قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جامعہ معارف الشرعیہ شورکوٹ میں ختم بخاری شریف کا آخری درس 19 جنوری 2024


قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جامعہ معارف الشرعیہ شورکوٹ میں ختم بخاری شریف کا آخری درس
19 جنوری 2024

خطبہ مسنونہ کے بعد

۔۔۔۔۔ اللہ کے گھر میں اکھٹے ہوئے اور اس میں وہ قرآن کو پڑھتے رہے اور ایک دوسرے کو پڑھاتے رہے سمجھاتے رہے، اس مجلس میں شریک ہونے والوں پر اللہ تعالیٰ کا جو سب سے پہلا انعام ہے وہ یہ کہ ان پر سکینہ نازل کر دیتے ہیں، سکینہ، سکون، طمانینت یہ ضد ہے اضطراب پریشانی اور پراگندگی کی، اور علماء فرماتے ہیں کہ سکینہ یہ قلب کی اس کیفیت کا نام ہے جس وقت اس پر انوار کا نزول ہو رہا ہوتا ہے، پھر اس مجلس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور ملائکہ اس مجلس کو گھیر لیتے ہیں، اس منظر کو دیکھتے ہیں اس احساس کے ساتھ کہ اس انسان کی تخلیق پر تو ہم نے اعتراض کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ
أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ
اے اللہ تو ایسے ایک مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہے جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا
وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ
اور ہم تو آپ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں۔ آج کل ہمارے انسانوں میں بھی جب انتخابات کا موقع آتا ہے تو ایک عہدے کے ہر ایک امیدوار دو ہی باتیں کرتا ہے ایک یہ کہ اس منصب کا میرا مد مقابل حقدار نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ اس منصب کا میں حقدار ہوں، ملائکہ نے بھی یہی انداز اختیار کیا کہ خلافت کا یہ منصب اس کے حقدار تو ہم ہو سکتے ہیں، انسان تو فساد پھیلائے گا ان کو پتہ تھا کہ ہم نے انسان کا جو مزاج ہے اس میں جو صفت ناریہ ہے اس میں اشتعال آئے گا اشتعال آکر لڑیں گے ماریں گے ایک دوسرے کو تو یہ تو خصیم مبین ہے اور ہم تو تسبیح و تقدیس کے علاوہ اور ہمارا کوئی کام ہی نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا 
إِنِّیۤ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ
میں وہ کچھ جانتا ہوں جسے تم نہیں جانتے۔
اور چوتھا انعام جو اللہ تعالی اس مجلس پہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے ماحول میں ان لوگوں کو یاد کیا کرتا ہے، آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ آج کے دور میں اگر بادشاہوں کے ماحول میں ان کی مجلس میں ہم جیسے فقیروں کا ذکر خیر ہوتا ہے تو ہمارے لیے کتنا باعث فخر ہوتا ہے، مجھے بادشاہ نے اپنے ماحول میں یاد کیا اپنی مجلس میں یاد کیا اور اسے باعث افتخار تصور کیا جاتا ہے، اللہ رب العالمین جو شہنشاہ کائنات ہے جن لوگوں کو اپنی مجلس میں یاد کرتا ہو اپنے ماحول میں یاد کرتا ہوں اس سے بڑا شرف اور کیا ہو سکتا ہے، اللہ تعالیٰ ہماری اس مجلس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فرمان کا مصداق بنائے آمین، تو یہ چار انعامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو جو قرآن پڑھتے ہیں ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں ان کے لیے ارشاد فرمائیں ہیں۔ ہمارے اس مجلس میں آج حضرت شیخ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے تشریف لانا تھا لیکن کوئی ایسے عوارض ان کو پیش آئے کہ انہوں نے کل رات فون کر کے معذرت کر لی اور فرمایا کہ میرے لیے یہ تکلیف مالاطاق ہے اگر مجھ میں کچھ بھی ہمت ہوتی تو میں ضرور حاضر ہوتا، ان شاءاللہ خدا ان کو صحت دے ان کو لمبی عمر دے صحت والی اور آئندہ ان شاءاللہ العزیز پھر کسی اور موقع پہ سہی ہماری کوشش ہوگی کہ وہ اپنے مبارک قدم یہاں رکھیں اور آپ حضرات کو اپنے ارشادات سے نوازے۔ 

امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری کا آغاز کتاب الوحی سے کیا ہے، اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے کہ حیات انسانی کی تشکیل کا دارومدار وحی الٰہی پہ ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو اندھیروں کی طرف نہیں دھکیلا، کھلی صحراؤں میں نہیں چھوڑا کہ آپ بھٹکتے پھرتے رہیں بلکہ اپنی طرف سے بذریعہ وحی حضرت انسان کی رہنمائی کی، وحی نازل کی حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے انبیاء کرام تک اپنا پیغام پہنچاتے رہے، انسانوں میں سے حضرات انبیاء کرام ان کا پیغام وصول کرتے رہے اور وہ پیغام وہ تمام انسانیت تک پہنچاتے رہے تاکہ انسان اللہ کا حقیقی معنوں میں بندہ بن جائے، بندے اور رب کے درمیان رشتہ پیدا کیا اور مقصد حیات بتلا دیا
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
میں نے انس و جن کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یعنی مقصد عبدیت ہے لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ یہاں عبدیت تشریعی ہے تکوینی نہیں ہے، اگر عبدیت تکوینی ہوتی تو اللہ کے لیے کیا مشکل تھا کہ ساری انسانیت کو بیک وقت پر ہدایت فرما دیتے اور سب اللہ کے بندے بن کر زندگی گزارتے اور اس کی اطاعت کرتے لیکن چونکہ یہاں عبدیت جو انسانی جِبِلّت کو عطاء کی گئی وہ عبدیت تشریعی ہے اور عبدیت تشریعی وہ ہوتی ہے جو انسان کے عقل اور ارادے کے سپرد ہو جائے، چنانچہ حضرت انسان ہی وہ مخلوق ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل کی نعمت سے نوازا ہے اور عقل ہی وہ چیز ہے کہ جس نے انسان کو تمام مخلوقات کے اوپر فضیلت عطاء کی، یہ انسان ہی ہے جو عقل کی استعمال سے ترقیوں کو عبور کرتا ہے اور ترقی کے سارے مدارج، سائنسی ترقی ہو، اقتصادی ترقی ہو، علمی ترقی ہو، اس میں کام کرتا ہے، عقل کو استعمال کرتا ہے اور آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، لیکن جہاں تک ہدایت کا تعلق ہے کہ عقل بھی صحیح راستے پر ہدایت دے، عقل چونکہ بہت بڑی قوت ہونے کے باوجود رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے، انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا قوت ادراک اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو پہچان لیتا ہے، اس کے اندر شعور کی قوت ہوتی ہے جس سے وہ پیاس کو بھی محسوس کرتا ہے، وہ بھوک کو بھی محسوس کرتا ہے، وہ غم کو بھی محسوس کرتا ہے، وہ خوشی کو بھی محسوس کرتا ہے اور اپنے مخصوص حرکات کے ساتھ اور رونے کے ساتھ اپنے والدین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اس سے زیادہ اس کے پاس ادراک کی قوت نہیں ہوتی، پھر جب وہ آگے بڑھتا ہے عمر کے بلوغت کی طرف سفر کرتا ہے تو پھر وہ اشیاء کا ادراک حواسِ خمسہ کے ذریعے کرتا ہے، ہاتھ سے کسی کو لَمس کیا تو پتہ چلتا ہے کہ یہ گرم ہے سرد ہے ٹھوس ہے نرم ہے اس کو قوت لامسہ کہتے ہیں، زبان سے کوئی چیز چک لی تو فوراً محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ میٹھا ہے کڑوا ہے نمکین ہے تلخ ہے اس کو قوت ذائقہ کہتے ہیں، سونگنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خوشبودار ہے بدبودار ہے اسے قوت شامہ کہتے ہیں، کان سے سنتا ہے اس کو پتہ چلتا ہے کہ کیا بول رہا ہے کس کی آواز ہے اچھی آواز ہے بری آواز ہے کرخت ہے نرم ہے یہ قوت سامعہ ہے، لیکن یہ حواسِ خمسہ دوسرے حیوانات میں انسان اس کے ساتھ برابر کا شریک ہے، یہ پانچوں حواس دوسرے حیوانات کے پاس بھی ہوتے ہیں اور یہ حواسِ خمسہ انسان کو دوسرے حیوانات سے ممتاز نہیں کرتا لیکن جب انسان بالغ ہو جاتا ہے 20 سال کا 25 سال کا 30 سال کا 40 سال تک پہنچتا ہے تو اس کو عقل کی پختگی آجاتی ہے اور پھر عقل سے وہ سمجھتا ہے، ایک ہے سمجھنا اور ایک ہے سمجھانا، ایک ہے تعلُّم اور ایک ہے تعلیم، انسان کو خود سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے لیکن جو سمجھ لیتا ہے تو پھر دوسرے کو سمجھانے کے لیے زبان میں قوت نطق عطاء کردی ہے، بولنے کی یہ طاقت دوسرے کسی حیوان کے پاس نہیں ہے اب یہ دو قوتیں جب انسان کو عطاء کر دی ہیں تو اس سے آپ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت کو سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا میں سب سے اہم ترین چیز کیا ہے جس کو انسان اپنے عقل سے سمجھے اور دنیا میں وہ سب سے اہم ترین چیز کیا ہے ان کو سمجھائے، ظاہر ہے سب سے اولین چیز اللہ کی اپنی وحی ہے اپنا پیغام ہے یعنی عقل بھی اللہ تعالی نے اس لیے عطاء کی کہ میرے پیغام کو سمجھے اور قوت نطق بھی زبان میں اس لیے عطاء کی کہ دوسرے کو بھی سمجھا سکے، اور اس کی مثال ایسی ہے کہ آنکھوں میں بینائی ہے دیکھنے کی پوری قوت آنکھ میں موجود ہے لیکن اس کو خارجی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اگر سورج نہیں ہے غروب ہو جاتا ہے، بجلی بھی نہیں ہے، چراغ بھی نہیں جل رہا تو بینائی کی پوری قوت ہونے کے باوجود بھی آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا، تو جس طرح آنکھوں کی بینائی کے لیے وہاں سے سورج کی روشنی کی ضرورت پڑتی ہے اور تب بینائی کام آتی ہے، اسی طریقے سے عقل کو بھی اگر تو وحی الٰہی کی رہنمائی حاصل ہے تو پھر عقل صحیح چلتا ہے ورنہ پھر ٹھوکر بھی کھاتا ہے، پھر اندھیرا ہو جاتا ہے، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس بات پر تنبیہ کی اور خاص طور پر امام بخاری نے اپنی کتاب کا آغاز کتاب الوحی سے کیا لیکن حضرت ابن الحجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کتاب الوحی بمنزلۃ مقدمہ کتاب کے ہے، اصل میں کتاب کا آغاز کتاب الایمان سے ہے عقیدے سے ہے اور پھر آخر میں آکر بھی کتاب کا اختتام کیا تو کتاب التوحید سے کیا، تو ابتدا بھی کتاب الایمان سے ہو گئی اور اختتام بھی کتاب الایمان پہ ہو گیا کتاب التوحید پہ ہوا لیکن ابتدا کی ہے کتاب الایمان کی ایجابی پہلو سے اور اختتام کیا ہے کتاب کا ایمان کے سلبی پہلو سے ابتدا میں آپ کو وہ روایتیں بتائی ہیں کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ چیز آپ کے اندر ہے تو پھر آپ مومن ہیں اگر یہ چیز آپ کے اندر ہے تو آپ مومن ہیں اور آخر میں 
الرد علی جهمية 
سے یہ اشارہ کر دیا کہ میں وہ حدیثیں لا رہا ہوں کہ اگر یہ آپ بھی نہیں ہے تو آپ مومن نہیں ہیں اگر یہ آپ میں نہیں ہے تو آپ مومن نہیں تو ایجابی اور سلبی، ایجاب سے شروع کیا اور سلب پہ ختم کر دیا۔ 
اب اس حوالے سے امام نے باپ باندھا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت یہ ہے کہ جہاں وہ باپ باندھتے ہیں اور عنوان کے لیے اس کو قرآن سے کوئی آیت ملتی ہے تو اس آیت کا عنوان بنا دیتا ہے، تو یہاں پر بھی فرمایا
 باب قول اللہ عزوجل وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ 
 اب یہ ساری کتاب دونوں جلدیں جو ہیں یہ اعمال کا ذخیرہ ہے، لائحہ عمل ہے انسانی زندگی کا اور آخری حدیث میں آپ کو بتا دیا کہ پھر ان اعمال کو آخرت میں تولا بھی جائے گا، انسان کے اعمال ضائع نہیں ہوتے،
أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا 
اللہ تعالی اعمال کو ضائع نہیں کرتا اعمال پڑے رہتے ہیں اور حساب کتاب ہوگا پھر قیامت کے دن، دنیا یہاں پر عمل ہے حساب نہیں اور آخرت وہاں پر حساب ہے عمل نہیں، اور انسان کے مرنے کے بعد اس کی آخرت شروع ہو جاتی ہے اعمال ختم ہو جاتے ہیں
تو فرمایا وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ 
ہم رکھیں گے ترازو عدل کے قیامت کے روز، ہم رکھیں گے ترازو، موازین میزان کی جمع ہے جیسے مواعید میعاد کی جمع ہے یا موازین جمع ہے موزون کی جیسے مشاہیر جمع ہیں مشہور کی، وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ رکھیں گے ہم ترازو۔
 میزان وزن سے ہے وزن مصدر ہے ثلاثی مجرد کا اور یہ مثال واوی ہے تو یہ اصل میں مِوْزان تھا اور ساکن قبل او مکسور آں را بیا بدل کردد میزان شد
بظاہر یہ لگتا ہے کہ ترازو بہت سے ہوں گے ہر عمل کے لیے اپنا اپنا ترازو ہوگا، نماز کے لیے اپنا ترازو روزے کے لیے اپنا ترازو زکوۃ کے لیے اپنا ترازو اور بعض فرماتے ہیں کہ نہیں موازین ایک ہوگا لیکن جمع کے صیغے کے ساتھ ذکر کیا تفخیم کے لیے جیسے ہم جمع کا صیغہ ایک فرد کے لیے، بعض دفعہ محترم مہمان آتا ہے، تو ہم کہتے ہیں حضرت فلاں تشریف لائے ہیں یہ نہیں کہتے کہ لایا ہے، وہ خود تو ایک آدمی لیکن ہم جمع سمجھتے ہیں، آپ تشریف لائیں، تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ احترام کی وجہ سے اس کو جمع کی صیغے سے یاد کیا جاتا ہے تو یہاں پر بھی وہ موازین اصل میں ایک میزان ہے جس میں ساری چیزیں اللہ تعالی اپنی قدرت کاملہ سے ترازو میں تول سکے گا۔ "القسط" اب قاعدہ یہ ہے کہ موازین جمع ہے تو اس کی صفت بھی جمع ہونی چاہیے یہاں یہ صفت اور موصوف ہیں اور موصوف جو ہے وہ جمع ہے اور صفت مفرد ہے تو یہ تو ہمارے نحوی قاعدے کے خلاف ہوگیا، تو اس کے دو جواب ہیں، پہلا یہ کہ یہاں پر مضاف کو مقدر کر لیتے ہیں
"ونضع الموازین ذوات القسط" رکھیں گے ہم ترازو انصاف والیاں، جمع ہو گیا نا، (دوسرا جواب) اور یا یہ کہ قسط مصدر ہے اور مصدر میں مفرد تثنیہ اور جمع یکساں ہوتے ہیں میزان، میزانان، موازین تو یہ میزان القسط، میزانان القسط، موازین القسط۔ "لیوم القیامة" قیامت کے روز تو یا تو یہاں لام زائدہ ہے "یوم القیامة" یا یہاں بمعنی "فی" کے ہے فی یوم القیامة یا یہ لام تعلیل کے لیے ہے لحساب یوم القیامة۔ اب یا یہ توقیت کے لیے ہے لوقت یوم القیامة
"وَأن اعمال بنی اٰدَم و قولھم یوزن" 
اور انسان کے اعمال و اقوال تولے جائیں گے یہاں امام صاحب رد کر رہے ہیں ان لوگوں کے اوپر جیسے معتزلہ تھے کہ وہ کہتے تھے کہ یہ تو اعراض ہیں اعراض تو تولے نہیں جا سکتے۔ آواز کو کیسے تولو گے آواز تو نکلی اور ختم ہو گئی، تو ہمارے اساتذہ بزرگ تو یہ جواب دیتے تھے کہ وہاں یہ اجساد بن جائیں گے، جب جسد بن جائیں گے جسم بن جائیں گے تو پھر تولے جا سکیں گے نا، لیکن آج کی سائنسی دور میں تو یہ مذاق ہے، اب تو آپ تھرما میٹر رکھ لیں عرض ہے بخار عرض ہے پتہ چل جاتا ہے کتنے درجے کی آپ کو بخار ہے۔ رفتار ہے یہ عرض ہے جسم نہیں ہے جوہر نہیں ہے لیکن میٹر لگا ہوتا ہے اس وقت آپ اتنے رفتار سے جا رہے ہیں، پانی ہے تو پانی کی جو گہرائی ہے وہ تو عرض ہے آج آپ جہازوں میں سفر کریں میٹر لگا ہوتا ہے یہاں پانی کا گہرائی اتنی ہے یہاں پانی کی گہرائی اتنی ہے، تو آج کی جدید سائنس نے تو معتزلہ کو بیوقوف بنا دیا ہے کہ سرے سے کچھ سمجھتے نہیں تھے۔
"وقال مجاھد القسطاس العدل بالرومیة"
 اب قسط کے مادے سے قرآن میں ایک اور لفظ مل گیا امام صاحب کو تو اس کو بھی چھوڑا نہیں انہوں نے، اورقسطاس کے معنی عدل کے ہیں رومی زبان میں، اب قرآن کریم یہ تو قرآن عربی ہے، اور قرآن کریم کی جو عربی ہے اور اس کا جو طریق ترتیب ہے وہ فصاحت و بلاغت کے مقام اعجاز پر فائز ہے اس سے بڑھ کر فصاحت و بلاغت کائنات میں نہیں ہے، تو پھر جب قرآن کریم سارا کا سارا فصیح و بلیغ کلام ہے اور فصاحت و بلاغت کے مقامِ اعجاز پر فائز ہے، پھر یہاں رومی لفظ کھینچ کر قرآن میں لانا اس کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اللہ تعالی کسی عربی لفظ پر قادر نہیں تھے لیکن بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ عربی زبان کی خصوصیت ہے کہ وہ عجمی لفظ کو بھی عربی بنا دیتا ہے اس کی تعریف کر لیتا ہے اور پھر وہ عربی کی تصور کیا جاتا ہے یا الفاظ مترادف ہوتے ہیں صابن کا لفظ ہے ہم پٹھان کہتے ہیں ہم اس کو صابن کہتے ہیں یہ ہمارا لفظ ہے سرائیکی کہے گا نہیں ہم بھی صابن کہتے ہیں صابن ہمارا لفظ ہے اردو والا کہتے ہیں ہم بھی صابن کہتے ہیں ہمارا لفظ ہے فارسی والا کہتا ہے میں بھی صابن کہتا ہوں، صندوق کا لفظ ہے، صندوق کا لفظ ہم اپنے پشتو میں بھی بولتے ہیں آپ سرائیکی میں بھی بولتے ہیں فارسی جو ہے فارسی بھی بولتا ہے عربی والے عربی میں بولتے ہیں لہذا ایک لفظ ہو سکتا ہے کہ وہ عربی کا بھی ہو دوسری زبان میں بھی استعمال ہوتا ہو۔ تو اس کو کوئی تنگی والی جگہ نہیں ہے۔
"وَیقال القسط مصدر المقسط"
 اب قسط ثلاثی مجرد ہے مصدر ہے اور مقسط باب افعال ہے تو مقسط کا مصدرتو اقساط ہونا چاہیے تھا یہاں امام صاحب کہتے ہیں
"القسط مصدر المقسط"
 تو یہ بھی مصدرالمصدر ہے کہ اصل مادہ قسط ہے "ق س ط" اور یہ پھر اسی سے اقساط بنتا ہے اسی سے مقسط بنتا ہے لیکن مقسط کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ مقسط عام طور پر عدل کے لیے استعمال ہوتا ہے جب وہ باب افعال میں استعمال ہو۔
"ان الله یحب المقسطین" عدل کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ اور قاسط یہ ظلم کرنے کے معنی میں آجاتا ہے تو بالکل تضاد کا ترجمہ ہو جاتا ہے، جب آپ ثلاثی مجرد میں بولیں گے تو پھر اس کا معنی جوع کا ہے اور جب آپ اس کو افعال کے باب میں بولتے ہیں تو اس کا معنی جو ہے وہ عدل کا ہو جاتا ہے۔
 واما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا
 تو امام صاحب جو آخری حدیث لا رہے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے رواة سارے ثقہ ہیں، ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اٰحاد ہیں، تو احاد ہونے کے ناطے حدیث غریب ہے اورثقہ ہونے کے ناطے سے حدیث صحیح ہے۔ 
عن ابی ھریرة رضی اللہ تعالی عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم نبی علیہ الصلوۃ والسلام 
"کلمتان حبیبتان"
ای کلامان اور کلامان سے بھی مراد قائلھما اس کا بولنے والا،
تو دو کلمے ہیں جو اللہ کو بہت محبوب ہیں تو اس کا جو قائل ہوتا ہے ان دو کلموں کا وہ اصل میں اللہ کو محبوب ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے جب اللہ کو دو کلمے پیارے ہیں یہ کتنے مشکل کلمے ہوں گے، کیسے ہم اس کو ادا کریں گے، اتنے پیارے کلمے اللہ کو تو فرمایا نہیں ثقیل بھی نہیں ہے 
"خفیفتان علی اللسان"
زبان پر ہلکے بھی ہیں، اچھا زبان پر جب اتنے ہلکے ہیں دو چھوٹے چھوٹے جو جملے ہیں اور یہ دو جملے جب میں ادا کروں گا تو اس کا وزن کیا ہوگا؟ قیامت کے دن کیا حساب ہوگا اس کا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
" ثقیلتان فی المیزان"
 ترازو میں بہت بھاری ہیں اور وہ دو کیا ہیں؟
"سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِیْمِ‬" سب لوگ اس کو پڑھ لیں 
سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِیْمِ‬
سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِیْمِ‬
سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِیْمِ
 تو ابتدا میں ہی آپ نے اس فرق کو تو سمجھ لیا کہ جو عبدیت ہے جو انسان کو اس کی جبلت میں عطا کیا گیا ہے لیکن یہ تکوینی نہیں ہے تشریعی ہے تو جب تشریعی ہے تو انسان کی ارادہ و اختیار کو حاصل ہے تو پھر اللہ نے انسان کو اختیار دے 
دیا ہے 
و قل الحق من ربک
پس جو اللہ کی طرف سے ہے وہی سچ ہے۔
"من شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر" پھر مرضی ہے ان کی اس پر ایمان لاتے ہیں اس سے انکار کرتے ہیں۔
 "اناھدیناہ السبیل"
 ہمیں تو راستہ بتا دیا۔
"اماشاکراواماکفورا"
  یا اس راستے کو قبول کر لے گا یا انکار کر دے گا تو انسان کے اختیار کے حوالے کر دیا گیا ہے، اس لیے ذرا تھوڑا سا ان مساجد میں مدارس میں آکر اس پہلو سے بھی اپنے ہر عمل کو ہمیں دیکھنا ہے، چاہے ہمارا عمل گھر سے متعلق ہو گھر کے افراد کے حقوق سے متعلق ہو پڑوسی کے ساتھ کیسے رواداری کرنی ہے؟ محلے داروں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ اپنے نفس کو میں نے کس طرح قابو کرنا ہے؟ اللہ کی نافرمانی سے میں نے کیسے بچنا ہے؟ یہ ایک پہلو ہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ حیوانوں کی طرح زندگی گزارو، اب جب انسان اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے تو نبی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس نے اپنی خواہشات کو دبایا اور اللہ کے حکم کی تابعداری کی شریعت کی تابعداری کی، فھو اکرم من الملائکة تو ملائکہ سے بھی زیادہ محترم ہو جاتا ہے یا تو یہ مقام ہے اور کیوں نہ ہو اللہ نے کتنا بڑا انتظام کیا ہے وہ آسمانوں سے لوح محفوظ، لوحِ محفوظ سے روئے زمین پر آنا اسمانی دنیا سے ہوتے ہوئے اور یہاں پر انبیاء کے حوالے ہونا اور ایک مکمل دین جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دینا اور پھر وہ کتنی مشقتیں برداشت کر کے وہ انسانیت تک پہنچاتا ہے لوگوں کو سمجھاتا ہے اور پھر بھی انسان نہ مانے تو پھر، تو اس لیے اس کو ماننا جو ہے اس کے مطابق زندگی گزارنا یہ ہے وہ چیز کہ جس کو ہم نے مد نظر رکھنا ہوتا ہے اور اسی لیے ایک بہت بڑی گمراہی آج کل پھیلی ہوئی ہے اور باقاعدہ حکومتوں کے اور حکمرانوں کی نگرانی میں یہ گمراہی پھیلائی جا رہی ہے کہ اقتدار کی جنگ مفادات کی جنگ ہے مفادات کی جنگ ہم نے بنا دیا ہے۔ ہے نہیں! اقتدار کی جنگ مقدس جنگ ہے لیکن ہم نے جن لوگوں کے حوالے کیا ہے وہ اس کے اہل نہیں ہے کہ ملک کا اقتدار چلائے، ورنہ اللہ رب العالمین کی تو واضح اعلانات ہیں۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
تین اعلانات اللہ رب العزت نے خود فرمائے آج میں نے تمہارا دین تمہارے اوپر مکمل کر دیا ہے، اب ایک ہوا اکمال دین
دین مکمل ہوا کس اعتبار سے؟ باعتبار تعلیمات سے باعتبار احکامات سے، پوری دنیا کی انفرادی زندگی سے لے کر مملکتی زندگی تک سارے کے سارے احکامات آپ کو بتا دیے تعلیمات دے دیئے آپ کو پڑھا دیا آپ کو سب کچھ لیکن میں نے
"وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی" میں نےتم پر اپنی نعمت تمام کر دی۔ اتمام نعمت کیا ہے؟ اتمام نعمت کا فرد کامل خارج میں وہ اسلام کا اقتدار ہے، اسلام کی حاکمیت ہے اور اب ذرا پوچھیں نا ہمارے ملک کی سیاست دانوں سے، کیا وہ دین اسلام کی اتنی بڑی نعمت کو اقتدار کی صورت میں بھی اللہ کی نعمت سمجھتے ہیں؟ تو پھر ہم کیوں گمراہ ہوتے جا رہے ہیں، کیوں اس بات کو نہیں سمجھ رہے؟ کہ اگر عبادات کی دنیا میں میری نماز صحیح نہیں ہو سکتی، میں ایک انپڑھ بلا ہوں، اپنے گھر میں نانی نانا سے میں نے قرآن کریم نماز یاد کر لی ہے تو اپنی نماز کو ٹھیک کرنے کے لیے مسجد میں آتا ہے تاکہ امام کے پیچھے اس کی نماز ہو اور اس کی نماز ٹھیک ہو، تو اس لحاظ سے مملکت کا نظام بھی اگر قرآن و سنت کی روشنی میں ہے تو پھر وہی لوگ لا سکتے ہیں جو قرآن و سنت کو جانتے بھی ہیں نا، ان علوم سے واقف بھی ہیں، ہم نے دنیا داروں کو دین کا رہنما مان لیا ہاں دنیا داری میں ٹھیک ہے لیکن اقتدار کو دنیا داری کہنا یہ نری جہالت ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو حامل نبوت تھے اور کامل نبوت کے حامل تھے وہ وقت کے حکمران نہیں تھے؟ تو یہ دنیا داری تھی؟ آپ کو اللہ تعالی نے فیصلہ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں کے درمیان جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کا یہ اختیارات تو نہیں تھا؟ جو میں دے رہا ہوں وہ مانو جسے میں روک رہا ہوں رک جاؤ ایک حاکم کی صفت نہیں ہے؟ خلفائے راشدین کیا یہ حکمران نہیں تھے؟ یہ خلافت یہ أمارت یہ امامت یہ ساری چیزیں۔۔۔ یہ الفاظ مختلف ہیں اور مدلول ایک ہے ان کا، آج کے زمانے میں آپ اس کو صدر کہہ دیں آج کے زمانے میں آپ اس کو وزیراعظم کہہ دیں، نام کا فرق ہو سکتا ہے اس کی جو حیثیت ہے وہ ایک ہی ہے، وہ تولیت امر رکھتا ہے۔ تو اس اعتبار سے بھی ہم نے اپنی اصلاح کر لینی ہے، سوچنا ہوگا۔ 
دو چیزیں مد نظر ہیں اسلام کی مملکتی زندگی میں ایک امن اور ایک معاش، امن احاطہ کرتا ہے انسانی حقوق کا، جان کا حق مال کا حق عزت و آبرو کا حق اگر کسی کی حق تلفی ہو جائے تو اس کے حق کا ازالہ کیسے کیا جائے گا؟ حقدار کو حق کیسے پہنچایا جائے گا؟ اس کے نظام ہے۔ کسی کی عزت پہ حملہ کر دیا کسی کی مال پہ حملہ کر دیا، اب اس کا فیصلہ کون کرے گا؟
"فَلا وَ رَبِّکَ لا یُؤْمِنُونَ حَتّى یُحَکِّمُوکَ فیما شَجَرَ بَیْنَهُمْ" 
آپ کے علاوہ کسی کو حق نہیں ہے۔ ان چیزوں کو آج ہم نے سمجھنا ہے جس ماحول سے آج ہم گزر رہے ہیں اس میں ہم نے اس نکتے کو بھی سمجھنا ہے، ہمارے علماء کہتے ہیں کہ جمیعتہ علمائے اسلام بھی تو بعض دفعہ دنیا داروں کو الیکشن میں کھڑا کر دیتی ہے، یہ بھی ایک ایسا خواہ مخواہ کا سوال ہے اگر وہ ایک حق جماعت کی نمائندگی کر رہا ہے تو بھی حقدار ہو گیا کہ اس نے بھی اسی منشور کو آگے لے جانا ہے، علمی قوت بھلا کمزور ہو لیکن قیادت کے پاس تو ہے سب کچھ، اب مسجد میں آنے والی نمازی سب دین دار لوگ ہوتے ہیں، لیکن ضروری نہیں ہے کہ سب کو نماز پڑھنا بھی آئے بعض کو نہیں بھی آتا لیکن امام کے پیچھے چل جاتی ہے نماز ہو جاتی ہے اس کی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بیٹھے ہیں لیکن بیٹھے بائیں طرف ہے ایک اعرابی بھی بیٹھا ہوا ہے بدو وہ بھی دائیں طرف بیٹھا ہوا ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کھانے سے کچھ دینا چاہتے ہیں تو آپ کا فرمان ہے کہ دائیں طرف والے کو دو، اب ایک طرف ابوبکر صدیق ہیں جس کی عظمت جو ہے اور اس اللہ کے بعد کسی کے پاس نہیں ہے لیکن دائیں طرف جو بیٹھا ہوا ہے وہ ہے بدو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیا کیونکہ طرف ٹھیک تھا نا اس کا، تو اگر کوئی جمیعتہ کی طرف سے کھڑا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ صحیح طرف کھڑا ہے، تو صحیح طرف کھڑا ہے پھر ووٹ کا حق اسی کا ہے، یہ جو بائیں طرف والے ہیں نا جی ان کو پرے کرو، پیسے کے بل بوتے پر ووٹ مانگتے ہیں لوگوں کو خریدتے ہیں لوگوں کا ایمان خریدتے ہیں اور ہم بھی کیسے سادے لوگ ہیں بڑے آسانی سے اپنا ایمان بیچتے ہیں یہ خیال نہیں ہوتا کہ آگے جا کر کیا ہوگا، آپ پارلیمنٹ میں بعض دفعہ ایسی چیزیں آجاتی ہیں جو کا تعلق حلال و حرام کے ساتھ ہوتا ہے، عام معاملات نہیں ہوتے وہ لیکن اگر وہاں جمیعتہ علماء کے 10 ، 12 لوگ موجود ہیں تو انہوں نے غیر اسلامی قانون کو روکا ہے، نہیں ہونے دیا ہے، یہ غلط کررہے ہو تم لوگ اور ہم ہر دفعہ کامیاب ہوئے ہیں شاید کچھ سیاسی معاملات ایسے ہوں جس میں انتظامی مسائل ہوں وہاں ہمیں کامیابی نہ ہوئی ہو لیکن جہاں شریعت کا حکم آجاتا ہے وہاں الحمدللہ آج تک ہمیں ناکامی نہیں ہوئی ہے، اب اگر وہاں پر ووٹ دیا جائے ایک ایسی چیز کو جو حرام ہو تو بار ووٹر پہ آئے گا یا نہیں آئے گا؟ تم نے تو اس کے ہاتھ میں بیعت کی تھی، تو اس پہلو کو اہمیت دینا ہے اقتدار تک ہم نے نہیں پہنچنا اقتدار تک ہم نے شریعت کو پہنچانا ہے اور شریعت کا حق ہے کہ وہ حکومت کرے، یہ جو کتاب ہمارے سامنے ہے اور جس کے لیے ہم بڑے عقیدت کے ساتھ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اس کتاب کا حق ہے آپ کے اوپر، کہ صرف مسجد میں اکٹھے ہو کر دعا کر دینے کا نام نہیں ہے جو نظام یہ ہے اس کو مملکتی نظام بناؤ اس کے مطابق ہمارے فیصلے ہوں ہمارے عدالتیں چلے، تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان احادیث کا اس کتاب کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے فیصلے صحیح کریں اپنے مستقبل کو خود ٹھیک کریں اور بے حیائی فحاشی جو آج کل ہمارے معاشرے میں آگئی ہے اس کا بھی مقابلہ کرنا ہے، معاشرے کو اتنا بے سروپا مادر پدر آزاد جو لوگ چھوڑ رہے ہیں یہ کہاں کس چیز کی خدمت کر رہے ہیں! اور زبان پر نعرے بڑے خوبصورت خوبصورت ریاست مدینہ، بھئی ریاست مدینہ ہے کیا چیز بتاؤ تو سہی، کہتے ہیں قانون سب کے لیے برابر ہو، اچھا قانون سب کے لیے برابر ہو تو ہر مخالف کے لیے برابر ہو جب آپ کے لیے ہو تو نہیں نہیں میرے لیے نہیں، پھر درخواست دیتے ہیں کہ مجھ پر یہ مقدمہ نہ چلایا جائے، خود جیل میں ہے تو کہتے ہیں مجھے انتخاب میں برابر کا موقع نہیں مل رہا تو جب آپ کی حکومت اور آپ کا الیکشن تھا اس میں کیا حالت تھی؟ اس کو قانون کی حکمرانی چاہیے ووٹ بعد میں ہے قانون کی اہمیت پہلے ہے، اب یہاں پر ووٹ کی اہمیت پہلے ہو گئی قانون کی اہمیت بعد میں ہو گئی، مقدمہ مجھ پہ نہیں چلنا چاہیے، تو یہ جو ترجیحات ہیں ایک ترجیح ہونی چاہیے ایک ترجیح ہونی چاہیے اپنے لیے کوئی اور ترجیح دوسرے کے لیے کوئی اور ترجیح تو برابر کے مواقع تو آپ خود تسلیم نہیں کرتے آپ کا نظریہ ہی نہیں ہے، تو ان شاءاللہ العزیز یہ معرکہ چلتا رہے گا اور اللہ تعالی ہمیں حق کے راستے پہ چلائے، علماء کرام کے قدموں میں ہمیں اللہ تعالی زندگی گزارنے کی توفیق دے اور ہمارے خطاؤں سے اللہ درگزر فرمائے اور جتنی بھی ہمارے فضلاء ہیں اللہ تعالی ان کی اس تحصیل علم کو قبول فرمائے اور آج جو وہ اپنے تعلیم کے سلسلے سے فارغ ہو رہے ہیں میں مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں لیکن ہمیں اپنے استاد حضرت شیخ عبدالحق صاحب رحمہ اللہ وہ ہدایت کرتے تھے کہ مدرسے سے فارغ ہونے پر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم مولوی بن گئے ہیں ہاں عالم بن گئے ہیں ابھی عالم نہیں بنے تم، تم میں عالم بننے کا استعداد پیدا ہو گیا ہے، اب اگر چاہو کہ آپ عالم بن جائیں تو اب بن سکتے ہیں اس کے بعد، تو اس بات کو بھی ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر یہ ہمیں اللہ نے توفیق دی آٹھ سال 10 سال ہم نے مدارس میں گزارے تو یہ استعداد پیدا کیا اللہ نے ہمارے اندر کہ ہم قرآن و حدیث کے علوم کو سمجھیں اور اس کو دنیا تک پہنچائیں، اس پر عمل درآمد کروائیں ہر سطح پر اس کے لیے محنت اور کوشش کرے، نظم کے ساتھ کریں تنظیم کے بغیر یہ کام نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ 
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض 
تصحیح: #حافظ_یحی_احمد 
ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 



ڈیرہ اسماعیل خان: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ شورکوٹ جامعہ معارف الشرعیہ میں ختم بخاری شریف کا درس دیتے ہوئے

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, January 19, 2024


0/Post a Comment/Comments