قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا صدر مملکت عارف علوی کے بیان پر ردعمل تحریری صورت میں 13 ستمبر 2023

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا صدر مملکت عارف علوی کے بیان پر ردعمل تحریری صورت میں

13 ستمبر 2023 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ بات تو کافی دنوں سے گردش کر رہی تھی کہ صدر مملکت جو ہے وہ انتخابات کے حوالے سے کچھ احکامات صادر کرنے کے موڈ میں ہیں اور ظاہر ہے جی کہ اس وقت وہ بھی عمران خان کے نمائندگی کر رہے ہیں، پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور کل جب ایک انٹرویو میں بھی میں نے یہ کہا تھا کہ ہاں ہرچند کے اس کے امکانات موجود ہیں لیکن اس کا اختیار ان کو نہیں ہے جی اور اگر اختیار ہے بھی تو ان کا استعمال کرنا بد نیتی پر مبنی ہوگا اور وہ ایک پارٹی کو چونکہ ریپریزنٹ کر رہے ہیں وہ ایک جانبدار صدر ہیں پاکستان میں تو اس لحاظ سے اس کے اس قسم کا کوئی فرمان اگر آئے گا تو اس کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہوگی، کوئی آئینی قانونی حیثیت نہیں ہوگی، پبلک قبول نہیں کرے گی اس کو جی، اب یہاں پر ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ اگر کوئی اس قسم کی بات کرتا ہے تو اس پر فوراً کہتے ہیں جی یہ تو الیکشن سے بھاگ رہا ہے، الیکشن سے بھاگنے کی بات نہیں ہے، اصولوں کی بات ہے، جب ایک ادارہ الیکشن کمیشن کی صورت میں موجود ہے تو پھر یا تو اس آئینی ادارے کو ختم کردو اور اگر وہ ہے تو پھر اسے کام کرنے دو۔ آج صدر مملکت اپنے اس فرمان میں خود کہہ رہے ہیں یا فرمان کیا ہے تجویز ہے، ایک قسم کی تجویز انہوں نے دے دیا کہ چیف الیکشن کمیشنر کو میں نے بلایا لیکن انہوں نے کہا میں آپ کا پابند نہیں ہوں، تو وہ جو کل میں نے بات کی تھی وہ تو اس کے مطابق انہوں نے آج اس کا اعتراف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن جو ہے وہ اس کے کسی بھی حکم کا، کسی بھی تجویز کا، اس کو قبول کرنے کا پابند نہیں ہے وہ بذات خود ایک ادارہ ہے اور پھر یہ کہنا جی کہ عدالت سے رجوع کریں یعنی عدالت بھی وہ عدالت کہ جس کے بارے میں تبصرے ہو رہے ہیں کہ وہ بھی جانبدار ہوگئی ہے اور وہ ایک پارٹی کو سپورٹ کررہی ہے، عمران خان کی پارٹی کو، پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہی ہے تو انہوں نے گیند پھینکا ہے عدلیہ کی طرف اور عدلیہ نے پھینکا ہے ان کی طرف، تو اس طریقے سے گیند پھینکتے پھینکتے کبھی ایک کو کبھی دوسرے کو اور ناظرین کیا کہہ رہے ہیں او گول نہیں ہوا، تو گول نہیں ہوا۔ تو اس طریقے سے ملک کے نظام میں ایک خامخواہ بونچال پیدا کرنے کی کوشش کرنا، ایک سعی لاحاصل اس طرح کی ایک مشق انہوں نے کی ہے جس کا کوئی کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے، یہ سیاسی معاملات میں، انتخابی معاملات میں، ایک ایسی مداخلت ہے کے ملک کا انتخابی نظام جو ہے وہ متاثر ہو سکتا ہے، تو کن قوتوں کا انہوں نے سپورٹ کیا ہے، کیا وہ قوتیں جو ملک میں سیاسی عدم استحکام چاہتی ہیں؟ جو ایک ادارے کو اس کے اپنے شیڈول کے مطابق اپنی منزل تک پہنچنے نہیں دے رہی، ان کو ڈسٹرب کرنا چاہتی ہیں، پھر یہ روش پاکستان کی سیاست میں بہتر نہیں ہے اور اسی لیے میں سوچتا ہوں کہ ان کا یہ جو بال پھینکنا ہے اور پھر ادھر سے عدلیہ اس کی طرف بال پھینکے گا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ گول نہیں ہوگا جی

صحافی: تو مولانا صاحب یہ اس پہ عمل درآمد نہیں ہوتا صدر کے تجویز پہ الیکشن کمیشن ظاہر ہے با اختیار ہے تو یہ ایک سیاسی اور آئینی بحران پیدا کرنے کی، اداروں کو الجھانے کی کوشش نہیں ہے؟

مولانا فضل الرحمٰن: کوشش تو ہو سکتی ہے لیکن کامیاب کوشش نہیں ہے، اس لیے کہ اختیارات معلوم ہیں، صدر کی بھی اوقات ہمیں معلوم ہے وہ اس وقت جو ہے وہ بونس پہ چل رہا ہے، تو اس پہ تو ڈے ٹو ڈے امور کی طرف ہی وہ متوجہ رہنا چاہیے، اخلاقی طور پر بھی اس کو اور پالیسی میٹر کے ساتھ اس کو میرے خیال میں اب اس کو سائیڈ پہ ہو جانا چاہیے 

صحافی: ویسے صدر کی مدت تو پوری ہو چکی ہے یہ صدر مملکت کیوں بیٹھے ہیں یہ خبریں چلی تھی کہ شاید ریزائن کرینگے صادق سنجرانی شاید قائم مقام بنیں گے یہ چیزیں چلی تھیں 

مولانا فضل الرحمٰن: اس میں اگر آئین گنجائش دیتا ہے کہ جب تک نیا صدر نہیں آتا اس وقت تک وہ کام کرتے چلے جائیں تو اسی حد تک رہے نا پھر، اپنے اوقات میں رہیں نا وہ صدر مملکت نہیں ہے اب، وہ ایک قائم مقام کی حیثیت میں خود اپنے قائم مقام بنا ہوا ہے جی

صحافی : اگر مولانا صاحب یہ پی ٹی آئی ہے اس کو خط کو بنیاد بنا کے عدالت سے رجوع کرتی ہے الیکشن کمیشن نہیں جاتا تو آپ کی جماعت یا پی ڈی ایم کی جماعت نہیں اور اس نے۔۔۔۔

مولانا فضل الرحمٰن: ہم حضرت نہ ہم عدلیہ کو یہ اختیار دیتے ہیں، نہ صدر مملکت کو اختیار دیتے ہیں، نہ وہ وزیراعظم کو یہ اختیار دیتے ہیں، اس کے لیے جو ادارہ آئینی طور پر قائم ہے اور موجود ہے وہی اتھارٹی ہے اور وہی اپنے حالات کے تحت، کیونکہ سب نے اتفاق رائے کے ساتھ نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کرانے پہ اتفاق کیا ہے اور اس کی بنیاد بظاہر ہے کہ اب مختلف علاقوں میں آبادیوں کا تناسب جو ہے وہ مختلف ہو گیا ہے توازن مختلف ہو گیا ہے کہیں سے آپ کو ایک سیٹ بڑھانی پڑ رہی ہے، کہیں سے آپ کو ایک سیٹ کم کرنی پڑ رہی ہے، تو وہ پھر مہلت ملنی چاہیے الیکشن کمیشن کو، ساری چیزیں گڑبڑ تو نہیں کرنی چاہیے، ایک مقبول نعرہ لگا کر آپ سمجھے کہ میں پبلک کے اس میں تائید حاصل کر سکتا ہوں جو کہ آپ سمجھتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ ایسی الجھنیں پیدا ہوں گی تو ملک کا متحمل ہے اس بات کا کہ ہم چھوٹی موٹی باتوں پر پاکستان کو الجھنوں میں مبتلا کرے

صحافی : آخری سوال میاں نواز شریف آپ کے اتحادی بھی ہیں دوست بھی ہیں وہ کب آرہے ہیں وطن واپس اور الیکشن کب ہورہے ہیں

مولانا فضل الرحمٰن: دیکھئیے دونوں کا الگ الگ معاملہ ہے اس کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کا اپنا وطن ہے اس کا اپنا ملک ہے وہ اعلان کر چکے ہیں شاید کہ 21 اکتوبر کے لیے، لیکن اب یہ ہے کہ جو اس کے لیے قانونی اور عدالتی جو رکاوٹ ہے وہ تو انہوں نے خود ظاہر ہے اپنے وکلاء سے مشورے کے ساتھ ہی دور کرنا ہے تاہم اگر وہ پاکستان آتے ہیں ہم خوش آمدید کہتے ہیں اس کو اور وہ پاکستان کے صرف باشندے ہی نہیں بلکہ دو تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور غلط اور بھونڈے طریقوں سے اس کو اقتدار سے نکالا گیا ہے ان کے نکالے جانے سے پاکستان کی ترقی کے سفر کو روکا گیا ہے، تو ان کو واپس آنا چاہیے اور پورے اعزاز کے ساتھ آنا چاہیے، باقی ہے الیکشن، الیکشن تو میں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے میں نے کہا ان کا اختیار ہے کہ جب الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا پھر ہم سب میدان میں اتریں گے ان شاءاللہ العزیز


ضبط تحریر: #محمدریاض 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat


0/Post a Comment/Comments