قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا نوشہرہ میں طوفان الاقصیٰ کانفرنس سے خطاب 16 نومبر 2023

قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا نوشہرہ میں طوفان الاقصیٰ کانفرنس سے خطاب
16 نومبر 2023

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمٰن الرحیم 
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق اللہ العظیم

(ابتدائی کلمات پشتو زبان میں)
گرانقدر مشر، اس اجتماع کے صدر محترم، اس اجتماع کے میزبان جناب لیاقت خان، جناب احد خان، گرانقدر مشران، بہت ہی غیرتمند اکابر، گرانقدر مسلمان بھائیو! آج کی یہ اجتماع اس سرزمین پر، اتنی عظیم اجتماع یہ صرف جمعیت علماء اسلام پر آپ کا اعتماد نہیں بلکہ لیاقت خٹک صاحب کے فیصلے پر بھی آپ کو اعتماد ہے اور ان شاء اللہ العزیز جمعیت علماء کی منشور، نصب العین، مقاصد یہ ایک نئے جذبے، نئے ولولے، خلوص اور محبت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے اور یہی مقاصد حاصل کریں گے کیوں کہ پاکستان کی بقا انہی مقاصد سے جڑی ہوئی ہے۔
میرے محترم دوستو! نوشہرہ ویسے بھی میرے لیے کوئی انجان علاقہ نہیں ہے، میں نے دارالعلوم اکوڑہ خٹک میں آپ کے ساتھ آٹھ سال گزارے ہیں، میں نے آپ کے ساتھ عمر کا ایک بڑا حصہ گزارا ہے اور ان شاءاللہ میں جو بات آپ سے کہوں گا اور آپ سے جو عہد لوں گا یہ بڑی حجت میں آپ سے عہد لے رہا ہوں، اپنائیت کے احساس کی وجہ سے آپ سے یہ عہد لے رہا ہوں، اس مٹی نے پہلے بھی جمعیت علماء پر اعتماد کیا تھا اور ان شاءاللہ مستقبل میں بھی آپ جمعیت علماء اسلام پر اعتماد کریں گے۔
آپ کے ساتھ یہ چند ابتدائی باتیں میں نے پشتو میں کئیں لیکن میڈیا والے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لیے اردو میں بات کریں، تو آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ہماری آواز پورے ملک میں بھی پہنچ رہی ہے اور پوری دنیا میں بھی پہنچ رہی ہے تو باقی دنیا پشتو نہیں جانتی اور پشتون کو تو اللہ نے اس قابل بنایا ہے کہ وہ اردو سمجھ سکتے ہیں۔ (ترجمہ #سہیل_سہراب) 

 یہ وطن عزیز جو ہم نے لا الہ الا اللہ کے نعرے سے حاصل کیا تھا، 75 سال گزر گئے ہیں، کیا کبھی ہم نے من حیث القوم اپنے گریبان میں جھانک کر سوچا ہے؟ کیا کبھی ہم نے اپنا محاسبہ کیا؟ کیا ہم نے کبھی اپنی قومی زندگی کو جھنجھوڑا؟ اس ملک میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے، اس ملک میں ہماری بیوروکریسی نے، اس ملک میں ہمارے جاگیردار اور صنعت کار نے لا الہ الا اللہ کے ساتھ کیا مزاق کیا ہے اور کس طرح اس وطن عزیز میں اللہ کے دین کے سامنے رکاوٹ بنتے رہے ہیں، سو پون صدی کوئی تھوڑا عرصہ نہیں ہے! ابھی 25 سال پوری صدی گزرنے میں باقی ہیں، 75 سال ہم نے گزار دیے، اب ہمیں نئے زاویے سے سوچنا ہوگا، ہمیں ایک نئی نظر کے ساتھ سوچنا ہوگا، پرانی لکیروں کی پیروی کرتے کرتے اب ہم تھک چکے ہیں، 75 سال ہم نے پرانی لکیروں کی پیروی کی، ہم نے جو انہوں نے کہا اس کی پیروی کی، اب ہم مزید ان عناصر کی منافقانہ فکر، منافقانہ کردار کی مزید پیروی کرنے کے لیے تیار نہیں۔

میرے محترم دوستو! پاکستان کا احتساب تباہ کر دیا گیا، پاکستان کا امن تباہ کر دیا گیا ہے، یہاں اس وطن عزیز میں آج انسانی حقوق محفوظ نہیں ہیں، آج ایک مسلمان اور ایک خون جو کسی بھی دوسرے کے لیے حرام ہے اسے اپنے لیے حلال تصور کیا جا رہا ہے اور علماء کرام بیٹھے ہیں اگر کوئی چیز حرام ہو اور آپ وہ حرام کام کرے حلال سمجھ کر، کیا وہ مسلمان رہ جاتا ہے؟ تو آج مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور بہانے والا بھی مسلمان ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں یہ میرے لیے حلال ہے، میں ان سے کہتا ہوں ایمان کی تو دور کی بات، جہاد کی تو دور کے بات، تم پہلے اپنے دل پہ نظر نہ ڈالو کیا تم اس کے بعد مسلمان کہلانے کی بھی مستحق ہو؟ انسان کی جان محفوظ نہیں ہے، انسان کا مال محفوظ نہیں ہے، اس کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے اور جس ملک میں انسانی حق محفوظ نہ ہو اس پر کسی کو حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے! کہاں ہے انصاف؟ ہر آدمی در بدر کے ٹھوکریں کھا رہا ہے، عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا اس کو اور اگر آپ کسی سے کہے کہ ظلم مت کرو انصاف کرو، تو کہتے ہیں آپ ہم پر تنقید کیوں کر رہے ہو؟ تنقید نہیں کر رہے تمہاری اصلاح کرنا چاہتے ہیں، کوئی آسمان سے اترے ہوئے فرشتے نہیں ہو! تم بھی ہماری طرح کے انسان ہو لیکن اگر تم غلط راستے پر ہو تو پھر تمہیں سیدھا راستہ بتانا یہ ہمارا فرض بن جاتا ہے۔

 میرے محترم دوستو! معاشی بدحالی آچکی ہے، اللہ رب العزت ایک آبادی کی مثال دے کر فرماتے ہیں کہ ایک بستی جہاں پر دور دور سے رزق کھچ کھچ کے آرہا ہے اور وہاں امن بھی ہے وہاں اطمینان بھی ہے لیکن جب انہوں نے اللہ کی انعامات کی ناشکری کی تو پھر اللہ نے ان پر معاشی تنگی اور بد امنی مسلط کر دی، یہ دونوں چیزیں آج ہمارے ملک میں موجود ہیں، کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر یہ سوچنا ہے کہ نہیں! کہ ہم کہاں پر اللہ سے بغاوت کر رہے ہیں، کہاں پر اللہ کی نعمتوں کا ہم شکر ادا کر رہے ہیں! ہم اپنے اس پاکستان کی نعمت کا بھی شکر ادا نہیں کررہے، ہم نے اس ملک کی آزادی و حریت اس کو بھی امریکہ اور مغرب کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، ہم اللہ کی بندگی کرنے کی بجائے امریکہ کی غلامی کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں، انگریزوں سے نجات پانے کے باوجود آج بھی ہم انگریزوں کی پیروی کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں، ہمیں آزادی کے نام پر ایسی آزادی نہیں چاہیے! آزادی تب ہوگی جب ہم انسانوں اور طاقتور انسانوں کی غلامی سے نکل کر اپنے رب کی غلامی کی طرف جائے، اگر رب ناراض ہے امریکہ کی رضامندی مجھے کیا دے سکے گا؟ 75 سال پہلے اس کے غلامی کی ہے تو پھر آج بھی ہم کیوں بھوکے ہیں؟ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم ہے، پوری اسلامی دنیا کا ایک بھی ملک لیکن اس کے باوجود ہم خوفزدہ ہیں اور جہاں ایٹم بم ہماری حفاظت کرنے کے لیے ہے وہاں ہم اپنے ایٹم بم کی حفاظت کے لیے فکر مند رہتے ہیں، پوری بین الاقوامی دنیا کا ہمارے اوپر دباؤ ہے، کب ہم اس دباؤ سے نکلیں گے، کب ہماری قومی غیرت جاگے گی، کب ہمارا قومی احساس بیدار ہوگا، لہذا نئے سرے سے سوچنا ہے، چھوڑو پرانی لکیروں کو! جمعیت علماء ایک زمانے سے اس ملک کی سیاست میں ہے، ہر چند کہ جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یا بیوروکریسی ہے یا یہاں کے جاگیردار اور سرمایہ دار اور صنعت کار ہے بلکہ اب تو یہاں پر خود کو بڑے سیکولر کہلانے والے لوگ وہ بھی کہتے ہیں ملا کا سیاست کے ساتھ کیا تعلق ہے، ریاست کو مذہب سے آزاد کر دو، سیاست مذہب کا کوئی تعلق نہیں، ریاست اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں، تم اٹھتے رہو، تم چیختے رہو، تم چلاتے رہو، تم روتے رہو، جمیعت علماء موجود ہے تو اس پاکستان کے مستقبل کی سیاست اسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکے گا! جمیعت علمائے اسلام میرے اکابرین کے نظریات کا نام ہے، نظریہ ہو یا اس نظریے کے لیے کام کرنے کا رویہ ہو، یہ ہمیں اپنے اکابر سے ملا ہے اور اس کو فروغ دینا اور قوم میں اس کو قبولیت دینا یہ میرے کارکن کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ 

میرے محترم دوستو! یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، آج آپ دیکھ رہے ہیں، ہمارا اس بات پر اتفاق ہے اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سن 1940 میں جب لاہور کے مینار پاکستان کے میدان میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس قرارداد کا حصہ تھا کہ فلسطین کی سرزمین پر یہودی بستیاں آباد کرنے کو روک دیا جائے، یہ فلسطین پر قبضے کی سازش ہے اور بانی پاکستان نے بڑے واضح الفاظ کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ سن 1947 میں پاکستان بنا اور 1948 میں اسرائیل تو قائد اعظم نے کہا کہ یہ برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے، جناح صاحب کی پیروکاروں میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں، صرف اس کا نام بیچنے کے لیے تم ان کے پیروکار ہو! اور پھر جب اسرائیل وجود میں آیا اور اسرائیل نے اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا خارجہ پالیسی کے پہلے اعلان میں انہوں نے اس اصول کو واضح کیا کہ اسرائیل کا مقصد ایک نوزائیدہ اسلامی ملک کا خاتمہ ہوگا یعنی پاکستان کا خاتمہ! آج فلسطینی میدان جنگ میں ہے، وہ حالت جنگ میں ہے اور اسلامی دنیا میں سوائے الفاظ کی حمایت کے کوئی چیز ان کے پاس نہیں، افغانستان پر حملہ ہوا ساری اسلامی دنیا امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی لیکن یہ جمیعت علماء تھی جس نے ان حالات میں اٹھ کر کہا کہ نہیں امریکہ جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے اور افغانستان پر حملہ کرنے کا اسے کوئی حق حاصل نہیں! جب جنرل مشرف ان کو ہوائی انڈے دے رہا تھا، ان کے جہازوں کو حملہ کرنے کے لیے پاکستان کی فضائیں دے رہا تھا تو یہ پاکستان کی سرزمین امریکہ مردہ باد کے نعروں سے گونج رہی تھی اور جمعیت علماء کے کارکن نے یہ پرچم اٹھایا تھا۔ سو آج اگر غزہ سے فلسطین پر، فلسطین کی سرزمین سے اسرائیل پر حملہ ہوا ہے اور اسرائیل کے ہوش اڑا دیے ہیں، امریکہ براہ راست اس کی مدد کے لیے پہنچتا ہے، برطانیہ براہ راست اس کی مدد کے لیے پہنچتا ہے، امریکی وزیر خارجہ آتا ہے اور کہتا ہے میں صرف امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے نہیں آیا، میں تمہارے پاس ایک یہودی کی حیثیت سے آیا ہوں، اگر امریکہ کا وزیر خارجہ اسرائیل آکر کہہ سکتا ہے کہ میں ایک یہودی کے طور پر آیا ہوں، اسلامی دنیا میں کسی کے پاس یہ غیرت نہیں کہ وہ کہہ سکے کہ فلسطینی مسلمان بھائیو ہم مسلمان کی حیثیت سے تمہارے ساتھ کھڑے ہیں، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ مسلمان مسلمان بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی مسلمان کو کسی کے ظلم کے سپرد کرتا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهمْ وتَرَاحُمهمْ كمَثَلُ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّ۔ مسلمانوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنے میں، ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے میں ایسا ہے جیسے ایک جسم، جسم کے اگر سر میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار ہوتا ہے، اگر اس کی آنکھ میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار، اگر اس کے جسم کے کسی حصے میں بھی درد مچل رہا ہے پورا بدن اس کا ساری رات جاگتا ہے اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کیا ایک مسلمان بھائی کے لیے آج ہم اپنے اندر یہ کیفیت محسوس کر رہے ہیں؟ جنگ ہے جنگجووں کے ساتھ لڑو، جنگ ہے مجاہدین کے ساتھ لڑو لیکن پورے غزہ پر بمباری کرنا، عمارتیں زمین بوس ہو گئی، 11 سے 12 ہزار جو شہداء گنے جا چکے ہیں، جن کے جنازے پڑھے جا چکے ہیں، چار سے پانچ ہزار اس میں نابالغ بچے ہیں، چار سے پانچ ہزار اس کی خواتین ہیں، بچوں اور خواتین اور بوڑھے اور وہ لوگ جو پرامن شہری ہیں تم نے ان کا قتل عام کیا ہے اور جو ملبوں کے نیچے ہے وہ اس کے علاوہ ہے، کیا یہ جنگی جرائم کا مرتکب نہیں؟ کیا عالمی عدالت انصاف یا بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں وہ کوئی حق بات کریں گے یا گنگ رہی گی، جب مسلمان کسی کو گزند پہنچاتا ہے تو پورے امت مسلمہ کو تم دہشت گرد کہتے ہو، مذہب اسلام کو دہشت گردی کا مذہب کہتے ہو، پوری دنیا چیخ اٹھتی ہے، آج انسانیت کا قتل عام کیا جا رہا ہے، بچوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، مساجد کو بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بازاروں کو، مارکیٹوں کو، سکولوں کو، ہسپتالوں کو، تم نے زندگی کی تمام پہلوؤں کو تباہ و برباد کر دیا، زندگی معطل کر کے رکھ دی اور اس کے باوجود بھی آپ حق کی اور اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں! سنو مسلمانوں، مسلمان حکمرانوں، بیت المقدس ہمارا ہے، مسجد اقصی ہمارا ہے اور اس کو حاصل کرنا ہمارا بنیادی حق ہیں۔ 

میرے دوستو! آج ایک مسلمان بھائی کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا یہ ہر مسلمان کے اوپر فرض ہے، اسلامی حکمرانوں کے اوپر فرض ہے اور اگر ہم نے افغانستان کے اوپر حملے کی مذمت کی تھی، ہم نے اسرائیل کے اوپر صہیونی قوتوں کی حملے کی مذمت کی ہے، صرف مذمت نہیں کی میں نے اللہ کی توفیق کے ساتھ جرات کی اور قطر جا کر میں نے فلسطینی مجاہدین کے قائدین سے بات چیت کی۔ میں نے ان سے سنا انہوں نے صاف صاف کہا کہ ہمیں سب سے زیادہ توقع پاکستان سے ہے، اس لیے مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں اپنے ملک کے حکمرانوں کو جھنجھوڑوں لیکن ان حالات میں مجھے جمائما گولڈ سمتھ کا ایک ٹویٹ بھی پریشان کر رہا ہے جو کہتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارے خاندانی تعلقات ہیں اور میرے پاکستان کے سابق رشتہ داروں کی بھی ان کے ساتھ خاندانی تعلقات ہیں اور جب میں نے کہا تھا کہ عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ہے تو لوگوں نے میرا مذاق اڑایا، مجھے یقین تھا، میں اپنی بات پہ ڈٹھا رہا اور آج بچہ بچہ اس بات کو تسلیم کر رہا ہے کہ یہ بیرونی ایجنڈے پہ لایا ہوا تھا یہ پاکستان کے ایجنڈے پر نہیں لایا گیا تھا۔

میرے دوستو! جس نے پاکستان کے نظریے کو دفن کیا، جس نے پاکستان کی تہذیب کو دفن کیا، بداخلاقیوں کا تذکرہ کرنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے، ہماری منہ پر وہ الفاظ نہیں آسکتے، ہمیں حیا آتی ہے لیکن بداخلاقی اور بے حیائی کے جو بیج اس نے ملک میں بوئے ہیں اور خاص طور پر پشتون خواہ کے اندر، کہ پشتون خواہ کے نوجوان نسل کو کس طرح گمراہ کیا جائے، بخدا اس جلسے میں موجود نوشہرہ کے نوجوانوں، میرے سامنے ان کے لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری تھی اور مذہب کی ان گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس عمران خان سے زیادہ مناسب آدمی اور نہیں تھا، میرے سامنے انہوں نے اعتراف کیا ہے اور یہ بات اس وقت میرے سامنے کہی، میں وہ وقت بھی بتا دینا چاہتا ہوں نوشہرہ والوں کے لیے ضروری ہے یہ بات اس وقت مجھے انہوں نے بتائی جب صوبے میں جناب پرویز خٹک صاحب کی حکومت بن رہی تھی اور یہاں کی صوبائی حکومت ان کے حوالے کر رہی تھی، آپ بتائیں کیا ہم نظریاتی جنگ نہیں لڑ رہے؟ کیا ہم اپنی تہذیب کی جنگ نہیں لڑیں گے؟ کیا ہم اپنے نوجوان کو گمراہی سے نہیں بچائیں گے؟ تمہیں حکومت دی جائے گی، تمہیں وسائل دیے جائیں گے، تمہیں اربوں ڈالر یہاں پر بھیج کر نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے لیے سارا کچھ کیا جائے گا تو پھر ظاہر ہے ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں لیکن جو قوت ہمیں اللہ نے عطا کی ہے زبان کی طاقت ہے، اخلاق کی طاقت ہے، ہم نے گاؤں گاؤں جا کر اپنے نوجوان کو اس گمراہی سے محفوظ کرنا ہے، یہ ہمارے زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔

میرے محترم دوستو! ہم نے بہت لمبی جنگ لڑی ہے اور جب ناجائز طریقے سے دھاندلی کر کے اسٹیبلشمنٹ نے ان کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا، تو اُس اسٹیبلشمنٹ کو، ان جرنیلوں کو منہ پر کہنے والا، روبرو کہنے والا فضل الرحمن تھا کہ میں نے کہا کہ تم نے دھاندلی کرائی ہے، تم نے دھاندلی سے اس کو اقتدار پر لایا ہے اور میں دھاندلی کا الیکشن تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اور میرے اطمینان کا باعث تھا، میرے اطمینان کا باعث تھا جب مجھے یہ احساس ہوتا تھا یا کسی وقت حضرت حسین نے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی اور یا ہم نے یہاں عمران کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، ان شاءاللہ العزیز یہ نظریاتی جنگ آپ نے لڑنی ہے اور اس راستے میں جو بھی آتا ہے ہم کسی کو جدت کے راستے سے نہیں روک سکتے، حق کے راستے سے نہیں روک سکتے، اسلام کے راستے سے نہیں روک سکتے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس راستے کو اور طاقتور بنانا ہے اور طاقتور بنانا ہے، اس تحریک کو آگے لے جانا ہے اور مجھے یقین ہے کہ جہاں علمائے کرام نوشہرہ کی سرزمین پر اللہ کی دین کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں، لیاقت خٹک اور احد خٹک بھی یہی پرچم اٹھا کر اللہ کی دین کی سربلندی کے لیے میدان عمل میں ہونگے۔
 اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے، اللہ تعالی ہمارے دلوں میں خلوص بھر دے اور ہماری اس جدوجہد کو اپنے دربار میں قبول فرمائے۔
واٰخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 



0/Post a Comment/Comments