قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا لاڑکانہ سندھ کے زیر اہتمام ڈیجیٹل میڈیا کنونشن سے خطاب
29 نومبر 2023
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ، صدق اللّٰہ العظیم
جناب صدر محترم، حضرات علماء کرام، سٹیج پر موجود ہمارے محترم زعماء، ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ میرے نوجوانو دوستو اور بھائیوں! ایک بڑی اچھی کاوش ہے جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کی طرف سے کہ اج اس اجتماع میں وہ تمام دوست ساتھی اور نوجوان موجود ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کے محاذ پر اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
میرے محترم دوستو! ہمیں سب سے بنیادی بات سمجھنی چاہیے کہ جمیعت علمائے اسلام کے عام کارکن سے لے کر مرکزی عہدے داروں تک ان کے احساسات میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا، ان کے نظریات ان کے اعتقادات جماعت کے ساتھ جماعت کے نظریے اور عقیدے کے ساتھ ان کی وابستگی اس میں کوئی فرق نہیں، ہاں البتہ کام کرنے کے لیے کچھ ذمہ داریوں کی تقسیم ہوتی ہے کسی کو ملک کی سطح پر کام کرنے کا وظیفہ دیا جاتا ہے کسی کو صوبے کی سطح پر کسی کو ضلع کی سطح پر کسی کو تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر اور پھر چوں کہ قوم اور قوم سے وابستہ افراد کا تعلق مختلف شعبوں سے ہوتا ہے ہر شعبے میں کچھ دوستوں کو ذمہ داریاں دی جاتی ہیں ہمارے کچھ ساتھی وکلاء کے محاذ پہ کام کر رہے ہیں، ہمارے کچھ ساتھی طلباء کے محاذ پہ کام کر رہے ہیں، ہمارے کچھ ساتھی خواتین کی سطح پر ان کو جماعت سے وابستہ رکھنے جماعتی تعلیمات دینے کے لیے اس شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں، ڈاکٹروں کے طبقے سے طب کے طبقے سے وابستہ کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں، مزدور کسان زمیندار، تو ہر شعبے کے ساتھ کچھ لوگوں کی ذمہ داری بنائی جاتی ہے تاکہ وہ وہاں کام کریں لوگوں سے وابستہ رہیں رابطے کا انتظام ان کے ہاتھ پر ہوتا ہے یہ ہے تقسیم کار اور صرف تقسیم کار ذمہ داریوں کی تقسیم، مسعولیتوں کا فرق، ورنہ جماعت جماعت ہوتی ہے، جماعت کا ایک نظریہ اور عقیدہ ہوتا ہے اور اس حوالے سے کوئی فرق اوپر سے نیچے تک تمام سطحوں پر کوئی فرق نہیں ہوا کرتا ۔
آج جس عنوان سے اجتماع ہو رہا ہے جب میں طالب علم تھا تب بھی میں یہ ایک جملہ سنتا تھا آج کا دور میڈیا کا دور ہے، جب طالب علمی کے دور سے باہر ایا تب بھی یہی جملہ سنتا تھا کہ آج کے دور میں میڈیا کی بڑی اہمیت ہے اور مسلسل اس سیاسی سفر میں ہر زمانے میں یہ بات کان میں پڑتی تھی کہ میڈیا کی بڑی اہمیت ہے اج کے دور میں میڈیا کی بڑی اہمیت ہے اور جس دور میں ہم اور آپ اس وقت بیٹھ رہے ہیں مل رہے ہیں یہ تو لگتا ہے کہ میڈیا کے حوالے سے یہ ایک عروج کا دور ہے، میڈیا ایک مواصلاتی ذریعہ ہے، لوگ ایک دوسرے سے کس طرح رابطے میں رہے، لوگ ایک دوسرے سے کس طرح باخبر رہیں چاہے وہ زبانی گفتگو کے ذریعے سے ہو چاہے وہ تحریر کے ذریعے سے ہو چاہے وہ ریڈیو کے ذریعے سے ہو ٹیلی ویژن کے ذریعے سے ہو اور ٹیلی ویژن سے معاملہ اب اگے چلا گیا ہے ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل ہے اور اس کی سکرین تک رسائی ہر ادمی کے لیے ممکن ہوا ہے کسی زمانے میں خاص خاص لوگوں کی تصویریں بنتی تھی اور وہ چھپتی تھی اج اپ جس راستے سے بھی گزر رہے ہیں اپ کو لوگ ہاتھ ملاتے ہیں اور فورا کہتے ہیں کہ ایک پکچر لے لیتے ہیں تو سیدھا وہ سکرین پر پہنچ جاتا ہے اور دنیا میں اپنے اپ کو نمایاں کرتا ہے ۔
اس سے پہلے جو آپ سے باتیں ہوٸی تکنیکی اعتبار سے بھی آپ کو بتایا گیا اور بہت اچھا بتایا گیا خاص طور پر باہر سے ہمارے نوجوان دوست راجہ شہزاد صاحب نے آپ سے گفتگو کی بہت ہی تکنیکی لحاظ سے معنی خیز تھی میں ان کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں اور اپ یقینا اس سے استفادہ کریں گے، یہاں جن دوستوں نے اپ سے خطاب کیا گفتگو کی علمی اعتبار سے بھی اپ کو کچھ بتایا گیا کچھ پڑھایا گیا اپ کو، تکنیکی لحاظ سے بھی آپ کو کچھ بتایا گیا اور ماضی میں جو اپ کا کردار رہا ہے موقع بہ موقع اس کی رپورٹ بھی آپ کو تفصیل سے بتاٸی گٸی، اب یہ ایک ذریعہ ہے یہ اپ کی مرضی ہے کہ اپ اس ذریعے کو غلط استعمال کرتے ہیں یا آپ اس ذریعے کو صحیح استعمال کرتے ہیں، عمومی طور پر پوری دنیا میں میں اپنے ذات کی حد تک جو مطالعہ کر چکا ہوں میڈیا کا جو عمومی مزاج ہے وہ قرآن و سنت سے مطابق نہیں ہے، غلط باتیں، جھوٹ پروپیگنڈے، کسی کی غلط تصویر پیش کرنا، کسی کے عیبوں کی تلاش میں تمام تواناٸیاں سرف کرنا، کسی کی توہین و تذلیل کرنا اور اس حوالے سے کوئی خبر ملتی ہے اس کو بہت بڑی کامیابی کہا جاتا ہے، بری باتیں پھیلانا یہ ایک میڈیا کا اج کل کمال تصور کیا جاتا ہے جبکہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ- وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
”جو لوگ یہ بات پسند کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان فحش باتیں پھیلائیں، قبیح گفتگو کو پھیلائیں ان کو اس بات میں مزہ اتا ہے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور اخرت میں بھی“
قران کریم نے تو بد زبانی سے بھی روکا ہے بہت سی بدگمانیاں کہ جو کسی کی عزت اور حرمت کو پامال کرنے کا سبب بن سکتی ہے اس سے دور رہو، اچھا گمان رکھو، ایک اچھی بات کسی نے کہہ دی اپ ٹٹول رہے ہیں کہ کہاں اس کا کیا مطلب ہوگا کیا مطلب ہوگا، بھٸی اگر وہ بظاہر صحیح ہے تو اُس کے پیچھے کیوں پڑ رہے ہو، غیبت کرنے کو منع کر دیا کہ جو ادمی اپنے بارے میں ایک بات کو برا سمجھتا ہے وہ اس کے پیٹھ پیچھے بھی نہ کیا کرو، لیکن یہاں تو میڈیا میں کمال ہی یہی ہے کہ اس قسم کی باتیں کرو، حقائق دنیا کے سامنے لاو اس کا بھی اپنا ایک میدان ہے اپ لائیں، اپنی اچھی باتیں پھیلاٸیں جتنا آپ پھیلا سکتے ہیں، پبلک کے ساتھ کسی بات کا تعلق ہو اور ایک شخص یا اس کی بات ملک اور پبلک کے لیے نقصان دہ ہو اس کو ایک خاص حقیقت کی حد تک بیان کرو تاکہ لوگ اس کی براٸی سے بچ سکے، اس کے فتنے سے محفوظ ہو سکے، ذات کے بارے میں نہیں، جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اپنے مسلمان بھائی کے عیبوں کے پیچھے مت پڑو اپنے بھائی کے عیبوں کے پیچھے مت پڑا کرو اگر اپ ایسا کریں گے تو پھر اللہ تعالی تمہارے جو پردے ہیں اور تمہاری جو چپھی ہوٸی باتیں ہیں اس کے پیچھے لگ جاٸے گا اور تمہیں گھر کے اندر بیٹھے اللہ رسوا کرے گا، ایک ادمی کے اندر عیب موجود ہیں لیکن وہ مستور ہے پوشیدہ ہے لوگ اس سے واقف نہیں ہیں اور اپ پیچھے لگے ہوئے ہیں کبھی ایک سے گُر گُر کرتے ہیں کبھی دوسرے سے کان میں گُر گُر کرتے ہیں کبی اس سے پوچھتے ہیں کبھی اس سے پوچھتے ہیں اس کوشش میں لگے رہتے ہو کہ اپ کے بھاٸی کی ایک کمزوری ہاتھ میں ا جائیں اور پھر اپ اس کو بے عزت اور ذلیل کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے طواف کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہاں اپ کی حرمت، کہاں آپ کی عظمت لیکن ایک مسلمان کی حرمت آپ سے اللہ کی نزدیک زیادہ ہے، ہم مسلمان کو قتل بھی کرتے ہیں اس کے قتل کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں ایک مسلمان کی ہم بے عزتی اور بے حرمتی بھی کرتے ہیں اس کے جان مال اور عزت و ابرو بھی تباہ کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں تو جو چیزیں کباٸر میں ہو اور کبیرہ کو اپ اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں تو اپ بتائیں کہ یہ ایمان کی نفی نہیں، ایک قبیح کام اپ کرتے ہیں اپ شرمندہ بھی ہیں اللہ کے سامنے اعتراف بھی ہے کہ میں گناہ کر رہا ہوں اس سے تو شاید کوئی کا ف ر نہ ہوتا ہو لیکن اگر وہ اس کو حلال سمجھ کر کرتا ہے تو ظاہر ہے ایمان کہاں ہے اس نے تو اللہ کے حکم کا انکار کیا ہے ۔
تو اس اعتبار سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ خَلِیْلٍ مَّا کِرٍ عَیْنَاہُ تَرَیَانِیْ وَقَلْبُہ یَرْعَانِیْٓ اِنْ رَّاٰی حَسَنَۃً دَفَنَھَا وَاِنْ رَّاٰی سَیِّءَۃً اَذَا عَھَا
ایسے مکار دوست سے اللہ مجھے پناہ دے اگر میری اچھائی دیکھنا ہے تو اس کو دفناتا ہے چھپاتا ہے اور اگر میری برائی اس کے ہاتھ ا جائے تو اس کو پھیلاتا ہے ایک روایت میں ہے کہ ”دھوکے باز دوست سے اللہ مجھے پناہ دے“ ۔
تو اس محاذ پر بھی جو کچھ ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں اور ہم نے تو شاید لیکن ہمارے ساتھ تو ہوا ہے سیاسی لوگوں نے بھی کیا، ریاست کے اداروں نے بھی کیا، وہ وہ بے بنیاد پروپیگنڈے، گندی اور غلیظ باتیں انہوں نے میڈیا پہ اچھا لی ان کا دور دور سے بھی شاٸد ہمارے جماعت یا ہمارے کسی ساتھی کا تعلق ہو، کیا ملا ان کو اس سے، کیا جمعیت کی ترقی کا سفر رکا، کیا جمیعت کی قبولیت کا سبب اس سے رک گیا، اج ہم تن کر آپ کے سامنے کھڑے ہیں اور جب تم سامنے اتے ہو تو تمہارے سر جھکے ہوتے ہیں ۔ ایسی حرکتیں سیاست دانوں نے بھی کی ہیں، من حیث الجماعت کی ہے، ریاستی اداروں نے بھی کی ہے اور ہم نے کبھی اپنے اپ کو دفاعی پوزیشن میں نہیں ڈالا، اپنا کام کرتے جا رہے ہیں، تم نے جتنا ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کی اللہ تعالی نے اتنا ہی ہمیں عروج بخشا، ہم نے آج تک کسی کو گالی نہیں دی، ہمارے بزرگوں نے اپنے مخالف ترین کو بھی جلسے میں جناب اور صاحب کے ساتھ پکارا ہے لیکن ہمیں تو گالیاں دی جاتی ہیں ان کی تقریر کا اغاز بھی ہمارے گالیوں سے ہوتا ہے اور انجام بھی ہمارے گالیوں پر ہوتا ہے۔ بے بنیاد تہمتیں لگانا، پھر تہمتیں کیوں لگاتے ہو، آپ کی حکومت تھی پانچ سال ملتے ہیں 10 سال بھی رہی اگر ہم نے اتنا بڑا جرم کیا ہے تم ہمارے خلاف کچھ کر کیوں نہیں سکتے، تم ہمارے خلاف ایک ایف آٸی آر کیوں نہیں کاٹ سکتے، تم ہمیں عدالت میں کیوں نہیں کھینچ سکتے، بڑے بڑے لوگوں کو عدالتوں میں کھینچا جا رہا ہے، ہم کون سے تگڑے لوگ ہیں لیکن ہم اللہ کے حضور صاف ہیں، اللہ کی اطاعت اللہ کی تابعداری اللہ کی عبادت اس کا حق تو ممکن ہی نہیں کہ ہم ادا کر سکے لیکن یہ لوگ ہم پر تہمتیں باندھتے ہیں، بند کمروں میں بیٹھ کر سازشیں کریں، خود تہمتوں کی لسٹ بناٸیں اور پھر میڈیا کو دیں اور میڈیا والے جو خوش خوش ہو کر پیسہ کماٸیں، جھوٹ تہمت گالی گندی اور غلاظتوں سے جو لوگ پیسہ کماتے ہیں اس کی کمائی پہ لعنت ہو ۔
تو ان سے گھبرانا نہیں چاہیے بالکل بھی نہیں گھبرانا چاہیے میں نے ایسے ایسے انٹرویوز دیے ہیں کہ مجھے ایک صحافی باقاعدہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر اپ مہربانی کریں اور یہ لفظ یہو د ی استعمال نہ کرے تو اچھا ہوگا کیونکہ پھر یہ میڈیا اٹھائے گا نہیں، یہ لفظ بند کر دے گا۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ ان کو اپنا احساس بھی یہی ہے اگر کسی کو دنیا میں شرعی سزا دی جاٸے، کسی بھی اسلامی ملک میں تو یہ پوری دنیا کہ انسانی حقوق سر پر اٹھا لیتے ہیں اوہ دقیانوسی قسم کی سزا دے دی، سر کاٹ دیا گیا اوہ یہ تو سنگسار کر دیا گیا کیا کیا چپ کرتے ہیں اور اج جو فلس طین میں ہو رہا ہے ایک غزہ شہر میں 15 ہزار تک شہادتیں ہوئی ہیں جن میں اکثریت بچوں کی اور خواتین کی ہیں اور جو ملبوں کے ڈھیر تلے دبے ہوئے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے، مریضوں کو دوڑا دوڑا کے ہسپتال لے جایا جا رہا ہے اور ڈاکٹر اس مریض کا علاج کر رہے ہیں ۔ کہاں ہے وہ دنیا کو حقیقت بتلانے والا ؟ ان کے مظالم کو انسانیت کے سامنے رکھنے والا، ان کے جرم کو انسانی عدالت کے سامنے لانے والا، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی گونگ ہوگٸی میں جاتا ہو پاکستان میں، جو بڑے انسانی حقوق کے دعویدار بنتے ہیں اور آج گونگے بنے ہیں ۔
تو اس قسم کے لوگوں سے ہمارا واسطہ ہے، اس قسم کی مخلوق سے ہمارا واسطہ ہے ان حالات میں بھی ہمیں اپنے اقدار کے ساتھ چلنا ہے کیونکہ اپ کی حیثیت داعی کی ہے اور اپ کے مخالف کی حیثیت منکر کی ہے، منکر کا انداز اور ہوتا ہے اور داعی کا انداز اور، منکر کی بد زبانی اور بد اخلاقی سے داعی کبھی بھی اپنے مقام دعوت سے نیچے نہیں اتا،
اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِۘ-اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ، اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ
اس پورے آیت میں اپ دیکھیں کہ منکرین کا لب و لہجہ کیا ہے
قَالُوٓاْ إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُواْ لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور وہ اللہ کے رسول تھے داعی تھے قوم کے پاس گئے تو انہوں نے کہا تم تو ہمارے لیے نحوست بن کر اٸے ہو، اس کام سے رک جاو ورنہ ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے ہماری طرف سے درد ناک عذاب دے گا تمہیں، اب رسول کا جواب کیا ہے
قَالُواْ طَٰٓئِرُكُم مَّعَكُمْ ۚ أَئِن ذُكِّرْتُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ
تو داعی کا قول جو ہے داعی کی گفتگو اور رویہ اس کو اپنی مقام سے نیچے نہیں انا چاہیے،چاہیے داعی کو شہید کر دیا گیا لیکن جب وہ قبر میں جا رہا ہے اور اس کو باقاعدہ کہا جا رہا ہے
قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ
جنت کی بشارت بھی مل گئی شہید قبر میں اتر رہا ہے اور اس وقت وہ اللہ سے کیا کہتا ہے
قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ
کاش میری قوم کو سمجھ ا جاٸے اس کے دل کی تمنا پھر یہی ہوتی ہے ۔ مجھ سے اس دن صحافی نے پوچھا کہ بعض دفعہ اپ نے ایک جماعت پر بہت تنقید کرتے ہیں سخت الفاظ میں کرتے ہیں کیا اس سے ان کے کارکنوں کی دل آزاری نہیں ہوتی میں نے کہا مجھے کارکنوں سے ہمدردی ہے، بے چارے نا سمجھ ہیں اللہ کرے ان کو سمجھ میں اجاٸے اور اگر جس کو سمجھ میں ائی بات اور وہ ہماری طرف ائے اور ہزاروں کی تعداد کو میں لوگ جمعیت کی طرف اٸے ہم نے خوش دلی سے ان کا استقبال کیا، ہم نے ان کا احترام کیا، ہم نے انہیں محبت دی ہے یہ نہیں سوچا کہ کل تک تو یہ ہمیں گالیاں دے رہے تھے، ہمیں اسلام کی تعلیمات کہہ رہے ہیں۔
تو یہ کام اور یہ ذمہ داری جو اپ کو سونپ دی گئی ہیں اس میں بھی ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات کو سامنے رکھ کر اگے بڑھنا ہوگا تب اللہ کی مدد بھی اتی ہے تب اس سے برکت بھی اتی ہے اور جو اللہ کی مدد اتی ہے تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اپ کو کوٸی شکست دے سکے ۔
تو اس مہم کو اپ نے اگے بڑھانا ہے بڑی ہمت کے ساتھ اگے بڑھانا ہے مجھے بتایا گیا تھا کہ اج تھوڑا سا تربیتی ماحول ہے اور ہم نے تربیتی ماحول میں کچھ باتیں کرنی ہے تو میں کچھ معزول بھی ہوں تو اج میں نے معزولی کا ساتھ دیا ہے تو بیٹھ کر بات کی ہے اور آپ دعا کریں، میرے لیے بہت دعا کریں کہ اللہ تعالی مجھے اس قابل رکھے کہ میں جمعیت علماء اسلام کی اس سفر میں اگے بڑھ سکوں اور جمعیت علماء اسلام کی قبولیت کا ذریعہ بن سکوں ۔ مشکلات اتی ہیں جسمانی مشکلات بھی ہیں روحانی مشکلات بھی ہیں وہاں سے بھی مشکلات ہیں، ہر طرف سے مشکلات ہوتی ہیں لیکن وہ سب اسان ہو جاتی ہے جب اپ دعا کرتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ کی مدد اتی ہے۔
تو اللہ تعالی آپ کی اس اجتماع کو کامیاب بنائے اس کو قبول فرمائے اور کل جو ہمارا بڑا اجتماع ہوگا اللہ تعالی اس کو بھی اپنے حفظ و امان میں رکھے قبولیت اس کو نصیب فرمائے اور اللہ تعالی بہت بڑی کامیابی سے سرفراز فرمائے ۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں