے ہیں انٹیلیجنس کے، کہاں غائب ہیں؟ اتنا بڑا انٹیلیجنس فیلیر بے، بےگناہوں کو تنگ کرنے سے اپنے کاروائی ڈالتے ہیں، کاغذی کاروائی بھرتے ہیں، مجھے کیا اعتماد دلا سکیں گے کہ ریاست میری جان کی حفاظت کر سکتی ہے یا نہیں؟ یا صرف مجھ سے ٹیکس وصول کرے گی اور میرے جان و مال کی حفاظت نہیں کرے گی! مجھے شکایت ہے، مجھے کرب ہے، میں نے ریاست کو بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں، میں نے اس ریاست کی بقا اور استحکام کے لیے جدوجہد کی ہے، میں ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہوں، لیکن اکیلے ایک جماعت کیا کر سکتی ہے! پوری قوم ریاستی اداروں کی طرف دیکھ رہی ہے، جو ریاست کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، جو اس حفاظت کے مسؤل ہیں، اسی کے لیے وہ تنخواہیں لے رہے ہیں، وہ کدھر ہیں آج؟ کب وہ ہمارے شکوؤں کا ازالہ کریں گے؟ کب وہ ہمارے زخموں کا مرہم بنیں گے؟ کب وہ ہمارے مستقبل اور ہمارے آنے والی نسلوں کی حفاظت کا نظام بنائیں گے؟ سارے وہ چیزیں ہیں کہ جس پر ہم نے قومی سطح پر غور کرنا ہے، تمام مکاتب فکر کو بیٹھنا ہے، اور ان شاءاللہ ہم بلائیں گے سب کو، پی ڈی ایم کو دوبارہ بلانا پڑے گا، سیاسی جماعتوں کو اکٹھا بیٹھنا پڑے گا اور ملک کے لیے سوچنا پڑے گا۔
ان شاءاللہ یہ ہمارا پروگرام ہے اور میں عنقریب اس حوالے سے ہمہ جہت رابطے بھی کروں گا اور ذمہ داران کے ساتھ گفتگو بھی کروں گا اور یہ ساری صورتحال ان کے سامنے رکھوں گا کہ ہم سالہا سال سے جس کرب میں ہے اور جس کرب کا ہم اظہار کر رہے ہیں، اس کا اظہار جرم ہو جاتا ہے لیکن ہمیں کرب میں مبتلا کرنے والے دندناتے پھرے! یہ وہ ساری چیزیں ہیں جس پر ہم نے قومی سطح پر غور کرنا ہے، ہم بری طرح دہشت گردی کا شکار ہیں لیکن دہشت گردی کا خاتمہ مقصود ہونا چاہیے، دہشت گردی کے نام پر تجارت کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی! جرم کا خاتمہ چاہیے، جرم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا بذات خود ایک بہت بڑا جرم ہے اور ہم اس حوالے سے حساس ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ اپنے کرب کو چھپائیں لیکن ایسے حالات آجاتے ہیں اور کیوں آجاتے ہیں کیوں آنے دیے جاتے ہیں؟ تو بالآخر قوم پھٹ پڑے، ہم مصلحت کے تحت بہت باتیں نہیں کرنا چاہتے لیکن بالآخر کرنی پڑے گی، تو یہ ساری صورتحال میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جمیعت علماء اسلام امن کی جماعت ہے، تحمل اور برداشت کی جماعت ہے، لیکن تحمل اور برداشت کی بھی ایک حد ہوا کرتی ہے، میں اب بھی کارکنوں سے یہی کہوں گا کہ تحمل اور برداشت کا دامن نہ چھوڑیں اور برداشت ان سازشوں کو ناکام بنائیں اور ہمارے کارکنوں نے ہر دور میں ہر محاذ پر ہمیشہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور اب بھی پاکستان میں سب سے زیادہ بہتر انداز کا کارکن اللہ رب العزت نے جمعیت علماء اسلام کو نصیب کیا ہے جس پر میں لاکھ فخر کروں تب بھی ان کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ جمیعت علماء اسلام کی حفاظت فرمائے، امت مسلمہ کی حفاظت فرمائیں، پاکستان کی حفاظت فرمائے، پاکستانی قوم کی حفاظت فرمائے، تمام دینی اور اسلامی اداروں کی حفاظت فرمائے، اسی کے لیے ہم نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے، اسی کے لیے ہماری جدوجہد ہے اور اسی کے لیے ہم اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور اس سے مدد کے خواصت گار ہیں، اللہ تعالی ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں اپنی مدد سے سرفراز فرمائے
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں