قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ملتان میں ورکرزکنونشن سے خطاب
10 اکتوبر 2023
الحمدللہ، الحمدللہ وکفی والصلوۃ والسلام علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعہم باحسان الی یوم الدین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا۔ صدق اللہ العظیم۔
حضرات علمائے کرام، جمعیت علماء اسلام کے انتہائی ذمہ دار ساتھیوں، آپ کے خلوص کو قبول فرمائے اور اللہ تعالی ہم سب کو استقامت نصیب فرمائے۔ جمعیت علمائے اسلام اکابر علماء کی قائم کردہ ایک دینی اور سیاسی جماعت ہے۔ برصغیر میں انگریز اسٹیبلشمنٹ کی یہ بھرپور کوشش تھی کہ علماء کو سیاست سے باہر رکھا جائے، انہیں صرف مسجد کی محراب اور حجروں تک محدود کر دیا جائے، انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جائے، لیکن ہمارے اکابر کو اللہ تعالی کروٹ کروٹ اپنی رحمتوں سے نوازے، انہوں نے میدان میں اتر کر اس سازش کا مقابلہ کیا، اس ذہن کو توڑا اور علماء کے لیے، دین دار مسلمانوں کے لیے، ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ ہمارے پاکستان میں بھی ہماری مملکتی نظام اسی ذہنیت کی حامل ہے، انہوں نے بھی ہمیشہ اسی روش پہ کام کیا، ایسی ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئی کہ جنہوں نے باقاعدہ نظریہ دیا کہ علماء کا سیاست سے کیا کام ہے، مولوی جائے اپنے مسجد کے مصلے پہ کھڑا ہو جائے، خطبہ دے، نماز پڑھائے اور بس، اور اس نظریے کا پرچار کرتے رہے ہیں، لیکن ہم نے ان کو بتایا کہ برصغیر کی ڈیڑھ سو سالہ جدوجہد آزادی انہی علماء نے لڑی ہے اور سب سے طویل ترین تاریخ سیاست کی انہی علماء کی ہے، لہذا پاکستان میں بھی اگر ہم نے قرآن و سنت کی بنیاد پر نظام قائم کرنا ہے تو پھر جب تک علماء سیاست میں نہیں ہوں گے، علماء پارلیمنٹ میں نہیں ہوں گے، پاکستان کے نظریاتی تشخص کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آئین 1973 میں بنا، اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل 1973 میں ہوئی اور تمام قوانین جہاں جہاں ضرورت تھی وہاں پر قرآن و سنت کے مطابق سفارشات مرتب ہو گئی، مکمل ہو گئی اور تمام مکاتب فکر کے اندر، تقریباً 98 فیصد 99 فیصد متفقہ سفارشات، لیکن 1973 سے لے کر آج تک ایک سفارش پر بھی قانون سازی نہیں ہوئی، کیوں؟ اسی لیے کہ پارلیمنٹ کو ان لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے جن کو قرآن و سنت کے حوالے سے قانون سازی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں! تو کیا ہم نے قوم کو نہیں سمجھانا کہ اب ذرا نئے زاویے سے سوچو، غور کرو ذرا اور نئے مستقبل کے لیے ایک نئی سوچ پیدا کرو۔ ہمارے ہاں کیا ہے کہ روزانہ کوئی نئی جماعت یا اس کی کوئی نئی شخصیت وہ آتی ہے ایک آئیڈیل نعرہ دیتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ واقعی اس نے کوئی تبدیلی لانی ہے، اس سے وہ امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ یہ جو آئیڈیل نعرہ دے رہا ہے یہ ناتجربہ کار ہے، یہ بھی معلوم نہیں کہ اس طبقے کو کون لے کر آگے آرہا ہے، کون ان کو اقتدار پر بٹھا رہا ہے، بین الاقوامی قوتیں کون ان کی پشت پر ہے، ملک کے اندر کون سی قوتیں اس کے پشت پر ہے۔ اور جمیعت علماء کے بارے میں یہی سوچیں گے کہ یہ تو مذہبی لوگ ہیں، یہ تو مولوی صاحبان ہیں، یہ ملک کو کیسے چلائیں گے، کبھی کبھی ہم بھی حکومتوں میں آئے ہیں، کبھی جزوی طور پر وزارتیں ہم نے بھی لی ہیں، اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ہم نے ان سب سے اچھی طرح چلایا ہے۔ ہر چند کہ بیوروکریسی کا بھی یہ ذہن نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کا بھی یہ ذہن نہیں ہے، لیکن ملک کی سیاست میں تو ہم ہیں، اور یہ جو ابھی گزشتہ تین ساڑھے تین سال آپ حضرات نے ملین مارچ کیے، ملین مارچ میں جو پبلک کی شمولیت تھی، اس نے جمعیت علماء اسلام کو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا ٹائٹل دے دیا ہے۔ اب کسی اور کا نام لیا جاتا ہے تو جمیعت علماء کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ ہاں جب آپ کوئی حرکت نہیں کریں گے تو آپ کو ٹی وی پر نہیں دکھایا جائے گا، کیونکہ وہاں پر بھی تو اس قسم کی دنیا ہے نا، وہ بھی اسی قسم کی ذہنیت کے لوگ ہیں۔ اس چیز کو توڑنا ہے اس پر کمپرومائز نہیں کرنا اور عوام کا اعتماد دینا ہے کیونکہ جمہوری نظام میں، انتخابی نظام میں آپ کی قوت عوام ہی ہے اس قوت کو مجتمع کرنا، وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ۔ اب یہ قوت جو ہے یہاں پر نکرہ ہے، آپ علماء جانتے ہیں فرق کا تعین نہیں ہے اس کا، تو فرق کا تعین آپ کو کرنا پڑے گا، اب جس میدان میں آپ ہیں اس میدان کی قوت آپ کی مراد ہوگی اور وہ ہے آپ کی پارلیمانی قوت، اس کو بڑھائیں۔ اور اگر ہمیں روکا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ دھاندلیاں کرا کے ادھر ادھر ان کو کر دیں گے تو پھر ہم سڑکوں پر بھی تو ہیں، پھر جس طاقت کے لیے ہمیں ایوان سے باہر رکھا گیا پھر اس طاقت کو ہم نے چلنے دیا؟ تو پھر اتنی طاقت ہمارے پاس ہے کہ ہم پھر آپ کو کام نہیں کرنے دیں گے، کیونکہ تم ایک تو پارلیمانی نظام کے ساتھ غداری کرتے ہو، اس میں چوری کرتے ہو، اس میں ہمارا حق مارتے ہو، تو پھر جب ہمارا حق مارا جائے گا تو پھر ہم سڑکوں پر نکل کر آپ کو بتائیں گے کہ ہماری طاقت کیا ہے اور جمعیت کے کارکنوں میں الحمدللہ یہ قوت ہے، کیونکہ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم نے دو دن کے نوٹس پر شاہرہ دستور پر بلایا لوگوں کو، دو دن کے نوٹس پر اور جمعیت کے کارکنوں نے بھرا ہے اس کو، تو ایسا کارکن کسی جماعت کے پاس ہے، نہ ایسی تاریخ کسی کے پاس ہے جو آپ کے پاس ہے، نہ ایسا نظریہ کسی کے پاس ہے جو آپ کے پاس ہے اور نہ ایسا کارکن کسی کے پاس ہے جو آپ کے پاس ہے۔ بھئی میں آپ کا ایک ساتھی ہوں، خادم ہوں آپ کا، میرے سامنے میری تعریف کر کے خامخوا مجھے تکبر میں مبتلا نہ کرو۔ تو اللہ تعالی نے جو خصوصیتیں ایک جماعت کے لیے ہوتی ہیں وہ آپ کو سب عطاء کی گئی ہے تو پھر احساس کمتری کس چیز کا، احساس برتری تو ہمارے اندر ہی ہونی چاہیے، اپنے اپنے حلقوں میں، اپنے اپنے محلوں میں، اپنے ماحول میں، جہاں آپ کا تعارف ہے، جہاں لوگ آپ کو جانتے ہیں، آپ ان کو جانتے ہیں وہاں وہاں اتر کر پبلک کے ساتھ بات کرنی چاہیے کیونکہ مجالس میں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ یہ جو سرویز آتی ہے نا سروے کہ جی فلانے پارٹی کا گراف اتنا ہے اور فلانے کا اتنا ہے فلانے کا اتنا ہے، یہ بازار میں وہاں گھومتے ہیں جہاں اس ذہن کے لوگ ہوتے ہیں، تم ذرا مدرسے، مسجد کے قریب قریب بھی آجاؤ نا وہاں بھی پتہ کرو لوگوں سے پھر پتہ چلے گا کہ گراف کیا ہے، وہاں وہاں پھرتے ہو جہان اسی قسم کے قماش کے لوگ ہوتے ہیں۔ تو اس حوالے سے جو آپ کی تاریخ ہے وہ جو آپ سے تقاضا کرتی ہے اس کے مطابق ہمیں چلنا ہے اور آپ کا مقابلہ صرف ملک کے اندر کی سیاسی جماعتوں سے نہیں ہے، بہت سی سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جو دنیا کو دیکھتی ہیں اور پھر دنیا جس سے راضی ہوتی ہے اس کے مطابق وہ چلتے ہیں، پھر جب آپ نے ان کو راضی رکھنا ہے تو پھر تو انہی کی پیروی کرنی پڑے گی، وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَن كانَ قَبْلَكُمْ، شِبْرًا شِبْرًا وذِراعًا بذِراعٍ، حتَّى لو دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ۔ قُلْنَا: يا رَسُولَ اللَّهِ، اليَهُودَ وَالنَّصَارَى؟ قالَ: فَمَنْ؟ ایک زمانہ آئے گا کہ آپ پچھلی قوموں کی بالشت بالشت قدم قدم ایسی پیروی کرتے نظر آؤ گے کہ اگر وہ گوہ کی غار میں بھی گھسے تو آپ وہاں بھی ان کے پیچھے جائیں گے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ یہود و نصاری ہیں یعنی ہم ان کی تابعداری ایسے کریں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کون ہوسکتے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے، ایک بہت غور و خوص کے بعد، فرماتے تھے کہ بڑے غور و خوض کے بعد میں نے یہ سوچا کہ کون سی دنیا ہے جو مسلمان کو گمراہ کر سکتی ہے اور ان کو اپنے تابع بنا سکتی ہے، میں نے ہندو کی طرف غور کیا میں نے ان میں جاذبیت نہیں ہے، میں نے سکھوں کی طرف غور کیا میں نے کہا ان میں بھی جاذبیت نہیں ہے، میں نے مسیحیوں کی طرف سوچا تو میں نے کہا اس میں بھی جاذبیت نہیں ہے، سوچتے سوچتے سوچتے میرے ذہن میں آیا کہ مغرب کی تہذیب میں جاذبیت ہے، وہ مسلمانوں کو اخلاقی طور پر کھینچتی ہے اپنی طرف، تو پھر میں نے قصد کیا کہ میں ان کے اس تہذیب کے خلاف جنگ لڑونگا اور ان کو ہم توڑیں گے۔ اسلام ایک دین ہے جو آغاز کرتا ہے اپنے نظام کا اخلاقیات سے، قانون کا دائرہ بعد میں شروع ہوتا ہے، تمام دنیا کے نظاموں کا اول و آخر وہ قانون ہے لیکن دین اسلام واحد دین ہے جس کا آغاز اخلاقیات سے ہوتا ہے۔ آپ نے کسی کو قرض دیا اس نے قرض واپس نہیں کیا، تو پہلے اس کو کہتے ہیں واپس کرو، اگر وہ قرض واپس نہیں کرتا تو پھر قرض دینے والے کو اللہ کہتا ہے معاف کر دو، اگر قرض لینے والا قرض دینے میں مہلت چاہتا ہے تو قرض دینے والے کو کہتے ہیں اس کو اس وقت مہلت دے دو جب تک کہ وہ ادائیگی کے قابل ہو جائے، اب ایک معاف نہیں کر رہا دوسرا ادا نہیں کر رہا اور عرصہ لمبا گزر جاتا ہے پھر قانون کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے، پھر وہ مدعی بن کر عدالت میں چلا جاتا ہے تو مدعا علیہ کو پیش ہونا پڑتا ہے، ان کو بتانا پڑتا ہے کہ میں قرض کیوں ادا نہیں کر رہا اور عدالت کہیں کہ قرض ادا کریں پھر قانون شروع ہوجا تا ہے تو ابتدا دین اسلام کے اخلاقیات سے ہیں۔ عظیم الشان اخلاق اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو بتائے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی مظاہرہ کیا اس کا، صحابہ کرام کا دور اس کا شاہد عدل ہے، اس کا عملی نمونہ ہے۔ آج جو مغرب کا حملہ ہے ہمارے اوپر، دو طرف سے، ہمارے اندر کے مذہب کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں باقاعدہ کہ ہم بھی تو پیغمبر کو مانتے ہیں، ہم اپنے پیغمبر کا احترام بھی کرتے ہیں لیکن عملی پیروی ضروری ہے کوئی! تو تم مسلمان بھی اپنی پیغمبر کی پیروی چھوڑ دو، تم مسلمان بھی اپنی قرآن کی پیروی چھوڑ دو، یہ باقاعدہ تعلیم دیتے ہیں اور پھر اوپر سے حیا کا چادر اڑا دو، تو جس وقت انسان اندر سے مذہب سے خالی ہو جائے، اللہ سے رشتہ ٹوٹ جائے اور اوپر سے اس کی حیا کی چادر اُتر جائے، بس پھر وہ قوم آسانی سے غلام بن جاتی ہے۔ تو اسی طرح ہماری تہذیب کو اور ہمارے مذہب کو نشانہ بنا کر دنیا میں غلام بنانا چاہتی ہے اور ہم اس غلامی کا انکار کرتے ہیں، اس کے خلاف ہماری جنگ ہے۔ لیکن مملکتی زندگی میں جہاں آپ کی معاشرتی زندگی وہ مذہب اور تہذیب سے وابستہ ہے، وہاں آپ کی انسانی حقوق، آپ کی معیشت، اس کو قرآن کریم اولین ترجیح دیتا ہے، امن بنیادی چیز ہے، جان کا تحفظ، مال کا تحفظ، عزت و آبرو کا تحفظ۔ اور دوسری چیز ہے خوشحال معیشت۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جو توحید کا عَلم بلند کیے ہوئے تھے اور بندے کا تعلق اپنے رب سے جوڑ رہے تھے اور شرک سے اور بتوں سے لڑ رہے تھے، ان کی عبادت سے وہ لڑ رہے تھے، کیا کیا امتحانات سے وہ گزرے لیکن وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ۔ جب کئی جگہوں پر امتحانات سے آپ کامیاب ہو کر نکل گئے، قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا۔ اب میں تمہیں انسانیت کا امام بنانے والا ہوں اور جب وہ امام بن گئے تو پھر آپ کا لب و لہجہ بھی تبدیل ہو گیا، اپنی ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ، وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ۔ آپ نے امن مانگا اور پھل فروٹ مانگے، خوشحال معیشت مانگی لیکن صرف مومنین کے لیے، اللہ نے فرمایا قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً۔ متاع ویسے بھی مدت قلیل کو کہتے ہیں، ہم حج تمتع کرتے ہیں نا اس کے بیچ میں عمرے اور حج کے بیچ میں تھوڑا سا وقفہ فائدہ اٹھانے کا ہوتا ہے، تمتع ہے نا۔ تو متاع ویسے بھی تھوڑے سے فائدے کو کہتے ہیں دنیاوی فائدے کو۔ تو اس لحاظ سے انسانی حقوق کا تحفظ اور خوشحال معیشت، آج ہمارے ہاں دونوں نہیں ہے، ہم غیر محفوظ ہیں۔ ہماری جان غیر محفوظ، ہمارا مال غیر محفوظ، ہماری عزت و آبرو غیر محفوظ، ہم بھوک و افلاس کا شکار، مہنگائی ہمارے اوپر مسلط، معیشت ہماری تباہ، یہ ساری چیزوں کو ہمیں دیکھنا ہے، وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً قَرْيَةً كَانَتْ آَمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ۔ تو اللہ تعالی نے اس آبادی کا ذکر کیا ہے کہ جہاں پر امن بھی تھا اطمینان بھی تھا اور اس امن اور اطمینان کا سبب کیا تھا کہ معیشت خوشحال تھی، ہر طرف سے رزق کھچ کھچ کے آرہا تھا ان کے پاس، لیکن جو اللہ کی ان نعمتوں کا کفران کیا، تو پھر آپ نے بدامنی اور بھوک کی مصیبت مبتلا کر دیا۔ تو کیا ہماری قوم، من حیث القوم ناشکروں کی نہیں! جس لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر پاکستان حاصل کیا گیا تھا، کیا ہم نے اس سے وفا کی! پاکستان بننے کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد پاس کیا جس میں اللہ کے حاکمیت کو تسلیم کیا گیا اور وہ قرارداد مقاصد آج بھی ہمارے آئین کا حصہ ہے، آئین کا اغاز تو اسی سے ہوتا ہے، کیا ہم نے اس کی قدر کی! صرف کاغذوں میں لکھنے سے کافی ہو جاتا ہے معاملہ! ہم نے جو کہا کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی، کیا ہم نے اس پر عمل کیا! اب آپ اللہ کے کلمے کا نعرہ بلند کر کے ملک بنائیں گے اور پھر اس کلمے کے ساتھ جو حشر آپ کریں گے، پھر اللہ سے آپ توقع رکھیں گے کہ وہ آپ پر نعمتیں نازل کرے گا، پھر اللہ کا اپنا نظام ہے، اس کی اپنی عادت ہے، اس کے مطابق وہ دنیا کو چلاتا ہے۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں۔ آج بھی ہمارا یہی حال ہے، ڈالر اوپر چلا گیا، روپے کی قیمت کم ہو گئی، حل کیا ہے؟ اسحاق ڈار صاحب کو بلاؤ، اسحاق ڈار صاحب آگئے، پھر بات بنی! ابھی کہہ رہے ہیں میاں نواز شریف صاحب تشریف لا رہے ہیں، 100 دفعہ تشریف لائے، سر آنکھوں پہ، ان کا اپنا ملک ہے اپنا وطن ہے لیکن ملک کی بہتری کو ان سے وابستہ کر دینا کیا یہ اللہ نہیں سن رہا! اس پہلو پہ ہمیں نظر رکھنا چاہیے، اسباب کے دنیا میں ٹھیک ہیں لیکن ان کی توجہ بھی اگر اللہ کی طرف ہوگی ان کی حکومت کی توجہ بھی اگر اللہ کو راضی کرنے کی طرف ہوگی تو پھر اس ملک میں برکتیں بھی آئیں گی نظام بھی ٹھیک ہوگا۔جمعیت علماء کو اس پہلو پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پہلو پر قوم کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے۔ یہاں تو یہ ہے کہ دو دن کسی کو حکومت ملی اور دو دن کے اندر کوئی قیمت بڑھ گئی تو اس کے خلاف مردہ باد کا نعرہ شروع ہو جاتا ہے، تم آئے اور تمہارے حکومت میں یہ ہو گیا۔ بنیادی بات یہ ہے پاکستان کی کہ یہ اُتار چڑھاؤ تو چلتا رہتا ہے، کبھی آپ کی مجموعی قومی پیداوار اس کی شرح تین فیصد ہوگی کبھی ساڑھے تین فیصد ہو گئی کبھی پانچ فیصد ہو جائے گی کبھی چھ فیصد ہو جائے گی پھر پانچ فیصد پہ آجائے گی، یہ اتار کھڑا تو چلتا رہتا ہے، لیکن پاکستان کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ 17 ، 18 کی حکومت گئی اور ملک کی معیشت اس کو سالانہ مجموعی قومی پیداوار کو چھ فیصد پہ چھوڑ گئی اور بعد والی حکومت آئی تو پھر وہ دن بھی ہم نے دیکھا جب ملکی معیشت مائنس پہ چلی گئی زیرو سے بھی نیچے چلی گئی۔ اب یہ ہوتے ہیں وہ نعرے اور تبدیلیاں، تو تبدیلی کا یہی مطلب ہے کہ چھ سے زیرو پہ لے آؤ اور زیرو سے بھی نیچے لے آؤ! یہ تبدیلی ہے۔ کیوں قوم دھوکہ کھاتی ہے، ہم تو سیاست میں رہتے ہیں کردار ادا کرتے رہیں گے، ہمارے نظریات کے اوپر کوئی حکومت آتی ہے ہم ان کے ساتھ تعاؤن بھی کریں گے، لیکن اپنا کردار اپنی طاقت کی حد تک ادا کرینگے اس سے زیادہ تو ہم نہیں ادا کر سکتے۔ مجھے یاد ہے یہاں مولانا لقمان علی پوری صاحب رحمہ اللہ تقریر کر رہے تھے کہتا ہے جہاں جاتا ہوں کہتے ہیں اسلام کب آئے گا؟ ووٹ ایک نہیں دیتے، صندوقیں پوری خالی اور پھر پوچھتے ہیں اسلام کب آئے گا۔ یہ سوال کرنا تو بہت آسان ہے لیکن ہم نے جو راستہ چنا ہے وہ پارلیمانی قوت کا چناہ ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ کچھ لوگ جو آج پیدا ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کفر ہے اور اس کو ختم کرو اور پھر جہاد کا، بندوق اٹھاؤ، بھئی بندوق تو ہم وہاں اٹھائیں گے جہاں بیرونی تسلط ہوگا براہ راست، جیسے انگریز کا تسلط تھا ہمارے حضرات لڑیں، جسے روس کا تسلط افغانستان میں تھا وہاں کے لوگ لڑے، امریکہ کا تسلط وہاں پر آیا تو ان کے خلاف مسلح لڑے، اسرائیل وہاں پر قابض ہے، فلسطین کے اوپر تو وہ لوگ لڑ رہے ہیں، لیکن پاکستان میں تو اب وہ 1945 کے جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد نوآبادیاتی کے نظام کا خاتمہ ہو گیا ہے، اب بین الاقوامی ادارے ہیں وہ آپ کی معیشت کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں، وہ آپ کی سیاست کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں، وہ آپ کی دفاع کے نظام کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں، ساری چیزیں اثر انداز ہوتے ہیں، تو پھر سیاست کے مقابلہ سیاست بھی کیا جائے گا، معیشت کا مقابلہ معاشی حکمت عملی سے کیا جائے گا اور دفاع کا مقابلہ دفاعی حکمت عملی سے کیا جائے گا، ہم نے ایٹم بم کیا بنا دیا کہ اس کو ہمارے لئے عذاب بنایا جا رہا ہے۔ ساری دنیا کا دباؤ ہمارے اوپر آرہا ہے، پاکستان کو کیوں ایٹمی طاقت ہے! بھئی اسرائیل ایٹمی بھی طاقت ہے، تو اس پر اعتراض کیوں نہیں ہے ہندوستان ایٹمی بھی طاقت ہے اس پر اعتراض کیوں نہیں اور کچھ ممالک ہیں جو جوہری قوت حاصل کر چکے ہیں ان کے خلاف وہ اقدامات نہیں، ہمارے اوپر سارا مسلط ہے۔ ہماری معیشت کو تباہ کر دیا گیا ہے، ہمارے اوپر قدغنیں ہیں، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ ہمارے اوپر ہے، قادیانیوں کے خلاف آئینی ترمیم واپس لینے کا دباؤ ہمارے اوپر ہے، اور ابھی تازہ ایک بیان آیا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو اگلی قسط دینے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ احمدیوں، قادیانیوں کے عبادت گاہیں ہیں ان کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اب ہماری معلومات میں ہے کہ بعض جگہوں پر وہ خود ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ بین الاقوامی اداروں کے سامنے اپنے آپ کو مظلوم قرار دے اور وہاں پر ہماری لابی چلتی رہے، حالانکہ ایسی کوئی سوالات ہمارے ہاں نہیں ہیں۔ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے ان سے کہ آئین کو تسلیم کرو پارلیمنٹ کے فیصلے کو تسلیم کرو میں آئین کو تسلیم نہ کروں میں غدار اور وہ آئین کو تسلیم نہ کریں، پارلیمنٹ کو تسلیم ہی نہ کریں، وہ قابل رحم! یہ کیسا آئین اور قانون ہے کہ میرے لیے اس کا پیمانہ اور ہے اور ان کے لیے ان کا پیمانہ اور ہو! تو یہی وہ چیزیں ہیں کہ جس کی بنیاد پر ہم ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔ افغانستان میں روس آیا ہم نے اس کے جہاد کی حمایت کی۔ اسرائیل فلسطین پہ قابض ہے تو وہاں کے لوگ اپنی آزادی کے لیے مسلح جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ہمارے ہاتھوں ایسا کوئی براہ راست تسلط نہیں ہے، اثرات ہیں، اپنی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے وہ اپنے وسائل استعمال کرتے ہیں، تو یہاں پر ہمیں بھی اسی انداز کے ساتھ حکمت عملی بنانی پڑتی ہے تاکہ ہم ان کے داؤ کو روک سکیں، ان کی حکمت کو روک سکیں، ان کی سیاست کو روک سکیں، ان کی اقتصادی دباؤ کو روک سکیں، ان کی دفاعی دباؤ کو روک سکیں، ایسی قوت اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک میں آزادی ہو تو پھر وہ قوت پیدا کرنی ہوگی جو اس نظریے کے تحت کام کرتی ہو۔ یہاں مسلح کی کیا ضرورت ہے یہاں مسلمان کے خلاف لڑیں گے! لیکن جب آپ کے ملک میں پارلیمان قانون سازی نہیں کرے گا تو آپ کا مقدمہ کمزور ہوگا، ان کے مقدمے کو تقویت ملے گی، جو عقل اور شرعی لحاظ سے کمزور ہے ان کا موقف لیکن ہم جب بے عملی کریں گے اس حوالے سے تو اس کے اثرات پڑتے ہیں۔ تو ہمیں تو اپنے اکابر سے دو چیزیں ملی ہیں ایک نظریہ اور ایک اس نظریے اور عقیدے کے لیے کام کرنے کا منہج اور تویہ۔ جو نظریہ انہوں نے ہمیں عطا کیا، منشور کی صورت میں ہم نے وہی لے کے چلنا ہے اور جب وہ منشور ایسا ہے کہ آپ ملک پر جب حکومت کریں گے تو اس منشور کو قابل عمل بنائیں گے، پالیسیاں اس کے تابع ہونگے، تو پھر آپ بتائیں کہ اس میں فرقہ وارانہ انداز اختیار کرنے کی گنجائش ہے؟ اگر ہم نے آج یہ تاثر دے دیا کہ ہماری حکومت آگئی تو فلانے مسلک کے ہم گردن مروڑیں گے، پھر ان کے ہم گلے کاٹیں گے، آپ بتائیں کہ پھر یہ ملک پر حکمرانی کرنے کا حقدار آپ کو سمجھیں گے؟ تو ہمارے پاس تو ملک کو چلانے کا ایک نقشہ ہے، ہمارا منشور اس حوالے سے رہنمائی کرتا ہے اور اس میں انسانی حقوق کا تحفظ ہوگا، اس میں امن ہو گا، اس میں خوشحال معیشت ہوگی، اگر آپ ابھی سے اپنے آپ کو فریق بنا لیں گے، اس لیے پبلک میں جانا پڑتا ہے، بلا امتیاز جانا پڑتا ہے اور یہ بہت بڑے فضیلت کی بات ہے کہ ہم بیٹھے ہیں اور لوگ اپنی ضرورتیں ہماری طرف لاتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنی ایسی مخلوق پیدا کر دیتا ہے، خَلقَهُم لِحَوائجِ النّاسِ۔ جو لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے، يَفزِعُ النّاسُ إليهمْ في حَوائجِهم۔ اور لوگ اپنی حاجتیں اور ضرورتیں، ان کی طرف لپکتے ہیں، ان کی جزا کیا ہے، أولئكَ الآمنونَ من عذابِ اللهِ۔ قیامت کے دن وہ محفوظ ہونگے۔ تو ہم اگر پبلک کی اور عام آدمی کی اور غریب آدمی کی مدد کرتے ہیں اس نیت کے ساتھ یہ اللہ کا بندہ ہے، میرے پاس حاجت لے کر آیا ہے، میں اس کی حاجت پوری کرنا چاہتا ہوں اور بلا امتیاز کریں گے، تو پھر پبلک سمجھے گی کہ بھلا یہ دیوبندی ہیں لیکن مجھے تو انسان سمجھتا ہے، مجھے تو اپنا بھائی سمجھتے ہیں، مجھے تو معذور سمجھتے ہیں، مجبور سمجھتے ہیں، میری مدد کے لیے تو وہ تھانے میں میرے ساتھ جاتا ہے، دفتر میں جاتا ہے، کچہری میں جاتا ہے میرے ساتھ، اگر یہ چیز ہماری طرف لوگ دیکھیں گے وہ آپ کو قبول کرینگے، آپ کے مدرسے کو بھی قبول کرے گا، آپ کے منہج کو قبول کریں گے، تو اس حوالے سے ہمارے پاس جو اکابر کی امانت ہے ہم نے اس منہج کے ساتھ آگے لے جانا ہے۔ آپ نے خود دیکھا ماضی میں ہمیں کتنے نقصانات ہوئے، فرقہ وارانہ جنگ میں ہمیں کتنے نقصانات ہوئے، بندوق کی سیاست آگئے، اس میں ہمیں نقصان ہوا، وقتی طور پر بہت جذباتی لہر تھی وہ لیکن ہم نے اس سے اثر نہیں لیا، ہم اڑ گئے، اور آج الحمدللہ حالات بہتر ہو گئے، لیکن پھر بھی صورتحال ہمارے خیبرپختونخوا میں، بلوچستان میں اور کسی قدر سندھ میں ٹھیک نہیں، امن و امان کے حوالے سے ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے حالات بن رہے ہیں کہ جیسے کوئی امیدوار شاید انتخابی کمپین بھی نہ چلا سکے، گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو رہا ہے۔ تو یہ ساری چیزیں حالات ہمارے لیے مشکل ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔ جب میں یہ بات کرتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں یہ الیکشن ملتوی کرارہا ہے، الیکشن نہیں ملتوی کرارہا حقائق ہے یہ، اس کو سمجھنا چاہیے، حکومت کو سمجھنا چاہیے، الیکشن کمیشن کو سمجھنا چاہیے، اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا چاہیے، بیوروکریسی کو سمجھنا چاہیے، پبلک کو یہ باتیں سمجھنی چاہیے، اب انہوں نے ایک شیڈول دے دیا اور اس شیڈول کے تحت الیکشن پڑھ رہے ہیں جنوری کے آخر میں، جنوری کے آخر جو ہے وہ بالکل سردیوں کا پِک ہوتا ہے، اب ملتان ہو تو گزارا ہو جائے گا، ڈیرہ اسماعیل خان تو گزارا ہو جائے گا، سکھر ہو تو گزارا ہو جائے گا، لیکن اگر خضدار سے لے کر پورا شمالی بلوچستان ہو اور وزیرستان سے لے کر وہ پورا چترال تک اور پھر چترال سے یہ آگے سارا دیر، شانگلہ، بونیر، سوات اور یہ بٹگرام، کوہستان، ایبٹ آباد، مری، مانسہرہ یہ علاقے کے تو برف پوش ہیں، تو ملک کا اتنا بڑا حصہ جو برف پوش ہے، اس میں تو لوگ ہی نہیں ہوں گے۔ اب یہ بات کرنا، کوئی کہتا ہے صاحب یہ تو الیکشن ملتوی کرنا چاہتا ہے بابا میں الیکشن ملتوی نہیں کر رہا ہم تو تین سال ساڑھے تین سال سے سڑکوں رہے۔ ہم نے 2018 کا الیکشن تسلیم نہیں کیا، ہم نے اسی لیے سارا کچھ کیا کہ ملک میں جائز انتخابات ہو۔ اب جائز انتخابات آپ کہیں کل ہے تو ہم کل بھی تیار ہیں، یہ نہیں کہ ہم تیار نہیں ہیں، اللہ کے فضل و کرم سے ہم کل بھی تیار ہیں، یہ بات نہ کیا کرو۔ کابینہ نے متفقہ فیصلہ دیا ہماری کابینہ نے، جس میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھیں ہم بھی تھے سارے تھے اس کے اندر اور متفقہ منظوری دی کہ نئے مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن ہونی چاہیے اور جب نئی مردم شماری پہ کریں گے تو پھر نئے حلقہ بندیاں ہونگے، پھر کہی پر حلقے ختم ہوں گے کہیں پر حلقے نئے بنیں گے، صوبائی حلقہ بندیاں ہوں گے، کہیں پر بنیں گے کہیں پر ٹوٹیں گے، تو اس سے تو پھر شیڈول تبدیل ہوگا۔ اب باہر آکر یہ کہنا کہ ہم تو الیکشن فوراً چاہتے ہیں اور اندر سے جو ہے آپ اس کی منظوری دے رہے ہوں، یہ کون سی سیاست ہے، سمجھ میں نہیں آتی یہ سیاست، صحیح بات کرو جو بات بات کرنی ہے، قوم کے سامنے صحیح بات کیا کرو۔ تو یہ وہ حقائق ہیں۔ اور آج آپ دیکھ رہے ہیں فلسطین کے معاملے پر صورتحال بالکل تبدیل ہوگئی ہے۔ فلسطینیوں نے جو تازہ حملہ کیا ہے، پتہ نہیں کس زمانے سے وہ اس کی تیاری کر رہے ہونگے، زیر زمین سرنگیں لگا کر وہاں تک نکلیں، دریاؤں کے راستے سے آئے ہیں، فضا کے راستے سے آئے ہیں، پتہ نہیں کس طریقے سے آئے ہیں اور اس وقت بھی غزہ کی پٹی سے زیادہ علاقہ فلسطینیوں نے اسرائیل سے اپنی زمین قبضے میں لی ہے، تو اپنی زمین قبضے میں لی ہے نا انہوں نے، لیکن اسرائیل جو مظالم ڈھا رہا ہے، بچوں کو قتل کر رہا ہے، عورتوں کو قتل کر رہا ہے، بچوں کو ماؤں کے سامنے، باپ کے سامنے، اتنے مظالم ڈھا رہے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے، اور اس کے لیے کوئی انسانی حق کی بات نہیں کر رہا، اس کے مقابلے میں اس مقتول کو دہشت گرد کہتے ہیں، اس ظلم کے ساتھ ہے، چاہے امریکہ ہو چاہے مغربی ممالک ہو، یہ انسانی حقوق کے دشمن ہیں۔ اگر ہم نے بیان دیا کہ بھئی آپ اس کا خیال رکھیں جذبات میں آکر کہیں بچوں کو نہ مار دیں، کہیں عورتوں کو نہ مار دیں، تو میری گفتگو کا وہ ٹکڑا اٹھا کر اور کہا دیکھو یہ تو یہودیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے، تو میں نے کہا وہ جو شیاطین الجن ہے نا جو اوپر آسمانوں میں جا کر جب آسمان سے وحی آتی ہے یا کوئی پیغام انسانوں کے پاس آتا ہے تو اس کو چوری کرتے ہیں، تو شہاب ثاقب سے اللہ مارتا ہے ان کو، ان کو کامیاب نہیں ہونے دیتا، لیکن بعض دفعہ کوئی ایک ٹکڑا آدھا مل جاتا ہے ان کو، تو وہ ایک چھوٹا سا سچ جب ان کو مل جاتا ہے تو 20 جھوٹ وہ اپنے ملا کر لوگوں کے دماغ میں اضطراب پیدا کرتا ہے، مشکل پیدا کرتے ہیں، تو یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ کہتے ہیں جب شہاب ثاقب سے اللہ مارتا ہے اور مر جاتے ہیں پھر کیوں یہ کوشش کرتے ہیں، تو کوہ ہمالیہ پہ جو لوگ چڑھتے ہیں، وہ نہیں گرتے، وہ مرتے نہیں ہیں، پھر لوگ چھوڑتے ہیں یہ کام، یہ تو ایک عادت ہے کہ جو عادت پڑ گئی ہے وہ عادت پھر لوگ آخر میں کرتے رہیں گے، اپنی مرہم جوئی کرتے رہیں گے کسی نہ کسی انداز میں۔ اس قسم کی باتیں وہ کر رہے ہیں۔ تو یہ ساری چیزیں اب یہ لوگ، ان کے جو بڑے آقا ہیں سارے، وہ سارے کے سارے حمایت کر رہے ہیں اسرائیل کے، گڑبڑ بیان دے رہے ہیں، میں تو پاکستان کی اسٹیٹ کی طرف سے جو بیان دیا گیا ہے اس کو بھی مکمل نہیں سمجھتا، کیونکہ فلسطین کے بارے میں سن لے ایک بات، سن 1940 میں جو قرارداد پاکستان پاس ہوا تھا، جو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود پاس کرایا تھا، اس قرارداد پاکستان کا حصہ ہے، اس زمانے میں اسرائیل نہیں تھا، جس طرح پاکستان نہیں تھا، لیکن یہودی بستیاں قائم ہو رہی تھی فلسطینی سرزمین پر، تو اس قرارداد میں یہودیوں کی آباد کاری کی مخالفت کی گئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ پھر دو جنگیں ہوئیں اس کے بعد، ایک رمضان کی جنگ، حرب رمضان کہتے ہیں اس کو، ایک 67 کی جنگ مصر کے ساتھ اور تو ان جنگوں میں بھی پاکستان کے پائلٹ گئے ہیں، پاکستان کی فوج لڑی ہے اس میں اور ہمارے پائلٹوں نے ان کے جہاز گرائے ہیں اس میں، یہ وابستگی پاکستان کی رہی ہے مسئلہ فلسطین کے ساتھ۔ آج پاکستان میں پروپیگنڈا ہو رہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کریں، بڑے بڑے بڈھے آتے ہیں اور اپنے فلسفے بگارتے ہیں چینلوں پہ، معیشت کا فائدہ ہوگا، دنیا کی معیشت بدل گئی ہے، یہ ہو گیا وہ ہو گیا۔ اور یہاں تک بھی کہ بیت المقدس پر ہمارا کیا دعوی ہے، وہ تو اللہ نے ان کے لیے لکھ دیا ہے، الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ۔ اس کے تحت معنی کرتے ہیں کہ اللہ نے الاٹ کر دیا ہے اس کو۔ جبکہ امام بخاری اس کو جَعَلَ سے تعبیر کرتے ہیں، جعل اللہ لکم، جعلت لھم۔ لیکن وہ بھی تو ایک معاہدے کے تحت تھا نا وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ۔ پیچھے ہٹنا نہیں ہے، پھر وہ نہیں ہٹے؟ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ۔ پھر وادی طین میں 40 سال تک وہ دھکے نہیں کھا رہے تھے، معاہدہ تو ٹوٹ گیا اور پھر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، تمام انبیاء کے آخری پیغمبر تھے، تمام انبیاء کے، اور جب اللہ تعالی نے ان کو معراج کا سفر کرایا تو پہلے مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئے۔ سُبْحَانَ الَذِى أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَذِى بَارَكْنَا حَوْلَهُ۔ اب یہ جو رشتہ ہے حرم مکہ سے حرم اقصی کا اور یہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے وہاں جا رہا ہے اور تمام انبیاء کرام کی امامت کرنی ہے اور حضرت موسی علیہ السلام سے ایک خصوصی ملاقات بھی کرنی ہے اور پھر اس کے بعد آگے گئے۔ یہ ساری اشارے نہیں ہیں کہ اب یہ رسول اللہ کے حوالے ہو گیا۔ پھر جب یہودیوں نے قبضہ کیا اس کے اوپر تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کیوں گئے اس کی آزادی کے لیے، فتح کرنے کے لیے کیوں گئے، پھر اس کے بعد ایک دوبارہ قبضہ کیا انہوں نے صلاح الدین ایوبی کیوں گئے اس کو آزاد کرانے کے لیے۔ ہماری تاریخ اس بات کو بتاتی ہے کہ مسجد اقصی پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے، قبلہ اولی ہے مسلمانوں کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے سال مسجد اقصی کا رخ کر کے نماز پڑھی ہے، اس کے باوجود یہاں کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس پر یہودیوں کا حق ہے۔ پتہ نہیں کوئی قرآن میں تحریف کر رہے ہیں، قرآن کو سمجھ نہیں رہے، جہالت ہے، اس کی مفہوم میں تحریف کر رہے ہیں، کر کیا رہے ہیں یہ لوگ؟ تو اس حوالے سے بھی نئے نئے نظریے پھیلائے جا رہے ہیں۔ ہماری جماعت میں بھی یہ لوگ پیدا ہوئے نا، پھر اس کے بعد وہ جماعت کا تو نہیں رہ سکتا، ہمارے منشور کے خلاف ہے، اپنا منشور پڑھے نا ذرا، اس موضوع پر ہمارا جماعت کا موقف کیا ہے، نظریہ کیا ہے، ٹھیک ہے حالات بدلتے رہیں گے، 75 سال ہو گئے لیکن مسئلہ تو زندہ ہے، لوگوں نے تو مردہ سمجھا لیکن چند روز ہوئے اس کی اہمیت آسمان کو چھو رہی ہے اب، یہ سلگتی آگ ہے، آپ سمجھتے ہیں آگ بجھ گئی، نہیں اندر سے ایک چنگارہ جو ہے وہ زندہ ہوتا ہے، وہ کسی بھی وقت بھڑک سکتا ہے، تو اس اعتبار سے ہم واضح اعلان کرتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمهمْ وَتَعَاطُفِهمْ، كمَثَلُ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ، اشْتَكَى كُلُّهُ، وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ، اشْتَكَى كُلُّهُ وإِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّ۔ ایک جسم کی طرح ہے مسلمان، اگر آنکھ میں درد ہے تو پورا جسم بے قرار، سر میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار، جسم کے کسی حصے میں اگر درد مچل رہا ہو تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہاں درد ہو باقی جسم سویا ہوا ہو، ساری رات جاگ کے گزارنی پڑتی ہے، بخار میں گزارنی پڑتی ہے، ہمیں اپنے مسلمان بھائی کی درد کا احساس ہونا چاہیے، یہ اسلام کے ایک جسم ہونے کی دلیل و علامت ہے۔ ہم نے افغان بھائیوں کو بھی اکیلا نہیں چھوڑا تھا، ہم نے فلسطینیوں کو بھی اکیلا نہیں چھوڑا، اور دنیا میں جہاں جہاں بھی آزادی کی تحریکیں ہیں جمیعت علماء اسلام نے ہمیشہ اس کے ساتھ دیا ہے، یہ ہمارے نظریات کے عین مطابق ہے۔ تو اس حوالے سے اگر ریاست بھی غلط فیصلہ کرتی ہے تو ہم ریاست کے غلط فیصلے سے بھی اختلاف کرتے ہیں، امریکہ نے جو حملہ کیا افغانستان پر، جنرل مشرف نے فیصلہ دیا اس کو ریاست کا فیصلہ قرار دیا ہم میدان میں نکلے، چھے مہینے میں مجھے جیل میں رہنا پڑا، قاضی حسین احمد صاحب کو چھے مہینے جیل میں رہنا پڑھا، تین ساتھی ہماری جیکب آباد بعد میں شہید ہو گئے، کہ یہ ایئرپورٹ آپ لوگ کیوں دینگے! اس میں مظاہرہ ہوا، ہم نے اپنا نظریہ دیا، ہم نے اپنا موقف دیا اس پہ۔ تو ہمیں اپنی گفتگو واضح رکھنی چاہیے، ہم پاکستان کے وفادار، ہم ملک کے اداروں کے ساتھ بھی تعاون کرنے کو تیار ہیں، لیکن ادارے فیصلے صحیح کریں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو، پاکستان کے نظریے سے مطابقت رکھتے ہوں، کوئی مشکل نہیں ہے دنیا کے ساتھ ہمارے چلنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم چل سکتے ہیں۔ ہم کسی کے مفاد کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہمارا مفاد بھی محفوظ ہونا چاہیے۔ دنیا میں کوئی نظریہ ہو یہ ان کی مرضی لیکن ہمارا بھی ایک نظریہ ہے، ہمیں بھی اس نظریے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہیے، ہم اس حق کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، ہم اس حق کے لیے ایک نظریہ ہے اور ان شاءاللہ اس نظریے کو برقرار رکھا جائے۔ تو اب آپ نے الیکشنوں میں جانا ہے، پبلک میں جانا ہے ان شاءاللہ اور آپ نے کام کرنا ہے اور یاد رکھیں یہ جو ہمارے ہاں ہوتا ہے نا جی کہیں کہیں تنظیموں کے اختلافات وغیرہ اگر اس کے بعد بھی آپ اس کو جاری رکھیں گے تو آپ کے اپنے اندر کے اختلاف آپ کی شکست کا باعث بن جائیں گے، تو وہ اپنے اندر ایک دوسرے کو فتح کرتے ہو جبکہ ہم کہتے ہیں دوسرے کو فتح کرو، مخالف کو فتح کرو اور میں جانتا ہوں آپ کو، جس وقت عمران خان کی حکومت کے خلاف ہم نکلے، آپ کو اختلاف بھول گئے تھے یا نہیں، ایک جان ہو کر آپ نکلیں تھے یا نہیں نکلے، اب الیکشن آرہا ہے تو اب بھی اس طرح کرنا پڑے گا اور اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ یہ کینڈیڈیٹ میرے مرضی کا نہیں ہے بھلا فیل ہو جائے تو خبر کیا جائے گی جمیعت علماء اسلام نے شکست کھاگئی، یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں بندے فلاں جگہ شکست کھا گیا، وہ آپ کے علاقے میں لوگ سمجھیں گے، آپ کے گاؤں میں لوگ سمجھیں گے کہ فلاں نے شکست کھا لیا دنیا کہے گی جمیعت علماء اسلام شکست کھا گیا۔ تو اس حوالے سے اپنے صفوں میں ایک دوسرے کے لیے نرمی پیدا کرو، باہمی محبت کا مظاہرہ کرو، اپنے ساتھیوں کے آپس میں رُحمَاء بَینھُم بنو نا، قرآن نے اصول دیا ہے صحابہ کرام اس کے مصداق تھے، تو ہم جو صحابہ کی بات کرتے ہیں تو ان کے کردار بھی اپنائیں ذرا۔ وہ اشِدّاء علی الکفار تھے، اصول بنا دیا، اپنے مخلاف کے خلاف متحد رہے مضبوطی کے ساتھ، ان اصولوں کو اگر اپنائیں گے تو آگے آپ کی کامیابی قدم چومے گی ان شاءاللہ اور اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے، اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا، اس کی طرف رجوع رہے، دعائیں کریں، رات کو اٹھیں اور پوری جماعت کے لیے دعا کریں اور میرے لیے تو خصوصی دعا کریں کہ اللہ تعالی ہمیں ذرا قوت دے تاکہ اس کام کو ہم آگے چلا سکیں، میں بھی دعاؤں کا مستحق ہوں، آپ کی دعاؤں میں، اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائے اور دعا کریں اللہ تعالی اجتماع کو بھی قبول فرمائے۔
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں