
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا مری میں آئین شریعت و تحفظ بیت المقدس کانفرنس سے خطاب
12 نومبر 2023
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمٰن الرحیم
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم
جناب صدر، محترم حضرات علماء کرام، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیو! ایک طویل عرصے کے بعد آج میں اہل مری سے مخاطب ہو رہا ہوں، آپ حضرات نے جس محبت کے ساتھ، جس جذبے سے اس اجتماع میں شرکت کی ہے اور ایک تاریخی جلسہ منعقد کیا ہے میں دل کی گہرائیوں سے آپ کو مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں اور آپ کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔
میرے محترم دوستو! ہر چند کے میں ایک لمبے عرصے تک یا کسی عوامی جلسے میں نہ آسکا ہوں لیکن آج کا اجتماع یہ بتلا رہا ہے کہ آپ کے دلوں سے ہماری محبت، ہمارا تعلق کوئی نکال نہیں سکا ہے اور ان شاءاللہ یہ تعلق اب کے اور بھی مضبوط ہوگا اور بھی مضبوط ہوگا۔
میرے محترم دوستو! ہمیں ماضی میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اب شاید نظریاتی سیاست ختم ہو چکی ہے، مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام فتح حاصل کر چکا ہے اور اب ہم نے ان کے ایجنڈے کے تابع رہ کر زندگی گزارنی ہے لیکن الحمدللہ خطے میں بھی اور پاکستان میں بھی ہم نے اس نظریاتی چیلنج کو قبول کیا، ہم میدان میں رہے اور امریکہ ہو یا مغربی طاغوت ہو یا صہیونی قوت ہو ہم نے ان کو شکست دی ہے اور یہ جنگ ان کے خلاف جاری رہے گی تا وقت یہ کہ ہم ہر اعتبار سے اپنی آزادی کا عَلَم بلند کر سکے۔
میرے محترم دوستو! ریاست کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے، ایک مستحکم معیشت کی اور ایک امن و امان کی، انسانی حقوق کا تحفظ ہو یا عام آدمی کی خوشحال زندگی کا مسئلہ ہو، یہ قرآن کی تعلیمات ہیں، یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور اگر ہم قرآن و سنت سے رہنمائی نہیں لیتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ فلانا آئے گا تو ملک کو ٹھیک کر دے گا، معیشت کو ٹھیک کر دے گا، ڈالر کی ایسی تیسی پھیر دے گا، لیکن اگر اللہ ہمارے ساتھ نہیں تو ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے! ہمیں اس محاذ پر جنگ لڑنی ہے، بہت ہو چکا، 75 سال پہلے ہم نے یہ ملک حاصل کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے سے، مسلمانوں نے اس وطن عزیز کو حاصل کرنے کے لیے لا الہ الا اللہ کی امید پر، لا الہ الا اللہ کے نظام کی امید پر اپنی جانیں نچھاور کی، ہماری ماؤں اور بہنوں نے اپنی عصمتیں نچھاور کی، کیا کسی نے آج تک گریبان میں جھانک کر یہ سوچا ہے کہ 75 سال تک ہم نے لا الہ الا اللہ کا کیا مذاق اڑایا ہے؟ کیا کبھی کسی نے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کیا؟ من حیث القوم ہم نے سوچنا ہے، قیادت نے سوچنا ہے اور یاد رکھو مری کے بھائیو میرے دوستو اب ماضی کے لکیروں کی پیروی کرنے کی بجائے ہمیں نئے زاویے کے ساتھ اپنے نئے مستقبل کی تعمیر کرنی ہے، ایک نیا سفر شروع کریں ورنہ وادی تیہہ کی طرح 40 سال گھومتے پھرتے رہو گے منزل کا پتہ نہیں چلے گا۔
میرے محترم دوستو! یہاں انگریز بھی آیا، ڈیڑھ سو سال تک یہاں قابض رہا، ہمارے اکابر کی تاریخ ایک درخشندہ تاریخ ہے کہ انہوں نے قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا لیکن ہتھیار نہیں ڈالے اور اپنے آزادی کی جنگ لڑتے رہے، آج یہ جمعیت علماء، آج یہ پرچم نبوی میرے ان اکابر و اسلاف کی وارث ہے، ان کی قربانیوں اور ان کے نظریات کی امین ہے اور یہ جمعیت علماء جو اپنی سو سالہ تاریخ رکھتی ہے اس کی پشت پر قربانیاں ہیں، اس کی پشت پر سو سالہ جدوجہد ہے، اس کی پشت پر سو سالہ ایک درخشندہ تاریخ ہے، پھر ہم پاکستان میں آج اپنے مقصد کی جنگ کیوں نہیں لڑیں گے! تو ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ افغانستان میں روس آیا تو وہاں کے لوگوں نے ہتھیار اٹھایا ہتھیار پھینکیں نہیں، امریکہ آیا تو امریکہ کو 20 سال تک لڑ لڑ کر باہر کردیا، مگر پھر بھی اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کا سپر طاقت ہے، تو میرے خیال میں اگر وہ اپنے آپ کو سپر طاقت سمجھتا ہے تو وہ بھی احمق ہے اور اگر ہم اس کو سپر طاقت سمجھتے ہیں تو پھر ہم بھی احمق ہیں، کل پرسوں ہی تو ہماری آنکھوں کے سامنے شکست کھا چکا ہے اور آج ایک بار پھر سرزمین فلسطین پر صہیونی قوتوں نے ظلم کی جو پہاڑ توڑے ہیں، ہمارے بچوں پر، پانچ ہزار کے قریب چھوٹے بچے شہید ہوئے ہیں، ہماری مائیں اور بہنیں شہید ہوئے ہیں، ملبوں کے نیچے اب بھی دبی ہوئی ہیں، وہی ملبے ہی ان کی قبرستان بنے ہوئے ہیں، یہ بزدل کا کام ہوا کرتا ہے جو چھوٹے بچوں پر بمباری کرتا ہے، عورتوں پہ بمباری کرتا ہے، پرامن شہریوں پر بمباری کرتا ہے، تم میں جرات ہے تو پھر میدان میں کیوں نہیں آرہے ہو۔ لوگ بڑے بڑے فلسفوں میں جا رہے ہیں، بحث کر رہے ہیں، جدلیات لڑا رہے ہیں، ہم تو صاف بات کرتے ہیں، المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے نہ خود اس کے اوپر ظلم کرتا ہے اور نہ کسی کے ظلم کے لیے اس کو سپرد کرتا ہے۔ اہل فلسطین ہمارے بھائی ہیں اور آج پوری امت مسلمہ پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، جانی قربانی ہو، مالی قربانی ہو، اخلاقی حمایت ہو، سیاسی حمایت ہو اور آج خدا خدا کر کے اسلامی تنظیم کانفرنس کا سربراہی اجلاس بھی ہو رہا ہے، میں آپ کی اجازت سے انہیں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آج امت مسلمہ اکٹھی ہے خیال رکھو کمزور موقف مت دکھانا! اگر امریکہ اور مغربی دنیا اپنے بحری بیڑے لا کر صہیونی قوتوں کی حمایت کر سکتا ہے، ان کے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے کے لیے آسکتا ہے تو پھر مسلمان برادری اس کو کیا سانپ سونگھ گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں صرف رونے کے لیے ہے اور میدان میں نکلنے کے لیے نہیں ہیں۔
میرے محترم دوستو! اگر افغانستان کے محاذ پر ہمارے بھائیوں پر تکلیف آئی ہم شانہ بشانہ کھڑے رہے، آج اگر فلسطین کے مسلمانوں پر ایک مشکل گھڑی آئی ہے، پوری دنیا کے مسلمان کا فرض ہے کہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائے اور جمعیت علماء اسلام نے پشاور میں جلسہ کیا، کوئٹہ میں جلسہ کیا، کراچی میں جلسہ کیا اور انسانیت دور دور تک پھیلی ہوئی نظر آرہی ہے، آج آپ کے اس اجتماع سے بھی جو تائید مل رہی ہے، میں اسے معمولی تائید نہیں سمجھتا، مسلمان امت کیا چاہتی ہے؟ اسلامی قیادت نے مسلمانوں کے جذبات کو دیکھنا ہے اور امریکہ خود امریکہ میں وہاں کے عوام نے اس ظلم کے خلاف مظاہرے کیے ہیں، برطانیہ میں مظاہرے ہوئے ہیں، فرانس میں مظاہرے ہوئے ہیں اور اپنی حکومتوں پہ تنقید کی ہے جو کچھ آج ہو رہا ہے وہ دنیا کے عوام کی رائے کے مطابق نہیں ہو رہا۔ ہم اسلامی تنظیم کانفرنس سے امید رکھتے ہیں کہ وہ جرات مندانہ موقف لے اور براہ راست اپنے بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کریں۔
میرے محترم دوستو! میں نے کوئی پرواہ کسی کی نہیں کی اور اپنے اس وطن عزیز کی اور اس سرزمین پر بسنے والے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے میں فلسطین کے حماس قیادت کو ملنے کے لیے گیا اور میں نے ان کی قیادت کو واضح طور پر کہا کہ پاکستان کا بچہ بچہ آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
دوستو انہوں نے بھی بڑے وضاحت کے ساتھ کہا کہ پوری دنیا میں ہماری سب سے بڑی امید پاکستان ہے، کہ پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی قوت ہے، اور پاکستان نے اقوام متحدہ میں جو جرات مندانہ موقف دیا ہے ہم دل و جان سے اس کی قدر کرتے ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے بچوں کے اوپر بمباری کا سلسلہ بند کر دیا جائے، یہ جنگ کا حصہ نہیں ہوا کرتے، یہ اسلام کا اخلاق ہے، یہ شریعت اسلامیہ کا اخلاق ہے کہ جنگ میں بچوں کا قتل کرنا جرم ہے، عورتوں پہ ہاتھ اٹھانا جرم ہے، بوڑھوں پہ ہاتھ اٹھانا جرم ہے، یہاں تک کہ ان کی کلیساؤں میں اور عبادت خانوں میں بیٹھے ہوئے راہب جو مذاہم خیز سمجھتے ہیں کہ ہم تو عبادت میں مصروف ہیں، ان کو بھی مت چھیڑنا، ان کے مال مویشی کو بھی نہیں چھیڑنا، ان کے باغات کو تباہ نہیں کرنا، ان کے فصلوں کو تباہ نہیں کرنا، جنگ کی بھی عظیم الشان اصول دین اسلام نے دیے ہیں اور ایسے ذلیل اور رسوا قومیں جس طرح صہیونی قوم کہ وہ کہتی ہے کہ ہمارے لیے بچوں کو بھی قتل کرنا جائز ہے، عورتوں کو بھی قتل کرنا جائز ہے، انسانیت کا قتل، میں سوچتا ہوں کہاں ہے وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، آج اگر ہم یہاں پر جلسے میں ایک سخت لفظ کہہ دے پوری دنیا کی مغربی دنیا ان کے این جی اوز ان کے انسانی حقوق کی تنظیمیں وہ ہمارے پیچھے پڑ جاتی ہے یہ بڑے شدت پسند ہیں، آتنگواد ہیں، بابا ہم جب برصغیر پر انگریز کا قبضہ تھا تو اس وقت بھی لڑے تھے نا، میں انڈیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان والو وہ تاریخ تو آپ کی اور ہماری مشترک ہے، تم اپنی تاریخ بھی بھول گئے ہو! تم اپنے آبا و اجداد اور ان کی قربانیوں کو بھی جھٹلا رہے ہو! تم نہرو اور گاندھی کو بھی جھٹلا رہے ہو! یہ ہندوستان کی تاریخ تھی! اور میں جمیعت علماء ہند کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے وہاں کی اپنی حکومت سے اختلاف کیا اور واضح اعلان کیا کہ ہم فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد کہنے سے انکار کرتے ہیں۔
سو میرے محترم دوستو! آج انسانی حقوق کی تنظیم گم ہو گئی ہیں، ان کو فلسطین کے اور غزہ کے بچے نظر نہیں آرہے، ان کو وہ ظلم و ستم یاد نہیں آرہا، امریکہ جب بھی بات کرتا ہے انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، کس چیز کے انسانی حقوق؟ وہ انسانی حقوق جو گوانتانامو میں اس کے مناظر ہم نے دیکھے تھے، جہاں پر انہیں جنیوا کنونشن کے تحت قیدیوں کے حقوق بھی ان کو نہیں دیے گئے اور انکار کیا گیا، برہنہ کر کے لٹا کر امریکی فوجی ان کی پشت پر بیٹھ کر سگریٹ پیا کرتے تھے، برفوں پر لٹاتے تھے اور آج بھی باگرام کے عقوبت خانوں میں دیواروں پر ان کا خون نظر آرہا ہے۔ تم نے عراق میں ابو غُریب جیل میں کیا کیا؟ زندہ انسانوں پر کتے چھوڑے اور کتے ان کو نوچتے رہے، یہ تمہارا انسانی حقوق ہے! تمہارے سمندروں میں کھڑے بحری بیڑوں کے اندر جو عقوبت خانے ہیں اور جس طرح انسانیت کے ساتھ کیا، تمہارے تو انگ انگ سے انسان کا خون ٹپک رہا ہے، آپ اس بنیاد پر انسانی حق کی بات کرتے ہیں! ایک قابض ملک، فلسطین کی سرزمین پر قابض ملک، ناجائز بچہ، میں اپنے حکمرانوں کو بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ذرا پاکستان کی تاریخ بھی مد نظر رہے آپ کے، پاکستان کی قرارداد 1940 میں پاس ہوئی لاہور میں اور بانی پاکستان محمد علی جناح نے فلسطینیوں کی حمایت کو اس پاکستان کی قرارداد کا حصہ بنایا تھا، سرزمین فلسطین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی تھی اور جب پاکستان بنا اور ایک سال بعد اسرائیل بنا تو اس کو برطانیہ کا ناجائز بچہ کہا تھا، اور اسرائیل کے پہلے صدر نے جو سب سے پہلا خارجہ پالیسی کا بیان دیا اس میں واضح طور پر کہا کہ ہمارے خارجہ پالیسی کی بنیادی اصولوں میں یہ شامل ہے کہ ایک نوزائیدہ مسلم ریاست کو ختم کرنا ہے یعنی پاکستان کو، سو پاکستان میں ان کو جانتا ہے اور وہ پاکستان کو جانتے ہیں، کم از کم بانی پاکستان کے اس فکر کا تو احترام کر لو! یہاں پاکستان میں ایک حکومت لائی گئی جس کا ایجنڈا تھا اسرائیل کو تسلیم کرانا، لوگ تو آج اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں نا تو ہم نے تو 15 سال پہلے بائیکاٹ کیا تھا۔
میرے محترم دوستو! پاکستان کی سرزمین پر ہم نے یہودی ایجنٹوں کو شکست دی ہے اور آج ہم نے ان کو مکافات عمل کے حوالے کیا ہے، ان شاءاللہ عالمی سطح پر بھی ہم ان کے ایجنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں صاحب مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، مہنگائی تب بڑھتی ہے جب ملک کی معیشت گرتی ہے، سو ایسی حکومت لائی گئی کہ جس کے ایجنڈے میں یہ بات شامل تھی کہ پاکستان کو کمزور کرے اور ایک دلیل میں بطور ثبوت کے پیش کرتا ہوں، جب عمران خان نے کہا تھا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے، بھئی پاکستان کا کشمیر پر ایک موقف ہے ایک واضح موقف جو اقوام متحدہ میں ریکارڈ کرایا گیا ہے، سلامتی کونسل کے قرارداد کے تابع ہیں، آپ کون ہوتے ہیں کہ کرسی ملی نہیں اور آپ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ یہ آپ کے ایجنڈے میں شامل تھا، سو اسرائیل کو تسلیم کرانا یہ بھی ان کے ایجنڈے میں شامل تھا، ملک کی معیشت کو تباہ کرنا اور پاکستان کو تقسیم کرنا یہ بھی ان کے ایجنڈے میں شامل تھا اور آپ نہ مانیں آپ پھر گھر میں جا کر بحث کریں یہ تو فضل الرحمن ضرورت سے زیادہ ہی بات کر رہا تھا لیکن کب تک بحث کرو گے ایک دن تمہارے سامنے یہ بات آجائے گی، سو ہم نے ملک کو بچانے کی جنگ لڑی ہے اور جب پاکستان دیوالیہ پن کے کنارے لگ رہا تھا اور قریب تھا کہ دنیا پاکستان کو دیوالیہ قرار دے اور کوئی ملک پاکستان کو ایک روپیہ بھی مدد نہ دے کیونکہ ایک دیوالیہ ملک کو کون مدد دیتا ہے تو پھر تب جا کر سب کی آنکھیں کھلی، پہلے صرف ہم کہتے تھے یہ فتنہ ہے اب جس سے بات کرو کہتا ہے وہ فتنہ تھا، ہم کہتے تھے یہ بیرونی ایجنڈا لے کر آئے ہیں، آج سب کہتے ہیں یہ تو باہر کے ایجنٹ تھے، تو ہم نے اس ایجنڈے کو ناکام بنایا ہے اور میں نے جب ابھی عدم اعتماد نہیں آیا تھا اور جب نئی حکومت نہیں بنی تھی تو میں نے بڑے بڑے جلسوں میں یہ بات کہی تھی کہ ملکی معیشت اب اس حد تک گر چکی ہے کہ نئی حکومت اس کو سنبھالا نہیں سکیں گی، صرف اتنا سنبھالا، کہ دیوالیہ پن سے نکالا مشکل سے، لیکن ابھی تک چیلنجز موجود ہیں، اگر ملک کی معیشت میں بہتری کی طرف کچھ اشارات ملی ہیں تب بھی ابھی تک عام آدمی کو اس کے ثمرات نہیں مل رہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ایک مستحکم حکومت آئے، ایک مضبوط حکومت آئے اور قوم از سر نو ایک نئے زاویے کے ساتھ یہ سوچیں کہ آنے والا مستقبل کس کے حوالے کرنا ہے! اگر ہم نے اپنے صفوں سے ان قوتوں کو شکست دے کر میدان سیاست سے باہر نہ کیا، اگر ہم نے ان قوتوں کو سمندر برد نہ کیا تو یاد رکھیں پھر آپ یہاں بیٹھے ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے کہ کسی نے آکر ہمیں کہا تھا کہ ہم نے یقین نہیں کیا تھا، تو اپنے آپ کو سنبھالنا ہے، بہت مشکل سے ہم سفر کر رہے ہیں، اور آج چین جیسا دوست جس نے سب سے پہلے پاکستان پر اعتماد کیا اور اپنی نئی اقتصادی پالیسیوں پر عمل درآمد پاکستان سے شروع کیا، سی پیک سے شروع کیا، تم نے سب سے پہلے اس سے پیک کو منجمد کر دیا، تمام میگا پراجیکٹس کو آپ نے منجمد کر دیا، اور وہ دوست جس کو ہم سمجھتے تھے کہ ہماری دوستی کوہ ہمالیہ سے بھی بلند ہے، بہر الکاہل سے بھی گہری ہے، لوہے سے بھی مضبوط ہے، شہد سے بھی میٹھی ہے، آج وہ کہتا ہے کہ اگر پھر ملک میں اس طرح کے صادق اور امین آتے ہیں تو ہم پاکستان میں اپنا پیسہ ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سعودی عرب ہمارا تو دوست ہر مشکل میں اعتماد پر پورا اترنے والا ملک آج وہ بھی سہما بیٹھا ہے کہ اگر آئندہ الیکشن میں پھر کوئی اس طرح کا امین اور صادق آتا ہے تو پھر ہماری توبہ ہم پاکستان میں پیسہ ضائع نہیں کر سکتے اور جس کو تم چور کہتے ہو وہ کہتے ہیں یہ آئیں گے تو ان کو ہم پیسے بھی دیں گے اور ملک بھی چلے گا، اس کا معنی یہ ہے کہ 2018 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی، عوام کی رائے کے برعکس ملک پر ایک حکومت مسلط کی گئی تھی اور ہم نے سب سے پہلے اس کے خلاف کلمہ حق بلند کیا، ہم نے کہا ہمیں ایسی ناجائز حکومت کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہے، اور تب تک لڑتے رہے جب تک کہ ان کو زمین بوس نہیں کیا، آگے بھی یہ جنگ قوم نے لڑنی ہے، یہاں آئین ہے، یہاں قانون ہے، یہاں جمہوریت ہے، یہاں مملکت کے نظام میں عوام کی شراکت ہے، اس کی رائے ہے، سو آپ حضرات نے اپنی رائے تبدیل کرنی ہوگی، آپ نے اس ملک کے لیے سوچنا ہوگا، ابھی الیکشن کا اعلان ہو چکے ہیں سو ایک بار پھر ذمہ داری آپ پہ آگئی ہے، ہم تو بطور جماعت کے اپنا نظریہ پیش کریں گے لیکن فیصلے کی گھڑی پھر آپ کے پاس آئی گی، تو آپ نے سوچنا ہے کہ اپنے ملک کا مستقبل کس کے حوالے کرنا ہے، یقینا طویل الملک پالیسیوں کے نتیجے میں ہم ان بحرانوں سے نکل سکتے ہیں۔
تو میرے محترم دوستو! ہم میدان میں ہیں میدان میں آگے بڑھیں گے اور یہ جنگ ان شاءاللہ ہم جیتیں گے، اللہ کی کلمے کو سر بلند کرنے کے لیے، اس پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اور حقیقی معنوں میں قرآن و سنت پر مبنی ایک نظام جب تک ملک میں نہیں آئے گا ہمیں کوئی خیر کے دن کی امید نہیں رکھنی چاہیے، چند ایک دن کی خوشی آجاتی ہے لیکن سکون کی زندگی نہیں ملتی، ہر وقت یہ رہتا ہے کہ آج کیا ہو جائے گا تو کل کیا ہو جائے گا؟ ان شاءاللہ العزیز جمعیت علماء اسلام میدان میں ہے اور میدان میں رہے گی ان شاءاللہ اور یہ جنگ ہم نے مل کر آگے لڑنی ہے، آپ کے تعاون کے ساتھ، آپ کی رفاقت کے ساتھ اور اپ کی صداقت کے ساتھ ان شاءاللہ ہم آگے بڑھیں گے اور ہم یہ جنگ ان شاءاللہ جیتیں گے۔
تو میرے محترم دوستو! ہمیں ان حالات کا ادراک ہے، ہمیں سب کچھ دیکھ رہے ہیں، ہماری آنکھیں بند نہیں ہیں، یہاں تو مصیبت یہ ہے کہ اگر کسی کی حکومت آتی ہے اور وہ چاہے دو دن کی کیوں نہ ہو، تو ہم کہتے ہیں کہ کل تک تو یہ حکمران تھا تو یہ مہنگائی کیسے ہوگئی، مجھے یاد ہے خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن میں ہمیں کامیابی مل گئی اور ہم نے حکمران جماعت کو پچھاڑ کر کے رکھ دیا تھا، تو ہمارے ایک ساتھی سے ٹی وی انٹرویو میں ایک اینکر پوچھتی ہے، اینکر صاحبہ وہ پوچھتی ہے اب تو صوبے میں آپ نے بلدیاتی الیکشن جیت لیا ہے، اب تو مہنگائی ختم کر دیں گے نا آپ ؟ اب آپ بتائیں پالیسیاں بنانا بلدیاتی اداروں کا کام ہوتا ہے؟ کونسلر کا کام ہوتا ہے؟ یہ اس طرح اپنے آپ کو کیسے جاہل بنا دیا ہیں اور جاہل بنا کر کوشش کرتے ہیں کہ عوام کو گمراہ کردے، تو یہ جاہل نہیں ہوتے یہ ہمارے مولوی صاحبان جانتے ہیں یہ مُتجاہل ہوتے ہیں، اس قسم کی چیزوں میں نہیں آنا ہم نے، اور بڑے استقامت کے ساتھ اللہ پر توکل کرتے ہوئے پوری خود اعتمادی کے ساتھ جمیعت علماء کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے ہم نے آگے بڑھنا ہے، اللہ تعالی کامیابیوں سے سرفراز فرمائے اور پاکستان کو اللہ تعالی قرآن و سنت کا گہوارہ بنائے، یہاں پر معاشی خوشحالی لائے، یہاں ترقی لائے اور پاکستان کو اللہ تعالی ان قوتوں سے نجات دے جو درحقیقت وہ یہودی کے لیے صہیونیوں کے لیے اور بیرونی ایجنڈے کے لیے کام کرتے ہیں
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat .
مری: سربراہ جےیوآئی مولانا فضل الرحمان طوفان الاقصیٰ کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں ۔
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, November 12, 2023
ایک تبصرہ شائع کریں