جامعہ اسلامیہ مردان کاٹلنگ کے زیر اہتمام منقعدہ اجتماع سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا خطاب 17 دسمبر 2023


جامعہ اسلامیہ مردان کاٹلنگ کے زیر اہتمام منقعدہ اجتماع سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا خطاب

17 دسمبر 2023
الحمدلله رب العلمین وصلواة وسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آله وصحبه و من تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلًا۔  فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا
صدق اللہ العظیم
گرامی قدر حضرت مولانا امداد اللہ صاحب دامت برکاتہم عالیہ، سٹیج پر موجود اور میرے سامنے اکابر علماء کرام، میرے بزرگو، جوانوں، میرے بھائیو اور عزیز طالب علموں ! ہم سب کے لیے یہ لمحات سعادت کے لمحات ہیں جب ہم ایک ایسے اجتماع میں شریک ہیں جو قران کی نسبت سے منعقد کیا گیا ہے۔ ساڑھے تین سو کے قریب بچوں نے قران کریم کو حفظ کیا ہے اور ان کے سینوں کو رب العزت نے اپنے کلام کا خزینہ بنا دیا ہے یہ بچے بھی مبارک ہیں۔ حفظ قران کی نسبت سے یہ اجتماع بھی مبارک ہے۔ اپ حضرات کی اس میں شرکت بھی مبارک ہے۔ اللہ رب العزت اس اجتماع کو قبول فرما لے اور اسے ہماری سعادت دارین کا ذریعہ بنائے اور مغفرت کا سبب بنائے۔
قران کریم اللہ کا پیغام ہے انسانیت کے لیے اخری پیغام، کامل اور مکمل پیغام، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کلام اتارا گیا اس پیغام کو پہنچانے والا بھی اخری، کامل اور مکمل پیغمبر اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالی نے اعلان کر دیا
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا
اج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور اسلام کو بطور نظام حیات کے میں نے تمہارے لیے پسند کر لیا ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ دین کامل اور مکمل ہے تعلیمات و احکامات کے اعتبار سے اور نعمت تمام ہے اس دین کے اقتدار کی صورت میں، اس کی حاکمیت کی صورت میں، مقام حاکمیت پر جب یہ دین پہنچتا ہے تو پھر اس کو اتمام کے لفظ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، تمام کے لفظ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے علماء کرام اج کے اس دور میں یہی دنیا کو سمجھانا چاہتے ہیں، یہی قوم کو سمجھانا چاہتے ہیں اگر ہم نے دین اسلام کو محض عبادات تک محدود کر لیا ہے اور اتنے بڑے دین کو جسے پہنچانے کے لیے اللہ تعالی نے لوح محفوظ سے اسمانی دنیا تک اور اسمانی دنیا سے روئے زمین پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ملائکہ کا عظیم الشان نظام قائم کیا اور بہت بڑے اہتمام کے ساتھ پوری حفاظت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا یہ ایک پیغام تھا اور اللہ رب العزت نے اپ کو یہ ذمہ داری سونپی بڑے اہتمام کے ساتھ اپ کو یہ ذمہ داری سونپی
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ
اے پیغمبر جو اللہ کی اور تیرے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا وہ پہنچا، تو لوگوں تک پہنچانا اور اس میں کسی ایک زبر زیر کا بھی اپ کو اختیار نہیں کہ اپ اس میں تبدیلی کر سکیں ایک حرف کی بھی تبدیلی کا اپ کو اختیار نہیں
بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ
رسول اللہ کے لیے اتنا کافی تھا اللہ تعالی کے حکم کو قبول کرنا اور پھر اس پر عمل درامد کرنا اس کی تدبیر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے لیکن اللہ رب العزت نے مزید اس کی اہمیت اپ کے دل میں بٹھانے کے لیے اگے فرما دیا
وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ
ایک تنبیہ تھی اس فرضیت کا دل کے اندر رسوخ پیدا کرنا کہ اگر یہ کام اپ نے نہ کیا کوئی تھوڑی سی بھی کمی چھوڑ دی تو مقصد رسالت فوت ہو گیا لیکن ظاہر ہے اپ نے جب اپنی نبوت کا اعلان ان الفاظ کے ساتھ کیا قولو لا الہ الا اللہ کہہ دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، کہہ دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حاکم نہیں، کہہ دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی امر نہیں، یہ جملہ ایسا جملہ تو نہ تھا کہ جس پر قریش کے بڑے اشتعال میں آگئے آپ نے تو فرمایا قولو لا الہ الا اللہ تفلحون بس اتنا سا ایک جملہ کہہ دو اپ کامیاب، لیکن ابو لہب کیوں اشتعال میں ایا اس لیے آپ نے ہمیں جمع کیا، ابوجہل کو کیوں اشتعال ایا، سرداران مکہ کو کیوں اشتعال ایا، وہ اس کلمے کے مطلب کو سمجھ گئے اگر ہم نے اس کلمے کو قبول کیا تو عرب پر ہمارا اقتدار ختم ہو جائے گا پھر اس کے بعد اللہ کی حاکمیت ہوگی لیکن چودہ سو سال کے بعد اج کا مسلمان، اج کا حکمران اور اج کا مسلمان سردار، اج کا مسلمان خان، اج کا مسلمان نواب، وہ اج بھی اس کلمے کے مقصد کو سمجھنے سے قاصر ہے کیوں ہم نے پاکستان بنایا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، پچھتر سال گزر گئے، پون صدی گزر گئی کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا، کیا ہم نے کبھی اپنا احتساب کیا، کیا ہم نے من حیث القوم کبھی یہ سوچا اس لا الہ الا اللہ کے ساتھ ہمارا پچھتر سالہ رویہ کیا رہا ہے، جو ہم نے اس ملک میں کیا، جو ہمارے مقتدرہ نے کیا، جو ہمارے ریاستی اداروں نے کیا، جو ہماری پارلیمنٹ نے کیا، جو ہمارے حکمرانوں نے کیا اور اگر اس میں کچھ علماء اس ماحول میں ائے اور انہوں نے یہی پیغام پہنچایا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے لیے دیا تھا ان کا مسخرہ اڑایا گیا ان کا مذاق اڑایا گیا لیکن الحمدللہ ہمارے اکابر کو اللہ رب العزت کروٹ کروٹ رحمتوں سے نوازے انہوں نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہر طرف سے گالیاں بھی ملتی رہیں، ان کی شخصیتوں کو مجروح کیا جاتا رہا تاکہ قوم ان کی گفتگو پہ اعتماد نہ کریں ان کی کردار کشی ہوتی رہی لیکن ہمیں یہ محاذ بھی معلوم تھا اللہ کے کلام کی سچائی اور اس کی صداقت کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا لیکن جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی وہ جو صداقت کا انکار نہ کر سکے تو پھر جو سچ بولتا ہے، جو سچ پیغام دیتا ہے اس کی کردار کشی کرتا ہے چنانچہ کلام پر تو کوئی حرف نہیں آسکتا ، کلام پر تو حرف لانا ممکنات میں سے نہیں تھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی شخصیت کو مجروح کیا یہ اسمانوں سے تمام مراحل کو عبور کرتے کرتے زمین پر پہنچتا ہے یہ پیغام اس سے کوئی تبدیلی ائی ہوگی شاید کہیں پر کوئی جملہ متاثر ہو گیا ہو، کوئی الفاظ میں رد و بدل اگیا ہو لیکن اللہ رب العزت نے حضرت جبرائیل کا دفاع کیا کہ نہیں یہ حضرت جبرائیل اللہ کے پیغام رساں ہے، اکیلے نہیں، ملائکہ کے حفاظتی دستے ان کے ساتھ ساتھ آرہے ہیں، اپنی ذات میں بھی وہ امین ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حضرت جبرائیل سے اللہ کے کلام میں ایک حرف کی خیانت کا امکان ہو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی کبھی کہا یہ شاعر ہے کبھی کہا یہ کاہن ہے تاکہ لوگ سمجھے کہ شاعرانہ قسم کی باتیں ہو رہی ہیں، کوئی تخیلاتی باتیں ہو رہی ہیں، اللہ رب العزت نے اس کا بھی دفاع کیا کہ وہ نہ شاعر ہے اور نہ کاہن، تنزیل من رب العالمین جو کچھ وہ انسانیت کو حوالے کر رہے ہیں رب العالمین کی طرف سے نازل کرتا ہے۔
تو علمائے کرام کو یہ پتہ ہے کہ ہماری باتیں سچی ہوں گی، ہم صحیح منشور دے رہے ہوں گے قران و سنت پر مبنی منشور ہم قوم کو دیں گے لیکن بیرونی ایجنٹ، ک ف ر کے دنیا کے نمائندے ان سے مرعوب وہ ہم پر الزامات لگائیں گے یہ مولوی صاحب تو جھوٹ بولتا ہے، یہ تو بڑا خائن ہے، ان کے ساتھ تو یہ ساری چیزیں ہمارے ساتھ ہوئی اگر ہمیں قران کی رہنمائی حاصل نہ ہوتی، اگر ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی نصیب نہ ہوتی، اگر ہم ان مدارس میں نہ پڑھے ہوئے ہوتے، اگر ہمیں اپنی تاریخ کی تعلیم ان مدارس اور اکابر علماء سے نہ ملتی شاید ہم بھی شکست کھا جاتے ذہنی طور پر، ہم بھی پسپا ہو جاتے لیکن ہم پسپا نہیں ہوئے ہم اج بھی ڈٹے ہوئے ہیں اج بھی کھڑے ہیں پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں کھڑے ہیں اور ان شاءاللہ یہ سفر کامیابی کی منزل پہ تمام ہوگا ان شاءاللہ۔ یہ وہ محاذ ہے اپ کا جو ہم قران کریم پڑھتے ہیں یاد کرتے ہیں مدارس میں اس کی تعلیم دیتے ہیں تو پھر اس کے مقاصد کو سمجھنا اس کی تہہ تک پہنچنا اس لیے اج جو دنیا میں ایک تصور قائم کیا گیا ہے مدرسہ ہے، طالب علم ہے، ملا ہے اور کیا کیا انداز کے ساتھ اسے کیا پتا کہ قران کے علوم کیا ہیں گھر میں بیٹھے بیٹھے تخیلات سے قران کا فہم سمجھ میں اتا ہے ؟ قران صرف مطالعے سے سمجھ میں نہیں ائے گا، حدیث صرف مطالعے سے سمجھ میں نہیں ائے گا ورنہ بہک جاؤ گے اور جتنے بہکے ہوئے ہماری تاریخ میں نام اتے ہیں ان سب نے یہی اختیار کیا کہ اپنی عقل پہ زیادہ اعتماد کیا ہے جب کہ قران ہو یا حدیث یہ سند رکھتا ہے سند، جو علماء کی طرف سے، اساتذہ کی طرف سے ہمیں جو سمجھایا گیا، جو تشریحات کی گئی، جو تفسیر کی گئی وہ بھی سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اس لیے ہم علوم کی تحفظ کر رہے ہیں۔ اس مدارس میں علوم کا تحفظ ہو رہا ہے اور پھر علوم کا تحفظ اگر اللہ نے آپ کو نصیب کر دیا ہے پھر اس کو ملک کا نظام بنانے کی جدوجہد میں شریک ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے صرف دین کو مکمل کرنے کی بات نہیں کی الیوم اکملت لکم دینکم یہاں پر بات تمام نہیں کی، واتممت علیکم نعمتی اور ہمارے اکابر نے اتمام نعمت کے معانی اس کے اقتدار سے کی ہے، اس کے حاکمیت سے کی ہے۔ اپنی سند کو سمجھیں، ہم نے تو دارالعلوم دیوبند کو یا دیوبندیت کو کمانے کے لیے ایک دکان بنا دیا اس کو، اس کو ایک فرقہ بنا دیا، یہ سند ہے ہماری، اور انہوں نے جو دین کی تعبیر کی، دین کی تعبیر تو عالمگیر ہے آفاقی ہے ہمہ گیر ہیں کیسے ہم نے اس کو ایک چھوٹے سے مسلک کے اندر بند کر دیا کس طرح ہم نے دو چار متنازعہ مسائل تک اپنے اس بہت بڑی امانت کو محدود کر دیا۔ ہم اپنے ساتھ ظلم کر رہے ہیں، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے 1919 میں جب جمعیت علماء قائم کی تو پورے ملک کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو اکٹھا کر کے اس جماعت کی بنیاد رکھی تھی، یہ اور بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم اس وحدت کو برقرار نہ رکھ سکے لیکن جن کے ہاتھوں میں یہ امانت ہے وہ اس بات کو پوری طرح سمجھتے ہیں اور اس کا ادراک رکھتے ہیں کہ اپنے اکابر سے دو چیزیں ہمیں ملی ہیں اور یہ دونوں امانت ہیں ان کی، ایک ان کا نظریہ اور عقیدہ اور دوسرا اس عقیدے اور نظریے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ، ہم نے منہج کو بھی تبدیل نہیں کرنا، کبھی اس میں شدت آجاتی ہے کبھی اس میں خدا جانے کیا کیا فسادات آجاتے ہیں یہ تو اپ کا دل گردہ ہے کہ ایسے فضا بنی، ایسے ماحول بنے خونریزیوں کے ماحول بنے اور اپ اپنی بات پہ ڈٹے رہے وقت کے ساتھ ساتھ ایسی چیزیں تحلیل ہو جاتی ہیں لیکن اصل باقی رہتی ہے۔
جمیعت علماء کو طاقتور بنائے سیاسی قوت اپ کی ہے تو اپ کے مدارس بھی محفوظ ہیں اپ کے مساجد بھی محفوظ ہیں اپ کے خطبے بھی محفوظ ہیں اپ کے امام بھی محفوظ ہے اپ کا ماحول بھی محفوظ ہے اس پیغام کو لے کر اگے بڑھنا ہے۔ قران کریم جس بلند تصور کے ساتھ عالمگیر تصور کے ساتھ حضرت انسان کے پاس لایا گیا ہے ہم نے اسی تصور کے ساتھ پیش کرنا ہے ہماری تقصیرات ہو سکتی ہے، ہمارے اندر کمزوری آسکتی ہیں لیکن ہماری کمزوریوں کو بھی تو یہی دین ہی ٹھیک کرے گا نا، اسی لیے تو ہماری اصلاح کرنی ہوگی نا، اور ہماری اصلاح کون کرے گا اب تک تو اس حوالے سے ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی ہوگی کہ دین اسلام کی آفاقیت و عالمگیریت اسی کے اندر پنہاں ہے اسلامی اخوت، وحدت امت اور امت کا ایک جسم ہونا ہمیں جغرافیائی تقسیم نے تتر بتر کر دیا اب ہمارے مفاداپت مشترک نہیں ہیں۔ ہر چھوٹے سے ملک کے اپنے مفادات، اپنی ضرورتیں اور اس کے لیے ان کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی اور کمزور خارجہ پالیسی، عالمی قوتوں کے زیر اثر کالونیاں تو ختم ہو گئی، پورا برصغیر انگریز کی کالونی تھا، کئی فرانس کی کالونیاں تھیں، لیکن اب تو کالونیاں نہیں ہیں لیکن عالمی قوتیں ہمیں غلام بنائے ہوئی ہیں عالمی اداروں اور عالمی معاہدات کے ذریعے سے، اپ کی سیاست اس پر قبضہ ہے عالمی اداروں کا، اقوام متحدہ کا، جنرل اسمبلی کا، سلامتی کونسل کا، انسانی حقوق کے عالمی تنظیمیں، جنیوا انسانی حقوق کنونشن یہ اپ کی سیاسی فیصلے کرتے ہیں اور جب یہ فیصلے کریں گی تو پھر ہم جیسے پسماندہ یا ترقی پذیر ملک کے اندر اس کا اپنا ائین اور اپنا قانون غیر موثر ہو جاتا ہے۔ ہماری معیشت اس کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے، ورلڈ بینک، ایشین بینک، قرضہ دینے والے ادارے ہماری معیشت کو کنٹرول کر رہے ہیں، ہماری دفاع کو کنٹرول کر رہے ہیں عالمی معاہدات کے تحت، ایٹم بم ہمارا لیکن ایٹم بم پر اختیار ہمارا نہ ہوگا فلاں معاہدے پہ دستخط کرو فلاں معاہدے پہ دستخط کرو تاکہ آپ پابند ہو جائیں سو اج بین الاقوامی دباؤ اس خطے میں صرف پاکستان پر کیوں ہے ؟ کہاں تک پہنچایا ہے ہمیں ان لوگوں نے، کہ ہماری ازادی داؤ پہ لگی ہوئی ہے، ہماری معیشت ہمارے دو عالمی قوتوں کے دباؤ میں، ہماری سیاست عالمی قوتوں کے دباؤ میں، ہمارا دفاع میں قوتوں کے دباؤ میں، اس لیے کہ پاکستان کی ایک جغرافیائی اہمیت ہے ہمیں امن سے اور چین سے جینے نہیں دے رہے۔ پچھتر سال انڈیا کے ساتھ دشمنی ابھی تک جاری ہے ، اف غ انستان ہر لحاظ سے ہمارا برادر ملک، پڑوسی بھی، مسلمان بھی لیکن کوشش ہو رہی ہے کہ وہاں بھی تعلقات خراب ہو جائیں، بین الاقوامی یہو د ی اور ص ہ یو نی قوتیں اج جو فلس طینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ بھی اپ سے کوئی مخفی تو نہیں ہے، روز مرہ کی صورتحال اپ کے سامنے ہے۔ دو مہینے کی اس جنگ میں 16 ہزار فلس طینی، بے گناہ فلس طینی جس میں اکثریت بچوں کی ہے، خواتین کی ہے، عام پرامن شہریوں کی ہے ان کو شہید کیا گیا کیا یہ جنگی جرم نہیں ہے؟ کہاں ہے عالمی عدالت انصاف جو ان جنگی مجرموں کو اپنے کٹہرے میں لا کے کھڑا کر دے، امریکہ ہو یا مغربی دنیا کوئی جمہوریت ان کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی، ان کے نزدیک طاقت ہی اصل چیز ہے طاقت کے بل بوتے پر وہ اپ کو فنا کرنے کے لیے تیار ہیں اپ کی نسل کشی کے نسل کشی کرنے کے لیے تیار ہیں، کہاں گیا وہ انصاف؟ کہاں گئی وہ جمہوریت؟ اور پھر کہتے ہیں ہم دنیا کی قیادت کریں گے انسانیت کے خون سے جن کے ہاتھ سرخ ہیں اور ان کے ہاتھوں سے انسانوں کا خون ٹپک رہا ہے وہ کہتے ہیں انسانوں کی قیادت کا حق ہمیں حاصل ہے۔ الٹی گنگا بہا رہے ہیں۔
بیس سال تک اف غ ا نستان میں کیا کچھ نہیں کیا انہوں نے، کیا ظلم برپا نہیں کی انہوں نے، کیا انسانی حقوق کا قتل نہیں ہوا؟ اور پھر یہ لوگ ہمیں انسانی حقوق سکھاتے ہیں، انسانی حقوق کی باتیں ہمارے سامنے کرتے ہیں، کہاں گئی وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں آج فلس طینیوں کے قتل پر کیوں ان کی زبانیں گونگ ہے؟ کیوں خاموش بیٹھے ہے؟ یہاں تو مدرسے میں اگر کسی استاد کی خبر اگئی کہ اس نے ایک بچے کو مارا ہے اسمان سر پہ اٹھا دیتے ہیں انسانی حقوق تباہ ہو گئے، انسانی حقوق، اج انسانیت کا خون بہہ رہا ہے، کتنے بچے لاوارث، ماؤں کے گود میں جن کا کوئی سارا گھر اجڑ گیا ان کو یہ بھی کل معلوم نہیں ہوگا کہ ہم کس کی اولاد ہیں، آبادیوں پر بمباریاں ہو رہی ہیں، کیوں ہو رہی ہیں امریکہ میں احتجاج ہو رہا ہے، یورپ میں احتجاج ہو رہا ہے، اسلامی دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا جب کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو امت کے بارے میں فرمایا کہ ”ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی اور دوستی میں ایمان والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک جسم کی، سر میں درد ہے تو پورا جسم بھی خراب ہو جاتا ہے انکھ میں درد ہے پورا جسم بے قرار ہو جاتا ہے“ ہماری بے قراری کہاں گئی اج، ہم اپنے مسلمان بھائی کے لیے کیوں فکر مند نہیں، یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو سوالات ہیں ہمارا میڈیا خاموش، اگر سوشل میڈیا پر اپ فلس طین کی بات کرتے ہیں اپ یہ و د ی کے ظلم کی بات کرتے ہیں اپ کا سوشل میڈیا کو بند کر دیتا ہے کہاں ہے ازادی اظہار؟  قران کریم کو جلایا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی جائے اس کو تو اظہار رائے کے زمرے میں ڈالتے ہیں۔ اور یہ ظلم برپا ہو مسلمان کا خون بہہ رہا ہے، بچوں کا خون بہہ رہا ہے، بچے یتیم ہو رہے ہیں، مائیں اور بہنیں جا رہی ہیں ، بے گناہ بھائی ملبوں تلے ڈھیر ہو رہے ہیں ان کو کوئی احساس نہیں۔
تو میرے محترم دوستو یہ آزمائش ہے ممکن ہے ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہو، ہمارے اعمال بھی اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن کوئی ایک قوت تو ایسی ہونی چاہیے مسلمانوں کی کہ جو ان حالات میں ڈٹ جائے، اسی لیے فلسط ینیوں کو دنیا نے تنہا چھوڑا، دنیا کے حکمرانوں نے تنہا چھوڑ دیا زبانی کلامی بس، لیکن الحمدللہ علماء نے ماضی کی طرح اج بھی برملا ان کی حمایت کا اعلان کیا اور کوئی کسی مصلحت کا لحاظ نہیں رکھا۔ یہ ہمارا اسلامی فریضہ، بحیثیت مسلمان ہمارا فریضہ تھا، ہوں گے لوگ مصلحتوں کا شکار اور ہم یہ بھی ساتھ چاہتے ہے کہ پاکستان میں پرامن ماحول ائے، بندوق کے ماحول کا خاتمہ ہو، انسانی حقوق محفوظ ہوں، پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں، اور جمعیت علماء اسلام ان شاءاللہ اس حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جو ہم سے ہو سکتا ہے، ہم ریاست کو بھی یہی مشورہ دینا چاہتے ہیں ہم ریاست کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان دنیا میں سر خرو ہو، پاکستان کے اہمیت میں اضافہ ہو، خطے میں اس کی اہمیت میں اضافہ ہو، اس کا اقتصاد بہتر ہو، اس کی معیشت بہتر ہو یہاں انسانی حقوق محفوظ ہوں اور دنیا کے انسانی حقوق کے لیے ہم اواز بلند کر سکتے ہو۔
یہ وہ پیغام ہے جو آج کے اس ماحول میں اس کو دوبارہ زندہ کیا قران کریم کا یہی پیغام ہے، قران علوم کا ہی تقاضا ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا یہ تقاضہ ہے اور ہمارے اکابر نے جو چیز ہم تک سند کے ساتھ پہنچائی ہے اس کو اسی حفاظت کے ساتھ اگلی نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔
اللہ تعالی علماء کرام کی ان کاوشوں کو قبول فرمائے اور رب العزت ہمیں استقامت نصیب فرمائے ازمائشوں سے اللہ محفوظ رکھے اگر مقدر ہے تو استقامت نصیب کرے اور میں ایک بار پھر اپ تمام حضرات کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور اپنے بچوں کو اور ان کے اساتذہ کو اور ان کے والدین کو مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat

مردان کاٹلنگ: جامعہ اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقدہ اجتماع سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان خطاب کر رہے ہیں

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, December 17, 2023











0/Post a Comment/Comments