اسلام آباد میں قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ سے ملکی و غیر ملکی میڈیا نمائندگان کی ملاقات اور خصوصی گفتگو
8 نومبر 2023
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
میں دنیا کے مختلف چینلز اور کرسپونڈنس اور یہاں ملک کے اندر کے مختلف چینلز کے نمائندوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ اچھا موقع ہے کہ آپ حضرات سے ایسے وقت میں ملاقات ہو رہی ہے جب مسئلہ فلسطین نے ایک نئے زاویے کے ساتھ اپنے موقف کی تجدید کی ہے اور اس حوالے سے جو پاکستان کا موقف قیام پاکستان سے پہلے رہا ہے یا قیام پاکستان کے بعد رہا ہے، بانی پاکستان جناب محمد علی جناح نے خود اس موقف کو متعارف کرایا اور فلسطینیوں کے ساتھ اپنی بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا اور اسے سن 1940 کے قرارداد پاکستان کا حصہ بنایا، انہوں نے اقوام متحدہ کی اس تجویز کو بھی مسترد کر دیا تھا اور اس وقت کے امریکی صدر ٹرومان کو خط لکھا تھا کہ فلسطین کو دو ریاستی تصور کے ساتھ ہم قبول نہیں کر سکتے، یہ عرب کی سرزمین ہے، یہ فلسطین کی سرزمین ہے اور اس قسم کی جو قراردادیں ہیں وہ امریکہ کو نہیں جھجتی کہ جو لوگ ہمیشہ دنیا میں انصاف کی بات کرتے ہیں اور ان کو جتلایا ہے کہ تاریخی لحاظ سے ہو، جغرافیائی لحاظ سے ہو، سیاسی لحاظ سے ہو، کسی بھی اعتبار سے فلسطین کی سرزمین کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں! کیا ہم نے پاکستان کی بنیادوں کو مسترد کر دیا ہے! کیا ہم نے قائد اعظم کے فلسفے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس حوالے سے جمیعت علماء اسلام نے جو 7 اکتوبر کا واقعہ ہوا جس میں حماس نے غزہ سے اٹیک کیا اسرائیل کے اوپر، اب اس کو زیر بحث لانا کہ کیون کیا؟ تو ظاہر ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی حالت جنگ میں ہے اور حالت جنگ میں کوئی بھی ملک دوسرے کے خلاف دنیا کو بتائے بغیر کوئی بھی اقدام کر سکتا ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ امریکہ براہ راست اپنی فوجیں لے آیا ہے، برطانیہ براہ راست اپنی فوجیں لے آیا ہے، یورپ کے اور ممالک بھی اور ہو کیا رہا ہے کہ حماس کے جنگجوؤں کے ساتھ، ان کے فوجیوں کے ساتھ، ان کے مجاہدین کے ساتھ جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ وہ براہ راست غزہ شہر میں بمباری کر رہے ہیں، بچے شہید ہو رہے ہیں، خواتین شہید ہو رہی ہیں، عام شہری شہید ہو رہے ہیں، ہسپتالوں پہ بمباری کی جا رہی ہے، اسکولوں پہ بمباری کی جا رہی ہے، مارکیٹوں پہ بمباری کی جا رہی ہے، خرد و نوش کے تمام ذخائر تباہ کر دیے گئے ہیں اور یہ جنگی جرم نہیں تو پھر دنیا میں جنگی جرم کس چیز کا نام ہے! دنیا اس کا نوٹس لے اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دے، جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے اور ایک بات اس حوالے سے بڑی واضح ہو گئی ہے کہ قضیہ فلسطین کی جو براہ راست فریق ہیں وہ فلسطینی ہیں اور اس واقعے سے دنیا کو ایک میسج گیا ہے کہ ہمارے بغیر جو مسئلہ فلسطین کے حل کی باتیں ڈھونڈ رہے ہیں لوگ ان کو حق نہیں پہنچتا! پہلے ہم ہیں اس کے بعد ہمارے دوست ہیں ہمارے مسلم برادری ہے۔ اور آج بھی میں یہاں سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی دنیا اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اس طرح عملی طور پر نہیں کھڑی جس طرح کے مغربی دنیا اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، جس طرح وہ اسلحہ دے رہا ہے، جس طرح وہ فوجیں مہیا کر رہا ہے، جنگجو مہیا کر رہے ہیں اور پھر انسانی قتل میں شریک ہو رہے ہیں ان کے ساتھ، انسانی حقوق کے علمبردار بن کر آج جس طرح انسانیت کا قتل کیا جا رہا ہے اور جن کے ہاتھوں سے فلسطین کے بے گناہ مسلمانوں کا، ان کے بچوں کا، ان کی خواتین کا، ان کے بوڑھوں کا، ان کے جوانوں کا، خون کیا جا رہا ہے، کیا اس کے بعد بھی ان کو ان سارے حقوق کا محافظ تصور کیا جائے گا؟ یا وہ باقاعدہ انسان حقوق کے قاتل تصور کیے جائیں گے؟ کیا اسرائیل کو یاد نہیں کہ نازی قوت نے ان کا کیا حشر کر دیا تھا؟ آج اس کا بدلہ مسلمان سے لے رہے ہیں، ان میں ہمت ہے تو انہی سے بدلہ لیں جنہوں نے ان کا ہولوکاسٹ کیا تھا جی، تو اس حوالے سے میں تو سوچتا ہوں کہ جو دنیا سوچ رہی تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے اور اس حوالے سے دنیا میں ایک لابنگ چل رہی تھی، وہ خواب پریشان ہو گیا ہے، بکھر گیا ہے اور اب دنیا کو نئے زاویے سے سوچنا ہوگا کہ اسرائیل سے ہمارے تعلقات وہ خطے میں امن کے قیام کا ذریعہ نہیں بن سکتے، ہمیں خطے میں امن چاہیے، انصاف پر مبنی امن چاہیے، اسرائیل اس خطے میں فرعون کی جانشین ہے، وہ خطے میں حضرت موسی علیہ السلام کی جانشین نہیں ہے! حضرت موسی علیہ السلام کے جانشین اس وقت وہاں کے مسلمان ہیں وہاں کے فلسطینی ہیں اور جو ان کی حمایت کر رہے ہیں یہ اسی فرعون کی سنت پہ عمل کر رہے ہیں جو اس وقت چھوٹے نومولود بچوں کو قتل کیا کرتا تھا۔ ہم نے ایک مطالبہ کیا تھا کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے، میں سعودی عرب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور اب او آئی سی کا سربراہی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے، یہی ڈیمانڈ یہاں سے ہم نے اٹھایا اور جب فلسطینی قیادت سے میری ملاقات قطر میں ہوئی تھی تو ان کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔ میں اس میں ضرور یہ اضافہ کروں گا کہ اس میں حماس کے نمائندوں کو شرکت کی اجازت دی جائے، ان کو طلب کیا جائے، بطور مبصر کے طلب کیا جائے لیکن طلب کیا جائے کیونکہ ان کی رائے سنے بغیر شاید یہ اجلاس اپنے ایجنڈے کے حوالے سے مکمل نہ ہو سکے۔ ہمارا روزہ اول سے جب سے جمیعت علماء قائم ہوئی ہے، ہمارا موقف فلسطین کے مسلمانوں کے حق میں رہا ہے، ہم نے برطانیہ کے جو معاہدہ دار فور ہوا تھا اس کو مسترد کیا ہے اور جمیعت علماء کا منشور اس حوالے سے بڑا واضح ہے، ہم آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں ہم نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا، تو ہم دوبارہ اس مسئلے کو اٹھانا چاہتے ہیں، پشاور میں جلسہ ہوا، کوئٹہ میں ہوا، کراچی میں ہوا اور ایک انسانی سمندر اُمڈ آیا تھا اور یہی پاکستان کے عوام کی سوچ اور رائے ہے، صرف یہ نہیں کہ پاکستان میں جلسے ہوئے ہیں، خود امریکہ میں مظاہرے ہوئے ہیں، برطانیہ میں ہوئے ہیں، فرانس میں ہوئے ہیں، یورپ کے ممالک میں ہوئے ہیں اور یورپ کی دنیا ہو یا امریکہ کی دنیا ان کو بھی عوام کی اس آواز کا احترام کرنا ہوگا ورنہ جمہوریت کی بات چھوڑ دیں، ورنہ عوام کے رائے کی بات چھوڑ دیں، پھر کچھ لوگ ہیں جو بند کمروں میں بیٹھ کر دنیا کے فیصلے کرتے ہیں پھر عوام کی تو کوئی حیثیت نہ رہی، عوام وہ ہیں جو ہمارے جلسوں میں آئے ہیں اور ہم اس سلسلے کو جاری بھی رکھ سکتے ہیں لیکن ہم نے جو میسج دینا تھا وہ بڑا لاؤڈلی دے دیا ہے، پوری دنیا نے ہمارے موقف کو سنا ہے اور مجھے تعجب ہے انڈیا کے میڈیا پہ کہ اس کو اتنی تکلیف کیوں ہوئی ہے! اس کی چیخ و پکار سے ایسا لگتا ہے جیسے کہ ہم نے جلسے نہیں کیے، جیسے ہم نے انڈیا پہ کوئی حملہ کر دیا ہو، ہم نے اپنی رائے دی ہے اور جمہوری انداز کے ساتھ بھی ہے اور میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر اپنی سرزمین کو حاصل کرنے کی جنگ دہشت گردی ہے تو پھر برصغیر میں گاندھی جی کی جدوجہد کو کیا نام دو گے؟ ہندوستان کی آزادی کے لیے جو 100 ڈیڑھ سو سال جنگ لڑی گئی اپنے برصغیر کے ان مجاہدین کو کیا نام دو گے؟ جس طرح ہم نے اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے جنگ لڑی ہے، مصلح جنگ بھی لڑی ہے، غیر مصلح بھی لڑی ہے، ہر دور سے ہم گزرے ہیں اور ہر وہ راستہ اختیار کیا ہے کہ جو ہمیں آزادی کی منزل کی طرف لے جا سکتا تھا۔ کیا یہ حق آپ عرب دنیا کو نہیں دیں گے؟ کیا یہ حق آپ فلسطین کے لوگوں کو نہیں دیں گے؟ جس کی زمین پر ناجائز قبضہ ہوا ہے اور خود آپ نے ان کو ناجائز قبضہ کہا ہے، آج مودی جی کو کیا ہو گیا، وہ کیوں اتنا تبدیل ہو گیا ہے کہ اپنے اسلاف کو چھوڑ گیا ہے، اپنی تاریخ کو چھوڑ گیا ہے، اس کی نفی کر رہا ہے، سو اس اعتبار سے انصاف کا راستہ لیا جائے اور حق کو حق تسلیم کیا جائے، فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور فلسطینیوں کا رہے گا۔ اتار چڑھاؤ تحریکوں میں آتے ہیں، تحریکیں مد و جزر کا شکار ہوتی رہتی ہیں، تحریکوں کی مثال سمندر کے لہروں کی ہے، لہریں کبھی اٹھتی ہیں پھر ڈوب جاتی ہیں پھر دوبارہ اٹھتی ہیں لیکن بالآخر ساحل سے جا کر ہی دم لیتے ہیں، سو یہ تحریکیں جو ہیں وہ آگے بڑھتی رہیں گی اور اس حوالے سے ہم نے اپنا جو موقف دیا ہے وہ بڑا واضح طور پر دیا ہے، ہم جو حق اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں وہ پھر فلسطینیوں کے لیے بھی جائز سمجھتے ہیں، ہم جو حق اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں پھر وہ افغانوں کے لیے بھی جائز سمجھتے تھے اور انہوں نے بھی اپنے سرزمین کی آزادی کے لیے 20 سال جھنگ لڑی ہے اور اس سے پہلے بھی روس کے خلاف جنگ لڑی ہے انہوں نے 14 سال، سو یہ تاریخ ہے ہمارے اور پوری دنیا کو آپ یہ حق دیتے ہیں، یہ عجیب بات ہے کہ ہمیشہ حملہ آور اور قبضہ کرنے والا وہ اپنے آپ کو انصاف کا علم بردار کہتا ہے اور جس کی آزادی وہ چھین رہا ہے اس کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے، یہ جو الٹی گنگا ہے یہ شاید ہمیں قابل قبول نہیں ہے، ہم بھی دنیا کا حصہ ہیں، ہم بھی اپنا موقف رکھتے ہیں اور پاکستان نے جو اقوام متحدہ میں اپنا موقف دیا ہے بڑا جرات مندانہ موقف دیا ہے اور ہمیں اپنے اس جراتمندانہ موقف ہی کو آگے لے جا کر مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ بہت بہت شکریہ آپ حضرات کا جی
سوال و جواب سیشن
صحافی کا سوال: اس وقت پاکستان میں نگران حکومت ہے اور جو فلسطین کا بحران ہے وہ بظاہر لگ رہا ہے کہ ابھی چلے گا تین چار مہینے ختم ہونے والے بھی ہیں وہ بڑھ گئے بحران، بظاہر جو حالات ہیں پاکستان کے سیاسی اس کے نتیجے میں لگ یہ رہا ہے جو انتخابات کے بعد آپ کے جو اتحادی ہیں ان کی حکومت آئیگی اگر آپ حکومت میں آتے ہیں تو آپ کی کیا حکمت عملی ہوگی کیا عملی جدوجہد کریں گے
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا صحافی کو جواب
الیکشن میں جائیں گے، عوام کے فیصلے کو دیکھیں گے اور عوام کے فیصلے کے مطابق ہی یہاں حکومت بنے گی، تو ہم تو الیکشن سے پہلے جو موقف رکھتے ہیں الیکشن کے بعد بھی ہمارا وہی موقف ہوگا اور پھر اس کے بعد آج تو ایک پارٹی کا موقف ہے اس کے بعد جب وہ ریاست کا موقف بنے گا تو ریاست میں بہت فریق ہوتے ہیں تو ایک پارٹی جو ہے وہ فیصلے نہیں کیا کرتی ادارے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور وہ ملک کے فائدے نقصانات اور اصول سب چیزوں کو سامنے رکھتے ہیں، میں آپ کے سوال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے جو نگران وزیراعظم نے دو ریاستی تصور پیش کیا ہے یہ قائد اعظم کے تصور کی نفی ہے اس بات کو نوٹ کیا جائے!
جواب
انہوں (حماس کے رہنماؤں) نے پاکستان کے موقف کو بہت ہی جرات مندانہ کہا ہے انہوں نے پاکستان کو اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی قوت کہہ کر اس کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اسلامی دنیا کے معاملات کی قیادت کریں، انہوں نے پاکستان سے اعلیٰ ترین توقعات قائم کی ہے اور ایک بڑا مثبت پیغام انہوں نے پاکستانیوں کو دیا ہے، پاکستان کی قیادت کو دیا ہے، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو دیا ہے کہ ہم پاکستان سے بہت بڑی توقع رکھتے ہیں، خاص طور پر جو انہوں نے موقف دیا ہے فلسطین کے لیے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف اس نے ہماری بڑی ڈھالز باندھی ہے
جواب
دیکھیے جنگ میں ہر پہلو کو دیکھا جاتا ہے، میں ایک بات کا دوبارہ اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ 1947 ، 48 میں برطانیہ دنیا کا سپر طاقت تھا جی اور امریکہ نے اس کی جگہ لینی تھی اقوام متحدہ کا مرکز جو ہے وہ امریکہ تھا جی لیکن ان حالات میں پاکستان نے پاکستان بننے سے پہلے بھی فلسطینیوں کے حق میں اور برطانیہ کے نظریے کے خلاف آواز اٹھائی اور پاکستان بن جانے کے بعد بھی اس نے برطانیہ کے اور امریکہ کے موقف کے خلاف آواز اٹھائی وہ ان ریکارڈ ہے ساری چیزیں اور وہ اس کے حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں جی، اب رہی یہ بات کہ جس کی طرف آپ نے توجہ کی ہے سب لوگ اس حوالے سے دیکھ رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی حماس کے حوالے سے کمزور پہلو اجاگر کیا جائے اور پھر کہا جائے کہ یہ تو انہوں نے بڑا ظلم کیا بڑے غلطی کی بڑے یہ غلطی کی، آپ مجھے بتائیں کہ کیا اس کے سیاسی پہلو نہیں ہیں کہ جو دنیا میں اور آپ کے ملک میں یہاں پاکستان میں ہمارے ٹیلیویژن سکرین پر لوگ آتے تھے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو فلسفے جھاڑتے تھے اور جیسے ہمارے اسلامی دنیا اور پوری دنیا کی حیات و موت اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہے اور نہ ہم تو یہ ہو جائیں گے اور وہ ہو جائیں گے، یہ ساری چیز یکدم تبدیل ہو گئی یا نہیں ہو گئی، یہ جو سمجھا جا رہا تھا کہ اسلامی دنیا اسرائیل کو تسلیم کر لے گی تو پھر اس کے بعد مزاحمتی قوت جو ہے وہ دم توڑ دے گی، کیا اس نے اس تصور کو تبدیل کیا یا نہیں کیا جی؟ تو ان چیزوں کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ کس طریقے سے انہوں نے وہ تصور ختم کر دیا ہے اور اب یہ ہے کہ جب اسلامی کانفرنس ہو رہی ہے تو بڑی مضبوط موقف لینے کی توقع ہے، اگر وہ صہیونیوں کی حمایت کرنے سے نہیں شرماتے اگر امریکی وزیر خارجہ آکر کہتا ہے کہ میں بطور وزیر خارجہ کی نہیں آیا ہوں میں ایک یہودی کی حیثیت سے آیا ہوں آپ کے پاس تو کیا ہم یہ جرات نہیں کہ ہم دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی کو بھائی کہیں، المسلم اخ المسلم، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ خود اس کو رسوا کرتا ہے نہ کسی دوسرے کی رسوائی کے حوالے کرتا ہے اس کو، تو آج جب اس حوالے سے میرا مسلمان بھائی کسی مشکل میں پڑا ہوا ہے تو اسلامی دنیا کو اس کی اسلامی تعلیمات کیا کہتی ہیں، انہوں نے اس چھوٹے چھوٹے مشت گافی میں پڑھنا ہے کہ یہاں اس نے ہم سے نہیں پوچھا، آپ بتائیں کہ کیا اس قسم کے فیصلے وہ پوچھ کر کیے جاتے ہیں؟ ہم نے جب کارگل پہ حملہ کیا تھا ہم نے دنیا سے پوچھا تھا کسی کو اعتماد بھی لیا تھا یہ تو ٹاپ ٹاپ ٹاپ ٹاپ لیول کے جا کر سیکرٹ ہوتا ہے کسی بھی ملک کا جی، تو یہ انہوں نے جو اقدام کیا ہے ایک بالکل نیا موڑ لے کر آئے ہیں اور پوری اسلامی دنیا کو اسلامی کانفرنس میں ایک نئے زاویے کے ساتھ ایک نئے موڑ پر ایک نئی سوچ کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے
جواب
آپ اس پہلو کو یہ کوشش نہ کریں کہ ہم اس کو اس کی اہمیت کو ختم کر دیں یہ اپنی جگہ پر ایک اہم سوال ہے جو آپ نے کیا اور یہ حقیقت ہے لیکن دنیا کو یہ میسج تو دے دیا ہے کہ فیصلہ فلسطینی کریں گے، ہمارے فیصلے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے اور اسلامی دنیا جو ہے ان کا موقف جو ہمیشہ چلا آرہا ہے وہ اپنے سر ایک فلسطین تو نہیں ہے انہوں نے مصر کے علاقوں پہ قبضہ کیا ہوا ہے شام کے علاقوں پہ قبضہ کیا ہوا ہے اردن کے علاقوں پہ قبضہ کیا ہوا ہے تو مختلف اطراف میں وہ پھیلے ہوئے ہیں اور آج ان کی اس پیشرفت کو روکا جا رہا ہے اگر اس میں بھی مسلمان دنیا جو ہے ان کو فل سپورٹ نہیں کرے گی تو وہ اپنے پاؤں پہ کلہاڑا مارنے والی بات ہوگی پھر
جواب
میں تو سمجھتا رہا ہوں کہ انہوں نے بالکل فلسطین کی جو ایک دنیا میں تصور جا رہا تھا اور امریکہ بھی یہ سمجھ رہا تھا کہ اسلامی دنیا ہو یا عرب دنیا ہو اب ہمارے دباؤ میں ہے اور ہم ان کے گردن مروڑ کر ان سے یہ بات منوا سکتے ہیں اب وہ تصور ختم کر دیا انہوں نے جی
جواب
وہ تو جنگ بندی جنگ بندی تو ان کو مطالبہ ہے کیونکہ وہ جنگ نہیں کر رہے وہ تو شہریوں پہ حملہ کر رہے ہیں جی، اگر جنگ کی بات ہوتی تو پھر تو جنگ جنگ ہوتی ہے لیکن یہ تو شہریوں کے اوپر وہ بمباری کر رہے ہیں، آبادی کو تباہ و برباد کر رہے ہیں، بچوں کا کیا قصور ہوتا ہے، آپ کو پتہ ہونا چاہیے جس وقت ہم ان کے حق میں موقف دے رہے تھے تو ہم نے یہ پیغام بھی ساتھ دیا تھا کہ انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے چھوٹے بچوں کا خیال رکھا جائے اور میرے خلاف ایک پارٹی نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ دیکھو یہ یہودیوں کی حمایت کر رہا ہے بھئی میں یہودیوں کی حمایت نہیں کر رہا ہوں ہر انسان کی جو جنگ میں شریک نہیں ہے اس کو جنگ میں نقصان نہیں ہونا چاہیے چاہے وہ مویشی کیوں نہ ہو چاہے وہ بھیڑ بکریاں کیوں نہ ہوں چاہے وہ باغات کیوں نہ ہو چاہے وہ فصلیں کیوں نہ ہوں ان کو کسی کے اوپر تباہ نہیں ہونا چاہیے
جواب
پہل کی بات نہیں ہے بات ہے حالت جنگ کی حالت جنگ میں کوئی بھی پہل کر سکتا ہے جی حالت جنگ میں کوئی بھی پہل کر سکتا ہے جی تو یہ کوئی دلیل نہیں ہے، کیا اسرائیل یہ کہہ سکتا ہے کہ فلسطین کے ساتھ ہمارا جو ہمارا حالت جنگ ہے وہ ختم ہو گئی ہے کیا اس کا جو پیشرفت ہے وہ ختم ہو گئی ہے کیا اس کے عرب دنیا پر قبضے کرنے کا جو ایجنڈا ہے وہ روز روز نقشوں کی صورت میں سامنے نہیں آیا کرتا جی، تو یہ ساری چیزیں آرہی ہیں لیکن سب کچھ غلاف کے نیچے کب تک دبائے رکھو گے جی
سوال
میرا سوال یہ تھا کہ جو حماس جہاں سے نکلی ہے فارورڈ اس نے وہ لوگ بین الاقوام اور جو ان سے نکلنے والی دیگر جماعتیں وہ بین الاقوامی قوانین اور جو بین الاقوامی سیاسی نظام ہے اس کو کوئی بہت اس کو نہیں مانتے ہے اور اس کے برخلاف جانے کو جائز سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین ہیں بین الاقوامی معاہدے ہیں اور جو بین الاقوامی سیاسی نظام ہے اس کی بالکل ۔۔۔ کی جو ہے اور اس کے مطابق ہی اپنی پالیسی کو بنایا جائے، اس زمانے میں بہت سے جو اب دیگر علماء ہیں مشرق وسطی وغیرہ کے ان کی یہ رائے ہے کہ اس وقت صورتحال مختلف ہو چکی ہے کہ کیونکہ بہت سے ایسے احادیث بھی ہیں وہ سارے خطے کے متعلق اور یہ نوعیت کا تنازعہ ہے کہ اگر لوگ بین الاقوامی قوانین کے برخلاف جاتے ہوئے وہاں پر کوئی کاروائی کرتے ہیں تو وہ بالکل جائز ہے اور اس کی بالکل روایت کی جو ہے، اس اعتبار سے اگر پاکستان حکومت یہاں پہ لوگوں کو روکتی ہے تو اس پہ آپ کی کیا رائے ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ اگر رکے تو کیا لوگوں کو رک جانا چاہیے یا ان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس قانون کو نہ مانے اور اس کے برخلاف جائے
جواب
دیکھئے آپ نے سوال غیر ضروری طور پر پھیلا دیا ہے، ان کے ہر ایک کا اپنا اپنا حصہ ہے، کس بین الاقوامی قانون کے تحت افغانستان پر حملہ کیا گیا تھا جی، کس بین الاقوامی قانون کے تحت عراق پر حملہ کیا گیا اور پھر بعد میں تسلیم کیا گیا کہ وہاں پر کوئی توقع ہتھیار نہیں تھے، کس بین الاقوامی قوانین کے تحت لیبیا پر حملہ کیا گیا تھا، تو یہ ساری چیزیں جو ہیں کیا یہ قوانین کی پابندی صرف ہمارے لیے ہے! پھر دو طریقے سے ہوتے ہیں ایک ہے کہ آپ سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں آپ اقتصادی جنگ لڑ رہے ہیں آپ حکمت عملی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ایک ہے کہ آپ سرزمین کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں سرزمین کی آزادی کی جنگ کے لیے ہندوستان نے بھی اسلحہ اٹھایا تھا سرزمین کی آزادی کے لیے افغانوں نے بھی اسلحہ اٹھایا تھا چاہے انگریز کے خلاف ہو چاہے روس کے خلاف ہو چاہے امریکہ کے خلاف ہو اور زمین پر قبضہ کے مقابلے میں فلسطینی نے بھی اسلحہ اٹھایا ہے لڑتے رہے ہیں پھر کچھ آگے پیچھے ہو جاتا ہے معاہدات ہو جاتے ہیں کچھ جنگ بندیاں ہو جاتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں لیکن موقف تبدیل نہیں ہوا کرتا جی اوقات جگہ پر قائم رہتا ہے اب اس حوالے سے ظاہر ہے کہ اسلامی دنیا بیٹھ رہی ہے اس کو اس حوالے سے سوچنا پڑے گا کیا اس بین الاقوامی قانون کی پابند امریکہ نہیں ہے جو اپنی بحری بیڑے لے کے آکے سمندر میں کھڑا ہو گیا جی مصلح قوت کے ساتھ کیا اس کی برطانیہ نہیں ہے کیا اس کی پابند یورپ کی دنیا نہیں ہے یہ پابندیوں کا سبق صرف اسلامی دنیا کو سکھایا جا رہا ہے مسلمانوں کو سکھایا جا رہا ہے اس پر پہلے وہ خود بھی عمل کریں پھر اس کے بعد ہمیں یہ جتلانے کی کوشش کریں
جواب
میں تو مطالبہ کرتا ہوں کہ یہاں سے مجاہدین کو جانے کی اجازت دی جائے لیکن ریاست پھر بھی ریاست ہے ہم مقابلہ کر رہے ہیں مغربی دنیا کا سیاسی لحاظ سے اقتصادی لحاظ سے دفاعی لحاظ سے اپنی حکمت عملیوں کے ساتھ ہمارے اوپر براہ راست کوئی قابض نہیں ہے ان کی سیاسی اثر و نفوذ ہمارے اوپر مسلط ہے ان کا معاشی اثر و نفوذ ہمارے اوپر مسلط ہے تو اسی حوالے سے ہم نے اس کے جواب دینے ہیں نہ یہ کہ وہ سیاسی اداروں کو استعمال کرے اور ہم اسلحہ اٹھا لیں فوری طور پر تو پاکستان کے ہر ریاست کی اپنی ہی صورتحال ہے اور اس نے اپنے ہی حوالے سے سوچنا ہوتا ہے تو آپ جو سوال کر رہے ہیں یہ بڑا خطرناک قسم کا سوال کر رہے ہیں اور آپ پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے مشکل میں نہیں ڈال سکتے آپ
جواب
میری رائے تو یہ ہے کہ عسکری حمایت حاصل ہونی چاہیے تاہم فیصلہ جو ہے او آئی سی کریں
جواب
ظاہر ہے جی کہ مسلمان ایک امت ہے اور ایک برادری ہے کلمے کی بنیاد پر ایک قوم ہے ایک ایک مستقل دنیا ہے جی اور پوری دنیا میں لیکن منقسم ہے اور وہ منقسم ہونے کی وجہ سے کمزور ہے تو اگر وہ ایک چاہے مختصر ایجنڈے پر صحیح اپنی وحدت کا مظاہرہ کریں تو ایک بڑی طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور ایک بہت موثر قوت بن سکتے ہیں
جواب
اس وقت تو میں بات کر چکا ہوں کہ اسرائیل بہرحال اس وقت ایک مجزرہ ایک میسکر ایک نسل کشی جو ہے وہ فلسطینیوں کے کر رہا ہے اور یہ جنگی جرم ہے اور دنیا کو اس کو جنگی جرم کا مرتکب قرار دینا چاہیے اور اس حوالے سے فیصلے کرنے چاہیے کہ ایک چھوٹا سا ملک اور وہ بھی قابض اور پھر وہ وہاں یہ انسانوں کو قتل عام کر رہا ہے اور ان کے جو مذہبی رہنما ہیں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کے بچوں کو قتل کرنا جائز ہے، بچوں کو قتل کرنا جائز ہے یہ کس مذہب میں ہے ہمیں تو تورات میں کہی ایسی چیزیں نہیں مل رہی کہیں پر بھی کوئی ایسی تعلیمات نہیں ہے خود یہودیوں کے اپنے مذہب میں بھی اور خود مذہب کے خلاف یہ فتوے جاری کر رہے ہیں، تو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں اور ہم ہیں کہ جو ہم نے پہلے پیغام میں ان سے کہا کہ انسانی حقوق کا خیال رکھیں، جو جہاں سے جنگ لڑ رہے ہیں ان کے ساتھ آپ کو لڑنا جائز ہے جنگ نہیں لڑ رہے آپ ان کو زندگی کا تحفظ دیں جبکہ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ اسرائیل میں فوجی تربیت جو ہے وہ لازم ہے اور ہر شخص وہاں فوجی ہے لیکن اس کے باوجود جو باقاعدہ فوج کا حصہ نہیں ہے ہم نے پھر بھی ان کے لیے بات کی ہے کہ ہم عام آدمی کو قتل کے حق میں نہیں ہیں لیکن یہ ہے کہ وہ تو عام لوگوں کو قتل کر رہے ہیں وہ تو پورے شہر کو برباد کر رہے ہیں اور شہر کو تباہ و برباد کر دیا، پورا غزہ شہر اس وقت ویران پڑا ہوا ہے اور یہ تو آپ 11 ہزار لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو گنے جا چکے ہیں لیکن جو ملبوں کے نیچے ہیں اس کا کیا کریں وہ تو اس کے علاوہ ہے اس حد تک جو لوگوں کا قتل عام ہے وہ کسی طریقے سے بھی ان کو جائز نہیں ہے جی
سوال
مولانا صاحب او آئی سی کو جو جنگی جرائم ہے اس کے خلاف جو عالمی عدالت ہے اس میں جانا چاہیے اس میں
جواب
ظاہر ہے کہ وہ سارے دنیا کے مسلمان حکمران آئیں گے اس میں اس لیول کے لوگ ہوں گے تو ہم تو اس بات کی حمایت کریں گے کہ تمام راستے جو ہیں وہ اختیار کیے جائیں کہ جو اسرائیل کو پیچھے دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں اور فلسطینیوں کی سرزمین کے آزادی کا ذریعہ بنتے ہیں
سوال
بہت سے لوگوں کا یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک جن کی ازرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں تو وہ اسرائیل کے جو سپورٹرز ہیں خصوصا امریکہ ان کے جو سفارت کار ہیں ان کو ملک سے نکالیں آپ کے مطابق کیا ہے
جواب
میرے خیال میں آپ بہت آئیڈیل قسم کی باتیں کر رہے ہیں گراؤنڈ ریلیٹیز کی بنیاد پر آپ کوئی بھی بات نہیں کر رہے ہیں ذرا تھوڑا سا آپ کو مزید صحافت میں تجربے کی ضرورت ہے
جواب
اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا انڈیا ہمارے سفارتی تعلقات ہیں لیکن کیا کسی فورم پر ہم بات نہیں کریں گے؟ کیا ہم کشمیر پہ بات نہیں کریں گے؟ وہاں پر تو یہ چیزیں جو ہیں ہمیں بھی اس حوالے سے اسلامی دنیا کو کشمیر کے مسئلے پر اس طرح وحدت کا ایک پوائنٹ پر اکٹھے ہونے کی جو ہماری ایک جدوجہد ہونی چاہیے تھی ہم وہ معیار پر پورا نہیں اتر سکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر پر آج ہمارا موقف کمزور ہو گیا ہے تو یہی حالت دنیا میں ہر جگہ پھر ہوگی پھر فلسطین میں بھی یہی صورتحال ہوگی پھر مسجد اقصیٰ ہے، مسجد اقصیٰ ہمارا قبلہ اول ہے اور قبلہ اول جو ہے اس کا تمام مسلمان اسلامی دنیا پر حق ہے صرف یہ تو نہیں کہ عرب کی دنیا پہ اس کا حق ہے یہ قبلہ اول تو تمام مسلمانوں کا ہے اور جہاں پر ا لیلۃ الاسری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پہ گئے تو پہلے تو وہاں پہ گئے نا تو مسجد حرام کا اور مسجد اقصیٰ کے درمیان ربط پیدا کرنا اور یہ میسج دینا کہ جس طرح مکے کی حرم پہ آپ کا حق ہے اس طرح اقصیٰ کے حرم پر بھی آپ کا حق بنتا ہے اور پھر وہاں تمام انبیاء کی امامت کرنا، تو یہ چیز تو پھر مسلمان کے حوالے کی گئی ہے اور پھر مسلمانوں نے کئی سال تک جو ہے وہ قبلہ اول کی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھی ہیں تو اس پر مسلمانوں کا جو حق ہے وہ اپنی جگہ پر برقرار ہے اور ہمیں اس حوالے سے اسلامی وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا
جواب
اگر اسلامی دنیا اسلامی دنیا موقف کی حد تک صحیح ہے بابری مسجد میں اکٹھے ہو سکتی ہے تو مسجد اقصیٰ پہ کیوں اکھٹے نہیں ہوسکیں گے، جہاں ایک مسلمان نہیں تھا نماز پڑھنے والا لیکن مسجد کا تقدس جو ہے ان کے مدنظر تھا اور ہندوستان کے مسلمانوں نے قربانیاں دی اس کے اوپر اور ہم نے یہاں پر جلوس نکالے ان کے حق میں تو کیا مسجد اقصیٰ پر ان کا کوئی حق نہیں بنتا ہمارے لیے جو وہاں کے مسلمان دن رات اس کو آباد رکھتے ہیں مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے ان پر گولیاں چلا جاتی ہیں ان کے باوجود وہ مسجد کو آباد رکھے ہوئے ہیں اور وہ ان کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہے وہ تو تیار ہے اس بات کے لیے کہ مسجد اقصیٰ کو گرا دیا جائے اور وہاں پر ہیکل سلیمانی قائم کیا جائے تو اس سازش کو بھی تو ناکام بنایا ہے نا جی
جواب
میں ان پالیسیوں کے حق میں نہیں ہوں جی اور جس طریقے سے مہاجر افغان مہاجرین کو نکالا جا رہا ہے اور جب بتایا تو کہہ جائیں غیر قانونی غیر قانونی، تو غیر قانونی 40 سال تک کیوں نہیں تھے بلکہ 42 ، 43 سال تک کیوں نہیں تھے کہ آج ان کو یہ احساس ہو گیا تو تکلیف کسی اور جگہ سے ہوتی ہے شکایت کسی اور جگہ سے ہوتی ہے سزا کسی اور کو دی جاتی ہے تو یہ چیزیں جو ہیں وہ ہمارے نزدیک جو ہے وہ پسندیدہ نہیں ہے اور ریاست کے فیصلے ہیں ہم نے تو مشرف سے بھی اختلاف کیا تھا لیکن پھر ریاست کا فیصلہ تھا انہوں نے امپلیمنٹ کیا، کیا فائدہ پاکستان کو ہوا امریکہ کو کیا فائدہ ہوا اس کا بالاخر رسوا ہو کے افغانستان سے چلا گیا، تو اس قسم کی چیزیں دنیا میں کی جاتی ہیں عراق پر حملہ کیا کہا کہ وہ ہمارے اطلاعات غلط تھی اور پورے عراق کو تباہ و برباد کر دیا تو یہ کیا ان کو حق حاصل ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ جس طرح کھیلیں اور انسانی حق کا نام لے کر جہاں چاہیں انسانیت کا خون بہائیں، تو یہ ناانصافیاں جو دنیا میں ہوں گی تو امن نہیں آسکے گا، ہمیشہ امن آتا ہے انصاف کے ساتھ جہاں ناانصافیاں شروع ہو جاتے ہیں وہاں قتل عام شروع ہو جاتے ہیں
جواب
بہر حال اس حوالے سے دونوں طرف کچھ کمزوریاں ہیں بیان دینے کی حد تک تو ہم بہت تگڑے ہیں وہ بھی تگڑے ہیں وہ بھی بیان دے رہے ہیں ہم بھی بیان دے رہے ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ یہ مسئلہ جو مہاجرین کا ہے افغان مہاجر کا یہ دو طرفہ ہے یہ ایک طرفہ نہیں ہے اور اگر ہمیں کچھ شکایتیں پیدا ہوئی ہیں تو ان شکایتوں کے ازالے کے اور بھی طریقے ہو سکتے ہیں نہ یہ کہ آپ پوری کمیونٹی جو ہے وہ اس کو زیر عتاب لے آئیں اور پھر اچھے الفاظ کے ساتھ اور خوبصورت الفاظ کے ساتھ تو میں تو یہ سوچتا ہوں کہ اگر ہم نے 40 سال بھی کسی کو مہمان رکھا ہے تو پھر اس کو ملک سے جانے کے لیے گھر سے باہر رخصت کرنے کے لیے لات مار کر رخصت کریں تو میرے خیال میں سارے مہمان داری تو چلی گئی پھر تو ہمارے کچھ اقدار ہوتے ہیں کچھ ہمارے اور میں تو اس حوالے سے یہ بھی سوچتا ہوں کہ کیوں انسانی حقوق کی دنیا خاموش اور گونگی ہو گئی ہے! نہ فلسطین کے اوپر ان کی زبان کھل رہی ہے نہ دنیا کے این جی اوز بات کر رہے ہیں آج گنگ ہو گئے ہیں سارے جب امریکہ ظلم کرتا ہے تو سارے این جی او خاموش ہو جاتے ہیں ہم ایک جملہ نکالتے ہیں یہاں کسی تقریر میں ساری دنیا ہمارے پیچھے پڑ جاتی ہے او یہ تو انہوں نے بڑا آتنگ واد کر دیا کیا کہہ دیا انہوں نے جی تو یہ ساری چیزیں کیا ہمارے لیے جرم ہیں کیا ان کے لیے جرم نہیں ہے تو اس حوالے سے ہمیں سنجیدہ انداز کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے ساتھ یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے تھا افغانستان افغانوں کا ہے افغان کے مہاجرین نے بالآخر جانا ہے بالآخر جانا ہے تو جب جانا ہی ہے اور وہ اس طرح کے ہجرت نہیں کیے ہوئے کہ ان کے وہاں پر اپنی جائیدادوں سے تعلق کٹ گیا ورنہ ہجرت سے تو تعلق کٹ جاتا ہے اپنے ملک کے آپ کے املاک کے ساتھ جی جس طرح مکہ مکرمہ کے مہاجر گئے مدینہ منورہ میں تو مکہ کی جائیداد ختم کر دی انہوں نے ان کو قرآن کریم میں فقراء کہا ہے تو اس اعتبار سے ہمیں دو طرفہ بنیادوں کے اوپر سنجیدہ انداز کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے تھی ورنہ افغانستان پاکستان کے اگر تعلقات میں کشیدگی آتی ہے تو پھر یہ ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے کہ جس کی تکمیل ہوگی دونوں ملکوں کے حق میں کچھ بھی نہیں ہوگا جی
سوال
انہوں نے کچھ فیکٹس دیے ہیں اس حوالے سے پرائم منسٹر آفس میں انہوں نے بتایا کہ جب سے طالبان نے ٹیک اوور کیا ہے 2021 سے 40 پرسنٹ ٹیررزم کا ایکسیڈنٹس کا اضافہ ہوا پاکستان میں اور 500 ٹائم جو سوسائٹی ٹیکس ہیں ان کی ریشو بڑی ہے اور پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے فروری 2021 سے لے کے فورٹ نائٹلی رپورٹ یونیور 15 دن بعد ہم ان کو رپورٹ دیتے تھے ریسینٹلی ایک وزٹ کا ذکر کیا ریسنٹ ابھی تھوڑا پہلے 2022 جس میں ڈی اے آئی ایس آئی بھی تھے اور ان کو بتایا کہ یا طالبان پاکستان کو فٹ کریں یا پاکستان کو پھر ان کے جو بعد میں ایکشنز تھے اور جس طرح کی سٹیٹمنٹس تھی اس میں پیرنٹی پاکستان نظر انداز ہوا
جواب
مجھے تو خود یہاں کے لوگوں نے بتایا کہ افغانستان کی حکومت نے جو امارت اسلامیہ ہے اس نے علماء سے فتوی لے لیا ہے اور پاکستان کے اندر جو بھی کوئی کاروائیاں ہوتی ہیں اس کو جہاد کہنے سے انکار کر دیا ہے اور انہوں نے جنگ قرار دے دیا جائے یہ تو انہوں نے مجھے بتایا ہے جی انہوں نے گاڑی انہوں نے نہیں بتایا انہوں نے بتایا مجھے جی
سوال
مولانا صاحب یہ فیصلہ تو کئیر ٹیکر سیٹ اپ کا نہیں ہو سکتا بیہائنڈ کئیر ٹیکر سیٹ اپ ہے جو لوگ اس فیصلے میں ہیں اور جو لوگ آپ کو آپ کے ساتھ ان کو انٹریکشن ہوتی ہے تو جب بات ہوتی ہے تو آپ انہیں کیا بتاتے ہیں جو فیصلہ ساز ہے
جواب
ہم تو یہ ان کے سامنے رکھ رہے ہیں کہ دو طرفہ ایک کمیشن ہونا چاہیے جہاں پر دو طرفہ معاملات ہیں ان کو وہ دو دفعہ کمیشن ہی جو ہے اس کو ڈسکس کرے اور ان کا حل نکالیں جی، اگر ایک طرفہ فیصلے وہ کریں گے ایک طرفہ فیصلے ہم کریں گے تو تعلقات میں کشیدگی آئے گی اور نہ افغانستان اس کا متحمل ہے نہ پاکستان اس کا مطالب ہے، ہمارے مفاد میں یہ ہے معاملات ہیں ان کو اس میں حل کریں جی
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat .
اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ سے غیر ملکی میڈیا نمائندگان کی ملاقات
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, November 8, 2023
ایک تبصرہ شائع کریں