اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب کی اہم پریس کانفرنس 28 دسمبر 2023


اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی اہم پریس کانفرنس
 28 دسمبر 2023

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

پورے ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ امیدواران نے داخلے بھی کر لیے ہیں، اُن کی داخلہ کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے مراحل چل رہے ہیں اور اِس وقت پوری قوم آٹھ فروری کی طرف متوجہ ہے۔ جمیعت علماء اسلام ایک بڑی اہم سیاسی مذہبی جماعت کے طور پر انتخابات میں حصہ لے گی، عوام سے ہمارا رابطہ اور ہمارا تعلق نظریات کی بنیاد پر ہے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر لاکھوں مسلمانوں نے اور ہماری ماؤں بہنوں نے اِس وطن عزیز کے لیے جانوں کی قربانیاں دیں لیکن پچھتر سال گزر جانے کے بعد بھی ہماری جدوجہد کا محور یہ ہے کہ پاکستان کو ایک مکمل اسلامی مملکت کی شناخت دی جائے جہاں پر قران و سنت کا نظام ہو اور قران و سنت کی روشنی میں قانون سازی ہو، انسانی حقوق کا تحفظ ہو اور عام آدمی کو پرامن زندگی گزارنے کے مواقع حاصل ہوں، تعلیم اور صحت اُن کی بنیادی اور اساسی حقوق ہیں، اُنہیں مفت تعلیم اور مفت صحت کے مواقع مہیا کیے جائیں لیکن بد قسمتی سے ہم اج بھی اپنے اِس وطن عزیز کو ایک اسلامی مملکت کی شناخت نہیں دے سکے ہیں۔ حکومتیں اتی ہیں اور وہ مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنا وقت گزار دیتی ہے لیکن نائن الیون کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کی ترجیحات وہ ایک اسلامی پاکستان کی نہیں رہی، اج اس کی شناخت مسخ ہو چکی ہے اور ایک سیکولر سٹیٹ کے طور پر دنیا میں متعارف ہو رہا ہے یہ ہمارا ہدف ہے کہ ہم اِس وطن عزیز کی دنیا میں شناخت ایک اسلامی پاکستان کی صورت میں کریں یہ پاکستان کے ائین کا بھی تقاضہ ہے۔
ہم پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اُصول پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اختلافات کو بین الاقوامی اُصول اور بین الاقوامی قوانین کے تابع ہوتے ہوئے حل کرنا چاہتے ہیں، مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں اور ہند و ستان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہٹ دھرمی کی بجائے اور طاقت کے استعمال کی بجائے پرامن حل کی طرف آئیں اور کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دیں تاکہ اُن کو اُن کا ایک آزاد سیاسی مستقبل ملے۔ ہم افغا نستا ن کے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات اور اُس میں استحکام کے قائل ہیں بعض اوقات کچھ شکوے شکایات پیدا ہو جاتی ہیں ہمیں دونوں ملکوں پاکستان اور افغا نستا ن کے داخلی امن و امان مقصود ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے رشتے پیدا کرنا اور پھر اُن رشتوں کو مضبوط کرنا یہ ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں اما ر ت اسلامیہ ا فغا نستا ن نے مجھے باضابطہ دعوت دی ہے اور وہ دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہتے ہیں، ان شاءاللہ یہ جو ہمارے کچھ الیکشن کے حوالے سے یہاں کی مصروفیات ہیں اُس سے تھوڑا فرصت ملنے کے بعد ہماری پہلی ترجیح ا فغا نستا ن کا دورہ ہوگا اور ا ما ر ت اسلامیہ کے حکمرانوں سے ملاقات ہوگی اور دونوں ممالک کے تعلقات میں اعتماد پیدا کرنا اور اُس میں استحکام پیدا کرنا اور باہمی اعتماد سے اپنا مستقبل مرتب کرنا یہ ہمارا اہداف ہوں گے۔ پاکستان کا استحکام ا فغا نستا ن کی ضرورت ہے اور ا فغا نستا ن کا استقلال یہ پاکستان کی ضرورت ہے۔
اِس وقت ملک کے اندر امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے۔ دو صوبے اِس وقت بدامنی کی زد میں ہے اور ہم مسلسل کہتے چلیں ا رہے ہیں کہ جہاں ہمیں الیکشن دیا جائے وہاں انتخابی ماحول بھی ضروری ہے کہ لوگ اُس ماحول میں آزادانہ طور پر ووٹ کا بھی استعمال کر سکیں اور تمام امیدوار یکساں طور پر عوام کے پاس جانے کے لیے پرامن ماحول حاصل کر سکے۔
تو یہ ساری چیزیں اگلے الیکشن میں ہمارے اہداف ہوں گے۔ فاٹا کے انضمام کے بعد بظاہر انضمام کا تجربہ ناکام نظر ا رہا ہے، جو وعدے وعید فاٹا کے عوام کے ساتھ ہوئے تھے دس فیصد بھی اُس پر عمل نہیں ہو رہا اور وہاں کا عام آدمی اب پریشان ہیں کہ ہم فاٹا ہیں یا ہم صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ، سات سال پورے ہونے کو ہیں نہ اُن کے ساتھ وعدہ کیے گئے سالانہ سو ارب روپے اُن کو دیے جا رہے ہیں، میرے خیال میں اب بھی سو ارب ابھی تک ہم ان کو نہیں دے سکیں ہیں جو کہ ہر سال ہم نے دینے تھے اُن کو، نہ وہاں پر عدالتیں بیٹھ سکتی ہے نہ وہاں پر لینڈ ریکارڈ تیار کیا جا سکا ہے نہ وہاں پر زمینوں کے تقسیم کا کوئی نظام موجود ہے ڈپٹی کمیشن جاتا ہے تو حیران پریشان، کوئی پولیس افیسر جاتا ہے تو وہ حیران و پریشان، کسی طریقے سے بھی وہاں پر لوگوں کو بہتری مہیا کرنے کے لیے کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی۔ یہ ہمارے اہداف میں ہوگا کہ ہم اُن کی بہتری کے لیے اقدامات کر سکیں اور ایک بار پھر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ فاٹا کے عوام کو حق دیا جائے کہ وہ اپنی سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔
اِس وقت ا سر ا ئیل فلس طینی باشندوں پہ جس طرح بمباری کر رہا ہے بیس ہزار سے زیادہ عام شہری اِس وقت تک شہید ہو چکے ہیں اِن کی بمباریوں کے نتیجے میں، اور اُن میں 70 فیصد تعداد بچوں کی ہے یا خواتین کی ہے۔ یہ جنگی مجرم ہے اور دنیا کو جنگی جرم کا نوٹس لینا چاہیے، امریکہ کس طرح انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، یورپ کس طرح انسانی حقوق کی بات کرتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ ایک جنگی جرم کو سپورٹ کر رہا ہے۔ بچوں اور خواتین کے قتل کو سپورٹ کر رہا ہے لیکن یہ بذات خود ایک جنگی جرم ہے۔ عالمی عدالت انصاف اس کا نوٹس لے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کا نوٹس لے، ا سر ا ئیل کا یہ خیال تھا کہ ہم اتنے بڑے پیمانے پر جب تباہی مچائیں گے، غزہ پر ہم بمباریاں کریں گے اُن کے نقصانات ہوں گے اِس سے فلس طین کی جو دفاعی تحریک ہے اور جو سات اکتوبر کو سامنے ائی ہے وہ مرعوب ہو جائے گی، وہ دم توڑ دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، فلس طینی مردانہ وار لڑ رہے ہیں اور ا سر ا ئیل کی فوج اُن کے دفاعی قوت اور اُس کا تکبر اِن مجا ہد ین نے زمین بوس کر دیا ہے خاک میں ملا دیا ہے اور اب اسر ا ئیل اب اپنے وجود کی جنگ لڑے گا کہ میں اپنی بقا کی جنگ کیسے لڑوں یہاں پر وہ اگیا ہے اب اُس کی بقا کا کوئی امکانات بظاہر نہیں نظر ا رہے، فلس طینی ازادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور معاہدہ دار فور ایک ناجائز معاہدہ تھا، قائد اعظم نے اس کو ناجائز بچہ کہا، پاکستان کی قرارداد میں فلس طینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا حصہ شامل کیا گیا یہ تمام ہماری تاریخ ہے اُس کے باوجود یہاں پر ا سر ا ئیل کو تسلیم کرنے کے لیے ایک باقاعدہ حکومت جمائی گئی، ایک اقتدار بنایا گیا تاکہ اسر ا ئیل کو تسلیم کرایا جا سکے پاکستان سے، لیکن الحمدللہ یہاں پاکستان کے سرزمین پر جمعیت علماء اسلام رکاوٹ رہی ملین مارچ ہم نے کی اس تصور کے خلاف اور میڈیا پر ہم نے ان کے زبانیں روک دی اور عالمی سطح پر حما س نے ان کی مجا ہد ین نے غزہ کے مجا ہد ین نے قربانیاں دے کر عالمی فکر کو تبدیل کر دیا ہے۔ مسئلہ فلس طین کو اس کے اپنے اصلی موقف کے ساتھ انہوں نے دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ہم نے اقدام کیا ح م ا س کی قیادت سے ملنے کے لیے میں خود قطر گیا اور دنیا کو ان کی طرف متوجہ کیا اج وہ عالمی شخصیات اور حکومتوں کے رابطوں کے لیے مرکز بن گئے ہیں اور ان شاءاللہ وہ اپنا اعتماد پوری دنیا میں دوبارہ قائم کر کے اگے بڑھیں گے اور فلس طین کی ازادی کے ہدف کو حاصل کریں گے۔ میں فلس طین کے دفاعی تحریک کی حمایت کرتا ہوں اسے ایک جائز جنگ سمجھتا ہوں اور پاکستان کے عوام کو جب ہم نے اپیل کی کہ وہ مالی تعاون کریں پاکستانی عوام نے جس تنظیم کو بھی، جس این جی او کو بھی مالی تعاون دیا ہے فلس طینیوں کے لیے، ہر حوالے سے ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں پاکستانی قوم کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ اس مرحلے پر عوامی سطح پر بھی فلس طینیوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ہم نے خود جو جمیعت علماء اسلام کی سطح پر جلسے کیے چاہے وہ پشاور کا تھا چاہے کوئٹہ کا چاہے کراچی کا چاہے لاڑکانہ کا، بہاولپور کا، مری کا، تاریخی جلسے ہوئے ہیں اور ہم نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اس پر بھی ہم پاکستانی قوم کے شکر گزار ہیں اور دوبارہ ایک بار ہم ح م ا س کی قیادت کو اور فلس طین کے مج ا ہد ین کو یکجہتی کا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی قوم اپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

سوالات و جوابات
سوال: مولانا صاحب لوگ ائے ہوئے ہیں لاپتا افراد کے مسئلے پہ، بلوچستان اور کے پی کا مسئلہ ہے وہ اپ کے پریس کانفرنس میں نظر نہیں ائے تو اس پہ اپ کیا کہتے ہیں دوسرا یہ کہ ٹی ٹی پی کا بھی یہ موقف ہے کہ فاٹا مرجر کو ختم کیا جائے اپ نے بھی اج
جواب: میں نے بھی آج، یہ کیا کہہ رہے ہیں میں نے بھی اج، یعنی اپ نے کریڈٹ سارا ٹی ٹی پی کو دے دیا اور میں اج، نہیں خدا کا خوف کرو یار یہ تو موقف ابتدا سے ہم نے لڑا ہے پارلیمنٹ بھی ہم نے لڑا ہے میاں نواز شریف صاحب کی اتحادی ہو کر ہم نے اتحادی حکومت کے ساتھ اختلاف رائے کیا تھا اور ہم اپنا موقف پیش کر رہے ہیں اپ کس طرح ایک سیاسی محاز سے اس مسئلے کو اٹھا کر دوسری طرف پھینک رہے ہیں مجھے کسی صحافی سے یہ توقع نہیں ہو سکتی۔ ہم بار بار ان کے دھرنوں میں جا چکے ہیں ان کے ساتھ یکجہتی کر چکے ہیں اور اس موقف پر ہم قائم ہے کہ معاملات کو قانون کے حوالے کیا جائے ۔

سوال: مولانا صاحب یہ جو فلسطین کے حوالے سے دو قومی نظریہ ہے پھر ایک کمپین چل رہی ہے کہ دو ملکی جو ہے فلسطین کو بھی اور ا سر ا ئیل کا بھی حوالے سے اگر یہ نقطہ نظر
جواب: بدقسمتی سے سے ہمارے نگران وزیراعظم نے جس کو شاید سیاست کے ابجد کا بھی پتہ نہیں ہے لیکن ملک کا وزیراعظم ہے ہماری قسمت، انہوں نے کہا ہے کہ قائد اعظم نے بھلا کہا ہو ہم اسے اختلاف کر سکتے ہیں کل کوئی ادمی اٹھے گا اور کہے گا قائداعظم نے بھلا دو قومی نظریے کی بات کی ہو ہم اس سے اختلاف کر رہے ہیں ان کو نہیں مانتے پاکستان کا وجود غلط تھا، ازسر نو مسٸلہ اٹھایا جا سکتا ہے، کس طرف متوجہ کیا، کیا پینڈورا کھول رہے ہیں، ا پاکستان ایک ملک ہے ایک حقیقت ہے اس اختلاف رائے کا حق تھا ایک جمہوری رائے تھی بننے کے بعد اس کے وجود کو تحفظ یہ ہمارا فرض بن گیا لہذا یہ چیزیں اسر ا ئیل کے لیے دلیل نہیں بن سکتی، اگر ا سر ا ئیل کے لیے دلیل بندی تو پاکستان کے قیام کے حوالے سے دو قومیں نظریہ تو 1940 میں طے ہوا تھا اس کے باوجود قائد اعظم نے کیوں کہا کہ وہ غلط ہے پھر جب 48 میں وہ بنا اور قائد اعظم حیات تھے اور انہوں نے ناجائز بچہ کہا اس کو، تو وہ ساری چیزیں دو ریاستی تصور کی نفی کرتی ہے پاکستان کا ڈی این اے یہی ہے کہ وہ اسر ا ئیل کے وجود کو تسلیم نہ کرے اور فلسط ینیوں کے حقوق کی تحفظ کریں۔

سوال: مولانا صاحب یہ فرمائیے کہ اپ نے دو صوبوں میں امن و امان کی بات کی کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ لوگوں سے کاغذات چھینے جائے، پرویز الہی کی بیوی کے ساتھ جو ہوا، عثمان ڈار کی والدہ کے ساتھ جو ہوا، جو شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہوا، کیا کبھی ایسا بھی ہوا یہ بھی لیول پلینگ فیلڈ ہونی چاہیے۔
جواب: میرے خیال میں جہاں تک اصولی بات ہے تو یہ چیزیں غلط ہے نمبر ایک، نمبر دو یہ کہ یہ فضا کیوں بنائی جا رہی ہے پی ٹی ائی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی کو اس الیکشن میں پروجیکٹ کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ یہ چیزیں ہم سمجھتے ہیں ان چیزوں کو دوسرے پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ اس ملک پہ لائے گئے معیشت تباہ کر دی گئی اور اپ نے عوام کو اور ملک کی معیشت کو دیکھا کہ جس دن جس دن عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اگلے دن ہماری اسٹاک ایکسچینج منفی پانچ سو چلی گئی منفی 500 پہ چلی گئی، جب کل اس کے اگے دو دن کے بعد پھر دوسرا فیصلہ ایا کہ نااہلی برقرار رہے گی ہم 1500 پلس پہ چلے گئے دوبارہ جی، یعنی قوم خوف کھا رہی ہے ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے ان کو پتہ ہے کہ ملک کی معیشت کی تباہی ان کا ایجنڈا تھا اور اگر دوبارہ اتے ہیں تو ملک کی تقسیم کا سبب بنیں گے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا لہذا اس عنصر کے خلاف قوم کو ایک صف ہونا ہوگا اور ان چیزوں پہ نہ جائے روز مرہ کے، نظریاتی طور پر سوچیں کہ یہ لوگ کون ہیں۔
سوال: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ ڈی آئی خان میں اور ٹانک میں اس وقت جو موجودہ صورتحال ہے اس میں کیا سمجھتے ہیں جب وہاں پہ پولیس کے اوپر بھی حملے ہو رہے ہیں ایسے میں الیکشن اپ کس طرح دیکھتے ہیں ؟
جواب: میں اپ بتا رہا ہوں نا جی، بنیادی بات یہ ہے کہ باجوڑ واقعے میں اب تک ہمارے جمیعت علمائے اسلام آسی کارکن شہید ہو چکے ہیں، ہم تو خون کے تالاب میں کھڑے ہیں اس وقت بھی وہاں کے بازاروں میں اشتہار لگائے جا رہے ہیں کہ یہ ڈیموکریسیو کی بات کرنے والے کا ف ر ہیں ان کی جلسوں میں جائے تو لوگ احتیاط سے جائے، ہمیں ان حالات کا سامنا ہے اور ہمارے چیف الیکشن کمشنر صاحب کہتے ہیں کہ دو صوبوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے لیکن میں دعا گو ہوں، کیا دعا گو ہے ان کو تین ججوں نے بلایا، تین ججوں نے بلا کر ان سے کہا کہ اپیل دائر کرو ابھی ابھی، اس کو اپیل دائر کروائی، عشاء کے وقت کوٹ کھولی گئی، تین جج بیٹھے ان کو کہا کہ اپیل دائر کرو اس نے اپیل دائر کی اور ان کو اسی وقت حکم دیا کے ابھی شیڈول جاری کرو اگر چیف الیکشن کمشنر نے اور الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کرنا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم پہ کرنا ہے تو الیکشن کمیشن کب ازاد ادارہ ہوا ؟ کب ہم یہ سمجھیں کہ الیکشن کا معاملہ ہو کے تمام اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس ہیں۔ اگر میرا ایک کارکن اس انتخابی مہم کے دوران زخمی ہوا یا شہید ہوا اس کا ذمہ دار چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس پاکستان ہوں گے۔ اور جب ہم ایسے حقائق کی بات کرتے ہیں تو فورا پیچھے شروع کر دیتے ہیں لاحقہ، کہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں الیکشن کے لیے میں نے ساڑھے تین سال جنگ لڑی ہے، میں الیکشن کا طلبگار ہوں لیکن کیا مجھے الیکشن میں یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں الیکشن مانگوں اور الیکشن کے ماحول کا بھی مطالبہ کروں۔

سوال: پی ٹی ائی کی جو پروجیکشن ہو رہی ہے یا کروائی جا رہی ہیں یہ کون کر رہا ہے ؟
جواب: ابھی تو صحافی کر رہے ہیں باقی مجھے پتہ نہیں

سوال: الیکشن کی اپ نے بات کی اپ نے ابھی سب سے پہلے اپ نے یہ کہا تھا کہ جمیعت علماء اسلام جو ہے وہ الیکشن میں جا رہی ہیں بڑی جو ہے وہ طریقے کے ساتھ جا رہی ہے یہ بتائیے گا کیا الیکشن میں جانے سے پہلے اپ کی جو اپ کے سابقہ اتحادی ہیں ان کے ساتھ کوئی بات چیت ہوئی ہے کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کہیں کر رہے ہیں، سیاسی اتحاد کر رہے ہیں یا نہیں ؟
جواب: ہمارا ایک طے شدہ معاملہ ہے جہاں جس ضلعے میں ضلعی جماعت کسی کے ساتھ بھی ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے ان کو حق حاصل ہے ان کو ہم نے یہ اجازت دی۔

سوال: مولانا صاحب جیسا کہ آپ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بتا رہے ہیں ایسی حالت میں انتخابی کمپین تو ہر صورت کرنی پڑے گی تو کیا آپ کی انتخابی مہم
جواب: حضرت ہمیں باقاعدہ انتظامیہ کی طرف سے نوٹس ملے ہیں، ہمیں باقاعدہ نوٹس ملے ہیں، صرف مجھے نہیں باقی پارٹیوں کو بھی کہ اپ الیکشن کمپین میں نہیں جائیں گے باہر، انہوں نے ہمیں نوٹس دیے ہیں اب اس قسم کی صورتحال میں کیا یہ سوال اٹھانا بھی جرم ہے ہمارے لیے، ہم یہ بات بھی نہ کریں تو ماحول تو ہمیں دیا جائے ناں

سوال: افغ ا نستان کے دورے پر اپ جا رہے ہیں مہاجرین کے اخراج کے پاکستانی فیصلے اور پھر طالبان حکومت کے سخت رد عمل کے بعد صورتحال بہت حد تک غیر واضح ہے تو کیا اس ملاقات کا کوئی ایجنڈہ طے پایا ہے؟
جواب: ان شاءاللہ یہ بنیادی اہم نکات ہیں اور مہاجرین کے حوالے سے ایک میری اپنی سوچ ہے کہ یہ ایک ملک کا یک طرفہ مسئلہ نہیں ہے یہ ان کے لوگ ہیں پاکستان میں رہ رہے ہیں اور 40 سال انہوں نے بطور مہاجر کے گزارے ہیں اگر واپسی کرنا بھی ہے تو دونوں ملک بیٹھ کر اس کا شیڈول طے کریں۔

سوال: اچھا مولانا صاحب ایک طرف آپ نے عدم استحکام کی بات کی اور بدامنی کا ذکر کیا دوسری طرف اپ نے الیکشن کمیشن کے حوالے سے ایک سخت رد عمل کا اظہار بھی کیا ہے تو الیکشن سے پہلے اگر اپ کا یہ ردعمل رہتا ہے تو جب الیکشن ائے گا تو اس کے نتائج پر آپ کیا موقف ہوگا؟
جواب: یہی فکرمندی مجھے ہے جو آپ سوال کر رہے ہیں کہ اس ماحول میں جو الیکشن ہوگا اس کے نتائج کے بارے میں کیا کہا جائے گا جب لوگ ووٹ ہی نہیں ڈال سکیں گے، جب ٹرن آوٹ ہی نہیں ہوگا ٹھنڈ کی وجہ سے بھی اور بدامنی کی وجہ سے بھی لوگ نہیں نکل سکیں گے، یہی ہے کہ ہمیں اس صورتحال پر غور کریں بڑے تو وہ ہیں، ادارہ تو وہ ہیں، ہماری شکایت میدان پہ اگئی ہے کچھ سوچیں تو اس بات کے اوپر، یہاں پر ہماری سپریم کورٹ ڈائریکٹ ان کو بلا کر کہتے ہیں کہ ابھی ابھی یہ عدالتی مارشل لا کا تاثر دے رہے ہیں۔
سوال: مولانا صاحب پہلے پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ اتا تھا تو پی ٹی آئی لاہور ہائی کورٹ جاتی تھی، اب پی ٹی ائی کے خلاف یا عمران خان کے خلاف فیصلہ اتا ہے وہ پشاور ہائی کورٹ جاتے ہیں،ہیں آپ یہ نہیں سمجھتے کہ میچ فکس ہے؟
جواب: پشاور ہائی کورٹ میں جس جج صاحب نے فیصلہ دیا ہے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا جو فیصلہ ہے ان کی نشان پر پابندی لگانے کا وہ پورے ملک پر حاوی ہے اس کو جوریڈکشن پورا ملک ہے اور پشاور ہائی کورٹ کے حدود جو ہیں وہ صرف اپنا صوبہ ہے۔ ایک صوبہ پورے ملک کے فیصلہ کیسے کر سکتا ہے کہ اس کو نشان دیا جائے دوسری بات یہ ہے کہ یہی جج پی ٹی ائی کی حکومت میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ان کا رہا ہے اور پچھلے الیکشن میں اس کا ایک کزن جو ہے وہ الیکشن لڑ رہا تھا اور ابھی یہ جب جج ہے تو اس کا دوسرا کزن جو ہے وہ ہمارے علاقے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ اب جو اس طریقے سے پی ٹی ائی کے پارٹی کا ایک حصہ نظر اتے ہیں براہ راست نہ سہی بلواسطہ سہی، خاندانی لحاظ سے سہی، ان سے ہم کیا توقع رکھیں کہ اس قسم کے فیصلے کس بنا پر کر رہے ہیں لہذا ایسے فیصلوں پر قوم اعتماد نہیں کر رہی ہے اور ہم پر ان لوگوں کو دوبارہ مسلط کرنے کے راستے دیے جا رہے ہیں جو ملک کی معیشت کو تباہ کرے، عالمی برادری میں ہمارے اعتماد کو تباہ کرے، پاکستان کے دوستوں کو پاکستان سے دور کرے، یہاں پر سرمایہ کاری کا راستہ روکے۔

سوال: اچھا مولانا صاحب آپ نے قران و سنت کی روشنی میں نظام قائم کرنے کا مطالبہ کیا جو کہ بظاہر اپ کا منشور ہے، سولہ ماہ آپ کی اتحادی حکومت رہی اپ نے کوئی ایک اقدام جو اس نظام کو قائم کرنے کے حوالے سے کیا ہو اور اگر ایسا نہیں ہوا تو کیا یہ اتنا اہم معاملہ نہیں ہے کہ حکومت سے علیحدہ ہو جانا چاہیے تھا؟
جواب: بالکل اپ کی بات صحیح ہے میں جمہوری ادمی ہوں اور میں جہد مسلسل پہ یقین رکھتا ہوں ایک دفعہ بریک لگ جائے اور برتن توڑ دو میں اس والا نہیں ہوں۔ میں حکومت بھی شامل ہوتا ہوں دوسری جماعتوں کے ساتھ تو میں اپنا فرض پورا کرتا ہوں کہ بھئی یہ یہ کرنا ہے لیکن اس سے توقع نہیں وابستہ کرتا کہ خواہ مخواہ اسے وہ سب کچھ کر لینا ہے کیونکہ شاید اس کے منشور کی ترجیحات میں نہ ہو تو یہاں پر جو صورتحال تھی وہ صورتحال بالکل عارضی تھی ایک فتنے سے ہم نے نجات حاصل کرنی تھی اور اپنے ایک پرامن پاکستان کی طرف ایک مستحکم، ہم نے ملک کو مشکل سے ڈیفالٹ سے نکالا ہے لیکن اج پھر ڈیفالٹ کا خطرہ ہو گیا جب ہم نکلے ہیں تو ملک معاشی لحاظ سے، لہذا ہر موقع کے اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ہم ہر چیز کو حکمت کے ساتھ دیکھتے ہیں اپنے مطالبے کا مقام بھی جانتے ہیں اور فوری جو ضرورتیں ہوتی ہیں اس کو بھی ہم جاتے ہیں۔

سوال: مولانا صاحب میرا سوال یہ ہے کہ اپ نے جو خدشات کا ابھی اظہار کیا ہے الیکشن کے حوالے سے اور ابھی دو صوبے الیکشن میں پریکٹیکلی حصہ نہیں لیں گے تو کنٹروورشل ہو جائے گا یا اس کا نتائج کیا ہوں گے؟ اس کے لیے اپ کی سب سے بڑی جو کولیگ جماعت ہے یا اتحادی جماعت ہے مسلم لیگ نون ہے تو کیا اپ لوگ ریٹن اس کی طرف نہیں جا سکتے کہ ایپلیکیشن دی جائے کہ اس پہ نظر ثانی کی جائے جو شیڈول ہے ایک، دوسرا چھوٹا سا سوال اسے ریلیٹڈ یہ ہے اس وقت ملک کو استحکام چاہیے اس کے لیے سٹیبلٹی اور پانچ سالہ گورنمنٹ چاہیے تو جب اپ پی ڈی ایم کی گورنمنٹ بنی یا اپ لوگ مشاورت بھی کر رہے ہیں میاں صاحب بھی واپس آئیں تو انے والی گورنمنٹ پانچ سال کے لیے ہوگی یا تین سال کے لیے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے اپ کی کہ دیکھیے ہم عدالت میں جائیں گے کیسے جائیں گے ہم، مجھے ہزار پی ٹی ائی سے اختلاف لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کیا سپریم کورٹ کا فرض نہیں تھا کہ وہ پہلے اس پٹیشن کو سنیں، بجائے سننے کے ان کو شوکاز جاری کر دیا انہوں نے، اب اس رویے کے ساتھ ہم نظر ثانی کی درخواست کیسے دیں، کس کو دیں، یہ ہمارے سینیئر وکیل بیٹھے ہوئے ہیں بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ہیں یہ بتائیں کہ کیا ایسے کورٹ میں ہمارے جانے سے کوئی انصاف کے توقعات ہو سکتے ہیں، تو ہم اپنا رائے دے رہے ہیں اپنا تاثر پیش کر رہے ہیں کہ یہ یہ صورت حال اس پر ہماری ایک رائے بنتی ہے عدالت جو فیصلہ دیتی ہے وہ پبلک کی ملکیت بن جاتی ہے اس پر رائے دینا یہ کوئی جرم نہیں ہے ہم مطمئن نہیں ہیں۔

سوال: مولانا صاحب خیبر پختونخواہ میں کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا پلان ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ سابقہ حکومت پی ٹی ائی کی جو حکومت تھی اس میں کئی مذاکرات ہوئے ہیں یہاں سے باقاعدہ جرگے گئے جس نے جمعیت علماء اسلام کے رہنما تھے اپ کے جانے کے بعد کیا اپ کے خیال میں پاکستان میں کچھ امن ا جائے گا؟
جواب: دیکھیے کوشش تو یہی ہے کہ ہم قوم کو امن دے سکیں اور اس کے لیے کیا تجاویز ہیں جب ہم دونوں بیٹھیں گے اس کے بعد میری یہ کوشش ہوگی کہ ابھی تو میں جا رہا ہوں لیکن پھر اس معاملے میں دونوں سٹیٹس جو ہیں وہ انوالو ہو جائیں اور ا ما رت اسلامیہ اور پاکستان یہ دونوں ریاستی سطح پر ایک نظام بنائیں متنازعہ معاملات کو حل کرنے کے لیے، مسلم لیگ ن کے ساتھ ہماری بات چیت چل رہی ہے گو کہ ہم ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں لیکن ہم ان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور ہماری ترجیح یہ ہے کہ ہم انتخابات مل کر لڑیں۔

سوال: مولانا صاحب یہ فرمائیں اپ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی ائی کو پروجیکٹ کیا جا رہا ہے، پروموٹ کیا جا رہا ہے چیف جسٹس صاحب اور چیف الیکشن کمشنر صاحب کے لیے تو تاثر یہ ہے کہ وہ نون لیگ کے نواز شریف کے حامی ہیں تو کیسے مطلب وہ کیوں اگر ن لیگ کا نقصان کیوں کرنا چاہ رہے ہیں؟
جواب: وہ تو یہ اپ ان کے فیصلوں سے اندازہ لگائیں نا جی، جو ابھی پشاور سے ا رہے ہیں لاہور سے ا رہے ہیں تو اس سے اپ اندازہ لگائیں کہ وہ نون لیگ کے لیے ہے یا کسی اور کے لیے ہیں اپ نے صحیح تجزیہ نہیں کیا۔
 
سوالف: یہ اسلام اباد والے حامی ہیں؟
جواب: حضرت میں ایک بات واضح کر دوں یہ خدا کے لیے یہ باتیں چھوڑ دو کہ ادارے کیا فیصلہ کریں گے وہ کس کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں پھر اسی پر ہم فورا کہ اگلی حکومت فلانے کی ہوگی اب فلاں، کیوں عوام پر اعتماد نہیں ہے کہ عوام کس کا ساتھ دیں گے، کیوں عوام کے سامنے صحیح صورتحال نہیں رکھی جا رہی ہم نظریاتی طور پر لڑنا چاہتے ہیں ہم ان قوتوں کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں کہ جن کو ہم ملک کے لیے خطرہ تصور کر رہے ہیں یہ ملک نہیں رہے گا اپ کا، اس ملک کا نظریہ نہیں رہے گا اس ملک کی ترجیحات نہیں رہیں گی، بین الاقوامی برادری میں اپ کا اعتماد ختم ہو جائے گا، اپ کے ملک کے اندر کا سرمایہ کار جو ہے وہ بیٹھ جائے گا اس حد تک خوف و ہراس اس ملک میں موجود ہے، اس اضطراب کو دور کیا جائے اور ایک اعتماد کا ماحول پیدا کرے۔

سوال: عام انتخابات کے بعد اپ نے دھرنا بھی دیا اب عمران خان صاحب کو لاڈلا اس کی سہولت کاری کا الزام بھی لگاتے تھے اپ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ پوری ریاست اس بار نواز شریف صاحب کے قدموں میں بٹھا دی گئی اور وہ سہولت کاری جو 2018 میں عمران خان یا اس کی جماعت کو حاصل تھی وہ اب نواز شریف کو دی جا رہی ہے؟
جواب: میں جس سوال کو میں رد کرنا چاہتا ہوں پھر اپ دوبارہ وہی سوال دہرا لیتے ہیں یہ یہی بات میں کہہ رہا ہوں کہ اگر میاں نواز شریف صاحب وہ عوامی قوت تھے اور ان کے پاس عوام تھی پنجاب ساتھ تھا دھاندلی کے ذریعے کیوں چھینا گیا اور دھاندلی کے ذریعے پھر چھینا جائے گا تو ہم پھر مقابلے میں آئیں گے ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے ہوئے، ہم نے کوئی جنگ بندی نہیں کی ہے، ہم ملک دشمن قوتوں کے ساتھ اور جو پاکستان کے ایجنڈے کے خلاف کام کر رہے ہیں ان کے خلاف صف آرا ہیں اور ان شاءاللہ رہیں گے۔ عوام کی ترجیحات معلوم ہیں جب عوام ترجیحات معلوم ہیں اپ اس کو اداروں کے حوالے کر رہے ہیں عوام اتنی بھی بس ہیں کہ اپ اس کو کریڈٹ بھی نہیں دے سکتے ان کا، کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں اور لوگوں کو اپ تاثر دے رہے ہیں ہاں حکومت تو فلاں کی ائے گی لاڈلا تو فلانا ہے اداروں نے تو فلانے کو اگے لانا ہے تو پھر عوام بھی اسی کو ووٹ دینا شروع کر دیں یہ تعصب جو ہے پاکستان سیاست میں اور انتخابات کے حوالے سے بہت ناجائز ہے۔

سوال: میاں نواز شریف صاحب کو جو سپر لاڈلے کا نام دیا جا رہا ہے۔
جواب: میرے خیال میں یہ اس قسم کے الفاظ مناسب نہیں ہے۔
سوال: مولانا صاحب ایک تاثر جو دیا جا رہا ہے کہ صدر آپ ہوں گے، نواز شریف وزیراعظم ہوں گے، اپوزیشن لیڈر اصف علی زرداری ہوں گے وہ ایک ماڈل ہے جس پہ اس وقت کام کیا جا رہا ہے، تو کیا آپ کو صدارت کی آفر نہیں ہوئی؟
جواب: اپ کا بہت بہت شکریہ جی، اگر ایسا ہوتا ہے تو اپ کا شکریہ

سوال: مولانا صاحب الیکشن کمیشن کی اب جو بے بسی ہے جو حالات و واقعات جاری ہیں تو اس طرح کس طرح صاف شفاف الیکشن ہوں گے ؟
جواب: پاکستان بار کونسل اور پاکستان بار ایسوسی ایشن دونوں نے کہہ دیا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن منصفانہ الیکشن نہیں کرا سکتا مستعفی ہو جائیں۔

سوال: مولانا صاحب آپ بھی الیکشن کمیشن سے یہی مطالبہ کریں گے ؟
جوابہ: نہیں میں مطالبے تک نہیں پہنچا میں صرف اپ کو حوالہ دے رہا ہوں کہ جس الیکشن کمیشن کے بارے میں پاکستان بار کونسل اور پاکستان بار ایسوسی ایشن دونوں بیک وقت ایک رائے دے رہے ہیں اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کیا ان سے منصفانہ الیکشن کی توقع کی جا سکتی ہے۔

سوال: لاپتہ افراد کے لیے پریس کلب کے باہر کئی دنوں سے دھرنا جاری ہے جس میں زیادہ تر خواتین کی ہے اج تک کوئی بھی جمعیت کا جو رہنما ہے کوئی نظر نہیں ایا تو کیا اپ کا جانے کا وہاں پہ ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کا
جواب: حیدری صاحب ان کے پاس گئے ہیں۔

سوال: امن و امان کی جو صورتحال ہے کیا آپ اس کی مذمت کرتے ہیں؟
جواب: حضرت میں اول دن سے ان کے پاس بار بار گیا ہوں میں ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔

سوال: پنجابی جو بلوچستان میں مارے جاتے ہیں۔
جواب: غلط ہے یہ د ہشت گردی ہے ۔

سوال: کیا آپ عام انتخابات فوج کی نگرانی میں کرنے کا مطالبہ کریں گے ؟
جواب: حضرت میں عوام کو عوام کے حال پہ چھوڑنا چاہتا ہوں اپ کبھی فوج کے حوالے کرتے ہیں تو کبھی عدلیہ کے حوالے کرتے ہیں۔

سوال: مولانا صاحب آپ نے کہا کہ عوام پہ چھوڑ دیں تو کیا پاکستان میں کبھی آزادانہ الیکشن ہو چکے ہیں اب تک اداروں کی مداخلت کے بغیر، ابھی ہمارے پاس ایسے ادارے ہیں جو آزادانہ الیکشن کروا سکے دوسرا سوال میرا یہ کہ اپ کہہ رہی ہیں ا فغا نستا ن کے ساتھ ہم تعلقات بنانے جا رہے ہیں اور اپ وزٹ بھی کریں گے تو طا لبا ن حکومت تو اپ تسلیم کرتے ہیں تو کیا اگر وہ کہے کہ شریعت نافذ کرے پاکستان میں، تو اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں کیا آپ مخالفت کریں گے؟
جواب: دیکھیے ہم تو ائین کو دیکھتے ہیں ائین پاکستان پارلیمنٹ کی ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ وہ قانون سازی کرے اور قران و سنت کے مطابق کرے اور اس کے خلاف نہ کرے اب عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا ہے تو ہم جدوجہد میں ہیں اس وقت اور ہم یہ جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں جمعیت علماء مسلح جنگ پر یقین نہیں رکھتی اور پاکستان کے جمیعت سے باہر کے تمام مکاتب فکر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان مسلح جنگ نہیں ہونی چاہیے، سیاسی جدوجہد ہونی چاہیے اور اس کے نتیجے میں مقاصد حاصل کرنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے حالات بن گئے ہیں اب ان حالات کو دوبارہ اصل حالت پہ لانا، پرامن صورتحال پہ لانا، نارمل کرنا، اس کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال: مولانا صاحب ہر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مخالف کو اندر کیا جاتا ہے دوسرے کو کھل کے کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے جیسے 2018 میں ہوا، آج کی اگر آپ کی یہ فتح ہوتی ہے مخالف اپ کا اندر ہو تو اس فتح کو کیسے آپ سیلیبریٹ کریں گے؟
جواب: میں تو ویسے بھی بار بار کہہ چکا ہوں یار کہ مجھے تو اس سیاست میں مزہ ہی نہیں ا رہا اور اس لڑائی کا مزہ ہی نہیں اتا جس میں میرا مخالف جو ہے جیل میں اور میں باہر ہوں تو آجائیں میدان میں ائے تاکہ کھلی لڑائی ہو اور ٹھیک ٹھاک ہم قوم میں جائیں، وہ بھی قوم میں جائیں مسلح جنگ لڑنی نہیں ہے دلیل کی بنیاد پہ بات ہوگی۔
بہت بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat


لائیو اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کی اھم پریس کانفرنس

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, December 28, 2023







0/Post a Comment/Comments