قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا لکی مروت میں ورکرز کنونشن سے خطاب 22 جنوری 2024


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا لکی مروت میں ورکرز کنونشن سے خطاب

 22 جنوری 2024

الحمدللہ رب العالمین، والصلوة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بااحسان الی یوم الدین اما بعد
جناب صدر، علاقے کے معزیزین، علماء صاحبان، جمعیت علماء اسلام کے ساتھیوں! تحصیل جماعت کے اس اجلاس اور اس میں اپنی شرکت اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں، اللہ پاک اپنی دین کے لیے اور دین کی نسبت سے اسی اجتماع کو مبارک کر دے اور دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ ہم سب کی کامیابی اور نجات کا ذریعہ بنا دے ۔
میرے محترم بھائیو! ایک بار پھر انتخابی ماحول ہے، انتخابی ماحول میں لوگ ووٹ کو صرف دنیاوی معاملات تک ہی محدود رکھتے ہیں لیکن جمعیت علماء اسلام اسے نظریے کی جنگ سمجھتا ہے، ہمارا اور آپ کا یہ جہاد اللہ رب العزت نے ہمارے لیے آسان کر دیا ہے، تلوار اور بندوق سے یہ جنگ ایک پرچی تک آگیا ہے اور اس جنگ میں ممبر جب کامیاب ہو جاتا ہے ایک پارٹی کو جب کامیابی ملتی ہے پھر اس کے بعد وہ اپنی قوم کے عقیدے، نظریے اور ان کی ضروریات کی نمائنگی کرتے ہیں اور پارلیمنٹ ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں، مشکل بات یہ ہے کہ اگر میرا کوئی چھوٹا سا ذاتی کام نہیں ہوتا، ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا اس پر میں ناراض بھی ہوتا ہوں، جمعیت اور اس کے عقیدے اور نظریے پر آنکھیں بھی بند کر دیتا ہوں اور گھر میں ناراض بیٹھ جاتا ہوں اور یا غصے میں اکر باطل نظریے والے کو ووٹ دے دیتا ہوں، تھوڑی سی اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
میرے محترم بھائیو! جمعیت علماء اسلام کو دو ہزار دو میں ایک موقع ملا تھا اس موقع پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صوبے کے تمام سرکاری سکولوں میں تعلیم مفت کر دی گئی، بچوں کو مفت کتابیں مہیا ہوتی تھیں اور میں آج بھی چیلنج دیتا ہوں کہ ایک ضلع ایک تحصیل ایک یونین کونسل کا بندہ اٹھ کر یہ کہے کہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی اگر ایک سکول تھا اور اس میں بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک بھی بچہ کتابوں سے محروم رہ گیا ہو تو کہہ دے میں آج بھی چیلنج دیتا ہوں، ایف اے ایف اے سی تک تعلیم مفت تھی اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہر بچے تک مفت کتابیں مہیا کی گئی ہے اور ہم اپنی دیانت کے حوالے سے آج بھی چیلنج دیتے ہیں، علاج مفت کر دی گئی یہ جمعیت کا منشور تھا اور جب ہمیں اختیار ملا تو پہلی فرصت میں ہم نے ایمرجنسی کی سہولت مفت کر دی، دوائیاں مفت فراہم کی گئی اور یہ فیصلہ کیا کہ ہر ضلع میں اے لیول ہسپتال ہو گا اور ہم نے صوبے کے بارہ اضلاع میں یہ ہدف پورا کیا تھا اس کے بعد جتنی بھی پارٹیاں آئی ہیں اس مقصد کو پیچھے رکھ دیا ہے، لوگوں کو مشکل میں مبتلا کر دیا ہے، لوگوں کو چوری کا عادی کر دیا ہے تو یہ عوام کی خدمت نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص طبقے کا پیٹ بھرنا ہے۔
ہمارے علاقے بہت پسماندہ علاقے ہے ان علاقوں میں جتنے بڑے منصوبوں کا اعلان ہوا ہے جمعیت علماء اسلام کے بعد کوئی بھی پارٹی پیدا نہیں ہوئی جو ان پسماندہ علاقوں میں اتنے بڑے اعلانات کر سکے اور اگر اللہ نے چاہا تو یہ پورا ہوں گے لیکن میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے اور ہماری اسمبلياں ایسے لوگوں سے بھری ہوتی ہیں جن کو اسلامی قوانین میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور پھر وہ وہ حرکتیں کرتے ہیں اسمبليوں میں وہ وہ قوانين پاس کرتے ہیں جو قرآن و حدیث کے متصادم ہوتے ہیں، ہم تعداد میں کم ہوتے ہیں لیکن ہم نے پھر بھی ان حکمرانوں کو ایسے غلط اقدام اٹھانے سے روکے رکھا ہوتا ہے، وقت کی کمی کی وجہ سے میں وہ تفصیلات بیان نہیں کرسکتا کن کن موقعوں پر ہم پر یہ امتحانات آئے ہیں اور ہم نے الحَمْدُ ِلله کامیابی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ہے۔ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکہ، یورپ جیسی طاقتوں کے خلاف اگر کسی نے آواز اٹھائی ہے تو وہ جمعیت علماء اسلام ہے، یہ لوگ صرف ووٹ لینے میں قابل ہیں اور پھر ان کے جھوٹے پروپیگنڈے، ایک دفعہ بیان دیا کہ مجھے امریکہ نے ہٹایا ہے لیکن تھوڑی سی دباؤ کے بعد کہنے لگا نہیں مجھے امریکہ نے نہیں ہٹایا ہے اور آپ کو یاد ہو گا جب امریکہ اور نیٹو نے افغانستان پر حملہ کر دیا تو ان سڑکوں پر صرف جمعیت والے ہی نظر آرہے تھے کوئی اور نہیں۔
آج پاکستان اور افغانستان کے مابین جو کچھ مجلسیں شروع ہوئیں یقیناً دونوں ممالک کو نقصان تھا بیس سال جو لوگ مورچوں میں امریکہ کے خلاف لڑے ان کی قربانیاں ضائع ہونا اور پھر پاکستان جیسا پڑوسی اور اس کے ساتھ مشکلات پیدا ہونا اسی موقع پر بھی اگر میدان میں کوئی نکلا ہے تاکہ افغانستان میں بھی امارت اسلامی مستحکم ہو اور پاکستان بھی ایک دوست افغانستان کی صورت میں پیدا کرے، ساری حکومتيں جو افغانستان میں تھیں وہ ہند و ستا ن کے ساتھی تھے لیکن اب ان شاءاللہ ایک پاکستان دوست افغانستان ہمارے ہاتھ اٸے گا اور ان دونوں محاذوں پر جو خدمت ہوئی ہے الحَمْدُ ِلله ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کا موقع ہمیں دیا ۔
عرب دنیا میں اسرائیل ایک ناسور ہے جنہوں نے فلس طین کی مٹی پر قبضہ کیا ہے عرب کی اس سرزمین پر جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اخرج الیہود من جزیرة العرب کہ یہود کو جزیرہ عرب سے باہر نکالو، آج یہ مسلمانوں کے بیچ زور زبردستی اپنا وطن اباد کر رہے ہیں، برطانیہ کی تائید پر یہ ملک بنا رہے ہیں، امریکہ کی پشت پناہی پر یہ ملک بنا رہے ہیں ایک ناجائز ملک، اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ پاکستان کا قرارداد 1940 میں بنا، اس قرارداد میں یہ بات شامل تھی کہ یہو دی فلسطینوں کے سرزمین پر قبضہ کر رہے ہیں، وہاں اپنے دیہات اباد کر رہے ہیں اور ہم اس آبادکاری کے مخالف ہیں، یہ بات محمد علی جناح نے 1940 کی قرارداد میں شامل کی تھی اور جب 1948 میں اسرائیل معرض وجود میں ایا تو سب سے پہلے پاکستان نے اعلان کیا کہ یہ برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے، عالمی قوتوں نے اسلامی دنیا کو ایسے دباؤ میں ڈالا کہ قریب تھا کہ بہت سے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے لیکن 7 اکتوبر کو اسرائیل پر فلس طین نے جو حملہ کیا اس سے ساری فضا تبدیل ہو گئی، انہوں نے حماس کو ایک دہش ت گرد تنظیم کہا ہے مطلب دہش ت گرد تنظیم کے ساتھ علیک سلیک تو غلط ہے ان کی حمایت کرنا جرم ہے، اب وہاں مسلمانوں پر بمباری ہو رہی ہے، فوجیوں پر نہیں عام آبادیوں پر، آج تک جب سو سے زائد دن ہو گئے ہیں آج کے دن تک تقریبا پچیس ہزار فلسطینی شہید ہو گئے ہیں جن میں ستر فیصد خواتین اور چھوٹے بچے ہیں اور آج یہی برطانیہ اور امریکہ ہمیں انسانی حقوق سکھا رہے ہیں، عام آبادیوں پر بمباری جاری ہے اور امریکہ برطانیہ جیسی طاقتیں ان کی حمایت کر رہے ہیں یہ تو جنگی جرم ہے، فلسطینیوں کی حمایت میں جنوبی افریقہ عالمی عدالت انصاف میں گیا مسلمان ملک نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں بات کی ہے اس موقع پر اللہ نے ہمیں یہ جرات دی اور ہم ڈنکے کی چوٹ یہاں سے گئے اور قطر میں ہم نے حماس کی قیادت سے ملاقات کی اور ہم نے دنیا کو بتایا کہ ہم یہو د ی کے مقابلے میں مسلمان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور اس میں کوئی حجاب محسوس نہیں کر رہے نعرہ تکبیر اللہ اکبر
کسی کو یہ توفیق تو نہیں ہو رہی امریکہ کو کوئی ناراض نہیں کرنا چاہتا فلسطین کے حق میں کوئی بول نہیں رہا میدان پہ ا کر جرات کا کوئی مظاہرہ نہیں کر رہا اور یہ جو ہمارے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں کیا ان میں جرات ہے جو مسلمان بھائی کے شانہ بشانہ کھڑا ہو یہاں تو پاکستان میں پارٹیاں بنی ہیں اور یہو د یوں کے ایجنٹ بن کر سیاست میں آئے ہیں تو یہو د یوں کے ایجنٹ کا مقابلہ پہلے دن سے ہم نے کیا ہے اور ہم نے ان کو چاروں شانے چت کر دیا اب مکافات عمل کے حوالے ہے، وہ بلّا بھی چھین کر لے گئے ہیں، اللہ کسی کو ایسا دربدر نہ کرے جس طرح ان کو کیا ہے اور ان شاءاللہ یہ دربدر رہیں گے ۔
ووٹ کی پرچی کو ہم جہا د کی تلوار سمجھیں گے، اسان جہا د اللہ تعالی نے ہمیں دیا ہے اور اس میں بھی ہم آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔ ہر زمانے میں طاقتور لوگ گزرے ہیں، بڑے اکابر گزرے ہیں، نبی علیہ السلام کے دشمن بھی گزرے ہیں لیکن جب ایک بار انہوں نے اسلام قبول کیا اور نبی علیہ السلام کے جماعت میں شامل ہو گئے پھر اگر اسلام سے پہلے وہ اپنے قبیلے میں سردار تھے اپنے قبیلے کے سربراہ تھے اور وہاں قابل احترام تھے اسلام میں انے کے بعد ان کی وہی عزت برقرار رہی لیکن اگر وہ اسلام کے مقابلے میں، شریعت کے مقابلے میں یہو دیوں اور بے دین لوگوں کی حمایت کرتے ہو تو پھر آپ مجھے بتائيں کہ ہمارے مقابلے میں جو خان کھڑے ہیں جس کی حکومت بنے گی اگر وہ کفر بھی کریں گے تو یہ ان کے ساتھ ہوں گے، ہم ان کے ایمان کو جانتے ہیں یہ ہمارے دیکھے ہوئے لوگ ہیں۔
تو ان لوگوں کو اسی میدان میں شکست دینا یہ اسلام کا تقاضا ہے، ہمارے ملک میں سیاسی پارٹیاں ہیں لیکن جمیعت علماء اسلام نے ناجائز کو تسلیم نہیں کیا 2018 کا الیکشن ہوا 2018 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور دھاندلی کے نتیجے میں حکومت ائی اور وہ لوگ جو دھاندلی کے خلاف میرے ساتھ جلوس میں تھے جو دھاندلی کے خلاف میرے ساتھ صف میں کھڑے تھے اج وہی لوگ اسی دھاندلی والی پارٹی کا ٹکٹ لے کر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں کچھ تو شرم و حیا ہوتی ہے نا، اور اب یہ ہمارا مقابلہ کریں گے اور پھر لوگوں سے کہیں گے کہ میں جمعیت سے اچھا ہوں، مدینہ منورہ کے لوگوں نے تو یہ اعتراض نہیں کیا تھا کہ نبی علیہ السلام مکہ سے اکر ہم پر حکومت کر رہا ہے ہاں ایک بندہ خفا تھا، مدینہ کا ایک بندہ خفا تھا کہ یہ حق تو میرا تھا یہ کون مکہ سے ایا ہے اور پیغمبری کا دعوی کیا اور وہ تھا عبداللہ ابن ابئی منافقین کا سردار۔
میں جب اسلام کی بات کرتا ہوں تو اسے فلس طین میں بھی کر سکتا ہوں، ا فغانستان میں بھی کر سکتا ہوں، عربستان میں کر سکتا ہوں پھر کیا اپنے لکی مروت میں اسلام کی بات نہیں کرسکتا، مسائل میں بیان کروں گا تم نہیں کیوں کہ تم جاہل ہو، ہم نے یہ پگڑیاں اس لیے نہیں باندھی کہ یہ سر پھر ان لوگوں کے سامنے جھکے گے۔
 ان شاءاللہ دین کی لاج بھی رکھیں گے، پرچم نبوی کو بھی سربلند رکھیں گے، کتاب کے نشان کو بھی کامیاب کریں گے اور اسی میدان میں بھرپور مقابلہ کریں گے، اسی میدان میں برادری قومیت یہ چیزیں معنی نہیں رکھتی عقیدہ اور نظریہ مقدم ہے اور اسی بنیاد پر ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، آج آپ نے کافی انتظار کیا اور موسم بھی سرد ہے لہذا آپ کو زیادہ تنگ نہیں کریں گے لیکن یہ عہد کرے کہ جمعیت کا کارکن ہر دروازہ کھٹکھٹائے گا اور لوگوں کو ووٹ کی دعوت دے گا کہ اس مٹی کا ووٹ جمعیت اور کتاب کے حق میں استعمال کرے اور اسے آپ کے لیے اخرت میں نجات کا ذریعہ بنا دے۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat 


لائیو لکی مروت : قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے ہیں

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, January 22, 2024



1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں