قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جامعہ قاسم العلوم ملتان میں ختم بخاری کی تقریب سے خطاب
25 جنوری 2024
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم
حضرات علماء کرام، عزیز طلبہ، میرے بزرگو، دوستوں اور بھائیوں، جامعہ قاسم العلوم ملتان کے ختم بخاری کی یہ تقریب ہے، فضلاء کرام کو دستار فضیلت دی جا رہی ہے، میں سب سے پہلے فضلاء کرام کو تحصیل علم کی تکمیل پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کی یہ زندگی جو تحصیل عالم میں گزری اسے قبول فرمائے اور آنے والے مستقبل میں اس علم کی خدمت کرنے کی آپ کو توفیق عطا فرمائے۔
ہمارے استاد ہمیں نصیحت کیا کرتے تھے کے دور حدیث پڑھنے کے بعد اب آپ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم عالم بن گئے ہیں تو وہ فرماتے تھے کہ آپ عالم نہیں بنے، آپ کے اندر عالم بننے کا استعداد پیدا ہو گیا ہے، اس کے بعد اگر آپ عالم بننا چاہتے ہیں تو اب آپ بن سکتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ آپ کے سامنے میدان ہے مدارس کا میدان، درس و تدریس کا میدان، مدارس سے باہر آپ کی عملی زندگی، جمعیتہ علماء کے پلیٹ فارم پر جدوجہد کا میدان ہے، اور جب ہماری سیاست سیاستِ شرعیہ ہے تو وہ دینی علم کی پختگی کے بغیر اس کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا، ہمارے ہاں تو سیاست کو جس طرح متعارف کرایا گیا ہے وہ یہی ہے کہ آپ کسی طریقے سے بھی جھوٹ کے ساتھ دھوکے کے ساتھ چالاکی کے ساتھ اقتدار تک پہنچ جائیں، ملکی وسائل تک تمہاری رسائی ہو جائے جبکہ شریعت کی نظر میں یہ سیاست نہیں ہے یہ مفادات کی ایک جنگ تو ہو سکتی ہے، ہر امیدوار یہ سوچتا ہے میں اسمبلی کا ممبر بنوں گا تو پھر کون سی وزارت میں زیادہ آمدن کی امکانات ہیں، لیکن شریعت کی نظر میں سیاست کے جس تعریف پر جمہور علماء کا اتفاق ہے
القيام على الشيء بما يصلحه
کسی چیز کا اس طرح وجود پذیر ہونا کہ وہ اصلاح کا سبب بنے یعنی ایسا تدبیر و انتظام کہ جس سے آپ عام آدمی کے حقوق اس کو مہیا کر سکیں، جو عام آدمی کی ضرورتیں ہیں وہ کس طرح آپ پورے کریں گے؟ ان کے لیے وسائل بنانا عوام کی ضرورتوں کے مطابق ان کی جانی حقوق ان کے مالی حقوق ان کی عزت و آبرو کے حقوق اس کا تحفظ کرنا اور جب کسی معاشرے میں انسان کی جان محفوظ ہو جائے اس کا مال محفوظ ہو جائے اس کی عزت و آبرو کو تحفظ مل جائے اور کوئی انسانی حقوق پر ڈھاکہ نہ ڈال سکے اور اگر کسی نے ڈھاکہ ڈالا اور کسی کی حق تلفی کی تو پھر آپ کے پاس ایسا نظام ہونا چاہیے کہ آپ اس کے حق کا ازالہ کر سکیں حق تلفی کا ازالہ کر سکیں اس کو کہتے ہیں امن، جو مملکتی زندگی میں قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق، امن جو معاشرے کی ضرورت ہے اور اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اگر ہم اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کریں گے تو پھر امن بھی ہوگا اور اطمینان بھی ہوگا
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اب دو چیزیں آگئی ایسے آبادی کا تذکرہ کیا ہے اور مثال دی ہے کہ جہاں امن بھی تھا اطمینان بھی تھا پرسکون زندگی لوگ گزار رہے تھے اور پھر وہاں پر معاشی خوشحالی بھی تھی ہر طرف سے رزق کھچ کھچ کے آرہا تھا وہاں پر لیکن جب لوگوں نے ناشکری کی کُفران نعمت کیا تو پھر اللہ نے جو ان کو سزا دی مزہ چکھایا تو پھر بد امنی کا اور بھوک کا چھکایا، آج ذرا اپنے وطن کا حال لے لو اپنے ماحول کا اندازہ لگا لو کیا ہمارے ملک میں لوگ مطمئن ہیں امن و امان ہے؟ کیا آپ کے ملک میں لوگ مطمئن ہیں ان کے لیے روزگار ہے؟ اگر امن بھی نہیں اور جب امن نہیں ہے تو آپ معیشت کو بھی ٹھیک نہیں کر سکتے، آج ہماری معیشت گر چکی ہے اور باقاعدہ منصوبے کے ساتھ ہماری معیشت کو گرایا گیا اور گزشتہ جو ساڑھے تین سال فتنے کے گزرے ہیں ہماری سالانہ جو شرح نمو ہے ملک کی ترقی کی جو شرح ہے سالانہ وہ منفی میں چلا گیا تھا، نقصان میں چلا گیا تھا تو پھر ملک تو ڈوبے گا، حکومتوں میں پالیسیوں کی بنیاد پر کمزوریاں بھی آتی ہیں پالیسیوں میں بہتری بھی آتی ہے اس کے اپنے اپنے اثرات بھی ہوتے ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت کوئی پاکستانی اور کوئی مسلمان سوچ سمجھ کر ملک کو نقصان دینے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا سوائے اس ایک فتنے کے کہ جو ملک کو معاشی لحاظ سے زمین بوس کرنے کے ایجنڈے پر آئے ہوئے تھے، اور یہ بات میں بلاوجہ نہیں کہہ رہا خوب سوچ سمجھ کے کہہ رہا ہوں آن ریکارڈ کہہ رہا ہوں اور آپ لوگ مانتے تب ہیں جب آپ پر اولے گر رہے ہوتے تھے، ہمارا گناہ یہ ہوتا ہے کہ جب دور بادلوں میں ہم اندازہ لگا دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں تو آپ اس وقت ہمارا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں، پھر وہی بادل گرجتے برستے آپ کی طرف آتے ہیں اور پھر وہ جو آپ کے ساتھ کرے۔ یہ ساری صورتحال کو ذرا سوچنا ہے آپ نے کہ آج کا امن ہے اور نہ ہماری معیشت ہے، میں تو جب ابھی ملک میں فتنہ تھا تو اس وقت بھی میں نے کہا تھا بڑے بڑے جلسوں میں میں نے یہ بات کہی تھی کہ ملک معاشی لحاظ سے اس حد تک گر چکا ہے کہ اب کوئی آئے گا تو اٹھائے گا تو اٹھا نہیں سکے گا، اس کو ہمارے کچھ سیاسی رہنما سٹیج پہ کھڑے ہو کر بڑے دعوے کرتے تھے اگر ہم آئے چھ مہینے کے اندر ہم ملک کی معیشت کو ٹھیک کر دیں گے، پھر آئے پھر نہیں کر سکے اور ابھی بھی نہیں ہو رہا، آج بھی اگر امن و امان کی نعمت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے بے گناہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے در در پھر رہا ہے تو وہ آپ کا خادم فضل الرحمن ہے۔ ملک کے اندر کے حالات آپ نے دیکھ لیے اور گزشتہ ایک سال سے افغانستان کے ساتھ جو حالات بنے ہمارے، ہر طرف جذبات جذبات کی باتیں ہوتی تھی جذبات میں فیصلے کیے جاتے تھے، امارت اسلامیہ کے قیام کی تو دو سال ہو گئے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا نے واحد جمعیت علماء اسلام ہے یہ ایک ایسی تنظیم ایک ایسی جماعت کہ جس نے جماعتی طور پر رسمی طور پر امارت اسلامیہ کی حمایت کی تھی اور جب ان کی حکومت کو گرایا گیا تو ہم میدان میں نکلے تھے ہم نے جلوس اور مظاہرے کیے تھے ہم جیلوں میں گئے تھے اور ہمارے کارکن شہید ہوئے تھے، ہم نے موقف تبدیل نہیں کیا، دنیا نے کہا یہ تو دہشت گردوں کے ساتھی ہیں، جاؤ تم کون ہوتے ہو دہشتگرد کہلوانے والے، تم خود کیوں نہیں ہو، دہشت گرد آج اسرائیل کیوں نہیں ہے، حماس سے لڑو نا لیکن حماس سے لڑ نہیں سکتے اور شہری آبادیوں کو بمباریاں کر رہے ہیں اور 115 دنوں میں آج تک 25 ہزار فلسطینی شہید کر دیے گئے بے گناہ جس میں 70 فیصد بچے اور خواتین تھیں، اتنی تھوڑے عرصے میں یہ نسل کشی نہیں ہے یہ جنگی جرم نہیں ہے، امریکہ کو یہ احساس نہیں کہ میں پوری دنیا کو اجازت دے رہا ہوں کہ جب چاہے کوئی کسی ملک پر چڑ دوڑے اور ان کی عام آبادی کو تہس نہس کردے، کیا میسج دنیا کو دے رہے ہیں، ہمارے پاس آتے ہیں کہ افغانستان میں ہمیں بڑی فکر ہے انسانی حقوق کی، تو اس وقت ان کو انسانی حق کیوں نظر نہیں آیا جب افغانستان کے مختلف شہروں کے اوپر عقوبت خانوں میں اور گوانتا نامو میں آج بھی ان کی در و دیوار ان کے خون کے دھبے ان کے مظالم کی گواہی دے رہے ہیں، ابوغُریب جیل میں اور بگرام میں زندہ لوگوں پر کتے چھوڑے گئے اور یہ بات کرتے ہیں انسانی حقوق کی، 25 ہزار عام شہری بچے فلسطین کے شہید ہو چکے ہیں تب بھی امریکہ اور مغربی دنیا انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، عجیب امن کے دعویدار ہیں آتے ہیں جنگ کے لیے بارود برسا رہے ہوتے ہیں شہروں کے شہر تباہ ہو رہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہم امن کے لیے آئے ہیں۔
برعکس نهند نام زنگی کافور
الٹا نام رکھتے ہیں
خِرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خِرد
جو چاہے یار کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
یہ ہے ان کی انسانی حقوق یہ ہے ان کی جمہوریت، اور پھر کہتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں ان کی نظر میں تو حماس بھی دہشت گرد تنظیم ہے، کوئی اس کے قریب جاتا ہے اوہ ایک دہشت گرد کے پاس چلا گیا، ساری دنیا سہمی ہوئی کہ ان حالات میں جبکہ جنگ چھڑ چکی ہے فلسطینیوں کی اور صہیونیوں کی اور امریکی وزیر خارجہ جس دھڑلے کے ساتھ تل ابیب آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایک امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے نہیں میں ایک یہودی کی حیثیت سے آیا ہوں تو پھر یہ جرات اللہ نے ہمیں عطاء کی، میں نے ترکی کے سفر میں جانا تھا میں نے منسوخ کر دیا، میں قطر گیا اور ان کی قیادت سے ملا اور ان پر واضح کیا کہ میں ایک مسلمان مجاہد کی حیثیت سے آپ کے پاس آیا ہوں۔
انڈیا نے 75 سال سے کشمیریوں کا خون بہایا، بڑے آرام کے ساتھ کشمیر کو انڈیا کے حوالے کردیا، پھر بھی وہ عوام کے لیے کھڑا ہے پاکستان کے لیے کھڑا ہے! کیوں جھوٹ بولا جا رہا ہے قوم کے ساتھ، حالات کی سنگینی کا احساس کریں، جس ماحول میں ہم رہ رہے ہیں یہاں پر بھی کہتے ہیں ہم آزادی چاہتے ہیں، غلامی پھر کس چیز کا نام ہے جب اس کا نام آزادی ہے تو، غلام ابن غلام ابن غلام ابن غلام ہمیں آزادی سکھائے گا، جن کی تاریخ 300 سال تک فرنگی کے خلاف آزادی کی جنگوں میں گزری وہ ہمیں آزادی سمجھاتے ہیں جاہل کے بچے، تاریخ کو کیا جانتے ہو آزادی کو کیا جانتے ہو آزادی کو ہم جانتے ہیں۔ جب اللہ رب العزت نے فرمایا
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ
میں نے انسان کو مشقت سے پیدا کیا اور پھر اسی پر آگے بڑھتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ۔
تو جب تم گھاٹی میں داخل ہوئے اور جانتے ہو گھاٹی کیا ہے، یعنی شریعت کے راستے کو گھاٹی سے تعبیر کیا مشکل گزرگاہ سے اور اس مشکل گزرگاہ اور اس گھاٹی کے اندر داخل ہونے کا مقصد کیا ہے اس کا تقاضا کیا ہے، سب سے پہلا تقاضا
فَكُّ رَقَبَةٍ
گردن چھڑانا، آزادی کی بات غلامی سے آزادی، دوسرا تقاضا
أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ
بھوک میں کسی بھوک کے کو کھانا کھلا رہا تھا، قرآن کا مفہوم ہے اور قرآن بڑی وسعت رکھتا ہے قرآن کے الفاظ اور معانی کائنات پر محیط ہوتے ہیں تو ایک فرد کی بھوک سے لے کر پوری قوم کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنا یہ قرآن کی تعلیم ہے پھر پسماندہ طبقے ہیں جمعیتہ علماء نے جب بھی بات کی ہے ایسے سیاسی نعرے کے طور پر نہیں اللہ تعالی کی تعلیمات کی بنیاد پر
يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ۔ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ
تو مفلوق الحال طبقوں کا ذکر کیا کہ وہ یتیم جو قرابت دار بھی ہو اور وہ مسکین غریب جو خاک آلود ہو کپڑے بھی نہیں اس کے جسم پر، گدلے ماحول میں زندگی گزار رہا ہے، ایک صاف ستھری زندگی بھی اس کو نصیب نہیں ہے
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ
ایمانیات اور صبر کی بات آخر میں کی، اب جمیعت علماء اگر اس منشور کو اٹھاتی ہے تو یہ آپ کی ان کتابوں کے جو آپ نے آج تک پڑھیں ہیں ان کا ہی ماخوذ ہے۔ کہتے ہیں مدرسے کی کیا ضرورت ہے؟ بھئی مدرسہ آپ کو ملک کا نظام سکھا رہا ہے جس سے آپ محروم ہیں، ہم نے تو اپنے بچوں کو سکولوں سے منع نہیں کیا ہم نے تو اپنے بچوں کو کالج سے منع نہیں کیا یا یونیورسٹی سے منع نہیں کیا ہم تو یہ دینی اور عصری علوم کی تقسیم کی ہی قائل نہیں ہے لیکن آپ ہیں کہ اپنے بچے کو قرآن حدیث اور فقہ کی تعلیم کے لیے مدرسے بھیجنے کو عار سمجھتے ہیں، تعلیم کو تقسیم آپ نے کیا ہے اور جو ہمارے علماء نے آپ سے کہا کہ آپ تو ہندو بھی نہیں ہے انگریز بھی نہیں ہے اور ہم ایک نصاب تعلیم قوم کو دیں تو ہم نے انکار نہیں کیا ہم تو مطالبہ کر رہے تھے آپ لوگوں نے انکار کیا اس کا، تو ان حالات میں حضرت ہم ملک کے اندر چل رہے ہیں، اور جمعیتہ علماء کی ہمت ہے کہ ناموافق حالات میں بھی ہم کام کرتے ہیں تاکہ پبلک تک ہمارا منشور پہنچ جائے قرآن و سنت کی روشنی میں پہنچے حکمت و دانائی کے ساتھ پہنچے لوگوں کو بات سمجھ میں آئے کہ سیاست محض اقتدار تک چالاکی کے ساتھ پہنچنے کا نام نہیں ہے بلکہ سیاست ایک باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ اقتدار تک پہنچنے کا نام ہے اور آج کل تو مذاق بنا دیا ہے لوگوں نے یہ ساری اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں مذاق کرتے ہیں، اقتدار کی جنگ مذاق ہے! ہوگا تمہاری جنگ مذاق ہوگا تم کرسی کے لیے لڑتے ہو تمہارا کوئی منشور نہیں ہے، ہم لڑ رہے ہیں تو بتا دینا چاہتا ہوں کہ رب العالمین نے اس کا فیصلہ کیا ہے اور اللہ نے اعلان کیا
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے
وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي
اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی
وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
اور اسلام کو بطور نظام حیات کے میں نے تمہارے لیے پسند کر لیا ہے، اب ایک ہے اکمالِ دین، دین مکمل ہے بہ اعتبار تعلیمات اور احکامات کے اور ایک ہے اتمام نعمت، نعمت اس دین اسلام اور کامل دین اسلام کی اس نعمت کا اطباق اُس صورت میں ہوگا جب اس کا اقتدار بھی ہوگا، فرد کامل اس کا اقتدار ہے نیچے والے چھوٹے چھوٹے افراد ہیں اس کے لیکن ہمارے اکابر علماء نے
وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي
کو تعبیر کیا ہے دین کامل کی اقتدار سے لہذا ہمارے جو دین بیزار قسم کے لوگ ہیں علم کو ادھر ادھر سونگنے والے لوگ جو علم کے حقائق تک نہیں پہنچ پا رہے انہوں نے مذاق بنا دیا ہے یہ تو اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں یہ سب کرسی کی جنگ لڑ رہے ہیں کرسی کی جنگ آپ کے نزدیک ہوگی کرسی کے جنگ لڑ رہے ہوگے تم، ہم اسلام کو اقتدار پر پہنچا کر اتمام نعمت کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں لوگ کو، اس نظریے کے ساتھ آپ نے الیکشن میں حصہ لینا ہے ہم یہ نے راستہ اختیار کیا ہے، جمہوریت اور پارلیمنٹ یہ تدریجی اصلاحات کا نام ہے اور جمیعت علماء اس کا حصہ اور یہ نظریہ ہم نے قائم نہیں کیا ہمیں یہ چیزیں اپنے اکابر سے ملی، ہمیں اکابر سے نظریہ بھی ملا اور اس نظریے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ بھی ملا اور ہم نے دونوں امانتوں کا خیال رکھنا ہے، ہمارے جو نوجوان ہیں علماء بھی ہیں طلباء بھی ہیں یہ بھی کوئی نئی بات آتی ہے اس سے متاثر ہو جاتے ہیں (کُل جدید لذیذ)۔
یاد رکھیں ہم مقلدین ہیں اور تکلیف کسی امام مجتہد کی اتباع بلادلیل کا نام ہے، یہی معنی ہے نا اگر ہم دلائل بولنے لگے اپنے امام مجتہدین کے ساتھ تو پھر تو ہم خود مجتہد ہو گئے پھر کیسے ہم اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ کے تابع سمجھیں گے حنفی مسلک کے ہم کیوں کہلائیں گے، تو یہاں پر بھی تھوڑا سا ذرا اپنے اکابر و اسلاف کے سلسلے کو دیکھو، میں جب اسلام کی بات کرتا ہوں جب اسلامی نظام حکومت کی بات کرتا ہوں اور جلسے میں کوئی آدمی کھڑا ہو کر مجھ سے سوال کر لے کہ یہ جو تم اسلام کی بات کرتے ہو کہاں سے بول رہے ہو، تو میں ان کو سامنے سند پیش کرتا ہوں میرے پاس سند ہے اس کے، اپنے استادوں سے لے کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ سند جاتی ہے میری، پھر بھی میں دلیلیں کہتا رہا ہوں اس کے لیے، ہر زمانے کی تعبیرات تبدیل ہوتی ہیں، میرے خیال میں جہاں بھی لفظ جمہوریت آیا ہے مولانا ابوالکلام آزاد نے اگر تو اس کی تعبیر کی ہے تو شورائیت کی تعبیر جمہوریت سے کی، جہاں پر بھی کوئی لفظ شوریٰ آیا ہے تو انہوں نے لفظ جمہوریت ڈالا ہے، ہر زمانے کی تعبیرات تبدیل ہوتی ہیں، کسی زمانے میں آپ امام کو خلیفہ بھی کہہ سکتے تھے پھر زمانہ بدل گیا تو امیر المومنین بھی کہہ رہے تھے تو امیر کا لفظ بھی استعمال ہو رہا تھا تو امام کا لفظ بھی استعمال ہو رہا تھا، آج کل صدر مملکت کا لفظ استعمال ہوتا ہے آج کل وزیراعظم کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو یہ الفاظ متعدد ہیں الفاظ مختلف ہیں مدلول واحد کے لیے، مدلول ایک ہی ہے اس کا طریقے مختلف ہے اور یہی جہاد ہے آپ کا، ہم نے جہاد کے معنی بھی تبدیل کر دیا اس کو خاص کر دیا ہے بندوق کے ساتھ حالانکہ علماء کرام جانتے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر جہاد کا تعین کیا ہے اور فرمایا کہ ہر وہ جدوجہد جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہو وہ جہاد کہلائے گا اس کے علاوہ کوئی جہاد نہیں، اب ظاہر ہے کہ جہاد نماز کی طرح نہیں نماز کا نہ وقت تبدیل ہوتا ہے نہ طریقہ تبدیل ہوتا ہے روزے کا وقت تبدیل ہوتا ہے نہ طریقہ تبدیل ہوتا ہے حج کرنا وقت تبدیل ہوتا ہے نہ طریقہ تبدیل ہوتا ہے لیکن جنگ اگر درپیش ہو جائے تو ہر جنگ کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے اپنا طریقہ ہوتا ہے، شہر کے اندر سے لڑنا ہے باہر سے لڑنا ہے ہمیں تلوار سے لڑنا ہے ہم نے زبان سے لڑنا ہے کس حکمت سے ہم نے لڑنا ہے وہ فیصلہ ہوتا ہے ان لوگوں نے کرنا ہوتا ہے اس وقت کے لوگوں نے کرنا ہوتا ہے اور ایک اسلامی ملک میں بندوق کی سیاست یہ ہمارے اکابر کا طریقہ نہیں رہا ہے انہوں نے آئین بنایا آئین میں واضح کیا کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ رب العالمین کی ہوگی، آئین نے واضح کیا کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، آئین نے واضح کیا کہ ہر قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی اور آئین نے واضح کیا کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا اب اسی کو اسلام کہتے ہیں نا، اب عمل نہیں ہے عمل نہیں تو ہمیں اس کے اندر جانا چاہیے تاکہ اس کو عملی شکل دے سکے، اب جب ایک شخص مسلمان ہو اور شریعت پہ عمل نہ کرے تو گنہگار کہلائے گا نا کافر تو نہیں کہلائے گا اور اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ گناہ کا مرتکب کافر ہے تو پھر وہ تو خارجی ہے وہ تو اہل سنت والجماعت سے اس کا تعلق ہی نہیں ہے اور پھر ایک مومن کو کافر کہہ دینے سے کیا آدمی خود کافر نہیں ہو جاتا، پھر ایک مسلمان کا خون اپنے لیے حلال سمجھ لینا اس سے کافر نہیں ہوتا اگر ایک شخص شراب پیتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ میں گناہ کر رہا ہوں حرام ہے اور میں گناہ کر رہا ہوں یہ کافر نہیں ہوتا لیکن اگر وہ شراب پیتا ہے اس خیال سے کہ یہ حلال ہے یہ حرام کی وجہ سے ملاؤں کی باتیں ہیں اس سے وہ کافر ہو جاتا ہے، زنا کرتا ہے لیکن اس کو پتہ ہے کہ حرام کام ہے جو کر رہا ہوں اس سے کافر نہیں ہوتا ہے اس کے لیے توبے کا راستہ کھلا ہے اس کے لیے اور اگر ایک شخص کہتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ میرے لیے جائز ہے اور ہمارے مغربی دنیا میں جن لوگوں نے اس قسم کے حرکتیں کی ہیں وہ کہتے ہیں ہمارے ملک میں الاؤ ہے حرام نہیں ہے ہمارے ملک میں، تمہارے ملک میں حرام نہیں ہے شریعت میں تو حرام ہے اور تم مسلمان ہو کلمہ گو ہو، چوری کرتا ہے یہ احساس کے ساتھ کہ میں گناہ کر رہا ہوں لیکن اگر وہ چوری کرتا ہے اس خیال سے کہ میرے لیے حلال ہے تو اگر ایک حرام کو آپ اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں آپ نے قتل کیا یہ سمجھتے ہوئے کہ میں نے گناہ کیا ہے تو شاید آپ کافر نہیں ہے اور اگر آپ نے کہا کہ میرے لیے بالکل جائز ہے میں جب چاہوں کسی کو قتل کروں تو خون حلال کرنا اپنے لیے اور پھر پہلے سے ایک مقدمہ بھی لگا دیتے ہیں یہ تو چونکہ جمہوریت کی وجہ سے کافر ہو چکے ہیں اس لیے پھر ہمارے لیے حلال ہوچکے ہیں، حیلہ بہانہ بھی طریقے سلیقے سے بناؤ بھئی، کم بختو جاہلوں تمہاری نظر میں حضرت شیخ الہند بھی کافر تمہاری نظر میں حسین احمد مدنی بھی کافر تمہاری نظر میں رشید احمد گنگوہی بھی کافر تمہاری نظر میں مفتی کفایت اللہ بھی کافر تمہاری نظر میں مفتی محمود بھی کافر تمہاری نظر میں درخواستی بھی کافر احمد علی لاہوری بھی کافر پھر رہا کیا دنیا میں رہا کیا، تو جہالت والی باتیں ہمارے نوجوانوں کو نہ سمجھایا جایا کرو ہم مقلد ہیں ہم اپنے اسلاف و اکابر کو جانتے ہیں ہم ان کے علمی مقام کو جانتے ہیں ان کے کردار کو جانتے ہیں ان کے تقوی کو جانتے ہیں، اس لیے اپنے اکابر کے مشن پہ چلو اور جہاں تک ہمارے الیکشنوں میں عوام کی خدمت کی باتیں کی جاتی ہیں یہ بھی کوئی سیاستدان اگر کرتا ہے تو ووٹ کی حد تک کرتا ہے اگر وہ ووٹ نہیں کرتا اسے کوئی پبلک کے مسائل سے دلچسپی نہیں ہوا کرتی لیکن شریعت اسلامیہ ہمیں ہر حال میں کہتا ہے کہ کسی کی مشکل میں اس کے کام آؤ کسی کی ضرورت ہو تو اس کو پورا کر دیا کرو، ایک حدیث میں آتا ہے کہ
إنَّ للهِ عبادًا خلقَهم لحوائجِ الناسِ يفزعُ الناسُ إليهم في حوائجِهم أولئك الآمِنونَ يومَ القيامةِ
بے شک اللہ کے لیے ایک ایسی مخلوق بھی ہے دنیا میں جس نے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ نے ان کو پیدا کیا اور لوگ اپنی ضرورتیں ان کی طرف لپکتے ہیں ان کی طرف اور پھر جب وہ لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے مشکل کو پورا کرتا ہے مشکل میں اس کا کام آتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہی وہ لوگ ہیں جو قیامت کے روز عذاب سے محفوظ ہوں گے، کرو اچھا کام لیکن اس عقیدے کی بنیاد پر کرو نا، دین اسلام کی تعلیمات کی بنیاد پر کرو جب ہمارے معاشرے میں ضرورت مند لوگ موجود ہیں، مظلوم موجود ہے تھانا ان پہ ظلم کرتا ہے، وہ ڈیرہ ان پہ ظلم کرتا ہے ووٹ نہیں دیتا تو پھر تھانے میں جائے اور مار کھاتا رہے، ان کے دولت پہ ہاتھ ڈالتا ہے ان کو بے عزت کرتا ہے ان کی عزت پہ ہاتھ ڈالتا ہے تو پھر اس وقت آپ کا میدان شروع ہو جاتا ہے کہ ہم ایسا نہیں کرنے دینگے آپ کو، ہم پاکستان میں کسی کے نیچے لگ کر سیاست نہیں کر رہے اور یہ پگڑی ہم نے سروں پر اس لیے نہیں رکھی ہوئی کہ گردنیں جھکے گی کسی کے سامنے۔
ہمارا کام ہے کوشش کرنا محنت کرنا ہمارے نتائج کے بارے میں اللہ ہم سے نہیں پوچھے گا، تم نے اسلام ملک میں نافذ کیا یا نہیں کیا لیکن یہ تو پوچھے گا کہ اسلام کے لیے محنت کی یا نہیں کی، تم نے غریب کو راحت مہیا کر لیا یا نہیں کر لیا لیکن غریب کی مشکل میں آپ نے ساتھ دیا یا نہیں دیا یہ تو پوچھا جائے گا آپ دیکھ رہے تھے آنکھوں سے، آپ کے اندر استطاعت تھی کہ آپ ان کی خدمت کریں مدد کریں، اس جذبے اور اس منشور کے ساتھ کام کرو نا، تو ہمارے ملک کی سیاست پر جس جاگیرداری اور جس سرمایہ داری کا قبضہ ہے عام آدمی اس کو اس لیے ووٹ نہیں دے رہا کہ ان کی نظر میں کوئی اچھا آدمی ہے ان کے ظلم سے ڈر کر ووٹ دیتا ہے اور علماء نے اور جمعیت علماء کے لوگوں نے ابھی تک لوگوں کو اعتماد نہیں دلایا کہ بھئی آپ مت ڈریں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، اس کے لیے محنت جاری رکھنی ہے آگے بڑھنا ہے ان شاءاللہ العزیز اور عام آدمی کو اعتماد میں لیں کہ ہماری سیاست وہ شرعی سیاست ہے قرآن و سنت سے اخذ کیا ہوا اور جمعیت علماء اسلام کے منشور کا ایک ایک دفعہ وہ قرآن و سنت سے لیا گیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات قرآن و سنت سے لیے گئے اور اس پر عمل نہیں ہورہا تو میں اس حوالے سے جو مجھے پتہ چلا کہ یہاں 25 تاریخ کو اجتماع ہے اور میں نے یہاں آنے کا ارادہ کر لیا تو دوستوں کو پتہ چل گیا تو آگے بھی کچھ دوستوں نے پروگرام اب رکھے ہوئے ہیں آپ دعا کریں اللہ تعالی اس کو آسان فرمائے اور اسے موثر فرمائے، دھیرے دھیرے چلے گئے ان شاءاللہ کامیابی بھی ملتے رہیں گی ماحول ہم نے بنانے ہیں اور اس ماحول کا ہم نے فائدہ اٹھانا ہے اور میں ایک بات انتظامیہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جمعیت علماء اسلام کی امیدواروں کو بٹھانے کے لیے دھمکایا جا رہا ہے، خبردار اگر تم نے یہ حرکت کی! پھر ہم بھی حرکت میں آجائیں گے پھر تمہیں کوئی عہدہ کوئی کرسی جو ہے تمہیں بچا نہیں سکے گی، اور اگر ہماری طاقت کا کسی کو پتہ نہیں ہے تو ذرا فتنے سے جا کر پوچھئیے کہ اس کا کیا حشر کیا ہم نے۔
تو اللہ تعالی ہماری اس جدوجہد کو کامیاب فرمائے اس سلسلے کو جاری و ساری رکھے، آپ کی نماز ساڑھے چار بجے کا ٹائم ہے اور ابھی تو پونے پانچ ہو گئے ہیں اور میں اجازت لینا چاہوں گا میری طرف سے اجازت حدیث بھی ہے آپ کو اور دستار بھی ہماری طرف سے مبارک ہو۔
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
لائیو ملتان: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ خطاب کر رہے ہیں ۔
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, January 25, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں