قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو
8 نومبر 2023
سوال: مولانا صاحب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے لیکن ساتھ ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کی جو لہر ہے وہ بھی شروع ہو چکی ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جو دہشت گردی کی لہر ہے اس کا الیکشن کی تاریخ پہ کوئی اثر ہوسکتا ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جواب
دیکھیے میں تو اس تاریخوں کے آنے سے پہلے کہہ چکا ہوں یہ نہیں کہ میں اب اس کے بعد کوئی بات کہہ رہا ہوں اور میں نے یہاں تک کہا تھا کہ جو حالات امن و امان کے حوالے سے ہیں میں کم از کم اپنے حلقے میں انتخابی مہم نہیں چلا سکتا جی، میرے مد مقابل جو میرے مقابلے میں الیکشن لڑتے ہیں یہاں میرے پاس تشریف لائے تھے ان کو لوگوں کے سامنے میں نے پوچھا، انہوں نے کہا میں نہیں کرسکتا جی، میرے جو علاقے میں ہیں وہاں میرے گاؤں میں آئے تھے میں نے کہا آپ الیکشن کمپین چلا سکیں گے تو انہوں نے کہا نہیں چلا سکتے، تو یہ تو ہم نے الیکشن کی تاریخ آنے سے پہلے یہ باتیں کی ہیں ساری، اگر ان کو بس صرف اسلام آباد ہی نظر آرہا ہے اور لاہور نظر آرہا ہے یہ خیال ہی نہیں ہے کہ بلوچستان کی صورتحال کیا ہے اور کے پی کی صورتحال کیا ہے تو پھر ان کا فیصلہ ہے وہ ٹھیک ہے ہم تو الیکشن لڑیں گے پھر جی الیکشنز میں جائیں گے
سوال: مولانا صاحب ہم نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کا جو سیاسی اتحاد ہے وہ بن رہا ہے تو کیا آپ ایسے کسی بھی جو سیٹ اپ بن رہا ہے تو کسی سیاسی اتحاد میں جانا چاہ رہے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جواب
یہ تو الیکشن کے آتے آتے تو سیاسی اتحاد بھی ہوتے رہیں گے اور ایڈجسٹمنٹ بھی ہوتی رہیں گی مقابلے بھی ہوتے رہیں گے تو میرے خیال میں اس کو معمول کی سیاست کا حصہ ہمیں سمجھنا چاہیے
سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کے پی میں جے یو آئی کا کم بیک ہو سکتا ہے ابھی جو حالات چل رہے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جواب
جو حالات چل رہے ہیں اگر ارام سے ہوں کوئی وہاں مداخلت نہ کرے تو پھر تو جمیعت علماء وہاں کی سب سے بڑی پارٹی ہے جو تجزیہ ہے ہمارا جو پبلک میں ہم جاتے ہیں جو عوام کا ہم سے رابطہ ہے اس حوالے سے ابھی تو تجزیہ ہی کیا جا سکتا ہے نا جی کوئی حتمی بات تو نہیں کی جا سکتی کہ میں نے ہی جیتنا ہے لیکن اثرات یہی ہیں کہ کے پی میں جمعیت کی پوزیشن جو ہے وہ تقریباً واضح ہے جی
سوال: مولانا صاحب ایک الیکشن ہوا تھا 2018 کا، اس میں ہم نے دیکھا کہ وہ لیول پلینگ فیلڈ تھی جیسے بات ہو رہی تھی کہ اس وقت نواز شریف نہیں تھے اور اب بھی جو الیکشن ہو رہا ہے اس میں بھی عمران خان جیل میں ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ فری اینڈ فیئر الیکشن کے لیے کیا تمام سیاسی جماعتوں کے جو رہنما ہیں ان کو میدان میں ہونا چاہیے یا ابھی جو جیسے چل رہا ہے آپ اس سے مطمئن ہیں
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جواب
دیکھیں میں تو ذاتی طور پر اگر مجھ سے پوچھیں میں تو بار بار کہا ہے کہ مجھے تو عمران خان کا نام لیتے ہوئے یا پی ٹی آئی کا نام لیتے ہوئے بھی اچھا نہیں لگتا کیونکہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں میرے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں مزہ نہیں آتا لڑائی میں تو اگر وہ کھلے پھر رہے ہوں گے تو ہم پھر پبلک میں اس پر شکست دیں گے ان شاءاللہ العزیز ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ہمارے لیے لیکن اب یہ ہے کہ قانون اپنا قانون ہوتا ہے اگر قانون کی گرفت میں ہیں وہ اور انہوں نے کوئی ریاست کے خلاف ایسے اقدامات کیے ہیں تو پھر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تو ممکن ہے ان پر پابندی لگ جائے چہ جائیکہ ہم ان کے لیے الیکشن میں برابر کہ حصہ دار بننے کی خواہش ظاہر کریں
سوال: ٹھیک ہے مولانا صاحب لاسٹ کوسچن پی ٹی آئی کے وفد نے آپ سے ملاقات کی تھی تو کیا اس میں کوئی سیاسی مشاورت یا کسی اتحاد کی بھی بات ہوئی ہے کے پی کے لیے کہ نہیں
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جواب
دیکھیے کوئی اگر تعزیت کے لیے آتا ہے ہماری روایات ہیں بڑے احترام سے ان کو وصول کرتے ہیں ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں ہم سب جو ہے پشتو زبان بولنے والے لوگ تھے اور آدھ پون گھنٹہ ہم نے بڑے اچھی ماحول میں گپ شپ لگائی، اب پتہ نہیں سوشل میڈیا کیا چیز ہے کیا سے کیا بنا دیتی ہے جی، تو ہمارے آپس میں اختلاف بھی ہوں گے، مضبوط اختلاف ہوں گے لیکن اگر وہ کسی تعزیت غم خوشی میں ہم ایک دوسرے کے پاس آئے جائیں تو اسی طرح کا احترام بھی ہم ایک دوسروں کو دیتے ہیں
سوال: نئے آرمی چیف کی جو پالیسی ہے اس کو کیسے دیکھتے ہیں آپ، نئے آرمی چیف جو ہیں ان کی پالیسی کو کیسے دیکھتے ہیں،
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جواب: پالیسی آرمی چیف کی ہوتی ہے یا پالیسی حکومت کی ہوتی ہے؟
سوال: پالیسی حکومت کی ہوتی ہے لیکن جب بھی ایک نیا آرمی چیف آتا ہے تو وہ کچھ چیزیں ڈفرنٹ ہوتی ہیں تو ان کو آپ کیسے دیکھتے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جواب
میرے خیال میں کچھ چیلنجز ہیں کہ جس میں ہم کسی ایک ادارے کو مستثنیٰ نہیں قرار دے سکتے مثلاً اقتصادی مسئلہ ہے ہمارے لیے اور اقتصادی حوالے سے ملک ہمارا ڈوب رہا ہے تو اس حوالے سے انہوں نے کچھ سخت فیصلے لیے حکومت کو بھی کہا کہ آؤ سب مل کر لڑتے ہیں اس ملک کو اقتصادی طور پر بچانے کے لیے تو میرے خیال میں یہ اچھا جذبہ تھا جی اور ایک قومی اور وطنی جذبہ ہے، قیام امن کے لیے ہم نے جو ماضی میں اپریشنز ہوئے ان کی حکمت عملی سے اختلاف ضرور کیا لیکن ہم رکاوٹ تو نہیں بنے، ہم نے کہا ٹھیک ہے میری رائے کے مطابق آپ نہیں چل رہے لیکن آپ کی رائے کے مطابق مجھے امن تو چاہیے نا تو مجھے آپ امن دے دیں اگر امن مجھے مل جاتا ہے میں آپ کو سلام کروں گا شکریہ ادا کروں گا اپنے اداروں پر فخر کریں گے بات تو بنیادی یہ ہے کہ ہمیں نتائج چاہیے، صرف یہ تو نہیں کہ آپ اپنا ایک موقف اٹھائے اور لوگوں کو قابل قبول بنانے کے لیے اس کو پورے میڈیا کو آپ استعمال کریں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ ہو پھر کیا فائدہ اس چیزوں کا؟
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat .
ایک تبصرہ شائع کریں