قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا بہاولپور میں طوفان الاقصی کانفرنس سے خطاب
2 دسمبر 2023
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
وَقَاتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ۔ صدق الله العظیم
جناب صدر! ایک طویل عرصے کے بعد یہاں بہاولپور میں آپ حضرات سے مخاطب ہو رہا ہوں اس سے پہلے بھی یہاں بڑے اجتماعات منعقد ہوئے ہیں لیکن آج کے اس فقید المثال اجتماع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جمیعت علماء کے ساتھ آپ کی وابستگی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور ہر چند کہ میں یہاں ایک طویل عرصے سے حاضری نہیں دے سکا لیکن اللہ تعالی نے آپ کے دلوں میں جو ہمارے لیے جگہ بنائی ہے، ہمارے لیے دلوں میں جو قرب پیدا کیا ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس تعلق کو نہیں کاٹ سکتی اور ان شاءاللہ نہیں کاٹ سکی گی۔
میرے محترم دوستو! یہ اجتماع طوفان اقصیٰ کے عنوان سے منعقد ہو رہا ہے جمیعت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے کشمیر کا مسئلہ ہو تو ہم صف اول میں کھڑے ہوتے ہیں، برما کے مسلمانوں کا مسئلہ ہو تو سب سے توانا آواز جمیعت علمائے اسلام کی ہوا کرتی ہے، فلسطین کا مسئلہ ہو آج پوری دنیا میں سب سے توانا اور غیر مبہم آواز، غیر مبہم تائید اور غیر مبہم حمایت جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے دنیا کو پہنچ رہی ہے۔ آج اسرائیل کا نام لینا، حماس کا نام لینا گناہ ہو گیا ہے، ہماری انتظامیہ اور ہماری بیوروکریسی اور ہماری اسٹیبلشمنٹ وہ بھی ان کا نام لینے سے کتراتی ہے، ہم کیوں اپنے بھائیوں کا نام نہ لیں! میرے بھائیوں پر ظلم ہو رہا ہو اور ہم اپنے مظلوم بھائی کی حمایت نہ کر سکے ان کے حق میں ایک بول نہ بول سکے اللہ رب العزت نے ہمیں بھائی قرار دیا
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ
ایمان والے سب بھائی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فرمایا
مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهمْ وتَرَاحُمِهمْ كمَثَلُ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّی۔
ایمان والوں کی ایک دوسرے کے ساتھ دوستی میں ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی یکجہتی میں مثال ایسی ہے جیسے ایک جسم اگر جسم کی آنکھ میں درد ہے تو پورا جسم بے قرار رہتا ہے اگر جسم کے سر میں درد ہے تو پورا جسم بے قرار رہتا ہے اگر جسم کے کسی حصے میں درد مچل رہا ہو ساری رات جاگ کے گزرتی ہے بخار کے ساتھ گزرتی ہے بے قراری کے ساتھ گزرتی ہے یہ کیسا ایمان ہے یہ کیسا اسلام ہے کہ آج میرے مسلمان پر بارود کی بارش ہو رہی ہے میرے مسلمان بچوں پر میرے مسلمان ماؤں پر میرے مسلمان بہنوں پر میرے مسلمان بے گناہ شہریوں پر آگ برس رہی ہے اور میں ان کے حق میں مصلحتوں کا شکار ہو جاتا ہوں، حکومتیں آج اسلامی دنیا کی مصلحتوں کا شکار ہیں، ہمارے حکمران بھی آج مصلحتوں کا شکار ہے لیکن جمعیت علماء اسلام ببانگ دہل اعلان کرتی ہے کہ اگر کل امریکہ بہادر کی قیادت پہ دنیا کی تمام قوتیں مغربی قوتیں افغانستان پر حملہ اور ہو رہی تھی اور ہمارے حکمران ان کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے تھے تو یہی جمیعت علماء تھی جس نے سینہ تان کر میدان میں کھڑے ہو کر اپنے بھائیوں کے ساتھ دیا اور آج بھی جمعیت علماء سینہ تان کر فلسطین کے بھائیوں کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں موجود ہے۔
میرے محترم دوستو! اسلامی برادری کا تقاضا ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ کسی دوسرے کے ظلم کے سپرد کرتا ہے۔ صیہونی قوت جس نے 75 سال سے سرزمین عرب پر قبضہ کیا ہوا ہے فلسطینی اپنی آزادی اور حریت کی جنگ لڑ رہے ہیں، میں برصغیر کے مسلمانوں کو آسانی سے یہ بات سمجھا سکتا ہوں کہ برصغیر کی پوری تاریخ کو پڑھیں کیا ہمارے اکابر نے اپنی برصغیر کی آزادی کے لیے ڈیڑھ سو سال تک فرنگی قابض کے خلاف جہاد نہیں لڑا تھا! کیا ہماری تاریخ آزادی کے لیے لڑنے کی تاریخ نہیں! کیا ہماری تاریخ حریت کے لیے قربانی دینے کی تاریخ نہیں! میرے بھائیو آپ کو اپنی تاریخ پکار رہی ہے، آپ کو آپ کا اپنا ماضی پکار رہا ہے، آپ کو ماضی کی وہ قربانیاں پکار رہی ہیں جہاں میرے اکابر و اسلاف میرے اکابر و اسلاف جن کی 50 ہزار سے زیادہ علمائے کرام کو پھانسیوں پہ لٹکایا گیا، لاکھوں خواتین نے اس وطن عزیز کے لیے عصمتیں قربان کئیں جانیں قربان کئیں، کیا ہم نے ان قربانیوں پر ریت ڈال دیا ہے ہم نے ان کو دفن کر دیا ہے، خدا کی قسم ان شاءاللہ ہم اپنی قربانیوں کو اپنی آزادی کی جدوجہد کو اپنی تاریخ کو زندہ جاوید رکھیں گے اور کسی قیمت پر بھی نہ خود اسے دفن ہونے دیں گے اور نہ کسی کو دفن کرنے کی اجازت دینگے۔
میرے محترم دوستو! دنیا گھبرا رہی تھی سہمی ہوئی تھی ہم نے پشاور میں تاریخ کا عظیم الشان مظاہرہ کیا، ہم نے کوئیٹہ میں مظاہرہ کیا، ملین مارچ کیں، ہم نے کراچی کا تاریخ ساز اجتماع کیا، کل لاڑکانہ کا اجتماع کیا، مری کا اجتماع کیا، آج یہاں بہاولپور میں آپ کا یہ عظیم الشان اجتماع، صرف اجتماع ہی نہیں کیے لوگ احتیاط کا شکار تھے لیکن مجھے پتہ چلا کہ حماس کی قیادت قطر میں ہے میں نے کراچی میں جلسہ کر کے اگلے ہی روز قطر کا سفر کیا اور ان کی قیادت کے ساتھ براہ راست مل کر میں نے ان کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔
میرے محترم دوستو! میں اپنے کارکنوں کو اپنی جماعت کو بھی یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ سمجھو جو کچھ آج ہو رہا ہے ہم نے 15 سال پہلے اس کو تاڑ لیا تھا، ہم نے 15 سال پہلے بین القوامی یہودی لابی کے ایجنڈے کو تاڑ لیا تھا، ان کے ایجنٹ کو تاڑ لیا تھا، ہم نے اس سازش کو تشت از بام کیا تھا، ہم نے اس کے چہرے سے نقاب اتار دیا تھا اور آج الحمدللہ آپ کی اس استقامت کا نتیجہ ہے آپ کی اس مضبوط دیوار کا نتیجہ ہے جب آپ نے ان کا مقابلہ کیا بین الاقوامی قوتوں کے ایجنڈے کو شکست دی بین الاقوامی یہودی لابی کے ایجنڈے کو شکست دی اور پاکستان میں ان کا ایجنٹ آج مکافات عمل کے حوالے ہے جیل میں ہے اور ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں اس فتنے کو شکست دی ہے۔
میرے محترم دوستو! آج جس طرح پی ٹی آئی دربدر ہے، بلوں میں گھس رہے ہیں لیکن بلوں میں گھسنے کے لیے بھی ان کو راستہ نہیں مل رہا اس طرح حیران و پریشان ہے، ہم نے کہا تھا یہ کوئی پارٹی نہیں ہے یہ بنا ئی گئی پارٹی ہے ہم نے کہا تھا اس کا کوئی نظریہ نہیں ہے یہ جھوٹ بول رہے ہیں پبلک کے ساتھ نوجوان نسل کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں یہ بین الاقوامی ایجنڈے پر ہمارے نوجوان نسل کو خراب کر رہے ہیں ہماری تہذیب کو تباہ کر رہے ہیں ہمارے معاشرے کے سر سے حیا کا دوپٹہ چھین رہے ہیں حیا کی چادر نوچ رہے ہیں ہمارے اندر سے ایمان کا جذبہ چھین رہے ہیں اور میں بذات خود اس بات کا گواہ ہوں جب مجھے کہا گیا تھا کہ مولوی صاحب پیسہ آئے گا بہت بڑا پیسہ آئے گا تمہارے محلے محلے میں پہنچے گا تمہارے ایک ایک مسجد میں پہنچے گا ایک ایک مولوی کے پاس جائے گا ایک ایک خطیب کے پاس جائے گا سارے علماء ہمارے ساتھ ہوں گے اور تم تنہا رہ جاؤ گے میں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور آج پورا ملک دیکھ رہا ہے عوام کا سمندر اس بات کا مشاہدہ کر رہا ہے کہ کیا ایک عالم دین کو بھی وہ خرید سکے! ہاں ہمارے صفوں میں کچھ تھوڑا بڑا کوڑا کرکٹ تھا وہ ہم نے اٹھا کر اس کے چہرے پہ ماردیا، جمعیت علماء اسلام ایک نظریہ کا نام ہے ایک کردار کا نام ہے ان شاءاللہ اللہ کی توفیق سے یہ خاکسار مذہب کا تحفظ بھی کریں گے اور مذہب اسلام کے نفاذ کے لیے قربانی بھی دینگے۔ میرے محترم دوستو یہ کوئی پارٹی نہیں تھی جس طرح ایک طوفان آجاتا ہے اندھی آجاتی ہے کچھ وقت کے لیے شہر کو بھی گھیر لیتی ہے آبادیوں کو بھی گھیر لیتی ہے گزر جاتی ہے پھر نام و نشان تک معلوم نہیں ہوتا۔ آج اس کی جماعت میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ بیٹھ سکے اور اپنی پارٹی کے اندر کا الیکشن کر سکے تم یہ ڈمی قسم کے آج 40 50 لوگوں کو بٹھایا گیا اور ایک ڈمی قسم کا الیکشن کرایا گیا تف ہو تمہاری اس عوامی طاقت پر جو آج پبلک نے دیکھا ہے۔
لیکن میرے محترم دوستو قیام پاکستان کے 75 سال گزر گئے ہیں ہم نے ذرا اس کا بھی محاسبہ کرنا ہے اپنا بھی محاسبہ کرنا ہے اپنے گریبانوں میں بھی ہم نے جھانکنا ہے من حیث القوم ہم نے سوچنا ہے کہ جس لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر ہم نے یہ وطن عزیز حاصل کیا تھا کیا ہم نے اس لا الہ الا اللہ کا حق ادا کیا ہے؟ لا الہ الا اللہ کے لیے ہمارا کردار کیا ہے! یہ ہمیں من حیث القوم سوچنا ہوگا، ملک کے ہر شہری کو سوچنا ہوگا حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا لا الہ الا اللہ کے ساتھ منافقت کرنا یہ اللہ کے سامنے غداری کے مترادف ہے، خدا سے بغاوت کرو گے پھر خیریت آئے گی! پاکستان ایک نعمت ہے لیکن یہ نعمت تب برقرار رہ سکے گی جب ہم اس کی قدر کریں گے
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ۔
اللہ تعالی نے ایسے آبادی کی مثال دی ہے کہ جہاں پر امن بھی تھا جہاں اطمینان بھی تھا جب امن تھا تو اس کا معنی یہ کہ وہاں انسانی حقوق محفوظ تھے ان کا جانی مالی اور عزت و آبرو کے حقوق محفوظ تھے امن و امان اور اطمینان تھا وجہ کیا تھی کہ معیشت خوشحال تھی يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ ہر طرف سے رزق ان کے پاس کھچ کھچ کے آرہا تھا لیکن جب انہوں نے اللہ کے ان نعمتوں کی ناشکری کی تو پھر اللہ نے مزہ چکھایا ان کو بھوک کا بھی اور خوف اور بدامنی کا بھی، کیا ہمارے ملک میں آج یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں؟ نہ آپ کے ملک میں امن ہے اور نہ آپ کے ملک میں معیشت رہی ہے۔ کوئی ملک کی معیشت کو ٹھیک نہیں کر سکتا، یہ جو آپ حضرات کے بھی نعرے لگاتے ہیں کون بچائے گا پاکستان یہ بھی مناسب نعرے نہیں ہیں بچانے والا اللہ کی ذات ہے بس جو قافیہ مل جائے آپ لوگ نعرے لگا یا نواز شریف ہو یا اسحاق ڈار ہو بڑے اچھے منتظم بڑے اچھے ماہر معیشت لیکن اگر اللہ کی مدد نہیں ہوگی تو کچھ نہیں کر سکے، 75 سال میں ہم آج پاکستان کو وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا جب قرارداد مقاصد میں سن 1949 کی قانون ساز اسمبلی نے پاس کیا کہ حاکمیت اعلی اللہ رب العالمین کی ہوگی اور ہماری قومی و اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے اور اسلامی تعلیمات کے تابع ہوگی ہم نے اس کو بھلا دیا ہم نے اللہ کے ساتھ عہد کیا تھا، 1973 کے آئین میں ہم نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی لیکن آج آپ ذرا ملک کے چہرے کو تو دیکھیں! پاکستان کی شناخت اسلام کے حوالے سے نظر نہیں آرہی، پاکستان کی شناخت قرآن و سنت کے حوالے سے نظر نہیں آرہی ایک مذہب بیزار ایک سیکولر اور مذہب سے لاتلق ایک ریاست کا روپ دھار لیا ہے پاکستان نے، میرے دوستو اگر جنرل مشرف وہ اسلام کو پسند نہیں کرتا ملک کا ڈکٹیٹر پاکستان کو امریکی خواہشات کے تابع بنانا چاہتا ہے پاکستان کی پارلیمنٹ کو منجمد کر رہا ہے ہمارے پارلیمنٹ کو ایسے لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے جن کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوا کرتی تو پھر یہی ہوگا کہ آج ہماری ذمہ داری کیا ہوگی میرے بھائیو آج اپنے اس اجتماع سے یہ ذمہ داری پلو باندھ کر لے جاؤ اپنے ساتھ کہ آج کے بعد ہمارا مشن اس پاکستان کی شناخت کو دوبارہ ایک اسلامی پاکستان بنانے کا ہوگا۔
پنجاب میں تبدیلی لاؤ، میں اہل پنجاب سے کہنا چاہتا ہوں سب سے بڑی آبادی آپ کی ہے، پارلیمنٹ میں سب سے بڑی اکثریت آپ کی ہوتی ہے، سب سے بڑی صوبائی اسمبلی آپ کی ہے، تو سب سے بڑی ذمہ داری بھی آپ پہ پڑتی ہے، میں پنجاب میں ایک شہر میں گیا وہاں کچھ صحافی اکٹھے ہو گئے تو مجھے کہتے ہیں کہ آپ اسلام اسلام کی بات کرتے ہیں آپ نے اسلام کے لیے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا مجھے آپ بتائیں آپ نے اسلام کے لیے مجھے کتنا ووٹ دیا ہے؟ اب ہکا بکا، اگر ملک میں آئین ہے اگر ملک میں کوئی قانون ہے اگر ملک میں کوئی نظام ہے اور ہم پارلیمانی نظام سے وابستہ ہیں قوت پارلیمانی ہونی چاہیے اگر آپ پارلیمانی قوت کے لحاظ سے ہمیں زیرو پہ رکھتے ہیں اور پھر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسلام کے لیے کیا کیا تو شاید ہم ان کے ذمہ دار نہیں جس طرح آپ پنجاب کے عوام ذمہ دار ہیں، آپ نے سفر شروع کیا یہ جو ہمارا جنوبی پنجاب کہلاتا ہے ریاست بہاولپور آج کا بہاولپور ڈویژن اس کی تاریخ مذہب سے وابستہ ہے، یہ راسخ العقیدہ لوگ ہیں لیکن جاگیردار نے تمہارے ناک میں دم کیا ہوا ہے، ترقی کے سارے راستے روک دیے ہیں انہوں نے، تحصیل یا ضلع تونسا کے 53 سے لے کر جائیں آپ ہندوستان کے بارڈر تک جتنے علاقے ہیں جاگیرداروں کے قبضے میں ہیں عوام جاگیرداروں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہیں میں جانتا ہوں جاگیرداروں کو میں نے مقابلے کیے ہیں اور میں ان کی حیثیت کو جانتا ہوں میں نے جاگیرداروں کو دیکھا کہ وہ ایک غریب آدمی کو پبلک کے سامنے کھڑا کر کے جب ناراض ہو گیا ہوگا کسی بات پہ پبلک کے سامنے کھڑے کر کے ایک غریب انسان کے منہ میں وہ بھینس کا گوبر ڈال رہا ہے تم ہوتے کون ہو مجھے ناراض کرنے والے تم ہوتے کون ہو میری اور کیا مسئلہ تھا غریب کا کتا اس کو پسند آیاتھا غریب نے اس کو کتا دینے سے انکار کیا تھا، اس کردار کے لوگوں کو یہ آپ کے قائد ہوتے ہیں یا آپ کے نمائندے ہوتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں یہاں آپ کی زندگی کو آزادی حاصل نہیں ہے آپ غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں میں اس وسیب کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں خدا کے لیے آزادی کے لیے لڑنے والے شہدائے بالاکوٹ کا راستہ اسی وسیب سے گزرتا ہے اسی دین پور شریف سے گزرتا ہے آگے صوبہ سندھ میں یہی راستہ ہمارے آمروز شریف سے گزرتا ہے بلوچ علاقوں سے گزرتا ہے پشاور تک پہنچتا ہے اور پشاور کے راستے سے وہ حملہ اور ہوتے ہیں کیا مشقتیں اٹھائے انہوں نے، آپ اس ریگستان پر زندگی گزارنے والے آپ ان صحراؤں میں زندگی گزارنے والے ذرا اپنی سرزمین پر گزرتے ہوئے ان اکابرین کی قدموں کا تو لاج رکھ لو وہ آپ کی آزادی کے لیے جا رہے تھے وہ آپ کے مستقبل کو بنانے کے لیے جا رہے تھے لیکن جاگیردار خوانین نے غداری کی اور اس غداری کا نشانہ بنا لیکن یہ راستہ ہم نے چھوڑنا نہیں ہے اگر شیطان اور شیطانی قوتیں بار بار مار کھانے کے باوجود شیطانی عمل سے باز نہیں آتے تو ہم دین کے متوالے اور اسلام کی بات کرنے والے ایک دفعہ الیکشن میں شکست کھا جائیں تو پھر کہتے ہیں کہ کیوں کھڑے ہوتے ہیں لوگ ووٹ تو نہیں دیتے، یہ کوئی دلیل ہے! ایک دفعہ ہارو گے دوسری دفعہ ہارو گے بالآخر فتح آپ کی ہوگی، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے لوگ ہارتے ہارتے ڈٹے رہے آج وہاں کا نظام ان کے ہاتھ میں ہے اور جمیعت علماء نے گزشتہ چار سالوں میں کوئی 10 15 ملین مارچ کر کے اور آزادی مارچ کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اگر پاکستان کی کوئی سیاسی قوت ہر وقت ایک آواز پر لبیک کہنے والی کوئی طاقت ہے تو وہ صرف جمعیت علماء اسلام ہے۔ اس لیے اب ذرا نئے زاویے سے سوچنا ہوگا، نئے سے آپ کو ایک نیا مستقبل تراشنا ہوگا ایک نئے مستقبل کی تشکیل کرنی ہوگی ورنہ میرے دوستو یہ غلامی پھر آپ کی نسلوں کی طرف منتقل ہو جائے گی اور جب آپ کی نسلیں روئیں گی تو پھر آپ کی روحیں ان کی چیخ و پکار کا جواب نہیں دے سکیں گے، تو میرے محترم دوستو اگر ہم نے ان محرومیتوں کے دور کرنا ہے جن محرومیتوں کی باتیں ہم اور آپ جو ایک وسیب کے لوگ ہیں محرومیتی ہمیں آباؤ اجداد سے مل رہی ہے ہم ان کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اگر آپ کے پاس ووٹ کی طاقت ہے تو آپ نے ایک پرچی کی طاقت سے کایا پلٹ دینی ہے، تو ہمت چاہیے ایک فیصلہ آپ نے کر لینا ہے فیصلہ کرنے کے بعد جب آپ کا عزم اللہ دیکھے گا اللہ کی مدد کے سامنے پھر کچھ نہیں ٹھہر سکتا ان شاءاللہ ہمارا یہ سفر آگے چلتا رہے گا بڑھتا رہے گا اور میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ آج کل ایک عبوری حکومت ہے نگران حکومت ہے لیکن آئے روز کوئی نہ کوئی آرڈیننس آجاتا ہے اور ہمیں آئی ایم ایف کی طرف دھکیل دیتا ہے ہم بین الاقوامی اداروں کے غلام نہیں رہنا چاہتے ہم اس ملک میں آزاد رہنا چاہتے ہیں اس ملک کی معیشت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں من حیث القوم ایک ہونا ہوگا تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جمیعت علماء اس کردار کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہے ان شاءاللہ کسی قیمت پر ہم پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں اللہ نے ہمیں عزم دیا ہے اللہ نے ہمیں استقامت دی ہے اللہ نے ہمیں توفیق دی ہے اور مزید بھی ہم اسی اللہ سے مدد اور توفیق کے طلبگار ہیں میں آپ کو بہت شکر گزار ہوں۔
واٰخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں