قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا ساہیوال میں ورکرزکنونشن سے فکر انگیز خطاب تحریری صورت میں یکم اکتوبر 2023


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا ساہیوال میں ورکرزکنونشن سے فکر انگیز خطاب

یکم اکتوبر 2023

خطبہ مسنونہ کے بعد 

تمام ذمہ داران، میرے دوستو اور بھائیوں! خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ آج یہاں ساہیوال میں پورے صوبے کی ذمہ داروں کا اجتماع ہو رہا ہے، ہم نے ایک لمبا عرصہ جلسوں، جلوسوں، مظاہروں میں گزارا اور بڑے طویل فاصلے کے ساتھ ایک بار پھر ایک تربیتی اجتماع میں بیٹھ رہا ہوں، اب تو وہ تربیتی تقریریں بھی مجھے بھول گئی ہیں، لیکن ساتھیوں کا اس طرح اکٹھا ہونا یہ بذات خود ایک تربیت کا حصہ ہوتا ہے، میل جول بڑھتا ہے، جماعت کا احساس دلوں میں اترتا ہے، کہ ہم ایک ہیں، ایک عقیدے اور نظریے کے لوگ ہیں، ایک ہی ہمارا ہدف اور مورال ہے، ایک ہی ہم منزل کی طرف جا رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ جماعت اکابر کی جماعت ہے، بدقسمتی سے ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں پر علماء کرام، مدارس، مدارس میں پڑھنے والے، ان کو احساس کمتری بھی مبتلا کیا جاتا ہے اور ہر طرف سے ان کے کانوں میں ایک آواز آتی ہے کہ مولوی کا کام صرف مسجد کے ساتھ ہے، محراب کے ساتھ ہے، ممبر کے ساتھ ہے، مصلے کے ساتھ ہے، سیاست اور ریاست کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے! یہ تو ہمارے بڑوں کا دل گردہ تھا اور ان کے اندر ایک سلگتی ہوئی چنگاری تھی جس نے علماء کو حوصلہ دیا، مدارس و مساجد سے وابستہ لوگوں کو حوصلہ دیا، میدان سیاست میں ان کو لا کھڑا کیا، ان کے اندر ایک اعتماد پیدا کیا۔ اور میں پہلے بھی آپ کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ بر صغیر کی سب سے قدیم جماعت، سب سے قدیم تحریک، وہ جمعیت علماء ہے۔ جمعیت علماء کے نام سے تو اس کی بنیاد 1919 میں ڈالی گئی لیکن برصغیر میں انگریز کے خلاف جہاد کا اعلان تو 1803 میں ہو گیا تھا، اور تسلسل کے ساتھ برصغیر کی آزادی کی جنگ آپ کے اکابر نے لڑی۔ پھر اس سرزمین پر کسی اور کو سیاست کرنے کا حق کیا حاصل ہے! عالمی استعمار سے لڑنے کا ڈھنگ ہم نے لوگوں کو سکھایا ہے، ان کے دلوں میں احساس ہم نے ڈالا ہے، کہ آزادی کس چیز کو کہتے ہیں، آزادی کے لیے قربانی کیا ہوتی ہے، اس کا سبق اگر کسی نے لینا ہو تو وہ ہم سے لیں۔ میں تو اس میدان کا آدمی ہوں، آپ بھی اسی میدان کے لوگ ہیں، آس پاس پڑوس میں آپ بھی لوگوں کو دیکھتے ہیں، جدھر دیکھتے ہیں ان کے پیچھے غلامی کی تاریخ ہے اور صرف آپ ہیں کہ جس کے پیچھے آزادی کی تحریک ہے، پھر ہمارے اندر احساس کمتری کس بات کی، پھر خوف کس چیز کا، تو اس لحاظ سے ہمیں احساس برتری کے ساتھ سیاست کرنی ہے۔ علمائے کرام اپنے درس میں، اپنے خطبوں میں یہ تو بتاتے ہیں کہ ألعلماء ورثة الأنبياء، کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ إن الأنبياء لم يُوَرِّثوا دينارًا ولا درهمًا، وإنما وَرَّثوا العلم۔ ان کی جائیداد پیسہ روپے نہیں تھا، ان کی جائیداد علم تھا۔ میں جب ختم نبوت کانفرنس میں جاتا ہوں تو مجھے اس ماحول میں یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ آپ لوگ اس عنوان کو اس طرح کیوں متعارف کراتے ہیں کہ یہ غیر سیاسی عنوان ہے اور یہ سیاست سے بالاتر عنوان ہے، یہ جو علمی لحاظ سے بھی شاید ٹھیک بات نہیں ہے، اگر قرآن کریم نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہا ہے تو اسی خاتم النبیین کی تشریح آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود کی ہے، أنا خاتم النبيين لا نبي بعدي۔ تو لا نبي بعدي خود بخود اس کی تشریح ہے، لیکن یہی الفاظ لا نبي بعدي کے یہ آپ نے وہاں بھی فرمائے۔ كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبيٌّ، وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ فَيَكثُرُونَ۔ تو انبیاء کرام جو توحید کا علم لے کر میدان میں آئے، بندے اور رب کے درمیان رشتہ قائم کرنے کے لیے آئے، توحید کی دعوت چلائی اور اس پاداش میں ہر ظلم کو برداشت کیا، ہر آزمائش کو برداشت کیا، وہاں پر آپ نے اجتماعی زندگی، مملکتی زندگی کا انتظام و انصرام، اس کا تدبیر و انتظام، اس کی تعلیم بھی دی آپ نے اور اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ تو بنی اسرائیل کی مملکتی زندگی کا تدبیر و انتظام، وہ انبیاء کے ہاتھ میں ہوتا تھا، ایک جاتا تھا دوسرا سنبھالتا تھا، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ فَيَكثُرُونَ، بڑی تعداد میں ہوں گے لیکن اب نبی نہیں آئے گا۔ تو جب آپ سیاست کو دین کے عنوان سے کاٹ دیں گے اس کے بعد پھر آپ کیسے لوگوں کو یہ درس دیں گے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي۔ اس کے بغیر کیسے ممکن ہوگا۔ ہمارے حضرات نے اس آیت کے تحت جو اس کی تشریح کی ہے اس کی تفسیر کی ہے۔ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے۔ تو ایک ہے اکمال دین اور ایک ہے اتمام نعمت، اکمال دین با اعتبار تعلیمات و احکامات کے ہیں اور اتمام نعمت بصورت اقتدار کے ہیں۔ اقتدار میں آئے گا تو اس کے ثمرات اور اس کے جو فوائد ہیں وہ عام آدمی تک پہنچیں گے۔ تو جمیعت علماء اسلام کا جو پلیٹ فارم ہے اور اس پلیٹ فارم پر جو ہمارے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں وہ ایک جامع دین کے تصور کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہمارے اکابر نے فرقہ نہیں بنایا تھا یہ جو ہم نے دیوبندیت کو فرقہ بنا دیا ہے نا جی، یہ اپنے لیے دکان بنائی ہوئی ہے، ہم اس دکان میں اپنا چورن بیچتے ہیں، یہ فرقہ نہیں ہے! یہ ہمارے اکابر کی دین کی آفاقی اور عالمگیر تعبیر ہے، اور عالمگیر تصور کے ساتھ دین اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا، یہ اور بات ہے کہ اس کو بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ ہو یا داخلی اسٹیبلشمنٹ ہو اس نے اس کو بھی ایک فرقہ بنا دیا۔ اب ہمارے پاس اپنے اکابر کی جو امانت ہے وہ دو باتیں ہیں، پہلی چیز ہے عقیدہ اور نظریہ اور دوسری چیز ہے اس عقیدے اور نظریے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ، ہم نے نہ اس عقیدے اور نظریے میں کوئی تبدیلی لانی ہے اور نہ اس کے لیے کام کرنے کے منہج اور رویے میں کوئی تبدیلی لانی ہے۔ اسی لیے فرقہ واریت سے دور رہے۔ اگر آپ درسگاہ میں بیٹھے ہیں، آپ کے سامنے اہل علم بیٹھے ہیں، آپ بھلا علمی بحث کریں۔ آپ آج کے فرقوں کو نہ دیکھیں، آج کی فرقوں پر تو ہمارے درسگاہوں میں بحث ہی نہیں ہوتی۔ ہمارے درگاہوں میں تو بحث ہوتی ہے حنفیت کی شافعیت کی مالکیت کی حنبلیت کی اور تمام زور ہمارا استاد لگاتا ہے کہ حنفی مسلک کو ہم صحیح ثابت کریں اور دوسرے آئمہ کو ہم کمزور ثابت کریں، کیا وہاں پر بھی تعصب ہے، درسگاہ سے نکلتے ہیں، حنبلی بھی ہمارا بھائی ہوتا ہے، شافعی بھی ہمارا بھائی ہوتا ہے اور سب ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت و احترام کے ساتھ ملتے ہیں، تو اگر ہمارے دین نے ہمیں تعصب سکھایا ہوتا تو پھر سب سے زیادہ تعصب تو ہمارے امام شافعی سے ہونا چاہیے تھا نا۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے مدارس میں ان کے لیے احترام، سر کے تاج، آنکھوں کا نور اور ہمیں ان سے علم کی روشنی ملتی ہے اور بعض جگہوں پر اگر اپنے مسلک پر عمل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور متعذر ہو جاتا ہے تو پھر ہم دوسری امام پر بھی عمل کر لیتے ہیں، آئمہ برحق ہے۔ تو یہ وہ ساری چیزیں ہیں کہ جو ہمیں دین یہ سکھلاتا ہے تو پھر آج کے ماحول میں جو ہمارے سامنے فرقے بنے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں ہم اپنے رویے میں تبدیلی کیوں نہیں لا سکتے، اگر علمی بحث ہے تو علمی بحث تک رکھے، فتویٰ بازیاں، مناظرے، آج کے زمانے میں تو مناظرہ ہونا ہی نہیں چاہیے، وہ مناظر ہوتا ہی نہیں مجادلہ ہوتا ہے، ایسی جنگ و جدل ہوتی ہے۔ اب مجادلہ تو جدال سے ہے، اللہ رب العزت نے خود فرمایا ہے کہ اُدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ۔ اللہ کے راستے کی طرف بلاؤ، حکمت کے ساتھ، شائستہ انداز گفتگو کے ساتھ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اور اگر کہیں پر دعوت دینے والا ہو جس کو دعوت دی جا رہی ہے کسی مسئلے میں الجھ جائیں تو اس جھگڑے کو بھی بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ سے حل کرو، بِالَّتِي هِيَ أَحْشَنُ نہیں فرمایا أحسن فرمایا۔ اب دعوت کے ذریعے تو دو ہی ہیں، یا حکمت ہے یا حسن موعظت ہے۔ جدال یہ تو ذریعہ دعوت نہیں ہے لیکن اگر ایسی صورت حال بن جائے تو پھر اس کو بھی اس طرح حل کرو کہ اس کا مَآل اور اس کا نتیجہ بھی وہی ہو جو حکمت اور حسن موعظت کا ہوا کرتا ہے۔ تو اگر ہمارا کسی سے اختلاف ہو جاتا ہے مسائل میں تو ضروری ہے کہ اسٹیج کے اوپر جو ہے ہم ان کو گالی دینا شروع کر دیں، اگر اس سے فساد پیدا ہوتا ہے پھر کیا کرو گے! حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سفر میں دو رکعت کو واجب کہتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ وہ رخصت کہتے تھے اور بعض اوقات تو برہم بھی ہو جاتے تھے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود دیکھا ہے وہ دو رکعت پڑھتے ہیں۔ ایک جگہ سفر میں اکٹھے ہوئے امام حضرت عثمان تھے تو نماز میں چار رکعت پڑھائی، آپ نے بھی اس کے پیچھے چار رکعت پڑھ لی، تو لوگوں نے کہا کہ حضرت آپ تو بہت سخت تھے اس مسئلے میں، آپ نے بھی تو سفر میں چار رکعت پڑھ لی ہے، تو انہوں نے کہا امت جو تقسیم ہوگی اس کا خیال نہیں ہے آپ لوگوں کو! وہ بہت اشد تھا اس حوالے سے۔ تو اصل چیز تو اعتدال ہے اور اعتدال ہی کمال ہے، اگر اعتدال نہیں ہے تو یا افراط ہے یا تفریط ہے۔ افراط اور تفریط دونوں کا نقص ہے اور اعتدال ہی کمال ہے۔ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا۔ تو یہاں پر اللہ رب العزت نے لفظ جَعَل استعمال کیا ہے، یعنی تخلیقی طور پر تم میانہ رو نہیں تھے، بحیثیت انسان کے آپ کے اندر جو بہیمیت ہے وہ تو انتہا کی ہے، کوئی بہیمہ انسان کے خواہشات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن قرآن کریم نے جو تعلیمات بھیجی اور ان تعلیمات کو انسان کے اندر جذب کیا، اس کی زندگی میں داخل کر دیا، اس نے آپ کے رویے میں اعتدال پیدا کیا۔  پیسے کو بھی بہت جی چاہتا ہے لیکن پیسے کا یہ طریقہ ہوگا، اس میں کماؤ گے تو یہ حلال ہوگا ورنہ پھر حرام، حدود میں رہو۔ پیسہ کما لیا، زیادہ کما لیا، اب زکوۃ بھی دو، صدقات بھی دو، سارا اپنے جیب میں مت ڈالو۔ دوسروں کے حقوق ادا کرو۔ اپنی طرف سب مت سمیٹوں، اعتدال کے ساتھ زندگی گزارنا۔ 

تو ایک میانہ رو امت اللہ نے بنایا ہے اسی کتاب اللہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے نتیجے میں، اور اسی اللہ رب العزت کی اطاعت اور اس کی عبدیت کو ہم آزادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ مجھے ایک میرا دوست تھا ابھی بھی زندہ ہے، تو وہ سیکولر مائنڈڈ تھا، تو مجھے کہنے لگے کہ مولوی صاحب سڑکوں پر آکر کھڑے ہوتے ہیں، آزادی، آزادی، آزادی، اور مسجد میں بیٹھ کر سارا دن اللہ کی بندگی، اللہ کی بندگی، اللہ کی بندگی، ایک کام کیا کرو، یا بندگی بتاؤ یا آزادی بتاؤ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی بندگی کا معنی کیا ہے، میں نے کہا اپنے گھر میں ہر انسان کا باپ ایک ہے، ظاہری تخلیق جو ما تحت الاسباب ہے اس میں تو انسان کا باپ ایک ہے، اور پورے کائنات کا خالق بھی ایک ہے، اب جو اولاد اپنے والد کا فرمانبردار ہو، اطاعت گزار ہو اور وہ والد کی دکان پہ بیٹھتا ہو، والد کی زمین میں محنت کرتا ہے، اس کے کارخانے میں، دفتر میں بیٹھتا ہے، اس اولاد کو ہمارے معاشرے میں باپ کا نوکر نہیں کہا جاتا، اس اولاد کو جائیداد کا مالک تصور کیا جاتا ہے، اپنے باپ کا وارث کہا جاتا ہے اس کو، ہم اپنے الفاظ میں اس کو نوکر سے تعبیر نہیں کرتے، اس کو ملازم کے لفظ سے تعبیر نہیں کرتے، لیکن معاشی مجبوریاں ہمیں مجبور کر دیتی ہے کسی طاقتور، دولت مند کے دروازے پہ جا کر، سرکار کے دروازے پہ جا کر ہمیں نوکری کرنی پڑتی ہے، معاشی مجبوری ہوتی ہے، ہم ان کی زمین پہ کام کرتے ہیں مُضیرعے بن جاتے ہیں، ہم ان کے کارخانے میں کام کرتے ہیں مزدور بن جاتے ہیں، ہم ان کی دکان پر بیٹھتے ہیں تو ہمیں پھر مزدور بھی کہا جاتا ہے، ملازم بھی کہا جاتا ہے، مضارع بھی کہا جاتا ہے، تو سب لوگ جانتے ہیں کہ فلاں کا ملازم ہے، لیکن اپنے والد کے حوالے سے کوئی بھی نہیں کہتا کہ یہ نوکر ہے، مزدور ہے، ملازم ہے۔ اسی طرح جو قومیں ایک خالق کائنات کی عبادت کرتی ہیں اور اس کے سامنے سر جھکاتی ہیں، اُن قوموں کو غلام قوم نہیں کہا جاتا ان کو آزاد قوم کہا جاتا ہے۔ اور جو مجبور ہوتی ہے کوئی امریکہ کے سامنے جھکا ہوا ہے، کوئی برطانیہ کے سامنے جھکا ہوا ہے، فرانس کے سامنے جھکا ہوا ہے، کوئی جرمنی کے سامنے جھکا ہوا ہے، کوئی اٹلی کے سامنے جھکا ہوا ہے، یہ قانونیں تھی نا ان کی اور ہم ان کے حکم پہ فیصلے کرتے تھے اور اطاعت گزار تھے تو ہم غلام قوم کہا کرتے تھے۔ تو ہمارے اکابر نے تو اس قسم کی قوموں کو اس غلامی سے نکال کر آزادی کی طرف بلایا ہے یعنی توحید کی طرف، ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلایا یہ ہے ہماری تاریخ۔  

 اب اس حوالے سے ظاہر ہے کہ انسان کے دو زندگیاں ہیں، ایک اس کی انفرادی زندگی ہے اور ایک اس کی جماعتی، مملکتی، ملی زنگی ہے۔ ہمارے اکابر نے جب جمیعت علماء قائم کی تو جمیعت علماء کے قیام کیوں عمل میں لایا گیا؟ کیا ضرورت تھی اس کی؟ تو اس پر رسائل لکھے گئے اور اس میں انہوں نے یہ توجیہ کی ہے کہ انفرادی معاملات میں تو ایک فرد عالم کی رائے حجت ہے، اگر نماز میں غلطی ہو گئی دارالافتاء چلے جاؤ مفتی صاحب سے پوچھ لو، مسجد کی امام کے پاس چلے جاؤ ان سے پوچھ لو، روزے میں غلطی ہوگئی، کوئی میراث کا مسئلہ پیدا ہو گیا، زکوۃ کا مسئلہ پیدا ہو گیا، آپ مولوی صاحب کے پاس جا کر ان سے پوچھ لیں، نکاح طلاق کا مسئلہ ہو گیا وہ آپ کو مسئلہ بتا دے گا آپ اس پر عمل کریں گے مسئلہ ختم۔ لیکن مملکتی اور ملی زندگی میں ایک فرد عالم کی رائے حجت نہیں ہے، وہاں پر علماء کی جماعت ہونی چاہیے اور وہاں پر شورائی نظام ہونا چاہیے تاکہ اجتماعی زندگی کے لیے اجتماعی رائے وجود میں آئے اور اجتماعی رائے سے قرآن و سنت کی رہنمائی میں کام ہو۔ اس کو بنیاد بنا کر جمیعت علماء قائم کی گئی، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جمیعت علماء کے قیام میں ایک مسلک نہیں تھا، پورے برصغیر کے تمام مکاتب فکر کے علماء کو بلایا گیا تھا، بعد میں حالات میں ہر ایک کو اپنے اپنے پلیٹ فارم پر واپس کر دیا لیکن یہ اور غالباً یہ جو ہمارا پشاور میں جمیعت علماء کا جو صدسالہ تھا اس میں ایک کتاب چھاپی گئی ہے، ہمارے ساتھی نے تحقیق کی اس کے اوپر، اس میں عنوان کتاب کا یہ دیا ہے مؤسسینِ جمعیت، ویسے تو ہم کہتے ہیں حضرت شیخ الہند مؤسس تھے لیکن وہاں پر اس کا عنوان ہے مؤسسینِ جمعیت، غالباً کرام القادری صاحب نے بھی اس پہ کام کیا ہوگا، اور اس میں باقاعدہ ان تمام علماء کا ذکر ہے اور ان علماء کا بھی ذکر ہے جنہوں نے سب سے پہلے جلسہ حضرت شیخ الہند کی مالٹا سے واپسی سے پہلے امرتسر میں کیا تھا اور اہل حدیث عالم دین تھے مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا داوود غزنوی، ان حضرات نے اہتمام کیا اور وہاں پر کوئی مسلم پبلک سکول کا ایک ہال تھا اس میں پہلا اجتماع ہوا، اس میں مفتی کفایت اللہ صاحب بھی شریک تھے۔ اب اس حوالے سے مملکتی زندگی کے لیے نظام کیا ہونا چاہیے؟ جمیعت علماء کا بھی ایک منشور ہے، باقی پارٹیوں کی انتخابی منشور تو ہر الیکشن میں بدلتے رہتے ہیں، وہ کرنٹ ایشوز پہ بات کرتے ہیں، ہم نے یہ کرنا ہے تو ہم نے یہ کرنا ہے، جمیعت کے منشور میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے وہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اور ہمارے بزرگ تھے جو جمیعت علماء اسلام کے منشور کو بنانے والی کمیٹی کے رکن تھے، تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ حضرت یہ جو آپ نے جمیعت کا منشور بنایا ہے اس میں آپ نے صرف امام ابو حنیفہ کی فقہ سے اخذ کیا ہے؟ یہاں تمام آئمہ مجتہدین کی رائے سے آپ نے استفادہ کیا ہے؟ تو میری طرف دیکھا تھوڑے مسکرائے اور کہا بڑا اچھا سوال کیا آپ نے ماشاءاللہ کیسے خیال میں آیا ہے یہ، بس ایسے میرے خیال میں آیا، تو انہوں نے کہا کہ باقاعدہ اصول طے ہوا کہ جب ہم جمیعت کا منشور بنائیں گے تو تمام آئمہ مجتہدین کے آراء سے استفادہ کریں گے، یہ اصول طے ہوا لیکن منشور مکمل ہو گیا اور فقہ حنفی سے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ تو یہ منشور آپ کا بنا ہوا ہے، اب ہم تو ظاہر ہے سب جب اکٹھے ہیں تو اب اس منشور ہمارے درمیان قدر مشرک ہے اور اسی منشور کو لے کے آگے جانا ہے، جب ہم منشور کو لوگوں کے سامنے لے جائے تو آپ نے ضرور یہ دیکھنا ہوگا کہ آج کے حالات میں قوم کا معاملہ کیا ہے اور میرا منشور ان حالات میں کیا کہتا ہے، تو ضروری نہیں ہے کہ ہر حالات میں آپ اس کے تمام جزئیات کو دہراتے رہے بلکہ جس قسم کے حالات سے آپ وابستہ ہیں جس قسم کی مشکل قوم کو درپیش ہے اس حوالے سے جو جو نکتہ قوم کی رہنمائی کر سکتا ہے، اس کے لیے ریلیف دے سکتا ہے، اس کی سہولت مہیا کر سکتا ہے، مسئلے کا حل پیش کر سکتا ہے، آپ ان دنوں میں اس کو ضرور ہائی لائٹ کریں، اس کو آگے لائے۔ اب ظاہر ہے کہ آج کے دور میں مہنگائی کا مسئلہ ہے، معیشت کا مسئلہ ہے، امن و امان کا مسئلہ ہے، اب یہ دونوں چیزیں وہ ہیں کہ بطور ایک طالب علم کے جہاں تک میں سمجھا ہوں ہمارا دین مملکت کی اجتماعی زندگی میں دو چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، امتیاز بخشتا ہے ایک امن اور ایک معیشت۔ امن سے مراد انسان کے انسانی حقوق، جان کا حق، مال کا حق، عزت و آبرو کا حق، تمام قوانین جو ہیں اس کے گرد گھومتے ہیں اور دوسری چیز جو ہے معیشت اور وہ بھی خوشحال معیشت۔ 

حضرت ابراہیم علیہ السلام جو توحید کے علمبردار تھے شرک کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے آگ میں جھونک دیے گئے، کیا کیا مشکلات آپ پر آئیں اور ہر آزمائش سے کامیابی کے ساتھ نکلے، تو اللہ رب العزت نے فرمایا وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ۔ جب اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا تو آپ انٹرویو میں کامیاب ہو گئے، قال إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا۔ پوری انسانیت کا امام بنانا چاہتے ہیں۔ اب کیفیت بدل گئی ایک نئی ذمہ داری کا احساس آپ میں ایا، اب آپ کی گفتگو کا انداز بھی بدل گیا، اب آپ کو لوگوں کی قومی زندگی کو ٹھیک کرنے کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنا پڑا، وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ۔ ایک تو اس شہر کو، اس آبادی کو امن عطا فرما اور پھل فروٹ عطا فرما لیکن آپ نے صرف مومنین کے لیے یہ فرمایا مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ اللہ تعالی نے فرمایا قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ اب جہاں لفظ متاع آتا ہے وہ وقت قلیل کے لیے ہوتا ہے، حج بھی تمتع جو ہے وہ دو احراموں کی بیچ میں تھوڑے سے وقفے کو، سہولت کو کہتے ہیں، تو دنیاوی زندگی جو تھوڑی سی ہے اس میں تو ان کو بھی دو، اس کا معنی یہ ہے کہ دنیا میں جب آپ ایک مملکتی زندگی کی ذمہ دار بنیں گے تو آپ کے ملک کے اندر چاہے مسلمان ہو چاہے غیر مسلم ہو وہ انسانی حقوق میں آپ کے لیے برابر ہوگا۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ اپنا منشور ذرا دیکھ لیں یہ منشور آپ کا وہ ہے کہ جب آپ حکومت بنائیں گے تو پھر آپ اس پر عمل درآمد بنائیں گے، یہ نہیں کہ آپ حکومت میں آتے ہی اس کو نافذ کر سکیں گے، اس کے لیے پھر آپ اپنی حکومت کے وسائل کو استعمال کریں گے، جس طرح ہمارے صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت آئی، جب مفتی صاحب کی حکومت تھی تو ان کے اختیار میں سود کا خاتمہ تھا انہوں نے مقامی لوگوں کو قرضے لینے پر سود ختم کر دیا، ابھی دوبارہ حکومت آئی تو تعلیم مفت کردی، جس طرح ہمارے منشور میں لکھا ہوا ہے، علاج مفت کردی اور ابتدائی طور پر کی کہ ایمرجنسی مفت کر دی اور کچھ اور سہولتیں بھی ان کو عطا کر دیا اور تمام ضلعوں میں اے لیول ہاسپٹل بنانے کا فیصلہ کیا، تو آپ پھر وسائل کو اس منہج پہ استعمال کرتے ہیں کہ آپ اپنے منشور پر عمل درآمد کرا سکیں۔ اب جب آپ کا منشور آپ کو کہتا ہے کہ آپ نے جب حکومت کرنی ہے تو اس حکومت میں آپ نے یہ کچھ کرنا ہے تو اس میں تو شیعہ بھی ہوگا، اس میں تو بریلوی بھی ہوگا، اہل حدیث بھی ہوگا، ہندو بھی ہوگا، سکھ بھی ہوگا، عیسائی بھی ہوگا تو اگر پہلے سے آپ ان کو گردن کاٹنے کی بات کریں گے وہ کہے گا اچھا تیری حکومت بھی آجائے گی تو اچھا ہمارے گردن کاٹو گے؟ تو آپ نے ان کو اطمینان دلانا ہے کہ نہیں ہم آپ کی انسانی حقوق کے محافظ ہیں، آپ ریاست کو تسلیم کریں، ہم آپ کے حقوق کو تسلیم کریں گے، آپ ملک کے آئین کو تسلیم کریں ہم آپ کو تسلیم کریں گے، پھر اس کے بعد جو آپ کی ذمہ داری ہے آپ نے اس کو حکمت کے ساتھ نبھانی ہے، کیونکہ کتاب سے بڑھ کر تو کوئی سچائی نہیں ہے دنیا میں، کتاب اللہ سے بڑھ کر کوئی سچائی ہے؟ اس سچائی کے لیے بھی جگہ جگہ پر اللہ کتاب کے ساتھ والحکمة، والحكمة، والحكمة کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ جس طرح اوپر سے ایک آرڈر آتا ہے نا ڈپٹی کمشنر کے پاس اس میں اس کو حکم دیا ہوا ہوتا ہے کہ یہ کرو، اب اگر As it As وہ اسی طرح کرتا ہے بغیر سوچے سمجھے آنکھیں کہ بند کر کے اس پر عمل درآمد کرتا ہے، وہ اور کام بگاڑ دیتا ہے اس سے پھر آگے خود سوچنا ہوتا ہے کہ میرے علاقے میں میں نے اس کی امپلیمنٹیشن کیسے کرنی ہے، تدبیر کرنی ہوتی ہے، مشاورت کے لیے لوگوں کو بلانا ہوتا ہے، اداروں کو بلانا ہوتا ہے کہ یہ حکم آیا ہے اس کی تعمیل کے لیے ہم نے کس طرح جانا ہے سوسائٹی میں اور گلی کوچے میں۔ تو کتاب کو بھی دنیا میں نافذ کرنے کے لیے حکمت کی ضرورت ہوتی ہے اور جب یہ موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منتقل ہوتا ہے تو پھر وہ کتاب و سنت بن جاتا ہے، وہی حکمت پھر سنت بن جاتی ہے، تو سنت رسول اللہ بھی حکمت کا یہ تعبیر ہے، تو اس لحاظ سے ہمیں کتاب و سنت، کتاب و حکمت اس کو مد نظر رکھ کر ملکی نظام کی طرف دیکھنا ہوگا اور سوچنا ہوگا۔ اس احساس کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے، ہم نے کام کرنا ہے ان شاء اللہ العزیز اور اس کے لیے خود اعتمادی شرط ہے، احساس کمتری نہیں! جہاں جائیں پورے اعتماد کے ساتھ بات کریں۔ یہ ملک ہمارا ہے اس ملک کی حفاظت ہمارے اوپر فرض ہے، یہاں پر تو حضرت پانچ آدمی آپس میں بیٹھ جاتے ہیں، بیٹھ کر شریعت بھی ان کی اپنی، فتوی بھی ان کا اپنا، قضاء بھی اس کا اپنا، عمل درآمد بھی اس کا اپنا اور ان کی رائے کے خلاف پھر آپ کا خون حلال ہے ان کے لیے اگر آپ نے ان سے اختلاف کیا۔ بھلا رائے سے اختلاف کرنا اس پہ بھی آپ کے لیے کسی کا خون حلال ہو سکتا ہے؟ آپ علماء کرام ہیں ممبر پر آپ یہی مسئلہ بیان کرتے ہیں کہ اگر ایک حرام کا ارتکاب آپ کرتے ہیں اور اس کو آپ حرام سمجھتے ہیں اور یہ آپ کو اعتراف ہے کہ میں گناہ گار ہوں تو آپ کافر نہیں ہوتے اور اگر آپ نے حرام کو حلال سمجھا اور کوئی ندامت نہیں ہے اور آپ نے کہا کہ میرا حق ہے تو پھر آپ علماء کرام خود کہتے ہیں پھر کافر ہو جاتا ہے۔ اب ہمارے لوگ جو یورپ میں جاتے ہیں راہ چلتے شریف آدمی کو گالیاں دے دیتے ہیں، بے عزت کرتے ہیں ان کو، کیوں کرتے ہو بھائی؟ یہاں کا قانون مجھے اجازت دیتا ہے، بابا یہاں کا قانون اجازت دیتا ہے، تمہاری شریعت کہاں گئی، اپنی مسلمانی کہاں گئی تیری، تو پاکستان سے گیا ہے، تمہارے سوسائٹی کے آداب کیا ہیں، کیا کسی بڑے کو، عزت والے کو روڈ پر کھڑے ہو کر پھر اس کا ویڈیو بھی بنا رہے ہوتے ہیں، گالیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں، اس لیے کہ وہاں کا قانون الاؤ کرتا ہے اس کو، یہ بہت بڑی گمراہی ہے کہ دوسرے ملک میں جا کر اس کے قانون کو آپ فالو کرتے ہیں اور پھر آپ کہتے ہیں میرے لیے جائز ہے، کیسی جائز ہوتا ہے! تو یہ وہ چیز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نشاندہی کی اور فرمایا لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْراً بِشِبْرٍ وَ ذِرَاعاً بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا فِي جُحْرِ ضَبٍّ لاَتَّبَعْتُمُوهُمْ۔ ایک زمانہ آئے گا کہ تم پچھلی قوموں کی قدم قدم بالشت بالشت ایسی پیروی کرو گے کہ اگر وہ گوہ کے غار میں گھسیں تو تم وہاں بھی ان کے پیچھے گھسے جاؤ گے۔ اس دنیا کی پیروی، مغرب کی پیروی، یورپ کی پیروی، اس پر ہمیں فخر ہے اور اس نظام نے ہمیں سکھایا کیا ہے، آپ اسکول کا اساتذہ ہیں آج بھی آپ کا بچہ جب چھٹی کی درخواست لکھ کر دیتا ہے تو اس پر لکھتا ہے I beg to say میں آپ سے بھیک مانگتا ہوں یہ کہتے ہوئے، یہ لفظ بھیک مانگ انگریزوں نے جاری کیا تھا اور آخر میں لکھتا ہے your obedient servant آپ کا وفادار غلام، نوکر، وہ انگریزوں کے زمانے میں سکول میں جو یہ دو لفظ بچے کو سکھائے جاتے تھے وہ آج بھی مروجہ ہے پاکستان کے سکولوں میں، کیسے استاد جی ایسا ہے نا جی، وہی غلامی کی چیز ہم نے نظام تعلیم میں اب بھی رکھی ہوئی ہے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بظاہر محسوس نہیں ہوتی لیکن اس سے ایک ذہن بنتا ہے، بجائے اسی کے کہ باوقار الفاظ استعمال ہوں، میں مؤدبانہ عرض کرنا چاہتا ہوں، آپ کا فرمانبردار بیٹا، فرمانبردار شاگرد، اچھے باوقار الفاظ بھی تو ہیں نا جی لیکن جب انگریزی میں لکھو گے آپ تو اس میں آپ کی دل میں دماغ میں جو مفہوم آئے گا وہ غلامی کا آئے گا۔ اس طرح انہوں نے ہماری قوم کی تربیت کی، بچوں کی تربیت کی۔ آج ایک بڑی ذمہ داری آپ پر ہے، ہم ذرا تھوڑا سا واپس اپنی مسجدوں اور حجروں کی طرف سمٹتے جا رہے ہیں اور معاشرہ بے ہنگم ہوتا جا رہا ہے، نوجوان نسل تباہ ہوتی جا رہی ہے، بد اخلاقی کی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے تو اس کو حدود پار کروا دی، ٹک ٹاک جانتا ہو گا، یوٹیوب جانتا ہو گا لیکن کلمہ پڑھنا نہیں آتا ہوگا، نماز نہیں آتی ہوگی، اپنے پیغمبر کا نام اس کو نہیں آتا ہوگا، تو پھر اس کی اصلاح کون کرے گا؟ آپ حضرات ہی کو نکلنا پڑے گا۔ جو بے حیائی اور فحاشی اور بے ادبی اور گستاخیاں اس معاشرے کو سکھائی گئی ہے اس نے ہماری ایک نسل کو تباہ کر دیا ہے۔ آج مولوی صاحب خطبہ دے نا جی اور خطبے میں یہ کہے کہ یہ فحاشی یہ مخرب الاخلاق، تو ایک یوتھیہ یکدم کھڑا ہو جائے گا آپ ہمارے خلاف تقریر کر رہے ہیں، اس کو خود فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ یہ میرے خلاف بولتا ہے، چور کے داڑھی میں تنکا جسے کہتے ہیں۔ یہ ذہنیت پیدا ہو گئی ہے، جرات ان میں پیدا ہو گئی ہے کہ اگر آپ اخلاقیات پر بھی بات کریں گے تو وہ آپ کو ٹوکنے کی بھی جرات کرتے ہیں۔ اس کے لیے معاشرے میں جائے، گھروں تک جائے، نوجوانوں کو سمجھائیں، درس میں بلائیں، درس قرآن میں بات کریں ان کے ساتھ، سکولوں میں بچوں کے از سر نو تربیت کا انتظام کیا جائے اور نئی نسل کو، آنے والی نسل کو بچایا جائے، ورنہ یہ ناسور ہے یہ معاشرے کو کھائے جا رہا ہے۔ معاشرہ دو چیزوں سے قائم ہوتا ہے ہمارا، ایک کہ آپ کے اندر ایمان ہے، مذہب ہے، دوسرا جو آپ کے اوپر چادر ہے وہ حیا کی ہے، وہ تہذیب کی ہے۔ تو اندر سے مذہب اور باہر سے تہذیب، اندر سے ایمان اور باہر سے حیا، یہ جس قوم سے چھن جائے پھر وہ اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتا وہ غلام بن جاتا ہے، آج سب سے بڑا مسئلہ آپ کو یہ درپیش ہے۔ 

میں اس دن ایک انٹرویو دے رہا تھا تو مجھ سے سوال کیا گیا کہ ڈیڑھ سال آپ نے حکومت کی ہے، ساڑھے تین سال انہوں نے حکومت کی ہے، تو کیا فرق ہے آپ نے کوئی مہنگائی کم کی؟ میں نے کہا زرا اس سے بھی پیچھے چلے جاؤ نا، اس سے بھی پیچھے چلے جاؤ، پہلے بھی تو ہماری ہی حکومت تھی چاہے اس میں پارٹیاں تھوڑی تھی، لیکن تمام ادوار پہ جائیں، میں نے کہا 16 ، 17 میں یا 17 ، 18 میں ہم نے ملک کی معیشت کو دنیا کی معیشت کا چوبیسواں معیشت بنایا اور ابھی جو ہندوستان میں جی 20 کا سیمٹ ہوا ہے اور سربراہی اجلاس ہوا اب تک ہم اس اجلاس میں شریک ہوتے لیکن دنیا کی چوبیسویں معیشت کی بجائے اس گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے میں ہم 47 ویں معیشت پہ آگئے، یہ انہوں نے ملک کی معیشت کا حشر کیا تھا، ہم نے حکومت چھوڑی تو آپ کے بینک میں جو زرمبادلہ کے ذخائر تھے وہ 16 17 ارب ڈالر کے تھے جب ان کی حکومت آئی ساڑھے تین سال والی تو ہمارے ذخائر دو ارب پہ آگئے، دو ارب پہ۔ کہاں گئے، کہاں لوٹے اس کے باوجود یہ ایماندار باقی سب چور۔ سالانہ مجموعی ترقی کی جو شرح تھی وہ چھ، ساڑھے چھ فیصد پہ ہم نے چھوڑی تھی، ساڑھے تین سال حکومت آئی زیرو سے نیچے لے گئی مائنس میں چلی گئی۔ ہم نے کوئی معاہدے آئی ایم ایف کے ساتھ ملکی مفاد کے خلاف نہیں کیے انہوں نے ملک کو گروی رکھ دیا ان کے ساتھ معاہدات کر کے۔ سٹیٹ بینک بھی ان کے حوالے کر دیا۔ یاد رکھیں آج اس وقت قیمتیں آپ کے کنٹرول میں نہیں ہے، آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے، وہی اٹھاتے ہیں وہی گراتے ہیں وہی ٹیکس لگاتے ہیں وہ بڑھاتے ہیں وہی کٹاتے ہیں، ہم بظاہر بیٹھے ہوتے ہیں لگ تو یہی رہا ہے کہ ہم کر رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک آپ کو جوابدہ نہیں ہے نہ حکومت کو نہ کابینہ کو نہ پارلیمنٹ کو براہ راست آئی ایم ایف جوابدہ ہے۔ تو روپے کی قیمت پر آپ کو کیسے کنٹرول ہو گا، تھوڑے حالات بدلتے ہیں اچھا ہو جاتا ہے پھر اوپر جاتا ہے، جب گرتا ہے تھوڑا سا ڈالر گر جاتا ہے تو ہم نے کیا اوپر جاتا ہے تو آئی ایم ایف نے کیا۔ تو معیشت آپ کے اختیار سے باہر نکال دی گئی اب اس کو واپس کیسے لانا ہے، تو ایک دلدل میں ہمیں پھنسا دیا، اب دنیا ہم پر اعتماد نہیں کر رہی، اب ان حالات میں حضرت ہم نے ملک کو نکالنا ہے اور جب میں لفظ دلدل استعمال کرتا ہوں تو اس کا معنی یہ ہے کہ آدمی اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دھنستا چلا جاتا ہے۔ اس حالت سے اب قوم دو چار ہے، یہ پبلک کو سمجھانا پڑتا ہے، بولا جس کی حکومت ہو جو کرسی پر بیٹھا ہوا ہو لوگوں کو وہی نظر آتا ہے، اسی کی بات کرتے ہیں، کسی کی غلطیاں اور کون اس کی سزا پا رہا ہے، کسی کی حماقتیں، حماقتیں بھی نہیں ہے عمداً ایجنڈا لے کر آئے ہے کہ پاکستان کے میگا پروجیکٹس کو فریز کرنا ہے سی پیک کو منجمد کرنا ہے اور مجھے خود ایک چینی سفیر نے ملاقات میں کہا کہ یہ آپ کی کیسی حکومت ہے میں نے کہا کیوں انہوں نے کہا جی آپ کا وزیراعظم ہمیں کہتا ہے کہ پاکستان میگا پروجیکٹس کا متحمل نہیں ہے، تو میں نے کہا پھر کیسے کرو گے انہوں نے کہا میڈیم اور مائیکرو لیول کی تجارت، وہ میں نے کہا مائیکرو لیول کی تجارت تو لوگ آپس میں کرتے ہیں کسی نے مرغی بیچنی ہے تو دوسرا خرید لیتا ہے ایک بیچ دیتا ہے، کسی نے کٹا خریدنا ہے تو ایک خریدتا ہے دوسرا بیچ دیتا ہے، کسی نے پلاٹ خریدنا ہے تو ایک لے لیتا ہے دوسرا بیچ دیتا ہے، تو یہ تو پبلک کے درمیان ہے مائکرو لیول کا کاروبار ہے، اس سے اوپر جاتا ہے تو سٹیٹ اور پبلک کے درمیان کسی نے چھوٹا سا کارخانہ لگانا ہے یونٹ لگانی ہے، بینک سے قرضہ لینے کا ہے، ریاست اس کو تعاون کرتی ہے اس کے ساتھ، کاروبار شریک کر لیتی ہے، میگا پروجیکٹس میں باہر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے اس سے تو امریکہ بھی بے نیاز نہیں ہے، تو انہوں نے کہا یہ آپ کے لوگوں کا فلسفہ ہے ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ لوگ کیسے فلسفی لوگ ہیں، میں نے کہا ہمیں اس طرح کا دماغ اللہ نے دیا ہے کہ ہم اس طرح سوچتے ہیں لوگ اوپر کی طرف جاتے ہیں ہم میگا سے مائکرو کی طرف آرہے ہیں، کہیں سی پیک منصوبہ 70 ارب کا اور کہیں ہم مرغے اور گدھے بیچنے کے لیے آگئے، اور پھر کہا گدھوں کی افزائش نسل ہوگی، آپ کے قریب اوکاڑے میں ایک مرکز بھی بنایا تھا انہوں نے گدھوں کے افزائش کے لیے۔ تو اس قسم کی چیزیں جو ہیں ایک مضحکہ خیز قسم کی معیشت دنیا کو دے دی اور پھر فخر بھی کر رہے ہیں، تو میں نے کہا یہ تو پھر وہی مرغی ہے جو گندگی میں چونچ بھی مارتی ہے اور چونچ اوپر بھی رکھتی ہے، شرم بھی نہیں آتی ان باتوں پر، اور اس حالت میں حضرت یہ جو ہم لوگ دو چار آدمی اپنے کمرے میں بیٹھ کر جذبہ جہاد کے نکلتے ہیں اور بندوق اٹھاتے ہیں یہ تو آپ سوچ ہے نا یہ تو آپ کا جذبہ ہے آپ کو آگیا جذبہ، اب یہ چیز تو تدبیر اور تدبر باندھتی ہے کہ پھر اس کا انجام کیا ہوگا، شریعت میں تو پہلے انجام پہ نظر رکھنی ہوگی پھر کام شروع کرو، تدبیر اور تدبر دونوں کا مادہ د ب ر ہیں، النظر علی دبر الامور، معاملات کے انجام پہ نظر رکھنا، ہمارے دل میں جو خواہش آئی جذبہ آیا اور شروع کر دیا، اب اگر آپ بندوق اٹھاتے ہیں، حملے کرتے ہیں، مسجدوں کو اڑاتے ہیں، نمازیوں پہ حملے کرتے ہیں، آپ بتائیں کہ یہ کیا پیغام دے گا دنیا کو کہ پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں ہے، اب پتہ نہیں الیکشن بھی ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، پھر جب آپ پیغام یہ دیں گے کہ پاکستان میں استحکام نہیں ہے، تو پھر آپ کے سرمایہ کاری کے لیے کون آئے گا، پیسہ کون یہاں لگائے گا، اپنے ملک کے جو باہر لوگ رہتے ہیں ان کی ترسیلات رک جائیں گی، تو یہ ساری چیزیں ملکی معیشت کو تباہ کرنا، اس کے امن کو تباہ کرنا، یہ سارے چیلنجز ہیں اور یہ تب ہوتی ہے جب اللہ ناراض ہو جاتا ہے۔ ہم نے 75 سال گزارے اور ہم نے جو لا الہ الا اللہ سے وفاداری کا مظاہرہ کیا ہے آج اس کے نتائج آپ دیکھ رہے ہیں۔ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً قَرْيَةً كَانَتْ آَمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ۔ اللہ تعالی نے اس آبادی کی مثال دی ہے کہ جہاں امن بھی تھا اور اطمینان بھی تھا، پرسکون زندگی تھی اور معیشت ہر طرف سے کھچ کھچ کے آرہی تھی، لیکن جب انہوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا کفران نعمت کیا تو پھر اللہ نے بھوک اور بد امنی کا مزہ چکا دیا ان کو۔ جو علامت ہے بظاہر اللہ کی ناراضگی کا اسی کام کو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بہت بڑا نیکی کا کام کر رہے ہیں اور اگر آپ یہ بات کرتے ہیں تو پھر انسان کے خون کو اور مومن کے خون کو حلال سمجھنا اور حلال سمجھ کر انسانیت کا قتل کرنا، یہ کس زمرے میں آئے گا پھر، یہ کہاں مومن رہ جاتا ہے پھر، سب سے زیادہ حرام چیز تو انسان کا خون ہے۔ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا۔ اب بتائیں اتنا ناراض اللہ کسی بات سے نہیں ہوتا، لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔ ایک مومن کے خون کے مقابلے میں اگر پوری دنیا تباہ ہو جائے، پوری دنیا کی تباہی اللہ کے لیے آسان ہے ایک آدمی کو خون بہانا جو ہے وہ اللہ کو بہت بھاری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک مومن کا خون کعبے کے انہدام سے زیادہ اللہ پر بھاری ہے۔ اور ہم کیسے آسانی کے ساتھ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، فخر کرتے ہیں، ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ان حالات میں اپنے وطن کے لیے اپنی ملک کے لیے اس کے امن کے لیے ایک کردار ادا کرنا ہوگا، جمیعت علماء ایک ذمہ دار جماعت ہے اس وقت ملک کی اور ہم نے پوری ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اس وقت صفوں میں وحدت کی ضرورت ہے،میں جہاں بھی ساتھیوں کے اختلافات دیکھتا ہوں وہ عہدوں پہ ہوتی ہے، کوئی بڑی بات نہیں ہوتی، اب ترجیحات تبدیل کر لیں، جماعتی نظم میں کوئی کمزوریاں ہیں اس کمزوریوں کا ازالہ کریں اور مل کر جماعت کا کام کریں اور آپ کر سکتے ہیں، اس لیے کر سکتے ہیں کہ مجھے تجربہ ہے۔ اس سے بڑھ کر ہم نے کام کرنا ہے اپنے منشور کی تحفظ کے لیے کریں جو کہ اس ملک میں ہوا وقت نہیں ہے مجھے اجازت نہیں دے رہا میں نے سفر بھی کرنا ہے، تو کافی اور بھی باتیں ہو سکتی تھی لیکن آپ کے پاس یہاں حاضر ہونے، آپ کے پاس بیٹھنے، آپ سے کچھ گفتگو کا موقع ملا تو یہ کچھ باتیں میں نے عرض کر دی شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات، تو اللہ تعالی کرے کہ ہم اس پر عمل کرنے کی اللہ توفیق عطا فرمائے، کہنا آسان ہے پھر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے اللہ عمل بھی آسان کر دے ہمارے لیے اور اللہ ہم سب پہ رحم فرمائے اور آپ کے اس اجتماع کو اللہ قبول فرما لے

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


ضبط تحریر: #محمدریاض 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات 

#TeamJuiSwat 


1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں