قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی جیو نیوز کے نمائندے سے گفتگو 19 جنوری 2024


قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی جیو نیوز کے نمائندے سے گفتگو

19 جنوری 2024

سوال: ۔۔۔۔۔

جواب: بھئی اس کے لیے تو مجھے پریس کانفرنس کرنی پڑے گی لیکن آپ سب صحافیوں کا حق مار رہے ہیں ٹھیک ہے بتاتا ہوں جی میں
 پہلی بات تو یہ ہے جی کہ جو ایک سال سے افغانستان پاکستان کے درمیان کچھ ناراضگیاں چل رہی تھیں خاص طور پر پاکستان میں جو سٹیٹ کے اوپر فوج کے اوپر پولیس کے اوپر حملوں میں اضافہ ہوا تو یہ بڑی ناراضگی کا باعث تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام شعبوں میں پاکستان افغانستان کے درمیان تعاؤن کے راستے محدود ہوتے چلے گئے تو یہ بات بڑی تکلیف دہ تھی ہم سب کے لیے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان کی پوری تاریخ میں اگر کوئی پاکستان دوست عنصر موجود ہے تو وہ یہی امارت اسلامیہ اور تحریک طالبان افغانستان ہی ہے اور جب پہلے ملا عمر مرحوم کی قیادت میں انقلاب آیا تھا تو اس وقت بھی پاکستان نے ان کو باقاعدہ تسلیم کیا تھا، پھر ظاہر ہے جی کہ ہر ملک کو یہ خواہش ہوتی ہے کہ میرا پڑوسی میرا دوست ملک ہو، افغانستان صرف امارت اسلامیہ کی صورت میں ایک پاکستان دوست ملک کی صورت میں ہمیں نظر آرہا تھا لیکن ایسے ایسے واقعات ہو گئے کہ جس کی وجہ سے وہ آرزوئیں جو ہیں وہ ماند پڑ گئی اور امیدیں جو ہیں وہ خاک سر ہونے لگی، تو اس حوالے سے پھر جب امارت اسلامیہ نے مجھے دعوت دی کہ آپ افغانستان آجائیں تاکہ ہم کچھ معاملات پر بات کر سکیں تو میں نے پاکستان کی وزارت خارجہ کو اور اس سے جو ہمارے سٹیٹ کی متعلقہ ادارے ہیں یا شخصیات ہیں ان کو بھی اعتماد میں لیا کہ مجھے دعوت ہے میں جا رہا ہوں اور ایک وفد لے کر جا رہا ہوں تو اس میں سٹیٹ کہاں کھڑی ہے ہماری ریاست کا سوچ کا زاویہ کیا ہے ہمیں وہاں پر بات کرنی ہے تو کس زاویے کے ساتھ کرنی ہے کن ترجیحات کے ساتھ کرنی ہے تو اس چیزوں پر میں نے اعتماد میں نے لیا اور میں دونوں ممالک کے دو طرف تعلقات اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاؤن کے مواقع اس کو میں نے اپنا موضوع بنایا تھا اور پھر یہ کہ ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس چیز میں رکاوٹ کیا ہے یا جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں تو اس کا سبب کیا ہے اس کو بھی ہم نے ضرور ڈسکس کرنا ہے، چنانچہ انہی خطوط پر ہم نے وہاں پر بات کی اور سب سے پہلی ضیافت جو ہماری ہوئی پہلی روز وہ مولوی عبدالکبیر صاحب کے گھر میں ہوئی جو نائب وزیراعظم ہیں اور انہوں نے بڑے کھلے ڈھلے انداز کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر بات کی اور پاکستان کے رویوں کو سراہا انہوں نے اور پاکستان کو ایک اپنے لیے بڑا سہارا تصور کیا اور ان واقعات کی طرف بھی نشاندہی کی کہ جو ہمارے درمیان تلخی کا سبب بن رہی ہیں اور اس پر ان کا مثبت سوچ تھا کہ ہم نے اس کو طے کرنا ہے، چنانچہ اسی میٹنگ میں آئندہ آنے والی جو تمام میٹنگیں تھیں تو اس کا ایک ایجنڈا پر ہم نے اتفاق کیا اور اسی ایجنڈے کے ساتھ پھر ہم نے ساری چیزیں وہاں ذکر کی، تو جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی چاہے وہ وزراء کی سطح پر تھی چاہے وہ پرائم منسٹر کی سطح پر تھی وہاں تو سب کے سب بڑی ہی مثبت اور بڑی ہی ثمرآور نظر آنے لگی ہمیں اور ہم نے سوچا کہ الحمدللہ اس دورے سے برف پگھل رہی ہے۔

سوال: آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دورے کا بریک آوٹ یہ آیا ہے کہ اس سے حالات جو ہیں وہ کسی حد تک نرمی کی طرف یا بہتری کی طرف چل پڑے ہیں

جواب: یہ بڑا اچھا سوال ہے آپ کا، بنیادی بات یہ سمجھنی ہے کہ کیا ہم مسئلے کے حل اور اس کے نتائج حاصل کرنے کے لیے گئے تھے یا مسئلے کے حل کے شروعات کے لیے گئے تھے؟ ظاہر ہے کہ ہمارا دورہ مسئلے کے حل اور مشکلات کے حل کے شروعات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس دورے سے اچھی شروعات ہوئی اور اس کی جو میں نے تفصیل یہاں پر پاکستان کے وزارت خارجہ جیلانی صاحب خود میرے گھر تشریف لائے اور ایک لمبی میٹنگ ان کے ساتھ ہوئی اور تمام تفصیلات ان کے سامنے رکھیں اب یہاں پر یہ سوچ پیدا ہو گئی ہے کہ اس کے لیے نظام کار بنایا جائے ایک میکنزم ہو کہ جس میں انہی خطوط پر ہم اب آگے بڑھیں اور ان مشکلات کو بھی دور کریں جو اس تعلقات کے خرابی کا سبب بن رہی ہے ان اسباب کو بھی دور کریں اور ایک دوسرے کو ہم شکایت کا موقع نہ دیں، تمام چیزیں برادرانہ انداز کے ساتھ اور ایک پڑوسی ملک کے ناطے ہمیں افغانستان کے ساتھ۔۔۔ 

سوال: افغانستان کی طرف سے ایسی کون سی لائن تھی یہ ایک کوئی ایسی بات جو کہ پاکستان سے متعلق تھی کہ یہ درست نہیں ہے یا یہ یہ چیزیں ٹھیک نہیں ہوئی کوئی ایسی نشاندہی ان کی طرف سے کی گئی

جواب: سب سے بڑی بات جس کی مجھے کہنے کی اجازت بھی ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے یہاں پر عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے جو نقصانات ہوئے ہیں اس پر انہوں نے اپنی خفگی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ پاکستان کی شکایت ہے ہمیں بجا لگتی ہے لیکن ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے ایک پاکستان کی پوزیشن ہے ایک ہماری پوزیشن ہے، پاکستان چونکہ متاثرہ ملک ہے اور ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس میں پاکستان کا ساتھ تعاؤن کریں تو اس کے لیے بیٹھ کر ہمیں ایک مشترکہ سٹریٹجی بنانے ہوگی اور ایک طویل المدت سٹریٹجی کی طرف ہمیں جانا چاہیے تو اس پر ان کی بھی خواہش تھی اور جو یہاں میں نے بات کی تو انہوں نے بھی کہا کہ بہت مناسب بات ہے

سوال: اب تو ایران کے ساتھ بھی حالات کچھ ناخوشگوار پیدا ہو رہے ہیں وہ کسی بھی سطح پہ ہیں حکومتوں کی سطح پہ ہیں یا کسی ایک خاص مخصوص ایریاز کی سطح پہ ہیں مگر یہ کہ یہ ایک بہت زیادہ الارمنگ سچویشن میں ہے اور اسپیشلی اس کا پاکستان میں اس وقت جو کہ انتخابی وقت ہے انتخابات ہونے جا رہے ہیں تین ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اس صورتحال میں ایران کے ساتھ اس طرح کی صورتحال بننا یہ کس طرف اس کا اشارہ ہے

جواب: میرے خیال میں اس کی ابتدا تو ایران نے کی ہے اور پاکستان کو بھی پھر اپنے عوام اور اپنی سیکورٹی فورسز اور اپنی فوج کے مورال کا لحاظ ہوتا ہے اس کو بھی ان کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے تو کچھ احتجاج پھر پاکستان کو بھی نوٹ کرانا پڑ گیا لیکن ہم ایران سے بھی یہی بات پوچھنا چاہتے ہیں کہ براہ راست کوئی کاروائی کرنے کی بجائے کیا پاکستان کے ساتھ ضروری نہیں تھا کہ آپ بات کرتے اور اس حوالے سے پاکستان کی مدد آپ مانگتے، اپریشن بھی ہوتا تو پھر طے کرتے کہ ہم مشترکہ اپریشن کرتے ہیں، یک طرفہ طور پر پاکستان کے سرحدات کو عبور کرنا یہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس وقت جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اور 20 سے 25 ہزار وہاں پر شہری عام آبادی جو ہے وہ متاثر ہوئی ہے شہید ہو گئے ہیں لوگ جس میں 70 فیصد سے زیادہ جو ہے بچے اور عورتیں ہیں، تو اب اس پر امریکہ جب ان کو سپورٹ کر رہا ہے اسرائیل کو، اس ساری درندگی پر ساری سفاکیت پر تو یہ تو دنیا کو جماعت فراہم کر رہا ہے کہ آپ جس ملک میں جہاں چاہیں آپ نشانہ بنائیں اور اس ملک کی کوئی سرحد کے احترامات نہیں ہیں جی اور اس کا کوئی عزت نہیں ہے تو یہ سارے قانون پامال کر دیے گئے ہیں عالمی قوتوں کی وجہ سے پامال ہوئے ہیں اگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ جغرافیائی تقسیم ہے اور ملک کی سرحدات کے اندر ہر ملک اپنا ایک اقتدار اعلیٰ ہے اور اس کی اپنی خود مختاری ہے تو پھر اس کا احترام ہونا چاہیے یہ دنیا کے قانون کا تقاضہ ہے لیکن انہوں نے تو حضرت نہ عراق کو معاف کیا، نہ لیبیا کو معاف کیا نہ انہوں نے افغانستان کو معاف کیا اور اب وہی چیز جس کی نقالی ساری دنیا کر رہی ہے کہ اگر یہ کام تمہارے لیے جائز ہے تو میرے لیے بھی جائز ہے، تو ایک طاقتور کی مقابلے میں تو کمزور شاید جوابی کاروائی نہ کرے لیکن جو برابر کی دنیا ہے وہ تو پھر جنگ ہو جائے گی

سوال: ایران اور پاکستان کے درمیان جو ایک طرح سے جڑپ ہوئی ہے یہ دو ملکوں کا ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی وجوہات ہو سکتی ہیں کوئی عالمی سطح کی کوئی قوتیں اس میں انوالو تو نہیں ہو سکتی آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: دیکھیے پہلی بنیادی بات تو یہ ہے کہ ایک مجھے عجیب سا لگا ایران کہتا ہے کہ میں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنایا ہے جبکہ یہاں پر بچے شہید ہوئے ہیں پاکستان کہتا ہے میں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنایا ہے جی اب دونوں کا نشانہ جو ہے بلوچ ہیں اور بلوچ علیحدگی پسند ہیں تو پھر اس بات کو واضح کیا جائے کہ اگر کوئی ایسا معاملہ ہے کہ جس میں ایک ہی برادری ایک ہی قوم وہ یکساں طور پر دونوں ممالک کے لیے مشکلات کا باعث ہے تو اس کے لیے بھی ایک مشترکہ سٹریٹجی ہونی چاہیے تھی اس کا طریقہ کار ہونا چاہیے تھا لیکن وہ بدقسمتی سے نہیں اپنایا گیا ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ بہرحال ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے۔

سوال: سفیروں کا واپس بھیجنا وہاں سے منگوا لینا اور یہاں سے واپس بھیج دینا یہ کس حد تک کا شدید رویہ ہے؟

جواب: یہ سفارتی احتجاج کا حصہ ہے ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کبھی سفیر کو ہم اپنے سفارت خانے میں بلا کر اسے احتجاج کرتے ہیں، کبھی اس کا سکیل اوپر ہوتا ہے تو پھر ہم سفیر کو بلا لیتے ہیں اگر کسی نے باقاعدہ ملک کے سرحدات کے اندر جا کر حملہ کیا ہے تو ایک جوابی کاروائی اس طرح بھی کر لی جاتی ہے لیکن یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ جنگ کو دوام دیا جائے یہ صرف احتجاج نوٹ کرانے کے لیے ہوتا ہے، میرے رائے واضح طور پر ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک ہیں قدیم ہمارے پڑوسی ہونے کے ناطے سے گہرے روابط ہیں اور اس کا لحاظ رکھتے ہوئے اب بھی وقت ہے کہ ہم مزید کوئی منفی اقدام نہ کریں بلکہ مثبت اقدامات کا آغاز کریں اور اس معاملات کو ہم شائستگی کے ساتھ حل کریں۔ 

سوال: آپ آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالے سے ناقد رہے ہیں، مزید اس سچویشن کچھ خراب ہوتی محسوس ہو رہی ہے آپ اب بھی سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہونے چاہیے یا اب کچھ اس پہ روکا نہیں جا سکتا لہذا ہونے دیا جائے۔ 

جواب: دیکھئے ہم نے جو الیکشن کے لیے تیاریاں شروع کی ہیں وہ تو آٹھ فروری کے الیکشن ہی کے لیے ہے ہم نے جو کچھ کہا اسے نہ سنا گیا اور نہ مانا گیا تو ظاہر ہے الیکشن کا تو ہم انکار نہیں کر رہے الیکشن تو ہوں گے اور اگر اس میں کوئی عدم توازن سامنے آتا ہے کوئی شکایات سامنے آتی ہے اور عوام کا پولنگ سٹیشنوں تک پہنچنے میں رکاوٹیں سامنے آتی ہیں یا بدامنی کی وجہ سے یا موسم کی وجہ سے تو یہ تو پھر ہم نے اپنی بات ریکارڈ پہ رکھ دی ہے اس سے آگے ہم کوئی سٹیٹ کے لیے رکاوٹ تو نہیں بنیں گے۔ 

سوال: یہ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ تھا انتخابی نشانات کے حوالے سے اور اس کے بعد کے جو اقدامات ہیں بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے الیکشن کمیشن کو بھی اور سپریم کورٹ کو بھی خصوصاً ایک جماعت کی طرف سے، کیا یہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ وہ ان کا حق ہے تنقید کرنا اس طرح کی تنقید کرنا جس میں سوشل میڈیا پہ خصوصی طور پر ایک کمپین کی ایک شکل دی جا رہی ہے۔

جواب: اس تنقید کا کوئی اعتبار نہیں ہے حضرت یہی صحافی یہی چینلز یہی اخبارات یہی ادارے کسی زمانے میں ان کو پاگل بھی کہتے تھے ان کو نااہل بھی کہتے تھے ان کو نالائق بھی کہتے تھے دھاندلی کی بنیاد پر ان کی حکومت کو تعبیر کرتے تھے ان کے حق اقتدار کو تسلیم نہیں کہا گیا، تو آج وہ اپنے مکافات عمل کا شکار ہے تو اب ہمدردیاں پیدا ہو جاتی ہیں لوگوں کو، پہلے تو یہ کہا تھا کہ پارٹی کی بات آپ کیوں کر رہے ہیں اگر کوئی یکساں مواقع کی بات ہے تو پھر دو صوبوں کی بھی بات کر رہا ہوں نا، کیا دو صوبوں کو وہ حالات ماحول نصیب ہے، ایک پارٹی کے لیے آپ فکر مند ہیں اور دو پورے صوبوں کے لیے آپ فکر مند نہیں ہے، آپ آدھے پاکستان کے لیے فکر مند نہیں ہیں یہ چیز بھی ذرا ہمیں دیکھنی چاہیے، نواز شریف جب جیل میں تھا اور ان کی بیٹی اس کا بھائی اس کی پارٹی کے سینیئر لوگ پیپلز پارٹی کے لوگ خواتین جیل میں اور ان کے ساتھ جو الیکشن کے دوران میں کیا گیا اور جو مظالم انہوں نے ڈھائے اب مکافات عمل تو ہیں، اللہ بھی تو دیکھ رہا ہے نا ساری چیزوں کو جی، تو اب میرا خیال میں ایسی قوت جس سے ہماری تہذیب کو تباہ و برباد کیا ہماری تہذیب کو ننگا کیا ایسی پارٹی جس سے ملک کو کچھ بھی نہیں دیا سوائے لفاظی کے اور بس آج ان کے پاس صرف ایک کینسر ہسپتال ہے اس کے علاوہ کوئی کارکردگی کی نہیں اس کا حکومت سے کیا تعلق ہے وہ تو کاروبار بہت سے لوگ کر رہے ہیں اسی لاہور میں ان سے اچھے کینسر کے ہسپتال بن گئے ہیں اب، تو یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ایک چیز جو ہے اس کو، اصل میں اب بھی مغربی دنیا امریکہ مغرب میں یہودی لابی اب اس کو سپورٹ کر رہی ہے اور ہمارے جو ماحول ہے پاکستان میں اس وقت کتنا زیر اثر ہے ہمارے لوگ جانتے ہیں کہ ہم کتنے زیر اثر آجاتے ہیں ان کے تو ہم نے تو پھر وقت گزارنا ہوتا ہے جی۔

سوال: مولانا صاحب ان حالات میں جب آپ کے مخالف بانی پاکستان جیل میں ہیں اور انتخابی نشان ان کے پاس بلا نہیں ہے، ان انتخابات کو جسٹیفائی کرنا دنیا میں اور پاکستان میں یہ ممکن ہو سکے گا؟

جواب: پاکستانی یا ویرانی پاکستان
صحافی: بانی تحریک انصاف
مولانا صاحب: بانی تحریک انتشار، یہ پارٹی ہونی ہی نہیں چاہیے پاکستان میں جی، یہ سرے سے پاکستانی نظریات کے حامل جماعت ہی نہیں ہے یہ اور جس سے پاکستان کو حضرت اس مقام تک پہنچایا کہ ہمارے سالانہ جو جی ڈی پہ گروتھ ہے وہ منفی تک چلی گئی تھی، ایسے لوگوں کو ہم دوبارہ لائیں جس نے ہمارے میگا پروجیکٹ سارے فریز کر دیے، بین الاقوامی سرمایہ کاری مکمل روک دی اور ریکارڈ پر یہ بات کہی ہے کہ پاکستان میگا پروجیکٹ کا متحمل نہیں ہے، مغرب کی نوکری کرو امریکہ کی نوکری کرو تو سلیقے کے ساتھ کرو نا اپنے مفادات پیش کر، پاکستان میں اس لیے تمہیں اقتدار پہ لایا گیا تاکہ آپ ہماری تہذیب کو اسلامی تہذیب سے ایک مغربی تہذیب کی طرف لے جائیں، ننگا معاشرہ پیدا کر دے مادر پدر آزاد معاشرہ پیدا کر لیں اور پھر اس کی بنیاد پر آپ چونکہ دنیا کی معیشت پر یہودی قابض ہے تو ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے آپ زمین بنائیں ان کے لیے ماحول بنائیں اور پھر اس کے بعد آپ تمام میگا پروجیکٹ جو ہیں وہ پاکستان کے اندر پاکستان کے دوستوں کے جو تھی وہ سب روک دیں، سعودی سرمایہ کاری رک گئی گئی، امارات کی سرمایہ کاری رک گئی، چین کی سرمایہ کاری رک گئی یہ کون سی خدمتِ پاکستان ہے، جھوٹ بول رہے ہیں پاکستان کے لیے کھڑا ہے پاکستان کے لیے کھڑا ہے پاکستان کے خلاف کھڑا ہے! پاکستان کے مدمقابل کھڑا ہے! کچھ سمجھنا پڑے گا لوگوں کو اس حوالے سے اور محض اس کو تنقید نہ کہا جائے یہ تنقید نہیں ہے، میں دوسری پارٹیوں کے بارے میں ایسی بات کیوں نہیں کر رہا تو میرا ان سے بھی ہے یہاں پر میرے مقابلے میں صرف پی ٹی آئی تو نہیں ہوگی کوئی اور پارٹیاں بھی تو ہوں گی ان کے بارے میں میرا یہ رویہ کیوں نہیں ہے۔ 

سوال: مولانا صاحب کیا آپ کمپین اسی طرح سے چلائیں گے جلسے بھی کریں گے جلوس بھی کریں گے اور گھر گھر کمپین چلا سکیں گے ان حالات میں جب جب کہ آپ کو براہ راست پولیس کی طرف سے اور ایجنسیز کی طرف سے تھرڈز بھی ہیں؟ 

جواب: میں بہت سی چیزیں آپ کو نہیں بتا رہا اور ہم نے بتانی بھی نہیں ہے کہ جو ہمارے میرے گھر کے خاندان کے لوگ میرے بھائی میرے بیٹے جو پھر رہے ہیں ان کو کہاں کہاں کس کس مقام پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہم اس کو دبا رہے ہیں تاکہ ہمارا کمپین جو ہے چلتا رہے اس ماحول میں آپ بتائیں کہ میں کیسے کھلا کمپین چلاؤں گا، دل گردے کا زور تو ہے وہ تو کریں گے ہم اپنا لیکن آج جو مولانا تقی عثمانی صاحب نہیں آسکے وہ بھی تو امن و امان کی وجہ سے روکا ہے نا ان کو جی تو یہ ساری چیزیں آپ کے ملک میں ہیں یہ تو حقائق ہیں۔
بہت شکریہ جی
مہربانی 

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 



ڈی آئی خان: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کی جیو نیوز سے گفتگو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, January 19, 2024











0/Post a Comment/Comments