اسلام آباد: جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی امیر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے میاں محمد نواز شریف صاحب کی ملاقات کے بعد اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو
21 نومبر 2023
سوال و جواب
سوال: میاں صاحب دعا کے لیے حاضر ہوئے تھے دعا کے علاوہ کیا بات چیت ہوئی؟ جب سے وہ واپس آئے ہیں پہلی دفعہ آپ کے پاس آئے ہیں۔
جواب: تو میاں صاحب تشریف لائے تھے تعزیت کے لیے بھی آئے تھے اور بھی کافی جماعتی حادثات ہوئے اُن کے لیے بھی وہ دعا کرنے کے لیے آئے تھے، میڈیا سے گفتگو کرنے کا کوئی شیڈول نہیں تھا تو اس وجہ سے آپ سے ذرا تھوڑی عجلت میں باتیں ہو رہی ہیں، تو یقینا ہم نے مل کر ایک لمبی جدوجہد کی ہے تو ہم حکومت میں بھی اکٹھے رہے ہیں اور پالیسیاں بھی اس وقت ہم مل کر بناتے تھے پھر پچھلی جو ناجائز حکومت تھی اس کے خلاف تحریک میں بھی ہم اکٹھے رہے، میاں صاحب جیل میں رہے پھر ملک سے باہر رہے اور آج وہ تشریف لائے ہیں ان کا پاکستان میں آنا، ہم خوش آمدید کہتے ہیں ہمارے گھر تشریف لائے ہیں اس کے لیے بھی ہمارے دل ان کے لیے فرش راہ ہیں تو مل کر جدوجہد کی ہے اور یہ ہم نے آج طے کیا ہے کہ ان شاءاللہ آنے والے مستقبل میں بھی ہمارے بھی ہم مل کر چلنا چاہیں گے، پوری ہم آہنگی کے ساتھ چلنا چاہیں گے اور انتخابی مراحل ہیں ان کو بھی ہم باہمی مفاہمت کے ساتھ اور ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ہم آگے بڑھنا چاہیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ قریب تر رہتے ہوئے اور باقی پارٹیوں سے بھی ہماری روابط رہیں گے جس طرح ہم انتخابات کے مرحلے میں جو ماحول پی ڈی ایم میں بنا تھا ایک ہم آہنگی کا، ایک یکجہتی کا، اس کا ہمیں تمام پارٹیوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور جس پارٹی کا جہاں جہاں پر حجم ہے اس کا حق بنتا ہے کسی کو اس کی پارٹی کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ملک کے خلاف سازشیں ابھی تک موجود ہے، فتنے ابھی تک موجود ہیں اور پھر دوبارہ سر نہ اٹھا سکے اس کے لیے سب کو باہمی اختلاف اور اپنی قوت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا، توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف سرف کرنا یہ شاید نہ ملک کے لیے بہتر ہو اور نہ ہم سب کے لیے بہتر ہوگا۔ تو اس پر ہم نے ایک اتفاق رائے کیا ہے اور مل کر آگے چلنے پر ہم نے اتفاق کیا ہے۔
سوال: مولانا صاحب چلنے کی نوعیت کیا ہوگی؟ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی یا انتخابی اتحاد ہوگی؟
جواب: جو آپ بہتر تعبیر کر سکتے ہیں۔
سوال: مولانا صاحب اس میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی ہوگی کیونکہ وہ پی ڈی ایم کو تو اس وقت چھوڑ چکی تھی؟
جواب: اس وقت ہم نے پیپلز پارٹی کے خلاف بھی کوئی انتہا پسندانہ رویہ اختیار نہیں کرنا اور ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن اگر ہمارے کوئی معاملات بن جاتے ہیں تو بہت اچھی بات، نہیں بن جاتے تب بھی ہمیں انتخابی مہم میں کوئی تلخی نہیں پیدا کر دینا چاہیے۔
سوال: مولانا صاحب بلاول صاحب کہتے ہیں کہ جب نتائج پہلے سے طے شدہ ہو تو پھر ان انتخابات کا فائدہ کیا؟
جواب: دیکھیے یہ باتیں چھوڑیں ان کو پتہ نہیں ہے ماضی میں ہمیں بہت کچھ دیکھا بہت کچھ سنا اور کتنی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں کہ اگر میری اکثریت نہ آئے تو ہم ان کے اکثریت کو تسلیم نہیں کریں گے، یہ باتیں ہم سب سن چکے ہیں بہت سے لوگوں سے، اب اس کو میرے خیال میں تاریخ کے حوالے کر دینا چاہیے اور ہماری سیاست بچوں کے حوالے نہیں ہونی چاہیے۔
سوال: مولانا صاحب بلاول صاحب کہتے ہیں کہ اب جو بزرگ ہیں وہ سیاست سے ریٹائرمنٹ لے کے گھر بیٹھ جائیں کیا کہیں گے۔
جواب: یہ پیغام انہوں نے اپنے والد کو دیا ہے پھر ان کی والدہ اگر حیات ہوتی پھر کیا کرتے
سوال: اور والد صاحب کہہ رہے ہیں کہ الیکشن صاف شفاف ہوں گے وہ کہتے ہیں لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی۔
جواب: بہرحال اس پر مجھے تبصرہ کرنے کا حق تو نہیں ہے لیکن بہرحال بزرگ کی اور بچے کی سوچ میں جو فرق ہوتا ہے وہی فرق ہمیں گفتگو میں بیانات میں نظر آرہا ہے۔
سوال: مولانا صاحب یہ بتا دیں کہ آپ نے اپنی آخری جلسے میں کہا کہ اگر ہمیں پارلیمان سے باہر کیا گیا تو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے، اب آپ خطرہ عمران خان سے محسوس کر رہے ہیں یا کچھ طاقتوں کی وجہ سے؟
جواب: دیکھیے میں نے یہ بات کہی ہے اسی تک آپ سمجھے، میں ہر ایک کو مخاطب کر رہا ہوں جو ایسی حرکت کرے گا، ان شاءاللہ اس ملک میں سکون نہیں آئے گا اور ایک بات ہے ایک الیکشن تسلیم نہیں ہوا متنازعہ ہو گیا اب پاکستان کیا اس کا متحمل ہے کہ اگلا الیکشن متنازعہ ہو جائے تو ہم اگلے الیکشن کو متنازعہ نہیں ہونے دیں گے۔
سوال: مولانا صاحب آپ نے اپنی جماعت کے بچوں کو نہ تو کبھی پرائیویٹ جہاز میں استعمال ہونے دیا نہ ہی انہیں کبھی سیکٹیرین وائلنس کی آگ میں جھونکا لیکن اس کے باوجود جو آپ کی جماعت کے اوپر یہ دہشت گردانہ کاروائیاں ہو رہی ہیں یہ کیا آپ کو الیکشن میں پوری طرح سے باہر نہ نکلنے دینے کی کوئی سازش ہے یا اس کی کیا مقاصد ہے؟
جواب: دیکھیے میں نے یہ باتیں کہی ہیں اور جب میں نے یہ باتیں کہی تو آپ حضرات نے میری ساری گفتگو کا خلاصہ یہ نکالا کہ شاید ہمارے .... حالانکہ یہ بات نہیں میرے خیال میں یہاں جو لوگ رہتے ہیں یا لاہور میں رہتے ہیں جہاں ذرا پرسکون ماحول ہے لیکن اگر آپ ہمارے کے پی میں آجائیں بلوچستان میں چلے جائیں تو وہاں آپ کو بالکل مختلف صورتحال نظر آئے گی اور کوئی امیدوار بھی یعنی میرے مخالف امیدوار وہ بھی مجھے ملے ہیں اور وہ بھی مجھے کہتے ہیں کہ کمپین تو ہم نہیں چلا سکتے۔ تو اب ہم نے اپنی بات کہہ دی ہے الیکشن کمیشن تک ہمارا پیغام پہنچ گیا ہے عدالت تک ہمارا پیغام پہنچ گیا ہے سیاسی قوتوں تک قائدین تک ہمارا پیغام پہنچ گیا ہے جو فیصلہ انہوں نے کرنا ہے اس کے مطابق الیکشن ہوں گے تو کوشش کریں گے۔
سوال: مولانا صاحب آپ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا مخالف اگر جیل میں ہو اور میں آزادی سے الیکشن لڑوں مجھے پسند نہیں تو اس وقت بھی پی ٹی آئی لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے کچھ بیانات دے رہی ہے کہ انہوں نے لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی تو پھر اس طرح کوئی متنازعہ
جواب: میری گفتگو کا مطلب قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں ہے یہ میرے جذبات ہو سکتے ہیں لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ میں قانون کو بھی ہاتھ میں لے رہا ہوں قانون خاموش ہو جائے وہ کسی کا محاسبہ نہ کرے۔
سوال: سازشیں ہو رہی ہیں فتنہ فساد اب بھی ہے اندر سے ہو رہی ہیں باہر سے ہو رہی ہے کون کر رہا ہے؟
جواب: اب بھی میرے خیال میں بال کی کال اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساری چیزیں آپ بھی سن رہے ہیں میں بھی سن رہا ہوں، آپ بھی دیکھ رہے ہیں میں بھی دیکھ رہا ہوں تو کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اگر کسی کی نشاندہی کرتے ہیں تو پہلے تو ہم کر چکے ہیں تو جو کر چکے ہیں وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں مزید ہم پوچھتے ہیں کہ تمام ادارے اپنے حدود میں رہ کر کام کرے، اپنے فرائض سنبھالیں ملک کو امن و امان دیں، ملک کو اچھی معیشت دیں اچھا نظم و نسق دے تو یہ ہمارے اہداف ہیں اور اس اہداف کو لے کر ہم آگے بڑھیں گے۔
سوال: مولانا صاحب کیا آپ شوور ہیں کہ الیکشن ہوں گے ہیں یا ابھی بھی کچھ شکوک و شبہات ہیں؟
جواب: اگر نہیں بھی ہو رہے تو میں یوں سمجھتا ہوں کہ ہو رہے۔
سوال: مولانا صاحب جس طرح پچھلے دنوں آپ کی ایک سپیچ تھی کہ اگر ایسا کیا گیا اور پھر صوبے کی دینے کی کوشش کی گئی تو ہم یہ کریں گے وہی پچھلے سوال کے اندر کوئی ایسی کہیں سے آپ کو لگ رہا ہے کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے دوبارہ؟
جواب: نہیں یہ احتمالات ہمارے ملک میں ہر وقت موجود رہتے ہیں اور ہمیں اس پر اپنی پوزیشن واضح رکھنی ہوتی ہے ایک بات بار بار ہمیں کہنی پڑ جاتی ہے۔
سوال: اچھا مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ امریکی سفیر نے پچھلے دنوں میں ملاقاتیں کی ہیں ایک طرف آپ ہی سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ کسی کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے جمہوریت ہونی چاہیے کیا کہیں گے نواز شریف صاحب نے بھی ملاقات کی عدالت نے بھی ملاقات کی ہے کچھ ذکر ہوا؟
جواب: دیکھیے ابھی تک نہیں ہوا اگر کوئی سفیر ملاقات کرتا ہے مجھ سے کوئی ملک کی سفیر کے ساتھ ملاقات سے اور الیکشن کے دنوں میں بھی سفرا ملاقاتیں کرتے ہیں لیکن امریکی سفیر جب ملتا ہے تو اس کے کچھ اور معنی لیے جاتے ہیں جیسے کہ ایک عالمی قوت پاکستان کے سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسے مداخلت کے اشارات دے رہا ہے اس کا ہم نے ہمیشہ مخالفت کی ہے۔
سوال: آپ سمجھتے ہیں کہ جس طرح آپ نے کہا متنازعہ الیکشن آپ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو نکال کر جو الیکشن ہوں گے وہ متنازعہ نہیں ہوں گے؟
جواب: پی ٹی آئی میری نظر میں پارٹی ہی نہیں ہے نہ وہ پاکستان کی پارٹی ہے نہ پاکستان سے مخلص ہے ان کا ایجنڈہ ملک کو توڑنا تھا، کشمیر کو بیچنا تھا، اسراائیل کو تسلیم کروانا تھا، قا د یا نیوں کو دوبارہ مسلمان قرار دلانا تھا یہ ساری چیزیں اندر موجود تھیں تو ہم اس حوالے سے ایسی نظریات رکھنے والوں کو پاکستان کی جماعت تصور نہیں کرتے۔
سوال:۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: میں دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس فتنے سے محفوظ ہو جائیں میں انہیں خوش آمدید کہتا ہوں مجھے ان کے ساتھ درد دل ہے مجھے دکھ ہے کہ میری نوجوان نسل جو ہے وہ کس طرف جا رہی ہے اور کیوں بات کو نہیں سمجھ رہی۔
سوال: مولانا صاحب کل رات ہم نے دیکھا کہ عمران خان کی اہلیہ کے حوالے سے بھی ایسے بیانات
جواب: چھوڑیے اس بات کو
خاتون صحافی: مولانا صاحب میں آپ سے ملنا چاہتی تھی، تو میرا آپ سے ایک یہ ریکویسٹ ہے کہ جس طرح آپ نے پہلے بھی اتنی دل جمعی سے ملک کو سنبھالا ہے کسی چیز سے آپ نہیں ڈرے، بڑے سے بڑے تھریٹ سے آپ نہیں ڈرے، تو ہم چاہتے ہیں کہ اس نئی نسل جو بربادی کی طرف چلی گئی چار سال میں، آپ اس کو دوبارہ سے ری آرگنائز کرے۔
جواب: اللہ تعالی ان کی اصلاح کرے ہم اپنی کوشش کر رہے ہیں ہمارے ان کی ساتھ ہمدردی ہے نوجوانوں کے ساتھ، کارکن مخلص ہوتا ہے وہ ایک نیک نیتی کے ساتھ اور پُر امید ہو کر کسی سے وابستہ ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ غلط کر رہا ہے لیکن وہ اپنے خیال میں خلوص سے بھرا ہوتا ہے خدا کرے ان کا خلوص جو ہے وہ ایک مثبت جہت پر منتقل ہو جائے۔
سوال:۔۔۔۔۔۔۔
جواب:ان کو آگے لے جانا چاہتے ہیں پاکستان کے عوام کی جو سیاسی حمایت ہے فلسط ینیوں کی جس طرح سٹیٹ کی حمایت ہے فلسط ینیوں کے ساتھ، اقوام متحدہ میں جو سٹیٹ کا موقف سامنے آیا ہے میں خود قطر گیا ہوں اور میں نے وہاں کی قیادت سے بات کی ہے وہ پاکستان کے موقف کو سراہتے بھی ہے اور پاکستان کو اپنے لیے بالکل آخری امید تصور کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دنیا میں یہ اعتماد برقرار رکھنا ہوگا، یہ جو عوام کا سٹیٹ کا حکومت کا یکساں اور ایک ہی جہت پر ہے اس کو ہم اسلام کے حوالے سے، ایک مسلمان کی حیثیت سے اس وقت جو غزہ کے مسلمانوں پر یورپی یونین کی طرف سے مظالم ہو رہے ہیں چھوٹے چھوٹے بچے جو ہیں وہ شہید ہو رہے ہیں ہزاروں بچے اس وقت جو نومولود بچے تھے وہ اس وقت بغیر کسی وارث کے پڑے ہوئے ہیں اور مائیں جو ہیں پہلے ان کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں، گیارہ بارہ ہزار سے لے کر کوئی چودہ ہزار تک خواتین بچے بے گناہ شہری اور جو ملبوں کے نیچے ہے وہ اس کے علاوہ ہے، تو ان کے جو ہے پانی پینے کے ذخائر تباہ ہو گئے ہیں ان کے سکولوں پہ اور ان کے ہسپتالوں پہ ان کے مارکیٹوں پہ کھانے پینے کے اشیاء ایسے وقت میں مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ان کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے وہاں پر غذا کی ترسیل ہو جانی چاہیے، سرحدات اس لیے کھول دینے چاہیے اور وہاں کے وہاں کے لوگوں تک کھانے پینے کی چیزیں اور دوائياں پہنچ سکیں۔
سوال: مولانا صاحب صدر مملکت کی جانب سے ایک متنازعہ بیان آیا فلسطین کے حوالے سے کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
جواب: تو اگر صدر مملکت کی طرف سے آیا ہے تو یہی تو ہم رونا رو رہے ہیں یہ ذہنیت جو پاکستان کے اندر چار پانچ سال سے 10 سال سے آئی ہوئی ہے یہ وہ ایجنڈا ہے جس کا انتظار کسی نہ کسی کے حق میں ہو جاتا ہے تو اس حوالے سے ہم ایک فلس طین کی بات کرتے ہیں یہ جو ٹو سٹیٹ کا تصور ہے اس کو ختم ہو جانا چاہیے اور ہم نے پچھتر سال کی فلسط ینی قربانیوں کو سامنے رکھنا چاہیے جس ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا 48 میں بنا ہے جس کو قائدا اعظم نے ناجائز بچہ کہا ہے جس کو معاہدہ دارفور کے تحت وجود میں لایا گیا برطانیہ کی وجہ سے لایا گیا آج امریکہ اس کی پشت پناہی کر رہا ہے، ڈائریکٹ اس کی دفاع کے لیے پہنچ گیا ہے یورپ پہنچ گیا ہے اسلامی دنیا کو بھی کھل کر ان کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے اور ہم اگلے جمعہ کو پھر یوم فلس طین منائیں گے پورے ملک کے عوام سے درخواست کریں گے اپیل کریں گے کہ وہ جمعہ کے دن اجتماعات میں بھی آئمہ کرام اور خطباء بھی اور پبلک بھی سڑکوں پر آکر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat .
ایک تبصرہ شائع کریں