قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو 05 دسمبر 2023


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو
 05 دسمبر 2023

آج مدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس تھا تو مدارس کے حوالے سے نصاب کے حوالے سے امتحانات کے حوالے سے اس کے نظم و نسق کے حوالے سے  کوئی زیادہ زیادہ لمبا چوڑا ایجنڈہ نہیں تھا تو اس حوالے سے گفتگو ہوئی ہے اور کل ان شاءاللہ العزیز تمام دینی جماعتوں کا وہاں ہمارے کنونشن سینٹر میں بڑا اجتماع ہوگا فلس طین اور مسجد اقصی کے حوالے سے، تو اس کی دعوت بھی تمام اراکین کو دی گئی یہاں پر، ان شاءاللہ العزیز ابھی تو فی الحال یہیں تک محدود رہا ہے اور باقی یہ ہے کہ مدارس کے جو ازادی ہے اور جو پاکستان سے پہلے سے مدارس کا جو نظام چلا ارہا ہے اور پاکستان میں بھی مسلسل برقرار رہا ہے اس میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہونے چاہیے مدارس کے رجسٹریشن ہونی چاہیے لیکن رجسٹریشن کی اجازت ہونی چاہیے اور رجسٹریشن کے لیے قانون دو طرفہ رضامندی کے ساتھ ہونا چاہیے یک طرفہ طور پر اگر کوئی حکومت کوشش کرے گی کہ وہ مدارس پر اپنا ہی کوئی انتظام مسلط کرے گی تو یہ ان کو بھول ہے ایک مضبوط انسٹیٹیوشن ہے دینی مدرسہ اور اس کو اب تحلیل نہیں کیا جا سکتا لہذا نہ مغرب کی دباؤ کو قبول کیا جائے اور یہ دباؤ ہندوستان میں نہیں ہے یہ دباؤ بنگلہ دیش میں نہیں ہے تو برصغیر کا مسئلہ ہے تو پھر پاکستان میں کیوں ہے اور وہاں پر ایسے شرائط کیوں لگائے جا رہے ہیں کہ وہ سرکار کے کنٹرول میں اجائیں، سرکار کے کنٹرول میں اج تک پاکستان کی تاریخ میں جتنے مدارس گئے ہیں وہ سب تحلیل ہو گئے ہیں وہاں دین کا کوئی نام نہیں ہے وہاں پر تو اس حوالے سے مشاورت ہمارے رہتی ہے اور چلتی رہے گی ان شاءاللہ العزیز

سوال و جواب
سوال: مولانا صاحب آپ نے ملاقات کی میاں صاحب سے، کن امور پر تبادلہ خیال ہوا، ہم دیکھ رہے ہیں کہ دیگر پارٹیاں انتخابات کی تیاریاں کر رہی ہے لیکن جمعیت علماء اسلام کی جو تیاریاں ہیں وہ ہمیں نظر نہیں ارہی، وجوہات کیا ہیں اس کی اور کیا
جواب: انتخابات میں ہم ہر وقت جانے کے لیے تیار ہیں لیکن انتخابات کے لیے وہ ماحول دیا جائے جو انتخابات کے لیے ضروری ہوتا ہے، برابر کا فیلڈ کی بات تو ہو رہی ہے وہ کب نہیں رہی کسی کو اور صرف ایک پارٹی جو پارٹی ہی نہیں ہے اور اس کی پارٹی کی حیثیت تو پرسوں کے ان کے اجلاس سے ظاہر ہو گیا کہ چالیس پچاس لوگ کہیں سے بلائے گئے اور سارے عہدے جو ہیں صوبوں کے بھی مرکز کے بھی متفقہ دے دیے گئے تو اس طریقے سے پارٹیاں نہیں ہوا کرتی یہ ایک غبارہ تھا اور اس میں ہوا بھری گئی تھی بس ہوا نکل گئے تو غبارہ ختم ہو گیا۔ تو اس اعتبار سے ہمیں ماحول دیا جائے اور ماحول کیا ہے کہ دو صوبے اس وقت بدامنی کے لپیٹ میں ہے پرسوں بھی نوشہرہ میں ہمارے جمیعت علماء اسلام کے تین ایک بزرگ ایک اس کا بیٹا ایک اس کا داماد دکان میں بیٹھے ہوئے تینوں قتل کر دیے گئے وہ شہید ہو گئے، پشاور میں واقع ہوئے ہیں، باجوڑ سانحے کے بعد ہمارے چار پانچ ساتھی شہید ہوئے ہیں وہیں پہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک میں لکی مروت میں کوئی پولیس نہیں ہے، رات کو سارے علاقے جو ہے مسلح لوگوں کے ہاں ہاتھ میں ہوتے ہیں دن کو پولیس ا جاتی ہے ۔ تو اس ساری صورتحال میں کیا انتخاب مہم چلائی جا سکے گی ایک سوال ہے اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ ہم الیکشن ملتوی کرنا چاہتے ہیں لیکن الیکشن کا ماحول تو دیا جائے نا، پر امن ماحول ٹھنڈ اس کے علاوہ ہوگی اس دفعہ جو جو صورتحال بنے گی ۔
تو مسلم لیگ کے ساتھ ہماری جو ریلیشنز اب تک رہے ہیں گزشتہ حکومت میں بھی اس کے بعد بھی اور پھر اس پورے تین ساڑھے تین سالہ دورانیہ میں جو تحریک تھی وہ ہم نے مل کر چلائی ہے اور بھرپور ایک تعاون کے جذبے سے چلائی ہے ایک اتحاد کے جذبے سے چلائی ہے وہ ہم برقرار رکھنا چاہتے ہیں الیکشن میں بھی اور الیکشن کے بعد بھی، تو اس حوالے سے اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ ہم دونوں جماعتوں نے اب کمیٹیاں بھی بنا لی ہیں انہوں نے بھی ٹیم بنا لی ہے مذاکرات کی اور ہم نے بھی بنا لی ہے کے پی کے لیے، انہوں نے بھی بنا لیا ہے پنجاب کے لیے اور ہم نے بھی بنا لیا ہے اس کے لیے دونوں طرف سے رابطے ہو گئے ہیں باقی صوبوں میں بھی ان شاءاللہ اسی نظم کے ساتھ ہم انتخابی ایڈجسٹمنٹ کریں گے اور ہم ایک دوسرے کو بنیادی اتحادی کے طور پر ایک دوسرے کو کہلانے کے موڈ میں ہے ۔

سوال: مولانا صاحب یہ لگ رہا ہے کہ آٹھ فروری کو انتخابات کے حوالے سے اپ تیار نہیں، آپ چاہتے ہیں کہ اس کو اگے لے کر جاٸے ۔
جواب: نہیں، میں تیار ہوں میں نے اپ سے کہا میں تیار ہوں لیکن ماحول دیا جائے ماحول دیا جائے یہاں لاہور میں بیٹھ کر ماحول نہیں دیا جا سکتا، خیر خیریت ہے بہاولپور میں بھی خیر خیریت ہے ملتان میں بھی ٹھیک ٹھاک صورتحال ہے لیکن ذرا ہماری طرف تو ائیں میرے مہمان اگر اپ ہوں گے نا تو میں مغرب کے بعد آپ کو گھر سے نہیں نکلنے دوں گا۔

سوال: 
جواب: حضرت ہمیں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا ایک پارٹی کا اگر وہ نشانہ نہیں بنتا تو ان کا کیا رشتہ ہے ان کے ساتھ وہ ساری چیزیں لوگ خود سمجھیں ہم کیوں اس میں دلچسپی لیں خدانخواستہ ان کو کوئی نقصان ہو کیوں نقصان ہو اگر ہم نے کوئی جانی نقصان کرنے ہیں تو پھر ہم پارلیمنٹ میں کیوں ہیں ہم پارلیمانی سیاست کیوں کر رہے ہیں ہم ائین اور جمہوریت کی سیاست کیوں کر رہے ہیں اسی لیے کر رہے ہیں اور ہم نے تو اپنے ماحول کے ان جذباتی لوگوں کا کہ جنہوں نے جذبات میں ا کر اسلحہ اٹھا لیا ہے ان سے بیزاری کا اعلان کیا ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا اس کی سزائیں ہم نے پائی ہیں اور پا رہے ہیں ابھی تک بھگت رہے ہیں ہم لوگ، تو اس حوالے سے میں کسی اور پارٹی پر تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ مناسب نہیں ہوتا کہ میرے اوپر کیوں حملے ہو رہے ہیں تو اپ پہ کیوں نہیں ہو رہا یہ کوئی بات ہے یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔

سوال: مولانا صاحب اگلے انتخابات میں آپ وزیراعظم کس پارٹی سے دیکھ رہے ہیں ؟
جواب: جو عوام چاہیں گے یہ جو پہلے تبصرے ہوتے ہیں نا اور ہر ایک ایک چینل پر بیٹھ کر انے والے مستقبل کا مالک بن جاتا ہے ان کو ذرا اپنے حدود میں رہنا چاہیے یہ عوام کا فیصلہ ہوگا عوام کا فیصلہ کرے گا ان شاءاللہ اسی کے مطابق چلیں گے۔

سوال: مولانا صاحب پاکستان تحریک انصاف اس وقت زیر عتاب ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بزور طاقت ان کو روکا جا رہا ہے ہم نے ماضی میں بھی دیکھا کہ مختلف پولیٹیکل پارٹی کے ساتھ اس طرح ہو چکا ہے اخر سیاستدانوں کے ساتھ کب تک ایسا ہوگا کب تک پارٹیاں وفاداریاں تبدیل ہوتی ریے گی ؟
جواب: نہیں یہاں پر کچھ صورتحال اور ہے جن لوگوں کی وفاداریاں تبدیل ہو رہی ہیں ان کو جبری طور پر پی ٹی ائی کا وفادار بنایا گیا تھا یہ سارے مجبور ہو کر شامل ہوئے تھے زبردستی ان کو لایا گیا تھا لہذا ان قوتوں کو اور ان شخصیات کو طشت ازبام کر دینا چاہیے جنہوں نے لوگوں کے ہاتھ مروڑ کر گردن مروڑ کر لوگوں کو پی ٹی ائی میں داخل کیا اور جو لوگ وہاں گئے ہیں ہمارے سامنے انہوں نے خود کہا ہے کہ ہم کیا کریں ہم تو مجبور ہیں۔

سوال: مولانا صاحب نٸی پارٹی خیبر پختونخواہ میں لانچ کی گٸی ہے ان کے لیے راہ بھی ہموار کی جا رہی ہے تو اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟
جواب: میرے خیال میں یہ تجربہ ناکام ہے کسی کے لیے راہیں ہموار نہیں کی جاسکتی راہیں اپنے منشور اپنی جدوجہد اپنی تحریک اور اپ عوام کو کتنا اعتماد میں لے سکتے ہیں اپ کا کمپین کیا ہے اپ کا انتخابی مہم کیا ہے اسی حوالے سے طاقت بنتی ہے اور طاقت کا فیصلہ پھر وہ عوام کرتے ہیں ووٹ انہوں نے دینا ہے بیعت انہوں نے کرنی ہے جس پارٹی کے ساتھ کرے اور پارليمان کے اندر اپنی کیا نمائندگی بھیجتے ہیں تو ہم اصول کے تابع ہیں اور اصول کے تابع چلنا چاہتے ہیں زبردستی اور دھونس اور ان چیزوں سے شاید مسائل حل نہیں ہوں گے۔

سوال: مولانا صاحب پیپلز پارٹی کی ساتھ کیسے تعلقات ہیں کیوں کہ اب جو سولہ مہینے کی مشترکہ حکومت تھی اس پر بھی وہ اعتراض کر رہے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں اپ اگے ؟
جواپ: بس اپ ہمارے ان کے تعلقات خراب نہ کریں ہم گزارا کر لیں، ہم ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کر لیں گے، بہرحال اس وقت ہمارا انتخابی مہم کے حوالے سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat




0/Post a Comment/Comments