قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا ملتان میں شمولیتی تقریب سے خطاب 3 دسمبر 2023


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا ملتان میں شمولیتی تقریب سے خطاب
3 دسمبر 2023

الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین اما بعد 

نہایت قابل احترام جناب سجاد مصطفی وینس صاحب ان کے خاندان اور ان کے قبیلے کے تمام معزز شخصیات علاقے کے میرے تمام عمائدین معتبرین میرے صحافی بھائیو! میں سب سے پہلے جناب سجاد ملک مصطفی صاحب جمیعت علماء اسلام میں شمولیت پر ان کو خوش آمدید بھی کہتا ہوں، انہیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کے اس بڑے فیصلے کو جمیعت علماء اسلام کی تقویت کا ذریعہ بنائے اور ان کے اس فیصلے پر اللہ ان کو قبول فرمائے۔

میرے محترم دوستو! یہ چاہ دادو والا  ہوا کرتا تھا آج کل پتہ نہیں کیا نام رکھا ہے اس کا! یہ میرے لیے کوئی اجنبی جگہ نہیں ہے میری زندگی کی تعمیر میں اس چھوٹی سی بستی کا بڑا کردار ہے کہ میں یہاں اس درس میں پورا ایک سال پڑھا ہوں اور ان کے امام مولانا محمد امیر رحمہ اللہ بہت بڑے استاد تھے اور تمام فنون پر ان کو عبور تھا، انہوں نے مجھے اپنے آغوش میں لیا، کتابیں یاد کرائی، پڑھائی، محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا اور جب میں ملتان سے پڑھنے کے لیے روانہ ہوا تو خانیوال اڈے پر ملک صاحبان کی بس ہوا کرتی تھی وہ شام کو ادھر آیا کرتی تھی تو سجاد صاحب کے والد ملک غلام مصطفی صاحب انہوں نے ہی مجھے ملتان میں بس میں سوار کر کے اپنی مدرسے کی طرف بھیجا تھا، تو ایک نسبت ہے میری یہاں سے اور آج بھی میں شوگر کا مریض ہوں لیکن گرمی کے موسم میں میں بدپرہیزی کے لیے آم کھانے یہاں آیا کرتا ہوں، اس میں مٹھاس تو ہوتی ہے لیکن ملک صاحبان کی محبت کی مٹھاس جو ہے وہ اس میں اضافہ بھی کرتی ہے اور شگر کا علاج بھی کرتی ہیں۔

 میرے محترم ساتھیو! جمیعت علماء اسلام جس کی تاسیس سے آج تک سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے 1919 میں جس جماعت کی بنیاد رکھی تھی وہ آج ہمارے ہاتھ میں امانت ہے اور حضرت شیخ الہند کی پشت پر برصغیر کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی قربانیاں ایک سو سال کی قربانیاں ان کی پشت پر تھی، اس زرین تاریخ کی یادگار یہ جمیعت علماء اپنے اکابر کی دو چیزوں کے امین ہیں، ایک اس جماعت کا عقیدہ اور نظریہ اور ایک اس عقیدے اور نظریے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ، میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ جمیعت علماء کی تاسیس وہ کوئی صرف ایک مسلک کے علماء نے نہیں کی تھی، حضرت شیخ الہند کے ساتھ برصغیر کے تمام مکاتب فکر کے علماء موجود تھے، ہم نے سیاست کی ہے ہم نے دینی اور مذہبی شناخت کو برقرار رکھا ہے لیکن ہم نے ان رویوں کو اپنایا ہے جس میں فرقہ واریت کی گنجائش نہیں، اختلاف تو فطری چیز ہے انسان میں ہوتا ہی ہے لیکن اختلاف میں نرمی پیدا کرنا یا اس میں شدت پیدا کرنا یہ خود انسان کے اختیار میں ہیں، تو ہمارے اکابر کی تعلیمات یہ ہیں کہ ہم نے اختلافات میں نرمی کو فروغ دینا ہے شدت کو فروغ نہیں دینا، پبلک کے ساتھ ہمارا تعلق سماجی ہونا چاہیے، لوگوں کے مسائل، کسی مشکل میں ان کے کام آنا، علاقے کی ترقی، لوگوں کا مستقبل وہ کسی قسم کی مذہبی فرقہ وارانہ نسلی رنگ و نسب اس سے بالاتر ہونا چاہیے، بالکل ایسے ہی کہ اگر اقتدار ملتا ہے تو صاحب اقتدار ہو کر ملک کے ہر شہری کا جو آپ پر حق ہے آپ نے ہر شہری کے حق کا تحفظ کرنا ہے، آپ نے ہر شہری کا حق اس کے گھر پہنچانا ہے، اگر آپ کے اندر مذہبی تعصب ہو، مسلکی تعصب ہو تو جب آپ کو ہاتھ میں طاقت آئے گی تو آپ کسی کو انصاف دینے کی بجائے، کسی کو اس کا حق دینے کی بجائے آپ اس کی حق تلفی کریں گے، اب وقت آگیا ہے میں اپنے مخالف کو نچوڑ لوں، اگر کوئی اس کا حق ہے تو اس کا بھی راستہ روک دوں، اگر حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد میرے ملک کے ہندو کا بھی مجھ پر حق ہو، میرے ملک کے عیسائی کا بھی مجھ پر حق ہو، میرے ملک کے سکھ کا بھی مجھ پر حق ہو، اگر اپنے مسلمان کسی فرقے کا مجھ پر کیوں کر حق نہیں ہوگا! حق بات کو فروغ دینا وہ شائستہ لب و لہجے میں بھی ہو سکتا ہے جب آپ مقام حکومت میں نہیں تو پھر آپ کم از کم مقام دعوت میں تو ہیں اور جو لوگ مقام دعوت میں ہیں اللہ تعالی ان کو بھی دعوت کا خود طریقہ سکھلاتا ہے
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ
تین چیزوں کا ذکر ہوا ہے لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ حکمت کے ساتھ، س
شائستہ انداز گفتگو کے ساتھ اور تیسرا لفظ ہے جدال، جدال حقیقت میں ذریعہ دعوت نہیں ہے لیکن کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ دعوت دینے والا اور جس کو دعوت دی جا رہی ہے کہیں کسی مسئلے میں الجھ جائے اگر ایسا مرحلہ آجاتا ہے جہاں دونوں آپس میں الجھ جاتے ہیں تو فرمایا
 وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ 
اس جھگڑے کو بھی انتہائی خوبی کے ساتھ نمٹاؤ وہ جدال بھی ایسا جدال ہو کہ جس کا نتیجہ و مآل وہی ہو جو حکمت اور حسن موعظت کا ہوا کرتا ہے، تو آج ہم سب مقام دعوت میں ہیں لیکن ایک سیاسی قوت ہے جمیعت علماء جہاں وہ اپنے عقائد و نظریات کی طرف لوگوں کو دعوت دیتی ہے وہاں اگر اس وطن عزیز میں یا دنیا میں اسلام اور امت اسلام کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں بھی سد سکندری بن جانا یہ جمیعت علماء کے فرائض میں سے ہو جاتا ہے، مجھے یقین ہے ملک صاحب ہوں ان کا خاندان ہو ان میں یہ بھرپور صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے علاقے اور اپنی پبلک کے مسائل کو جانتے ہیں ان کی ضروریات کو سمجھتے ہیں ان کی ضروریات کو پورا کرنا ان کے مسائل کو حل کرنا اس کی تدبیر کو سمجھتے ہیں، ان کے پاس اس کی فرضیت اور وجوب کا احساس ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے 
لله خلقا خلقهم لحوائج الناس
اللہ تعالی کے ایک مخلوق وہ بھی ہے جس کو اللہ تعالی نے اسی لیے پیدا کیا کہ وہ لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرے اور لوگ لپکیں گے اس کی طرف اپنی ضرورتوں کے ساتھ، یقیناً غریب طبقہ مفلوک الحال طبقہ اگر ان کے زیر اثر ہے تو پھر ان کا براہ راست فرض بنتا ہے کہ ان پر نرمی اور شفقت کا ہاتھ رکھے، ان کی جان، ان کی عزت، اس کے مال کا تحفظ کریں، یہ زمیندار لوگ ہیں، ان کے زیر سایہ بہت سے لوگ یہاں پر ان کے مزارعین ہیں کاشتکار ہیں ان کے زیر زندگی گزار رہے ہیں سب سے پہلا حق ان پر ان لوگوں کا ہے کہ ان کو اپنا حق پورا کر کے دیں، وہ اگر کمزور ہے تو ان کی طاقت بنے، کوئی ان کی عزت کی طرف لپکے یا راستہ روکے یہ ان کی امانت بن جاتے ہیں، نہ خود اس میں خیانت کرتے ہیں اور نہ کسی دوسروں کو خیانت کرنے کی اجازت دیتا ہے، اس کے علاوہ اگر وہ علاقے کے با اثر لوگ ہیں ہر شخص یہاں آئے گا کسی کا تھانے میں مسئلہ ہوگا کسی کا کچہری میں مسئلہ ہوگا ایک روایت یہ بھی ہے
إذا أراد الله بعبد خيرًا صير حوائج الناس إليه
اللہ تعالی جس کے لیے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں لوگوں کی ضرورتوں کو اس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے، یہ خدمت خلق ہے جتنا آپ کے بس میں ہے ہم نے ساری زندگی اسی میں گزار دی، تو آج ہم انتہائی خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ ملک صاحب کا جمعیت میں آنا یہ ایک فرد کا آنا نہیں ہے یہ ایک علاقے کی بڑی قوت جمیعت میں شامل ہو رہی ہے اور ان سے وہی توقع رکھی جائے گی جو ان کا مقام ہے جو ان کی حیثیت ہے، یہاں سے تعلق مجھے وراثت میں بھی ملا ہے، مفکر اسلام مفتی محمود رحمہ اللہ میرے والد قبلہ گاہ ان کا یہاں آنا جانا ہوتا تھا، والد صاحب یہاں آتے تھے دو دو تین تین دن یہاں رہ جاتے تھے، سخت گرمی میں بھی جب یہاں کوئی پنکھا منکھا نہیں تھا بجلی نہیں تھی تو استاد صاحب اور والد صاحب درخت کے سایے میں پورا دن گزارتے تھے اور ملک صاحبان جو ہے وہ مہمانداری کرتے تھے بڑا کھلا دسترخوان ہوتا تھا اور بٹیرے خاص طور پر بنا کر پیش کرتے تھے، ملک خدا بخش صاحب مرحوم وہ ہمارے جامعہ قاسم العلوم کے ممبر تھے تاحیات ممبر تھے اور اس کے بعد مولانا محمد اصغر ملک اصغر کہتے ہیں لیکن ہم مولانا کہیں گے کیونکہ وہ فارغ التحصیل عالم ہے وہ آج بھی جامعہ قاسم العلوم کے ممبر ہے، شوریٰ کی بھی ان کے عاملہ کے بھی، اس لیے میں کہتا ہوں میں کوئی اجنبی جگہ پہ نہیں آیا ہوں اپنے گھر میں آیا ہوں اور ملک سجاد صاحب نے اس پورے خاندان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس علاقے کے نمائندگی کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا ہے میں ایک بار پھر اس پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں ایک بار پھر انہیں خیر مقدم کہتا ہوں اور ان شاءاللہ ملک کے لیے خطے کے لیے علاقے کے لیے ان کا یہ فیصلہ یہاں کے عوام کے روشن مستقبل کا ضامن بنے گا اللہ تعالی اپنی مدد سے سرفراز فرمائے 
واٰخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین 
اختتامی دعا

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 
.



 

0/Post a Comment/Comments