قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مفتی محمود کانفرنس پشاور سے خطاب
14 اکتوبر 2023
الحمدللہ، الحمدللہ وکفی والصلوۃ والسلام علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آلہ وصحبہ و من بھدیھم اھتدی اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ ۚ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّٰكِرِينَ۔ صدق اللہ العظیم۔
اکابرین قوم، عمائدین ملت، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو! آج آپ نے مفتی محمود کانفرنس میں جس والہانہ جذبے کے ساتھ شرکت کی ہے، آپ نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ہم حضرت مفتی اعظم مفکر اسلام مولانا مفتی محمود کے سیاسی فکر اور ان کی سیاسی جدوجہد کے حقیقی وارث ہیں اور آج ان کے دنیا سے جانے سے 42 ، 43 سال کے بعد بھی ان کے پیروکاروں میں اضافہ ہوا ہے، بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، ملکی حالات کو تبدیل کیا ہے، یہی ہوتا ہے ایک انقلابی شخصیت کی وہ انقلابی زندگی جو ادوار کو تبدیل کرتا ہے، جو زمانوں کو تبدیل کرتا ہے، جو حالات کو تبدیل کرتا ہے اور آج اس شخص کے فکر و نظر نے پاکستان کی سیاست کو تبدیل کر دیا ہے۔ میں اس عظیم اجتماع میں تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین کی یہاں تشریف اوری پر ان کا بھی تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کی شرکت نے حضرت مفتی صاحب کو پاکستان کی ایک قومی قیادت کے طور پر اور ایک تاریخی شخصیت کے طور پر اجاگر کیا ہے۔
میرے محترم دوستو جہاں پاکستان میں ان کا ایک علمی مقام تھا، بحیثیت مفتی اعظم کے انہوں نے افتاء کے میدان میں، درس حدیث کے میدان میں، درس تفسیر کے میدان میں اپنی علمی ثبوت جن حوالوں سے پیش کیا اسے تو اہل علم ہی جانتے ہیں، اس کا اقرار تو اہل علم ہی کرتے ہیں، لیکن پاکستان کی سیاست میں انہوں نے علماء کو ایک اعتماد دیا ہے، دینی اور مذہبی سیاست کو انہوں نے ایک شناخت دی ہے اور آج پاکستان کی سیاست میں اگر اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب آئینی طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اگر اللہ تعالی کی حاکمیت مطلقہ کو پاکستان کی آئین میں تسلیم کیا گیا ہے، اگر قرآن و سنت پر مبنی قانون سازی کو آئین میں تسلیم کیا گیا ہے، قرآن و سنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی کا اگر دستوری طور پر راستہ روکا گیا ہے، تو اس کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس آئین کی تدوین میں مفتی محمود کا کردار ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اور اب یقینا حالات بدل گئے ہیں۔ 40 سال پہلے سوویت یونین موجود تھا، مغرب اور مشرق کے درمیان نظریاتی تصادم تھا اور ان حالات میں امریکہ اور مغربی دنیا مذہب کے لیے کسی قدر ایک نرم گوشہ رکھتا تھا، انہوں نے حالات میں ہم نے یہ آئین بنایا تھا لیکن آج حالات مختلف ہیں، سوویت یونین شکست کھا چکا ہے، ٹوٹ چکا ہے، رشین فیڈریشن وجود میں آیا ہے، دنیا بدل گئی ہے، چین نے اقتصادی دنیا میں ایک نئی پوزیشن لے لی ہے اور امریکہ نے اسلام اور مذہب کے خلاف، مغرب نے اسلام اور مذہب کے خلاف وہی رول ادا کیا ہے جو کسی زمانے میں سوویت یونین ادا کیا کرتا تھا۔ آج ان کے لیے کوئی آئین آئین نہیں ہے، یہاں پر ہماری اسٹیبلشمنٹ ہو یا ہماری بیوروکریسی ہو یا ہماری سیاست ہو، مغرب کے دباؤ میں رہتی ہے، صرف دباؤ میں نہیں ان کے پیروکار بنتی ہے، ان کی ترجیحات کو قبول کرتے ہیں اور ملک کو اپنے آئین کے مطابق نہیں ان کی ترجیحات کی بنیاد پر چلانے کی بات کرتے ہیں، کہا گیا مغرب کا اصول؟ کہا گیا امریکہ کا اصول؟ جمہوریت ہونی چاہیے، آئین کی بالادستی ہونی چاہیے، لیکن آج پاکستان میں پاکستان کا اپنا آئین اور پاکستان کا اپنا قانون غیر موثر ہے اور اس کے مقابلے میں بین الاقوامی اداروں کے فیصلے موثر ثابت ہوتے ہیں۔ ہم ان حالات میں چل رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم ایک بار پھر اس نظریے کو اجاگر کریں، جو ملک لا الہ الا اللہ کے نعرے پر بنا تھا، لا الہ الا اللہ کے نعرے پر برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دی، ہماری خواتین نے اس وطن کے لیے عصمتیں نچھاور کی، آج 75 سال، پون صدی ہو گیا کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے! کیا ہم نے اپنا احتساب کیا ہے کہ من حیث القوم ہم نے اس کلمے کے ساتھ کیا کردار ادا کیا! کوئی منافق بھی لا الہ الا اللہ کے ساتھ اتنی بڑی منافقت نہیں کر سکتا جتنے کہ پاکستان میں ہم نے من حیث القوم اس کلمے کے ساتھ کیا ہے! پھر آپ سمجھتے ہیں کہ ملک ترقی کرے گا، اللہ کے مقابلے میں ہم کھڑے ہوں گے، اللہ سے بغاوت کریں گے، اللہ ہمارے مد مقابل ہوگا اور پھر پاکستان ترقی کر سکے گا! نہیں ہمیں اللہ کے سامنے جھکنا پڑے گا، ہمیں اس کے قانون کے سامنے جھکنا پڑے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر آواز اونچی کرنا حرام ہے، اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ۔ اگر تم نے پیغمبر کی آواز پر آواز بھی بلند کی اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو اس انداز سے آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا تو آپ کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ اگر آپ کی آواز پر آواز اونچی کرنے کی اتنی بڑی سزا تو آپ کے قانون پر کسی دوسرے قانون کو بالادستی کا انجام کیا ہوگا! کیا ہم نے کبھی اس پہلو میں دیکھا ہے! آج پاکستان ہر چند کے آئینی لحاظ سے ایک اسلامی ملک قرار دیا جا چکا ہے، اللہ کی حاکمیت کا ہم نے عہد کیا ہے لیکن ہم ایک سیکولر سٹیٹ کا روپ دھار چکے ہیں، عملی طور پر ہمارے ملک کی نظریاتی شناخت تبدیل ہو چکی ہے اور آج اس جلسے میں آپ نے اللہ سے عہد کر کے اٹھنا ہے کہ ہم اس پاکستان کو اسلامی پاکستان بنا کر چھوڑیں گے اور یہ صرف نعروں سے نہیں ہوگا اس کے لیے سر سے کفن باندھ کر گھروں سے نکلنا ہوگا، میدان سیاست پہ کودنا پڑے گا اور ہم آج بھی عہد کرتے ہیں کہ ہم آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کے قائل ہیں اور اس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، لیکن یاد رکھو یہاں پر اسٹیبلشمنٹ کی قیادت نے سوچا تھا کہ اس جماعت کو پارلیمنٹ سے باہر رکھ دیا جائے، صرف اس جماعت کو نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے حجم کو کم کر دیا گیا اور دھاندلی کی بنیاد پر ایک نام نہاد جماعت، بین الاقوامی ایجنٹ جماعت، یہودیوں کے ایجنٹ جماعت کو پاکستان پر مسلط کیا گیا تاکہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کا ایجنڈا مکمل کیا جا سکے، پھر آپ نے دیکھا ہم پارلیمنٹ میں تو نہیں تھے، تھوڑی تعداد میں تھے لیکن پاکستان کی سڑکوں پر ہمارے علاوہ پھر کوئی نظر نہیں آیا۔ میں اپنے کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں ہوں کہ جب بھی اور جہاں بھی ہم نے آپ کو دعوت دی، آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ ٹھنڈ ہے یہ گرمی بارش ہے یا ہوا طوفان ہے یا کچھ آپ باہر نکلیں آپ نے دنیا کو بتایا کہ تم ہمیں پارلیمنٹ سے تو باہر نکال سکتے ہو لیکن پاکستان کی سڑکوں پر تمہارا باپ بھی اپنا سفر نہیں کر سکے گا اگر ہم اس پہ کھڑے ہو گئے تو۔
آج جب میں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں تو ایک ایسے مرحلے پر مخاطب ہو رہا ہوں جب اسرائیل نے ہمارے فلسطینی بھائیوں کے خلاف اپنی وحشیانہ کاروائیاں شروع کی، درندگی کا سماں وہاں قائم ہے، چھوٹے چھوٹے بچوں کی لاشیں بکھری ہوئی ہیں، ان کی چیتھڑے اڑ رہے ہیں، وہاں کی مائیں اور بہنیں ان کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں، ان پر کھڑی عمارت گرائی جا رہی ہیں، بم برسائے جا رہے ہیں، وہاں پر پانی پینے کے ذخائر کو تباہ کیا جا رہا ہے، ہسپتالوں پر بمباری ہو رہی ہے، تعلیم گاہوں کو بمباری ہو رہی ہے، ان کی زندگیاں ختم کر دی ہے، میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ہم پاکستان میں تمہارے ایک ایجنٹ کے خلاف میدان عمل میں نکل سکتے ہیں تو آج فلسطین کے خلاف تمہاری جارحیت کے مقابلے میں بھی سیدھا سپر ہو کر میدان کارزار میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیل نہیں ہے یہ امریکہ کا کتا ہے، باؤلا کتا جو مسلمانوں پہ چھوڑا گیا ہے، ان کے چیر پھاڑ کرنے کے لیے لیکن ان شاءاللہ وقت آگیا ہے کہ جب اس ناسور کو اکھاڑ کر بحر مردار میں پھینک دیا جائے گا۔
ہمیں انسانی حقوق کا درس دینے والو! ذرا اپنے ہاتھ دیکھو تمہاری کہنیوں سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہے، تمہارے ہاتھوں سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہے، ایک مسلمان بندوق اٹھاتا ہے، آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہو دہشتگرد دہشتگرد دہشتگرد اور یہاں اسرائیل، امریکہ نے ایک سال میں افغانستان پر اتنی بمباری نہیں کی جتنی کہ اس نے ایک دن میں غزہ پر مبارک کی، ظلم کی اس انتہا میں بھی ہم خاموش رہیں، ہم مصلحتوں کا شکار ہو جائیں، میں اسلامی دنیا کو مخاطب کرنا چاہتا ہوں اور آپ کی تائید کے ساتھ اس عظیم الشان اجتماع کی تائید کے ساتھ انہیں پیغام دینا چاہتا ہوں، تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی موجودگی میں ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آج وقت ہے ایک مسلم اُمہ کے طور پر ایک موقف اپناؤ اور عرب دنیا سے کہنا چاہتا ہوں تمام عرب ممالک سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ وطن عربی کی وحدت کا وقت آگیا ہے، آئیں ایک عرب وطن کے طور پر فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، لمحے لمحے ہوتے ہیں، وقت وقت ہوتے ہیں، وہ لمحے کچھ تقاضا کرتے ہیں، اگر ان لمحات میں آپ نے فوری طور پر صحیح فیصلے نہ کیے، وقت کے تقاضوں کو پورا نہ کیا تو پھر ہاتھ مسلتے چلے جاؤ گے وہ وقت پھر دوبارہ واپس نہیں آیا کرتے۔ تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو جائے ایک قوت بن جائے، ابھی آپ سے حماس کے سربراہ جناب خالد مشعل نے خطاب کیا میں ان کو اس اجتماع میں ان کے خطاب پر خوش آمدید کہتا ہوں، انہوں نے اس اجتماع کے وقار کو بلند کیا ہے، اس کی عظمت کو بلند کیا ہے، میں ان کا شکر گزار ہوں، انہوں نے آپ سے کچھ اپیلیں کی ہے، اپنے ساتھ سیاسی لحاظ سے کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے، میدان میں ہمارے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اس وقت جو حصار باندھا گیا ہے اور ہر قسم کا وہاں پر کھانے پینے کی اشیاء کی کمی ہے انہوں نے آپ سے مالی مدد کے لیے کہا ان شاءاللہ مالی مدد کے لیے بھی ہم تیار ہیں اور اگر اسلامی دنیا کے ممالک اجازت دے تو ہمارا نوجوان وہاں مورچے میں آپ کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ایک بھرپورا عوامی قوت کے طور پر، ایک بھرپور عوامی تائید کے ساتھ ہم میدان سیاست میں ہیں، ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم ملک میں جمہوریت کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، ہم الیکشن کی طرف جانا تھا لیکن یاد رکھیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم ان کو ہیرا پھیری کے ساتھ پارلیمنٹ سے باہر رکھیں گے، میں ابھی سے اعلان کرتا ہوں کہ تم ہمیں پارلیمنٹ سے باہر رکھو گے ہم تمہیں پارلیمنٹ سے باہر نہیں آنے دیں گے۔ ان شاءاللہ ہم بھی تمہاری سیاست کا وہ محاصرہ کریں گے کہ تمہیں بھی یاد آجائے گا یہاں پاکستان میں کوئی سیاست کا مقدمہ لڑرہا ہے۔
ہم دلیل کی سیاست کرتے ہیں، ہم ایک معقول سیاست کرتے ہیں، دوسروں کو بھی معقول سیاست سکھاتے ہیں لیکن اگر زیادتی کی جائے تو پھر بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی ہوتی، ہم بھی بفر کر میدان میں آئیں گے، پاکستان کو ہم ترقی دینا چاہتے ہیں، ہم وہ حالات نہیں پیدا کرنا چاہتے کہ دنیا سمجھیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہیں، ہم ایسے حالات نہیں پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہ ہو، ہم ایسے حالات نہیں پیدا کرنا چاہتے کہ ہمارے ملک کے سرمایہ دار اپنا پیسہ باہر بھیجیں اور باہر سے کوئی پیسہ پاکستان میں نہ آئے، ہم ان کے لیے موزوں حالات بنا رہے ہیں لیکن اس کے لیے اپنی سیاست کی اس طرح قربانی نہیں دیں گے کہ جبر کی بنیاد پر آپ ہمیں سیاست سے باہر رکھنے کی کوشش کریں گے، جبر نہیں چلی گی، زبردستی نہیں چلی گی، دھاندلی نہیں چلے گی، آئین چلے گا قانون چلے گا ملک چلے گا تو برابری کی بنیاد پر چلے گا۔ ہم کسی کے سامنے سر جھکا کر سیاست کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، ہم سیاست میں اکڑ کر چلنے کے عادی ہے، ہم نے یہ پگڑیاں اپنے سروں پر سروں کو جھکانے کے لیے نہیں پہنی، ہم نے سر اونچا رکھنے کے لیے پہنی ہے۔
میرے محترم دوستو! آج ہر آدمی سوچتا ہے کہ پاکستان میں تو مہنگائی ہو گئی ہے، آپ کو یاد ہوگا جب ابھی ہم نے حکومت ہاتھ میں نہیں لی تھی، ہمارے سیاسی رفقاء اس بات کے گواہ ہیں، میں نے بڑے بڑے جلسوں میں یہ بات کہی تھی کہ ساڑھے تین سالوں میں پاکستان کو معاشی طور پر ایسے دلدل میں پھینک دیا گیا ہے کہ اب اس کو دوبارہ اٹھانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوگا، پھر ہم نے بڑا زور لگایا کہ بھئی بہتری لائیں، کچھ بہتریاں آئیں لیکن عام آدمی اس کو اس کے ثمرات ملنے چاہیے، ابھی تک ہم عام آدمی کو اس کے ثمرات نہیں پہنچا پا رہے۔ جہاں ہم نے 2017 اور 18 میں پاکستان کی سالانہ مجموعی ترقی کی شرح چھ فیصد چھوڑی تھی، پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھا جب پاکستان کی سالانہ مجموعی ترقی کی شرح زیرو سے نیچے چلی گئی، وہ دن میں آپ نے دیکھا، یہ فرق تھا۔ ہم نے جب 2017 18 میں حکومت چھوڑی تو پاکستان دنیا کی معیشت کا 24ویں نمبر پہ تھا، میری تسلسل برقرار رہتا تو اگر انڈیا میں جی 20 کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے تو پاکستان بھی آج اس پہ شامل ہوتا لیکن عمران خان کے ان ساڑھے تین سالوں میں پاکستان دنیا کی معیشت کے 24 نمبر سے واپس 47 ویں نمبر پہ چلا گیا، اب کیسے واپس لاؤ گے، کب تک ہوگا یہ، میں نے کہا تھا کہ ہم دلدل میں جا رہے ہیں اور دلدل کا معنی یہ ہے کہ آپ اس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، تو آپ اس میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہم نے زر مبادلہ کے ذخائر 16 ارب چھوڑے تھے تو پھر ساڑھے تین سالوں میں ہم نے دیکھا کہ دو ارب رہ گئے تھے، دو ارب ڈالو بس، آج پھر خدا کے فضل و کرم سے ہم نے ڈیڑھ سال کے اندر 11 ، 12 ارب تک پہنچایا۔
ہم نے انضمام قبائل کا کر کے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ 10 سال تک ہر سال تمہیں سو ارب روپیہ دیں گے، ابھی چھ سات سال ہو گئے ہیں ابھی تک بھی ہم ایک ارب مکمل نہیں کر سکے، ابھی تک بھی ہم نے ایک ارب مکمل نہیں کیں، یہ قبائل کے ساتھ تم مذاق کرتے ہو، یہ قبائل پشتون یہ تمہارے مذاق کے لیے پیدا ہوئے ہیں، تمہارے مسخروں کے لیے پیدا ہوئے ہیں، یاد رکھو ہم اس صوبے کے عوام کو اعلی مقام دینا چاہتے ہیں، قبائل کو ایک بڑا باعزت مقام دینا چاہتے ہیں اور جتنے قبائل کی پگڑی بڑی ہے اس کا قلا اونچا ہے اتنا ہی اس کے قد کاٹ کے مطابق اس کو عزت دینا چاہتے ہیں۔ تو میرے محترم دوستو یہ سارے حالات ہمارے سامنے ہیں، ہم نے ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنا ہے، ملک کو معاشی لحاظ سے مضبوط بنانا ہے اور جنہوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کر کے پاکستان کے وجود کو داؤ پہ لگایا ان شاءاللہ ان کو نہیں چھوڑ سکتے، ان کا محاسبہ ہو کر رہے گا۔
ان شاءاللہ العزیز اس محاذ پر مقابلہ ہوگا ہم آج مفتی صاحب کی زندگی کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، انہوں نے ہمیں ایک سیاسی راستہ بتایا، ایک انقلابی راستہ بتایا، ایک فکری راستہ بتایا، ایک نظریہ عطا کیا اور آج جمعیت علماء اسلام اس کی وارث ہیں اور ہم رواداری کی سیاست پہ یقین رکھتے ہیں، ہم باہمی محبتوں پر یقین رکھتے ہیں، ہم نے اعتدال کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہم اس ایجنڈے کو بھی جانتے ہیں، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے امریکہ نے عرب ممالک کے گردن پہ پاؤں رکھ کر ان کو مروڑا اور ان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا، آج آپ نے دیکھا امریکی وزیر خارجہ اسرائیل آتا ہے تل ابیب آتا ہے اور اس کا پہلا جملہ یہ ہے کہ میں ایک یہودی بن گر آپ کے پاس آیا ہوں۔ یہ ہوتی ہے سفارتکاری، یہ ہوتے ہیں سفارتی اداب، کہ آپ ایک مذہبی جنونیت لے کر تل ابیب میں اترتے ہیں، آپ عرب ممالک پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ میں تمام عرب ممالک سے درخواست کرتا ہوں اور بالخصوص سعودی عرب سے کہ وہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس طلب کرے اور اسلامی دنیا کی تنظیم نئے زاویے سے اسرائیل کے حوالے سے، فلسطین کے حوالے سے، اپنا نیا موقف متعین کریں! ٹھیک ہے یا نہیں؟ آپ کی تائید حاصل ہے اس کو؟ تو ان شاءاللہ العزیز اس روش پر ہم نے آگے بڑھنا ہے، جمعیت علماء کی تحریک کو آگے لے جانا ہے اور آگے جو حالات آنے والے ہیں، اس میں ہر لحاظ سے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہے، عوام سے رابطہ رکھنا ہے، عوام کی قوت کو مجتمع کرنا ہے، اس منشور پر مجتمع کرنا ہے، اس نظریے پر مجتمع کرنا ہے اور اپنے سفر کو آگے لے جانا ہے اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
و اٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںmashallah ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں