قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا فیصل آباد میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب
29 ستمبر 2023
الحمدللہ،
الحمدللہ وکفی وصلوۃ والسلام علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آلہ وصحبه و من
بھدیھم اھتدی اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا
وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ [ سبأ: 28] صدق اللہ
العظیم
جناب
صدر محترم مولانا اسعد محمود مکی صاحب، محترم رانا ثناء اللہ صاحب، سٹیج پر موجود
تمام اکابرین، علماء، مشائخ، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیو میرے لیے اعزاز
اور سعادت کی بات ہے کہ طویل عرصے کے بعد آج فیصل آباد میں رحمت کائنات فاؤنڈیشن
کے تحت منعقدہ اس ناموس رسالت کانفرنس میں آپ کے ساتھ شریک ہورہا ہوں، ایک اچھے
عنوان کے ساتھ، ایک مقدس عنوان کے ساتھ یہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے اور جناب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کو دنیا میں فروغ دینے کے لیے اس کام کا آغاز کیا
گیا ہے، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دین اسلام کو اور جناب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی رحیمانہ زندگی اور ان کے ثمرات کو دنیا کے ایک ایک فرد تک پہنچائے
اور اس سے برآمد ہونے کی اسے توفیق انہیں عطاء فرمائے۔
میرے
محترم دوستو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیرت کے اعتبار سے بھی اتنے عظیم تھے
کہ پوری کائنات میں آپ جیسا پھر دوسرا پیدا نہیں ہوا، صورت کے اعتبار سے بھی آپ
جیسا حسین پوری کائنات میں پیدا نہیں ہوا۔ تمام ائمہ مجتہدین اور محدثین اس بات پر
متفق ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے جو ظاہری حسن عطا
کیا تھا اس ظاہری حسن کا حقیقی ادراک بھی قوت بشری سے باہر ہے۔ صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالی علیہم اجمعین نے آپ کے شمائل کا ذکر کیا ہے، آپ کے حسن ظاہری کا اور
اخلاق کا تذکرہ کیا ہے، لیکن علماء فرماتے ہیں جہاں تک صحابہ کی نظر پہنچ سکتی تھی،
جہاں تک ان کے پاس ادراک کی قوت تھی، یہ اس حد تک کا بیان ہے، آپ کا حسن تو اس سے
بھی آگے ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے آپ کو مخاطب کیا وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت
بنا کر بھیجا ہے۔ یعنی آپ کی رحمت عام ہے، مومنین کے لیے بھی اور جو ایمان نہیں
لائیں گے، جو ایمان لائے دنیا اور آخرت دونوں میں آپ ان کے لیے رحمت ہے، لیکن جو
ایمان نہیں لائے ان کے لیے بھی آپ رحمت، کہ اللہ کا انکار کرنے والے اور اللہ کے
پیغمبروں سے بغاوت کرنے والے، جن پر زمینیں الٹا دی جاتی تھی، جن پر آسمان سے پتھر
برسائے جاتے تھے، جو سیلابوں کے ذریعے تباہ وبرباد کردیے جاتے تھے، جو طوفانوں کے
ذریعے ملیامیٹ کر دیے جاتے تھے، آپ کی تشریف آوری کے بعد اب دنیا میں کافروں کے
ساتھ بھی ایسا نہیں ہوگا۔ تمام انسانیت کے لیے آپ بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے۔
تاکہ انسانیت کو آپ تعلیم دے سکیں کہ یہ کام کرو اس میں تمہارے لیے بشارت ہے،
تمہارے لیے نعمتیں ہیں، اس کام سے رُک جاؤ اگر نہیں رکو گے تو پھر تمہارے لیے خطرے
ہیں، تمہارے لیے نقصان ہے، باخبر کر دینا، لیکن آپ کی جو تعلیمات تھی جہاں کسی کو
آپ نے ذمہ دار مقرر کیا نمائندہ مقرر کیا تو آپ کے ساتھ ساتھ یہ بھی نصیحت کی کہ بَشِّرُوا، ولا تُنَفِّرُوا،
يَسِّرُوا، ولا تُعَسِّرُوا۔
آپ ایک دوسرے کو خوشخبریاں دیا کریں، ایک دوسرے سے اچھی باتیں کیا کریں، اچھے
رویوں سے ایک دوسرے سے ملیں، نفرتیں نہ پھیلایا کرو، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا
کرو، لوگوں کے لیے مشکل مت پیدا کرو۔ وَكونوا عبادَ اللَّهِ إخوانًا۔ اور اللہ کے
بندے بن کر بھائیوں کی طرح رہو۔ یہ ہے وہ آپ کی رحمت کا پہلو۔ جب آپ سے کسی نے عرض
کیا یا رسول اللہ! مشرکین کے لیے بد دعا کر دیجیے تو آپ نے فرمایا میں تو بددعا
کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہوں، میں تو رحمت اور لوگوں کو ہدایت دینے کے لیے
بھیجا گیا ہوں۔ إنما بُعثتُ رحمة (مھداۃ)۔ آج آپ کی حیات طیبہ کا یہ پہلو ہمارے
معاشرے سے کہاں چلا گیا؟ تمام انبیاء سے اللہ تعالی نے یہ عہد لیا وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ
ٱلنَّبِيِّینَ لَمَآ ءَاتَيْتُكُم مِّن كِتَٰبٍۢ وَحِكْمَةٍۢ ثُمَّ جَآءَكُمْ
رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥ ۚ
قَالَ ءَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِى ۖ قَالُوٓاْ
أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَٱشْهَدُواْ وَأَنَا۠ مَعَكُم مِّنَ ٱلشَّٰهِدِينَ (آل عمران
81)۔ تمام انبیاء سے اللہ تعالی نے عہد
پیمان لیا کہ تمہارے بعد ایک پیغمبر آئے گا تم پر لازم ہوگا کہ اگر تم نے ان کا
زمانہ پایا تو ان پر ایمان بھی لاؤ گے اور ان کی مدد بھی کرو گے۔ قَالَ ءَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ
عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِى۔ کیا
تم نے اقرار کر لیا اور تم نے میرے ساتھ یہ عہد قبول کر لیا، قَالُوٓاْ أَقْرَرْنَا، تمام انبیاء نے کہہ دیا ہم قبول آپ
کا زمانہ ہم اگر پائیں گے تو ان پر ہمارا ایمان بھی ہوگا اور ان کی ہم مدد بھی
کرینگے۔ اور پھر شب معراج میں بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت، ان ساری باتوں
کا اظہار ہوا، آپ کی امامت میں نماز پڑھی، آپ پر ایمان لائے۔ تو قیامت تک کے لیے
پوری انسانیت کے رہنما جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اگر حضرت عیسی علیہ
السلام بھی آئیں گے تو آپ کے امتی بن کر آئینگے اور فرمایا کہ اگر حضرت موسی علیہ
السلام بھی میرے بعد ہوتے تو پھر میری پیروی کی علاوہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ
ہوتا۔ تو اس لحاظ سے آپ کا جو قانون ہے اس قانون پر کوئی چیز بالادست ہو سکتی ہے! يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ
لَا تَرْفَعُوٓاْ أَصْوَٰتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ ٱلنَّبِىِّ وَلَا تَجْهَرُواْ لَهُۥ
بِٱلْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَٰلُكُمْ وَأَنتُمْ
لَا تَشْعُرُونَ (الحجرات 2)۔
رسول اللہ کی آواز پر بھی آواز اونچی نہیں کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے
ہو، رسول اللہ کو ایسا نہیں بلانا۔ إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ
أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ۔ (الحجرات 4)۔ جو باہر سے دیہاتوں سے لوگ آتے تھے آداب سے ناواقف وہ آپ کو
نام سے پکار کر آواز دیتے تھے، اللہ نے روکا اسکو۔ میں نے خود قرآن کریم میں وحی
نازل کی 30 پاروں کی وحی اور اس میں میں نے آپ کو نام سے نہیں پکارا، ہر پیغمبر کو
نام سے پکارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نام سے نہیں پکار یا ایھا الرسول،
یا ایھا النبی، یا ایھا المدثر، یا ایھا المزمل، صفات کے ساتھ آپ کو بلایا۔ جب آپ
کی آواز پر آواز اونچی کرنا یہ ناجائز ہے، تو آپ کے قانون پر اپنے قانون کو
بالادستی دینا یہ جائز ہوگا؟ آپ کے دیے ہوئے نظام پر اپنے نظریات کو بالاتر سمجھنا
اس کا کب جواز ہوگا! وَمَا
كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن
يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا (الاحزاب 36)۔ کسی بھی مومن کے لیے مرد ہو یا عورت، ایک دفعہ کسی معاملے
میں آپ ایک فیصلہ دے دیں اس کے بعد اس میں سر منہ تبدیلی کرنے کا آپ کو اختیار
نہیں ہے۔ ہم اچھا بھلا شریعت کا قانون ہوتا ہے اس کو تبدیل کر دیتے ہیں، جدید دور
کے تقاضے اور ہوتے ہیں، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قیامت تک کے لیے ہے،
جدید دور کے تقاضے اور نئی شریعت اور نئے قانون اور شریعت کے احکامات کو معطل کرنا
اس کا دعویٰ تو قادیانی کر سکتا ہے کوئی مسلمان تو نہیں کر سکتا۔ یہ احساس ہمارا
کہاں چلا گیا؟ جس نام سے ہم نے یہ وطن حاصل کیا کہ ہم اس وطن کو ایک محفوظ ریاست
کہہ سکتے ہیں، اسلام کے نام پر حاصل کیا ہوا ملک، اسلام کسی کو سلامتی دینے کا نام
ہے، ایمان کسی کو امن دینے کا نام ہے، آج ہم آزادی کے ساتھ خون بہا رہے ہیں، ناحق
خون بہا رہے ہیں، ایک مسلمان کے خون کو اپنے لیے حلال بھی سمجھتے ہیں۔ حرام کا
ارتکاب کرنا اس اعتراف کے ساتھ کہ میں حرام کا اعتکاف کر رہا ہوں گنہگار ہوں اس سے
تو شاید آدمی کافر نہ ہو لیکن حرام کو حلال سمجھنا اور اس پر فخر کرنا اس کو اپنے
لیے جائز سمجھنا یہ تو انکار ہے، کفر ہے۔ ہمارے علماء کرام یہ مسئلہ تو ضرور ہمیں
بتاتے ہیں کہ زنا کرنے والا اگر زنا کو گناہ سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو گنہگار
سمجھتا ہے تو یہ معصیت کا مرتکب ہے لیکن کافر نہیں، چوری کرنے والا، شراب پینے
والا اگر اپنے آپ کو گنہگار سمجھتا ہے پھر تو کافر نہیں ہے، توبہ کر لے گا اللہ سے
معافی مانگ لے گا، لیکن اگر اس کو حلال سمجھتا ہے پھر؟ ہمارے بہت سے لوگ ایسے ہیں
کہ جب یورپ میں جاتے ہیں اور وہاں کا قانون ان کو اجازت دیتا ہے تو وہاں جا کر وہ
کہتے ہیں ہمیں قانون اجازت دیتا ہے، وہاں اپنی شریعت بھول جاتے ہیں، ان کو شریعت
کے اس خطرناک پہلو کا علم نہیں، لیکن ایک مسلمان کا خون اپنے لیے حلال سمجھنا یہ
پھر بھی مسلمان کہلائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَزَوَالُ
الدُّنْيَا أَهْوَنُ علی اللَّهِ مِنْ قَتْلِ دَمِ مُسْلِمٍ۔ ایک مسلمان کا خون
کرنا اس کے مقابلے میں پوری دنیا کا تباہ ہو جانا یہ اللہ کے لیے اسان ہے، اور ہم
آسانی کے ساتھ انسان کو قتل کر لیتے ہیں، جیسے مرغی کاٹی جاتی ہے، پاکستان کا
استحکام امن میں ہے۔ ناجائز قتل نہ جج کے لیے جائز ہے، نہ کسی جرنیل کے لیے جائز
ہے، نہ کسی پولیس کے لیے جائز ہے، نہ کسی فوجی کے لیے جائز ہے، نہ کسی عام آدمی کے
لیے جائز ہے، کیا حق پہنچتا ہے، زندگی اللہ کی دی ہوئی امانت ہے، آپ کون ہوتے ہیں
کہ اللہ کی امانت پر ڈاکہ ڈالتا ہو۔ جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ اپنی سیاست میں اس
پہلو کو اجاگر کیا ہے، انسانیت کو آج امن چاہیے۔ امریکہ اور یورپ وہ اپنے اسلحے
ہمارے ملکوں میں آزما رہے ہیں، اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے جنگ اس کی منڈی ہوا کرتا
ہے، ہمارے مسلمان دنیا پر جنگ مسلط کر کے انہوں نے اسلامی دنیا کو اپنے اسلحے کا
منڈی بنایا ہوا ہے اور پھر بات کرتے ہیں انسانی حقوق کی! جن کے ہاتھوں سے انسانیت
کا خون ٹپک رہا ہو، انسانی حق کا خون ہو رہا ہو، انہیں کم از کم انسانیت کی قیادت
کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں! ہمیں اپنے وطن کو اس حد تک آزادی کی طرف لے جانا ہے،
اپنی معیشت کو مستحکم کرنا ہے، کیونکہ اسلام مملکتی زندگی میں دو باتوں کو اہمیت
دیتا ہے، ایک امن اور ایک معیشت ہے، امن نام ہے انسان کے جان کا تحفظ، اس کے مال
کا تحفظ، اس کی عزت و آبرو کا تحفظ۔ تمام قوانین کا محور انسانی حقوق ہے اور تمام
قوانین کا محشر لوگوں کی بہتر معیشت ہے۔ آج ہمارے ملک میں یہ دونوں نہیں ہے، نہ
امن ہے نہ معیشت۔ معیشت کا مسئلہ ہمارے ہاں ہمیشہ ہے، اتار چڑھاؤ رہتا ہے لیکن
2017 اور 18 میں پاکستان دنیا کی معیشت کے 24 نمبر پہ تھا پھر اس کے بعد ایک حکومت
آئی، کہنے لگا میں نے ریاست مدینہ بنانا ہے تو پاکستان دنیا کی معیشت کا 47 نمبر
پہ چلا گیا۔ آج ہمارے پڑوس میں جی 20 کے ممالک کا عالمگیر سربراہی اجتماع ہوا، اگر
اس ترقی کا سلسلہ چلتا رہا ہوتا تو آج ہم بھی جی 20 میں ہوتے لیکن ہم تو 24 سے 47
پہ چلے گئے۔ جہاں 2017 ، 18 میں ہم نے پاکستان کی سالانہ مجموعی ترقی کی شرح 6
فیصد رکھی تھی، پھر ایسی حکومت آئی کہ جس نے ہماری معیشت کو مائنس زیرو کر دیا، یہ
بھی پاکستان کی تاریخ ہے، ایک بجٹ مائنس زیرو پہ۔ کس بات پہ فخر کرتے ہو؟ تمہارا
فخر کرنا تو ایسا ہے جیسے مرغی گندگی میں چونچ مارتی ہے اور وہی چونچ اونچی بھی
رکھتی ہے۔ غلاظتوں سے بھرے لوگ آج پاکستان میں اپنے آپ کو صاف ستھرا کہنے کا
دعویدار ہیں۔ بازار میں ننگے تلنگے کھڑے ہونا اور ہاتھ میں تختی اٹھا کر کہنا لوگو
حیا کرو! اس وباش کے لوگوں سے ہمیں واسطہ پڑا ہے، جس نے معاشرے کو تباہ و برباد
کیا، جس نے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام پیدا کیا اور آج پاکستان کے اندر سیاسی
عدم استحکام لانے کہ ایجنڈے پر عمل درآمد کر رہے ہیں تاکہ دنیا کو یہ میسج جائے کہ
پاکستان میں ہنگامہ آرائی ہے، ذرا حساب لگائیں اس ماحول میں بندوق اٹھانا، علماء
کرام پر خودکش حملے کرنا، بم دھماکے کرنا، مستونگ میں میلاد النبی کے جلوس پر
دھماکہ کرنا، ہنگو کے ساتھ دوآبہ کے مسجد میں نمازیوں کے اوپر دھماکہ کرنا، کیا دنیا
کو پیغام دینا چاہتے ہو؟ یہی پیغام نا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کرو، یہاں
حالات ٹھیک نہیں ہیں، سرمایہ کاری کے لیے حالات ناسازگار ہیں، یہی ایجنڈا ہو سکتا
ہے۔ جب پاکستان میں پہلے آپ نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا، پھر معاشی عدم استحکام
پیدا کیا، اس کے بعد دفاعی عدم استحکام، فوج کے اندر تقسیم لانا، دفاعی حصار کو
توڑنا، جب ان کو شعور آیا کہ اوہ یہ کیا ہو رہا ہے اور سنبھلنے لگے اور جب سنبھل
بھی گئے، تو پھر آپ نے اپنے ٹائیگرز کے ذریعے سے براہ راست دفاعی اداروں پر حملہ
کیا تاکہ ملک کے دفاعی حصار ٹوٹ جائے، ایک ایک قدم ملک دشمنی سے اٹھایا، کس بات کی
خیر خواہ ہو تم؟ ریاست مدینہ کا معنی کیا ہے، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے
لیکن جب میرے اوپر بات آئے تو میرے خلاف قانون حرکت میں نہ آئے، میں قانون سے
مستثنیٰ رہوں گا، باقی سب برابر ہوں گے قانون کے سامنے۔ اگر واقعی ریاست مدینہ
بنتا ہے پاکستان میں تو پھر قانون کے مطابق تو مجھے لگتا ہے آپ چوراہے پہ کھڑے
ہونگے، اور آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہوگا۔
یاد رکھیں! ہم ایک نظریاتی جنگ میں ہیں ہم نے پاکستان کے اندر
اسرائیل کے ایجنڈے کو مسترد کیا ہے، ہم نے پاکستان کے اندر ختم نبوت کے تحفظ کے
آئینی ترمیم پر حملے کو مسترد کیا ہے، دباؤ ہمارے اوپر کیا ہے؟ مذہبی لحاظ سے
قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان تسلیم کرو، اسرائیل کو تسلیم کرو، فلسطینیوں کی بات
نہیں کرو اور میں خیر مقدم کرتا ہوں کہ اسرائیل بننے کے بعد دنیا میں صرف سعودی
عرب وہ ملک ہے کہ جس نے پہلی مرتبہ فلسطین میں اپنا سفیر بھیجا ہے، ریاست فلسطین
کو تسلیم کر لیا ہے، پروپگنڈے ہوتے تھے نا کہ اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں،
اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، انہوں نے فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس رخ پر ہمیں
کام کرنا چاہیے، اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق اور ان کی آزادی کی فکر کرنی چاہیے۔
میں ان کی قیادت کی اس بیان کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں کہ فلسطین اور کشمیر ایک
جیسے مسئلے ہیں، انسانی حقوق اور ان کی آزادی کا مسئلہ ہے اور اسے ترجیح ملنی
چاہیے۔ تو اس حوالے سے ہم نے اس دباؤ کو پیچھے دھکیلنا ہے، دینی مدارس کے حوالے سے
بھی ہم پر دباؤ ہے حالانکہ دینی مدرسہ تو پورے برصغیر کا مسئلہ ہے، ہندوستان میں
بھی دینی مدرسہ ہے، بنگلہ دیش میں بھی ہے، یہ صرف ہم پہ دباؤ کیوں؟ آئی ایم ایف کا
دباؤ ہمارے اوپر، ایف اے ٹی ایف کا دباؤ ہمارے اوپر، معیشت کا دباؤ ہمارے اوپر،
آئین میں ترمیم کرو، تم کون ہوتے ہو ہمیں آئین میں ترمیم پر مجبور کرنے والے، لیکن
پچھلی حکومت نے ساڑھے تین سال کے اندر ملکی معیشت کو اور جو ہمارے مالیاتی ادارے
ہیں ان کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی بنا دیا، سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے
کر دیا، ملک کی معیشت کو آپ نے تباہ کیا، آپ لے گئے اور جو لفظ دلدل میں استعمال
کرتا ہوں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دلدل جس سے آپ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن
آپ دھنستے چلے جاتے ہیں۔
رانا
ثناء اللہ صاحب موجود ہیں ان کی موجودگی میں بھی میں کہتا رہا ہوں کہ سڑکوں پر آکر
تحریک کو تقویت ملنی چاہیے، عدم اعتماد سے آپ ان کی مشکل اپنے گلے میں ڈال دیں گے
اور پھر جب مہنگائی بھی پڑے گی، روپے بھی آپ کی قابو میں نہیں آئے گا، وہ بھی آئی
ایم ایف کے قابو میں ہوگا، قیمتیں چھڑانا بھی اس کے ہاتھ میں، قیمتیں اتارنے میں
اس کے ہاتھ میں، ٹیکسز بڑھانا بھی اس کے ہاتھ میں، ٹیکس کو کم کرنا بھی اس کے ہاتھ
میں، آپ کا بجٹ بنانا بھی اس کے ہاتھ میں، پھر آپ بتائیں آپ لوگوں کو کیا جواب دیں
گے؟ رانا صاحب میں اپنا فرض پورا کر چکا ہوں تاکہ ہم نے اتحاد نہیں توڑنا کیونکہ
ہم نے ایک رہنا تھا۔ لیکن فتنہ فتنہ ہے، کبھی کہتا ہے امریکہ نے سازش کی ہے، پھر
کہتا ہے امریکہ نے نہیں کی، صبح ایک بیان شام کو دوسرا بیان، پھر ٹائیگرز تیار
کرتا ہے، دہشت گرد تیار کرتا ہے، یہ سارے وہ مسائل ہیں کہ پبلک کو یہ چیز سمجھنی
چاہیے۔ ایک پیسے کی سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں ہوئی، جو سرمایہ کاری تھی اسے ڈبو
دیا گیا، سی پیک کے پورا منصوبہ جس پر چائنہ نے 70 ارب ڈالر پاکستان میں پھینک دیے
تھے، اس کو مکمل طور پر فریز کردیا گیا، کیا کیا ہے آپ نے ملک کے لیے؟ اب ہم
اٹھانا چاہتے ہیں اب اٹھ نہیں رہا معاملہ، اب سارے زور لگا رہے ہیں، سیاستدان بھی
زور لگا رہے ہیں، جرنیل بھی زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح ہم اس مشکل سے نکلے لیکن
ابھی ایسا کچھ نظر نہیں آرہے ہیں، ایسا تباہ و برباد کیا ہوا ہے! اور پھر دوبارہ
ان جو حکومت دینا، اس لیے میں عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ پوری دنیا بیٹھی ہوئی ہے
چائنہ جیسا دوست، سعودی عرب جیسا دوست، امارات، جتنے پاکستان کی مدد کرنے والے اس
کے دوست ہیں انہوں نے مٹھی بند رکھی ہوئی ہیں کہ اگر خدانخواستہ پھر یہ آتا ہے،
دوبارہ تو پھر ہمارا پیسہ ڈوب جائے گا اور جس کو یہ چور کہتا ہے اس کو وہ پیسہ
دینے کے لیے وہ تیار ہے، ان حالات میں ہم زندگی گزار رہے ہیں لیکن میں پھر بھی
کہتا ہوں کہ جب تک ہم اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے، جب تک ہم جناب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی دیے ہوئے نظام کو پاکستان کا نظام نہیں بنائیں گے، ہم اللہ
کی رحمت کے مستحق نہیں بن سکیں گے، اور اللہ کی رحمت کے جب مستحق نہیں ہوں گے یا
بد امنی ہوگی اور یا آپ کی معیشت تباہ ہو گی، بھوک وغیرہ فلاس ہوگا، ان سب سے
نکلنے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنا بنانا پڑے
گا تاکہ ہم ایک محترم اور مقدس ریاست تعمیر کر سکے اور پاکستان کو ترقی کی راہوں
کی طرف لے جا سکے۔ میں رحمت کائنات فاؤنڈیشن کا جہاں شکر گزار ہوں، فیصل آباد
جمیعت علماء اسلام نے جو ان کے ساتھ مدد اور تعاؤن کیا ہے اور بھرپور معاونت کی ہے
میں اس حوالے سے جناب شاہ صاحب زکریا صاحب اور جمعیت علماء فیصل آباد کا بھی شکر
گزار ہوں اور ان کو اس کامیاب کانفرنس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
ضبط
تحریر: #محمدریاض
ممبر
ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں