قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشاور میں گرینڈ شمولیتی جلسہ سے خطاب 17 نومبر 2023

قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشاور میں گرینڈ شمولیتی جلسہ سے خطاب
17 نومبر 2023

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ صدق الله العظیم

(ابتدائی کلمات پشتو زبان میں ترجمہ #سہیل_سہراب)
جناب صدر محترم، اس عظیم الشان اجتماع کے گرانقدر میزبان جناب حاجی عمر خان صاحب، علمائے کرام، پشاور اور اس علاقے کے معززین، دوستو، نوجوانوں اور دین اسلام پر فدا ہونے والوں مجاہدوں! آج ہم سب کے لیے بڑی خوشی اور سعادت کی بات ہے کہ پشاور کے ایک نامور شخصیت جناب عمر خان صاحب نے اپنے حلقہ احباب کے ساتھ جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا، میں انہیں دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں اور اللہ رب العزت جمعیت علماء اسلام میں اور شیخ الہند رحمہ اللہ کے قافلے میں ان کی شمولیت کو قبول فرمائے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنائے، ان شاءاللہ ان کے اس فیصلے سے جمعیت علماء اسلام کی کمر مضبوط اور مستحکم ہو گئی، اور پشاور کی یہ تحریک جس کے ساتھی کب سے انتظار میں تھے اور بہت سے بزرگ اس آرزو کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے آج الحمدللہ ہم نے اور آپ نے اپنے آنکھوں سے دیکھ لیا کہ پشاور شہر آج جمعیت علماء اسلام کا مرکز ہے اور جمعیت کا شہر ہے۔
میرے محترم بھائیو! یہ بات بلکل واضح ہے کہ جمعیت علماء اسلام ایک نظریے کا نام ہے، جمعیت علماء اسلام ایک تاریخ کا نام ہے، جمعیت علماء اسلام ایک تحریک کا نام ہے اور یہ ان رویوں کی حامل جماعت ہے جس رویوں کی تعلیم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو دی ہے، تمام انسانيت کو دی ہے اور پھر جمعیت علماء کے مؤسسین نے جو رویہ ہمیں سکھایا ہے، آج نظریہ اور رویہ دونوں ہمارے پاس اکابر کی امانت ہے اور ان شاءاللہ اسے ہمیں گھر گھر تک پہنچائیں گے۔

میرے محترم دوستو! پاکستان ہمارا وطن ہے، یہ وطن ہم نے کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا تھا۔ ہم نے یہ ملک لا الہ الا اللہ کے کلمے کے اساس پر حاصل کیا تھا، ایک نظریاتی وطن ہم نے حاصل کیا لیکن ہمیں من حیث القوم اپنے گریبان میں جھانک کر خود اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ 75 سال تک کیا ہم نے لا الہ الا اللہ کا حق ادا کیا ہے؟ کیا ہم نے ہماری ملک کے عنان اقتدار سنبھالنے والے، ہمارے ملک کے پارلیمنٹ کو بھرنے والے، کیا انہوں نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ انہوں نے اس نعرے کے ساتھ 75 سال تک کیا مذاق کیا ہے! میرے دوستو اب ہمیں پرانی لکیریں مٹانے ہوں گی اور ایک نئے زاویے کے ساتھ اپنے نئے مستقبل کو تراشنا ہوگا، ایک نیا مستقبل استوار کرنا ہوگا اور ان شاءاللہ وہ پاکستان جسے آج دنیا میں ایک اسلامی شناخت حاصل ہونا چاہیے تھا آج دین بیزار قوتوں کی وجہ سے اور ہمارے اہل حل و عقد، عنان اقتدار کی بنیاد اور اساس ان کے رویوں کی وجہ سے پاکستان ایک مسلمانوں کا ملک تو ضرور ہے لیکن ابھی تک وہ ایک اسلامی ریاست کا روپ نہیں دھار سکا، یہ اس ملک کا اور اس ملک کے لیے قربانی دینے والوں کا ہم پر قرض ہے۔ سن 1947 میں لاکھوں مسلمانوں نے اس وطن عزیز کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اس سے پہلے ایک سو سال تک اس وطن عزیز کی آزادی کے لیے یہ قوم لڑتی رہی ہے، قربانیاں دیتی رہی ہیں، ہمارے قبائل کے پہاڑ اور ان کے مورچے آج بھی اس وطن عزیز کی آزادی کے لیے لڑنے والے کی گواہی دے رہے ہیں، ان کے مورچے گواہی دے رہے ہیں، ہم اس تاریخ کے لوگ ہیں، ہم ان اسلاف کے لوگ ہیں، ہم نے اب ایک نیا مستقبل بنانا ہے اور اصلاح وطن کے لیے، انقلاب وطن کے لیے ہم نے نئی راہیں تلاش کرنی ہے۔ میں پوری قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے اوپر عالمی سطح پر دباؤ ہے، مذہب کے حوالے سے ہم پر دباؤ ہے، جب مذہب کا نام لیا جاتا ہے تو انتہا پسندی اور دہشت گردی کو خود بخود اس کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، جو نظام انسانی حقوق کا ضامن ہے، جو نظام انسان کے جان و مال کا تحفظ کرتا ہے، انسان کی عزت و آبرو کا تحفظ کرتا ہے، جو نظام ایک خوشحال معیشت کا دعویدار ہے، آج اس نظام کا کیا نام بنا دیا ہے انہوں نے! تو ایک بہت بڑی سازش ہے، یہ عالمی کفر کے سازش ہے اور ہم نے اپنے رویوں سے ان شاءاللہ اس سازش کو ناکام بنانا ہے۔ آج ہم پر معاشی دباؤ ہے، پاکستان کو معاشی بحران کا شکار بنایا جا رہا ہے، ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی اگر چاہتی ہے کہ ملک کو طاقتور اور توانا بنائے ان کو بھی بلیک میل کیا جا رہا ہے، ہماری فوج کو بلیک میل کیا جا رہا ہے، ہماری بیوروکریسی کو بلیک میل کیا جا رہا ہے، ان کو اپنی ڈگر پر لانے اور ان کی خواہشات کے مطابق پاکستان کی ریاست کو تشکیل دینے کے لیے ان کا ہم پہ دباؤ بڑھ رہا ہے، ہندوستان کی تو یہ حالت نہیں، افغانستان بھی ہم سے بہتر جا رہا ہے، ایران بھی ہم سے بہتر جا رہا ہے، چین کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے، بنگلہ دیش ہم سے آگے جا رہا ہے، انڈونیشیا اور ملائشیا ہم سے آگے جا رہے ہیں، عرب ممالک ہم سے آگے جا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ مہنگائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، پاکستان کو معاشی بحران کا شکار بنانا یہ کوئی حادثے کے طور پر نہیں ہے، میں پھر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی معاشی استاد یہ کسی حادثے کی بنیاد پر نہیں! گزشتہ چار پانچ سالوں میں اور آپ کے صوبے میں گزشتہ آٹھ دس سالوں سے ایک ایجنڈے کے تحت یہاں ایسی حکومتیں قائم کی گئی کہ پاکستان کو مذہب سے بھی دور کر دے، پاکستان کی تہذیب کو بھی تباہ کر دے، پشتون تہذیب کو زمین بوس کر دے اور ان کی معیشت کا خاتمہ کر کے پاکستان کے وجود کو ختم کردیں! ہم نے ان قوتوں کا مقابلہ میدان میں کیا ہے، ہم نے وطن کو بچایا ہے، یہ لوگ لائے ہی اسی لیے گئے تھے اور میں کہنا چاہتا ہوں کہ جن جرنیلوں نے اس قسم کے لوگوں کو پروجیکٹ کیا، اس قسم کے ایجنڈے کو ملک پر مسلط کیا، صرف عمران خان مجرم نہیں! وہ جرنیل بھی مجرم ہیں جنہوں نے اس کو پروجیکٹ کر کے پاکستان پر مسلط کیا تھا! کب آپ کے ذہن میں یہ بات آئے گی، کب اس صوبے کا پشتون یہ سمجھے گا، کب ہماری نئی نسل کے دماغ میں یہ بات آئے گی کہ مجھے اندر سے مذہب سے خالی کر دیا گیا، اوپر سے میری تہذیب کی چادر مجھ سے نوچ لی گئی، کچھ تو سوچنا ہوگا ہمیں، کہاں ہم پہنچ گئے ہیں، اتنی معاشی تباہی یہ حادثے کی بنیاد پر نہیں ہوا کرتی، یہ باقاعدہ منصوبے کے تحت ہوئی ہے۔ کشمیر کو تقسیم کرنا ان کا ایجنڈا تھا، اسرائیل کو تسلیم کرانا ان کا ایجنڈا تھا، پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا یہ ان کا ایجنڈا تھا، سو آج قوم کے سامنے ان کو بے نقاب ہونا چاہیے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے، ہماری نئی نسل کو یہ بات قبول کرنی چاہیے، اس کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ آج کا نوجوان نسل اپنے آئندہ کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتا ہیں، کس تاریکی میں آپ کو دھکیلا گیا، کس اندھیرے میں آپ کو دھکیلا گیا اور جس طرح ہم خوشی خوشی اس اندھیرے میں داخل ہوتے گئے، اس امید کے ساتھ کہ شاید آگے روشنی ہے، روشنی کچھ بھی نہیں! جتنا آگے جاؤ گے تاریکی ہی تاریکی ہے، جتنے بھی آپ ان لوگوں سے امید وابستہ کریں گے تاریکی ہی تاریکی ہیں اور آج ہمارے صوبے میں وہ گدلے پانی کا بقایاجات نہیں ہوتا ان کو پروجیکٹ کیا جا رہا ہے، جو لوگ ہمارے صوبے کے مجرم ہیں، جو لوگ ہمارے ملک کے مجرم ہیں، انہی میں سے کچھ لوگوں کو اٹھا کر آپ صوبے کی سیاست ان کے حوالے کرنا چاہتے ہیں! ہم سے بھی توقع رکھی گئی کہ شاید ہم ان کے ساتھ ہاتھ ملائیں گے، انتخابی اتحاد کریں گے، ہمیں بڑی کامیابی ملے گی، ہم نے پہلے دن ہی صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر یہ مجرم وہاں سے نکل کے بھی ہے تب بھی ہم ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔ 

ایسے بے غیرت سیاست انہوں نے سیکھا ہے ایسی بے غیرت سیاست ہمیں ہمارے آباؤ اجداد نے نہیں سکھایا ہے! (پشتوں جملوں کا ترجمہ)

میرے محترم دوستو! ایک زمانے سے ہم اپنے صوبے میں دیکھ رہے ہیں، ہمارے قبائل کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے، قبائل کے انضمام کا فیصلہ کیا گیا، کتنے سبز باغ دکھائے گئے، قبائل آسمان پہ پہنچ جائیں گے، قبائل تو قید میں رہے اب ان کو آزادی کی زندگی میں ملے گی اور لمحوں کے اندر لمحوں کے اندر قبائلی فاٹا کے آئین کے دو دفعات ختم کر کے پورا آئین راتوں رات اوپر مسلط کر دیا گیا اور کوئی نقشہ نہیں تھا، کوئی ان کے پاس منصوبہ بندی نہیں تھی، بغیر مسلمہ بندی کے ایک ایسا فیصلہ کیا گیا کہ آج قبائل بھی حیران ہیں کہ ہم سے کیا ہوا، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے! اس تذبذب میں اور اس اضطراب میں آج قبائلی دنیا زندگی گزار رہی ہے، ہم اکیلے رہ گئے تھے اور یہ قوم پرست کہا کرتے تھے کہ یہ تو قبائل کے دشمن ہیں، قبائل تو پاکستان میں ضم ہونا چاہیے، پاکستان میں ضم کر کے پاکستان کو قبائل کو اور کمزور کر دیا گیا، کہا گیا تھا کہ 10 سال تک ہم ہر سال 100 ارب روپیہ ان کو دیں گے، آج ان کے آٹھ سال ہو گئے انضمام کے ابھی تک بھی تم ان کو ایک ارب روپیہ پورا نہیں کر سکے ہو! کہا 100 ارب روپیہ اور کہاں ابھی تک پتہ نہیں کتنے کچھ تھوڑے بڑے پیسے کہیں ملے ہوں گے۔ تو قبائل کے ساتھ زیادتی کی گئی اور یہاں کی قوم پرست جو آج کل پھرتے ہیں جلسے کرتے ہیں اور کہتے ہیں قبائل کے ساتھ بڑا ظلم ہوا، قبائل کو بے گھر کر دیا گیا، اس کا مجرم تو فوج ہے، یہ ساری باتیں آج کر رہے ہو! تم بھی تو مطالبہ کر رہے تھے کہ اپریشن کرو قبائل میں، فوجی اپریشن تمہارے مطالبے پر کیا گیا، تمہارے مطالبے پر قبائل کو اپنے وطن میں مہاجر بننے پر مجبور کیا گیا، ہجرت پر مجبور کیا گیا اور آج تم ہی ان کے خیر خواہ بننے کی کوشش کر رہے ہو! خیر خواہ بننے کی کوشش مت کرو، تم نے کس کی خدمت کی ہے ہم وہ بھی جانتے ہیں، تم نے عالمی قوتوں میں کہاں سے ہدایات حاصل کی ہم ان کو بھی جانتے ہیں اور آج افغانستان سے امریکہ نکل چکا ہے، اب کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان اور افغانستان کو لڑانے کی طرف لے جا رہی ہے! افغانستان کا مفاد ہو یا پاکستان کا مفاد دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات پہ ہے، ہم دونوں پڑوسی ملک ہیں، ہماری برادری ایک ہے، صدیوں سے ہمارے تعلقات ہیں، کون سی سازشی قوتیں ہیں جو آج ہمارے درمیان بداعتمادیاں پیدا کر رہی ہیں! اس کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، عقلمندی سے اس معاملے کو طے کرنا ہوگا، جذبات میں آکر اور غصے میں آکر روز روز ہم نقصان کرتے جائیں گے اور نقصان کرتے جائیں گے اور عالمی سازشوں کی کامیابی کا ہم ذریعہ بنتے جائیں گے، افغانستان کے داخلی سیاست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، ان کو ہمارے پاکستان کے داخلی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے اور نہ ہم کسی کو حق دیتے ہیں لیکن دو طرف تعلقات کے لیے منصوبہ بندی تو ہونی چاہیے نا، وہ منصوبہ بندی بھی تو نہیں ہے، تو اس اعتبار سے ہر طرف سے پاکستان پر دباؤ ہے، اسرائیل کو تسلیم کرانا اس کے لیے عمران خان، جنرل باجوا، جنرل فیض حمید یہ تینوں امریکہ کے صدر ٹرمپ کے دفتر میں نہیں گئے تھے؟ کشمیر کو بیچنے کا ایجنڈا لے کر نہیں گئے تھے؟  قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان قرار دینا پاکستان کے اندر، کیا اس مقصد کے لیے نہیں گئے تھے؟  یہ ساری چیزیں ہمیں معلوم اور ہم نے سخت موقف اختیار کیا ہم نے کہا لوگوں کو سمجھ آئے یا نہ آئے اگر ہمیں بات سمجھ میں آرہی ہے تو ہمیں وہی کرنا چاہیے جو اس کا حق ہے اور ہم نے وہ کر کے دکھایا اور ایجنڈے ناکام بنا کر دکھائے۔ آج پھر فلسطین کا مسئلہ دوبارہ اجاگر ہوا ہے، جب اسرائیل پر حملہ کیا فلسطینی مجاہدین نے تو یہ موضوع ایک دفعہ پھر اٹھا ہے اور جہاں جہاں یہ باتیں ہو رہی تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے وہاں وہاں پر اسرائیل کو تسلیم کرنے والی بات انہی کے لیے گالی بن گئی ہے، ایک ناجائز بچہ قائد اعظم نے اسرائیل کو برطانیہ کا ناجائز بچہ کہا تھا۔ سن 1940 کی قرارداد اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ فلسطین کے سرزمین پر یہودی بستیوں کا قیام ناجائز ہے اور ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، یہ پاکستان کا آغاز ہے یہ پاکستان کی ابتدا ہے اور اسرائیل نے سن 1948 پہ بنتے ہی کہا تھا کہ پاکستان کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے، سو ان کے نیت بھی واضح ہے اور ہمارے نیت بھی واضح ہے، ان کا بھی ڈی این اے معلوم ہے ہمارا بھی ڈی این اے معلوم ہے، پھر اس کے بعد ایسی باتیں کرنا نہ عرب دنیا کے لیے جائز ہے نہ اسلامی دنیا کے لیے جائز ہے، اب ظاہر ہے جناب جنگ شروع ہو گئی ہے اب جنگ ہے تو جنگجو سے لڑو نا جس نے تم پر حملہ کیا ہے اس سے لڑو وہاں پہ میدان میں اترنے کے لیے تیار نہیں ہو اور بمباریاں کر رہے ہو عام شہریوں پر، غزہ پر، ان کی بلڈنگوں کو تباہ کر رہے ہو، مساجد کو تباہ کر رہے ہو، عبادت گاہوں کو تباہ کر رہے ہو، پانی کے ذخائر پر بمباری کر رہے ہو، سکولوں پر، ہسپتالوں پر، مارکیٹوں پر، چھوٹے چھوٹے بچوں کو قتل کر رہے ہو! تو یہ صہیونی تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا تھا قرآن اس کی گواہی دے رہا ہے جو انبیاء کو نہیں بخشتے اور ان کے قاتل ہوں وہ آج کے مسلمان کا کیا لحاظ رکھیں گے! لیکن اسلامی دنیا کا موقف مضبوط ہونا چاہیے، ہم باتیں تو بڑے ٹھیک کر رہے ہیں، بڑی تگڑی قسم کی باتیں کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اگر امریکہ اور یورپ آسکتے ہیں ان کی مدد کے لیے تو پھر اسلامی دنیا بھی ان کی مدد کے لیے جا سکتی ہے تو اس اعتبار سے ہمیں واضح طور پر اپنے مسلمان بھائیوں کے حق میں بات کرتے ہو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهمْ وتَرَاحُمهمْ، كمَثَلُ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ، اشْتَكَى كُلُّهُ، وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ، وإِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّی۔
ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنے میں، ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں، ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کرنے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم، اگر ایک جسم کے سر میں درد ہے تو پورا جسم بے قرار، آنکھ میں درد ہے تو پورا جسم بے قرار، جسم کی کسی حصے میں اگر درد مچل رہا ہے تو پورا انسانی جسم بے قرار ہوتا ہے ساری رات جاگتا ہے اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کیا آج فلسطینیوں کے اس مظلومیت پر اس کا احساس ہماری اسلامی دنیا کو ہے، کیا ہمارے ملک پاکستان کو ہے، ہم اپنے فلسفے جھاڑ رہے ہیں بحث کر رہے ہیں انہوں نے صحیح کیا یا غلط کیا چھوڑیں ان باتوں کو ہم نے اپنے مسلمان بھائی کا ساتھ دینا ہے اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ تم نے اس وقت بھی پاکستان کی آزادی پر کلہاڑا مارا تھا، تم نے اس وقت بھی اسلامی اخوت کو چیر پھاڑ دیا تھا جب افغانستان پر امریکہ بمباری کر رہا تھا اور تم امریکہ کو اڈے دے رہے تھے پاکستان میں اور پاکستان کی فضائیں ان کے حوالے کر رہے تھے، پھر وہ غلطی نہیں کرنی، پھر ایسی جگت نہیں مارنی، عقل سے کام لینا ہے ہم اپنے موقف پر مطمئن ہیں اور کوئی کر سکے یا نہ کر سکے ہم سے جتنا ہو سکا لیکن ہم گئے اور ان کی قیادت سے ملاقات بھی کی اور ان کو اپنے پورے قوم کی طرف سے یکجہتی کا یقین بھی دلایا۔ ہر ایک کہتا ہے مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنا چاہیے، مسئلے کا پُرامن حل کون تلاش کرے گا! کشمیر کا پُرامن حل تلاش ہونا چاہیے کون تلاش کرے گا! اقوام متحدہ کی قراردادیں کیوں خاموش ہیں کشمیر کے مسئلے پہ! اقوام متحدہ کی قراردادیں اور سلامتی قرار دے کیوں خاموش ہے فلسطین کے بارے میں! کیوں ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، کیوں مسئلے کے حل کے لیے عالمی قوتیں نہیں آرہی اور قوموں کی یہاں پر مسلمان قوموں کے خون کو ارزاں سمجھا جا رہا ہے تو عالمی ادارے وہ تو دنیا کو انسانیت کو مایوس کر چکی ہے اسلامی دنیا کو مایوس کر چکی ہے کیا ہم اقوام متحدہ سے کشمیر کے بارے میں توقع رکھیں گے کہ وہ مسئلے کا منصفانہ حل ہمیں دے گا، کیا ہم سلامتی کونسل سے توقع رکھیں گے یا او آئی سی سے ہم توقع رکھیں گے کہ وہ ہمیں اسرائیل کے مسئلے کا حل بتائے گا، 75 سال گزر گئے تم نے آج تک ہمیں کیا حال بتایا ہے! یہی حل یہ کشمیر کو انڈیا کے حوالے کر دو اور فلسطین کو اسرائیل کے حوالے کر دو، یہ حل ہے؟ شرم آنی چاہیے تمہیں اس حل پہ! کشمیری لوگ کیا قربانی دیتے رہے ہیں اور آج ہم نے کشمیر کے ساتھ کیا کیا ہے، فلسطین کے لوگ 75 سال تک کیا قربانی دیتے رہے ہیں اور آج ہم قربانیوں کا کیا صلہ فلسطینیوں کو دے رہے ہیں، اس حوالے سے بین الاقوامی اداروں سے بھی تو قوم مایوس ہو چکی ہے لہذا یہ ساری چیزیں ہمیں لے کر آگے بڑھنا ہے، ہمیں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنا ہے، عام آدمی کی خوشحال زندگی کو یقینی بنانا ہے، اس کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور جمیعت علماء اسلام، اسلام کی بنیادی اصولوں کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے تاکہ یہ پاکستان جس نے آج تقریبا 20 سالوں سے 25 سالوں سے ایک سیکولر سٹیٹ کا روپ دھار دیا ہے اس کو دوبارہ اسلام اور قرآن و سنت کی طرف اور ایک مسلمان ریاست کی طرف واپس لوٹانا ہے ان شاءاللہ، یہ ہمارا آنے کا مستقبل کا فارمولا ہے، ہم اسی حوالے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اس میدان میں اس موقع پر جو بھی ہمارا ساتھ دینا چاہتا ہے ہم اس کے ساتھ دینے کو تیار ہیں، ہمارا کوئی جھگڑا کسی کے ساتھ نہیں ہے، ہم ایک جائز موقف سامنے آئے، پاکستان کے مفاد میں ایک موقف لے کر آئے ہیں، پاکستان کے استحکام کے لیے ایک موقف لے کر آئے ہیں اور ایک رائے رکھتے ہیں لیکن طاقتور قوتیں طاقت کی بنیاد پر سوچتی ہے اور ہم لوگ ذرا عقل اور دلیل کی بنیاد پر سوچتے ہیں، تو ان شاءاللہ العزیز اب یہ قافلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ خیبرپختونخوا آنے والے مستقبل میں جمعیت علماء کی منتظر ہے اور اس اس نظریے کی بنیاد پر ہم نے ملک کو آگے بڑھانا ہوگا، محض اقتدار کوئی مسئلہ نہیں ہے، محض اقتدار تو آجاتا ہے گزر جاتا ہے لیکن ہم پاکستان کے نظریاتی تشخص، پاکستان کی معیشت، پاکستان کی قیام امن کے لیے کیا کر سکتے ہیں اس کے لیے ہمیں ایک کمٹمنٹ دینی ہوگی ایک وضاحت کے ساتھ طے کرنا ہوگا کہ ہم نے آنے والے مستقبل کی طرف کیا کر کے جانا ہے، ہم اسٹیبلشمنٹ کو بھی ساتھ دینے کو تیار ہیں، بیوروکریسی کا بھی ساتھ دینے کو تیار ہیں لیکن وہ آئیں اور اس رخ پہ چلے تو سہی! اگر وہ ہم پر اس قسم کی مخلوق کو مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کا مناظر اس صوبے نے 10 سال میں دیکھا اور وفاق میں آپ نے ساڑھے تین چار سال تک دیکھا تو پھر یہ چیز ہمارے لیے قابل قبول نہیں! ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور جمعیت علماء جو ہے یہ ڈٹ کر لڑنے والی جماعت ہے یہ سر جھکانے والی جماعت نہیں ہے۔

(اختتامی جملے پشتو زبان میں ترجمہ #سہیل_سہراب)
میرے محترم دوستو! ہم نے یہاں بڑے نعرے سنیں لر او بر، لر او بر اور نتیجہ کیا نکلا؟ تم بھی دربدر اور ہم بھی دربدر، لر بھی دربدر اور بر بھی دربدر یہی نتیجہ نکلا، ہم ان شاءاللہ لر اور بر دونوں کو پالیں گے اور ان شاءاللہ ایک میٹھا اور دوستانہ تعلق رکھیں گے، برادرانہ تعلق رکھیں گے، ایک دوسرے کے احترام کا تعلق رکھیں گے، اللہ تعالی اس اجتماع کو کامیاب بنائے، حاجی عمر خان اور ان کے ساتھیوں کی شمولیت کو اللہ قبول فرمائے اور اسے دین اسلام کی کامیابی کا ذریعہ بنائے۔
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین 

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 




1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں