قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خوشاب میں ورکرزکنونشن سے خطاب تحریری صورت میں 2 اکتوبر 2023


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خوشاب میں ورکرزکنونشن سے خطاب

2 اکتوبر 2023 

الحمدللہ وکفی وصلوۃ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آلہ وصحبہ و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖؕ۔ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا (الفتح 28) صدق اللہ العظیم
جناب صدر محترم، حضرات علماء کرام، زعمائے علاقہ، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو! خوشاب کی جماعت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے ضلعے میں باقاعدہ ایک جماعتی مرکز تعمیر کر لی ہے اور آج اس کا باقاعدہ افتتاح آپ حضرات اس اجتماع سے کر رہے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا مجھے اس کی افتتاحی تقریب کے لیے دعوت دی جاتی رہی لیکن میری مصروفیات یہاں آنے میں مانع رہی۔ میرا تو یہ خیال تھا کہ میں نے کوئی ایک یا ڈیڑھ سال تاخیر کی ہے لیکن یہاں سٹیج سے تو بتایا گیا کہ آپ 25 سال کے بعد آرہے ہیں، تو میں اس بڑی طویل تاخیر پر بھی آپ سے معذرت خواہ ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ جہاں آپ کی خواہش ہے وہ میرے لیے انتہائی قابل قدر ہے لیکن آپ حضرات نے جمیعت علمائے اسلام کی پلیٹ فارم سے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا ہے، نئے نوجوان کارکنوں نے کام سنبھالا ہے اور ذمہ داری کے ساتھ کام کر کے اور جمعیت علمائے اسلام کو اس مقام پر پہنچایا کہ ایک عظیم الشان ورکرزکنونیشن آج اس پنڈال میں منعقد کیا جا رہا ہے۔
 میرے محترم دوستو! آج کل جدید میڈیا کا زمانہ ہے کوئی ایسی بات نہیں جو عام لوگوں سے اب مخفی رہی ہو، ہم جہاں بھی بات کرتے ہیں کچھ لمحوں میں پورے ملک میں اور ملک سے باہر دنیا میں چلی جاتی ہے اور یوں آپ حضرات کے ساتھ اور عوام کے ساتھ رابطہ رہتا ہے، لیکن آج براہ راست آپ سے مخاطبت کا موقع مل رہا ہے جسے میں اپنے لیے اعزاز بھی سمجھتا ہوں اور اسے اپنے لیے سعادت بھی سمجھتا ہوں۔
برادران محترم! ہمارے برخوردار نے آپ سے کہا کہ میں نے دو انتخابات کے دوران آپ کے گلی کوچوں میں یہ آواز لگائی ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا نظام، بات بالکل صحیح ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ریاستی سطح پر عام آدمی کو یہ ذہن دیا جاتا رہا ہے اور عام آدمی کی تربیت یوں کی جاتی ہے کہ خدا کے نظام کا معنی کلمہ پڑھ لیا، نماز پڑھ لی، روزہ رکھ لیا، مسجد میں اذان دی گئی، ہم مسجد میں چلے گئے اور بس خدا کا نظام یہاں تک ہے۔ ہم نے عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اسلام آپ کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے، آپ کے انسانی حقوق کی تحفظ کا باقاعدہ نظام رکھتا ہے، آپ کی خوشحال معیشت کا ایک نظام رکھتا ہے، اور جب تک ہم انسانی حقوق کے لیے قرآن و سنت کو اپنا رہنما تسلیم نہیں کریں گے۔ 75 سال سے ہم قرآن و سنت سے بے نیاز ہو کر انسانی حقوق کے لیے جو راہ تلاش کر رہے ہیں، آج 75 سال تھوڑا عرصہ نہیں ہے دو تین نسلیں اس پہ گزر جاتی ہیں یہ تجربہ ہمارے لیے کافی ہے کہ ہماری ریاست، ریاستی ادارے، ہمارے سیاستدان، ہماری سیاسی جماعتیں، قوم کے انسانی حقوق کی تحفظ میں کوئی نظام نہیں دے سکے۔ ہم بھوک اور افلاس کی بات کرتے ہیں ہر ایک کا دعوی ہے کہ ہم آپ کی بھوک کو افلاس کو ختم کریں گے، میں بات کسی ایک دور کی نہیں کر رہا ہوں لیکن مجموعی طور پر میرے وطن کی جو عمر پر ہے، پون صدی کا عمر، وہ یہ تجربہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہماری ریاست، ریاست کا نظام، حکومتیں اور سیاسی جماعتیں عام آدمی کی معاشی حالت کو بہتر کرنے میں ناکام ہے، پہلے آپ اس حقیقت کو تسلیم کریں۔ جو نیا آدمی آیا، اس نے آئیڈیل باتیں کئیں اور ہم نے اس کو نجات دہندہ سمجھ لیا، یہ نہیں سوچا کہ کیا صرف الفاظ سے اور آئیڈیل جملے کو استعمال کرنے سے حالات بہتر ہوجاتے ہیں؟ تمہارے پاس عمل کا کیا نقشہ ہے! جب پاکستان بنا تو بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن کے لیے مجتمع ہونے بنگال سے لے کر بلوچستان اور خیبر پختون خواہ تک کہ تمام مسلمانوں کو ایک بات پر جمع ہونے کے لیے آپ کو لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگانا پڑا، اس نعرے کے علاوہ مسلم قوم کو ایک نعرے پر متفق کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ آج آپ کا نوجوان آپ سے سوال کرتا ہے، میں پاکستان میں پیدا ہوں، نئی نسل پاکستان میں پیدا ہوئی، کیا اس کو دنیا سے یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے! کیا اس کو اپنے وطن سے یہ پوچھنے کا حق نہیں! کیا وطن کی سیاہ و سفید کے مالکوں سے انہیں یہ پوچھنے کا حق نہیں! کہ کیا تم نے لا الہ الا اللہ سے وفا کی؟ سینہ چوڑا کر کے تو آپ ہمارے سامنے کہتے ہیں، میں بھی کلمہ گو ہوں، میں بھی مسلمان ہوں، میں بھی مسجد میں جاتا ہوں، میں بھی پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں، میں بھی روزہ رکھتا ہوں، زکوۃ دیتا ہوں، میں بھی حج پہ چلا جاتا ہوں، یہ سب کچھ بجا ہے لیکن تم نے مملکت کے لیے جس نعرے کا استعمال کیا تھا مملکت کے لیے تم نے اس نعرے سے کیا وفا کی ہے ہمیں جواب چاہیے تم سے، ہم نے بہت کچھ سن لیا۔ ہم نے اس ملک کا آئین بنایا، میرے اکابر کی محنتوں سے اور میرے اکابر کی کوششوں سے پاکستان کے نظام کو بنیاد فراہم کی گئی، پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی جس نے 1949 میں قرارداد مقاصد پاس کی اور جس میں اللہ کی حاکمیت مطلقہ کو تسلیم کیا گیا، عوام کی نمائندوں کو ملک پر حکومت کر کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اسے خدا کے خلیفہ کی حیثیت دی ہے، اس کی نیابت کا ذمہ داریاں عطا کی گئی، ذرا اپنے گریبان میں جھانکر اپنا محاسبہ تو کیجیے کہ آپ نے اس عہدو پیمان کے ساتھ کیا کیا! سن 1973 کا آئین بنا، اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب تسلیم کیا گیا، قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا عہد و پیمان کیا گیا، قرآن و سنت کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہوگی۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن سن 73 سے لے کر آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ایک قانون سازی ہوئی؟ پارلیمنٹ کو ایسے ایسے لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے کہ جن کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی ہی نہیں، وقتی سیاست، وقتی نعرے، جذباتی نعرے اور اب جو ہم نے دور دیکھا ہے اس دور میں نئی نسل کے ساتھ کیا کیا گیا! قوم کی آزادی اور حریت کی علامت دو چیزوں سے ہوتی ہے، اندر سے آپ کے اندر مذہب ہو، مذہبی اقدار ہو اور اوپر سے آپ کے اوپر تہذیب کی حیا ہو۔ ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی طور پر اس حد تک کھائی میں پھینکا گیا کہ آج وہ نہ اپنے بزرگوں کو جانتا ہے، نہ اپنے اسلاف کو جانتا ہے، نہ ان کے اقدار کے تسلسل کو جانتا ہے اور آباؤ اجداد کے ساتھ رشتہ توڑنا، تاریخ کے ساتھ ناطہ توڑنا، یہ مغرب کی سیاست ہے یہ اسلام کی سیاست نہیں ہے، اپنے اسلاف سے باغی بنا دینا نئی نسل کو یہ ریاست مدینہ کی علامت نہیں ہے۔ زبان سے کچھ کہو عملی زندگی کچھ ہو، زبان سے حیا کی بات کرو اور عملی طور پر عریانی کو فروغ دو، قانون سب کے لیے برابر لیکن اگر قانون میری طرف متوجہ ہوتا ہے تو پھر قانون مجرم ہے میں مجرم نہیں ہوں، یہ تعبیر ہوسکتی ہے؟ اس لحاظ سے میرے بھائیو! جس جماعت کے پاس ایک ضلع کے اندر اتنے کارکن موجود ہوں اور پھر اس ضلع میں وہ الیکشن میں شکست کھائے، کچھ اپنے سے بھی آپ نے سوال کرنا ہے یا نہیں! قوم کو بتانا ہوگا، بہت ہو چکا اب ازسر نو ایک نئے زاویے سے ہمیں سوچنا پڑے گا، اپنے ووٹ کا فیصلہ ایک نئے زاویے سے ہمیں کرنا ہوگا، آپ تسلیم کریں اس بات کو کہ جب سے دنیا پر امریکہ کا غلبہ ہوا ہے، جب سے مغربی دنیا اور ان کی سرمایہ داری کا غلبہ ہوا ہے، دنیا کی معاشی جنگ میں مغرب اپنے آپ کو فاتح کہلاتا ہے، اس کے بعد سے ہمارا وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان اس کا چہرہ نہ اسلامی نظر آرہا ہے اور نہ جمہوری نظر آرہا ہے! ہم نے عملاً ایک سیکولر پاکستان کا روپ دھار لیا ہے۔ جس دین اسلام اور جس لا الہ الا اللہ کا نعرہ ہونے لگایا تھا ہم 2001 کے بعد اب اُس سے فرار اختیار کر رہے ہیں اور اگر یہی روش رہی اور آپ نے عوام کی فکر کو تبدیل نہ کیا، آپ نے عوام کو سمجھایا نہیں، پاکستان کی اسلامی حیثیت کی اہمیت ان کے دل میں نہ ڈالی، اس طرف متوجہ نہیں کیا، تو اگلی نسل پھر سوال کرے گی کہ پاکستان کو کیوں بنایا گیا؟ کیونکہ قیام پاکستان کے اسباب آپ کتابوں میں پڑھا رہے ہیں اور ہر نئی نسل، اس کے ذہن میں سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ آج ہمارا مسئلے یہ ہیں۔ ریاست کو دو چیزیں چاہیے ایک امن اور ایک معیشت۔ تمام تر انسانی حقوق کے تحفظ کا نام امن ہے اور خوشحال معیشت بھی قوم کو متحد رکھ سکتی ہے، لیکن یہ تب ہوگا جب آپ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِیناً (المائدہ 3) ہمارے اکابر نے جو اس کی جو تشریح کی ہے، اس کی تفسیر کی ہے، اِکمال دین، دین کی تعلیمات و احکامات کا نام ہے لیکن اِتمام نعمت، یہ اس دین کے اقتدار کا نام ہے، اس کے حاکمیت کا نام ہے، اور دین کی تعبیر دین اسلام ہے، جس کو اللہ نے ہمارے لیے پسند کرلیا ہے۔ اب ہم اپنے آپ کو اپنے اکابر کے پیروکار تو ثابت کرے نا، جنہوں نے خوبصورت تعبیرات کے ساتھ ہمیں اِکمال دین کی معنی بھی سمجھایا اور اِتمام نعمت کی معنی بھی سمجھایا کہ دین اسلام محض عبادات کا نام نہیں ہے۔ اور میں نے اپنے اکابر سے سنایا کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص مسجد کے محراب میں یا کسی مدرسے کے حجروں میں بیٹھ کر عبادات تک اور کچھ مخصوص مصروفیات تک محدود ہو جائے اور دین کے بارے میں وہ اس کام کو اپنے لیے کافی سمجھے یہ شخص میرے نزدیک عالم دین نہیں ہے، یہ دین کے دامن پر سیاہ دھبہ ہے، نام لیتے ہو اپنے اکابر کا، شیخ الہند کا، ہم نام لیتے ہیں دیوبند کا، دین اسلام کے اس کے عالمگیر فکر کا، اس کے آفاقی تصور کا، پوری دنیا میں انسانیت کو اس دین سے متاثر کرنے کا دعویدار ہم اور ہمارے اپنی زندگی کا عملی نظام یہ ہے، اسی لیے ہمارے اکابر کی جسم کی ہڈیاں پگھل گئی، لیکن ہم جیسے بے حس کہ آج جو ہم ان کی محنتوں کو، ان کی کاوشوں کو، ان کے مقاصد اور اس کے نام کا ادراک نہیں کر سکیں۔ ہم نے ملک کی معیشت کو تبدیل کرنا ہے۔ آج سب سے زیادہ دباؤ پاکستان پر، خطے میں کوئی ملک نہیں کہ اس پر دباؤ ہو، ہندوستان ہے، بنگلہ دیش ہے، افغانستان ہے، ایران ہے، انڈونیشیا ہے، ملائیشیا ہے، کسی ملک پر عالمی اداروں کا وہ دباؤ نہیں جو پاکستان کے اوپر ہے، روز آئی ایم ایف ایک ڈنڈا لیے کھڑا ہوتا ہے، ہر چند مہینوں کے بعد نیا معاہدہ کرتا ہے اور جب ہم ان کے شرائط پر کوئی معاہدہ کر لیتے ہیں ان کے شرائط پر تو پھر سینہ چوڑا کر کے سمجھتے ہیں ہم نے فتح حاصل کرلی۔ کیونکہ وہ کلیگ ہے اگر وہ اجازت نہ دے دنیا کا کوئی ملک آپ کو مدد کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں امداد ان کی شرائط پر ملتی ہے، ہمیں قرضے ان کے شرائط پر ملتے ہیں اور میرے دوستو اس بات کو نوٹ کر لو کہ ویسے تو ہم زیر اثر رہے ہیں ہمیشہ ہمیشہ، میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ پاکستان کبھی ان کے اثر سے باہر نکلا ہے لیکن گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں جس طرح ہم نے اپنے ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچا ہے، باضابطہ طور پر، دستخط کر کے، دستاویزات کے ساتھ، یہ کبھی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا، اب آپ کی قیمتیں، اس کا اتار چڑھاؤ، وہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے یہ ان کے اختیار میں ہیں، قیمتیں زیادہ کرو قیمتیں کم کرو، ٹیکسز بڑھاؤ ٹیکسز کم کرو، یہ اب ان کے اختیار میں دے دیا ہے جس کی وجہ سے اس کے بعد آپ کے آنے والی حکومتیں کچھ اصلاحات کی تکمیل میں ناکام ہوتی ناظر آتی ہیں، ایسے دلدل میں آپ کو دھکیلا گیا ہے۔ آپ روزانہ دیکھتے ہیں آج ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کیا ہوگئی ہے، ہمارے ملک کا مافیا، ان حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، ارتکازی دولت بنا رہا ہے، اپنے گھروں میں ڈالروں کا ارتکاز کر رہا ہے اور ہم ایسے مافیا کا کوئی علاج نہیں کر سکتے، ہم ایسے مافیا پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے، ہماری قوم کی نظر میں صرف ایک سیاستدان نشانے پر رہتا ہے، جرم کسی کا بھی ہو، پس پردہ کون سی قوت ہے، لیکن ہم نے ہمیشہ نشانے پہ سیاستدان کو رکھا۔ تو اس حوالے سے ہمیں سوچنا ہوگا اور میں تو سمجھتا ہوں اسلام تو خیر ہے ہمارا مسئلہ لیکن پاکستان میں آنے والے حکومتوں نے تو قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی وفا نہیں کی، سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے بانی پاکستان نے کہا تھا کہ مغرب کے نظام معیشت نے انسانیت کو مشکلات میں مبتلا کیا ہے، اس نے انسانیت کو فائدے کی بجائے نقصانات پہنچائے ہیں، ہم نے اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی معیشت کو چلانا ہے، کیا ہمارے سٹیٹ بینک نے بانی پاکستان کی افتتاحی تقریر کے ان جملوں کا خیال رکھا، کیا ہمارے ملک کی معیشت سود سے پاک ہوئی، کیا ہم اس قابل بنیں کہ ہم سود کی لعنت سے پاکستان کو آزاد کر دے، ملک کی معیشت کا راستہ ہی ٹھیک نہیں کر رہے آپ لوگ، اس کی بنیادی اصول کو آپ ٹھیک نہیں کر رہے۔ 
 تعلیم کے میدان میں آجائیے، صرف پاکستان پر دباؤ ہے، دینی مدرسے کو ختم کرو، اس کو جکڑ لو، یہ کھلے ڈھلے انداز میں جو تعلیم دے رہے ہیں، اس سلسلے کو روک دو اب، یہ صرف پاکستان پر دباؤ کیوں ہے، مدرسہ تو برصغیر کی چیز ہے، ہندوستان پہ دباؤ نہیں ہے، بنگلہ دیش پہ دباؤ نہیں ہے، ہمارے اوپر یہ دباؤ کیوں ہے! ہمیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، میں آئی ایم ایف سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں، میں ایف اے ٹی ایف سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں، میں پاکستان کے سرکاری اور ریاستی تعلیمی نظام سے چاہتا ہوں کہ اس وقت بھی تقریبا تین کروڑ بچے آپ کے سکولوں سے باہر ہے تعلیم کے اس کا کوئی انتظام نہیں، تمہیں اپنے ملک کے تین کروڑ سکولوں سے باہر کے بچوں کی فکر نہیں ہے اور دینی مدرسے میں پڑھنے والے آپ کے لیے بوجھ کیوں ہے! تم نے کبھی اس حوالے سے دباؤ ڈالا ہے، تم نے کبھی یہ سوچا کہ پاکستان میں دو کروڑ اور 70 لاکھ بچے کیوں سکولوں سے باہر ہیں، تعلیم کی زیور سے مستقل محروم ہے، اس کی فکر نہیں لیکن دین کا علم ختم کرو، پتہ نہیں کیا کیا چیزیں اس کے ساتھ لگا رہے ہیں۔ 
صرف پاکستان ہے جس کے اوپر دباؤ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کروں، اسرائیل کو کیوں تسلیم کریں یہ تو ایک ناجائز ریاست ہے، فلسطین کی حکومت کو تسلیم کرو والی بات کہاں چلی گئی! اسلامی ملکوں سے پوچھنا چاہتا ہوں، اسلامی دنیا کے سربراہوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ فلسطین کے حق میں آپ کا موقف کہاں دفن ہو گیا ہے؟ فلسطین عرب سرزمین ہے، فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے، بیت المقدس ہمارا ہے، بنی اسرائیل کا نہیں، بنی اسرائیل نے تو اللہ سے کیے ہوئے معاہدے کو توڑ دیا تھا اور پھر اس کی سزا میں 40 سال تک وادی طین میں بھٹکتے رہے، اگر ان پر حق ان کا ہو، تو عمر فاروق کو کیا پڑی تھی کہ اس کو فتح کرنے کے لیے آگے بڑھے، اگر حضرت عمر فاروق نے جو خلیفہ راشد تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندگی میں بھی ان کے رفیق تھے اور بعد الوفات بھی ان کے رفیق ہے، اگر انہوں نے تلوار اٹھا کر بیت المقدس کو فتح کیا تو کیا وہ مسلمانوں کا حق نہیں تھا، خوامخواہ زور لگا رہے تھے، صلاح الدین ایوبی کو کیا پڑی تھی؟ لہٰذا آج امت مسلمہ کا فرض یہ ہے کہ پہلے بیت المقدّس کو واپس کروائے، پہلے فلسطین کی سرزمین کو تسلیم کرائے، اپنی سرزمین پر ان کی حکومت کا حق تسلیم کرے، بات اصول کی ہے لیکن پاکستان پر دباؤ ہے۔
 میرے بھائیو! اس بات کو سمجھ لو، ہم نے اگر ساڑھے تین سال سڑکوں پر گزارے ہیں اگر ہم نے ملک بھر کے کونے کونے میں ملین مارچ کئیں ہیں، اگر ہم نے اسلام آباد کا آزادی مارچ کیا ہے، ہم نے ان نظریات کو شکست دی ہے، جو اسرائیل کی تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان میں ابھری اور بظاہر ریاست مدینہ لیکن دوسری طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عظائم۔ صرف یہی نہیں ہمارے آئین میں عقیدہ ختم نبوت کو تحفظ دیا گیا، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، آج پوری دنیا میں صرف پاکستان پر دباؤ ہے کہ اس ترمیم کو واپس لیں۔ کشمیر کو ہندوستان کے حوالے کرنا اور میں آپ کے اجتماع میں ببانگ دہل میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ آج جنرل عاصم منیر صاحب کو جو اس وقت چیف آف آرمی سٹاف ہے یہ جب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، 10 ماہ کے بعد اس کو ہٹایا گیا اور جون میں ہٹایا گیا اور عمران خان کی بشمول دو جنرلز یہاں سے گئے اور ٹرمپ کے دفتر میں ان کے ساتھ تین معاہدے کئیں، اسرائیل کو تسلیم کرنا، قادیانیوں کے خلاف ترمیم واپس لینا، کشمیر کو انڈیا کے حوالے کرنا، یہ ایجنڈا ان کا تھا اور وہ انہوں نے منوایا، آپ کی جماعت نے اور آپ کے کارکنوں نے اور آپ کے ساتھیوں نے اس ایجنڈے کو ناکام بنایا۔ ہم نے نظریاتی جنگ لڑی ہے اور پھر یہ ایجنڈا ملک پر مسلط کرنے کے لیے 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کرا کر حکومت کو مسلط کیا گیا، تو یہ کوئی معمولی جنگ آپ نے نہیں لڑی، میڈیا کی دنیا ہے کوئی کیا تبصرہ کرتا ہے، یہ اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں، جی یہ الیکشن میں شکست کھائی ہے، الیکشن میں تو ہم نے پہلے بھی شکست کھائی ہے، دھاندلیاں تو پہلی بھی ہوئی ہے، لیکن جب تک اس قسم کا نظریاتی ایجنڈا سامنے نہیں آیا تھا ہمارا یہ رد عمل کبھی سامنے نہیں آیا تھا، ورنہ ہم پہلے بھی جوان تھے ہم آج بھی جوان ہے۔ 

تو میرے محترم دوستو! اس تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، آزادی کے نام پر غلامی یہ نہیں چلے گا، نعرے آزادی کے لگاؤ اور ملک کو گروی دو آئی ایم ایف کے، امریکہ کے، اس کے دفتر میں جا کر ان کے ساتھ انگوٹھے لگاؤ اور تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ملک کو بیچ دیا ہے، ہم نے تو دستخط کر کے ملک دے دیا ہے، ان کے حوالے کیا ہے۔
 تو ہمیں اس دنیا میں، پاکستان میں جمعیت علماء پر امتیاز حاصل ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں اتنی سیاسی طویل تاریخ کسی کی نہیں جو تاریخ جمعیت علماء کی ہے، ہم بہت کچھ جانتے ہیں، ہم بلاوجہ میدان میں نہیں لڑتے۔ اور یاد رکھیں پبلک کو سمجھانا یہ آپ کی ذمہ داری ہے، اگر وہ نہیں بھی سمجھتے اور دوبارہ بھی غلطی کر لیتے ہیں تب بھی ہم ان شاءاللہ میدان میں رہیں گے اور ان کو ایکسپوز کرتے رہیں گے ان شاءاللہ۔ ہم نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے ہیں، ہم نے سیکولر پاکستان کے چہرے کو تبدیل کر کے ایک مذہبی پاکستان کا تصور پیش کرنا ہے ان شاءاللہ، ہم نے مغرب کے تابع معیشت کی بجائے آزاد معیشت کی طرف آگے جانا ہے، ہم نے ایک خود مختار پاکستان کی طرف آگے بڑھنا ہے اور جب معاشی بدحالی آتی ہے تو خطرہ ہوتا ہے کہ ملک کے کسی حصے میں بغاوت نہ شروع ہو جائے، آپ نے دیکھا ہم نے ساڑھے تین سال تک پاکستان کی تمام جماعتوں کو چاہے وہ صوبوں سے تھے، قوم پرست تھے، قومی سطح کی جماعتیں تھی، ایک پلیٹ فارم پر اس لیے رکھا کہ اس وحدت کو دیکھ کر عوام کو کچھ امید دی جا سکے۔ اس ملک کو بچایا ہے، ملک کو دیوالیہ بن سے نکالا ہے، آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو میں بہت سے اجتماعات میں کہہ بھی چکا ہوں، آپ تک پہنچ بھی چکی ہیں ساری باتیں کہ ہم کن حالات میں سفر کر رہے ہیں، آپ نے بہت اچھا اجتماع کیا، بڑے نظریاتی لوگوں کا اجتماع ہے، اس لیے میں نے اپنے دل کا درد آپ کے سامنے پیش کیا ہے، اس کو اگے بڑھائیں اور ایک تحریک بن جائیں اور چھا جائیں اور لوگوں کو اعتماد دلائے کہ آپ کا حل اسی راستے میں ہے کسی اور دوسرے راستے میں نہیں۔ ہم نے ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگوں کو نمائندگی دی ہے، ہم نے پاکستان میں رہنا ہے، ہمارا منشور کہتا ہے، منشور کا کیا معنی، یعنی جب میری حکومت ہوگی تو میں اس خطوط پہ کام کروں گا، تو پھر ظاہر ہے کہ قوم کو سامنے رکھنا ہوگا، پھر فرقہ واریت نہیں ہوگی، پھر مذہبی لڑائیاں نہیں لڑنی ہوگی، پھر اقلیتوں کے ساتھ آپ نے دشمنی نہیں کرنی ہوں گی، ان کو گلے لگنا ہوگا، ان سے محبت کرنے ہوگی، ان کو ان کی حقوق اور زندگی کی تحفظ کا یقین دلانا ہوگا، جمعیت علماء اگرچہ بظاہر تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ مولوی صاحبان کی جماعت ہے لیکن یہ پاکستان کے نظریاتی لوگوں کی جماعت ہے، عوام جماعت ہے، عوام کی قوت ہے، اور ان شاءاللہ اسی حکومت کو آگے لے کر دین اسلام کی روشنی میں ہم ان کو اپنی منزل دکھائیں گے اور ان کو اپنی ہدف اور مورال حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالٰی اپنی مدد سے سرفراز فرمائے۔ 
واٰخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین 

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat  




0/Post a Comment/Comments