قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺ لاہور کے زیر اہتمام سالانہ ختم نبوت ﷺ کانفرنس سے خطاب تحریری صورت میں 6 ستمبر 2023

قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺ لاہور کے زیر اہتمام سالانہ ختم نبوت ﷺ کانفرنس سے خطاب 

6 ستمبر 2023

الحمدللہ، الحمدللہ وکفی وصلوۃ والسلام علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آلہ وصحبہ و من بھدیھم اھتدی اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ [ الصف: 8] صدق اللہ العظیم 

امیر مجلس، اکابر علماء کرام، بزرگان ملت، برادران اسلام، شمع رسالت کے پروانوں، عقیدہ ختم نبوت کے جانثاروں، میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ جس مقدس عنوان کے ساتھ انہوں نے آج کے اِس فقید المثال اجتماع کا اہتمام کیا ہے، مجھے بھی اِس نے شرکت کی سعادت سے نوازا ہے، اور ہم سب انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اُن کی جدوجہد کو اور یہ کہ عقیدہ ختم نبوت کی سرحدات کی وہ جس جان فشانی کے ساتھ چوکیداری کر رہے ہیں، یقینا یہ ہماری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے اور اِس حوالے سے عالمی مجلس کی کردار کو بھلایا نہیں جا سکتا ۔ 

میرے محترم دوستو! مجھے ویسے بھی جو میں آج کا دن دیکھتا ہوں، تو جلسہ تو 6 ستمبر کو رکھا گیا ہے لیکن ایک گھنٹہ ہوا 7 ستمبر بھی داخل ہو چکا ہے، 6 ستمبر پاکستان کے جغرافیائی سرحدات کے تحفظ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے اور 7 ستمبر پاکستان کے نظریاتی سرحدات کے تحفظ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے ۔ سرحدات کی جنگ میدانوں میں لڑی گئی اور ہمارے سپوتوں نے قربانیاں دی، زندہ دلان لاہور نے لاٹھیوں کے ساتھ اٹھ کھڑے ہو کر میدان میں نکلے، اور 7 ستمبر کو جو جنگ لڑی گئی وہ پارلیمنٹ کے میدان میں تھی، اب یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور ہم نے تاریخ کے اِس حصے کو زندہ رکھنا ہے، اِس جذبے کو ہم نے نئی نسلوں کے حوالے کرنا ہے ۔

میرے محترم دوستو! کافی وقت بیت چکا ہے، شاید اب آپ بھی زیادہ لمبی لمبی باتیں سننے کے تاب نہیں رکھتے ہوں گے، یا شاید میں بولنے کی تاب نہ رکھوں، ہم نے اِس حوالے سے دیکھنا ہے کہ اللّٰہ رب العزت نے اسلام کو ایک کامل اور مکمل دین اعلان کیا {اليومَ أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وأَتْمَمْتُ علَيْكُم نِعْمَتي ورَضِيتُ لَكُمُ الإسْلامَ دِينًا} [المائدة: 3] ہمارے اکابر اور اساتذہ اکمال دین کو تعبیر کرتے ہیں دین کے احکام اور دین کے تعلیمات پر، وأَتْمَمْتُ علَيْكُم نِعْمَتي اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اتمام نعمت کو تعبیر کرتے ہیں اس دین کی حاکمیت سے، اب ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالٰی فرمائے گا (وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ) تو دین جو اللہ کا نور ہے، نور ہدایت ہے، وہ جو اتمام کا تقاضا کرتا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ حاکمیت کا تقاضا کرتا ہے ۔ یہاں میں اپنے بھائیوں سے سنتا ہوں کہ ختم نبوت ایک غیر سیاسی عنوان ہے، اب اِس غیر سیاسی عنوان کے حدود کیا ہیں؟ کہاں تک یہ عنوان غیر سیاسی ہے؟ (وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ) اب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب خود فرماتے ہیں (أنا خاتمُ النبيينَ) اِس خاتم النبیین کے وہ خود معنی بھی کرتے ہیں (ولا نبيَّ بعدي) اب یہی (لا نبيَّ بعدي) آپ نے ختم نبوت کے حوالے سے بھی فرما دیا (أنا خاتمُ النبيينَ لا نبيَّ بعدي) اور یہی الفاظ آپ نے ارشاد فرمائے (كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبيٌّ، وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ فَيَكثُرُونَ) کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے، ایک جاتا تھا دوسرا اس منصب کو سنبھالتا تھا، اب آخری میں ہوں ولا نبی بعدی، تو ختم نبوت باعتبار عقیدے کے وہاں بھی اس کی تعبیر لا نبی بعدی اور ختم نبوت بہ اعتبار سیاست کے وہاں بھی لانبی بعدی، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لہٰذا جو قوتیں اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کسی اور کو آج کے زمانے میں انسانیت سے بطور نبی کے بنوائیں، وہ سن لیں کہ وہ سائے لاحاصل کر رہے ہیں اس لیے کہ عقیدہ ختم نبوت یہ لاوارث نہیں ہے، لیکن میں ایک اور پہلو سے کچھ بات کرنا چاہوں گا ہمت کر کے کیونکہ یہاں پر موضوع محدود ہے، کہ سارا دباؤ پاکستان پر کیوں؟ ہم تو تاریخ کے اعتبار سے برصغیر کا حصہ ہیں، اسی برصغیر کا حصہ ہند وستان بھی ہے، بنگلہ دیش بھی ہے اور اسی برصغیر کا حصہ پاکستان بھی ہے، ہمارے پڑوس میں افغانستان بھی ہے، ہمارے پڑوس میں ایران بھی ہے، اس کے علاوہ بھی اسلامی دنیا ہے، لیکن ایک پاکستان کے اوپر دباؤ کیوں؟ صرف پاکستان کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ قا دیان تو ہندوستان میں رہ گیا، اس مرکز کے حوالے سے تو وہاں کوئی پریشر نہیں لیکن ایک پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ آئینی ترمیم واپس لو، 24 کروڑ پاکستانیوں کی قوم وہ تو آئین میں اپنی ترمیم واپس لیں لیکن چند افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا ٹولہ وہ آئینی ترمیم کو قبول نہ کرے، کیا دباؤ ڈالے گا، صرف ایک حوالے سے نہیں کبھی اسر ائیل کو تسلیم کرانے کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ، تمام چینلز پر گزشتہ حکومت میں بڑے بڑے بڈھے بڈھے دانشور وہ آکر اپنے فلسفے جھاڑتے تھے، ان کو اسر ائیل کی تسلیم کرنے میں تو اپنا مفاد نظر آتا ہے لیکن اپنے فلسطینی بھائیوں کے خون پر ان کو رحم نہیں آتا، نسل در نسل فلسطینی کٹ رہے ہیں، ان کی سرزمین پر قبضہ ہے، بیت المقدس ان کے قبضے میں ہے، قبلہ اول پر یہودی قابض ہیں، مسلمانوں کے دلوں سے اس کی اہمیت کو نکالا جا رہا ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے! پھر آپ دیکھیں کہ اقتصادی حوالے سے امریکہ ہو یا مغربی دنیا اور پوری دنیا کی سرمایہ دارانہ قوتیں، اس نے صرف پاکستان کو اپنا نشانہ کیوں بنایا ہوا ہے! نہ ا نڈیا کی معیشت پر یہ دباؤ ہے، نہ بنگلہ دیش کی معیشت پر یہ دباؤ ہے، نہ افغانستان کی معیشت پر یہ دباؤ ہے، حالانکہ وہ 20 سالہ جنگ سے گزرے ہیں، نہ ایران کی معیشت پر یہ دباؤ ہے، جو دن رات امریکہ مردہ باد کی باتیں کرتے ہیں، ایک پاکستان کے اوپر یہ دباؤ کیوں رکھا جا رہا ہے؟ اور میں ببانگِ دہل ایک بات کہتا ہوں بلا خوف تردید یہ بات کرتا ہوں کہ پاکستان پر 2018 میں جو حکومت مسلط کی گئی وہ اسی ایجنڈے کے ساتھ مسلط کی گئی، اسی ایجنڈے کے ساتھ، ہمارے لوگ ٹرمپ کے دفتر تک پہنچے اور کچھ کمٹمنٹس کر کے واپس آئے، اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے، قا دیانیوں کی غیر مسلم اقلیت کی ترمیم ختم کرنی ہے، کشمیر کو انڈیا کے حوالے کر دینا ہے، جس طرح فلسطین کو اسر ائیلیوں کے حوالے کیا ہے، اس ایجنڈے کے تحت ایک حکومت اس ملک پر مسلط کی گئی، اور میں 2012 سے ایک بات کہہ رہا ہوں اور ایک لمحے کے لیے میرے موقف میں جھول نہیں آیا اور اس ایجنڈے پر دھاندلی کے ذریعے لائی گئی حکومت کو اگر سر بازار چیلنج کیا گیا تو جمیعت علماء اسلام کے کارکن نے اس کے لیے کمر باندھ لیے ہیں ۔

صاف بات ہے کہ پہلے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام لاؤ، چنانچہ 2016 کے بعد سیاسی عدم استحکام لایا گیا، پاکستان کے اندر بیرونی سرمایہ کاری کے راستے روکے گئے، چین کی بہت بڑی سرمایہ کاری، اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی اور جب سی پیک معاہدہ ہو گیا، کام شروع ہو گیا، تو امریکہ کو ہوش آیا، ان کی اداروں کو ہوش آیا، اور پھر اپنی کٹھپتلی حکومت دھاندلی کے ذریعے پاکستان پر مسلط کی، تاکہ پاکستان کے اندر بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ روکا جا سکے، اور پھر انہوں نے روکا سی پیک کے بہت بڑے میگا پراجیکٹس کو فریز کر دیا گیا، سرمایہ کاری ختم ہو گئی ملک کے اندر، ترسیلات رک گئی اور اس طرح ملک کو معاشی عدم استحکام کا شکار بنایا گیا، مجھے حیرت ہوتی ہے ایسے لوگوں کے عقلوں پر، ان کے دماغوں پر، ان کے کھوپڑیوں میں پتہ نہیں دماغ ہے یا بوسہ بھرا ہوا ہے، ان کے سینوں میں دھڑکتے دل ہیں یا جام پتھر، یہ گمراہی کے اور ذلالت کے ان اندھیروں میں چلے گئے ہیں کہ جہاں اب ان کے لیے شاید ہدایت کی روشنی کی کوئی ضرورت اب باقی نہیں رہی، لیکن ایک بات بتا دوں آپ کو، ہر ادمی کے ذہن میں ایک سوال ہوتا ہے ہمارے ہاں تو ایک رواج پڑتی ہے، ایک دن آپ کی حکومت آئے ہم نے صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں اکثریت حاصل کرلی تو ایک خاتون اینکر ہمارے جمعیت کے ترجمان سے پوچھتی ہیں اب تو سارے خیبر پختون خواہ میں بلدیاتی الیکشن جمعیت نے جیت لیا ہے اب تو وہاں پر مہنگائی نہیں ہوگی نا، اُس نے کہا اللّٰہ کی بندی بلدیاتی انتخابات پالیسیوں کے تحت پر نہیں ہوتے کچھ عقل سے کام لو اس قسم کی چیزیں ہیں اس لیول پر کی جاتی ہے تو عام ادمی کیا سوچے گا، چنانچہ میں آپ کو اپنا ایک لفظ یاد دلانا چاہتا ہوں جب میں نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے پہلے کئی جلسوں میں کہا تھا کہ اس نے ہمیں دلدل کی طرف دھکیلا ہے اور میں نہیں دیکھ رہا کہ آنے والی کوئی حکومت ملک کو اس معاشی دلدل سے نکال سکیں گی، ہم نے حق ادا کیا ہے، باقی جنگ ہم نے اپنے حجم کے مطابق لڑنی ہے، ۔۔۔ مولانا لقمان حکیم صاحب اللّٰہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے وہ تو سرائکی میں تقریر کرتے تھے تو کہتے تھے کہ فورا پوچھتے تھے کہ اسلام کب ائے گا؟ تو اپنے حجم کے مطابق اور اپنے بساط کے مطابق ایک جنگ لڑی لیکن ان کو یکجہتی کی بھی ضرورت تھی، جب معاشی عدم استحکام آتا ہے تو پھر ملک کے مختلف علاقوں میں بغاوتیں شروع ہو جاتی ہیں ہم نے وہ یکجہتی برقرار رکھنا چاہی تاکہ ریاست میں بغاوتیں نہ اٹھے، لیکن میں نے اس دن بھی یہاں ایک بہت بڑے اجلاس میں کہا کہ دلدل کا لفظ جانتے ہو دلدل اس کو کہتے ہیں کہ جس سے آدمی نکلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دھنستا چلا جاتا ہے، انہوں نے ایسے دلدل کی طرف پاکستان کو دھکیلا اور اب شور و غوغا کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا کو پیغام دیا جائے کہ پاکستان میں اس کا کام نہیں ہے اور جو اپنے آپ کو بڑا کہتے ہیں جی کہ ہم تو دیانت دار لوگ ہیں، بڑے پاک دامن لوگ ہیں، تو ان ایمانداروں کو چین نے بھی ہاتھ روکے ہوئے ہیں، سعودی عرب نے بھی ہاتھ روکے ہوئے ہیں، امارات نے بھی ہاتھ روکے ہوئے ہیں، پاکستان کے تمام دوست ممالک نے ہاتھ روکے ہوئے ہیں کہ اگر وہی ایماندار دوبارہ آتے ہیں تو ہم پاکستان میں پیسہ ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو کہاں گئی وہ بات؟ تو اس حوالے سے بھی ہم نے سوچنا ہے یا نہیں سوچنا؟ ہم جو پاکستان میں مسلح جنگ نہیں چاہتے، اسی لیے کہ مسلح جنگ سے فائدہ کوئی اور اٹھائے گا، عنوان ہمارا ہوگا اور عدم استحکام پاکستان میں پیدا کر کے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔ جمیعت علماء نے یہ کردار ادا کیا، اپنی بساط کے مطابق جنگ لڑی لیکن کچھ دوستوں نے کہا کہ ادھر جانا ہے میں نے کہا چلو، یہ ساری چیزیں آپ کو سب سمجھنی ہیں ۔ 

ابھی ا نڈیا میں سپریم کورٹ نے، انڈیا کی سپریم کورٹ نے کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت کے فیصلے کو کلعدم قرار دے دیا ہے، تو ہمارے فاٹا کا فیصلہ کب ہوگا؟ وہ بھی تو سپریم کورٹ میں کیس پڑا ہوا ہے، فاٹا تو نہ فاٹا رہا نہ سیٹل رہا، نہ ہیوں میں نہ شیوں میں، جس امن کے لیے 11، 12 اپریشنز کیے گئے آج بھی وہاں صورتحال جوں کی توں ہے، ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، یہ جو سانحہ باجوڑ ہوا، اس سانحہ باجوڑ میں جمیعت علماء اسلام کے 73 ساتھی شہید ہوئے ہیں، لیکن اس واقعے سے پہلے ڈیڑھ دو سالوں سے ہمارا ٹارگٹ کی بنیاد پر شہید ہونے والا 19 واں ساتھی تھا، یہ کیوں ہمیں نشانہ بنایا گیا ہے؟ کیوں ہمیں ٹارگٹ بنایا؟ ہم تو اسلام کی بات کرنے والے ہیں؟ ہم تو پاکستان میں شریعت کی بات کرنے والے ہیں؟ آئین پاکستان پر عمل درآمد کرنے والے لوگ ہیں، قانون کو شرعی بنانے کی بات کرنے والے لوگ ہیں، ہمیں کیوں برداشت نہیں کیا جارہا؟ تو کبھی کبھی ہوتا یہ ہے کہ عنوان ہمارا ہوتا ہے، اس پر قربانیاں ہماری ہوتی ہیں، نتائج کسی اور کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور نتائج کوئی اور سامنے آتے ہیں، تو یہ جو نتیجہ ہے یہ اصل چیز ہے ۔ 

علماء کرام جانتے ہیں ایک ہے تدبیر، ایک ہے تدبر، تدبیر اور تدبر دونوں کا مادہ ہے دال بے رے، یعنی کہ جو بھی فیصلہ کرو تدبیر کرو تدبر کرو تم اپنے معاملات کے انجام پر فائز نظر آؤگے، پھر بھی انسانی اور بشری قوت میں جو آپ کے بس میں ہیں آپ کریں نتائج بھی اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے لیکن صرف جذبے کی بنیاد پر اٹھ کھڑا ہو جانا اور خود کو انجام سے بے خبر رکھنا، اور سیاست و حکومت حضرت شیخ زکریا صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حکومت الٰہیہ کے لیے اور امارت اسلامیہ کے لیے قوت بمنزلہ رکن کی ہے، بغیر قوت کے جنگ نہیں لڑی جاتی، تو جس میدان میں ہے اس میدان کی قوت حاصل کرے، سیاسی قوت حاصل کرو، پارلیمانی قوت حاصل کرو، جب پارلیمانی قوت تھی آپ کے پاس تو صحابہ کرام اور اہل بیت اطہر کا بل پاس ہوا ہے، اور وہ جو بل پاس ہوا ہے ہمارے صدر عارف علوی نے اس کو واپس کر دیا، کوئی ان سے پوچھے خدا کا خوف کرو، چند دن پہلے آرمی ایکٹ میں ترمیم ہوئی کہ اگر فوج کی یا جنرل کی کوئی توہین کرے تو اس کی سزا میں اضافہ، تو اگر ہماری فوج اور جنرلز کی توہین پر سزا میں اضافہ قبول ہو سکتا ہے تو صحابہ کرام اور اہل بیت اطہر کے توہین پر سزاؤں میں اضافہ قبول نہیں کیا جا سکتا! یہ ہے ان کا ریاست مدینہ، ریاست مدینہ کے معنی کیا ہیں؟ قانون سب کے لیے برابر ہونی چاہیے، قانون کی نظر میں سب ایک ہونے چاہیے، یہی تو کہتے ہیں نا لیکن وہی قانون اگر ان کے خلاف متوجہ ہوتا ہے، نہیں ہمارے خلاف نہیں، کہاں گیا وہ قانون، آپ کے خلاف نہیں اور اگر ریاست مدینہ ہو اور قانون ریاست مدینہ کا ہو اور پاکستان میں وہ نافذ العمل ہو تو پھر تو آپ کو چوراہے پر کھڑا کیا جائے گا، تمہیں اپنی جرائم کا پتہ ہے؟ تم کہاں کھڑے ہو؟ یہ ساری چیزیں ہمیں سمجھنے کی ہے کہ پاکستان کو دباؤ میں کیوں رکھا جا رہا ہے؟ عالمی قوتیں کیوں پاکستان کو دباؤ میں رکھتی ہیں؟ چاہے معاشی حوالے سے ہو، چاہے سیاسی حوالے سے ہو، چاہے ختم نبوت کے عقیدے کے حوالے سے ہو، چاہے قادیانیت کے حوالے سے ہو، چاہے اسرائیل کے حوالے سے ہو، چاہے فاٹا انضمام کے حوالے سے ہو، کیوں ایک پاکستان کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ایک پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھا جا رہا ہے۔

تو میرے دوستو! یہ جنگ ایک دن کی نہیں ہے تو ایک ہی نعرے لگا دیے اور جنگ ختم ہو گئی اس جنگ کو جاری رکھنا ہے اگر ملک کو بچانا ہے ان شاءاللّٰہ یہ پاکستان ہمارا وطن ہے حب الوطن من الایمان اپنے وطن کے ساتھ محبت اور اپنے وطن کے لیے قربان ہونا یہ ہر پاکستانی کا جذبہ ہونا چاہیے اور اس حوالے سے ہم نے آگے بڑھنا ہے اور ان شاءاللہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم کرانے کا ایجنڈا بھی ناکام کرایا ہے اور ان شاءاللہ العزیز قادیانیوں کے حوالے سے آئینی ترمیم کا مسئلہ بھی ان شاءاللہ ان کے منصوبے کو ہم ناکام بنائیں گے اور پاکستان کو ایک مضبوط معاشی وطن بنانے کی ضرورت ہے، دوبارہ امتحانات میں اپنے آپ کو مت ڈالیے، دوبارہ آزمائشوں کی طرف مت جائیے، سیدھا راستہ اختیار کر کے پاکستان کو وطن لوگوں کے حوالے کیجیے۔

واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین 


ضبط تحریر: #محمدریاض 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat


 

0/Post a Comment/Comments