14 فروری 2024
عاصمہ شیرازی: آپ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ ہے، سینئیر ترین سیاست دانوں میں ہے، زیرک سیاستدان ہے ان کی پریس کانفرنس آپ نے سنی ہے تحفظات کا اظہار کیا ہے انتخابی عمل کے اوپر مسترد کیا ہے انتخابی نتائج کو اور احتجاج کی صورتحال اس وقت جو ہے وہ جمعیت علماء اسلام کی صفوں کے اندر نظر آتی ہے شدید غصہ ہے غم ہے تو ہم نے سوچا کہ مولانا سے اسی معاملے کے اوپر بات کی جائے اور ان سے ہی کچھ سوالات کیے جائیں الیکشن سے پہلے بھی وہ اپنے تحفظات کا اظہار ہمارے ساتھ انٹرویو میں بھی کر چکے ہیں اور وہ سب کے تہہ تک پہنچ بھی چکے ہیں مگر اب کیا تحفظات مزید ہیں
السلام علیکم مولانا
مولانا صاحب: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
عاصمہ شیرازی: مولانا ایک طرح سے ایک بم شیل تھا جو کہ آج آپ کی پریس کانفرنس میں ہمیں نظر آیا اور آپ کو جانتے ہوئے آپ کی سیاست کو جانتے ہوئے کیا آپ اس نتیجے پہ پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے اندر انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے؟
مولانا صاحب: دیکھیں میں تھوڑا سا ذرا مجھے احساس ہے کہ میرے اندر ضمیر موجود ہے میری جماعت کے اندر بھی ضمیر موجود ہے تو جو الیکشن ہوئے پچھلی دفعہ بھی ہوئے ہم نے قبول نہیں کیے ابھی بھی اس سے کہیں بڑھ کر جو کچھ ہوا تو کیسے قبول کرے ہم جی اور یہ اسمبلیاں تو اس پہ تو ہم سن 80 سے بیٹھ رہے ہیں کوئی آج کی بات تو نہیں ہے کہ ہمارے لیے کتنی بڑی اہمیت کا حامل ہو اور جس کے اوپر ایک چاپ لگتی ہے کہ یہ اب دھاندلی زدہ پارلیمنٹ ہے اس کی اہمیت کیا ہوگی، اس کے فیصلوں کی اہمیت کیا ہوگی، ان کی قانون سازی کی اہمیت کیا ہوگی، دنیا ساری اس پر نظر رکھی ہوئی ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کا کوئی قانون اس کو ہم کسی دنیا کے کسی اور عدالت میں کسی فیصلے بطور نظریہ پیش کر سکتے ہیں یا نہیں، سب کچھ ختم ہو گیا، ہمارے عدالتوں کے فیصلے بطور نظیر پیش نہیں کیے جاتے تو یہ ساری صورتحال ہمارے ملک کے حوالے سے جو مذاق ہو رہا ہے ہم بھی پاکستانی شہری ہیں ہم کسی کے نوکر تو نہیں ہے، ہم نے ملک کو سورنا ہے ہم نے اس ملک کے اصلاح کے لیے کام کرنا ہے اس ملک کو اگر ہم نے جمہوریت کا ساتھ دیا ہے تو پھر جمہوریت کا مقدمہ حضرت ہم ہار رہے ہیں اس وقت دنیا میں جو ہمارے خلاف اور جمہوریت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں تو اس میں جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے، پارلیمنٹ اپنی حیثیت کھو رہا ہے، اس لیے آج ہم نے پھر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
عاصمہ شیرازی: مولانا کیا ہم یہ سمجھیں کہ میاں نواز شریف کی سیاست کو بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی تقریباً ختم ہو گئی ہے مائنس ہو گئے، کیا آپ کو مائنس کرنے کی کوشش کی گئی ہے یا کوئی کیا اس کے پیچھے ہوگا کیا کیونکہ بہرحال آپ کے ایک اپنی پریزنس ہے سیاسی
مولانا صاحب: میری تو مائنس کرنے کی کوشش نہیں ہوئی جماعت کے مائنس کی ہوئی ہے، اب اگر جمعیت علماء اسلام کو مائنس کیا جائے گا ملکی سیاست سے تو پھر ہم بقاء کی جنگ تو لڑیں گے۔
عاصمہ شیرازی: جی ہوا کیا ہے واردات کیا ہے کیونکہ آپ الیکشن سے پہلے بھی بات کر رہے تھے کہ اپ کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہا آپ کے لیے کیمپین کے لیے اجازت نہیں دی تھی تھریٹس تھے بہت زیادہ کیا اپ کو کہا گیا کیونکہ آج آپ نے پریس کانفرنس میں کچھ کہا؟
مولانا صاحب: صرف ایک تھریٹ تو نہیں ہے ایک ہوتا ہے تھریٹ اس کے بارے میں جو یہاں جو اسٹیبلشمنٹ کے ہمارے ساتھ جو روز روز ہمیں تھریٹ کے لیٹر ملتے تھے اور جس کو خیر خواہی سے تعبیر کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اب ہمیں انٹرنل روک رہے تھے جی اور اگر ہم نہیں رکتے تو پھر آپ ہمارے اوپر حملے کرتے ہیں جی اس کے راستہ کھولتے ہیں اور ہمارے سیکیورٹی ختم کر دیتے ہیں آپ جی تو یہ تو اپنی جگہ پر ہے میں کسی ایک سیٹ کی بات نہیں کر رہا ہوں اور نہ میں کسی ایک حلقے کی بات کر رہا ہوں میں نے مجموعی طور پر پورے ملک کے الیکشن کی بات کی ہے اور یہ میری جماعت کی عاملہ کا تجزیہ ہے جس کو ہم نے آج پبلک کے سامنے رکھا۔
عاصمہ شیرازی: آپ سمجھتے ہیں تحریک انصاف کے ساتھ بھی دھاندلی ہوئی ہے پنجاب کے اندر خاص کر کے؟
مولانا صاحب: تو یہ فیصلہ تو انہوں نے کرنا ہے میں نے نہیں کرنا میں اپنی بات کر رہا ہوں۔
عاصمہ شیرازی: لیکن آپ کی ابزرویشن کیا ہے؟
مولانا صاحب: میں اپنی بات کر رہا ہوں اور اپنی بات کرتا رہوں گا میں اس ملک میں جمہوریت کی بات آج تک کرتا رہا ہوں اور کروں گا ایسا نہیں ہے کہ نہیں کروں گا لیکن جمہوریت وہ ہونی چاہیے جو حقیقی جمہوریت ہو جس طرح آئین نے کہا ہے یہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جو ہے وہ مجھے نتیجہ ہاتھ میں پکڑوا کر دیتے رہے اور کہیں جی اس کو جمہوریت کہو اس کو میں کبھی جمہوریت نہیں کہوں گا ۔
عاصمہ شیرازی: تو آپ تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں اس معاملے کے اوپر؟
مولانا صاحب: ابھی اس حوالے سے نہیں سوچا۔
عاصمہ شیرازی: لیکن اس کی امکانات موجود ہیں؟
مولانا صاحب: ابھی ہم نے کچھ نہیں سوچا اس حوالے سے
عاصمہ شیرازی: مولانا آپ کو اوور آل نظر کیا آرہا ہے؟ پاکستان پیپلز پارٹی ہے پی ایم ایل این ہے آپ کے پرانے اتحادی ہیں کیا آپ نے بات چیت کا دروازہ بھی بند کر دیا ہے کل شہباز صاحب سے آپ کی ملاقات تو ہوئی تھی؟
مولانا صاحب: بات چیت کا دروازہ ہم بند نہیں کرتے لیکن اس کی افادیت بھی ہونی چاہیے نا ایسی تو ملاقات جو ہم دوسروں کا احترام بھی کرتے ہیں گپ شپ بھی لگاتے ہیں بے تکلفی بھی ہے لیکن جو چیزیں ہمارے مدنظر ہیں اس کو دیکھنا ہوتا ہے تو اس میں ہمیں کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔
عاصمہ شیرازی: آپ کی مطالبات بھی ہیں کچھ تو آپ نے شہباز صاحب سے کہا ہوگا کہ یہ یہ مسائل ہیں ان کو دور کیا جائے؟
مولانا صاحب: نہیں اگر انہوں نے مجھے میسج کیا تھا کہ جی آپ لاہور میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ تشریف لے آئے ہیں اور آپ کے بغیر مجلس مکمل نہیں ہو رہی تو میں نے کہا نہیں میری اس مجلس میں کوئی جگہ نہیں ہے میں نے انکار کر دیا۔
عاصمہ شیرازی: مولانا آپ کو پیش منظر کیا نظر ارہا ہے کیونکہ اپ کی گہری نگاہ ہے اور آپ نے طالبان کی بھی بات کی کہ ہمیں یہ کہا ہمیشہ ان سے بات کرنے کی سزا دی گئی کس طرح سے تھوڑا وضاحت کریں گے؟
مولانا صاحب: دیکھیے ہمارے حوالے سے فیصلے یہاں لوکل نہیں ہوا کرتے تھے ہمارے حوالے سے عالمی قوتیں بھی فیصلے کرتی ہیں، 20 سال افغانستان میں امریکہ نے جارحانہ حملہ کیا اور قبضہ کیا افغانستان کے اوپر تو جنرل مشرف نے حملہ کرنے دیا ان کو، ان کو ایئرپورٹس دیے ان کو فضائیں دی ہم نے اس سے اختلاف کیا اور ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے اور انسانی حقوق کا قاتل ہے اور کہتا ہے جی ہم انسانی حقوق کے محافظ ہیں الٹی سی بات لگ رہی ہے، اب ان کے ایجنڈے کو بھی دیکھنا ہے مغرب کے ایجنڈے کو بھی ہم نے دیکھنا ہے وہ ہر قیمت پر افغانستان کی امارت اسلامیہ کو غیر مستحکم کرنے کا سوچ رہے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر امادہ کر سکتے ہیں کہ یہ فریضہ سرانجام دیں ہم بیچ میں آگئے اور ہم نے ایک دوسرے کے حالات کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا تو ہم مجرم ٹہرے، پھر اسرائیل کی دہشت گردی ریاستی دہشت گردی فلسطینیوں کے خلاف، تو ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے، اور امریکہ ان کا وزیر خارجہ آئے کہ نہیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ابھی بھی یورپ کتنے ممالک ہیں کہ جن کی فوجی جو ہے براہ راست تل ابیب میں آکر اتری ہے اور وہ اسرائیل کی طرف سے جنگ لڑ رہی ہے اب ہم اس کے مقابلے میں جو حماس کی طرف جائیں گے تو پھر ظاہر ہے جی کہ وہ ہمارے بارے میں پھر اس طرح کے دباؤ تو لائیں گے کہ اس کو پارليمنٹ میں نہیں آنا چاہیے، ان کے آواز کو دبا دینا چاہیے جی، تو اس قسم کی چیزیں جو ہیں وہ ہمیں نظر آتی رہی ہیں اور ہمیں لوگ رپورٹ کرتی بھی رہے ہیں لیکن ہمیں سمجھ رہے تھے کہ نہیں شاید ہمارے اسٹیبلشمنٹ جو ہے وہ ملک کے لیے سوچئے گی اور وہ ان خدمات کی قدر کرے گی لیکن لگتا ایسا ہے کہ ان کے جس طرح امریکہ میں ڈیموکریٹس اور ریپبلک ان کو آپس میں تو لڑتے ہیں لیکن دنیا کے لیے ان کی پالیسیوں کا تسلسل جو ہے وہ برقرار رہتا ہے تو یہاں پر بھی ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کا تو سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں برقرار رہتا ہے۔
عاصمہ شیرازی: تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ تحریک انصاف کو اس الیکشن کے اندر جو اتنی کامیابی ملی ہے اس کے اندر بھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے بظاہر تو ایسے لگتا ہے کہ؟
مولانا صاحب: حضرت اسٹبلشمنٹ کہ کردار کو اتنی سادہ نہ لے، ایسے آسانی کے ساتھ اتنا خوبصورت سوال کر دیتے ہیں حضرت یہاں الیکشن ہوئے ہیں اسٹیبلشمنٹ لے کر آئے ہیں انہوں نے نتیجے بنائے ہیں نتیجے بنائے ہیں انہوں نے جی بس پیسے لیے ہیں رشوتیں لی ہیں اربوں رشوتیں انہوں نے کمائیں ہیں اس پہ
عاصمہ شیرازی: لیکن آپ یہ نہیں سمجھتے کہ حامی ووٹ سے زیادہ مخالف ووٹ ہے وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا؟
مولانا صاحب: حضرت اتنا ووٹ نہیں ہے ہمارے صوبے میں جتنا کہ ڈالا گیا ہے۔
عاصمہ شیرازی: تو آپ اس کو چیلنج کر رہے ہیں؟
مولانا صاحب: میں چیلنج کر چکا ہوں آج کی میرے پریس کانفرنس جو ہے وہ اسی کو چیلنج کرنے والی بات ہے، میں ان اداروں پر الیکشن کمیشن پہ اعتماد کروں، میں ان کوٹوں پہ اعتماد کروں یہاں کھڑا رہا ہوں ان کے سامنے، میں پبلک میں جاؤں گا عوام کے عدالت میں جائیں گے اور ہم ان شاءاللہ اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔
عاصمہ شیرازی: یعنی احتجاج ہی کریں گے؟
مولانا صاحب: ظاہر ہے جی
عاصمہ شیرازی: مولانا اب اتنی سنگینی کہ جو صورتحال ہے اس وقت اس میں بہرحال بیٹھ کے بات
مولانا صاحب: سنگینی صورتحال کا سوال مجھ سے نہ کریں ان سے سوال کریں جنہوں نے یہ حرکتیں کی ہے، یہ سنگینی کی صورتحال ہے یہ ان سے پوچھیں جنہوں نے جھک ماری ہے جنہوں نے جرم کیا ہے۔
عاصمہ شیرازی: خیبر پختون خواہ میں یا پورے ملک میں؟
مولانا صاحب: پورے ملک میں کیا ہے پورے ملک میں کیا ہے لاڈلے بڑھ گئے ہیں لیکن جب لاڈلے بڑھیں گے تو لالے بھی پڑھیں گے۔
عاصمہ شیرازی: تو لاڈلوں میں کیا آپ کے خیال میں یہ اچھا جملہ ہے لیکن لاڈلوں میں پی ایم ایل این بھی شامل ہو گئی ہے آپ کے لیے
مولانا صاحب: جی بالکل ہے بالکل ہے کسی درجے میں ہے کسی درجے میں ہے ان کو بھی اپنا قد بتا دیا ہے کہ میاں صاحب آپ کا یہ قد ہے آپ کو یہ سیٹ ہم نے دی ہے آپ نہیں جیتے ہیں، یہ سیٹ آپ کو ہم نے دی ہے آپ نہیں جیتے ہیں یہ سیٹ آپ کو ہم نے دی ہے آپ نہیں جیتے ہیں اس احساس کے ساتھ وہ اس وقت میں بیٹھے گا۔
عاصمہ شیرازی: تو اس کا تو مطلب ہے کہ 2018 پہ واپس چلے گئے اسی طرح کی پارلیمنٹ ہے؟
مولانا صاحب: اس سے آگے گئے ہیں اس کا ریکارڈ توڑا ہے اس دفعہ
عاصمہ شیرازی: تو پھر تو کسی بھی وقت تبدیلی آسکتی ہے جیسے پہلے تبدیلی آئی؟
مولانا صاحب: وہ اپنی جگہ پر ہوگی دیکھا جائے گا اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے۔
عاصمہ شیرازی: مگر پھر بھی آپ نظر تو رکھتے ہیں نا گہری نگاہیں آپ کی اگر ڈھائی سال کے بعد پھر اسی طرح ہوا جیسے عمران خان کی حکومت کے ساتھ تھا یا اس سے پہلے ہی ہو جائے گا؟
مولانا صاحب: یہ نظام چل ہی نہیں سکتا اس طریقے سے جی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جی ہمارے دفاعی قوت ہے ہمارے جاسوسی قوت ہے اور وہ سیاست کرے گی اس کے فیصلے میں استحکام ہوگا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ استحکام ہو سکے۔
عاصمہ شیرازی: تو پھر حل کیا ہے مولانا کیا کیا جائے؟
مولانا صاحب: حل یہی ہے کہ دستبردار ہو جائے سیاست سے عوام کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
عاصمہ شیرازی: تو وہ تو کہتے ہیں ہم دستبردار ہیں۔
مولانا صاحب: نہیں ایک ایک سیٹ پر میں چیلنج کرتا ہوں کوئی ایک سیٹ پاکستان میں ایسی ہو کہ جس پر انہوں نے سودے بازیاں نہ کی ہو۔
عاصمہ شیرازی: تو پھر کیسے اکانومی ہے معیشت ہے میثاق معیشت کی بات ہو رہی ہے؟
مولانا صاحب: وہ مجھ سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے جی بس میں تو ان ساری چیزوں کو دیکھتا رہا اس کے لیے میں میانہ روی کا مظاہرہ کرتا رہا، میں ملک کے ساتھ وفادار ہوں ملک کے لیے سوچتا رہتا ہوں، میں پرامن ماحول بنانے کے لیے لگا ہوا تھا تاکہ ملک کی سرمایہ کاری کے لیے کوئی آسکے بلکہ معیشت بہتر ہو سکے لیکن اب ان کو نہیں چاہیے ہماری خدمات تو ٹھیک ہے پھر
عاصمہ شیرازی: تو اس کا مطلب ہے کہ بحران ہی ہوگا آگے؟
مولانا صاحب: بحران بڑھے گا ہوگا نہیں بڑھے گا اس طرح نہیں ہے بات رک سکتی ہے کہ ہم بس بیٹھے رہیں اور چنگیز خان کی طرح بس لوگ نیچے لیٹے ہوئے ہیں اور وہ چھری لے کے لوگوں کو ذبح کرتے ہیں۔
عاصمہ شیرازی: اور ادھر کوئی پاور شیرنگ فارمولا اپ کے ساتھ بھی طے ہوتا ہے تو آپ بات کریں گے ؟
مولانا صاحب: میرے پاس کچھ کیا ہے کہ میرے ساتھ پاور شیرنگ ہوگی میرے پاس رکھا کیا ہے انہوں نے
عاصمہ شیرازی: بلوچستان کی حکومت تو ہے آپ کی یعنی وہاں پہ زیادہ سیٹیں تو ہیں وہاں پر
مولانا صاحب: میں وہاں پر جاوں گا وہاں کے جنرل کونسل کے ساتھ خود بات کروں گا بلوچستان کے وہاں کے جو ہمارے ایم پی ایز ہیں اس صورتحال میں بات ہوگی اصولی فیصلہ ہمارا یہی ہے لیکن وہاں جا کر ان کو
عاصمہ شیرازی: لیکن آپ کی مرکزی مجلس عاملہ عمومی مجلس عاملہ سے بات کر رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ پارلیمانی سیاست چھوڑ دیں یہ کیسے ممکن ہے مولانا اگر آپ پارلیمانی سیاست چھوڑ دیں گے
مولانا صاحب: اس پر بات ہو گی اور اب ہمیں چونکہ ہمارے پارٹی کا دستور جو ہے وہ اس کا اختیار عاملہ کو نہیں دیتا وہ جنرل کونسل کو دیتا ہے تو اس لیے انہوں نے سفارش کی ہے جنرل کونسل سے کہ آپ اس پر بھی غور کریں کہ ہم پارلیمانی سیاست کریں آئیندہ کے لیے یا نہ
عاصمہ شیرازی: ابھی آپ نہیں چھوڑیں گے اسمبلیوں میں بیٹھیں گے؟
مولانا صاحب: تحفظات کے ساتھ جا رہے ہیں۔
عاصمہ شیرازی: بات چیت کا کوئی دروازہ نہیں ہے؟
مولانا صاحب: بات چیت میں ہمیں کس چیز پہ بات چیت کریں جی جو جھک ماری ہے اس پہ ہم ٹھیک ہو گیا ہاتھ جوڑ کے بس آپ نے صحیح کیا ہے یہ تو بات ختم ہو گئی اس کو تو ہم نے مسترد کر دیا جی کہ اس پر کوئی بات نہیں ہو سکتی، اب کیا بات کریں گے وہ اس کے علاوہ بات کیا کریں گے ان کے پاس ہے کیا چیز سوائے اس کے کہ جی آپ پانچ ووٹ مجھے دے دیں۔
عاصمہ شیرازی: مولانا اب مطلب ایک شہری کے طور پہ اور آپ کو اتنے عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں اتنی آپ نے خود پارلیمان دیکھی ہے اتنی زیادہ آپ کو نہیں لگتا کہ اگر یہ میک اینڈ بریک والی سچویشن ہے اور آپ کی اس احتجاج کی وجہ سے معاملات اور خراب ہو سکتے ہیں؟
مولانا صاحب: یہ تو ان کو سوچنا چاہیے مجھے نہیں سوچنا اس کے بارے میں، میں اپنا حق استعمال کروں گا احتجاج کا استعمال کروں گا میری پارٹی استعمال کرے گی میرا ورکر استعمال کرے گا میرا کارکن استعمال کرے گا اور اس ملک کی اور اس ملک کی جمہوریت اس ملک کے پارلیمان اس ملک کے جو ہمارے خود مختاری ہے اس کے لیے پھر اب ہم میدان میں آنے کا فیصلہ کر لیا ہے جی
عاصمہ شیرازی: آخری سوال مولانا آپ کو لگتا ہے کہ چیزیں جو ہیں وہ سنبھل سکتی ہیں لیکن اور آگے بڑھا جا سکتا ہے تو کوئی ایک ونڈو آف اپورچونٹی جسے کہتے ہیں وہ بھی آپ دیکھتے ہیں کہ کچھ باتیں
مولانا صاحب: میری طرف سے اس وقت کوئی بات نہیں ہوگی، کوئی بات کرے گا تو سنیں گے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اور کتنا کہنا چاہتے ہیں ان کے پاس بھی کوئی ونڈو نہیں ہے۔
عاصمہ شیرازی: اگر میاں نواز شریف بات کریں یا زرداری صاحب
مولانا صاحب: دیکھیں ان کے پاس ونڈو کیا ہے وہ مجھے کیا کہنا چاہیں گے جی جنہوں نے پنجاب میں گوارا تک نہیں کیا کہ جمیعت علماء اسلام کو وہ الیکشن میں اپنے ساتھ اتحادی رکھ سکیں جی، جنہوں نے گوارا نہیں کیا کہ سندھ میں، ہم تو اپنا الیکشن لڑ رہے تھے وہاں پر اپنے پارٹی کی سیٹ پر، اب جہاں جہاں ہم جیتے ہیں وہاں بھی ہروا دیا یہی ساری صورتحال ہے۔
عاصمہ شیرازی: جی بہت بہت شکریہ تھینک یو سو مچ ناظرین اپ بات سن رہے تھے مولانا فضل الرحمن صاحب نے بہت واضح لفظوں میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور سیاست دان ہیں بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہرحال اپنے تحفظات بھی سامنے رکھ رہے ہیں۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض
ممبرز ٹیم جے یو آئی
#TeamJuiSwat
LIVE Hum News | Interview With Asma Sheraziلائیو: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی اینکر عاصمہ شیرازی سے گفتگو
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, February 14, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں