قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مفتی محمود مرکز پشاور میں صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس سے خطاب تحریری صورت میں 17 ستمبر 2023

 قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مفتی محمود مرکز پشاور میں صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس سے خطاب 
 17 ستمبر 2023
الحمدلله، الحمدلله وکفی والسلام علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آلہ وصحبہ و من بھدیھم اھتدی اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوۤاْ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُوْلَـٰئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ۔ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ ٱللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُوْلَـٰئِكَ هُمُ ٱلْفَآئِزُون۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔ (النور - 51 ، 52 ، 53) صدق الله العظيم 
حضرات علمائے کرام، صوبہ خیبر پختونخوا کے شوری اور تمام اضلاع کے امراء و نظماء، اور ذمہ داروں میں اس لحاظ سے آپ کا شکر گزار بھی ہوں کہ آپ نے میرے خواہش کو پورا کرتے ہوئے اس خصوصی اجتماع کا اہتمام بھی کیا اور بڑے شوق سے یہاں آپ تشریف لائے۔ 14 اکتوبر کو پشاور میں بہت بڑے پیمانے پر مفتی محمود کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے اور ان شاءاللہ العزیز آپ حضرات کی محنتوں سے، شب و روز کی جدوجہد سے اللہ مدد فرمائے گا اور یہ اتنا تاریخ ساز اجتماع ہوگا کہ صرف پورے صوبے کی سیاست میں نہیں بلکہ پورے ملک کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کے لیے سنگ میل ثابت ہو جائے گا۔ اس حوالے سے باہمی مشاورت کی ایک ضرورت تھی اور اس ضرورت کو آج آپ نے پورا کیا ہے، اس مناسبت سے میں کچھ باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا، یہ بات تو اول دن سے ہمارے ذہن نشین ہے، ہمارے دل و دماغ میں یہ بات رچی بسی ہے کہ جمیعت علمائے اسلام نے جو اسلام کی تعبیر کی ہے، اس کی جو تشریح کی ہے اور اس کا جو مفہوم عملی زندگی میں دنیا کو متعارف کرایا ہے، وہ ایک عالمگیر تصور ہے، وہ پوری انسانیت کی بہتری کا متقاضی ہے بلکہ اس کا داعی ہے، انسانی حقوق کا علمبردار ہے اور ایک بات جو ہم بار بار اس کا تکرار کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے اکابر کی طرف سے جو جماعت ہمارے سپرد ہوئی ہے، دو چیزیں ہمارے پاس امانت ہیں ایک جمیعت علمائے اسلام کا عقیدہ اور نظریہ اور ایک اس عقیدے اور نظریے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ۔ 
جب جمعیت علماء کی تاسیس ہو رہی تھی تو برصغیر کے ہر مکتب فکر کے علماء اس میں شریک تھے، اب جس عموم اور شمول کا تصور اس وقت تھا، اگرچہ عملاً وہ اب نہیں رہا اور لوگ اپنے اپنے مسلکوں کی طرف محدود ہو گئے لیکن نظریاتی لحاظ سے جمیعت نے اپنے منہج کو تبدیل نہیں کیا ہے۔ کتنے بڑے بڑے بحران ہمارے اوپر آئے، اگر ہمارا تعلق اہل سنت والجماعت سے ہے، ہم نے اہل سنت و الجماعت کی شناخت ختم نہیں کی ہے بلکہ دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے جو دین انسانیت تک پہنچایا وہ پوری انسانیت کی بہتری کے لیے ہیں۔ اس میں پوری انسانیت کے حقوق کا تحفظ ہے، اس کے جان کا، اس کے مال کا، اس کی عزت و آبرو کا، بعض دفعہ لوگ پھر اپنے عنوان سے بھاگ جاتے ہیں، میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے مسلمان کی بات مت کرو انسانیت کی بات کرو، بھائی وہ مسلمان ہونا خود انسانیت کے لیے ہے، اسلام خود انسانیت کے لیے ہے۔ اگر ہمارا زیادہ تر تعلق فقہ حنفی کے ساتھ ہے اور ہم احناف کہلاتے ہیں تو وہ شناخت بھی تو ہم نے ختم نہیں کی، لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قرآن و سنت سے جو استنباط کیا اور جو اجتہاد کیا اسلامی دنیا کے 90 فیصد تک لوگوں نے اسے ہی قبول کیا ہے اور ہمارے دیگر آئمہ کرام جو مجتہد تھے بہت سے مسائل میں انہوں نے امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا لیکن آج بھی وہ امام ابو حنیفہ کے فقہ کی رہنمائی حاصل کرنے کے محتاج ہیں۔ مجھے خود سعودی عرب کے ایک وزیر نے کہا کہ جزیات کی حد تک اگر رہنمائی کرتا ہے وہ ایک ہی فقہ ہے جو حنفی فقہ ہے اور ہمارے ملک کے فلانے فلانے شعبے میں فقہ حنفی کے قوانین رائج ہیں۔ صدیوں پر مشتمل عباسیوں کی حکومت، صدیوں پر مشتمل عثمانیوں کی حکومت، ایک ہزار سال تک برصغیر کے مغلوں کی حکومت، سب فقہ حنفی تھا، ہم نے وہ شناخت ختم نہیں کی۔ اگر ہمارے ماحول میں زیادہ تر لوگ دیوبند کے مدرسے سے منسوب ہیں تو وہ شناخت ہم نے ختم نہیں کی ہے لیکن ہم دیوبندیت کو مسلک نہیں سمجھتے، ہم نے بند کر دیا ہے دین اسلام کی تعبیرات کو ایک مسلک کے دائرے میں، جو یقینا ہمارے اکابر دیوبند کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ انہوں نے تو تمام علماء ہندوستان کو اکٹھا کیا جی، ایک عالمگیر اور آفاقی نظام کے ساتھ دین اسلام کو انسانیت تک پہنچایا، ہم کس بنیاد پر، معذرت خواہ ہوں لیکن یہ جو ہم نے دکانیں چمکائی ہوئی ہیں، اور ہم اس تعصب اور مسلک کی فرقہ واریت اور فتوے بازیوں پر روٹیاں کماتے ہیں، لقمے کماتے ہیں، یہ تو دیوبندیت نہیں ہے، یہ تو میرے اکابر کا مسلک نہیں ہے۔ اب ظاہر ہے آج ہم جس وطن عزیز میں کام کر رہے ہیں، آپ کو یہ معلوم ہے کہ تقسیم ہند پر اختلاف رائے رہا ہے، ہماری ہی اکابر میں سے کچھ علماء تقسیم کے خلاف تھے کچھ تقسیم کے حق میں تھے، فیصلہ انہی کی رائے پر ہوا جو تقسیم کے حق میں تھے۔ اب ہم میں پتہ نہیں کوئی ایک آدھ ہوگا یا نہیں ہوگا مجھے نظر نہیں آتا لیکن تقریباً ہم سارے جو ہیں وہ پاکستان کی پیداوار ہیں، پاکستان بننے کے بعد ہم پیدا ہوئے تو ہم نے تو پاکستان ہی دیکھا ہے آنکھیں کھولتے ہوئے، ہمارا تو اب یہی وطن ہے اور ہمیں جو معلومات ملتی ہیں وہ بعد کی تاریخ سے ملتی ہے بہت سی چیزیں، دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان تقسیم ہوا اور ایک سال کے بعد دو قومی نظریے کی بنیاد پر فلسطین تقسیم ہوا، یہاں مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ریاست قائم کی، وہاں پر اسرائیل قائم ہوا یہودی اور صیہونی مذہب کی بنیاد پر، ہم پہلے بنے وہ بعد میں بنے، اب ہمارا پہلے وجود میں آنا اور ان کا ایک سال کے بعد وجود میں آنا اس نے ایک سوال کھڑا کر دیا ہے کہ اگر دو قومی نظریے کے تحت ہمارا ملک بنانا جائز تھا تو پھر اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر فلسطین کو تقسیم کرنا کیوں ناجائز ہے؟ اور اگر اسلام کے مذہب کی بنیاد پر ریاست کرنا قائم کرنا جائز ہے تو پھر یہودی مذہب کی بنیاد پر ریاست قائم کرنا کیوں جائز نہیں؟ اور آج یہی وجہ ہے کہ آپ کے ملک کو وہ عناصر ہیں جو باقاعدہ اس پہ کام کر رہے ہیں اور بڑی دقت ہو رہی ہے اسی پاداشت میں قبلہ اوّل ان کے قبضے میں چلا گیا، فلسطینیوں کی سرزمین نہیں ہے، تو یہ ایک بڑا نظریہ قسم کا معاملہ ہے اور تاریخی لحاظ سے ان واقعات کی جو ترتیب ہے وہ ہمیں کیا درس دیتی ہے کیا معلومات دیتی ہے اور ظاہر ہے کہ کسی نے اس کے اوپر ایک سوچ اور فکر تو بنانی پڑے گی، دقتیں اور مشکلات تو ہمارے سامنے آرہی ہے، سوالات تو پیدا ہورہے ہیں، ہاں اتنی بات ضرور کہ 1940 کی جو قرارداد جسے قرارداد پاکستان کہتے ہیں، جو بانی پاکستان محمد علی جناح کی موجودگی میں پاس ہوا تھا، اس میں فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی گئی ہے اور فلسطینی علاقوں میں صہیونی اور یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی گئی ہے۔ تو وہاں سے اسرائیل کے حوالے سے جو ابتدائیات تھی، اس پر پاکستان کے تحفظات، اس کی ایک بنیاد ہمیں ملتی ہے اور پھر جب اسرائیل وجود میں آیا تو اس کے جو پہلا صدر تھا اس نے جو پہلا خارجہ پالیسی بیان دیا، اس نے اپنی خارجہ پالیسی کی اساس جہاں ایک اور دو تین نکات پہ رکھی وہاں ایک نقطہ خاص طور پر اس نے ذکر کیا کہ ہمارے خارجہ پالیسی کے اساس دنیا میں دنیا کے نقشے پر آنے والے ایک نو زائدہ مسلم ریاست کا خاتمہ ہوگا، تو انہوں نے پاکستان کے بارے میں اپنی رائے دے دی اور ہم نے پاکستان کی قرارداد میں ان کے بارے میں اپنی رائے دے تھی، وہی ہمارے لیے اساس ہے وہ ان کے لیے اساس ہے دوستی کی گنجائش کہاں رہ گئی۔ تو ان ساری چیزوں کو بطور طالب علم کی ہمیں سمجھنا پڑتا ہے اور آج یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا کی معیشت یہودی کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ میں بھی وہی حکومت کرے گا جو اسرائیل کی حمایت کرتا ہے، جو یہودیوں کے حقوق کی بات کرے گا، ان کی سپورٹ کے بغیر سیاست ہی نہیں چلتی۔ اس وقت جو صورتحال ہے ہمارے ملک میں، اب آپ جمعیت کے لوگ ہیں ساری زندگی ہمیں اس ملک کے اندر مخالفتیں رہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہی ہیں، بیوروکریسی کے ساتھ رہی ہیں، خوانین کی خلاف، سرمایہ داروں کے خلاف، جاگیرداروں کے خلاف، زمینداروں کے خلاف، مسلسل ہمارے اکابر جو ہیں وہ بولتے رہے ہیں، اس کی وجہ کیا تھی، کہ انگریز چلا گیا لیکن انگریز کی تابعداری نہیں گئی، انگریز کی پیروی نہیں گئی، میرے خیال آج بھی اگر ہمارے سکولوں میں آپ جائیں تو بچوں کو، بچہ جب چھٹی کی درخواست لکھتا ہے نا تو اس کی ابتدا میں لکھتا ہے i beg to say میں بھیک مانگتا ہوں، انگریز کے زمانے کی تحریر ہے جو سکولوں میں پڑھائی جاتی تھی اور آج ہم بھی اب بھی پڑھا رہے ہیں اور جب ہم خط کا اختتام کرتے ہیں تو پھر آخر میں لکھتے ہیں your obedient servant آپ کا نہایت وفادار غلام، نوکر، اب جس انگریز نے میرے دماغ میں، میرے بچے کے دماغ میں پہلے بھیک ڈالی اسکول کی چھٹی درخواست لکھے گا تو بھیک کے نام سے لکھے گا اور پھر وفادار نوکر کا لفظ اس نے آخر میں لکھوایا مجھ سے، وہ عادت بھی ابھی تک میری نہیں گئی، یہ جنگ ہماری ان کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے کہ تم کس کی پالیسیوں کو فالو کر رہے ہو؟ یار یہ تبدیل کرو۔ قمیض شلوار میں دفتر میں جانا عیب تصور کیا جاتا تھا، یہ تو جب 1972 میں یہاں پر مفتی صاحب کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے سرکاری لباس قمیص شلوار کرادی، دفتر میں آؤگے تو سرکاری لباس میں قمیص شلوار میں پھر یہ ذرا ٹرینڈ بن گیا کچھ اور لوگوں نے بھی پہنا شروع کر دیا۔ تو من حیث القوم ہمارے دل و دماغ میں یہ غلامی کے آثار مسلسل رکھے گئے ہیں، لیکن ایک عادت بنی ہوئی تھی، مزاج بن جاتا ہے بعض لوگوں کا مزاج بڑا خوشامدی مزاج ہوتا ہے خوشامد کرتے رہتے ہیں، لیکن آج آپ دیکھیں اس وقت کہ پورے خطے میں یعنی نہ انڈیا پر دباؤ، نہ بنگلہ دیش پر کوئی دباؤ، نہ انڈونیشیا پہ کوئی دباؤ، نہ ملائشیا پہ کوئی دباؤ، افغانستان بھی دباؤ سے نکل گیا، ایران بھی دباؤ کو قبول نہیں کر رہا، تو ایک پاکستان ہے جو دباؤ کے لیے اس وقت موجود ہے۔
جب سویت یونین تھا جو مذہب کو تسلیم نہیں کرتا تھا، مذہبی ادارے، مذہبی تعلیمات سب بند کر دی تھی اس نے، نائن الیون کے بعد وہ جگہ امریکہ اور مغرب نے لے لیا ہے، اب ان کو مذہب قبول نہیں ہے۔ نہ آپ کے ہاں بطور قانون سازی قبول ہے اور اپنے ہاتھوں وہ روزانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور قرآن کریم کی توہین ہے اور سلسلہ چلا آرہا ہے، غصہ بڑاس نکال رہے ہیں، تو ہم ان کو جواب میں کیا کہتے ہیں کہ موتو بغیضکم، جو حرکت کر سکتے ہو کرو لیکن قرآن بھی رہے گا اور اسلام بھی رہے گا ان شاءاللہ۔ تو مذہبی حوالے سے بھی دباؤ ہمارے اوپر، دینی مدارس کے حوالے سے بھی دباؤ ہمارے اوپر، حالانکہ دین مدرسہ تو برصغیر کی چیز ہے یہ تو ہندوستان میں مدرسہ بنا تھا تقسیم ہو گیا تو یہاں بھی مدرسہ ہے، انڈیا میں بھی ہے، بنگلہ دیش میں بھی ہے اور اگر ہمارے ہی لوگ یورپ چلے جاتے ہیں تو وہاں بھی اس قسم کی مدرسے کھول لیتے ہیں، افریقہ میں بھی کھول لیتے ہیں جو یہاں پڑھے ہوئے لوگ ہیں، لیکن صرف پاکستان میں دباؤ کیوں ہے؟ پاکستان میں رجسٹریشن بند کیوں ہے؟ یہاں پر ایف اے ٹی ایف کے شرائط کیوں ہیں اور انڈیا کے لیے کیوں نہیں ہے، بنگلہ دیش کے لیے کیوں نہیں ہے، یہاں پر ائی ایم ایف کے دباؤ کیوں ہے وہاں کیوں نہیں ہے اور بنگلہ دیش بھی کیوں نہیں ہے، تو مذہبی حوالے سے بھی پہلے تو یہ تھا نا کہ حالات دنیا کے اور تھے امریکہ اور مغرب جو ہے روس کی دشمنی کی وجہ سے مذہب کے ساتھ گزارا کرتا تھا تو ہم نے سن 73 کا آئین بھی بنا لیا اس میں قرارداد مقاصد بھی آگئی، اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی ہوگی اس کے خلاف قانون سازی نہیں ہوگی یہ ساری چیزیں آئین میں اگئی، ہاں لیکن عمل درآمد نہیں ہے لیکن جی، لیکن بنیادی اساس موجود ہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ روس والا صدر جو ہے وہ مساجد میں جاتا ہے قرآن سینے سے لگا کے کھڑا ہو جاتا ہے بیان دیتا ہے کہ قرآن کو جلانا یہ توہین ہے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہے اور یہ کبھی بھی اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں نہیں آتا اور امریکہ اور مغرب ہیں جو قرآن کو جلانے کے تماشے دیکھ رہے ہیں، سرکاری طور پر تحفظ کرتے ہیں ان کا، بالکل دنیا بھر میں، اس پلٹتی دنیا میں اگر ہم پرانی چیزیں بھی بچا لیتے ہیں یہ ہماری بڑی کامیابی ہوتی ہے، تو اس لحاظ سے بھی ہم انتہائی دباؤ میں ہے۔ معاشی لحاظ سے ہم دباؤ میں ہے، ہم پر ہی دباؤ اور پریشر ہے اور باقاعدہ ایسا یہاں پر اپنا ایجنٹ بنا کر انہوں نے حکمران بنایا ان کو اور ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ان کی نوکری اور وفاداری کا حق ادا کیا، ظلم تو یہ ہے کہ طاقتور بھی ہے، پاکستان ان کے نام پر الاٹ ہے، آپ ان پر تنقید بھی نہیں کر سکتے، تنقید کرتے ہیں جی فوج کی توہین ہو رہی ہے، دفاعی قوت جو ہے اس کا مورال خراب ہو رہا ہے اور ان کو کبھی یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہم پاکستان پر کیا ظلم کر رہے ہیں، چنانچہ باجوہ صاحب کے زمانے میں یہی ہوا کہ اس کو لایا گیا پھر بعد میں کہتے ہیں ہمیں تو پتہ نہیں تھا کہ اتنا نااہل ہوگا اتنا غلط آدمی ہوگا ہم نے تو بڑی امیدیں وابستہ کی ہوئی تھی۔ کوئی امید تمہیں نہ اس وقت تھی نہ آج ہے بس یہ ہے کہ اس وقت ان کا نشانہ سیاسی نظام تھا اس کو خراب کرنے میں کامیاب ہو گئے، پھر دوسرا نشانہ معاشی تھا معیشت کو تباہ کر گئے، اب جب ان کا نشانہ دفاعی نظام بن گیا تو اب تمہیں ہوش آگیا کہ وہ بھی تو ہمارے خلاف ہی کر رہا ہے، فوج بھی تقسیم کررہا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان جو اس وقت اگر اکٹھا ہے، تو یہ پاکستانی فوج کہتی ہے کہ ہم صرف مشترک ہیں سب کے اندر، باقی تو کوئی چیز مشترک نہیں رہی۔ تو اس لحاظ سے ایک ایسے عنصر کو پاکستان پر مسلط کیا گیا اور میں حیران ہوں اس مذہبی طبقے پر جو اسلام کی بات کرتے ہیں، جو جہاد کی بات کرتے ہیں، ہم غلام ہیں، فوج کے ہاتھوں غلام ہیں، اس لیے فوج کے خلاف جہاد ہمارے اوپر فرض ہے، تو جب یہودی ایجنٹ آپ پر مسلط ہوا اس وقت آپ کو یہ غلامی کیوں نظر نہیں آئی، جب باجوہ اور فیض حمید تمہارے اوپر مسلط تھے اور اس تمام غلامی کو ہم پر مسلط کیے ہوئے تھے یہودی ایجنٹ مسلط تھا اخلاق سے عاری ننگا انسان معاشرے کو بے حیائی کی طرف دھکیلنا، خود بھی آخری حد تک کا بے حیا وہ آج ان کو فرشتہ نظر آتا ہے علماء کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ جمعیت پر تنقید جائز ہوگی لیکن ان پر نہیں، ایسے بصیرت کے اندھے وہ ہمیں شریعت کا راستہ بتاتے ہیں، ہوتے کون ہے وہ، پورا ملک علماء سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کی جمعیت علماء میں اگر 30 لاکھ کی رکن سازی ہے، تو 30 لاکھ کی عمومی رکن سازی میں پانچ لاکھ تو علماء کرام ہی ہوں گے نا تو دنیا میں کوئی ایسا فورم ہے علماء کرام کا، ان کو کوئی پتہ نہیں چل رہا، تین چار بندوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم جہاد کر رہے ہیں، عنوان قائم کر لیتے ہیں اپنی طرف سے خود ہی، اب آپ مجھے بتائیں علماء کرام بیٹھے ہیں، مسئلہ بنیادی یہ ہے کہ حرام کو حرام سمجھنا اور حرام کا ارتکاب کرنا اور پھر اپنے آپ کو گناہگار سمجھنا یہ تو شاید اہل سنت و الجماعت کے نزدیک کفر نہیں، معصیت ہے کفر نہیں، لیکن حرام کو حرام ہی مت سمجھنا اور حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کرنا، اس کے بارے میں کیا رائے ہے آپ کی؟ کفر ہے یا نہیں؟ لیکن ہم نے یہ مسئلہ بیان نہیں کرنا، ہم نے یہ مسئلہ بیان کرنا ہے زنا کے حوالے سے، ہم نے یہ مسئلہ کرنا ہے چوری کے بارے میں، شراب کے بارے میں، ان چیزوں پر یہ مسئلے ہم نے بیان کرنے ہیں، ہم نے کبھی لوگوں کو یہ نہیں بتانا کہ ایک مسلمان کا خون کرنا حرام ہے اور ایک مسلمان کے خون کو حلال سمجھنا اور حلال سمجھ کر اس کو مباح قرار دے کر قتل کرنا، یہ کفر نہیں ہوگا؟ اسلام کے اندر سب سے بڑا گناہ وہ مسلمان کا قتل ہے۔ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا۔ پے درپے سزاؤں کا تذکرہ اللہ کررہا ہے، اتنا غضب ناک ہوتا ہے ایک مسلمان کے قتل ہونے پہ، ہم نے ایسے سمجھ لیا ہے، فتوے ہم نے خود اپنی طرف سے وضع کرنے ہیں، گھر بیٹھے بیٹھے فتوے بنا رہے ہیں، اس طرح بھی نہیں ہے بھائی، امتحانات ہم پہ آئے ہیں، آزمائشیں ہم پہ آئے ہیں لیکن استقامت سے رہے ہیں، استقامت سے رہینگے ان شاءاللہ اللہ خیر کریگا۔ 
مسائل پر اختلاف آتا ہے لیکن ہمارے اکابر و اسلاف کا جو انداز رہا ہے اس نے علوم کو سمجھا ہے کہ کہا تک میں نے کسی چیز کو مکروہ کہنا جب سویت یونین تھا جو مذہب کو تسلیم نہیں کرتا تھا مذہبی ادارے مذہبی تعلیمات سب بند کر دی تھی اس نے نائن الیون کے بعد وہ جگہ امریکہ اور مغرب نے لے لیا ہے، اب ان کو مذہب قبول نہیں ہے۔ نہ آپ کے ہاں بطور قانون سازی قبول ہے اور اپنے ہاتھوں وہ روزانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور قرآن کریم کی توہین ہے اور سلسلہ چلا آرہا ہے، غصہ بڑا کر رہے ہیں تو ہم ان کو جواب میں کیا کہتے ہیں کہ موتو بغیضکم، جو حرکت کر سکتے ہو کرو لیکن قران بھی رہے گا اور اسلام بھی رہے گا ان شاءاللہ۔ تم مذہبی حوالے سے بھی دباؤ ہمارے اوپر دینی مدارس کے حوالے سے بھی دباؤ ہمارے اوپر حالانکہ دین مدرسہ تو برصغیر کی چیز ہے یہ تو ہندوستان میں مدرسہ بنا تھا تقسیم ہو گیا تو یہاں بھی مدرسہ ہے، انڈیا میں بھی ہے، بنگلہ دیش میں بھی ہے اور اگر ہمارے ہی لوگ یورپ چلے جاتے ہیں تو وہاں بھی اس قسم کی مدرسے کھول لیتے ہیں افریقہ میں بھی کھول لیتے ہیں جو یہاں پڑھے ہوئے لوگ ہیں، لیکن صرف پاکستان میں دباؤ کیوں ہے پاکستان میں رجسٹریشن بند کیوں ہے یہاں پر ایف اے ٹی ایف کے شرائط کیوں ہیں اور انڈیا کے لیے کیوں نہیں ہے بنگلہ دیش کے لیے کیوں نہیں ہے یہاں پر ائی ایم ایف کے دباؤ کیوں ہے وہاں کیوں نہیں ہے اور بنگلہ دیش بھی کیوں نہیں ہے، تو مذہبی حوالے سے بھی پہلے تو یہ تھا نا کہ حالات دنیا کے اور تھے امریکہ اور مغرب جو ہے روس کی دشمنی کی وجہ سے مذہب کے ساتھ گزارا کرتا تھا تو ہم نے سن 73 کا ائین بھی بنا لیا اس میں قرارداد مقاصد بھی اگئی اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا قران و سنت کے مطابق قانون سازی ہوگی اس کے خلاف قانون سازی نہیں ہوگی یہ ساری چیزیں آئین میں اگئی لیکن عمل درامد نہیں ہے لیکن جی، لیکن بنیادی اساس موجود ہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ روس والا صدر جو ہے وہ مساجد میں جاتا ہے قران سینے سے لگا کے کھڑا ہو جاتا ہے بیان دیتا ہے کہ قران کو جلانا یہ توہین ہے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہے اور یہ کبھی بھی اظہار رائے کی ازادی کے زمرے میں نہیں اتا اور امریکہ اور مغرب ہیں جو قران کو جلانے کے تماشے دیکھ رہے ہیں سرکاری طور پر تحفظ کرتے ہیں ان کا، بالکل دنیا بھر اس پلٹتی دنیا میں اگر ہم پرانی چیزیں بھی بچا لیتے ہیں یہ ہماری بڑی کامیابی ہوتی ہے، تو اس لحاظ سے بھی ہم انتہائی دباؤ میں ہے، معاشی لحاظ سے ہم دباؤ میں ہے، ہم پر ہی دباؤ اور پریشر ہے اور باقاعدہ ایسا یہاں پر اپنا ایجنٹ بنا کر انہوں نے حکمران بنایا ان کو اور ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ان کی نوکری اور وفاداری کا حق ادا کیا، ظلم تو یہ ہے کہ طاقتور بھی ہے پاکستان ان کے نام پر الاٹ ہے، اپ ان پر تنقید بھی نہیں کر سکتے، تنقید کرتے ہیں جی فوج کی توہین ہو رہی ہے، دفاعی قوت جو ہے اس کا مورال خراب ہو رہا ہے اور ان کو کبھی یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہم پاکستان پر کیا ظلم کر رہے ہیں، چنانچہ باجوا صاحب کے زمانے میں یہی ہوا کہ اس کو لایا گیا بعد میں کہتے ہیں ہمیں تو پتہ نہیں تھا کہ اتنا نااہل ہوگا اتنا غلط ادمی ہوگا ہم نے تو بڑی امیدیں وابستہ کی ہوئی تھی۔ کوئی امید تمہیں نہ اس وقت تھی نہ اج ہے بس یہ ہے کہ اس وقت ان کا نشانہ سیاسی نظام تھا اس کو خراب کرنے میں کامیاب ہو گئے، پھر دوسرا نشانہ معاشی تھا معیشت کو تباہ کر گئے، اب جب ان کا نشانہ دفاعی نظام بن گیا تو اب تمہیں ہوش آگیا کہ وہ بھی تو ہمارے خلاف ہی کر رہا ہے، فوج بھی تقسیم کررہا ہے، ظاہر ہے کہ پاکستان جو اس وقت اگر اکٹھا ہے، تو یہ فوج کہتی ہے کہ ہم صرف مشترک ہیں سب کے اندر، باقی تو کوئی چیز مشترک نہیں رہی، تو اس لحاظ سے ایک ایسے عنصر کو پاکستان پر مسلط کیا گیا اور میں حیران ہوں اس مذہبی طبقے پر جو اسلام کی بات کرتے ہیں، جو جہاد کی بات کرتے ہیں، ہم غلام ہیں، فوج کے ہاتھوں غلام ہیں، اس لیے فوج کے خلاف جہاد ہمارے اوپر فرض ہے، تو جب یہودی ایجنٹ آپ پر مسلط ہوا اس وقت اپ کو یہ غلامی کیوں نظر نہیں ائی، جب جنرل باجوہ اور فیض حمید تمہارے اوپر مسلط تھے اور اس تمام غلامی کو ہم پر مسلط کیے ہوئے تھے یہودی ایجنٹ مسلط تھا اخلاق سے عاری ننگا انسان معاشرے کو بے حیائی کی طرف دھکیلنا، خود بھی اخری حد تک کا بے حیا وہ اج ان کو فرشتہ نظر آتا ہے علماء کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ جمعیت پر تنقید جائز ہوگی لیکن ان پر نہیں، ایسے بصیرت کے اندھے وہ ہمیں شریعت کا راستہ بتاتے ہیں، ہوتے کون ہے وہ، پورا ملک علماء سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کی جمعیت علماء میں اگر 30 لاکھ کی رکن سازی ہے، تو 30 لاکھ کی عمومی رکن سازی میں پانچ لاکھ تو علماء کرام ہی ہوں گے نا تو دنیا میں کوئی ایسا فورم ہے علماء کرام کا، ان کو کوئی پتہ نہیں چل رہا تین چار بندوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم جہاد کر رہے ہیں، عنوان قائم کر لیتے ہیں اپنی طرف سے خود ہی، اب آپ مجھے بتائیں علماء کرام بیٹھے ہیں، مسئلہ بنیادی یہ ہے کہ حرام کو حرام سمجھنا اور حرام کا ارتکاب کرنا اور پھر اپنے اپ کو گنہگار سمجھنا یہ تو شاید اہل سنت و الجماعت کے نزدیک کفر نہیں، معصیت ہے کفر نہیں، لیکن حرام کو حرام ہی مت سمجھنا اور حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کرنا اس کے بارے میں کیا رائے ہے اپ کی؟ کفر ہے یا نہیں؟ لیکن ہم نے یہ مسئلہ بیان نہیں کرنا ہم نے یہ مسئلہ بیان کرنا ہے زنا کے حوالے سے، ہم نے یہ مسئلہ کرنا ہے چوری کے بارے میں، شراب کے بارے میں، ان چیزوں پر یہ مسئلے ہم نے بیان کرنے ہیں ہم نے کبھی لوگوں کو یہ نہیں بتایا کہ ایک مسلمان کا خون کرنا حرام ہے اور ایک مسلمان کے خون کو حلال سمجھنا اور حلال سمجھ کر اس کو مباح قرار دے کر قتل کرنا، یہ کفر نہیں ہوگا؟ اسلام کے اندر سب سے بڑا گناہ وہ مسلمان کا قتل ہے۔ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا۔ پے درپے سزاؤ کا اللہ تعالیٰ تذکرہ کررہا ہے، اتنا غضب ناک ہوتا ہے ایک مسلمان کے قتل ہونے پہ، ہم نے ایسے سمجھ لیا ہے، فتوے ہم نے خود اپنی طرف سے وضع کرنے ہے، گھر بیٹھے فتوے بنا رہے ہیں، اس طرح بھی نہیں ہے بھائی، امتحانات ہم پہ آئے ہیں، آزمائشیں ہم پہ آئے ہیں لیکن استقامت سے رہے ہیں، استقامت سے رہینگے ان شاءاللہ اللہ خیر کریگا۔ مسائل پر اختلاف اتا ہے لیکن ہمارے اکابر و اسلاف کا جو انداز رہا ہے اس نے علوم کو سمجھا ہے کہ کہا تک میں نے کسی چیز کو مکروہ کہنا ہے، کہاں تک میں نے کسی چیز کو مکروہ تحریمی کہنا ہے، کہاں تک میں نے کسی چیز کو حرام کہنا ہے اور کہاں تک میں نے کسی چیز کو کفر کہنا ہے۔ آج تو مسئلے میں اختلاف ہوا اور سیدھا کفر، بحث کی گنجائش ہی نہیں، اور دوسری کوئی گالی ہمارے پاس نہ ہو تو بدعتی کہنا تو بہت آسان ہے، فاسق فاجر کہنا تو بہت آسان ہو جاتا ہے۔ کبھی آپ نے مغرب کا بھی مطالعہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف کیا سوچتے ہیں کہ علماء کرام کہیں مسجدوں میں اور خطبوں میں اس کا بھی ذکر کریں۔ جلدی سے اپنے گھر کے پڑوس میں کوئی دوسرا مولوی ہوتا ہے تو حیات ممات کا مسئلہ ہوتا ہے اسی کو موضوع بناتا ہے، کوئی قریب میں بریلوی کی مسجد ہے تو اسی کو موضوع بنا دیتے ہیں اور اگر کہیں شیعہ قریب ہے تو پھر تو ۔۔۔۔ اس سے آگے کوئی ہمارے مسائل نہیں ہے؟ جمیعت علماء اس ترجیحات کو بتانے والی جماعت ہے۔ سیاست نام ہے الأھم فالأھم کو سمجھنے کا، جو آدمی الأھم فالأھم کو نہیں سمجھتا وہ سیاستدان نہیں ہوسکتا۔ گھر بیٹھے بیٹھے فتوے شروع کر دیتے ہیں، کوئی احتیاط تو ہونا چاہئیے، اگر واقعتاً وہ کفر ہے ہمیں کیا انکار ہوگا کفر کفر ہے لیکن جذبات میں آکر فیصلہ دے دینا یہ تو ہمارے اکابر کا طرز نہیں، بریلوی دیوبندی کے اختلافات کب سے چلے آرہے ہیں، وہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اور احمد رضا خان بریلوی مرحوم اس زمانے سے چلا آرہا ہے، آپ مجھے بتائیں کہ دیوبند کا ایک فتوی کوئی ثابت کر دے دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی کوئی ثابت کر دے کہ انہوں نے مسلک بریلوی کے لوگوں کو مشرک کہا ہو، ایک فتوی بھی ثابت کردے، اور ہمارے خطیب ایسے بولتے ہیں جیسے کہ دیوبند کا نظریہ یہ ہے، ہم ادھر پھنس جاتے ہیں اس میں، تو سیاسی لحاظ سے آج ہمارا کیا حال ہے، کس قسم کے لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط کیا ہے، جس نے ہمارے مذہب کو تباہ کیا، جس نے ہماری تہذیب کو تباہ کیا، تہذیب جب آپ کی اوپر سے آپ کے حیا کی چادر چھین لی جائے اور مذہب جو آپ کے اندر کے عقیدے کو چھین لیا جائے، بس اس کے بعد آپ حیوان ہے، کوئی پابند نہیں آپ، اور اس کا سب سے پہلا حملہ انہوں نے آپ کے صوبے اس خیبرپختونخوا کے پشتون بیلٹ پہ کیا۔ اور یہ میں کہہ چکا ہوں آپ حضرات کو بارہا کہہ چکا ہوں میرے سامنے اعتراف کیا ہے کہ ہم نے نوجوان نسل کو مذہب سے بیزار کرنے کے لیے این جی اوز کے ذریعے 15 سال محنت کی ہے اور پیسا لگایا ہے اور آج بھی اگر ہم پشتون بیلٹ کو مذہب سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس عمران خان سے زیادہ مناسب کوئی اور آدمی نہیں ہے، یہ ساری چیزیں میرے سامنے کر چکے ہیں وہ لوگ کر چکے ہیں جو ان کی وکالت کرتے تھے، تین ملاقاتیں کئیں میرے ساتھ انہوں نے، اس پر آمادہ کرنے کے لیے مجھے کہ آپ سختی چھوڑ دے، اور آخر میں مجھے جو دھمکی دی وہ یہ تھی کہ مولوی صاحب پھر پیسہ آئے گا اور بہت بڑا پیسہ آئے گا اور گلی گلی کوچے تک پہنچے گا اور آپ کے مولوی تک پہنچے گا اور خطیب تک پہنچے گا اور امام تک پہنچے گا اور تم تنہا رہ جاؤ گے تمہارا مولوی بھی آپ کے ساتھ نہیں ہوگا۔ پھر آپ کو یاد ہے وہ 10، 10 ہزار روپے کا جو اعزازیہ آیا اور کیسے علماء نے جو ہے تحصیل تحصیل میں بیٹھ کر بند کردیا، ہم نہیں لیتے، اب نہ ہمارے پاس مولوی ہے نہ ہمارے پاس مسجد ہے نا ہمارے پاس امام ہے نہ خطیب ہے۔ یہ چیزیں ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اللہ کے دین کے لیے جو آدمی کام کرتا ہے اللہ اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اس کی مدد اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور آج جو کچھ بھرم رہ گیا ہے وہ آپ حضرات کی اس جدوجہد کی وجہ سے ہیں۔
 اب ان حالات میں بھی آزمائشیں ہیں تو اس وقت جمیعت پہ ہیں، باجوڑ کا سانحہ ہوا کس جرم کی پاداش میں؟ کس شریعت کے تحت؟ کس کے ایجنٹ ہو تم؟ کم از کم اسلام کے ایجنٹ تو نہیں ہو، یا بالکل احمق ہو تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے، جذبات کے تابع فیصلے کرتے ہو اور اتنے اندھے ہو کر اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتے ہو، کسی مسلمان بھائی کو کافر کہنا اس کی ایمان کا انکار کرنا تو بذات خود کفر ہے، کسی مسلمان کے قتل کرنے کو جائز سمجھنا یہ تو بذات خود کفر ہے، ان اعمال کے ذریعے وہ ہمیں متاثر کریں گے مجبور کریں گے، ہاں غصہ نکال لیں گے ٹھیک ہے غصہ نکال لیں، اور اس واقعے سے پہلے بھی تو ہمارے باجوڑ میں میرے خیال میں ہمارے کوئی ڈیڑھ دو سالوں میں 20 ساتھی شہید ہوئے اور ابھی اس واقعے کے بعد پھر دو تین شہید ہوئے، اور آج وزیرستان میں جائے روزانہ تین چار لاشیں جو ہیں ٹارگٹ ہوتے ہیں، جنوبی وزیرستان میں جائے یہی صورتحال ہے، ٹانک میں جائے یہی صورتحال ہے، آپ کے صوبے میں آپ مجھے بتائیں الیکشن کیسے لڑیں گے؟ اب اس بات کو ہمیں ذرا سمجھنا چاہیے۔ ایک ہوتا ہے کام کا آغاز اس میں آپ کے جذبات بھی شامل ہو سکتے ہیں اس میں آپ کی خواہشات بھی شامل ہو سکتے ہیں، لیکن جو بھی آپ بڑا فیصلہ کرتے ہیں ابتدا سے زیادہ انجام پہ آپ نے بات کرنی ہوگی کہ اس کے نتائج کیا ہو ہونگے۔ آج اگر ریاست کے خلاف بندوق اٹھائی جاتی ہے، ٹھیک ہے آپ اپنے جذبات کو ٹھنڈا کر سکیں گے، اپنے آپ کو مطمئن کر سکیں گے، اسلام کا بڑا میٹھا نام ہے اس کا نام استعمال کر کے جو چاہو کرو، چاہے اس سے اسلام کا بیڑا غرق ہو، لیکن نتیجہ کیا نکلے گا؟ نتیجہ سیاسی عدم استحکام ، الیکشن اگر نہیں ہو سکیں گے بد امنی کی وجہ سے، تو دنیا دیکھے گی اس صورتحال کو، اچھا پاکستان میں اتنے برے حالات ہیں کہ الیکشن نہیں ہو سکتے، سیاسی عمل کے لیے رکاوٹ ہے تو پھر سرمایہ کاری نہیں ہوگی، پھر باہر کے ممالک آپ کو پیسہ نہیں دیں گے ان کا دماغ خراب نہیں ہے کہ یہاں پر وہ اربوں ڈالر جو ہیں یہاں پر ضائع کرتے رہیں، تو پاکستان برباد ہو گا یا نہیں ہوگا معاشی لحاظ سے؟ تو ریاستیں تو حضرت معیشت کی بنیاد پہ چلتی ہے، انسانی حقوق کا تحفظ اور معیشت۔ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ (البقرة 126)۔ فَلۡيَعۡبُدُواْ رَبَّ هَٰذَا ٱلۡبَيۡتِ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ (قریش 3 ، 4 )۔ معاش ہے اور امن، امن بھی نہ رہے اور معاش بھی تباہ ہو جائے۔
 میں آپ کو ایک بات بتا چاہتا ہوں، میں نے پرسو انٹرویو میں بھی یہ بات کہی، پوچھا گیا کہ جی یہ جو حکومت گئی ہے اس کے بعد تو آپ لوگ بھی کنٹرول نہیں کر سکے۔ میں نے کہا زرا حساب کتاب لگائے، اس سے پہلے بھی ایک حکومت تھی وہ بھی ہماری تھی، سارا پی ڈی ایم نہیں تھا لیکن شامل جماعتیں اس میں تھی، پاکستان کی سالانہ مجموعی ترقی کی شرح کو چھ فیصد پہ لے آئے تھے اور جب ہمارے پاس ان کی حکومت آئی تو ہماری معیشت سالانہ مجموعی ترقی زیرو پہ آئی ایک سال میں پہ لائی، مائینس پہ لائی، ہم نے پاکستان کو پوری دنیا کی معیشت کا 24 نمبر کی معیشت پہ لے آئے، 24 نمبر کی معیشت پہ، یہ جو ابھی انڈیا میں جی 20 کا اجلاس ہوا ہے یہ جی 20 میں ہم چار پوائنٹ پہ رہ گئے تھے ورنہ آج ہم نے اس کی ممبر ہوتے اور عمران خان کی حکومت میں ہم دنیا کی معیشت میں 47ویں نمبر پر چلے گئے، اب کوسو دور ہے کہ آپ دوبارہ جو ہے اس پوزیشن پہ آئے، دنیا میں میرے پڑوس ہو رہا ہے انڈیا کی سرزمین پہ ہو رہا ہے اور ایک زمین ایک انسان کی بات کرتا ہے، اب ایک زمین ایک انسان، جس طرح چین کہتا ہے ون بیلٹ ون روڈ، تو یہ بھی کہتے ہیں ون ارب ون یونٹ، اور جتنے بھی جی 20 کے ممالک ہیں وہ منسلک ہیں۔ دو قومی نظریہ کہاں گیا، اب اتنا پیچھے پاکستان کو چھوڑنا کہ ان موضوعات کو اب ہم چھیڑ نہیں سکتے فضول ہے، ہمارا کیا تم ہمیں سنیں گے کیسے، کس کھاتے میں ہمیں سنیں گے۔
 اس حکومت میں ہم دیوالیہ پن تک پہنچے ہیں۔ میں جب لفظ دلدل استعمال کرتا ہوں لیکن اس نے ہمیں دلدل کی طرف دھکیلا ہے دلدل ہے ایسی چیز کہ آپ جب اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو دستے چلے جاؤ گے، نکلنے کی کوششیں جو ہیں انسانی دائرہ کار پر منحصر ہے، اب پھر ہمارا اختیار چھین لیا گیا، سب کچھ ہمیں آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا گیا، آج ہماری قیمتوں کا تعین آئی ایم ایف کرتا ہے، تیل کی قیمت بڑھاؤ یہ وہ کہتا ہے، ہمارا سر اور منہ کالا، ہمارے حکمران صرف گالی کے لیے رہ جاتے ہیں کہ پبلک گالیاں دیں، ہم کم کرتے ہیں پابندی لگا دیں گے ہم آپ کے اوپر، کوئی دنیا کا ملک آپ کو مدد نہیں دے گا، تو وہ پابندی لگاتے ہیں تو کوئی ہماری مد بھی نہیں کر سکتا، ٹیکس لگاؤ، اب پاکستان میں اگر دنیا کے نرخوں کو دیکھا جائے تو مثال کے طور پر اگر ایک لیٹر کی قیمت جو ہے وہ 20 روپے ہے اور میں لوگوں کو دے رہا ہوں 10 روپے پہ جیسا کہ ایسا بھی ہو وہ فوراً پکڑ لیتے ہیں، مینیج کرو، آپ کی ہاں قیمت جو ہے 20 روپے کی ہے 10 روپے کیسے دے رہے ہیں؟ اگر ہم سبسڈی دینا چاہیں، تو کہتے ہیں تمہارا پیسہ کدھر ہے نہیں دے رہا ہوں تم کو، تو ہمارے قیمتوں کو بڑھانا بھی اس کے ہاتھ میں، کم کرنا بھی اس کے ہاتھ میں، ٹیکس لگانا بھی اس کے ہاتھ میں، ٹیکس ختم کرنے بھی اس کے ہاتھ میں، بجٹ بنانا بھی اس کے ہاتھ میں، صرف پیش ہم کرتے ہیں اور یہ کس نے کیا باقاعدہ عمران خان نے معاہدے کئیں، پھر آپ کے اپنے ملک کا سٹیٹ بینک جو آپ کے روپے کی قدر کا مقابلہ کرتا ہے ڈالر کے ساتھ، آپ نے اس کو بھی آئی ایم ایف سے وابستہ کر دیا، آج وہ نہ آپ کے حکومت کو جواب دہ ہے، نہ آپ کی کابینہ کو جواب دہ ہے، نہ وزیراعظم کو جواب دہ ہے، نہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے، نہ اس کی کسی کمیٹی کو جواب دہ ہے، وہ ڈائریکٹ آئی ایم ایف کو جواب دہ ہے۔ اگر کوئی محب الوطن اس کا گورنر بن جاتا ہے تو وہ شاید اپنے طور پر کوئی گزارا کرے پاکستان کے ساتھ ورنہ لوگوں کے لیے میں نہیں مانتا۔ تو یہ ہماری معیشت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ جو نئی حکومت آئی ہے ابھی ہم نے تقریبا چھ ارب ڈالر کے قرضے واپس کیے ہیں اپنے اس ایک ڈیڑھ سال کے اندر، چھ ارب قرضے ہم نے ری شیڈول کیے ہیں، دو تین مہینے پہلے تک جب حکومت ابھی نہیں بنی تھی تو دو تین ارب ڈالر کے ہم بات چیت میں تھے، دیوالیہ پن کے کنارے پر تھے، چند دن باقی تھے کہ ہم پر حکم ہو جاتا اگر ہم حکومت کو تبدیل نہ کراتے تو ہم دیوالیہ کے ہو جاتے ہیں اور دیوالیہ کے بعد آپ کا ملک افریقی ممالک کی طرح ہو جاتا، سری لنکا بن جاتا، اس دیوالیہ سے نکال کر ہم نے ایک اچھے ٹریک پہ ڈال کر ان کے حوالے کردیا ہے، قرضوں کے بوجھ کے کم کے ساتھ ان کے حوالے کیا ہے، تو یہ بھی تو ایک سال کا تھا، 12 جماعتوں کی حکومت تو پانچ چھ مہینے تک سیٹ نہیں ہو رہی تھی، تو یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ جس میں الحمدللہ یہ جو فتنہ ہم پر مسلط ہوا ہے اور جس کے ملک کا کنگال کر کے رکھ دیا ہے یہ ان کے لوگوں کو سمجھانا اور میں آپ یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ جو ہم سخت زبانیں استعمال کرتے ہیں بعض دفعہ سوشل میڈیا کے اوپر ان کے ساتھ گلی کوچوں میں ان کو باقاعدہ ہمیں سمجھانا چاہیے یہ سارے چیزیں، پشتون لوگ ہیں ان کا اپنا کلچر ہے، پشتون کا اس کلچر سے کیا تعلق، بے حیائی، فحاشی، گندگی، غلاظت۔ محلے محلے میں جاکر گھومنا، حجرے حجرے میں جاکر گھومنا، شائستگی کے ساتھ اور دلیل کے ساتھ بات کرنا، اُن کے پاس تو سیاست ہی نہیں بس گالی ہے، مجھے گالی دی بس کمال کردیا، آپ کو گالی دی کمال کردیا، داڑھی والے سارے منافق ہیں 80 فیصد منافق ہے اور 20 فیصد والے پر مجھے شک ہیں! پھر بھی داڑھی والے ان کے ساتھ لے رہے ہیں، اس قسم کی چیزیں انہوں نے پیدا کی ہیں اور اس کو ہم نے دعوت دیا، ملک عطا کیا، یہ جو صوبہ ہے (خیبرپختونخوا) اس صوبے میں چونکہ انہوں نے نو سال حکومت کی جو نو سال حکومت کرے گا تو کچھ نہ کچھ تو ظاہر ہے نیچے بنائے گا، لیکن آپ کو یاد ہوگا یہ جو بلدیاتی الیکشن ہو رہے تھے تو انہوں نے دو مرحلوں میں کرائیں، جو پہلا مرحلہ تھا ان کا، وہ انہوں نے وہ وہ علاقے چنے تھے جو ان کو یقین تھا کہ یہاں تو وہ باری اکثریت سے جیتیں گے اور پھر دوسرے مرحلے پر اس کا اثر پڑے گا لیکن جمعیت علماء اسلام نے پہلے ہی مرحلے میں ان کو پچھاڑ دیا، پہلی بار میں، اب اس کو برقرار کیسے رکھیں گے ہم؟ آپ یہاں پہ ایک اچھے متبادل کے طور پر نظر آئیں گے؟ ذرا پبلک کو سمجھانا ہوگا کہ حضرت میرے ملک کی اسلامی شناخت ختم ہو گئی ہے، میں ایک سیکولر ملک نظر آرہا ہوں اور ان لوگوں نے مجھے کہا لا کے کھڑا کر دیا ہے، بات کرتا ہے اسلاموفوبیا کا میں نے اسلام کے لیے یہ کیا، ریاست مدینہ اب ریاست مدینہ کی تشریح کیا کرتا ہے! ریاست مدینہ کی تشریح یہ ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر یہ کہتے ہیں نہیں کہتا تو پھر اگر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو پھر اسی ریاست مدینہ کے قانون کے مطابق اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ لیکن ریاست مدینہ کی تشریح میں قانون اگر سب کے لیے برابر لیکن وہ قانون اگر اس کے خلاف متوجہ ہوتا ہے تو عدالت میں درخواست پہ درخواست، میرے خلاف نہ سنا جائے، میرے خلاف نہ سنا جائے، وہ قانون سے مستثنیٰ رہے باقی سب کے لیے ہو، یہ کون سا اسلام ہے؟ انصاف کی نفی، تو یہ تحریک انصاف جو ہے نا اس میں انصاف کے انصاف تو بالکل بھی نہیں ہے تحریک تاریک ہے، انصاف کچھ نہیں ہے، یہ چیزیں آپ نے پبلک کو سمجھانی ہے، میں تو اب بھی کہتا ہوں دو سیاسی پارٹیاں ہیں اب ہم تو سیاست میں رہتے ہیں، پارلیمنٹ میں رہتے ہیں، ووٹ لیتے ہیں، جب ووٹ لیتے ہیں تو پبلک کی کچھ امیدیں ہم سے وابستہ ہو جاتی ہیں، ہمارے حلقے کے لوگوں کے مسائل ہم سے وابستہ ہو جاتے ہیں، تو کچھ گزارے کی سیاست ہم کرتے ہیں، ہماری حکومت تو بنی نہیں ابھی تک جس طرح حکومت ہوتی ہے اور ایک حکومت بنی تھی بات 2002 میں ایک حسبہ قانون پاس نہیں کرا سکے، عدالت نے اڑا کر دی، جب اسٹیبلشمنٹ پوری کی پوری عدلیہ کی بشمول وہ اسلام کے حوالے سے اس قسم کی سوچ کے حامل ہو آپ بتائیں کہ آپ کے لیے کتنی منزل باقی ہے؟ کیا کیا کچھ ابھی آپ نے کرنا ہے؟ کس طرح آپ نے آگے بڑھنا ہے، یہ وہ سارے معاملات ہیں۔
اسرائیل کے لیے صرف پاکستان پر دباؤ کیوں ہے؟ نہ انڈیا پر دباؤ ہے، نہ بنگلہ دیش پہ دباؤ ہے، نہ ایران پہ دباؤ ہے، نہ افغانستان پہ دباؤ ہے، ایک پاکستان پہ دباؤ ہے اور عمران خان کی حکومت میں تو یہ حال کر دیا تھا کہ صبح و شام ٹی وی کے اوپر یہی بحث ہو رہی تھی اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہئیے اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے، یہاں تک کہ ہمارے صفوں کے اندر تک پہنچ گئے اور ہماری صفوں سے اپنی تائید میں انہوں نے بیان دلوا دیا، یہ تو جمیعت کی اپنی ایک کمٹمنٹ تھی کہ پھر نظریے کے مقابلے میں شخصیت کی پرواہ نہیں کی، میں آج بھی آپ سے کہتا ہوں کہ اگر جمیعت سے ہم نے کسی کو نکالا ہے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ ہم اس کی بےادبی بھی کریں گے، گستاخیاں بھی کریں گے، گالی بھی دیں گے، نہیں! احترام اپنی جگہ پر، ہاں جماعت کی نظم میں نہیں، اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں، کیا جماعت کے اندر متبادل تنظیم نہیں بنائی؟ کیا اسرائیل کو پاکستان میں تسلیم کرنے کی بات جمعیت کی منشور کی نفی نہیں ہے؟ یہاں تک پہنچ گئے وہ لوگ۔ تب جاکر ہم نے کراچی میں ملین مارچ کیا، اور اس میں حماس کے صدر کو بھی ہم نے لیا اور بیت المقدس کے خطیب کو بھی ہم نے لیا اور فلسطین کی مفتی کو بھی ہم نے لیا اور انہوں نے وہاں سے خطاب کیا، اس کے بعد گھر گئے، لیکن ان کی دماغوں سے اب یہ بات نکل نہیں رہی، وہ ذہنیت موجود ہے اور خاص طور پر یہ جو ہمارے ریٹائرڈ جرنیل ہیں، ریٹائرڈ بڈھے جرنیل، بہت شوق ہے ان کو، او بھائی ارام سے بیٹھو گھر میں، یہ پاکستان میں طوفان کھڑا کردیا، آگ بھڑک اٹھائی اس سے، اتنی بھی اسان نہیں ہے یہ مراحل طے کرنا، اسلامی دنیا کو بھی بتا دینا چاہیے اور ٹرمپ ہے ٹرمپ آیا اور اسے عربی ممالک کی گردن مروڑ دی اور پھر تو مروڑ کے کچھ ہمارے ساتھ بھی منوانا چاہتا تھا۔ یہ تینوں ایک پیج پہ ہو گئے تھے، عمران خان، باجوہ، فیض حمید یہ تینوں ٹرمپ کے آفس میں پہنچے اور وہاں پر تین چیزوں کا سودا ہوا، کشمیر کو ماننا ہے، قادیانیوں کے لیے ترمیم واپس لینی ہے اور کشمیر کو جس طرح میں نے ایک بات کی پہلے پتہ نہیں وہ تاریخی لحاظ سے کتنی صحیح ہوگی وہ تو آپ لوگ سٹڈی کریں گے تو پتہ چلے گا کہ میں نے صحیح کہا یا غلط کہا ہے لیکن جب ہم کشمیر انڈیا کے حوالے کر رہے تھے اور یہ پلان ہو چکا تھا تو اس سے پہلے ہم نے بالکل وہی کام فاٹا کے ساتھ کیا، فاٹا کو اس طرح انضمام کرو کہ جب کل کشمیر کا انضمام ہوگا تو ہم اس کا اعتراض نہ کرسکیں گے، ابھی تو ہمارے ہاں بہت سی چیزیں ہیں، انہوں نے کہا جی امریکہ کا دباؤ ہے، مجھے امریکی لوگ ملے ہیں کہ آپ نے کرنا ہوگا، اب یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ اگر تو کوئی ملک آتا ہے اور فزیکلی ہمارے اوپر حملہ کرتا ہے اور ہم پہ قبضہ جما لیتا ہے جیسے انگریز نے جمایا، تو پھر ہمارے لوگ لڑے ہیں، اسلحہ اٹھا کر بھی لڑے، پھانسیاں بھی قبول کئیں۔ افغانستان اور امریکہ آیا، 28 ممالک آئے، انہوں نے حملہ کر دیا انہوں نے مسلح جنگ لڑی، لیکن ہمارے اوپر اس طرح کوئی براہ راست ان کی فوج حکومت نہیں کر رہی، ہاں سیاسی اثر و رسوخ، معاشی اثر و رسوخ، اسی دباؤ میں ہمیں لا کر تو پھر جس حوالے سے ان کا دباؤ ہے اسی حوالے سے مقابلہ کریں گے۔ پڑوس میں بھی لوگوں کے معاملات ہوتے ہیں، زمین کے معاملا ہوتا ہے، گھر کے لین دین کے معاملات ہوتے ہیں اور اگر وہ عدالت میں ہے تو عدالت میں مقدمہ لڑتے ہیں، جرگہ میں ہے تو جرگے میں بات کرتے ہیں، بات بات پہ بندوق نہیں اٹھاتا کوئی، اصل میں دنیا کا یہی نظام ہے تو مقابلہ کرینگے اور ہم تو یہی بات اپنی اداروں سے کہتے ہیں، تم ذرا ٹھہر جاؤ، تگڑے ہو جاؤ، قوم آپ کے ساتھ ہیں، ہماری قوم امریکہ کو قبول نہیں کررہی، ہم پبلک میں جائیں، ہم لوگوں سے کہیں کہ اگر آپ امریکہ کے مخالف ہیں اور امریکہ کا اثرو رسوخ کو کم کرنا چاہتے ہیں تو جمعیت علماء اسلام کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں ہے۔ اگر دنیا پرستی سے دور کوئی جماعت ہے پاکستان کی تاریخ میں، وہ جمعیت علماء اسلام آپ کو ملے گی۔ باقی جماعتیں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اب تو ہمارے ہاں ایسی جماعتیں پیدا ہو گئی ہیں، مذہبی جماعتیں کہلاتی ہے لیکن اپنے وجود کے لیے ایشو ڈھونڈتی ہے، ایشو ڈھونڈتی ہے، اس ایشو کو ڈھونڈ لیا عدالت میں چلے گئے، کوئی ایشو مل گیا عدالت میں چلے گئے، کوئی ایشو مل گیا اسمبلی میں ترمیم پیش کر دیا اور ڈھول جاتے ہیں، بابا تیرے پاس کچھ ہے ہی نہیں، ایشو ایشو کی بنیاد پر پارٹیاں نہیں چلتی، جو فتنہ قوم پر مسلط تھا، جو گند قوم پر مسلط تھی، اس کو لانے میں تو تم ان کے ساتھ تھے! (پشتو متل) یہ جو ہمارے قبائل میں آج فوج کی خلاف تقریریں ہو رہی ہیں، تو فوج یہ اور فوج یہ اور فوج یہ اور فوج یہ اور یہ جو دہشتگردی ہے اور اس کے پیچھے وردی ہے، جس فوج نے اپریشن کیا تو قبائل ناراض ہو گئے، تکلیفیں پہنچے ان کو آج وہ چورن بیچ رہے ہیں وہ کمبخت کے بچوں، تم ہی تو تھے جو فوج کو کہہ رہے تھے کہ اپریشن کرو، یہی قوم پرست تھے، یہی پشتون قوم پرست انہوں نے فوج سے کہا اور مطالبہ کیا کہ کرو اپریشن کرو، اپریشن کرو، آپریشن کرو۔ جب قبائل کو مروایا گیا، پٹوایا گیا، مر مر کر ان کا بیڑا غرق کر دیا اب چورن بیچ رہے ہیں، یہی مطالبہ کر رہے تھے۔ انضمام بڑا غلط ہو گیا، تم ہی کہہ رہے تھے انضمام کراؤ، تو اس جرم میں تو آپ فوج کے ساتھ شریک تھے اور آج پشتونوں کے خیرخواہ بن گئے، حقائق کو تبدیل کرتے ہیں اور آپ کا رویہ اس کے مقابلے میں کیا ہے؟ بس چپ سادھ، وہ بول رہے ہیں، جھوٹ بول رہے ہیں، غلط بول رہے ہیں، ہمارا مقابلہ خاموش خاموش خاموش۔ تاکہ دنیا کا نظام برہم کہیں نہ ہو جائے، بات کرنی ہے آپ نے، آپ نے دلائل دینے ہیں ان کے ساتھ، حقائق رکھنے ہے قوم کے سامنے، ایک طرف وہ بول رہے ہیں اور آپ خاموش ہوں، کوئی گالی کسی کو دینے کی ضرورت نہیں ہے، کوئی بدزبانی کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک معقول انداز کے ساتھ اپنی گفتگو کرنا پوری طاقت کے ساتھ کرنا، یہ ہوتے کون ہے ہمارے خلاف باتیں کرنے والے، جن حکومتوں میں دفتروں کے اندر میز کے اوپر بیٹھے بیٹھے کرپشن متعارف ہوئے، گریڈ وائز قیمتیں طے ہوئی وہ آج جمعیت کا نام لیتے ہیں، شرم نہیں آتی ان کو! میں نے اس وقت بھی کہا تھا جب ہماری حکومت تھی یہاں صوبے میں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم نے کرپشن ختم کردی، لیکن ہمارے کنٹرول کی وجہ سے پردے کے پیچھے چلی گئی، چھپ چھپا کے چلی، اس لیے ہمارے جانے کے فوراً بعد میز پہ آگئی دوبارہ اور جب وہ حکومت گئی تو چوراہے پہ آگئی، کھلے عام سودے ہو رہے تھے اور لوگ دیکھ رہے تھے اور وہ بھی ہم پہ تنقید کر رہے ہیں ہم پہ تنقید کرتے ہیں (پشتو میں: بس یہی صورتحال ہے اس میں ہم نے حوصلے نہیں ہارنے، کوئی مشکل نہیں ہے، بس علاقوں میں تھوڑی نظر دوڑانی ہیں، بدامنی بہت زیادہ ہے۔ لاہور میں میڈیا اینکرز سے اس صوبے کے حالات ذکر کئیں تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں تو کسی قسم کا علم نہیں، آپ تو اچھی سرزمین میں ہیں، آپ آجائے ہمارے علاقے میں کہ یہ اچھی سرزمینوں آپ کو بھی پتہ چل جائے! تو وطن کو اس طرف آمادہ کرنا کہ اس میں سیاسی استحکام آئے، یہ نعرہ تو بہت آسان ہے کہ 90 دن کے اندر الیکشن کرانا، ٹھیک ہے کرو، کل ہی کرلو! ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن یہ صرف ایک قسم کی پوائنٹ سکورنگ ہوگی۔ سندھ پورا ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں، ہمارا صوبہ ٹی ٹی پی کے قبضے میں ہیں، امن و امان نہیں ہے، اس کو واپس لانے میں ایک کردار ادا کرنا ہوگا)۔ 
اور اس حوالے سے میں بہت وضاحت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس معاملے کے لیے افغانستان کے امارت اسلامیہ اور پاکستان کے حکومت کو متفقہ فورم بنانا چاہئیے، جہاں دونوں ملک باہمی معاملات کو مل کر سوچ سکے، اور ان کا مل کر حل نکال سکے اور اس کے لیے مل کر عملی اقدام اٹھا سکیں، دو طرفہ کمیشن بنانا پڑے گا اور اس میں بنیادی کردار جمیعت علماء اسلام ادا کر سکتی ہے، لیکن ظاہر ہے جب تک کہ اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کا تعاون حاصل نہ ہو ہماری کوشش ضائع ہے، ہم ان کو اعتماد میں رکھ کر چلنا چاہتے ہیں، تاکہ ریاست اور جماعت کے درمیان ٹکراؤ تو نہ ہو، ہم کچھ کریں اور وہ کچھ کریں اور گدلے پانی میں پتہ نہیں چلے کہ وہ کدھر تیر رہا ہے اور میں کدھر تیر رہاہوں۔ یہ سارے وہ چیزیں ہیں جو ہمارے مد نظر ہیں اور اس پر ہم کام کر رہے ہیں، ان شاءاللہ آپ دعا فرمائیں گے، کام بھی ہوگا اور کام کو تیز کرنا ہے۔ 14 اکتوبر کا جلسہ حضرت ان شاءاللہ پاکستان کی سیاست میں تبدیلی لائے گا، صوبے کی سیاست میں تبدیلی لائے گا، اور ہر وقت حضرات دعا کریں، تہجد میں بھی، نمازوں کے بعد بھی کہ اللہ رب العزت ایک تو ہمارے اس کانفرنس کو کامیاب کرے، عوام کے دل ان کی طرف پھیر دے اور دوسرا اللہ اس کو قبول کرے اور تیسرا اللہ اس کو محفوظ فرمائے، اس کے حفظ و امان کی دعائیں کریں ان شاءاللہ یہ دعائیں اللہ قبول کرے گا اور ہمارا جلسہ کامیاب ہوگا اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے اور اپنی نظر کرم ہمارے کو فرمائے 
واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments