سکھر : قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی خانقاہ ہالیجوی شریف آمد سائیں حضرت مولانا عبد الصمد ہالیجوی رحمۃ اللہ علہ کی فاتحہ خوانی اور تعزیتی ریفرنس سے خطاب
یکم ستمبر 2023
الحمدللہ رب العالمین وصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعہم باحسان الی یوم الدین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ ۚ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّٰكِرِينَ۔ صدق اللہ العظیم۔
درگاہ ہالیجوی شریف کے اس خانوادے کے تمام علماء، میرے بزرگ، میرے بھائی اور اس اجتماع میں یہاں موجود حضرت سعید مولانا عبدالصمد صاحب رحمہ اللہ کے متعلقین متوسلین، میں سب سے اس صدمے اور حضرت کی رحلت پر تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، اللہ رب العزت ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کے دلوں کو اللہ تسلی عطا فرمائے، ہر چند کے اتنی بڑی شخصیات کا دنیا سے چلا جانا ایک بڑا نقصان ہے اور یہ نقصان صرف ان کے خاندان کا نہیں، یہ صرف ان کی اولاد کا نہیں ہے، یہ صرف ان کے بھائیوں کا نہیں ہے، بچوں کا نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں اور دنیا میں علمی اور دینی حلقے کا نقصان ہے، امت کا نقصان ہے اور حضرت سے وابستہ، جمعیت علماء اسلام سے وابستہ پوری دنیا میں جو لوگ ہیں وہ آپ کے ساتھ اس صدمے میں شریک ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو تسلی نصیب فرمائے۔
میں جب نیا نیا جماعتی ذمہ داریوں کی طرف آیا تو میری عمر اس وقت 27 سال تھی، حضرت سائیں احمد شاہ صاحب امروٹی رحمت اللہ علیہ، مولانا محمد مراد صاحب رحمہ اللہ اور دوسرے جماعت کے جو اکابر تھے میری پہلی مرتبہ سندھ آنا تھا، پہلا پہلا تھا تو میں یہاں اس درگاہ میں حاضر ہوا تھا اور حضرت مولانا محمود اسعد صاحب رحمہ اللہ کی مجھے زیارت نصیب ہوئی، جماعت کے حوالے سے حال احوال ہوا ان کے ساتھ اور جس طرح انہوں نے شفقت کے الفاظ اور سرپرستی کے الفاظ ارشاد فرمائے میں آج بھی اس مختصر سی ملاقات پھر اس دربار میں دو چار دفعہ ملاقاتیں اور بھی ہوئیں، آج بھی میں ان کے ان چند الفاظ کی قوت اپنے اندر محسوس کر رہا ہوں اور انہی کی وہ دعائیں ہیں اور انہی کی وہ شفقتیں ہیں، انہی کی وہ خیر خواہی ہے جو بعد میں ان کے پورے خاندان نے حضرت مولانا عبدالصمد صاحب نے اور جماعت کی بڑی ذمہ داریوں میں حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب نے نبھائی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ تسلسل انہوں نے برقرار رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت کے جانے کا جو درد آپ کے سینوں میں ہے وہی میرے سینے میں ہے اور میں چونکہ حرم شریف میں تھا وہاں پر بھی ساتھی آتے تھے ملنے کے لیے اور وہاں پر بھی حرم میں حضرت کے حق میں دعائیں ہوتی رہی، اللہ رب العزت ان کے لیے اور ان کے حق میں ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ان کی قبر کو منور فرمائے اور جنت کے باغیچوں میں سے اللہ ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے۔
ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ دنیا میں جو بھی جاندار آتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے رہنے کے لیے نہیں آتا، بالآخر اسے دنیا سے جانا ہی ہوتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ انسان کے اندر روح ڈالتا ہے اسی طرح روح نکالتا بھی ہے اور یہ روح اللہ کی امانت ہے جو انسانی جسم میں یا کسی بھی جاندار کے جسم میں ہوا کرتا ہے، کوئی بڑا آدمی ہو، عظمت والا ہو، علم اور تقوی والا ہو وہ بھی دنیا سے جاتا ہی ہے اور پردہ کر لیتا ہے اور انبیاء بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، لیکن قرآن کریم نے ایسے مواقع پر جو ہمیں تعلیمات سے نوازا ہے وہ یہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس بڑی شخصیت نے اپنی زندگی کس مقصد کے لیے گزاری، اس کی زندگی کا نصب العین کیا تھا، اب اگر وہ دنیا میں نہیں تو ہم نے اس کے نسب العین کو کیسے زندہ رکھنا ہے، اس کے مقصد کو ہم نے کیسے آگے بڑھانا ہے، پسپائی اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اللہ تو بے نیاز ذات ہے، حق کا راستہ، حق کے راستے کو پکڑنا، حق کے راستے پر چلنا یہ اللہ کا ہم پر احسان ہے اور یہ اکابر، یہ سب ہیں ہمیں ایک سیدھی راہ پہ ڈالنے کے لیے تو ہمیں ان کے بھی قدر کرنی چاہیے اور ہم ان کا حق تب ادا کر سکیں گے جب ہم اس مقصد سے وابستہ رہیں گے اور اس مقصد کے لیے ہم اپنی زندگی وقف کرینگے، ہمارے اکابر نے ہمارے لیے دو چیزیں چھوڑی ہیں، ایک مدرسہ کہ اس کے اندر دین کی تعلیم دی جاتی ہے، قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم کو پھیلایا جاتا ہے، نئی نسلوں کو منتقل کیا جاتا ہے اور دوسری چیز جمیعت علماء انہوں نے ہمیں حوالے کیا ہے، سو اب وہ بھی ہمارے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ نے جتنی جمیعت علماء اسلام کی ہمیں خدمت کی توفیق دی، موقع عنایت فرمایا، اس کا جو خلاصہ مجھے سمجھ میں آیا ہے وہ دو باتیں ہیں، ایک جمیعت علماء کا عقیدہ اور نظریہ اور ایک جمعیت علماء کے عقیدے اور نظریے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے جب یہ سانحہ باجوڑ ہوا تھا تو ہندوستان سے مجھے تعزیت کے لیے ہمارے مخدوم مکرم مولانا ارشدد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا فون آیا، تعزیت کی، افسوس کا اظہار کیا، تو جو لوگ اس قسم کے شدت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور قتل و غارت گری کرتے ہیں، سفاکی کرتے ہیں، ان سے بھی بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں، تو میں نے ان سے کہا کہ حضرت ہم تو اپنے ساتھیوں کو یہی بات کہتے ہیں کہ جمیعت علماء ہمارے پاس ایک امانت ہے، دو حوالوں سے ایک عقیدے اور نظریے کے حوالے سے اور منہج اور رویے کے حوالے سے اور یہ دونوں چیزیں ہمارے لیے اور ہم دونوں کی حفاظت کرنی ہے، تو میں نے کہا حضرت آپ کیا فرمائیں گے جو ہم نے سوچا ہے اور جو ہم نے کہا ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط، تو فرمایا بالکل یہی بات ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ تو ہمارے ان حضرات نے ان بزرگوں نے اس عقیدے کے لیے بھی کام کیا اس نظریے کے لیے بھی کام کیا اور اس رویے کے ساتھ کیا اس منہج کے ساتھ کیا جو ہم اور آپ سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ اب وہ تو اپنا کام کررہے ہیں، دنیا میں جتنی بھی اللہ نے ان کو توفیق عطا کی ہے، سو اب ہم نے اور آپ کے لیے امتحان ہے ہم نے انہی کی راہ کو پکڑنا ہے، انہی کی مشن کو آگے لے جانا ہے، ان کے نصب العین کو آگے لے جانا ہے، ان کی جماعت کو آگے لے جانا ہے اور پھر یہ ہمارے وہ درگاہیں نہیں ہیں جو صرف مریدوں سے پیسہ بٹورنے کے لیے دنیا میں ہوتی ہے یہ تو فقیروں کی درگاہیں ہیں، یہ تو آزادی کی، جدوجہد آزادی کے مراکز رہے ہیں، انگریز کے خلاف لڑنے والے قافلے یہاں سے گزرتے تھے، انہی درگاہوں نے ان کی میزبانی بھی کی اور انہی درگاہوں نے ان کو مجااہدین بھی حوالے کئیں، تو یہ اپنی ذات میں زرین تاریخ رہی ہے، ایک تابناک تاریخ رہی ہے، یہ بھی آپ کے لیے اور ہمارے لیے ایک امانت ہے، حق تو یہ تھا کہ میں حضرت کے جنازے میں شریک ہوتا لیکن چونکہ میں عمرے کے سفر میں تھا، وہاں بھی حرم پاک میں اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کی توفیق دی، ساتھی آتے تھے مل کر بھی دعا کرتے تھے، تنہائی میں بھی دعا کرتے، ہم سب کی دعائیں اللہ حضرت مرحوم کے حق میں قبول فرمائے اور ان کے خاندان کو اس مشن کو آگے بڑھانے اس نصب العین کے لیے اور کام کرنے کی اللہ توفیق بھی دے، اللہ ہمت بھی دے، اللہ خلوص بھی عطا فرمائے اور باہمی اتفاق بھی اللہ تعالی عطا فرمائے، یہی ان کا حق ہے ہمارے اوپر کہ ہم ان کی زندگی کے اس خوبصورت کام کے حسن برقرار رکھ سکے، اللہ تعالی ہمیں وہ حسن بھی عطا فرمائے، جہ اللہ کو قبول ہوتا ہے، اللہ کو پسندیدہ ہوتا ہے، تو بس اب دعا فرما لیں آپ حضرات میرے لیے دعا کر لیں، ہم ان کے لیے دعا کریں، آپ میرے لیے دعا کریں گے ان شاءاللہ، میں بھی بہت زیادہ دعاؤں کا محتاج ہوں، پوری جماعت کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی اس کے مستقبل کو روشن فرمائے، کامیابیوں سے سرفراز فرمائے
اختتامی دعا
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں