قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مفتی محمود مرکز پشاور میں جمعیت علماء اسلام کے رضاکاروں کو خصوصی خطاب 13 اکتوبر 2023


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مفتی محمود مرکز پشاور میں جمعیت علماء اسلام کے رضاکاروں کو خصوصی خطاب

13 اکتوبر 2023 

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد 
میرے انصاار الاسلام کے جوانوں! آپ نے جب بھی جماعت کو ضرورت پڑی ہے تو خدمات کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا ہے، ہراول دستے کی طرح پیش کیا ہے اور آپ نے یہ پرواہ نہیں کی کہ ہمارے اوپر کیا امتحان آئے گا، کیا تکلیف آئے گی، کیا مشکل آئے گی ہمارے اوپر، آپ نے مردانہ وار ہر مشکل کا مقابلہ کیا ہے۔ جماعت کے ملین مارچ ہوں، آزادی مارچ ہوں، یہاں پشاور میں جمعیت کے بڑے بڑے جلسے ہوں، آپ حضرات نے اپنی بھرپور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے، اور یقینا پوری جماعت کو آپ کے خلوص، آپ کے جذبے اور آپ کی کامیاب کارکردگی پر فخر ہے۔ ہمیں یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اصل محافظ اللہ کی ذات ہے، بس اس کی نظر رہنی چاہیے اور اپنی حفاظت میں اللہ ہمیں لے لے، یہ جو انتظامات ہیں یہ اسباب کی دنیا ہے، بس اللہ تعالی نے آپ کو اس کے لیے ایک سبب بنا دیا ہے، آپ کے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ ہم نے جماعت کے جلسوں کی حفاظت کرنی ہے، جماعت کے پروگراموں کو منظم رکھنا ہے، جو ہمیں ڈیوٹی دی جائے گی ہم وہ ڈیوٹی من و عن پورا کریں گے اور چوکس رہیں گے، جو چوکس رہتے ہیں اپنے اوپر نیند حرام کر لیتے ہیں، ہر مشقت کو وہ قبول کرتے ہیں۔ اس کے حوالے سے اللہ رب العزت نے انسان کو جو پیدا کیا تو فرمایا لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ۔ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا۔ اب اس مشقت کے پیدا کرنے کا دعوی اللہ تعالی نے جب لیا تو اس پر کیا مرتب کیا اللہ نے، تو اللہ تعالی اس پر جو چیز مرتب کرنا چاہتے ہیں، فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ۔ تاکید کے ساتھ اللہ فرماتے ہیں کہ پھر تم گھاٹی میں داخل ہو، اب گھاٹی سے کیا مراد ہے، گھاٹی دشوار گزار راستے کو کہتے ہیں، ایسا راستہ جس میں ناموافق ہوائیں ہوں، کبھی ٹھنڈی ہوائیں کبھی گرم ہوائیں، سنگریزہ ہو، پتھریلی زمین ہو، جھاڑیاں ہوں اور اس مشقت والے راستے سے آپ گزر رہے ہیں، تو اللہ تعالی پھر پوچھتا بھی ہے وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ۔ پتہ ہے کہ یہ جو گھاٹی ہے یعنی یہ جو شریعت کا راستہ ہے جب تم اس میں داخل ہوتے ہو تو اس کا کیا مطلب ہے، وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ۔ تو اس عقبہ کا جو پہلا تقاضا ہے، اس شریعت کا جو پہلا تقاضہ ہے، اس راستے کا جو پہلا تقاضہ ہے فَكُّ رَقَبَةٍ۔ گردن کو آزاد کرنا۔ اب ہمارے تو تمام استاد ہمیں یہ پڑھاتے ہیں، کہ کسی کے گھر میں کوئی غلام ہو، باندی ہو، تو اس کو آزاد کر لو، لیکن کیا قرآن کریم کی مفہوم کو ہم اتنا محدود کر دیں کہ بس گھر کے اندر ایک غلام ہے اور غلام کو آزاد کر دیا، یہ تو اللہ کا کلام ہے، پورے کائنات کو محیط ہے، لہذا گھر کے ایک غلام سے لے کر پوری مملکت اور پوری قوم کی غلامی کو ختم کر کے اس کو آزادی میں تبدیل کرنا یہ اس راستے کا اولین تقاضہ ہے، یعنی آزادی، قومی آزادی، مملکتی آزادی، فرد کی آزادی، یہ آزادی اولین تقاضا ہے، اس شریعت کے راستے کا۔ غیر کی قوت کی بالادستی کو قبول نہیں کرنا، فَكُّ رَقَبَةٍ۔ دوسری چیز، أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ۔ بھوک کے دن میں کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا۔ اب یہ بھی ٹھیک ہے کہ آپ کے پڑوس میں، آپ کی گلی میں ایک بھوکا رہتا ہے، اس کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ہے، آپ گئے اور آپ نے ان کو کھانے پینے کی چیز دے دی، تو یہ بھی ایسا مفہوم ہے جو ہمارے علماء ہمیں بیان کرتے ہیں لیکن اگر ہم قرآن کریم کی وسعت کا تصور کر لے اور اس وسعت کے ساتھ ہم اس کے مفہوم کو عام کر دیں، اس کو وسیع کر دیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ ملک اور قوم کی معیشت کو بہتر کرنا، اس کو بھوک کی حالت سے نکالنا، فقر کی حالت سے نکالنا، معاشی خوشحالی کی طرف لے جانا۔ تو قرآن کریم ہمیں سب سے پہلے جو شریعت کا تقاضا بتاتا ہے وہ آزادی ہے، نمبر دو شریعت کا جو دوسرا تقاضا ہے وہ معاشی خوشحالی ہے۔ اس کے بعد مفلوق الحال طبقہ آتا ہے، کمزور طبقے اور اس کا ذکر اللہ تعالی کرتا ہے۔ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ۔ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ۔ ایک ایسا یتیم کہ جو قرابت دار بھی ہو، اس کے سر پہ ہاتھ رکھ لینا، بچہ ہے تو آپ نے اس کو بڑا کر دیا، پھر نگرانی میں اس کو تعلیم دلوائی، اس کی تربیت کر دی، اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا، نبی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یتیم کی کے یتیم کی کفالت کرنے والا قیامت کے روز میرے ساتھ اس طرح کھڑا ہوگا میرے شانہ بشانہ ہوگا، اور ایسا مسکین جس کے جسم پر کپڑے نہیں ہیں، جو گرد میں بیچارا زندگی گزار رہا ہے پورا جسم گرد سے ہٹا ہوا ہے، تو اس اہمیت کو آپ ذرا مد نظر رکھیں کہ جمیعت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے ہم جو محنت کر رہے ہیں وہ قرآن کریم کے تقاضوں کے مطابق ہے، کہ وہ آزادی جس پہ ہم صرف اللہ کے بندے نظر آئیں اور کسی انسان کے بندے نظر نہ آئے، ہماری حکومتیں بھی اگر ہم پر حکومت کریں، تو اللہ کا حکم نافذ کرے ہمارے اوپر، اللہ کے علاوہ کسی اور کا حکم نافذ نہ کرے ہمارے اوپر، یہ ہے آزادی کے تقاضا۔ اور پھر ہمارے پاس ایک خوشحال معیشت ہو، ایسی خوشحال معیشت کہ جس میں امن بھی ہو، جس میں اطمینان بھی ہو اور جس میں لوگوں کے کھانے پینے کا پورا انتظام بھی ہو۔ اور پھر غریب طبقہ بھی ہوتا ہے، اس غریب طبقے کو سنبھالنا، اس کی فکر کرنا، یہ شریعت اور قرآن کی تعلیمات ہیں۔ یہ آج سوشلسٹ اور کمیونسٹ اور سیکولر لوگ وہ زیادہ ڈنڈورا پیٹتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ان کا موضوع ہے، یہ ان کا موضوع نہیں ہے یہ ہمارا موضوع ہے، یہ جمیعت علماء اسلام کا موضوع ہے۔ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ۔ تو صبر بھی کیا چیز ہے صبر ہمیشہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ جب آپ پر ایک ازمائش آئے اور اپ استقامت کے ساتھ اس کو برداشت کر لے اور یہ کب ہوتا ہے جب آپ حق کی بات کریں گے۔ وَتَوَاصَوْا بالحَق وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔ یہاں ہر ہے۔ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ۔ یہ بھی نہ ہو کہ آپ نے ایک برداشت کر لی اور پھر آپ کے اندر شدت آگئی اور اس کے بعد آپ کے سامنے جو چیز آئے چیر پھاڑ دو، نہیں! وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ۔ جب فتح مکہ ہوا اور کسی نے نعرہ لگایا اليومَ يَوْمُ المَلْحَمَةِ، آج تو لڑائی کا دن ہے، جنگ کا دن ہے، آپ نے فرمایا نہیں۔ اليومَ يَوْمُ المَرحَمَةِ۔ تو پھر انسانیت سے محبت کرنا، مشکل کو مشکل سے نکالنا۔ وَتَوَاصَوْا بالحَق۔ حق سے کیا مراد ہے، حق ہمیشہ لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں، جو رہنے والی چیز ہوتی ہے، جو باقی رہنے والی چیز ہوتی ہے۔ جسے مٹ جانا ہوتا ہے۔ اب یہاں پر وَتَوَاصَوْا بالحَق، اب حق یہاں پر مطلقاً ذکر ہے اور آپ نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ جو چیز جس کا ذکر مطلق ہو خارج میں اس کا فرد کامل مراد ہوتا ہے، اب حق تو یہ بھی ہے کہ میں آپ سے ایک سچی بات کہہ دوں، آپ میں کوتاہی دیکھو اور آپ کو میں کہہ دوں یہ کام مت کرو، کمزور کو بھی لوگ ڈانٹ دیتے ہیں، تو یہ تو پھر کمزور والا چھوٹا سا فرد ہوا نا، کامل حق کیا ہوگا اس کا، اب کامل حق اس کا پتہ ہم چلائیں گے باطل سے، تُعرَفُ الاشیاءُ باضدادها۔ باطل کیا خارج میں فرد کون ہے، ہم آج کے زمانے کے جب باہر مشاہدے میں دیکھتے ہیں، تو مشاہدے میں باطل کا فرد باطل حکمران ہوتا ہے، ظالم حکمران ہوتا ہے، اس ظالم حکمران کے مقابلے میں جب آپ حق کی بات کریں گے، تو اس کو کہیں گے حق۔ کمزور کے سامنے تو ہر ایک سچ بول لیتا ہے، طاقتور کے سامنے سچ بولنا، ہاں سچ بولنے کے طریقے ہوتے ہیں، شائستگی سے بھی بول کر سکتے ہیں، اچھے انداز کے ساتھ بھی بات کر سکتے ہیں، تو سب سے بڑے باطل قوت کے مقابلے میں حق بولنا یہ ہے حق اور اس پر دلیل کیا ہے وَتَوَاصَوْا بالصبر دلیل ہے اس کی، کیوں کہ مشقتیں اور آزمائشیں آتی ہیں، ہمیشہ اس حق میں جو کہ ایک بڑے قوت اور حکمران کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ غریب آدمی آپ کو کیا کہہ سکتا ہے، وہ کون سے آزمائش میں آپ کو مبتلا کر سکتا ہے، حکمران ہی مبتلا کر سکتا ہے نا، آپ کے خلاف سازش یہ کرے گا، آپ کو پکڑے گا، آپ کو مارے گا، آپ کو جیل میں ڈالے گا، آپ کو قتل کر دے گا، کیا کیا آزمائشیں اس ناحق حکمران کی طرف سے آتی ہے، تو اس کا مقابلہ کرنا تو اس کے لیے اللہ نے فرمایا وَتَوَاصَوْا بالصبر۔ صبر کی بھی تلقین کیا کرو کہ آپ نے اس آزمائش کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنا ہے۔ یہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا ہے، اس کے بعد ایک مسلمان کے لیے خوف کی گنجائش رہ جاتی ہے! تو مسلمان وہ ہوگا جس کے اندر خوف نہ ہو، جب خوف آجاتا ہے تو سمجھ لو کہ میرے اندر کوئی کمزوری آگئی، ایمان کی کمزوری آگئی ہے، بس یہاں دل میں ایک چھوٹا سا کوٹا ہے، اس کے اندر ایک دل ہے جس پہ صنوبری ہے اتنی چیز ہے اس کے قریب سے خوف نہ گزرنے دے بس، اتنی چھوٹی سی جگہ کو محفوظ کر لو، اس کے قریب سے خوف نہیں گزارنا، جرات کے ساتھ میدان میں رہنا ہے اور باطل کو للکارنا ہے۔ تم باطل ہو ہم آپ کو مقابلہ کریں گے۔ ہم نے اگر سیاست کی ہے اور کسی کو چیلنج کیا ہے ہم نے، تو ہم نے سمجھا کہ اس کے پیچھے بین الاقوامی دنیا کی طاقت ہے، امریکہ ہے، یورپ ہے، یہودی ہے، اسرائیل ہے، ساری دنیا اس کی پشت پر تھی، تو ہم نے نیچا نہیں دکھایا، ہم نے کھل کر دنیا کے سامنے بتایا، کسی کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن 12 ، 13 سال کے بعد تو سمجھ میں آیا بلکہ جو لائے تھے ان کو بھی پتہ چل گیا کہ ہاں تمہاری بات صحیح تھی۔ بلا خوف و خطر حق بات کہنا لیکن جتنے بھی حق بات ہو، میں آپ کو بتاؤں اللہ کی کتاب سے تو کوئی سچ دوسرا نہیں ہے نا، اس سے بڑا کوئی سچ نہیں ہے، یہ کلام اللہ ہے، لیکن کتنی جگہ پر اللہ تعالی کتاب کے ساتھ حکمت کا لفظ بیان کرتا ہے، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ۔ لَما آتَيْناكم مِن كِتابٍ وحِكْمَةٍ۔ تو جو چیز بھی آپ کریں اس کو سوچیں، تدبر کریں، فکر کریں، اس کے انجام کو بھی دیکھیں، کہ کیا اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہم تو بڑی تیزی کے ساتھ بندوق اٹھا لیتے ہیں اور بس جہااد کی طرف نکل جاتے ہیں اور کیا نتیجہ نکلے گا طاقت کا اندازہ تو لگاؤ! یہ تو وہ چیزیں ہیں جس کے لیے قوت کا اندازہ بھی لگانا پڑتا ہے، اور قوت کا اندازہ لگا کر آپ نے اپنی حکمت عملی بنانی ہوتی ہے، نتیجہ یہ نکلا کہ آپ بندوق اٹھا لیں گے اور بندوق اٹھائیں گے بڑے اچھے جذبے کے ساتھ اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بدآمنی آجائے گی، بدآمنی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، پھر الیکشن نہیں ہوں گے، پھر کہیں گے عدم استحکام آگیا، پھر باہر کی سرمایہ کاری نہیں ہوگی، تو لوگ امداد نہیں دیں گے، پھر باہر کے لوگ قرضے نہیں دیں گے، ملک تباہ ہوگا یا نہیں! بھلا جتنے اچھے جذبے سے آپ نے کام شروع کیا ہے لیکن سوچا نہیں آپ نے کہ اس کے برے انجام کیا ہوں گے، اس کے اثرات کیا پڑھیں گے ملک کے اوپر۔ یہ حکمت جو اللہ تعالی نے آپ حضرات کو عطا کی ہے، آپ کی جماعت کو عطا کی ہے، یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی ہے۔ تو اللہ پہ توکل رکھے، اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں، پروپیگنڈوں سے متاثر نہ ہو اور جو اکابر نے راستے طے کیے ہیں بس ان راستوں پہ چلنا ہے، عقیدہ اور نظریہ بھی ہمیں اپنے اکابر کی طرف سے امانت ملا ہے اور اس عقیدے کو نظریے کے لیے منہج اور رویہ بھی ہمیں اپنے اکابر سے ملا ہے، اسی کو اپنانا ہے ان شاءاللہ ہم نے۔ تو بس یہ چند باتیں کچھ خیال میں آگئے ہیں آپ کی خدمت میں عرض کر دی، تو اللہ تعالی قبول فرمائے اور باقی اللہ کو محافظ سمجھیں اپنے آپ کو محافظ نہ سمجھیں اور بس یہ سمجھیں کہ اللہ نے ہمیں توفیق دی ہے اور اس پر شکر ادا کریں۔ 
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
 

0/Post a Comment/Comments