خیبرپختونخوا کے سوشل میڈیا کنونشن سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خصوصی خطاب تحریری صورت میں 7 اکتوبر 2023

خیبرپختونخوا کے سوشل میڈیا کنونشن سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خصوصی خطاب 

7 اکتوبر 2023

الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی الہ وصحبہ ومن تبعہم باحسان الی یوم الدین اما بعد 
صدر اجلاس، زعمائے کرام، جمیعت علمائے اسلام کے سوشل میڈیا سے وابستہ میرے نوجوان ساتھیوں، ہمارے اس اجتماع کو کور کرنے والے میرے محترم صحافی بھائی، آج کے اس کامیاب اجتماع کے انعقاد پر میں جمعیت علماء اسلام کے سوشل میڈیا ٹیم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے ایک کامیاب اجتماع کا انعقاد کیا ہے اور یہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، میں بذات خود سوشل میڈیا کی جدید تکنیک کے بارے میں مہارت نہیں رکھتا، ہمارے نوجوان اور نئی نسل اس فن کو بہت زیادہ جانتی ہے، میرے اپنے گھر میں بعض دفعہ میرے پوتے مجھے سکھاتے ہیں، تو یقینا اس حوالے سے جو آپ کا شرف ہے اور آپ کی دلچسپی ہے یہ قابل قدر ہے، قابل تعریف ہے اور خدا کرے کہ آپ اس مشن کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھاتے جائیں۔ اکرم درانی صاحب نے بہت مختصر خطاب کیا اور کھڑے ہو کر کیا مجھے پتہ ہے کہ وہ بھی کھڑے ہو کر لمبی تقریر نہیں کر سکتے لیکن جوانی اپنے نام الاٹ کر دی، تو میں بھی آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں اس سے زیادہ جوان ہوں۔
اس وقت بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر ہمیں غور کرنا ہے کہ ہماری مشکلات کیا ہیں، کچھ حقائق ہیں جسے ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے، مریض اگر مرض کو تسلیم ہی نہیں کرتا، ڈاکٹر کو رجوع ہی نہیں کرتا تو مرض بڑھتا جائے گا اور اس کا علاج نہیں ہو سکے گا، پاکستان داخلی مشکلات سے بھی دوچار ہیں اور بیرونی خطرات سے بھی دو چار ہیں، من حیث القوم ہمیں اپنے وطن کے لیے سوچنا پڑے گا، معاملات وقت کے ساتھ ساتھ گھمبھیر ہوتے جا رہے ہیں، بُتیاں سلجھانے کی بجائے اور مشکل ہوتی جا رہی ہے، یہ قومی مسئلہ ہے، ہم نے اگر 10 ، 12 سال پہلے نشاندہی کی، یہ کسی کے ساتھ ہماری کوئی ذاتی جنگ نہیں تھی، ہم نے کسی کو گالی نہیں دی، آپ بر صغیر کی تاریخ کو پڑھیں کیا برصغیر کی تاریخ میں ہمیں وہ طبقہ نہیں ملتا، اپنے ہی ہم وطنوں کا، اپنے ہی ملک کی خاص طبقے کا، جو انگریز کی غلامی پر فخر کرتا تھا، جو برصغیر پر انگریز کے قبضے کو جائز سمجھتا تھا، اس کا وفادار تھا، اس کے بدلے میں مراعات وصول کرتا تھا، چاہے وہ جاگیرداروں کی صورت میں تھے، چاہے وہ کچھ بڑے بڑے درگاہوں کی صورت میں تھیں، تو کیا اب ہم وہ بات نہ کریں! وہ ہمیں کہیں کہ آپ ہمیں انگریز کا وفادار کہتے ہیں، یہ تاریخ کا حصہ ہے، اب یہ حقیقت ہے، کیا ہمارے ملک کے اندر وہ جماعتیں یا ان جماعتوں کے اہم شخصیات حتی کہ آج بھی، کیا وہ لوگ نہیں ہیں جو امریکہ کے وفادار رہتے ہیں، امریکہ کے پالیسیوں کی پیروی کرتے ہیں، اس کو پاکستان میں نافذ عمل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، تو پھر کیا ہم ان حقائق سے آنکھیں چرا لیں، کیا ہم اس کا تذکرہ ہی نہ کریں، تو اگر ہماری نظر میں ایک ایسا عنصر ملکی سیاست میں داخل ہوا کہ جس نے دنیا کی یہودیت سے ہدایات لی تو اس کو تشت از بام کرنا یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے ہم نے پہلے بھی کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے ان شاءاللہ العزیز یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، اس نظریاتی جنگ کو نظریاتی طور پر ہم نے لڑا ہے اور الحمدللہ ہم نے اس کو زخمی کیا، ہم نے اس کو گرایا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسرائیل کے ایجنڈے کو بھی شکست دی ہے، ہم نے مغرب کے ایجنڈے کو بھی شکست دی ہے، ہم نے امریکی ایجنڈے کو بھی شکست دی ہے اور پاکستان میں ان کے وفادار اور ان کے ایجنٹوں کو بھی شکست دی یے۔ تو یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، لوگ اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں، لوگ مفادات کی جنگ لڑتے ہیں لیکن ہم نے اپنے نظریاتی تسلسل کو برقرار رکھا ہے، ہم اپنے منہج سے ہٹے نہیں ہیں، اور نوجوانوں کو اس بات پر اعتماد کرنا چاہیے، ہم بلا وجہ بات نہیں کر رہے، ہمیں کیا دشمنی تھی ان کے ساتھ، جب 2002 میں میں پارلیمنٹ کے اندر وزیراعظم کا ایک کینڈیڈیٹ تھا تو مجھے تو ووٹ دیا تھا انہوں نے اور آج تک ہمارے اندر کوئی خامی نہیں نکال سکا، سوائے گالیوں کے اور آج میں آپ لوگ بھی کبھی کبھی میسجوں میں یہ بات کر لیتے ہیں کہ فضل الرحمن آج کل خاموش ہے، بات نہیں کر رہا، کیوں نہیں کر رہا، تو بابا میرے روایات ہیں میں جس سے جنگ لڑتا ہوں پھر اس کی بھی ہاتھ کھلے ہونی چاہیے میرے بھی ہاتھ کھلے ہونے چاہیے۔ میرا مخالف قید میں ہو میں اس کے خلاف جلسے اور تقریریں کروں مزہ نہیں آتا لیکن نظریاتی جنگ اپنی جگہ برقرار ہے، اس تسلسل میں کوئی فرق نہیں آئے گا، میں چاہتا ہوں ہر سیاستدان کے لیے ہر سیاست دان کے لیے کہ وہ جیل سے باہر ہو لیکن اگر قانون کے گھیرے میں آیا ہے تو پھر قانون تو پھر قانون ہوتا ہے نہ میں اس سے مستثنی ہوں نہ آپ مستثنی ہے نہ کوئی اور مستثنی ہے۔ ایک بہت بڑا ڈپلومیٹ میرے پاس آئے، مغربی دنیا کا بڑا اہم ڈپلومیٹ تھا، مجھے کہنے لگا کہ ہم ان کی گرفتاری پر ہمیں تشویش ہے، میں نے کہا مجھے بھی تشویش ہے، اے کاش کہ میں نے کہا جب آپ کو اس وقت بھی یہ تشویش ہوتی جب تین دفعہ ملک کا وزیراعظم رہنے والا سی کلاس میں پڑھا ہوا تھا، جب تین دفعہ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ سی کلاس میں پڑا ہوا تھا، اس وقت تو آپ لوگوں نے اس پر کوئی تشویش کا اظہار نہیں کیا، یہ آپ کا نمائندہ تھا اس لیے آپ کو تشویش ہے، پھر کہا ہے جو گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس پر ہمیں تشویش ہے تو میں نے کہا اگر یہ حملہ ملک آپ کے ملک میں آپ کے پارلیمنٹ پر ہوتا یا آپ کے کسی فوجی ہیڈ کوارٹر پہ ہوتا تو پھر آپ کیا کرتے، کہا ہمارے ہاں تو پھر قانون حرکت میں آتا تو میں نے کہا یہاں بھی قانون حرکت میں آیا ہے۔  ٹرمپ نے اور ٹرمپ کے لوگوں نے امریکہ میں وہ ہٹ پارک ہے کیا ہے اس پہ حملہ کیا وہ ریاستی مقام ہے اور تمام لوگوں کو جیلے ہوئی، عمر بھر کی جیلیں ہوئی بعض کو پھانسیوں کی سزا تک دی گئی تو اگر امریکہ کے لیے اپنا ایک ریاستی مرکز وہ اتنا تقدس رکھتا ہے پھر پاکستان کی بھی ریاستی ادارے ہیں۔ اختلاف تو ہم نے بھی کیے۔ ہم سے بڑے جلسے کس نے کیے ہیں، ہم سے بڑے ملین مارچ کس نے کیے ہیں، کیا ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی قیادت اس جرم میں شریک تھی ہمیں پورا ادراک تھا لیکن ہم نے افراد کے اختلاف کو نہیں دیکھا ہم نے اداروں کا احترام کو دیکھا، فرق ہوتا ہے سیاست میں، اپنے حدود کو سمجھنا چاہیے، ہم اپنے حدود کو بھی سمجھتے ہیں، قانون کے حدود کو بھی سمجھتے ہیں اور اس کے اندر بھرپور اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کر سکتے ہیں الحمدللہ۔ لیکن ہمیں آج یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کا پورا انتظامی ڈھانچہ میری ناقص رائے میں ممکن ہے میں کوئی زیادہ حساس ہوں اور یہ بات کر رہا ہوں کہ ملک کا مجموعی انتظامی ڈھانچہ اس وقت زوال پذیر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہو یا بیوروکریسی اس کی گرفت کمزور ہے، ملک کے اندر، چاروں صوبوں کے اندر جو مرکز گریز قوتیں ہیں یا مذہب بیزار قوتیں ہیں، وہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی گرفت اور اپنے اثر کو مضبوط کئیں جا رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی پر عوام کا اعتماد کمزور ہوتا جا رہا ہے، قوم کی ناراضگیاں بڑھ رہی ہیں، اور پھر معاشی لحاظ سے ہم زبوں حالی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ جہاں دنیا میں معیشت کمزور ہو جائے وہاں قومی وحدت بھی ساتھ ساتھ کمزور ہو جاتی ہے، وہاں وطن کے ساتھ، ملک کے ساتھ کمٹمنٹ کمزور ہو جاتی ہے، اور ہم نے تجربہ کیا، گزشتہ جو پانچ سال گزرے ہیں، ساڑھے تین چار سال جن کی حکومت رہی اور ملکی معیشت کی عمارت کو گرایا، تو خطرہ تھا کہ مختلف صوبوں میں بغاوتیں شروع ہو جائیں، مختلف علاقوں میں بغاوتیں شروع ہو جائیں، یہ جمیعت علماء اسلام تھی جس نے تمام پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر رکھا چاہے وہ قومی سطح کی جماعتیں تھیں چاہے وہ علاقائی جماعتی تھی چاہے وہ قوم پرست جماعتیں تھی سب کو ہم نے ایک پلیٹ فارم پر رکھا تاکہ ملک کی وحدت کو بچایا جا سکے، تاکہ کہیں کسی جگہ میں لوگ بغاوت کی طرف چلے جائیں، ورنہ یقین جانیے جہاں ہم گئے ائیرپورٹ پہ گزرے، جہاز میں چڑھتے ہوئے، باہر نکلتے ہوئے، کہی روڈ پر کھڑے ہوئے، جو شخص ملا سر اس مصیبت سے کب جان چھوٹی گی، اس نے تو مار دیا اس کے علاوہ اور کوئی بات کسی کی نہیں ہے۔ اور میں نے اس وقت بھی یہ کہہ دیا تھا جب ابھی اعتماد نہیں ہوا تھا تو میں نے پبلک جلسوں میں کہا تھا کہ معیشت اتنی گر گئی ہے کہ اس معیشت کو اب دوبارہ اٹھانا یہ مشکل کام ہو جائے گا، اور اب آپ دیکھیں مشکل ہے یا نہیں! اقتصاد کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ 10 سال، 15 سال بالکل ایک ہی سطح پر رہے یہ اونچ نیچ رہتی ہے، مجموعی قومی پیداوار کی شرح بھی مختلف ہوتی رہتی ہے، لیکن آپ خود اندازہ لگائیں کہ 2017 ، 18 کے بجٹ میں ہم نے مجموعی قومی پیداوار کی شرح 6 اور ساڑھے چھ فیصد تک رکھی اور پھر جب یہ لوگ آئے بظاہر بڑے دیانت دار، سب کو چور کہنے والے، خود گھڑی چور، جب یہ آئے تو ان کے وقت میں پاکستان کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار زیرو سے نیچے یعنی مائنس پہ چلی گئی۔ یہ دن بھی قوم نے دیکھا ہے۔ جب آپ کے سٹیٹ بینک میں زر مبادلہ کے ذخائر، ریزروز صرف دو ارب ڈالر رہ گئے تھے جبکہ ہم نے 17 ارب ڈالر چھوڑے تھے، پوری دنیا کی معیشت میں پاکستان چوبیسویں نمبر پہ آگیا تھا اگر یہ بیچ میں لوگ نہ ہوتے آج جی 20 کا پاکستان ممبر ہوتا ہے، ہمارے پڑوس میں ابھی جی 20 کا اجلاس ہوا ہے پاکستان اس کا ممبر ہوتا آج لیکن ان ساڑھے تین سالوں میں پاکستان دنیا کی معیشت کے 47 ویں نمبر پہ چلا گیا۔ اچل رہے ہیں بات کو سمجھتے ہی نہیں ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے اس ملک کے ساتھ، حکومتی گرفت کمزور دی اور ابھی تک کمزور ہے، بھیج میں عدم اعتماد آیا حکومت بنی 11 ، 12 جماعتوں کی لیکن میں کہتا رہا کہ ملک اس حد تک نیچے جا چکا ہے کہ یہ اب دلدل ہے دلدل، دلدل سے آدمی نکلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دھنستا چلا جاتا ہے۔  ہمارا صوبہ ہے، غربت اپنی جگہ پر ہے، مہنگائی اپنی جگہ پر ہے لیکن بد امنی اور خوف کا کیا عالم ہے، آئے روز خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے، قبائلی علاقوں میں روزمرہ کے حساب سے کتنے لوگ گولی کا نشانہ بنتے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام پر کیوں حملے ہوئے؟ کس کے اشارے سے ہوئے؟ باجوڑ کا حادثہ کیوں درپیش ہوا؟ اور ہاتھ سے پہلے کوئی سال ڈیڑھ سال کے اندر میرے 20 علماء کیوں شہید کیے گئے؟ اور اس کے بعد بھی سلسلہ جاری۔ مستونگ میں کبھی کسی زمانے میں مولانا عبدالغفور حیدری صاحب پہ حملہ ہوا 26 ساتھی شہید ہوئے اور ابھی حافظ حمد اللہ پہ ہوا اور ابھی عید میلاد میں پھر ہوا 50 ، 60 لوگ اس میں شہید کر دیے گئے۔ جہاں اس حد تک قتل و غارت گری ہو، جہاں اتنا زیادہ خون بہے، وہاں امن، وہاں سکون، وہاں اطمینان کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے، کیسے وہاں کا شہری گھر سے نکلے گا اور اس اطمینان کے ساتھ کہ شام کو گھر واپس محفوظ آئے گا۔ تو پورا ڈھانچہ آپ کا ہل چکا ہے۔ کراچی گلی کوچوں میں جرائم سماجی جرائم ایم این اے اور ایم پی اے سے گاڑیاں چھین لی جاتی ہیں لے جاتے ہیں ان سے۔ پنجاب کا تاجر پریشان، زمیندار پریشان، آج پورے کشمیر میں پاکستان کے خلاف ریاست کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اگرچہ اس کا بنیاد ایک وہاں کا مقامی مسئلہ ہے کہ منگلہ ڈیم کشمیر میں ہے اور پاور ہاؤس پاکستان میں ہے بجلی پاکستان میں جمع ہوتی ہے اور پھر ہمیں مہنگے داموں میں بیچی جاتی ہے، بجلی کی بلوں کے خلاف وہاں لوگ نکلے ہیں لیکن اس سے پاکستان پر بھی اعتماد ختم ہو گا نا کشمیری کا، اس کی بھی کوئی اثرات ہوں گے نا، اس نے یہ بھی کچھ نتائج ہوں گے پھر کل، نہ معلوم ہم کدھر جا رہے ہیں، کون لوگ ہیں جو چار پانچ اپنے ایک کمرے میں بیٹھ کر پورے ملک ہے اور عوام کا ہر چیز کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے ہیں۔ 
میں جب کچھ کمزوری کا ذکر کرتا ہوں تو ہمارے صحافی برادری مجھ پر تبصرے کرتی ہیں کہ یہ الیکشن ملتوی کرنا چاہتا ہے، الیکشن نہیں ملتوی کر رہا ان کی غلط فیصلوں کی نشاندہی کر رہا ہوں، الیکشن کے لیے تو ہم نے 2018 کا الیکشن تسلیم نہیں کیا، ساڑھے تین سال ہم نے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا اور ہمیں الیکشن سے ڈرایا جاتا ہے! جو ہمیں الیکشن سے ڈراتا ہے وہ ذرا اس صوبے کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج دیکھ لیں کہ کیا ہم ڈرنے والے ہیں یا ہم سے کوئی ڈر رہا ہے! لیکن اس کے باوجود مغربی دنیا آج بھی ان کی پشت پر ہے، ان کی لابیز یہاں کام کر رہی ہیں، یہ ایک پارٹی کے لیے کام نہیں کر رہی یہ ریاست کے خلاف کام کرتے ہیں اس کا راستہ نوجوانوں نے روکنا ہے۔ 
 تو آج اس وقت آپ نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہے، گلگت بلتستان میں کیا سوالات پیدا ہو رہے ہیں کبھی کسی نے سوچا اس بات پہ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد ہمارے حقوق کا استحصال کر رہا ہے اور ہمیں فرقہ وارانہ جھگڑوں میں الجھا دیتا ہے، ہم آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں، پنجاب میں فرقہ واریت پھیلا دی جاتی ہے، ہمارا صوبہ کتنی مرتبہ اس فضا سے گزرا، بلوچستان گزرا ہے اس سے حالانکہ وہاں فرقہ واریت دور دور کی بھی کوئی چیز نہیں تھی لیکن وہاں پر بھی عناصر پیدا کیے گئے۔ ہم نے سیاسی نقصان اٹھایا لیکن ہم نے غلط کو غلط ہی کہا، کہ غلط غلط ہے۔ ہمیں عوام میں جانا چاہیے، ہمیں عوام کو اعتماد دلانا ہے کہ ہم آپ کے حقوق کے محافظ ہیں۔ میں سیاسی جماعتوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں، سب لوگ لگے ہوئے ہیں الیکشن کمپین میں، سمجھ رہے ہیں کہ اگلا الیکشن میں ہم کامیاب ہو جائیں، یہ کوئی بری بات نہیں ہے یہ سب کا حق ہے لیکن ترجیحات تو دیکھو! آپ الیکشن کی فکر میں ہیں اور ادھر ریاست جو ہے ڈوب رہی ہے آپ کی، پاکستانیوں کے ہاتھ میں اگر کسی کے ہاتھ میں ڈالر ہے باہر بھیج رہا ہے، سمگل ہو رہا ہے، باہر کے لوگ ترسیلات روک رہے ہیں پیسہ پاکستان نہیں بھیج رہے، سرمایہ کاری ملک کے اندر نہیں ہو رہی، اب آپ مجھے بتائیں کہ ان حالات میں اگر پاکستان کے اندر کوئی بندوق اٹھاتا ہے اور اس جذبے کے ساتھ کہ میں تو جہاد لڑ رہا ہوں، یہ ایک جذبہ تو ہو سکتا ہے یہ خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اس کا آغاز کرنے سے پہلے حالات کو سمجھ کر اس کے انجام پر بھی نظر رکھنی چاہیے، اس کے نتائج کیا ہوں گے، نتائج یہ ہوں کہ آپ کا انتخابی عمل مخدوش ہو جائے گا، باہر سے سرمایہ کاری بند ہو جائے گی کہ پاکستان میں امن نہیں، عدن استحکام ہے، سیاسی لحاظ سے بھی معاشی لحاظ سے بھی۔ ایک دفعہ ہم نے ملک کو دیوالیہ پن سے نکالا دوبارہ اس طرف جا سکتا ہے اور پھر ہمیں پڑوس کے ممالک سے جنگ اور تلخی، ہم اس کے متحمل نہیں ہیں بھائی۔ ہندوستان سے چلو وہ ہمارا دشمن، اس سے تو ہمیں کسی خیر کی توقع نہیں لیکن نہ ایران سے ہمارے تعلقات خاطرخواہ ہے اور افغانستان سے بھی حالات آئے روز ہمیں نظر آرہا ہے کچھ تلخیاں پیدا ہورہی ہے۔ بظاہر تو کہا جا رہا ہے کہ غیر قانونی طور پر جو ملک میں رہتے ہیں وہ باہر چلے جائیں، لیکن غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہنے والے وہ صرف پشتون تو نہیں ہے، لیکن ہاتھ ڈالا گیا صرف پشتون پر، کیوں؟ اور پھر جائز اور ناجائز کا کوئی فرق نہیں اس کو پکڑو، اس کو پکڑو، اس کو پکڑو اس کے جیب میں کارڈ بھی ہے اس کو بھی پکڑو نکالو یہاں سے۔ آپ مجھے بتائیں آپ پٹھان لوگ ہیں بحیثیت پشتون بھی اور بحیثیت مسلمان بھی ہماری روایات کیا ہیں اگر ایک مہینہ اور ایک سال بھی آپ کا مہمان آپ کے گھر میں رہے اور آپ اس کی خدمت کرتے رہیں اور گھر سے نکالے تو ایک لات مار کر گھر سے نکالو آپ بتائیں کہ آپ کو ایک سال کی پوری مہمان داری ختم نہیں ہوگی! وہ کہیں دنیا میں یہ کہے گا کہ اس نے مجھے ایک سال گھر میں پالا تھا، وہ یہی کہے گا مجھے اس نے لات مار کر گھر سے نکالا تھا۔ مسئلہ کیا پیدا ہو گیا یکدم؟ اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ ایک کمیشن قائم کیا جائے جو باہمی مسائل کو مفاہمت کے ساتھ طے کریں۔ افغانستان میں تو 20 سال جنگ رہی بلکہ اس سے بھی پہلے 20 سال اور بھی نکال لگا دو، 40 سال سے وہاں جنگ ہے، ابھی کچھ وہاں امن آیا ہے، تو وہاں پر اگر کوئی حکمران ہے، آپ اس کو اپنے برابر کے معیار کا سمجھ لیں کہ ان کے رویے بھی میرے معیار کے برابر برابر ہونے چاہیے، وہ بھی اتنا ہی میچور ہو جتنا میں میچور ہوں، اس کو اتنا ہی ذمہ داری کا احساس ہو جتنا کہ مجھے ذمہ داری کا احساس ہے، اس کے لیے تو کچھ وقت کا انتظار کرنا پڑے گا نا اور پھر ہماری بیوروکریسی، پولیس افسران، گِدھ کی طرح ان پہ جھپٹ رہے ہیں، کسی سے زمین کھینچ رہے ہیں، کسی سے پیسے کھینچ رہے ہیں، کیا حشر کر دیا ہے ان لوگوں نے، یہ انسانی حقوق ہے؟ میں دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں پاکستان میں اور آج اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کے حوالے سے انسانی حقوق کا مطالعہ کریں کہ ہو کیا رہا ہے پاکستان میں! ہر مسئلے میں کوئی راستہ ہوتا ہے ہر مسئلے کو سلیقہ ہوتا ہے، آج ایک بات کہہ دی اور آج نہ ہو سکی تو کل کا انتظار ہی نہیں کرنا فوراً جھگڑے کا اعلان کر دینا۔ احتیاط کی ضرورت ہے، ہم مشکل میں ہیں اور ہم روز بروز اپنی مشکل میں اضافہ کیے جا رہے ہیں، نگران حکومت ہے، نگران حکومت، پتہ نہیں نگران حکومت کی ضرورت کیا ہے، کہاں سے یہ کانسپٹ نکلا ہے، دنیا میں تو کہی ایسا نہیں ہے، جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے اور ان بیچاروں پر اگر آپ تنقید کریں تو آدمی اپنے آپ کو برا لگتا ہے کہ میں اس میں کیا کہوں ان کے بارے میں، معذور ہیں بے چارے۔ میں دعوت دیتا ہوں سنجیدگی کی طرف آنے کا، میں دعوت دیتا ہوں اپنے حالات کو صحیح معنوں میں سمجھنے کا اور اس کا تجزیہ کرنے کا، تمام پارٹیوں سے کہنا چاہتا ہوں ان کی قیادت سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اس وطن عزیز کو بچانے کے لیے سوچیں اگر میری آواز پر کوئی لبیک کہتا ہے الحمدللہ، نہیں کہتا تو پھر یہ فقیر تنہا بھی یہ عَلم لیے آگے بڑھے گا۔  
اقلیتیں غیر محفوظ ہیں ہمارے ملک میں، ان کے گھروں کو جلا دیا جاتا ہے، ان کی عبادت گاہوں کو جلا دیا جاتا ہے، کب اسلام کی یہ تعلیم ہے! مزدور طبقہ پریشان ہے، کسان پریشان ہے، کوئی ایک طبقہ تو ایسا نہیں جو مطمئن ہو، عام دکاندار پریشان ہے لہٰذا آج ملک اور قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہم نے آگے بڑھنا ہے، انتخاب جب آئیں بسرو چشم، لیکن یہ جو الیکشن کمیشن نے کہا ہے نا کہ جنوری کے آخر میں ہے تو آدھے پاکستان میں تو برف ہوگی، اتنی سی بات کہہ کر تبصرہ کرتے ہیں کہ صاحب یہ تو الیکشن ملتوی کرانا چاہتا ہے، ادھر آؤ نا ہماری طرف تم، ذرا جاؤ نا وزیرستان سے لے کر چترال تک اور پھر سوات اور شانگلہ کے پہاڑوں میں، کوہستان تک اور پھر ایبٹ آباد اور معی تک جاؤ، جنوری کے آخری ہفتے میں سیاحت کے لیے لوگوں کو بھیجنا ادھر اس موسم میں۔ خضدار سے لے کر پورے بلوچستان شمال میں، برف پوش علاقے ہیں۔ اب یہ بات اگر کرنی ہے تو حقائق ہیں زمینی حقیقت ہے، کیا ہم اپنے ملک کے موسم کو نہیں جانتے! ایک بندہ انہی علاقوں میں نہیں ہے، اگر کسی پولنگ اسٹیشن پر ایک خاص شرح کے ساتھ خواتین ووٹ نہ ڈال سکیں تو اس کو منسوخ کرتے ہیں دوبارہ الیکشن کرو۔ تو جہاں بندے ہی نہیں ہے اور جہاں ووٹ ہی نہیں پڑھ سکے گا اس کا کوئی لحاظ نہیں ہے! تو ہم نے ایک مشورہ دیا ہے الیکشن کمیشن کو ذرا اگر یا تو آئین کے مطابق کرو تو 90 دن کے اندر کرو تو نومبر میں کرو۔ اور اگر سب نے اتفاق رائے کے ساتھ نئے مردم شماری کے تحت الیکشن کرانے کے بعد دستخط کیے ہیں، پیپلز پارٹی نے بھی کی ہے اور تمام پارٹیوں نے بھی کیے ہیں، تو پھر الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کے تحت یہ بھی کرنی ہے۔ اور ہمارے ساتھ تو خوب ہوا یہ جو کہتے تھے نا قوم پرست کہ قبائل کا انظمام کرو، انظمام کرو، فاٹا کا انضمام کرو، اب انتظام تو ہو گیا کتنے سال ہو گئے! چھ سال ہو گئے نا، اب چھ سال میں ان کو یہ پتہ نہیں چل رہا کہ ہم اب قبائل ہیں یا ہم سیٹل علاقے کے ہیں، نہ بندوبست کی ہے۔ نہ مردوں میں شمار ہوئے نہ عورتوں میں۔ ہکے بکے پریشان، کتنا اطمینان دلایا گیا ہے وہ اپریشن وہ اپریشن کوئی 10 ، 12 اپریشن کرائے ملک کے اس علاقے میں اور آج اس سے کہیں برا حال، اس سے کہیں بڑی تعداد میں لوگ آئے، اس سے کہیں اچھے اسلحے کے ساتھ لوگ آگئے، پولیس نے تو پنی چوکیاں بند کر دیے ہیں، رات کو ایک کی حکمرانی ہوتی ہے دن کو دوسرے کی حکمرانی ہوتی ہے، اور ہمیں کہا جاتا ہے کہ اطمینان ہے اطمینان ہے۔ میں پھر کہتا ہوں آپ سے کہ الیکشن کمپین بھی مانگتا ہے، علاقے میں جانا بھی پڑتا ہے، درانی صاحب آپ اپنے علاقے میں جا سکتے ہیں؟ شیرافضل صاحب آپ جا سکتے ہیں اپنی علاقے میں، گھوم سکتے ہو؟ میرا بھی یہی حال ہے۔ ابھی پرسوں ہمارے ضلع ٹانک کے میئر کو صدام کو اس پر راکٹ فائر ہوا، فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اللہ نے بچا لیا ایک سال پہلے بھی ان پر حملہ ہوا تھا۔ اب ان حالات میں کوئی کیسے کمپین کے لیے نکلے گا! مجھے پتہ ہے جب وزیراعظم شہباز شریف صاحب وہاں علاقے میں آئے تو ان کی سکیورٹی کا کیا انتظام کیا گیا تھا اور کیسے کیا گیا تھا، کس طرح وہ آیا اور کس طرح محفوظ وہاں سے نکلے ہیں۔ آپ تو ٹی وی میں دیکھتے ہیں وزیراعظم اترے بات کر لیا اور چلے گئے خیر خیریت تھی، کوئی خیر خیریت نہیں تھی۔ تو یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ جس کو ہم نے آپ نے جانچنا ہے اور اس پر ہم نے کام کرنا ہے۔ 14 اکتوبر کو جب آپ مفتی صاحب رحمہ اللہ کا کانفرنس کریں گے تو یہ کانفرنس عام کانفرنس نہیں ہوگی، یہ آپ کے پورے صوبے کی سیاست کو پلٹ دے گی ان شاءاللہ،صرف صوبے کی نہیں یہ پورے ملک کی سیاست کو تبدیل کر دے گی اور ہمیں پورے ملک میں جانا ہوگا، پنجاب میں بھی جانا ہوگا سندھ میں بھی جانا ہوگا اور وہاں بھی ہم ان شاءاللہ اس دفعہ مکمل پورا الیکشن لڑیں گے ان شاءاللہ۔ تو یہ چیزیں ہمارے مد نظر ہونی چاہیے، اس کانفرنس کو آپ نے کامیاب کرنا ہے اور ایک بات میں آپ سے عرض کروں، انظمام کیا ہوا آپ 6 قومی اسمبلی کی سیٹوں سے محروم ہو گئے اور غالبا 8 ہمارے سینٹرز کی سیٹوں سے آپ محروم ہو گئے یہ فائدہ کیا ہم نے۔ہم نے چیخ چیخ کر ان سے کہا کہ ابھی وقت نہیں ہے ابھی وقت نہیں ہے ذرا صبر کرو حالات نہیں ہیں اس کے موافق لیکن مجھے واضح طور پر کہا گیا کہ امریکہ کا دباؤ ہے، یہ ہے ہماری آزادی۔ تو اس حوالے سے فاٹا کے لوگ آج غیر محفوظ ہیں، ایک ایک گھر غیر محفوظ ہے، پہلے سے تباہ حال قبائل انضمام کے بعد بھی بے گھر بھی ہو گئے اور دربدر بھی ہو گئے، زندگی بھی ان کے خدشے میں ہے، کیسی زندگی گزارتے ہیں وہ لوگ بہت سخت لوگ ہیں۔ تو یہ وہ مشکلات ہیں جو آپ کے ملک میں اس وقت سامنے ہیں، ہمارے ریاست کے سامنے ہیں، جس کی ذمہ داری صرف ایک فوج کی نہیں ہے ایک بیوروکریسی کی نہیں ہے اور اگر وہ اکیلے سمجھتے ہیں کہ ہم حل کریں گے میں دس دفعہ لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ وہ اکیلے مسئلے کو حل نہیں کر سکتے۔ ہم اس پر ایک قومی سوچ کو ڈیولپ کرنا چاہتے ہیں، آئیں ہم آگے بڑھیں ہم سوچیں۔ افغانستان کے ساتھ ہم نے کیا کرنا ہے، ہم اس کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں، کیا مسائل ہیں، ہم کیا چاہتے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں، روز روز کی شکایت ہے اگر آپ کریں گے تو وہ بھی کریں گے، تلخیاں بڑھیں گی اور کوئی فائدہ تو نہیں ہوگا، لہذا سوچ سمجھ کر ہمیں آگے قدم اٹھانے چاہیے، ہماری باتوں کو خیر خواہی پہ عمل کرنا چاہیے، یا تو مصیبت یہ ہے کہ اگر میرے رائے سے کسی نے اختلاف کیا تو بس جیسے وہ میرا دشمن ہو گیا، ممکن ہے آپ کی اختلاف رائے میں مجھے رہنمائی مل جائے، مجھے ایک اچھی سوچ مل جائے، تو اختلاف رائے اگر نیک نیتی سے ہو تو وہ تو رحمت ہے اس کا تو خیر مقدم ہونا چاہیے، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جس حوالے سے ابھی آج آپ نے دیکھا ایک اسرائیل ہے بس اس کو تسلیم کرو اس کو تسلیم کرو اس کو تسلیم ہونا چاہیے اس کو تسلیم کرو، او کمبخت کے بچوں فلسطین کدھر گیا! قبضہ فلسطین میں ہوا ہے، قبضہ مسلمانوں کے قبلہ اول پہ ہوا ہے، وہ بھول گئے ساری دنیا اور اسرائیل کو تسلیم کرو اور اسرائیل کو تسلیم کرو۔ آج پھر صورتحال وہاں بگڑی ہے اور یہ رد عمل ہے جو کچھ انہوں نے مسلسل بیت المقدس میں کیا، جمعے کی نمازوں میں لوگوں کو قتل کیا، نماز کے دوران انہوں نے حملے کیے، مسلمانوں کے لاشیں مسجد سے نکلی م، کب تک برداشت کریں گے آخر، کوئی مسلمانوں کے لیے یہ نہیں کہتا کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، لیکن مسلمان کا دشمن چاہے قادیانی ہو اس کے لیے کہا جاتا ہے عوام کو پتہ ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہم پاکستان کو اگلی قسط تب دیں گے اگر قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ دینے کا ہمارے ساتھ عہد کیا جائے گا، تو بلی تھیلے سے باہر آگئی یا نہیں! یہ لوگ کسی کے ایجنٹ ہیں یا نہیں ہیں! تو یہ کیوں ایسی بات کرتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے تو خود اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں، خود لکھا ہے اس نے، اب یہ سارے اس کے خود کاشتہ پودے کے شاخیں ہیں جو مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں، ان کے نظریات پہ، ان کے عقائد پہ پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہہ رہے ہیں۔ اور پھر ایک تو ہوتا ہے اختلاف رائے ایک یہ کہ ایک مسلمان ایماندار کلمہ گو، اس کو آپ کافر بھی کہیں اور اس کا خون بھی اپنے لیے حلال سمجھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ ساری دنیا ایک طرف ہلاک ہو جائے یہ اللہ کے لیے اتنا مشکل نہیں جتنا اللہ پر بھاری ہے ایک مسلمان کا خون بہانا ایک مرتبہ اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگر آسمان کے لوگ زمینوں کے لوگ اکٹھے ہو جائیں ایک مومن کا خون بہائے تو میں ان تمام کو جہنم میں ڈال وں گا، ایک خون کے بدلے میں، پورے کائنات کو میں جہنم میں ڈال دوں گا۔ 
اب آپ علماء کرام سے پوچھیں تو علماء کہتے ہیں، کہ اگر ایک شخص شراب پیتا ہے اور شراب کو گناہ سمجھتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور کافر نہیں ہے لیکن اگر شراب پیتا ہے اس کو حلال سمجھتا ہے تو کافر ہے، زنا کرتا ہے اور زنا کو گناہ سمجھتا ہے اللہ کے سامنے اپنے آپ کو شرمندہ سمجھتا ہے تو پھر وہ گنہگار ہے کافر نہیں ہے، اگر چوری کرتا ہے اور چوری کو حرام سمجھتا ہے، ڈاکہ کرتا ہے ڈاکے کو حرام سمجھتا ہے، تو پھر حرام کرنے والا اگر اس کو حرام سمجھ کر کرتا ہے تو یہ گناہ کا مرتکب ہے کافر تو نہ ہوا لیکن اگر ایک اس کو حلال سمجھتا ہے تو اس میں تو یہ کافر ہو گیا۔ اب مسلمان کا خون مومن کا خون اپنے لیے حلال قرار دینا اس کے قتل کو جائز سمجھنا اور حلال سمجھنا یہ کفر نہیں تو اور کیا ہوگا اور ہم پر فتوے لگاتے ہیں جمہوریت والے ہیں اس لیے کافر ہیں، تم جمہوریت کو جانتے نہیں ہو جاہل کے بچوں، اپنی جہالت تو ہمارے اوپر مت توپو، نہ تمہیں جمہوریت کی تعریف آتی ہے نہ دنیا میں اس کی کوئی ایک تعریف ہے۔ تو اس حوالے سے آپ نے اپنے سوشل میڈیا کی دنیا کو موٹیویٹ کرنا ہے اسے ایکٹیویٹ کرنا ہے اس کو متحرک بنانا ہے اور سنجیدہ انداز کے ساتھ تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مذاق اڑا رہے ہیں گپ شپ لگا رہے ہیں، یہ فیک آئی ڈیز جو ہیں نا اس کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے، ایک غلط بات کرتا ہے اس کے پیچھے ذرا ایک کروڑ فیک آئی ڈیز ہوتی ہیں اس پہ ایک منٹ کے اندر وہ 100 200 500 ہزار لائکس آجاتی ہے مجھے لوگ بتا دیں مجھے تو پتہ نہیں ہے وہ کہتا ہے اوہو یہ کیا غلط بات کہی ہے۔ جھوٹ پر جس کی سیاست مبنی ہو، پروپیگنڈے پر جس کی سیاست مبنی ہو، وہ تو ختم ہو جائے گی وہ تو نہیں رہے گی آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گی۔ باطل باطل ہے باطل کہتے ہی اسے ہے جو مٹ جائے اور حق حق ہے حق کہتے ہی اسے ہے جو ہمیشہ رہے۔ تو آپ نے حق کے ساتھ رہنا ہے ان شاءاللہ آپ ہمیشہ رہیں گے اور تاریخ اسلام میں بہت سی وہ جھونکھیں آئی ہیں، ہواؤں کے، بہت سے فرقے آئے، بہت سے زمانوں کی حکومتی بھی کہ انہوں نے، آج نام و نشان تک نہیں ہے امت جانتی ہی نہیں ان کو، ان لوگوں کو بھی کل امت نہیں جانے کی پرواہ ہی نہیں لیکن آج جب تک وہ فتنہ ہے جب تک اس کا دجل ہے تو پھر آپ کے زمانے میں اگر یہ ہے تو آپ پر ان کا مقابلہ کرنا واجب ہے۔ دلیل کے ساتھ مقابلہ کریں ہم بندوق کو اٹھانے والے لوگ نہیں ہیں، ہم ملک کے قانون اور آئین کی پابند ہیں اور اس پابندی کے ساتھ ہم ملک میں بات کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں، حق بولتے ہیں، جتنا ہمارے معلومات ہوں جتنا ہمارے بس میں ہو۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمت کریں 14 اکتوبر کو مفتی صاحب رحمہ اللہ کی یاد میں جو کانفرنس ہو رہی ہے اس کے لیے بھرپور تیاریاں کریں ان شاءاللہ ایک تاریخ ساز ہوگی اور پوری تاریخ کو تبدیل کرے گی ان شاءاللہ۔ اللہ تعالی کامیابی سے سرفراز فرمائے، قبول فرمائے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat


0/Post a Comment/Comments