قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا آغاز خان گنڈاپور کی جماعت میں شمولیت پر پریس کانفرنس
یکم جنوری 2024
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
آج کی یہ مختصر اور پروقار تقریب اس مقصد کے لیے منعقد کی گئی ہے کہ ہمارے انتہائی محترم ہمارے عزیز ہمارے برخوردار جناب آغاز خان گنڈاپور جمیعت علماء اسلام میں شمولیت کر رہے ہیں اور ان شاءاللہ العزیز وہ اپنے صوبائی حلقے سے جمیعت علماء اسلام کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے، ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور ہم اس کو اپنے لیے ایک نیک فال سمجھتے ہیں، صرف جماعت کے لیے نہیں، اس علاقے کے لیے، اس وسیب کے لیے، اس پسماندہ خطے کے لیے کہ ہم مل کر اس پسماندہ علاقے کو رو بہ ترقی کریں، اس کو آگے بڑھائے، اور پھر اپنی توانائیاں اس مقصد کے لیے مجتمع کریں۔ میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آپ کے سامنے کچھ اپنے ارشادات فرمائے۔
آغاز خان گنڈاپور
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
میں آغاز گنڈاپور یہاں پہ حاضر ہوا ہوں اور مولانا صاحب اور ہمارا تعلق آج کا نہیں ہے، میرے دادا پردادا کے ٹائم سے آرہا ہے اور ہم نے الیکشن ساتھ بھی لڑے ہیں اتحاد میں بھی لڑے ہیں، پر اس بار میں نے اور میرے خاندان نے فیصلہ کیا ہے کہ جو صورتحال بنی ہوئی ہے اور جس طرح کا مولانا صاحب امن و امان کے سلسلے میں لگے ہوئے ہیں، ہمارے علاقے میں امن و امان کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور میں نے حالات کو دیکھتے ہوئے جو میرے خاندان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اور مولانا صاحب ایک ہی خاندان ہیں پہلے بھی اور اب ہم اسے ایک حتمی شکل دینا چاہتے ہیں کہ یہ میری جو شمولیت ہے ان کی پارٹی میں ان شاءاللہ یہ ہمیشہ کے لیے رہے گی اور انہوں نے ہمارے خاندان کو ہر مشکل ٹائم میں ہمیں جو ہے نا انہوں نے سہارا دیا ہے اور اپنے بچوں کی طرح انہوں نے مجھے ٹریٹ کیا ہے یا میرے والد صاحب تھے اکرام خان ان کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا، میرے دادا مفتی صاحب کے ساتھ مولانا صاحب کے والد صاحب ان کے ساتھ منسٹر بھی رہے تھے اور ہمارا تعلق آج کا نہیں ہے بہت پرانا ہے اور ان شاءاللہ پی کے 115 پہ میں یہ سیٹ ان کو ان شاءاللہ گفٹ کر کے دوں گا اور میری اپنی پوری کوشش ہوگی کہ میں اچھے سے اچھا رزلٹ دوں اور ان شاءاللہ مولانا صاحب کی دعائیں اور سپورٹ ہمارے ساتھ ہوگا ان شاءاللہ اس بار ہم ڈی آئی خان نہیں بلکہ پورا صوبہ خیبر پختون خواہ کلین سویپ کریں گے ان شاءاللہ
(آغاز خان گنڈاپور کو جمعیت کی ٹوپی اور مفلر پہنایا گیا)
صحافی کا سوال: مولانا صاحب ایک تو کل جو ایک واقعہ ہوا ہے نا خوشگوار اس میں وضاحت تو آگئی ہے تو یہ حالات کس طرف جا رہے ہیں آپ اس کا بار بار کہہ بھی رہے ہیں کہ اس طرح کے حالات ہیں کہ آپ کے لیے
جواب: دیکھیے وضاحت تو بالکل آگئی ہے اور میں خود تو نہیں تھا اس وقت گھر پہ تھا لیکن بہرحال گولیاں لگی ہیں گاڑیوں کو، تو یہ واقعہ اس کا اس سے تعلق نہیں ہے کہ میں تھا اس میں یا نہیں تھا میں محفوظ رہا وغیرہ وغیرہ یہ امن و امان کے حوالے سے سوالات اٹھا رہا ہے اور ہم جو ایک زمانے سے مسلسل مسلسل یعنی پریس کانفرنسز میں اجتماعات میں بار بار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخواہ ہوں صوبہ بلوچستان ہو یہ دونوں انتہائی متاثر ہیں جی اور یہاں تو ایک تسلسل ہے یعنی چند مہینے پہلے آپ نے دیکھا باجوڑ میں ہمارے ایک ہی اجتماع میں 73 ساتھی شہید ہو گئے اور اس کے بعد مسلسل وہ سلسلہ اب 80 تک پہنچ گئے، اسی طرح دوسرے قبائلی علاقوں میں بھی شمالی وزیرستان میں جنوبی وزیرستان میں ٹانک میں آپ جانتے ہیں ہمارے محمود خان بیٹنی کے بھائی جو میئر ہیں ٹانک کے پچھلے سال بھی دورے پہ نکلے تو ان پر حملہ ہوا، اس سال بھی دورے پہ نکلے تو ان پر حملہ ہوا، تو اللہ کی طرف سے ہے کہ انہوں نے اللہ نے بچایا ان کو لیکن اس حالت پہ آپ بتائیں کہ ہم کمپین کیسے چلائیں جی اور اتنی بڑی سیکورٹی اپنے ساتھ لے کر جو ہم چلیں گے ہم تو اس کے عادی نہیں ہیں، ہم نے تنہا ایک گاڑی میں سفر کرنے والے لوگ ہیں تو اس صورتحال میں میں تو پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جو کچھ ہوا ہے بالکل انہوں نے تجزیہ نہیں کیا حالات کا اور یہ جو ایک لفظ استعمال آج کل نہیں اصطلاح کے طور پر کہ لیول پلینگ فیلڈ کا جو لفظ استعمال ہو رہا ہے یکساں مواقع، تو یہ یکساں مواقع صرف ایک پارٹی کے حوالے سے یعنی ہم دو صوبوں کے حوالے سے یکساں مواقع نہیں ہوں گے ہمیں، اگر پنجاب میں لوگوں کو پرامن ماحول مل رہا ہے یا سندھ میں لوگوں کو پرامن ماحول مل رہا ہے تو کیا ہمارے پختونخواہ یا ہمارے بلوچستان کے عوام کو یہ حق نہیں ہے کہ ہم ان کو یکساں مواقع دیں، الیکشن کا ہم مطالبہ کرتے ہیں الیکشن ہونے چاہیے الیکشن لازمی ہے آئین کا تقاضا ہے اور ہم نے تو تحریک اٹھائی تھی 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے لیکن الیکشن دیے جائے اور الیکشن کا ماحول بھی دیا جائے، یہ نہیں کہ ہمیں اس طرح چھوڑ دیا جائے کہ ہم صبح سے شام تک سوچتے رہیں ہم بھی فکر مند ہوں کہ بھئی شام تک گھر واپس سکیں گے یا نہیں آسکیں گے، آج میں نے لکی مروت میں دن گزارا ہے آپ خود اندازہ لگائیں کہ دن کیسے گزرا ہوگا کس سیکیورٹی کے تحت گزرا ہوگا جی اور اس سے جو پبلک کو پریشانیاں ہوتی ہیں عوام کو جو پریشانیاں ہوتی ہیں بازاروں کو جو پریشانیاں ہوتی ہیں جی یہ ساری کس قیمت پر آخر لہذا ہم پھر اپنی بات دہرانا چاہتے ہیں کہ جو واقعہ رات کو ہوا ہے یہ بذات خود ایک بدامنی کا واقعہ تو ہے
صحافی کا سوال: تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کی جو ایڈمنسٹریشن ہے صوبائی اور ضلعی یہ آپ کو سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتی یا پبلک کو فراہم نہیں کرسکتی
جواب: حضرت بات یہ ہے کہ سکیورٹی فراہم بھی کرتی ہے آج بھی فل سیکیورٹی موجود تھی سب کچھ موجود تھا لیکن ہم تو ان حالات میں ہوں گے کس طرح سب کو تو اس طرح نہیں ہوتا چلو مجھے تو آپ ایک پارٹی سربراہ کی حیثیت سے ٹریٹ کر لیں مجھے آپ ہر طرف سے سیکیورٹی دے دیں کہ سارے ہر امیدوار کو تو نہیں ہوتا جی لیکن اس وقت جس وقت میں نے پریس کانفرنس کی اسلام آباد میں اسی دن رات کو مجھے تھریٹ آیا کہ آپ کو تھریٹ ہے ایک اور سیاستدان کا بھی اس میں نام تھا، یہ ساری چیزیں جو ہیں اس وقت ہمارے لیے بہت ہی فکر مندی کا باعث ہیں، تمام پارٹیوں کے لیے تمام امیدواروں کے لیے میں تو پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے بھی پوچھا ہے کہ آپ کمپین چلا سکتے ہیں کہتا نہیں چلا سکتے
صحافی کا سوال: مولانا صاحب کیا سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہو پائیں گے بھی
جواب: بھئی الیکشن کمیشن غور تو کریں اس بات پر ہماری درخواست پر غور تو کریں خود فرما رہے ہیں چیف الیکشن کمشنر خود کہ دو صوبوں کے امن کی صورتحال تشویش ناک ہے لیکن حل کیا ہے؟ میں دعا گو رہوں گا، اب یہ ان کا حل ہے تو اس طریقے سے نہیں ہوتا جی
صحافی کا سوال: آپ کے اس پہ باقی سپیسیفکلی اداروں کی طرف سے یہ نوٹیفیکیشن جاری ہوئے ہیں کہ آپ کو خطرہ ہے تو ایسے حالات میں الیکشن کا ہونا کیا ممکن ہے؟
جواب: میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ ہم نہیں سمجھتے کہ الیکشن ہو سکیں گے، الٹا یہ ہوگا کہ اگر موسم کی وجہ سے ہو یا امن و امان کی وجہ سے ہو، ٹرن آؤٹ کم ہو جائے گا اگر لوگ پولینگ سٹیشن پر نہیں جائیں گے یہ دھاندلی کا راستہ کھولتا ہے جی
صحافی کا سوال: تو کیا اس بات کا امکان ہے کہ ہمارے صوبے کے پی میں کوئی مہینے ڈیڑھ مہینے کے لیے الیکشن ملتوی ہوتا ہے؟
جواب: اب یہ تو الیکشن کمیشن سوچ سکتا ہے ہم تو اپنی آواز پہنچا رہے ہیں، جو رونا دھونا ہے وہ ہم کر رہے ہیں، باقی ان کی طرف سے ہے کہ وہ ہمارے رونے دھونے کو کیا اہمیت دیتے ہیں جی
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آٹھ فروری کے بعد ملک میں معاشی استحکام آجائے گا؟
جواب: معاشی استحکام ایسا لفظ نہیں ہے کہ آپ ایک جملے سے اس کو حل کریں، ہم نے بڑی تقریریں سنی ہیں ہم آئیں گے چھ مہینے کے اندر ٹھیک کر دیں گے، تین مہینے کے اندر ٹھیک کر دیں گے اس طرح نہیں ہے جی، گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں چار سالوں میں جو زمین بوس ہوا ہے اور جہاں آپ کا سالانہ جی ڈی پی منفی پہ آگیا اس کے بعد آپ دیوالیہ پن کے بالکل دہانے کھڑے ہو گئے اور اگر ہم نے 15 ، 16 مہینوں کے اندر اس کو دیوالیہ سے نکالا ہے ملک کو لیکن اب پھر دوبارہ اس کنارے پہ پہنچ رہا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ آج حکومت پاکستان جو اس وقت ہے نگران وہ جون میں بجٹ دے سکے گا، بہت مشکل ہوگا اس کے لیے، تو اس سارے صورتحال کو سنجیدگی سے لینا ہے، ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے عالمی اعتماد بحال کرنا ہوگا آج عالمی برادری اور پاکستان کے دوست ممالک وہ کہتے ہیں کہ اگر دوبارہ وہ لوگ آتے ہیں تو پھر ہمارا پاکستان سے ہاتھ اٹھ جائے گا، ہم پاکستان میں پھر اپنا سرمایہ ضائع کرنے کے لیے نہیں آرہے، تو یہ حقائق ہیں خدا کے لیے ذرا ان چیزوں کو بھی سوچنا چاہیے ہمیں اور اگر ریاست مدینہ ہے تو پھر ریاست مدینہ میں تو انصاف ہر ایک کے لیے ہونا، سب کو حق برابر ملنا چاہیے یہ کیا مطلب کہ اگر قانون ہے اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو پھر اس میں صرف عمران خان کی مخالفین جو ہیں وہ تو اس کے زد میں آئیں لیکن وہ قانون کے زد میں نہ آئے، اس کے خلاف قانونی کاروائی بالکل بھی نہ ہو وہ بالاتر ہیں، اس طرح کے نظریات پیش کرنا اس طرح قوم کو گمراہ کرنا، اس طرح نوجوان ذہن کو گمراہ کرنا، یہ چیزیں جو ہیں یہ نہیں چلتی ملک کے اندر اور وہ پاکستان کی بقا کے لیے خطرہ ہے، میں صرف یہ نہیں کہتا کہ وہ کوئی انتظامی معاملات میں کمزور تھا، وہ تو تھا ہی تھا معیشت تباہ کر دی ملک کے وجود کو خطرہ ہے اور کشمیر کی تین حصوں کے بعد اس نے کی ہے، پاکستان کی تقسیم کی باتیں اس نے کی ہے اور یہ ایسے انداز میں کرتا ہے کہ کم از کم ہم جیسا سیاسی کارکن وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ اس کا ایجنڈا ہے
صحافی کا سوال: مولانا صاحب افغانستان کے حوالے سے کہ آپ کا ویزٹ شاید وہاں پہ آپ وزٹ کر لیں تو جو امن و امان کے آج کل ان کے ساتھ حالات کچھ ہمارے اچھے نہیں ہیں بارڈر پہ ٹینشن چل رہی ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ فیوچر میں ان چیزوں کا کیا ہوگا یا یہ مسئلہ ٹھیک ہو جائے گا کہ نہیں
جواب: ہماری کوشش ہے، دعوت ان کی طرف سے آئی ہے امارت اسلامیہ کی طرف سے باضابطہ ان کے سفیر نے میرے گھر آکر پہنچائی ہے اور یہ جو الیکشن کا شیڈول آگیا اس میں پھر کاغذات نامزدگی داخل کرنا سکروٹنیاں ہونا اور ابھی جو سلسلہ چل رہا ہے اس کی وجہ سے ظاہر ہے جی کہ ہم نے پارٹی ٹکٹ بھی جاری کرنے تھے امیدواروں کا تعین بھی کرنا تھا پورے ملک کے لیے تو یہ مصروفیات ذرا حائل رہی ہیں، ان شاءاللہ اگلے ہفتے میں امکان ہے کہ میں افغانستان جاؤں اور یہ جو آپ نے سوال کیا ہے اسی کے حل کے لیے کہ ہم دو دوست ملک ہیں، برادر ملک ہیں، ہماری قومیت بھی ایک ہے، ہمارا مذہب ایک ہے، ہماری ثقافت بھی ایک ہے، ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ شاید کوئی دوسرا قریب نہیں ہوگا تو پھر ہمارے اندر اعتماد ہونا چاہیے ہم ایک دوسرے کے استحکام، معاشی استحکام، استقلال اس کو سامنے رکھیں، افغانستان کا استحکام پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کا استحکام افغانستان کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے ہم جائیں گے اور یہ جو دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کی فضائیں پیدا کی جا رہی ہیں ان شاءاللہ اس کو توڑیں گے
صحافی کا سوال: مولانا صاحب ایک طرف پی ٹی آئی کے جو کئی امیدوار تھے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو کیا ایسے حالات میں شفاف الیکشن ہو سکتے ہیں
جواب: آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ صرف پی ٹی آئی کے لوگوں کے مسترد ہوئے ہیں، اختر جان مینگل کے بھی مسترد ہوئے ہیں، یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ صرف ان کے مسترد ہوئے ہیں، ظاہر ہے جی کہ اگر اس کے کاغذات پہ اعتراض ہے تو اگر میرے کاغذات پر اعتراض ہے تو میرے بھی مسترد ہوسکتے ہیں، یہ جو کاغذات داخل کرتے ہیں اور کوئی پتہ نہیں کرتے کہ بھئی ان کے اوپر اتنے واجبات ہیں کہ ایک ثبوت پیش نہیں کرسکتے، اس طرح سے مسترد تو پھر ہوں گے
صحافی کا سوال: مولانا صاحب جس طرح آپ کہہ رہے ہیں کہ کمپین کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا،کمپین پہ نہیں جا سکتے تو کیا آپ الیکشن کی طرف جائیں گے
جواب: میں تو جانا چاہتا ہوں، دیکھیں یہ ضرور میں کہوں گا کہ مجھے وہ ماحول بھی دیا جائے
صحافی: ایک مہینے کے اندر آپ سمجھتے ہیں
جواب: ہاں یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ اگر وہ مجھے پرامن ماحول دینا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے اگر چند دن مؤخر ہو جائے تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی کوئی مسئلہ نہیں
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ جس الیکشن لڑ رہے ہیں وہاں پہ 22 گھنٹے کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے، 20 گھنٹے گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے اور آپ ایک مؤثر سیاسی ویٹ بھی رکھتے ہیں تو ڈیرہ اسماعیل خان کا کیا بنے گا
جواب: میرے خیال میں جب میں نے الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی داخل نہیں کیے تھے تو تب بھی لوڈشیڈنگ تھی، ظاہر ہے جی حضرت میں عرض کروں یہاں کے لوڈشیڈنگ کے خلاف ہم لڑیں ہیں، ہم نے یہاں کی بجلی بحال کی پھر اس کے بعد دوبارہ حالات یہ صورتحال بن گئی کہ شکایت اٹھنے لگی ہیں جی انشاءاللہ العزیز اس بحران سے ہم صرف ڈیرہ اسماعیل خان کو نہیں پورے ملک کو نکالیں گے ان شاءاللہ
صحافی کا سوال: مولانا صاحب پی ٹی آئی تقریبا الیکشن سے باہر نظر آرہی ہے تو آپ کا مقابلہ سابق سینٹر صاحب سے ہونے جا رہا ہے یا کنڈی برادران سے
جواب: مجھے نہیں معلوم، مجھے نہیں معلوم اپنا معلوم ہے کہ میں الیکشن لڑ رہا ہوں
صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہاں پہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی یہاں پہ بھی آپ دیکھ رہے ہیں جیسے مرکز میں نون لیگ کے ساتھ جو یہاں کی سیاست ہے اس کے حوالے سے
جواب: دیکھیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی ضرورت کی بنیاد پر، اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ضرور کریں گے لیکن ابھی تک کوئی ایسی صورتحال ضرورت نہیں ہے، جہاں جہاں پر ضرورت ہوگی ہم نے ہر ضلعے کو اجازت دی ہوئی ہے تو اسی طرح کر سکتے ہیں کسی بھی پارٹی کے ساتھ
صحافی کا سوال: مولانا صاحب سٹی کی سیٹ جو ہے وہ اہمیت کے حامل ہونے لگی ہے، تو پیپلز پارٹی کی طرف دیکھا جائے یا اگر جمعیت کی طرف، تو سٹی کی سیٹ کا ٹکٹ تو آپ کو کن دینا چاہیے
جواب: ابھی دن ہیں، ہو جائے گا کوئی مسئلہ نہیں ہے ہو جائے گا، ہو جائے گا ان شاءاللہ کوئی مسئلہ نہیں
صحافی کا سوال: ۔۔۔ احتشام جاوید اکبر صاحب بھی آرہے ہیں آج، اس بارے میں موقف ہے پارٹی کا
جواب: ان شاءاللہ ہو جائے گا وہ بھی ہم منتظر ہیں ان شاءاللہ ایک دو دن میں فیصلہ ہو جائے گا اس کا ان شاءاللہ
صحافی کا سوال: جتنے آپ کے ترقیاتی منصوبے شروع ہیں بڑے منصوبے ذکر کروں جس طرح یہ روڈ کے، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس الیکشن کے نتائج کی وجہ سے اگر ایسا کچھ ہو جائے تو ترقیاتی منصوبوں پہ اثر پڑے گا
جواب: ترقیاتی منصوبوں پر اثر نہیں پڑے گا ترقیاتی منصوبے اور بڑھیں گے، ہم نے اپنے اس پسماندہ علاقے کی ترقی کے لیے ایک عہد و پیمان کیا ہے، اس کی مٹی سے ہم نے عہد و پیمان کیا ہے اور پوری تاریخ ہماری اس بات کی گواہ ہے کہ لوگوں کے مسائل بھی ہوتے ہیں انفرادی مسائل بھی ہوتے ہیں مشکلات میں ہوتے ہیں ہم اس کے لیے بھی حاضر رہتے ہیں لیکن خطے کو ترقی دینا، گومل یونیورسٹی سے لے کر اس سی پیک تک، یہ تمام بڑے منصوبے جتنے بھی ہیں جس میں سی آر بی سی بھی آرہا ہے، جس میں گومل زام بھی آرہا ہے، جس میں مفتی محمود ہاسپٹل بھی آرہا ہے، جس میں اور جتنے بھی میگا پروجیکٹس ہمارے علاقے میں اور خطے میں ہیں وہ سلسلہ چلتا رہے گا اس کو روکیں گے نہیں ان شاءاللہ العزیز اور آگے بڑھائیں گے اور جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہم نے شروعات کی اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں، اس سے آگے جب ایک دفعہ اگر مستقل حکومت ہمیں ملتی ہے اور اس میں ہمیں کوئی کردار مضبوط ملتا ہے تو اس پہ اضافہ ہوگا ان شاءاللہ
مہربانی جی
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
LIVE | Maulana Fazal U Rehman Emergency News Conference LIVE From Shor Kot |لائیو ڈیرہ اسماعیل خان: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کی اھم پریس کانفرنس
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, January 1, 2024
ماشاءاللہ ۔دعاگو ہیں اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی محنت قبول فرمائے ۔🤲♥️
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں