قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا آر ٹی اے پشتو کے نمائندے سے خصوصی انٹرویو 13 جنوری 2024


قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا آر ٹی اے پشتو کے نمائندے سے خصوصی انٹرویو
 13 جنوری 2024

نمائندہ : کچھ دن پہلے پاکستان کے مذہبی سیاسی پارٹی جمعیت علماء اسلام کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن اہم امور کے حوالے سے افغانستان آئے ہوئے ہیں اور یہاں امارت اسلامی کے بہت سے عہدیداروں سے ملاقاتیں کی ہیں، اس سفر کا مقصد کیا تھا کن امور پر یہاں کے عہدیداروں سے بات چیت ہوئی ہے آج کے اس پروگرام میں ہم ان سے پوچھیں گے۔
مولانا صاحب سب سے پہلے آپ کو افغانستان کی سرزمین پر خوش آمدید کہتے ہیں امید ہے کہ آپ کا سفر خیریت سے گزرا ہو گا۔
مولانا صاحب : بہت بہت شکریہ جی، رب کریم آپ کو خوش رکھے۔

نمائندہ : سب سے پہلے تو یہ بتائے کہ افغانستان آنے کا مقصد کیا تھا، کن وجوہات کی بنا پر آپ یہاں تشریف لائے ؟
مولانا صاحب : بسم اللہ الرحمن الرحیم، بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں چند باتیں کرنے اور افغان عوام کے سامنے بیٹھنے کا موقع دیا، ظاہری بات ہے کہ امارت اسلامی کی بحالی کے لیے پچھلے بیس سال میں جو قربانیاں ہوئی ہے تو جمعیت علماء اسلام نے اس جدوجہد کی تائید پاکستان میں کی تھی اور ہم اسے ایک اخلاقی فرض بھی سمجھتے ہیں کہ جب ان کو فتح ملی اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے اور  فغانستان میں شریعت اسلامی اور امن و امان، انسانی حقوق کی تحفظ کا ایک ماحول پھر سے یہاں ایا تو اس کے لیے مبارکباد دینا، اچھے اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا ہم اپنے اوپر فرض سمجھتے تھے لیکن چوں کہ یہاں بیرونی اور داخلی مشکلات تھی اور ضروری تھا کہ یہاں کے بڑوں اور عوام کو فرصت مل جائے تاکہ وہ اپنے امارت کی استحکام کے لیے جو ضروری ہے وہ سرانجام دے سکے، تو اب جمعیت علماء اسلام کا مشورہ تھا کہ وہاں جایا جائے اور اپنے خیر سگالی کے جذبات ان تک پہنچائے جائیں۔

نمائندہ : آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ ابھی ان کو فرصت ملی اور یہ تھوڑے سنبھل گئے ہیں ؟
مولانا صاحب : جی الحَمْدُ ِلله، اور ہم نے کبھی افغانستان کو خود سے الگ تصور نہیں کیا ہے اور پاکستان میں جو پشتون ہیں، قومیں، نسب وہ سب یہاں سے جڑے ہوئے ہیں تو ہمارے دلوں میں ہر وقت افغانستان کی خوشحالی کے لیے جو احساسات ہیں وہ ہر وقت زندہ رہتے ہیں اور ہم اس کو اپنا ملک تصور کرتے ہیں، اس ملت کو اپنی ملت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی خوشحالی اور ترقی پر خوش ہوتے ہیں اور ان کے مشکلات پر غمزدہ ہوتے ہیں۔

نمائندہ : اچھا یہ سفر رسمی تھا ؟
مولانا صاحب : جمعیت علماء اسلام کی وفد تھی، رسمی وفد تھی، حکومت کی طرف سے نہیں تھی لیکن بہرحال ہم نے گورنمنٹ کو بھی آگاہ کیا تھا کہ ہم جا رہے ہیں اور وہاں کے بڑوں کے ساتھ بات چیت کریں گے، تو ظاہری بات ہے کہ جمعیت وہاں پر ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری اور استحکام کو دوام دینا یہ ہمارے بھی اہداف میں شامل ہے اور جب تک اپنے حکومت کی تائید حاصل نہیں ہوتی تو پھر وہ مقصد ادھورا رہ جاتا ہے۔ تو ہماری یہ کوشش تھی کہ سب کو اعتماد میں لیا جائے، ان کی تائید ہمارے ساتھ ہو اور الحَمْدُ ِلله حکومت کی تائید اس سفر میں ہمیں حاصل ہے۔

نمائندہ : اچھا جن اہداف کے حوالے سے یہ سفر ہے کیا اس پر بات ہوئی ؟
مولانا صاحب : اس میں ایک بات میں آپ کو واضح کردوں کہ یہ سفر پہلا قدم تھا، پچھلے سال دونوں ممالک کے درمیان کچھ گلے شکوے پیدا ہو گئے تھے تو ایسا نہیں کہ اس ایک سفر سے یکدم ہم نے سارے مسائل حل کیے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ ہم نے اس کے لیے راستہ ہموار کر دیا، اس کے لیے ایک ماحول بنائی اور ایک ابتدا ہوئی تو الحَمْدُ ِلله جو شروعات ہوئی ہے ہم اس پر مطمئن ہے۔

نمائندہ : آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کے اس سفر سے وہ مشکلات حل ہو جائیں گے ؟
مولانا صاحب : ان شاء اللہ ضرور

نمائندہ : پاکستانی حکومت کے مطالبات کیا تھے جو امارت اسلامی کے ساتھ زیر بحث آئی تاکہ یہ جو مشکلات ہے یہ حل ہو جائے ؟
مولانا صاحب : تو ظاہری بات ہے کہ پاکستان کی عوام ہو، ادارے ہو ان کی ایک خواہش تو تھی کہ یہاں امن آئے، یہاں داخلی جنگ ختم ہو جائے اور ایک نتیجے تک یہ بات پہنچ جائے تو الحَمْدُ ِلله وہ خواہش پوری ہو گئی، اب جب وہ خواہش پوری ہو گئی تو ایک آرزو جو پاکستان میں کسی بھی سطح پر تھی چاہے وہ حکومت کی سطح پر ہو، عوام کی سطح پر ہو، تنظيموں کی سطح پر ہو تو وہ بھی اس حوالے سے متفکر ہوتے ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور بھائی چاری والی زندگی اپنائے اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہے، انتہائی ضرورت ہے، افغانستان کے بہت سے پڑوسی ممالک ہیں لیکن پاکستان اس میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے، ہمارے سرحدات ایسے جڑے ہوئے ہیں جس میں ہماری قومیں شریک ہیں، ہماری نسب ہماری تہذیب، ہماری زبان شریک ہے تو اس حوالے سے یہ بہت ہی اہمیت کے حامل ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں اور یہ ہم سب کی نظر میں ہے۔

نمائندہ : ایک بات جو لوگوں کی دلوں میں ہے کہ پاکستان افغانستان کی خیر نہیں چاہتا یا پاکستان اب تک ایک اچھا پڑوسی ثابت نہیں ہوا ہے آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے ؟
مولانا صاحب : میں بڑی سختی کے ساتھ اس تعصب کو رد کرتا ہوں ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔

نمائندہ : لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے ۔
مولانا صاحب : میں تو ان گلے شکوے کو ختم کرنے دور کرنے آیا ہوں کہ پاکستان کہے گا مجھے نقصان پہنچایا ہے اور افغانستان کہے گا کہ مجھے نقصان پہنچایا ہے تو ایسی باتوں سے ہم نکلنا چاہتے ہیں اور جب تک ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں، ملاقاتیں نہیں کریں گے، ان موضوعات پر مذاکرہ اور مباحثہ نہیں ہوگا تو اس کے بغیر تو مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور پیچیدہ ہوں گے، تو ہماری خواہش ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تفاہم کے ساتھ یہ مسائل انجام تک پہنچے اور وہ قوتیں جو یہ چاہتی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مد مقابل ہو، جنگ ہو، تعلقات خراب ہو جائے ہم ان سازشوں کو بھی ناکام بنائيں ۔

نمائندہ : اب تک کس کس کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں ؟
مولانا صاحب : تمام بڑوں کے ساتھ بیٹھک ہوئی اور جب میں یہاں آیا تو میں امارت اسلامی اور ان کے رہنماؤں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا اور اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں پاکستانيوں کے لیے کتنی محبت رکھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ہر بچے کو محبت، الفت، اپنائیت کا یہ پیغام پہنچے اور ہم یہ پیغام پاکستان سے بھی اپنے افغان بھائیوں کے لیے لے کر ائے ہیں ۔

نمائندہ : پاکستان اور افغانستان کے مابین وقتاً فوقتاً ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ معاملات بگڑ جاتے ہیں تو کیا یہ مسائل مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے اور اگر ہے تو پھر کیوں پاکستان مختلف مواقع پر افغانستان کے خلاف شکایتیں کرتا ہے ؟
مولانا صاحب : میں ایک گزارش کروں گا کہ یہ تاثر بالکل پاکستان میں بھی ایسا ہے جیسا تاثر یہاں افغانستان میں ہے، یعنی آپ کی نظر میں یہ ہو گا کہ پاکستان ہر معاملے میں زیادتی کر رہا ہے اور پاکستان میں یہی تاثر ہے کہ افغانستان ہر معاملے میں زیادتی کر رہا ہے یہ غلط فہمیاں امنے سامنے بیٹھنے سے ختم ہوں گی۔

نمائندہ : نہیں، ایک تو غلط فہمیاں ہیں اور ایک تو یہ ہے کہ بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان سے ہمیں خطرہ ہے، افغانستان میں د ہشتگردی ہے، یہ مسائل ہے وہ مسائل ہے اور یہ باتیں باہر ممالک کے وزراء نے بھی کہی ہے ۔
مولانا صاحب : جو کہا ہے وہ اب آپ چھوڑ دے، ہم ایک نیا سفر شروع کرنا چاہتے ہیں پرانی باتوں کو نہیں دہرانا چاہتے۔

نمائندہ : تو کیا آپ کی آمد سے یہ سب مسائل ختم ہو جائیں گے ؟
مولانا صاحب : ہم اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، ہم اس کی تکرار نہیں چاہتے، تکرار سے دوبارہ مسائل جنم لے گی تو آمنے سامنے بیٹھ کر یہ مسائل ہم ختم کر دیں گے۔

نمائندہ : افغانستان میں متعدد علماء کرام نے جہا د کے فتوے دیے تھے اور یہاں پر سالوں سال ہزاروں افغانیوں کا خون بہا، آپ بھی اسی فتوی کی حمایت کرتے ہیں ؟
مولانا صاحب : دیکھیے جی سارے ہند و ستا ن پر فرنگیوں کی تسلط تھی وہاں پر بھی اپنے وطن کی آزادی اور حریت کے لیے جہا د ہوا ہے، پھر اگر یہاں بھی فرنگی آیا ہے یا روس آیا ہے یا پھر اگر امریکہ آئی ہے تو اس کے ساتھ بھی افغانوں نے جنگ لڑی ہے، تو میں یہ کہوں گا کہ افغان قوم ایک بہادر قوم ہے کہ اپنی آزادی اور حریت کے لیے کسی کے ساتھ سودا کرنے کو تیار نہیں۔

نمائندہ : پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ ابھی آخر میں جو ہوا آپ نے اس حوالے سے کیا کیا ؟
مولانا صاحب : میں آپ کو ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ افغان مہاجرین پاکستان میں ہمارے مہمان ہیں، ہم ہر وقت ان کی خیر چاہتے ہیں، ان کے بچوں نے چالیس سال سے زائد عرصہ پاکستان میں گزارا، اب جب یہاں امن ایا تو یہ ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے یعنی لوگ افغان ہے لیکن پیدا پاکستان میں ہوئے ہیں تو وہاں بہت وقت گزارا ہے اب جب اتنے لوگ واپس آرہے ہیں تو دونوں ممالک بیٹھ کر ایک شیڈول اور طریقہ کار طے کریں، اپنے وطن واپس آنا کوئی گناہ تو نہیں ہے۔

نمائندہ : جس طریقے سے انہیں نکالا گیا کیا یہ مناسبت تھا ؟
مولانا صاحب : اس میں شک نہیں کہ بے اعتدالی ہوئی ہیں اور میں نے اس کی مذمت کی ہے کسی اور نے نہیں کی ہے، تو وہاں پر جتنے افغان رہ رہے ہیں میں اور میری جماعت ان کو مہمانوں کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مہمانوں کی قدر پشتون روایات کا حصہ ہے۔

نمائندہ : افغانیوں کا گلہ بھی یہی ہے کہ آیا مہمانوں کا خیال اسی طرح رکھا جاتا ہے جس طرح انہوں نے ہمارے ساتھ کیا ؟
مولانا صاحب : ان شاء اللہ العزیز ان سب کا ازالہ ہو گا۔

نمائندہ : کیا یہ مسائل جلد حل ہو جائیں گے ؟
مولانا صاحب : ان شاء اللہ ، لیکن دونوں ممالک تو اس پر بیٹھے نا، افغانیوں کا وطن تو افغانستان ہے نا، مہاجرین کا وطن بھی یہی ہے تو ایک دفعہ تو آئیں گے لیکن شائستگی کے ساتھ ۔

نمائندہ : تو کیا یہ شکل مناسب تھی کہ ان کو زبردستی گھروں سے نکالا گیا، ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کے مال املاک ضبط کر دیے گئے ؟
مولانا صاحب : یہ مجموعی صورتحال ہے اور مجموعی صورتحال پر جو بات آپ کر رہے ہیں یہ ایک فیصد ہو گی، مہمان کو ایک سال گھر میں رکھنا لیکن پھر لات مار کر نکالنا ہمارے ساتھ اس کی فکر ہے کہ ہم اس مہمان نوازی کی قدر کریں تاکہ ان کے دلوں میں قیامت تک یہ قدر برقرار رہے ۔

نمائندہ : مولانا صاحب لوگوں کی دلوں میں جو خفگی اور غم و غصہ ہے وہ یہاں پیدا ہو جاتی ہے کہ جہاں امارت اسلامی میں سخت سردی کا موسم ار ہا ہے، ابھی مشکلات بھی موجود ہے اور پاکستان اسی صورتحال میں یہ قدم اٹھاتا ہے تو یہ افغانستان کی خیر نہیں چاہتے بلکہ افغانستان میں فساد چاہتے ہیں ۔
مولانا صاحب : دیکھیے ایک ہے حکومت اور ایک میں ہوں، میں حکومت تو نہیں بلکہ ایک تنظیم ہوں اب حکومت کا اپنا نظام ہوتا ہے انہیں کچھ شکایات موصول ہو جاتی ہے اور اس کی اساس پر وہ ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جو بظاہر ہمیں اچھے نہیں لگتے تو حکومت اس کے لیے کچھ جواز پیدا کرے گی کہ میں نے کیوں ایسا کیا، کیا مجبوری تھی، ہم اپنی رائے دیں گے تو ہماری رائے اصولوں کی بنیاد پر ہے، معاشرے کی روایات کے بنیاد پر ہے اور اسی حوالے سے ہم نے حکومت کو بھی مشورہ دیا ہے اور دیں گے کہ آپ اس حوالے سے اپنے اقدامات پر نظرثانی کیجیے۔

نمائندہ : اچھا پاکستان کی طرف اتے ہیں اس وقت جو نظام ہے اس پر آپ کی کیا رائے ہے ؟
مولانا صاحب : پاکستان میں اس وقت پارليمینٹ نہیں ہے، الیکشن آرہے ہیں پوری ملک کی سطح پر ووٹنگ ہو گی اور اس کے بعد جو نئی حکومت منتخب ہو گی وہ آئے گی اور باقی جو سلسلہ ہے وہ پاکستان کے دستور کے مطابق جاری ہے ۔

نمائندہ : پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے اختلاف کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
مولانا صاحب : یقینا یہ بھی پاکستان کے لیے ایک مسئلہ ہے اور پاکستان بڑی سنجیدگی کے نظر سے اس کو دیکھتی ہے، اس پر کچھ ناراضگیاں بھی موجود ہے وہ بھی ہمارے نظر میں ہے اور جب ہم دونوں ممالک کے تعلقات بحال کرنے کے خواہش رکھتے ہیں تو یہ بھی ہمارے نظر میں ہے کہ وہ کون سا کام ہے جو رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے تاکہ ہم اس کو درميان سے نکال سکے ۔

نمائندہ : افغانستان میں سرسری امن آیا ہے، حکومت قائم ہو چکی ہے، ترقی کے لیے ابھی کام جاری ہے، آپ کی نظر میں دوسرے ممالک کیوں اب تک اس کو تسلیم نہیں کر رہے ؟
مولانا صاحب : سب سے پہلے میں تمام ممالک سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ باضابطہ طور پر افغان ملت کی رسمی طور پر اعلان کرے حالانکہ عملاً تو ہے تمام ممالک کے سفارتخانے یہاں ہے اور تمام ممالک میں افغانستان کے سفیر موجود ہیں تو جب سفارت کاری کا نظام بحال ہے، تجارت بحال ہے کاروبار ہو رہا ہے، لوگ سرمایہ کاری کے لیے تیار بیٹھے ہیں تو پھر کیوں ایک لفظ کو منہ میں پکڑے ہوئے ہیں اسے نکالتے کیوں نہیں۔ تو اس کی ضرورت ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ دنیا افغانستان کے حوالے سے رسمیہ اعلان کرے۔

نمائندہ : پاکستان کیوں یہ کام نہیں کر رہا ؟
مولانا صاحب : وہ بھی تو عالمی دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے، وہ چاہتا ہے کہ ہم پوری دنیا کے سنگ چلے کیوں کہ تنہائی بعض اوقات مشکلات پیدا کرتی ہے اسی مصلحت کے تحت یہ ہو رہا ہے باقی ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

نمائندہ : کل کے افغانستان اور آج کے افغانستان میں یا اب جو نظام ہے یا جو کل تھا اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
مولانا صاحب : دیکھیے جی میں نے آپ سے کہا کہ میں داخلی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا لیکن یہ ضرور دیکھتے ہیں بیرونی دخل اندازی کیا ہے تو جب عالمی قوتوں نے اکر یہاں پر یلغار کر دی تو وہ تو ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ انسانی حقوق تباہ ہو گئے یہاں پر ناجائز خون بہایا گیا اور ایک ملک کو برباد کر دیا تو اس پر تو پہلے دن سے ہماری نظر ہے باقی تو افغا نیوں کے اپنے معاملات ہے آپس میں اختلاف بھی کریں گے، اتفاق بھی کریں گے، قوم کے اپنے معاملات ہیں جس طرح وہ چاہے حل کرے۔

نمائندہ : شرعی لحاظ سے موجودہ نظام کو کیسے دیکھتے ہیں ؟
مولانا صاحب : ظاہری بات ہے پچھلے بیس سال سے جو تگ و دو چل رہی تھی تو وہ ایک اسلامی شریعت کے لیے تھی تو لازمی بات ہے کہ سب کچھ یکدم تو نہیں ہوتا بلکہ تدریجی عمل سے ہی ہدف تک رسائی ممکن ہو سکے گی ان شاء اللہ، ان کا مقصد پاک ہے مقدس ہے اور اس کے لیے جب دل میں اخلاص ہو، اخلاص کے ساتھ کوششیں ہو تو ان شاء اللہ منزل تک پہنچ جائے گے ۔

نمائندہ : اچھا افغانستان میں کیا دیکھا، اپنے قوم کے سامنے ان کی تصویر کس طرح پیش کریں گے بلخصوص پاکستان کے سامنے کس طرح پیش کریں گے ؟
مولانا صاحب : یہاں پر ہم نے محبت دیکھی، پیار دیکھا، بھائی چارہ دیکھا اور وہ باتیں جو ہم پاکستان میں سنتے تھے کہ ان کے دلوں میں پاکستانيوں کے بہت نفرت ہے ہم نے الحَمْدُ ِلله سب کچھ برعکس دیکھا، میں خود شہر نہیں گیا ہوں لیکن دوسرے ساتھی گئے ہیں تو انہوں نے اپنے افغانی بھائیوں کی جو محبت اور خلوص دیکھی ہے اس پر وہ گواہی دیں گے اور وہ کہتے ہیں نا کہ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی بہرحال پروپیگنڈے ہوتے رہتے ہیں، تو اس پر سوچنا ہو گا کہ کیوں ہم مسلمانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کر رہے ہیں، پھر حدیث ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور ہم تو پڑوسی ہیں تو پڑوسی کے اپنے حقوق ہیں شریعت اسلامی مسلمان کو جو تعلیم دیتی ہے اس کے برعکس ہم اپنے مسلمان بھائی سے نفرت کیوں کریں، ہم اپنے پڑوسی کے ساتھ برا سلوک کیوں کریں، میں اپنا نقصان تو برداشت کر لوں گا لیکن پڑوسی کا نہیں، ایسی تعلقات بنانے چاہیے۔

نمائندہ : افغانستان حکومت کی داخلی سیاست اور بیرونی سیاست کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیسا جا رہا ہے ؟
مولانا صاحب : یہ آپ کو پتہ ہو گا آپ افغانی ہے اور براہ راست صورتحال کو دیکھ رہے ہیں، جہاں تک میری نظر کی بات ہے تو انہوں نے بہت اچھی پالیسیاں شروع کی ہے، دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات بنا رہے ہیں، کسی قسم کی کوئی تیز اور تلخ ردعمل نہیں دے رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات ایسے بیانات یا ردعمل سامنے ایا ہو جو خطے کے ممالک یا پڑوسیوں کے لیے باعث شکایت ٹہرے ہو لیکن یہ عارضی چیزیں ہیں مجموعی طور پر دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا اور ایسے تعلقات جو اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کا باعث بنتے ہو، تو میں نے جتنا مطالعہ کیا ہے ان کی تمام کاوشیں خوشحال افغانستان پر ہی ختم ہوتی ہے اور ہم دعاگو ہے کہ اللہ ان کو وہ خوشیاں نصیب کریں۔

نمائندہ : اچھا اخری سوال افغان حکومت کی مہمان نوازی اور یہاں پر جو وقت گزارا ہے اس کے بارے میں کیا کہیں گے ؟
مولانا صاحب : میں انتہائی شکرگزار ہوں جب ایک مسلمان اپنے بھائی کے گھر مہمان ہو تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو قدر و عزت دی جائے تو ہمیں اپنے توقعات سے زیادہ عزت ملی، احترام ملا اور میں ہمیشہ اس قدر و احترام کا قدردان رہوں گا۔

نمائندہ : بہت بہت شکریہ مولانا صاحب
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat 



۔

0/Post a Comment/Comments