قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مہر بخاری کے ساتھ خصوصی انٹرویو 14 فروری 2024

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مہر بخاری کے ساتھ خصوصی انٹرویو

14 فروری 2024

مہر بخاری: ہم ابھی موجود ہیں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ جن کی پریس کانفرنس نے دھماکہ خیز پریس کانفرنس نے بالکل سیاسی منظر نامہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے مولانا صاحب کی مجلس عاملہ نے آج بڑا واضح ان کو ایک پیغام دیا موقف دیا وہ لے کر آئے اور اب یہ آفیشلی جو ہے نیکسٹ فورم کے اوپر جائے گا آفیشل فیصلے کرنے کی، بہت بہت شکریہ ساتھ دینے کا۔ مولانا صاحب سخت پریس کانفرنس سخت موقف کیا موڈ تھا کیا سینٹیمنٹس اور جذبات تھے آپ کی مجلس عاملہ میں جو آپ نے یہ پریس کانفرنس کی

مولانا صاحب: ہم نے کوئی عجلت میں نہیں کئیں یہ، الیکشن کے دن الیکشن کی رات الیکشن کا اگلا دن اس سے اگلا دن سارے ملک کی صورتحال مجھ تک پہنچتی رہی ہے اور میں مکمل سکوت اختیار کیے ہوئے تھا، میں نے کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیا، ہر چند کہ مجھ پر دباؤ بھی رہا کہ آپ لوگ کیوں خاموش ہیں کیوں خاموش ہیں لیکن میں نے سوچا کہ نہیں میں اپنی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلاؤں گا تو سب کی جو رائے ہوگی اس کو سامنے رکھ کر پھر ہم اپنا موقف طے کریں گے۔ میں نے اپنی مجلس عاملہ کو اپنے سے زیادہ مشتعل پایا اور اپنے سے زیادہ ناراض پایا اور جو آج ہم نے پریس کانفرنس میں کہا ہے یہی جماعت کا موڈ تھا اور ایک مرحلہ ایسا ہے کہ جہاں ہم اپنے دستور سے آگے نہیں جا سکتے تھے تو وہ جنرل کونسل ہی اس کا فیصلہ کر سکتی ہے مجلس عاملہ نہیں کر سکتی تو اس پر بھی سفارش کردی کہ بھئی وہ بیٹھے کہ ہم کیوں ایکسرسائز کرتے ہیں ہم کیوں گلی کوچوں میں گھومتے ہیں صحراؤں میں گھومتے ہیں زندگی کو خطرے میں ڈال کر گھومتے ہیں اور دشمنیاں پیدا کرتے ہیں مخالفتیں پیدا کرتے ہیں خون پسینہ جو ہے وہ خشک ہو جاتا ہے ہمارا جسم کے اندر اور اس کے باوجود پھر نتائج یہ، اگر ہم نے نتائج انہی سے لینے ہیں تو وہ اسمبلیاں بنائیں، نامزد کرے لوگوں کو اسمبلی میں لائے بٹھائے اسمبلی کے اندر جی

مہر بخاری: آپ کو اختلاف کہاں سے ہے کیونکہ خیبر پختونخواہ میں بھی ایک واضح مینڈیٹ۔۔۔ 

مولانا صاحب: مجھے کوئی کسی ایک صوبے کی بات نہیں کرنی میں مجموعی پاکستان کے الیکشن کو دیکھ رہا ہوں اور مجموعی طور پر پاکستان کا الیکشن نہیں ہے، یہ دوسرے مرتبہ ایک بہت بڑا فراڈ ہے جس کو ہم نے مسترد کر دیا ہے اور ہماری الیکشن کمیشن یرغمال ہے، ایک نتیجہ وہ اپنے اختیار سے دینے کے قابل نہیں ہے پھر وہ بیان بھی دیتا ہے کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں، ہم نے اس کو مسترد کر دیا جی، اب یہ ہے کہ کیا ہم الیکشن پھر لڑیں یا ہم ایک جمہوری جدوجہد کو روڈوں پہ لائیں تحریکات کی صورت میں لائیں موومنٹ شروع کریں ہم ملک کے اندر اور پبلک کو کہے کہ آپ کیوں خوار ہو رہے ہیں اور ہمیں کیوں خوار کر رہے ہیں

مہر بخاری: یہ حکومت تو چلیگی ہی نہیں پھر دو دن اگر آپ سڑکوں پہ آگئے 

مولانا صاحب: خدا کرے نہ چلے ہم نہیں چاہتے کہ ایسے حکومتیں ملک کے اندر جو عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں ہے دوستی اپنی جگہ پر تعلقات احترام پر لیکن جو ملک ہے اور اس ملک کا جو تقاضہ ہے اگر یہاں جمہوریت ہے اگر یہاں جمہوریت کا کوئی احترام ہے کوئی اس کا تقاضا ہے پوری دنیا میں اس کا کوئی تقاضا ہے تو اس کے مطابق ہونا چاہیے نا یہ تو نہیں کہ جس طرح چاہیں پیچھے بیٹھ کر جناب وہ لوگوں سے رشوتیں بھی لیں اور لوگوں کو دوست دھوکے بھی دیں 

مہر بخاری: وہ تو مولانا صاحب ابھی اتنے سخت ہمیں چیلنجز کا سامنا ہے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے ایک بار پھر 

مولانا صاحب: مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے مجھے آئی ایم ایف کے ساتھ جانا ہے قومی نمائندگی کے ساتھ جانا ہے نامزدگی کے ساتھ نہیں جانا میں نے پاکستان کا نمائندہ بن کر جانا ہے اگر میں پاکستان کا نمائندہ نہیں جائے بھاڑ میں اپنا جو جو کرے آئی ایم ایف کرتا رہے ہمارا تو کچومر نکال دیا باہر کی اداروں نے اور اب آپ کی اس الیکشن پر بین الاقوامی برادری مطمئن نہیں ہے عالمی قوتیں بھی آپ کو کہہ رہی ہے کہ آپ کا الیکشن نہیں ہوا یہ جو آپ کے ملک کے اندر جو ادارے

مہر بخاری: آپ کو یہ حکومت اسی طرز کی ابھی جو کل شجاعت صاحب کے گھر کے اوپر بیٹھک لگی آپ کو بھی دعوت دی گئی تھی اس بیٹھک کے لیے؟

مولانا صاحب: نہیں

مہر بخاری: نہیں بلایا تھا آپ کو، وہ تو شہباز شریف صاحب نے کہا ہم سب کو ملا لیں تو دو تہائی اکثریت بنتی ہے ہاؤس کی ہم سب اتنے تگڑے ہیں سب مل کے اگر ہم لوگ یہ حکومت بنا لیں

مولانا صاحب: دو تہائی اکثریت نہیں میں تو سوچتا ہوں ہمارے صوبے میں اگر کچھ سیٹیں رہ گئی ہیں جو ہم جیت رہے ہیں وہاں پر بھی پی ٹی آئی کے لوگ مظاہرے کر رہے ہیں سڑکیں بند کر رہے ہیں کہ دو چار سیٹیں کیوں رہ گئی وہ بھی ہمیں ملنی چاہیے تھی، تو پھر پورا صبح سندھ کا ان کو دے دیا تو پورا صوبہ کے پی ان کو دے دیں پورا صوبہ جو ہے پنجاب کا ان کو دیدیں ختم ہو جاتی ہے بات

مہر بخاری : تو آپ کو نہیں لگتا کہ اس بار واقعی عوام نکلی ہے اور اپنی آواز سنوائی ہے

مولانا صاحب: ہم اگر عوام میں گھومے ہیں پھرے ہیں مجھے آپ بتائیں میں کیوں اپنے ایک اپنے حلقے میں نہیں گھوم سکا ہوں

مہر بخاری : آپ کو ڈائریکٹ تھریٹس تھی تین بار آپ پہ حملوں کی کوشش کی گئی

مولانا صاحب: میرے بھائی گئے ہیں میرے بیٹے گئے ہیں انہوں نے کمپین چلائی ہیں پارٹی کے عہدے دار گئے ہیں کوشش کی ہے انہوں نے جہاں تک جا سکے ہیں اب آپ مجھے بتائیں کہ میرے ایک حلقے میں جو ٹانک کا ہے اس میں کتنے دیہات ہیں کہ جہاں پر پولیس پہنچ گئی اور الیکشن کی ڈیوٹی سنبھالنے کے لیے اور 10 منٹ کے اندر اغوا ہو گئی اور پھر انہوں نے جناب ان کو جس انداز سے رہا کیا ہے اس طرح ان کے تذلیل جس طرح اس کے چہرے بتا رہے تھے کہ کس حقارت کے ساتھ وہ ان کے سامنے باتیں کرتے تھے یہی تو ہمارے پولیس کی حالت تھی

مہر بخاری: مولانا صاحب 2018 کے جو چیلنجز تھے نا اس سے بھی بڑھ کے ہمالیہ چیلنجز کا سامنا ہمیں ابھی ہے آپ اقتصادی ہمارا سسٹم کا ڈھانچہ دیکھ لیجئے پولیٹیکل دیکھ لیجیے تو وہ معاشرتی اعتبار سے سوشل فیبرک ہمارا دیکھ لیجیے آپ نے 2018 میں آپ کو قائل کر لیا گیا تھا کہ اسمبلیوں میں بیٹھو اور آپ قائل ہو گئے تھے کہ چلو ان سے آپ نے پہلے شروع میں یہی کہا تھا کہ ہم نہیں قبول کرتے مگر آپ کو قائل کیا گیا اس بار آپ سے زرداری صاحب نے رابطہ کیا؟

مولانا صاحب: نہیں کسی بھی رابطہ نہیں کیا ہے ہم نے آج خود میٹنگ کی ہے اور اپنی میٹنگ کے اندر ہم سب نے اس بات پہ اتفاق کیا کہ ہمیں اسمبلی میں جانا تو چاہیے کیونکہ اب لوگوں نے ہمیں جب کئی منتخب کر ہی لیا ہے تو پھر ان کا احترام کرتے ہوئے ہمیں لیکن تحفظات کے ساتھ

مہر بخاری: تو پیرلل آپ سیمنٹینئیسلی تحریک بھی نکال رہے ہوں گے پورے ملک میں

مولانا صاحب: ہاں نکالینگے پورے ملک میں

مہر بخاری: اور وہ کس نوعیت کی ہوں گی؟

مولانا صاحب: وہ پھر اس کا جو موڈیلیٹیز ہوں گی وہ ہماری جنرل کونسل ہی طے کرے گی کیونکہ ان سے ہم نے سفارش کی ہے کہ آپ بتائیں کہ ہم کیا کریں اگر انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ مستعفی ہو جائیں اسمبلیوں سے تو ہم مستعفی ہو جائیں گے اسمبلیوں سے

مہر بخاری: یہ بھی خارج الامکان نہیں ہے کہ چار سیٹوں والی سیاست نہیں کرنی

مولانا صاحب: خارج الامکان نہیں ہے جی اگر انہوں نے کہا کہ پارلیمانی سیاست نہیں کرنی چھوڑ دو تو ہم چھوڑ دینگے جی

مہر بخاری: اس کا کیا مطلب ہے ویسے آپ زیرک سیاست دان ہیں آپ کا پارلیمانی سیاست کرنا

مولانا صاحب: نہیں میں زیرک سیاستدان نہیں ہوں، زیرک سیاستدان میں ہوتا تو میں پھر زرداری صاحب کی طرح میں زیرک نہیں ہوں میرے پاس پیسہ نہیں ہے میں اس طرح کا نہ امریکہ کا ایجنٹ بننے کو تیار ہوں جب میں یہ سیاست نہیں کر سکتا تو مجھے پارلیمنٹ میں کیوں آنا چاہیے

مہر بخاری: میاں صاحب نے کیسی سیاست کی ہے پچھلی ان ڈیڑھ سالوں میں؟

مولانا صاحب: مجھے نہیں معلوم میرے ساتھ کوئی رابطہ فون کر رہی ہے میں نے تو ان کو صرف ایک دفعہ دیکھا ہے جو تشریف لائے۔

مہر بخاری: تو شہباز صاحب نے آپ سے رابطہ کیا میاں صاحب نے بھی نہیں رابطہ کیا ابھی تک مگر ان کی طرز سیاست جب سے وہ واپس آئے ہیں آپ اس سے متفق ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیں میں کسی کی طرز سیاست پر تبصرے نہیں کیا کرتا ہر پارٹی کے اپنی سیاست ہے اپنے فیصلے ہے ان کا اپنا ڈیکورم ہے ان کے اندر بیٹھ کر طے کرتے ہیں لیکن جس پارٹی کو ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ ہماری ایک بیسک الائنس کے طور پر ہم الیکشن لڑیں گے انہوں نے ہمیں حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا، ایک سیٹ دینے کو تیار نہیں ہے کہتے ہیں آپ کو تو پنجاب میں حیثیت ہی نہیں ہے آپ ہماری سیٹوں پہ لڑیں نا، شیر کے نشان پہ لڑو، یعنی اس قسم کی تحقیر آمیز جو ان کا رویہ الیکشن کے دوران رہا ہے اب ہم بڑے عزت والے ہو گئے ہیں اب ہمیں رابطے بھی کر رہے ہیں میں نے کہا نہیں پارلیمان میں ہم پارلیمانی قوت کے ساتھ بات کریں گے اگر میری جتنی پارلیمانی قوت ہے تو میں اس کے مطابق آپ کے ساتھ بیٹھوں گا اگر میری قوت نہیں ہے تو میں کس خوشی میں آپ کے ساتھ بیٹھوں۔

مہر بخاری: اور آپ کو اگر دیکھیں ایسی صورتحال میں اگر یہ حکومت بناتے ہیں جدھر پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ہم منسٹریز نہیں لیں گے کابینہ میں نہیں بیٹھیں گے مگر پرائم منسٹر کے لیے ووٹ ضرور کر دیں گے اور پھر آئینی عہدے ہمیں چاہیے سپیکر شپ سینٹ اور آپ کا صدارت منسٹری، مگر وہ کہتے ہیں نا کانسٹیٹیوشنل جدھر آپ کا

مولانا صاحب: کیا وہ کانسٹیٹیوشنل نہیں ہے اور وہ جو دوسرے ہیں ایگزیکٹیو شاید نہ ہو اور پھر اپنے اپنے ماحول

مہر بخاری: اگر کسی بہترین سٹریٹجی آپ کے نزدیک کہ 54 سیٹوں کے ساتھ جو بھی حکومت نون لیگ بنانے جائیں کانسٹنٹلی پیپلز پارٹی کی طرف دیکھتی رہے گی کہ کبھی قالین کھینچا یا

مولانا صاحب: اسی لیے میں نے آج مسلم لیگ کو دعوت دی ہے کہ ہمارے ساتھ بیٹھو۔

مہر بخاری: آپ کو پتہ ہے وہ یہ دعوت نہیں قبول کریں گے۔

مولانا صاحب: خیر نہیں کرے لیکن ہم نے تو اپنا حق ادا کر دیا۔

مہر بخاری: آپ تو دوستی ہم پی ٹی آئی سے بھی کرنا چاہ رہے ہیں کہ آپ کا بڑا نرمی دکھائی دی لب و لہجے میں سر یہ کیا تھا؟

مولانا صاحب: یہ تو ایک سوال ہوا یہ میرے بیان کا حصہ نہیں ہے یہ ایک صحافی کے سوال کا حصہ ہے اس میں فرق کرنا چاہیے میں سٹیٹمنٹ کیا دے رہا ہوں اس کو الگ دیکھنا چاہیے کوئی صحافی سوال کر لیتا ہے تو اس کو الگ دیکھنا چاہیے آپ وہاں بیٹھیں گے تو میں نے کہا جی میرا ان کے جسموں سے کوئی دشمنی نہیں ہے دماغوں سے مجھے مسئلہ ہے۔

مہر بخاری: کیا آپ اور خان صاحب مل کے آپ اپوزیشن بنا سکتے ہیں، قائد حزب اختلاف انہی کا ہو گا؟

مولانا صاحب: اگر ہم کسی ایک نظریے پہ متفق ہو جاتے ہیں تو کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں ہے یہ لیکن جس ایجنڈے پر ہمیں اعتراض ہے کیا وہ ہمیں مطمئن کر سکیں گے یہ اپنی جگہ پر سوال کھڑا ہے جی اگر ایسا نہیں ہے کہ میں نے کوئی بیان ایسا نہیں دیا اور وہ آپ لوگ سوال کرتے ہیں اس وقت آپ کو فوراً کوئی جواب دینا پڑتا ہے وہ کوئی پالیسی کا حصہ نہیں ہوتا ممکن ہے کل ہم مجھے کوئی پارٹی کہہ دے کہ بھئی آپ کا بیان صحیح نہیں ہے اب جو میں نے کانفرنس کی ہے تو مجھے پارٹی نہیں کر سکتی کیونکہ ہم نے دو دن بیٹھ کر ان کو طے کیا لیکن ایک سوال پر مجھے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا یہ بیان ٹھیک نہیں تھا۔

مہر بخاری: 2018 میں ایک لاڈلا کہتے تھے آج لاڈلے ہیں؟

مولانا صاحب: میں نے کبھی لاڈلے کا لفظ استعمال نہیں کیا اس اصطلاحات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔

جو آپ لوگ صحافی جو شروع کر دیتے ہیں نا جی یہ غیر سنجیدہ سیاست ہے۔

مہر بخاری: آپ کہہ رہے ہیں کہ جنرل کونسل کی آپ کی میٹنگ ہوگی اس میں حتمی فیصلے ہوں گے کیوں کہ یہ سفارشات سامنے آئی ہیں اور اس کے اندر آپ کی یہ ہو سکتا ہے آپ ان سیٹوں سے بھی دستبردار ہو جائیں اور استعفے دے دے اگر انہوں نے کہہ دیا اور اگر نہ کہا تو آپ اندر بھی بیٹھیں گے اپوزیشن میں اور باہر آپ لوگ احتجاج بھی کریں گے؟

مولانا صاحب: وہ جو بھی سٹریٹجی بنے گی اس میں تو آٹھ نو سو لوگ ہوتے ہیں۔

مہر بخاری: مگر اس کا ہدف کیا ہوگا اس احتجاج کا کلمینیشن کیا ہوگی کہ الیکشن پھر کرایا جائے؟

مولانا صاحب: ایک دفعہ ہم نے پارلیمنٹ چھوڑ دیا تو پھر تو الیکشن گئے نا ہمارے جی، تو ہم ساری زندگی میدان تحریک کی طرف جائیں گے۔

مہر بخاری: نہیں اللہ نہ کرے سر ایسا اللہ نہ کرے۔

مولانا صاحب: اس طرح تو ہوگا پھر یا سرنڈر کریں یا کہیں کہ ہم جمہوریت کے سامنے سرنڈر ہوتے ہیں عوام کے سامنے سرنڈر ہوتے ہیں۔

مہر بخاری: ابھی آج چیف الیکشن کمشنر کے ریزگنیشن کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں؟

مولانا صاحب: نہیں میں نے کہا کہ وہ ذمہ دار ہے اور یرغمال ہے اور ان کے بیان کو میں نے مسترد کیا ہے جو اس نے کہا کہ شفاف ہوا ہے۔

مہر بخاری: تو اس کو استعفی دینا چاہیے آپ کی نظر میں اگر آپ نے اتنی بڑی چارج شیٹ لگائی ہے؟

مولانا صاحب: میرے خیال میں اگر اس میں کوئی احساس ہے تو ان کو حقائق تسلیم کر لینے چاہیے اور کوئی ضمیر ہے اور محسوس کرتے ہیں کہ واقعی ہمارے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں تھا میرے پاس شواہد ہیں۔

مہر بخاری: وہ تو کہتے ہیں اکا دکا مسائل ہوئے ہیں۔

مولانا صاحب: پچھلے الیکشن اور اس الیکشن کے میرے پاس شواہد ہیں ایک نتیجہ الیکشن کمیشن نے نہیں دیا ایک نتیجہ بھی، آر او سے بیٹھ کر بنوائی ہے۔

مہر بخاری: ابھی تو گورنمنٹ فارمیشن ہے نا آپ کا آپ کا تجربہ کیا ہے؟

مولانا صاحب: مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس سے، فارمیشن گورنمنٹ سے کوئی دلچسپی نہیں۔

مہر بخاری: اگر زرداری صاحب

مولانا صاحب: کوئی دلچسپی مجھے نہیں ہے زرداری صاحب پر بھی واضح ہو نواز شریف پر بھی واضح ہو کہ فارمیشن آف دی گورنمنٹ یہ کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

مہر بخاری: آپ کو اگر ایوان صدر کی بھی آفر دی جائے۔

مولانا صاحب: کچھ بھی ہو جائے میں اس کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔

مہر بخاری: اس حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے نو میٹر وٹ اور آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے یہ حکومت ہمارے مسائل کو حل کر پائے گی؟

مولانا صاحب: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

مہر بخاری: کتنی دیر چل لے گی؟

مولانا صاحب: خواہش اقتدار ہے پوری کر لے ٹھیک ہے۔

مہر بخاری: کتنی دیر چل لے گی؟

مولانا صاحب: اللہ جانتا ہے وہ سب ہم مل کے بھی نہیں جانتے

مہر بخاری: اور مولانا صاحب جب تک یہ عملی جامہ اور ایک ڈائریکشن آپ کی جنرل کونسل نہیں دیتی یہ جو تحریک آپ نکالیں گے یہ دھرنوں کی صورت ہو گا اسمبلیوں کے باہر بیٹھیں گے الیکشن کمیشن کے باہر بیٹھیں گی؟

مولانا صاحب: کوئی بات میں آپ سے اس بارے میں نہ کرنا چاہتا ہوں۔

مہر بخاری: سر تین تین سال آپ لوگوں نے اپنی سٹرینتھ بتائی ہے۔

مولانا صاحب: میں یہ تو کہہ رہا ہوں لیکن ہم نے فوراً نہیں شروع کیا پورے حکمت کے ساتھ شروع کیا تدریج کے ساتھ شروع کیا وقت کے ساتھ شروع کیا آج میں فوراً آپ کے سامنے کہہ دوں میں نے یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے میری پارٹی کا فیصلہ ہوگا، میں جماعت کو چلا رہا ہوں میں ایک آدمی تنہا نہیں ہوں۔

مہر بخاری: بڑا سخت فیصلہ ہے یہ سر پارلیمانی سیاست

مولانا صاحب: ہمیں مجبوراً کرنے پڑے ہیں جی مجھ جیسا معتدل آدمی مجھ جیسا سب کے ساتھ چلنے والا آدمی سب کو اکٹھے ساتھ چلانے والا آدمی ان کو آپ نے اتنا ناراض کر دیا اتنا مایوس کر دیا ہے کہ وہ اب اس پورے سسٹم کو خیر باد کہہ رہا ہے اس کے لیے تیار ہو گیا ہے ان کو سوچنا چاہیے اب مجھے نہیں سوچنا اب اس کے بعد میں آخری حد تک سوچ چکا ہوں اب انہی کو سوچنا ہے۔

مہر بخاری: اللہ خیر کرے ہم کو امید یہی ہے کہ آپ پارلیمانی سیاست کا حصہ بھی رہیں اور اپنا پرسہ بھی ڈالیں اس کے مسائل کے تدارک کا اور حل کی طرف بیکاز ملک اس کا مطالبہ

مولانا صاحب: ہمارے خلوص کا مذاق اڑایا گیا ہمارے حب الوطنی کا مذاق اڑایا گیا ہے ہماری جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کا مذاق اڑایا ہے انہوں نے، ہم ان کی مذاق کے لیے پیدا ہوئے ہیں ایسا نہیں ہے اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہم لوگ، سیدھے ہو جائیں نہیں سیدھے ہوں گے تو پھر میدان میں فیصلے ہوں گے۔

مہر بخاری: میدان سے کیا مراد ہے؟

مولانا صاحب: میدان جب جمے گے تو پتہ چلے گا جمے گا تو پتہ چلے گا ایسا نہیں ہے کہ ہم نے کوئی ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں اور میں ریکارڈ پہ کہہ رہا ہوں آپ کے سامنے اور یہ ریکارڈ ہو رہی ہے اور آپ نے وائرل کرنی ہے خبردار اس میں کوئی آپ نے وہ کیا وہ کٹ کیا تو، پوری ذمہ داری کے ساتھ بات کر رہا ہوں میں نے ساری زندگی داڑھی سفید کر لی ہے کالی داڑھی کے ساتھ آیا تھا ایک سفید نہیں تھا میری داڑھی میں اور اب ایک کالا نظر نہیں آرہا ہوگا، 27 سال کا تھا 72 سال کا ہو گیا ہوں ہندسے تبدیل ہو گئے۔

مہر بخاری: مگر کبھی پارلیمانی سیاست ترک کرنے کا سوچا اس پورے سفر میں؟

مولانا صاحب: سن 1997 میں میں سوچا تھا ایسا نہیں ہے کہ ہم ان چیزوں کو سوچتے نہیں ہیں پارلیمان ہماری جمہوریت جو ہے وہ ہماری ترجیح نہیں ہے ترجیح تب ہے جب وہ آئین کے تابع ہوگی جب وہ عوام کو خواہشات کے تابع ہوگی ورنہ پھر تو ڈھکوسلہ ہے۔

مہر بخاری: آپ نے پی ڈی ایم میں جو اصول سیٹ کیے تھے بحیثیت سربراہ پی ڈی ایم، آج ان اصولوں پہ وہ جماعتیں گامزن ہیں؟

مولانا صاحب: نہیں جی ختم ہو گئے وہ نہیں چلے۔

مہر بخاری: کیا کیا سوچا ہے جو آپ کو سپسپکلی نظر آتا ہے آج کیونکہ پرانی بات تو نہیں ہے میثاق جمہوریت تو نہیں ہے جس کو ایک دہائی گزر گئی ہو اس سے زیادہ گزر گئے تو کل کی بات ہے۔

مولانا صاحب: نہ کوئی میثاق جمہوریت ہے یہ کوئی میثاق معیشت ہے نہ اس میں کوئی منصوبہ بندی ہے ملک کے اندر کچھ بھی تو نہیں ہے بس جس طرح وہ چاہیں گے اس طرح وہ چلیں گے ۔

مہر بخاری: مگر کل بات کی ہے شہباز شریف صاحب نے کہ ایک چارٹر آف ری کینسلیشن کی ضرورت ہے۔

مولانا صاحب: تو وہ جو لوگ کروائیں گے تو ہوگا نا جی وہ کروائیں گے تو کریں گے نا

مہر بخاری: شہباز شریف صاحب ایک مضبوط وزیراعظم بنتے دکھتے ہیں آپ کو؟

مولانا صاحب: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مضبوط تو ہم نے ان کو کرنے کی کوشش کی اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکا ہم پر سارا نزلہ گر گیا اس کا، لوگ ہمیں کہتے ہیں جی آپ جو مہنگائی ختم نہیں کی آپ نے معیشت جو ہے وہ ٹھیک نہیں کی تو اس لیے لوگوں نے آپ کے خلاف فیصلہ دے دیا یہ فیصلہ پنجاب میں دیتے نا ان کے خلاف، حکومت تو وہ چلا رہا تھا پھر پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر تو اس کے خلاف فیصلہ ہوتا، یہ صرف ہم ہی نشانہ بن گئے اس چیز کے

مہر بخاری: بہت بہت شکریہ آپ کا مولانا صاحب


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

تصحیح: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز

ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat


LIVE | ARY News | Interview With Meher Bokhari

لائیو: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی اینکر مہر بخاری سے گفتگو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, February 14, 2024


0/Post a Comment/Comments