جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے زیر اہتمام امن مارچ و طوفان الاقصیٰ کانفرنس سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خطاب
2 نومبر 2023
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سُبۡحَـٰنَ ٱلَّذِیۤ أَسۡرَىٰ بِعَبۡدِهِۦ لَیۡلࣰا مِّنَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ إِلَى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡأَقۡصَا ٱلَّذِی بَـٰرَكۡنَا حَوۡلَهُۥ لِنُرِیَهُۥ مِنۡ ءَایَـٰتِنَاۤۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِیعُ ٱلۡبَصِیرُ
صدق اللہ العظیم
مہمان مکرم، علماء کرام، سیاسی جماعتوں کے زعماء، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیو، جمیعت علماء اسلام صوبہ سندھ کو شاباش دیتا ہوں، انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ 12 دن تک انہوں نے صوبے کے ہر ضلعے کو عبور کرتے ہوئے آج کراچی کے اس وسیع میدان میں اس عظیم الشان اور فقید المثال اجتماع کا اہتمام کیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ ہمیں ایک پُرامن پاکستان چاہیے، جمیعت علماء کے امن کی خواہش صرف ایک صوبے تک محدود نہیں، صرف پاکستان تک بھی محدود نہیں، ہم پوری دنیا میں امن چاہتے ہیں اور امن درحقیقت نام ہے انسانی حقوق کے تحفظ کا، انسان کے جان کا تحفظ، مال کا تحفظ، عزت و آبرو کا تحفظ اور جمیعت علماء کی پوری تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اپنے اکابر کی میراث جو ہمیں ملی ہے وہ آزادی اور حریت ہے اور جمعیت علماء اسلام کا منشور کہتا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی قوم اپنی آزادی کی جنگ لڑے گی جمیعت علماء اس کے موقف کی حمایت کرے گی۔
میرے محترم دوستو ڈیڑھ سو سال تک فرنگی کے خلاف جنگ لڑی گئی، آج جو جمیعت علماء ہمارے ہاتھ میں ہیں اس کا نظریہ اور عقیدہ بھی ہمیں اپنے اکابر سے ملا اور اس نظریہ اور عقیدے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ بھی ہمیں اپنے اکابر سے ملا ہے اور آج ہم اس کے امین ہیں۔
میرے محترم دوستو آزادی و حریت انسان کا پیدائشی حق ہے اور جب ایک گورنر کا مقدمہ ایک عام شہری کی طرف سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عدالت میں پیش ہوا تو آپ نے اپنے گورنر کو جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا
متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا
تم نے لوگوں کو کب اپنا غلام سمجھ رکھا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد جنا ہے۔ ایک شخص کے مقدمے پر آپ نے جو الفاظ فرمائے پوری دنیا کے لیے قانون صادر کر دیا، پوری دنیا کو انسان کے آزادی کا مقام اور اس کی حیثیت کا احساس دلا دیا۔ ہندوستان اور برصغیر کی آزادی کے لیے جہاد ہماری تاریخ ہے اور آج کچھ اطوار بدل گئے ہیں، آج کچھ ترجیحات بدل گئی ہیں، اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، تو کیا ہوا! انگریز بھی ہمیں دہشت گرد کہتا تھا نا لیکن تاریخ ہمیں مجاہد کہتی ہے، انگریز بھی تو ہمیں دہشت گرد کہتا تھا لیکن اس کے خلاف آزادی کی جنگ پر ہم فخر کرتے ہیں، ہماری تاریخ آزادی کے لیے ہے، ہماری ماضی آزادی کے لیے قربانیوں کی ہے اور ہم اپنی ماضی پر فخر کرتے ہیں، ہم نے بر صغیر سے انگریزوں کو بھگایا اور ہم آج بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں روس آیا تو اس نے لوگوں کو دہشت گرد کہا گیا لیکن ہم نے اس کو مجاہد کہا، امریکہ آیا تو امریکہ نے افغانوں کو دہشت گرد کہا ہم نے ان کو مجاہد کہا، آج مجاہد فتحیاب ہے روس بھی شکست خوردہ ہے اور امریکہ بھی شکست خوردہ ہے۔ لوگ امریکہ کو عالمی طاقت سمجھتے ہیں میں کہتا ہوں کہ عالمی طاقت افغانستان کی سرزمین پر شکست خوردہ ہے اب اس کا ٹائٹل عالمی قوت کے اعتبار سے ختم ہو چکا ہے لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ 7 اکتوبر کو جو فلسطین کی مجاہدین نے اسرائیل پر حملہ کیا ایک بار پھر آواز آئی اسرائیل کی طرف سے کہ یہ فلسطینی دہشت گرد ہیں، میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ دہشت گرد ریاست، ریاستی دہشت گرد اسرائیل ہے اور فلسطینی مجاہد ہے، اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے، ہم کل بھی آزادی کے ساتھ تھے آج بھی آزادی کے ساتھ ہیں، ہم کل بھی آزادی کے لیے تحریکوں کے ساتھ تھے آج بھی ان تحریکوں کے ساتھ ہے، ہم آزادی کے لیے کل بھی جہاد کے ساتھ تھے آج بھی جہاد کے ساتھ ہیں اور ان کے جہاد پر فخر بھی کرتے ہیں اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا برملا اعلان بھی کرتے ہیں۔
عربی جملے
میرے محترم دوستو! میں اپنے فلسطینی بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں، آپ نے ہمیں آواز دی ہم نے اس پر لبیک کہا ہے، ہم میدان میں اتر آئے ہیں، عوام کا سیلاب آپ نے پشاور میں بھی دیکھا، آپ نے کوئٹہ میں بھی دیکھا، آپ نے آج کراچی میں بھی دیکھا اور پورے ملک میں ہمارے اجتماعات ہوں گے اور ان شاءاللہ اب یہ سیلاب آگے بڑھے گا یہ طوفان آگے بڑھے گا اور اب تو الیکشن کا اعلان بھی ہو گیا ہے تو جنگ چھڑ چکی ہے اب تم بھی میدان میں اور ہم بھی میدان میں۔
پاکستان نہ امریکہ کی جاگیر ہے اور نہ اس ملک میں کسی طبقے کی جاگیر ہے یہ عوام کی جاگیر ہے اور پاکستان کی پوری تاریخ میں پاکستان کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے، پاکستان کے اداروں کو استعمال کرتے ہوئے، پاکستان کے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے تم نے علماء کا راستہ روکا، جمیعت علماء کا راستہ روکا، ہم نے ایک طویل جدوجہد کے بعد آج عوام میں ایک مقام پیدا کیا ہے اور اب الیکشن کے نظام میں ہم ان شاءاللہ آپ کو دکھائیں گے کہ تم چوری کیسے کرتے ہو! آپ نے دیکھ لیا 2018 کے الیکشن میں، 2018 کے الیکشن میں جعلی نتائج آئے، انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ جمیعت علماء ایسا ردعمل دے گی اور میں اپنے بھائیوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ تو آج اسرائیل کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ہم نے تو 2018 کے بعد اسرائیلی ایجنٹ کے خلاف جنگ لڑا ہے اور آج اس کو مکافات عمل کے حوالے کیا ہے، آئندہ بھی یہ جان لو یہ بپھرا ہوا اجتماع، یہ بپھرا ہوا انسانوں کا منظر، یہ تمہیں ہڑپ کر جائے گا، اب اس کے بعد معذرت خواہانہ سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے، اب آمنا سامنا ہوگا، دو بدو مقابلہ ہوگا، تم نے پاکستان کا چہرہ تبدیل کر دیا ہے، شرم نہیں آتی ان لوگوں کو! لوگوں کی قربانیاں لا الہ الا اللہ کے نعرے پہ حاصل کی، ہزاروں ماؤں بہنوں کی عزتیں اور عصمتیں قربان ہوئیں، لاکھوں مسلمانوں نے اپنا خون پیش کیا، خون کا نذرانہ پیش کیا اور تم نے 75 سال لا الہ الا اللہ کے نعرے کا مذاق اڑایا، تمہیں شرم نہیں آتی اپنی کردار پہ! تم نے 75 سال لا الہ الا اللہ کے نعرے کا مذاق اڑایا ہے، اب ہم تمہیں اس کا مذاق نہیں اڑانے دینگے اور یاد رکھو جمیعت علماء کرسی اقتدار کی ایسی حریص نہیں کہ وہ تمہاری خوشامد اور ناجائز کو قبول کرے گی ہم ڈنکے کی چوٹ پہ اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو عالمی قوتوں کے اثر ورسوخ سے آزاد کرنا چاہتے ہیں، ہم سیاسی طور پر بھی آزاد ہونا چاہتے ہیں، ہم معاشی طور پر بھی آزاد ہونا چاہتے ہیں، ہم دفاعی طور پر بھی آزاد رہنا چاہتے ہیں، ہم ملک کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں، ہم اداروں کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، بین الاقوامی اثر رسوخ سے نکالنا چاہتے ہیں اور یہ آواز ہم دیتے رہینگے۔ امریکہ کو بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی مرضی سے اقتدار میں نہیں آنا چاہتے، مجھے پتہ ہے کہ پاکستان میں کون کون لوگ پاؤں لمبے کر کے بیٹھے ہوئے ہیں کہ امریکہ بہادر ہمیں کرسی پہ بٹھائے گا تو بیٹھے رہو لیکن تمہارے خلاف ہماری جدوجہد آزادی جاری رہے گی ان شاء اللہ العزیز۔
میرے محترم دوستو! امن مارچ، عوام کی بیداری یہ سندھ کا مسئلہ ہے اور یہاں پر ڈاکوؤں کا راج، یہاں پر سٹریٹ کرائمز، عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے، قانون کدھر ہے! حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی زندگی کو تحفظ دے، آپ تو یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں، آپ ہم سے پوچھیں نا خیبرپختونخوا میں کیا صورتحال ہے، آپ ہم سے پوچھیں بلوچستان میں کیا صورتحال ہے، وہاں تو ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں، یہاں تو شہری محفوظ نہیں ہے وہاں تو ادارے بھی محفوظ نہیں ہے، پہلے تو شہری رہے ہیں۔ جہاں ادارے محفوظ نہ ہو وہاں عام شہری کیسے اپنے تحفظ کا احساس کرے گا! اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کمزور ہو چکا ہے اور ملک کمزور ہوگا تو ادارے بھی کمزور ہونگے، ہم معاشی لحاظ سے دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکے ہیں اور صوبہ خیبرپختونخوا نے تو سرکاری طور پر کہہ دیا ہے کہ ہمارے پاس لوگوں کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسہ نہیں ہے، یہاں تک ہم پہنچ گئے ہیں، پاکستانی معیشت کو زمین بوس کر دیا گیا اور آپ کے جلسوں میں کہتا رہا ہوں عدم اعتماد سے بھی پہلے جب ابھی کوئی تبدیلی نہیں ائی تھی تب بھی میں نے آپ کے اجتماعات میں کہا تھا کہ ملک اس حد تک ڈوب چکا ہے کہ اب اس کو دوبارہ اٹھانا بہت مشکل ہو جائے گا، ہمارے سیاسی زعماء سٹیج پر یہ بات کرتے تھے کہ اگر اقتدار میرے پاس آیا، 6 ماہ میں ملک کی معیشت کو سنبھال لوں گا، میں انہیں کہا کرتا تھا کہ نہیں اب وہ حالات نہیں، اب عمارت کھوکھلی چکی ہے، اس عمارت کو اسی حالت میں دوبارہ جوڑ دینا شاید مشکل ہوگا، وقت لے گا، اسی لیے ہم کہتے تھے فوراً الیکشن کراؤ اس میں تاخیر مت کرو لیکن بہرحال دوستوں کی رائے تھی ہم بھی ان کے ساتھ چلے، آج پھر الیکشن کا اعلان تو ہو گیا ہے اور خدا کرے کہ وقت پر الیکشن ہو جائیں۔ غیر یقینی صورتحال میں انتخابات ہوں گے سارے چیلنجز ہمیں قبول ہیں ہم میدان میں اتریں گے بلکہ ہم اتر چکے ہیں اور ان قوتوں کو ان شاءاللہ پاکستان میں شکست دیں گے، یہ ایک نظریاتی قوت ہے اور اس نظریاتی قوت نے کبھی اپنی نظریاتی جنگ پر کمپرومائز نہیں کیا، کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، حالات کے ساتھ ضرور چلے گا فراخ دلی کے ساتھ چلے ہیں، برداشت کے ساتھ چلے ہیں اور ہم نے دنیا کو برداشت کا سبق دیا ہے لیکن ہمیشہ مذہبی دنیا کو کہا جاتا ہے یہ بڑے انتہا پسند ہے کیونکہ آج امریکہ اور مغربی دنیا وہ جو الفاظ استعمال کرتے ہیں ہمارے غلامذہنیت انہی الفاظ کو استعمال کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں مذہبی لوگ انتہا پسند ہیں تو یہ بھی کہتے ہیں مذہبی لوگ انتہا پسند ہے اور مذہب کے خلاف ان کے رویے اتنے سخت ہیں کہ جب اس قسم کی مجلس میں وہ بیٹھتے ہیں تو ان کے چہرے خون سے ایسے سرخ ہو جاتے ہیں لگتا ہے اب ان کے غصے کا خون چہروں سے چھلک کر باہر آجائے گا، تم اتنے تنگ نظر ہو! وسعت ظرف پیدا کرو برداشت تو ہمارے اندر ہے اور پاکستان کے طول و عرض کے علماء اور مدارس، ان کے کردار کو دیکھو اگر دو چار لوگ بندوق کی طرح چلے گئے تو تم نے سارا اسلام ان کے نام پہ الاٹ کر دیا! تم نے ساری تعبیرات ان کے حوالے کر دی! پاکستان کے علماء کا اتفاق ہے طول و عرض میں جمعیت علماء موجود ہے وفاق المدارس موجود ہے تمام مکاتب فکر کی سیاسی تنظیمیں موجود ہیں اور وہ سب کے سب ایک ہی بات پر ہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
تو میرے محترم دوستو! ان شاءاللہ میں جناب اسماعیل ہنیہ کا بھی شکر گزار ہوں، حماس کے سربراہ کا کہ انہوں نے زوم پر آپ سے براہ راست خطاب کیا اور ہم ان کے موقف کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں، اب یہ سلسلہ آگے چلے گا لیکن میں سوچتا ہوں کہ اگر امریکہ اور یورپ کھل کر اسرائیل کی حمایت میں میدان میں آچکے ہیں اور اپنی جنگی قوت اسرائیل کے قریب تک لا چکے ہیں میدان جنگ میں اتر چکے ہیں تو پھر اسلامی دنیا کیوں تحفظات کا شکار ہے! اسلامی دنیا کے حکمران کیوں بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کس دن کا ان کو انتظار ہے، ہاں میں ایک بات یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کے اندر طاقت کا توازن بھی ہونا چاہیے، اس وقت ان حالات میں روس اور چین جو فلسطین کے مجاہدین کی حمایت کر رہے ہیں وہ عالمی قوتیں ہیں ان کو بھی عالمی قوت میدان جنگ میں لانا چاہیے، عملی طور پر میدان میں آئے تاکہ دنیا کے اندر طاقت کا توازن پیدا ہو اور یک طرفہ طاقت کا شکار اسلامی دنیا نہ ہو سکے، ان کو میدان میں آنا ہوگا، اسلامی برادری کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، یہ بے حسی اسے اسلامی دنیا قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور یاد رکھیں ہم جمہوری لوگ ہیں، ہم نے جنرل مشرف کے زمانے میں بھی تا حد نظر انسانوں کا سمندر پورے ملک میں اکٹھا کیا اور اسلامی دنیا میں بھی عوام میدان میں آئے لیکن حکمرانوں نے عوام کی رائے کو احترام نہیں دیا، یہ جمہوریت ہے دنیا کی کہ جبر کا فیصلہ قوم پر مسلط کرو اور قوموں کی رائے کا احترام نہ کرو، پوری دنیا کا مسلمان ایک طرف تھا اور حکمران دوسری طرف تھے لیکن حکمرانوں نے جبر کی بنیاد پر اپنے فیصلے ہم پر مسلط کیے اور آج نتیجہ کیا نکلا؟ افغانستان تو وہی کے وہی ہے، اب امریکہ وہاں کدھر ہے؟ اس نے بھی کہا تھا کہ یہ لوگ انسانی حق کے مستحق نہیں ہے اور جنیوا کنونشن کے تحت جو قیدیوں کے حقوق ہیں ان کو یہ حق بھی نہیں دیا جائے گا، جانوروں کی بھی حقوق ہوتے ہیں لیکن انہوں نے کہا افغانوں کے کوئی حقوق نہیں ہے اور جو پھر ان کے ساتھ کیا گیا وہ وحشت ناک قسم کے مناظر آدمی دیکھ نہیں سکتا! یہ ہے ان کی جمہوریت! ان کے ہاتھوں سے اور ان کی کہنیوں سے انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے اور پھر بھی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، پھر بھی وہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتے ہیں، میں واضح طور پر اپنے نظریہ دینا چاہتا ہوں کہ امریکہ اور مغرب کو اپنے اس کردار کے ساتھ انسانیت کی قیادت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں! عوام کے خواہش کو اور ان کے نظریے کو قبول کرنا ہوگا، قوم یہ ہے جو یہاں بیٹھی ہے، قوم وہ ہے جو کوئٹہ میں جمع ہوئی، قوم وہ ہے جو پشاور میں جمع ہوئی اور ان شاءاللہ مزید یہ سلسلہ جاری رہے گا، پنجاب میں بھی جلسے ہوں گے ان شاءاللہ اور اس کا شیڈول ہم دے رہے ہیں۔
تو میرے محترم دوستو! اس سلسلے کو آگے لے جانا ہے اور اس جدوجہد کو آگے لے جانا ہے اور کسی قیمت پر ہم کسی کے سامنے شکست نہ تسلیم کرتے ہیں ہم اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے اور اپنی قوت کو آگے بڑھائیں گے اور اللہ کی طاقت کے ساتھ ہم ان شاءاللہ ملکی سیاست میں آگے بڑھیں گے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ اللہ تعالی آپ کی ہمت کو قبول فرمائے، آپ کے اس 12 دن کی محنت اور تھکان کو اللہ قبول فرمائے اور اس پر آپ کو دنیا و آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
براہ راست: کراچی سندھ امن مارچ و طوفان اقصٰی کانفرنسبراہ راست: کراچی سندھ امن مارچ و طوفان اقصٰی کانفرنس، قائد جمعیت مولانافضل الرحمان کا خطاب
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, November 2, 2023
ایک تبصرہ شائع کریں