قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا راولپنڈی میں تحفظ ختم نبوت و دفاع پاکستان کانفرنس سے خطاب تحریری صورت میں 14 ستمبر 2023

قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا راولپنڈی میں تحفظ ختم نبوت و دفاع پاکستان کانفرنس سے خطاب تحریری صورت میں 

14 ستمبر 2023

الْحَمْدُ للهِ نَحْمَدُه ونستعينُه ، ونستغفرُه ، ونؤمن به، ونتوكل عليه، ونعوذُ باللهِ من شرورِ أنفسِنا ، ومن سيئاتِ أعمالِنا ، مَن يَهْدِهِ اللهُ فلا مُضِلَّ له ، ومَن يُضْلِلْه فلا هادِيَ له ، ونشهدُ أن لا إله إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له ، ونشهدُ أنَّ سيدنا و سندنا و مولانا مُحَمَّدًا عبدُه ورسولُه، أرسله بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا، وداعياً إلى الله بإذنه وسراجاً منيرا، صلى الله تعالى على خير خلقه محمد وعلى اله وصحبه وبارك وسلم تسليما كثيراً كثيرا. اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ۔ صدق اللہ العظیم 

جناب صدر محترم، اکابر علمائے امت، سٹیج پر موجود مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ معززین، راولپنڈی کے تاجر برادری کے اس اجتماع کے منتظمین، برادران ملت، میرے بزرگو اور دوستو، اس کامیاب ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد پر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور جن حضرات نے جس جس سطح پر، بقدر استطاعت اس کانفرنس کی کامیابی میں حصہ دار ہوئے ان کا شکر گزار بھی ہو اور دعا گو بھی کہ اللہ تعالی ان کے ان مساعی کو قبول فرمائے اور دنیا و آخرت میں ان کی کامیابی کا سبب اور ذریعہ بنائے۔
 میرے محترم دوستو! اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے قلعے میں شگاف ڈالنے والے لوگ، اس قلعے کو توڑنے والے لوگ، آج بھی دنیا میں مصروف ہیں لیکن ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں کو بھی، ان کے کارکنوں اور ان کے رضاکاروں کی جدوجہد کو، جو عقیدہ ختم نبوت کے سرحدات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ہمارے اکابرین کی قربانیاں ہیں اور آج وہ فتنہ جو کسی زمانے میں برصغیر کا فتنہ کہلایا جا رہا تھا اور جس کی سرکوبی سن 1974 میں پاکستان کی سرزمین پر کی گئی، آج وہ فتنہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے، جس طرح کل انگریز برصغیر میں ان کی پشت پہ تھا، آج پوری مغربی دنیا ان کے پشت پر ہیں، اور ہمارا اور کوئی مطالبہ نہیں، دنیا کے سامنے جمہوریت اور پارلیمنٹ ایک بہت بڑی دلیل ہے، سو پاکستان میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے آئین میں جو متفقہ ترمیم منظور کی ہے دنیا پارلیمنٹ کی ترمیم کو احترام کیوں نہیں دے رہی؟ یہ ہمارا ان سے سوال ہے، یا جمہوریت جمہوریت کی باتیں مت کرو، یا عوام اور پارلیمنٹ کی باتیں مت کرو، جھوٹ مت بولو، انسانیت کو دھوکا مت دو اور اگر تم واقعی عوام، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بات کرتے ہو تو پاکستان میں یہ عوام کی تحریک کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے اور پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ عالمی برادری کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ تمہارے نزدیک اور کوئی دلیل قبول نہیں لیکن عدلیہ آپ کی نظر میں ایک دلیل ضرور ہے، تو ریاست بہاولپور کے عدلیہ نے ان کو غیر مسلم قرار دیا تھا، جنوبی افریقہ کی عدلیہ نے ان کو غیر مسلم قرار دیا، حالانکہ وہ مسلمانوں کے عدلیہ نہیں، انہوں نے اسلام کے اصولوں کو پہلے سمجھا اور سمجھنے کے بعد ان کا کیس سنا اور پھر طے کیا کہ اسلام کے ان اصولوں کی بنیاد پر اس عقیدے کے ساتھ یہ لوگ مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں۔ تمہیں نہ پارلیمنٹ کا فیصلہ قبول ہے، تمہیں عدالت کا فیصلہ قبول ہے، تم کس بات پر انصاف کے علمبردار ہو، تم کس بات پر جمہوریت کے علمبردار ہو، تم کس بنیاد پر عوام کی بات کرتے ہو اور آج پاکستان پر دباؤ ہے، مختلف اطراف سے پاکستان پر دباؤ آرہا ہے، قادیانیت کے حوالے سے بھی کہ ترمیم واپس لی جائے، ان کو پاکستان میں دوبارہ مسلمان کا سٹیٹس دیا جائے، یہ بھی ان کا دباؤ ہے پاکستان کے اوپر، پاکستان کے اداروں کے اوپر، پاکستان کی حکومتوں کے اوپر، پاکستان کے پارلیمنٹ کے اوپر، کہ آپ سن 1974 کے ترمیم کو واپس لیں، پاکستان پر دباؤ ہے اقتصادی حوالے سے بھی، ہمارے ملک کی معیشت کو جس بے دردی کے ساتھ زمین بوس کیا گیا، آج وہ معیشت کسی سے بھی اٹھنے کو تیار نہیں، اسی لیے میں لفظ دلدل استعمال کرتا ہوں کہ پاکستان کو معاشی لحاظ سے ایک منصوبہ بندی کے تحت دلدل کی طرف دھکیلا گیا اور دلدل اسے کہتے ہیں کہ آپ اس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں آپ دستے چلے جاتے ہیں۔ تم نے پاکستانی معیشت کا کچومر نکالا۔ ہم تو روزمرہ کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں، آج جو حکومت ہمیں نظر آتی ہے ہم اسی کے اوپر الزام لگاتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ ملک کی معیشت کو بیمار کس نے کیا؟ ملک کی معیشت کی روح کس نے نکالی؟ ملک کی معیشت کو کفن کس نے پہنایا؟ ملک کی معیشت کو دفن کس نے کیا؟ قوم کے اندر اب اس شعور کو بیدار ہو جانا چاہیے، اتنا آسان نہیں ہے اس مشکل سے نکلنا، آج سٹیٹ بینک پاکستان کے وزیراعظم کو جوابدہ نہیں ہے، آج اسٹیٹ بینک پاکستان کی کابینہ کو جوابدہ نہیں ہیں، آج پاکستان کا سٹیٹ بینک پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہے، پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کو جوابدہ نہیں ہے، اس ملک پہ ایسے فیصلے کیے گئے کہ آپ کے ملک کا سب سے بڑا ریاستی بینک، اسے براہ راست آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا گیا اور آج وہ آئی ایم ایف کو جوابدہ ہے آپ کو نہیں۔ آپ کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اختیار آج آپ کی حکومت کے پاس نہیں رہا، آئی ایم ایف فیصلہ کرتا ہے ٹیکس لگاؤ، نہیں لگاتے تو تمہارے اوپر امداد بند، اس نے کلید اپنے ہاتھ میں لی ہوئی ہے اگر وہ پابندی لگا دے نہ چین آپ کو پیسے دے سکتا ہے، نہ سعودی عرب آپ کو پیسے دے سکتا ہے، نہ امارات آپ کو پیسے دے سکتا ہے، دنیا کا کوئی دوست ملک آپ کی مدد کو تیار نہیں ہے، آپ نے ان کی مرضی کے مطابق قیمتیں بھی چلانی ہوتی ہے، آپ نے ان کی مرضی کے مطابق ٹیکس بھی لگانے ہوتے ہیں، آپ نے ان کی مرضی کے مطابق بجٹ تیار کرنا ہوتا ہے اور ان کی مرضی کا بجٹ پارلیمنٹ سے پاس کرانا ہوگا۔ کہاں ہیں آپ کے آزادی؟ براہ راست برطانیہ موجود نہیں لیکن امریکہ کی قیادت میں عالمی اداروں کے شکنجوں میں آپ پھنس چکے ہیں۔ ان سے بھی نکلنا ہے یا نہیں نکلنا۔ اور میں آپ کو آج واضح الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں آپ ہماری قدر کریں یا نہ کریں، ہمارے بارے میں 100 باتیں آپ کریں، ہمیں آپ کسی کھاتے میں نہ ڈالیں لیکن جن سے آپ امید لگائے بیٹھے ہیں، جس سے بھی آپ امید لگائے بیٹھے ہیں، وہ آپ کو اس غلامی سے آزادی دلانے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ تھوڑا سا معاملہ سمجھنا ہوگا، پاکستان کی سیاست میں تبدیلی لانی ہوگی، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ جنرل مشرف صاحب کے زمانے سے کہ پاکستان کی مذہبی شناخت ختم ہو چکی تھی، پاکستان جو ایک مذہبی شناخت رکھتا تھا اور بین الاقوامی اصطلاح میں ایک دائیں بازو کا ملک تصور کیا جاتا تھا اس کی مذہبی شناخت ختم کر دی گئی، آج وہ ایک سیکولر سٹیٹ کے طور پر نظر آرہا ہے، کہاں گیا آپ کا آئین؟ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ رب العالمین کی ہوگی، پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہوگی، پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی، اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سفارشات مکمل کر چکا ہے آج تک اس پر قانون سازی نہیں ہو رہی، کوئی ہے پوچھنے والا، کون پوچھے گا؟ میں آج اس عظیم الشان اور فقید المثال اجتماع کو جھنجھوڑنا چاہتا ہوں، اس کے فکر کو جھنجوڑنا چاہتا ہوں، آپ کے دلوں کو جھنجوڑنا چاہتا ہوں، آپ کے احساسات کو جھنجھوڑنا چاہتا ہوں، آپ کے شعور کو جھنجوڑنا چاہتا ہوں، کہ کس سے امید لگائے بیٹھے ہو، کہاں کھڑے ہیں آپ من حیث القوم؟ ذرا اپنی سوچوں میں تبدیلی لانے ہوگی، آج آپ پر دباؤ ہے، صرف پاکستان پر دباؤ ہے، ہر طرف سے دباؤ ہے، امریکہ سے مغربی دنیا تک اور اس آگے کچھ اسلامی دنیا تک بھی یہ دباؤ ہم پر آرہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کریں۔ ایک طرف قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان بنانے کے لیے دباؤ، ایک طرف اسرائیل جو اس وقت قادیانیت کے لیے مرکزی کیمپ کا کردار ادا کر رہا ہے اور وہاں پر ان کے اڈے جمے ہوئے ہیں، اس کو تسلیم کرنے کے لیے ہمارے پاس دباؤ آرہا ہے۔ فلسطینی، فلسطینی مسلمان، فلسطینی بچے، بلکتے بچے، بے گھر، در بدر، کشمیری در بدر، اس کی کوئی پرواہ نہیں لیکن عالمی قوتوں کا ایجنڈا پورا ہونا چاہیے۔ انسانوں کی لاشوں پر اپنا ایجنڈا پورا کرنا چاہتے ہیں، مسلمانوں کی تڑپتی ہوئی لاشوں کے اوپر وہ اسرائیل کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان ڈکلیئر کرنے کا دباؤ ہمارے اوپر ڈالنا چاہتے ہیں، کوئی احساس نہیں ہے ان کو، قوموں کے مقام، قوموں کی قدر و منزلت اور قوموں کے حقوق کا کوئی احساس ان کو نہیں، جھوٹ بولتے ہیں جو انسانی حقوق کی بات کررہے ہوتے ہیں، ہم کسی کے انسانی حق کے خلاف نہیں، ہم خود پاکستان کا حق مانگ رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کیا جائے۔ 
ایک نئی لابی دنیا میں کام کر رہی ہے، میرے اور آپ کی شکل میں کام کر رہی ہے، مجھ سے اچھی پگڑیاں باندھنے والے، مجھ سے اچھی اچھی داڑھیاں رکھنے والے، بڑے آرام کے ساتھ وہ آپ کو کافر کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کو ختم کرو، جمہوریت کو ختم کرو، یہ ساری چیزیں ختم کرو اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کچھ چیزیں ہیں جو کہیں جا کر رکی ہوئی ہے اگر اس کا بند ٹوٹ جائے تو پھر کوئی چیز محفوظ نہیں ہوگی، نہ پاکستان کا نظریہ رہے گا، نہ پاکستان کا آئین رہے گا، نہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا تصور رہے گا اور آئین پارہ پارہ ہو جائے گا، اس آئین کو نشانہ بنایا ہوا ہے بہت سے لوگوں نے، اور کفر اور اسلام تو آپ کے اور ہمارے ہاتھ کی چیز ہے جب چاہیں کسی مسلمان کو کافر کر دیں جب چاہے کسی مسلمان کو مسلمان بنائے، جیسے ہمارا اختیار ہے، جیسے ہم نے فیصلے کرنے ہے۔ اس نازک حالات سے آپ گزر رہے ہیں۔
 دینی مدارس کے حوالے سے یاد رکھیں، دینی مدرسہ بر صغیر کا مسئلہ ہے، جس طرح قادیانیت اور فتہ قادیانیت بر صغیر کا مسئلہ ہے اور تھا اسی طرح دینی مدرسہ یہ بر صغیر کا مسئلہ ہے، آج نہ ہندوستان پر دباؤ ہے، نہ بنگلہ دیش پر دباؤ ہے، اگر ہے تو صرف پاکستان کے اوپر دباؤ ہے کہ پاکستان میں دینی مدرسہ کھل کر قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت کیوں کر رہا ہیں۔ کبھی دہشت گردی کو ہمارے ساتھ وابستہ کرتے ہیں، کبھی شدت پسندی کو ہمارے ساتھ وابستہ کرتے ہیں، اور ہمارے اپنے ملک کے ادارے، ہمارے نام نہاد دانشور، ہمارے ملک کی نام نہاد عقل، وہ بھی باتیں شروع کر دیتی ہے دینی مدرسوں میں تو فرقہ واریت پھیلائی جاتی ہے، او کمبختوں یہ معاملہ ایک دس دفعہ طے ہوچکا ہے، پھر بھی دینی مدرسے کے اوپر دباؤ ہے۔ معاملات حل ہوتے ہیں کون رکاوٹ بن جاتا ہے، دینی مدرسے کے معاملات میں رکاوٹ بننے والے قوتیں سمجھ لیں ہماری نظر میں تم مجرم ہو اور دینی مدرسے کی جنگ ہم لڑتے رہیں گے ان شاء اللہ العزیز تمہارا باپ بھی دینی مدرسہ کو بند نہیں کرسکتا۔ 
خدا کے لیے پاکستان پر رحم کرو، ہر چیز مان لو، قادیانیت کو مان لو، مدرسے کو ختم کر لو، آئی ایم ایف کو قبول کر لو، عالمی اداروں کو قبول کر لو، معیشت ان کے حوالے کر دو، سب کچھ حوالے کر دو، پھر پاکستان بنایا کیوں تھا، پھر اسلام کا نام کیوں لیا تھا، پھر اسلام کے نام پر اتنی قربانیاں کس لیے دی گئی تھی، ہم آج بھی اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کی جنگ لڑ رہے، ان کے خون کی تقدس کی جنگ لڑ رہے ہیں، اپنی ماؤں اور بہنوں کی عصمتوں کے تقدس کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پاکستان کی شناخت کو دوبارہ ایک اسلامی شناخت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ کیا ہمارا اور آپ کا اس پر اتفاق ہے کہ نہیں کہ پاکستان کے سیکولر شناخت کو ختم کر کے اس کی اسلامی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔ کچھ نظریاتی چیزیں ہم کہاں کھڑے ہیں، کہاں کہاں سے ہمارے اوپر دباؤ ہے اور ہم روزمرہ کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں، جو میڈیا صبح سے لے کر شام تک ہمیں دکھائے ہم اسی پہ تبصرے کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک بڑے نظریاتی جنگ کی طرف آپ نے جانا ہے اور یہ جنگ ہم نے جیتنی ہے، آپ میں قوت ہے لیکن آپ لوگ اس زاویے سے سوچیں تو صحیح، آپ نے ختم نبوت کو محض ایک مذہبی مسئلہ سمجھ لیا ہے، سیاست سے بالاتر سمجھ لیا ہے، اگر سیاست سے بالاتر ہے تو پھر اس کو پارلیمنٹ میں کیوں لے گئے، پھر اس کو عدالت میں کیوں لے گئے، پھر مدرسے کے درسگاہوں بھی اس کو طے کرتے، پھر مسجدوں کے ممبر پر ہم طے کرتے، اگر ہم اس کو پارلیمنٹ میں لے گئے ہیں، تو میں نے تو اس دن بھی جلسے میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کا معنی خود ہی کیا ہے آپ نے خود ہی خاتم النبیین کا معنی کیا ہے، إنما أنا خاتم النبيينَ لا نَبِيَّ بَعدي، لا نَبِيَّ بَعدي، خاتم النبیین کا معنی ہے، تو جہاں آپ نے ختم نبوت کا اعلان کر کے لا نَبِيَّ بَعدي فرمایا وہاں آپ نے سیاست کے حوالے سے بھی تو لا نَبِيَّ بَعدي، فرمایا كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبيٌّ، وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ فَيَكثُرُونَ۔ ایک پیغمبر آتا تھا چلا جاتا تھا دوسرا پیغمبر اس کی جگہ لیتا تھا بنی اسرائیل کے انبیاء سیاست کرتے تھے اور ایک سیاسی منصب چھوڑ کر دوسرے کے حوالے کرتا تھا اب وہ سیاسی منصب میرے حوالے ہے میرے بعد کوئی نبی نہیں اسے میرے بعد بہت زیادہ خلیفہ آئیں گے، لیکن اب نبی نہیں آئے گا، وہ خلیفہ تو آپ ہیں، تو کیا آپ خلافت کا مقصد پورا کر رہے ہیں، ذرا سوچو تو اسے اپنے گریبان میں جھانکر، انبیاء کے وارث کہلاتے ہیں اور العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، علماء انبیاء کے وارث ہیں اور وراثت یہ ہے کہ ہم اتنے بڑے معاملات کو، دینی اور مذہبی معاملات کو، کبھی فرقہ واریت سے جوڑ دیتے ہیں، کبھی دقیانوسیت سے جوڑ دیتے ہیں، کبھی اس کو ہم پتہ نہیں کیا کیا عنوانات دے کر ہم ان جان چھڑاتے ہیں تاکہ الیکشن میں اور سیاست میں یہ موضوع سخن نہ رہے، اس کو بھی کبھی زیر بحث لانا ہے یا نہیں لانا۔
 جو آئین ہمارے اکابر نے بنایا جس میں قرارداد مقاصد کو شامل کیا، جس میں اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب قرار دلوایا، قانون سازی کو قرآن و سنت کے تابع بنایا، کیا سن 1973 سے لے کر آج تک کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اتنے لمبے عرصے میں کوئی قرآن و سنت کے حوالے سے قانون سازی ہوئی بھی ہے؟ 1988 سے تو میں اسمبلی میں ہوں، اسمبلی جس طرح کے لوگوں سے بھر دی جاتی ہے ان کا قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوا کرتی، وہ ٹنگ ٹپاؤ سیاست کرتے رہتے ہیں۔ کب ہم نے نظریاتی حوالے سے سوچنا ہے، کب ہمارے فکر و دانش نے انگڑائی لینی ہے، اور اس حوالے سے بھی ہم نے سوچنا ہے، اگر اس حوالے سے آپ مضبوط ہونا چاہتے ہیں بخدا اسرائیل کا ایجنڈا بھی پسپا ہوگا، قادیانیت کا ایجنڈا بھی پسپا ہوگا، مدارس کے خلاف ایجنڈا بھی پسپا ہوگا اور پاکستان ایک اسلامی ریاست کا روپ دھار لے گا۔
تو اس حوالے سے ہمیں سوچنا پڑے گا کس کس ایجنڈے کے ساتھ پاکستان میں حکومتیں لائی جاتی ہیں، کس طرح ان کے نمائندے آپ پر حکومت کرتے ہیں اور کس خوبصورتی سے آپ کو ماما بنا لیتے ہیں، ذرا سوچ بھی لیا کریں کبھی کبھی معافی چاہتا ہوں آپ سے۔ اپنے پرائے کی پہچان ختم ہو گئی ہے، اچھے بھلے دینی لوگ، علماء کے لوگ، اپنی مجالس میں علماء کی غیبت کرتے ہیں اور فاسق اور فاجر کو سپورٹ کرتے ہیں، کبھی سوچا ہے آپ نے کہ آپ کر کیا رہے ہیں، ہم نے جدوجہد کرنی ہے نتائج کا مالک اللہ ہے نتائج کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا، نتائج کے بارے میں آپ لوگ پوچھتے ہیں خدا نہیں پوچھتا، وہ یہ پوچھتا ہے کہ تم نے اپنے مقصد کے لیے کام کیا بھی یا نہیں کیا، جدوجہد کی یا نہیں کی، توانائی صرف کی یا نہیں کی۔
 میرے محترم دوستو! پاکستان کو تباہ کر رہا ہے آج پہلے آپ کا سیاسی عدم استحکام، آپ کے ملک کا امن و امان، ہمارے لاشیں گر رہی ہیں، علماء کی لاشیں گر رہی ہیں، ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جس پاکستانی کا خون بہتا ہے ہم ہر پاکستانی کے خون پر روئے ہیں، خدا کرے کہ ان قوتوں کو یہ توفیق ہو کہ جب ہمارا خون گرے تو اس پر بھی ان کو رونے کی توفیق دے۔ 12 اپریشن کیے گئے گزشتہ 15 ، 20 سالوں میں، کہاں ہیں وہ امن و امان جس کے لیے قوم نے قربانی دی، جس کے لیے قبائل نے اپنے گھر بار چھوڑے، ہمیں کہا گیا افغانستان کی سرحد پر باڑ لگا دیا گیا ہے کوئی اب آر جا سکے گا نہ پار جا سکے گا تو 50 ہزار میرے لوگ ادھر کیسے گئے اور 50 ہزار ان کے لوگ اب میرے ہاں کیسے آگئے؟ میرا قبائلی علاقہ اور میرا صوبہ جل رہا ہے، کل باجوڑ میں ایک ہی جلسے میں میرے 73 ساتھی شہید ہوئے اور آج مستونگ کے علاقے میں کوئٹہ میں ہمارے حافظ حمد اللہ پر حملہ ہوا ان کے ساتھ ہی زخمی ہیں ہسپتال میں ہیں کچھ راہگیر بھی ہیں، کس پاداثشت میں میرا خون بہایا جا رہا ہے، پارلیمنٹ میں ختم نبوت کا مسئلہ آئے تو جمعیت کا کارکن کھڑا ہے، بڑی سازشیں ہم نے وہاں پکڑی ہے آپ کو تو پتہ ہی نہیں ہے، کہ چھپ چھپائے بہت کچھ ہوتا رہا اور کس طرح جا کر آخری لمحے پہ ہم نے پکڑی ہے وہ چیزیں، جب ہم نے پکڑی تو آپ تو موجود تھے پھر آپ کہاں تھے، بس آسانی سے یہ سوال کرنا تمہاری قدرت میں ہے، آگے آپ کو پتہ نہیں کہ ہمیں کن کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ حافظ حمد اللہ وہاں پر میدان میں کھڑا ہے، ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوا پارلیمنٹ میں جا کر، ناموس صحابہ کا مسئلہ حل ہوا پارلیمنٹ میں جا کر اور جس جمعیت علماء کو آپ گالیاں دیتے رہے ساری زندگی اسی جمیعت علماء کے ہاتھوں سے آپ کو یہ چیز ملی۔  
کوئی فرقہ وارانہ جنگ ہم نے نہیں لڑی، کوئی کسی کو کافر اور ان کا خون جائز نہیں کیا، دلیل کی بنیاد پر، ادارے کے اندر، وقت آگیا اور کیا ہے قانون میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے سزا میں اضافہ ہوا ہے، تو اگر ایک جنرل کی توہین پر سزا میں اضافے کا قانون پاس ہو سکتا ہے تو صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کی عزت و ناموس پر سزا بھی اضافہ کیوں نہیں ہو سکتا۔
 تو میرے محترم دوستو یہ جنگ ہم نے آگے بھی جا کر لڑنی ہے اور ان شاءاللہ العزیز ہم سیاسی محاذ پہ ہیں ہم کام کرتے رہیں گے اور آپ کو بھی اپنا زاویہ ٹھیک کر لینا چاہیے، اپنا رخ صحیح کر لینا چاہیے، وقت اور حالات آتے رہتے ہیں آپ نے اگر ہماری بات سن لی اور پھر مان لی اور پھر اس کے مطابق نتائج آئے، تو کافی بہتری یہاں جس کے آپ 75 سال سے انتظار کر رہے ہیں شاید آپ کو نظر آنے لگے اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو اللہ ہماری مدد فرمائے
 آمین ثم آمین 

ضبط تحریر: محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments