قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی سماء ٹی وی کے اینکر ندیم ملک سے خصوصی گفتگو
15 فروری 2024
ندیم ملک: پاکستانی سیاست کیا رخ اختیار کریں گی پارلیمان کی جو صورتحال ہے گھنگ پارلیمنٹ ہے جس کے اندر کوئی سیاسی جماعت بھی بظاہر یہی تاثر ملتا ہے کہ دوسرے کے ساتھ کمفیٹیبل نہیں ہے اور جو رگنگ کہ ایلیگیشن ہے وہ سنگین نوعیت کے ہے صرف پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نہیں ہے باقی ساری سیاسی جماعتیں بھی یہی سوال اٹھا رہی ہیں کہ انتخابات کے اندر آر اوز نے فارم 47 کے ذریعے نتائج کو تبدیل کیا اب اس کا فیصلہ تو بڑا مشکل ہے کسی ایک کے لیے کرنا جب تک کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالتیں جو ہیں اس کے اوپر ایک واضح پوزیشن اختیار نہ کر لیں لیکن مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کی ایک ایسی شخصیت ہے کہ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں جو سیاسی اتحاد بنے یا پولیٹیکل موو بنی ان میں ان کا کردار بہت کلیدی رہا، پی ڈی ایم بنانے کے اندر بھی روح رواں یہ تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو اکٹھا کیا انہوں نے ایک بہت ہی پاور فل پولیٹیکل پوزیشن اختیار کی ہے تو آج کے اس خصوصی پروگرام میں ہم انہی سے جانیں گے کہ انتخابات میں کیا ہوا اور آئندہ پاکستان کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی مولانا فضل الرحمن صاحب جے یو آئی کے سربراہ بہت شکریہ آج کے پروگرام میں آپ ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں پہلے تو یہ بتا دیجیے کہ انتخابات میں ہوا کیا ہے ؟
مولانا صاحب: ندیم ملک صاحب آپ کا بہت شکریہ جی اپ نے وقت بھی نکالا ہے اور الیکشن میں جو کچھ ہوا ہے میرا خیال میں کسی سے بھی یہ پوشیدہ نہیں ہوتا لیکن یہ چوری اور یہ ایسا عمل ہوتا ہے کہ جس کے اوپر گواہ پیش کرنا شواہد پیش کرنا بڑا دشوار ہوتا ہے ہر چند جانتے ہوئے کہ یہ کچھ ہوا ہے۔
ندیم ملک: آپ کے خیال میں الیکشن چوری ہوا ہے ؟
مولانا صاحب: سارا چوری ہوا ہے سارا چوری ہوا ہے میں تو حضرت پورے ملک پہ نظر رکھتا ہوں سب لوگ میرے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں میرے امیدوار میرے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں حضرت میڈیا پہ نہ کہنے والے کہانیاں ہیں نہ کہنے والے کہانیاں ہیں کہ کس طریقے سے اور کل میں نے پریس کانفرنس پہ پھر کہنی بھی پڑ گئی کچھ باتیں، لیکن ہم نے باقاعدہ طور پر اس کو مسترد کر دیا ہے اور ہم اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
ندیم ملک: تحریک کیا کریں گے احتجاجی تحریک روڈ گرمائیں گے روڈ کو گرم کریں گے ؟
مولانا صاحب: روڈ کو گرم کریں گے۔ تو اب فیصلہ ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔
ندیم ملک: میدان میں ہوں گے تو پھر تو آپ وہ والی صورتحال کی طرف دیکھ رہے ہیں جو 2014 میں دھرنے کے دنوں میں ہم نے یہاں دیکھی تھی یا مولانا ایک دھرنا لے کر آئے تھے اس طرح کی صورتحال کی طرف آپ لے جانا چاہتے ہیں ؟
مولانا صاحب: ہم اس میں بھی دوسروں سے ذرا مختلف ہے جو میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قریب قریب وہی مینڈیٹ جو 2018 میں مسلم لیگ کو ملا تھا اب ذرا کچھ آٹھ سال سے زیادہ ہوں گے اس سے زیادہ نہیں ہے پیپل پارٹی کو جو مینڈیٹ اس وقت ملا تھا اس کے کچھ قریب قریب مینڈیٹ اِس وقت ملا ہے اُس وقت پنجاب میں مسلم لیگ نون لارجسٹ پارٹی تھی پیپلز پارٹی جو ہے وہ صوبہ سندھ میں لارجسٹ پارٹی تھی اور دونوں اس بات پر متفق کے دھاندلی ہوئی ہے دوسری طرف دیکھیں تو پی ٹی آئی تقریباً اسی مینڈیٹ قریب قریب کے مینڈیٹ کے ساتھ دوبارہ آئی اس وقت ان کو اقتدار مل رہا تھا تو دھاندلی کا الزام لگانا جرم تھا اب جب ان کو اقتدار نہیں مل رہا ہے تو اب ان کے نزدیک بھی دھاندلی ہے ہم ہیں کہ اکیلے اس موقف پہ قائم ہیں کہ نہیں اس وقت بھی دھاندلی تھی اور اب بھی دھاندلی ہے ہمارے مینڈیٹ تو اس وقت بھی حکومت بنانے کا نہیں تھا ۔
ندیم ملک: اس دھاندلی کا فائدہ کس کو ہوا ہے کوئی ایک پارٹی تو بینفیشری ہو گی ؟
مولانا صاحب: میں گزارش کروں آپ سے جہاں تک فائدے کے نقصان کا تعلق ہے فائدے میں آپ اس کو دیکھتے ہیں جو کرسی پہ بیٹھتا ہے پاکستان میں کرسی پر بیٹھنے والا حکمران نہیں ہوا کرتا ملک کی جو داخلی اسٹیبلشمنٹ ہیں اس کی بھی ایجنڈے ہوتے ہیں اپنے جو قوم کے سامنے نہیں رکھتے اور آنے والے وقت میں وہ کس سے وہ ایجنڈا پورا کروانا چاہتے ہیں یہ الگ بحث ہے اور پاکستان کے پوری تاریخ کو دیکھتے ہیں اور عالمی قوتیں جو ہیں وہ بھی اس طرح ہمارے جیسے کمزور معیشت والے ممالک ترقی پذیر ممالک وہ بھی بالکل آخری کنارے پر لگا ہوا ترقی پذیر ان کو بھی وہ اپنے پالیسیوں کے لیے بطور ٹول کے استعمال کرتے کہاں استعمال کر سکتے ہیں کس کو استعمال کر سکتے ہیں کیا فوائد ہو سکتے ہیں یہ ساری چیزیں حضرت وہ اس طرح نہیں ہوتی کہ میں کرسی پر بیٹھا ہوں تو پھر میں بینیفیشری ہوں ۔
ندیم ملک: آپ کے خیال میں اس دھاندلی کا فائدہ نون لیگ کو ہوا ہے ؟
مولانا صاحب: اب بظاہر تو فائدہ ان کو ہوا لیکن جیسے میں نے کہا کہ اتنا ہی مینڈیٹ پچھلی دفعہ تھا یعنی حلف اٹھانے کی دلیل یہی تھی نا ان کی کہ پنجاب میں میں حکومت بنا رہا ہوں ۔
ندیم ملک: لاہور والی ان کی سیٹ کے متعلق آپ کیا کہیں گے ؟
مولانا صاحب: یہ افواہ یہی ہے کہ ان کو دی گئی ہے ۔
ندیم ملک: تو اگر دی گئی سیٹ ہو تو کیا ان کو لینی چاہیے یا تو بڑا پن دکھانا چاہیے کہنا کہ ایسی سیٹ نہیں چاہیے ؟
مولانا صاحب: یہ فیصلہ تو انہوں نے کرنا ہے شاید یہ جو حکومت وہ نہیں لے رہے یہ بھی شائد اسی وجہ سے ہو ۔
ندیم ملک: خود نہیں لی اور بھائی کو دے دی اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے ؟
مولانا صاحب: یہ امکان ہے ۔
ندیم ملک: آپ پی ڈی ایم کے روح رواں تھے آپ نے اکھٹا کیا تھا اس کا آپ اکٹھا کرنے والے تھے پیپلز پارٹی، اب کیا ہوا ؟
مولانا صاحب: دیکھیے پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں تھا پی ڈی ایم حکومتی اتحاد بھی نہیں تھا کیونکہ حکومت میں پیپلز پارٹی بھی تھی کہ جو پی ڈی ایم سے نکل چکی تھی حکومت میں اے این پی بھی تھی کہ جو پی ڈی ایم سے نکل چکے تھے حکومت میں ایم کیو ایم بھی تھا حکومت میں باپ اور وہ تو پی ڈی ایم میں ایسے ہی نہیں تھے تو یہ حکومتی اتحاد بھی نہیں تھا اور انتخابی اتحاد بھی نہیں تھا یہ صرف تحریک کے لیے منیمم پوائنٹ کے اوپر ہم چل رہے تھے اور کچھ ہمارے اختلافات کے باوجود ہم اکٹھے چل رہے تھے کیونکہ جو سٹریٹجی تھی جو حکمت عملی تھی جس طرح تیار کی گئی اس سٹریٹجی سے ہمیں اس وقت اتفاق نہیں تھا اور ہمارے تمام دوست جانتے ہیں وہ ایسا نہیں کہ میں کوئی آج ایسی بات آپ سے کہہ رہا ہوں کہ جو صرف میری زبان پہ آئی ہے اور باقی لوگوں کو ان کا علم نہیں ہے ہمارا تمام اکابرین جتنے بھی سیاسی جماعتوں کے ان اجلاسوں میں بیٹھتے تھے کہ میں عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا یہ دیکھیں میرے دوستوں کے لیے کہ وحدت نہ ٹوٹے اور پھر اس موقف کی اور رائے کی قربانی دی تھی۔
ندیم ملک: اور آپ چاہتے تھے عدم اعتماد نہ کیا جائے ؟
مولانا صاحب: جی میں چاہتا تھا کہ تحریک کے قوت سے ان کو ہٹایا جائے۔
ندیم ملک:اور عدم اعتماد کون کرنا چاہتا تھا ؟
مولانا صاحب: عدم اعتماد کی تحریک پیپلز پارٹی چلا رہی تھی اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے میں اگر آپ کو صرف ان کی بات کہہ دوں کہ میرے پاس خود جنرل فیض حمید صاحب آئے تھے اور انہوں نے مجھے کہا تھا کہ ود اِن دی سسٹم آپ جو کرنا چاہیں ہمیں اس پہ اعتراض نہیں ہوگا لیکن آؤٹ آف دی سسٹم نہیں ۔
ندیم ملک: تو پھر ود ان سسٹم سے مراد تو پھر نو کانفیڈنٹ اسمبلیوں کے اندر
مولانا صاحب: میں نے انکار کر دیا تھا اور پھر اس کے بعد جب یہ ٹوٹ ٹوٹ کر آئے پی ٹی آئی کے لوگ بھی اور پھر اس کے بعد یہ ایم کیو ایم بی اور یہ باپ بھی تو اس کے بعد انہوں نے کہا جی کہ اب ہمارے پاس اکثریت ہے۔
ندیم ملک: کیا اس وقت بھی جنرل باجوا یا جنرل فیض آپ سے رابطے میں تھے ؟
مولانا صاحب: میری بات پوری سن لے جی، اب اس وقت اگر میں پھر انکار کرتا تو کہتے کہ فضل الرحمن نے عمران خان کو بچا لیا تو وہ یہ وہ چیزیں تھیں کہ میں صرف اس لیے آپ کے سامنے ذکر کرنا چاہتا ہوں تاریخ کے اوراق پر حقائق تو کسی وقت آئے نا
ندیم ملک: کیا اس وقت جنرل باجوا جنرل فیض آپ سے رابطے میں تھے جب یہ لوگ ٹوٹ کے پی ٹی آئی سے اور ایم کے ایم اور باپ پارٹی سے ائے ؟
مولانا صاحب: حضرت وہ بالکل رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سب کو بلایا گیا اور سب کے سامنے ان سے کہا گیا کہ آپ نے یہ اس طرح اور اس طرح کرنا ہے۔
ندیم ملک: سب کون تھے ؟
مولانا صاحب: سب پارٹیاں
ندیم ملک: نون لیگ اور پیپلز پارٹی
مولانا صاحب: سب پارٹیاں ان کا نام مت لیں آپ
ندیم ملک: اور ان کو کس نے کہا کہ یہ کرنا ہے ؟
مولانا صاحب: باجوہ صاحب اور فیض حمید صاحب دونوں تھے۔
ندیم ملک: کیا کہا انہوں نے ؟
مولانا صاحب: یہی کہا کہ آپ لوگوں نے کیا کرنا ہے کس طرح چلنا ہے ۔
ندیم ملک: نو کانفیڈنس کے حوالے سے دونوں نے اور سب نے اس کے اوپر ہاں میں ہاں بھری پھر تو یہ کہنا چاہیے کہ موو جو تھی وہ ادھر سے تھی تو نون لیگ کا پیپلز پارٹی نے صرف مہر لگا دی ۔
مولانا صاحب: آپ واقعی صحیح صحافی ہے آپ نے بات نکالی دی ہم سے
ندیم ملک: تو پھر مہر لگا دی نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اوپر سے مہر لگا دی ؟
مولانا صاحب: مہر لگا دی
ندیم ملک: تو پھر تو ان کو مزہ پی ڈی ایم کو جو کچھ پھر مشکلات پیش آئیں ہیں جو اکونومک ڈفیکلٹیز پیش آئی ہیں پھر تو پی ایم ایل ن ڈیزرو کرتی ہے کہ ان کو جو کچھ ہوا ہے ؟
مولانا صاحب: اکونومک جو ڈفیکلٹیز آئی ہے تو یہی کہا جا رہا ہے بطور دلیل کے کہ جو شہباز شریف صاحب کی حکومت تھی وہ ڈیڑھ سال میں ڈیلیور نہیں کر سکی اور مہنگائی کم نہیں کر سکی بڑھتی چلی گئی ڈالر کی قیمت جو ہے۔
ندیم ملک: یہ تو ریالٹی ہے سر آپ کو ایسا نہیں لگتا ؟
مولانا صاحب: لیکن میرا جو مقدمہ ہے وہ یہ ہے کہ پھر اس کا اثر تو پنجاب میں ہونا چاہیے تھا پھر اس کا اثر تو سندھ میں ہونا چاہیے تھا اسے کے پی کے اندر ہمارے اوپر کیوں بم چھوڑا گیا اور ہمیں اس کا نشانہ کیوں بنایا گیا۔
ندیم ملک: آپ کے اوپر ایک تو جو دہشت گرد حملوں کا ایشو تھا وہ بھی آپ کے اوپر کافی زیادہ متاثر تھا۔
مولانا صاحب: حضرت ہمارے تو امیدوار گھر سے ہی نہیں نکل سکتے تھے۔
ندیم ملک: ن لیگ والا مسئلہ ابھی میں سمجھ نہیں پایا سر آپ سے میں تھوڑی سی اس کی وضاحت چاہتا ہوں پنجاب میں ہم الیکشن کور کر رہے تھے میں نے تقریبا سارے پنجاب کے حلقوں میں گیا ہوں ایک تاثر بڑا موجود تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے ان پاپولر ہے پی ایم ایل این اس دفعہ ووٹ ان کو نہیں ملے گا اور پی ٹی آئی کے لیے سپورٹ موجود تھی پنجاب کے اندر جو گڑ بڑیں ہوئیں اس کے باوجود ن لیگ لیڈنگ پوزیشن میں نہیں ہے اس کی جو ریپلکشن ہمیں نظر آتی ہے شہباز شریف اوپر کیسے آئے پی ایم ایل این کی چوائس میں ایز پرائم منسٹری اس پہ روشنی ڈالیں۔
مولانا صاحب: اس سے میں لاتعلق ہوں کیونکہ میں اپنا ایک پوزیشن لے چکا ہوں کل اور اب میں ان باتوں پر کون ڈسکس کر رہا ہوں ان پہ کیوں میں فریق بنوں یہ اب ان کا مسئلہ ہے جو حکومتیں بنانا چاہتا ہے بنا رہے ہیں وہ دوست بھی تلاش کر رہے ہیں ووٹ بھی تلاش کر رہے ہیں اور وہ اسی راستے پہ اب چلیں گے کام کریں گے مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ندیم ملک: آپ کے ساتھ رابطہ کیا انہوں نے ؟
مولانا صاحب: آپ دیکھیں نا تشریف لائے تھے شہباز شریف صاحب
ندیم ملک: پھر آپ نے کیا کہا ؟
مولانا صاحب: میں نے کہا جی آپ اپوزیشن میں بیٹھے ہیں حق تو یہ ہے ۔
ندیم ملک: پھر انہوں نے جواب کیا دیا ؟
مولانا صاحب: چلے گئے بغیر جواب دیے۔
ندیم ملک: نواز شریف صاحب نے آپ کو کال نہیں کیا ؟
مولانا صاحب: نہیں
ندیم ملک: پاکستان تحریک انصاف کا وفد آج ابھی سے تھوڑی دیر میں آپ سے ملنے ائے گا ان کو کیا جواب دیں گے ؟
مولانا صاحب: وہ تو جب آئینگے جو بات کریں گے اس کے بعد پتہ چلے گا کیا جواب دینا ہے ۔
ندیم ملک: کل آپ نے ایک بڑی خوبصورت بات کہ آپ سیاست میں بڑی سمارٹ پوزیشن لینے میں شاید ملکہ رکھتے ہیں ایک آپ نے کہا کہ ان کے جسموں سے اختلاف نہیں ہے یہاں سے مسائل ہیں اگر یہ والے مسائل حل ہو جائیں۔
مولانا صاحب: یہ تو ان کا ایک صحافی کہ سوال پہ، میرے بیان کا حصہ نہیں تھا ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا اب آپ ان کے ساتھ بیٹھیں گے اپوزیشن میں یعنی وہ بھی اپوزیشن میں ہوں گے آپ بھی تو میں نے کہا جسم کا کوئی جگھڑا تو نہیں جیسے کہ ہم ایک اپوزیشن سائیڈ پہ بیٹھیں گے مسئلہ تو سوچ کا ہے دماغ کا ہے تو وہ فرق اپنی جگہ پر ہے اگر وہ ختم ہوتا ہے تو ہونے دے کس طرح ختم ہوگا کیسے ہوگا میرے ذہن میں کوئی اپشن ابھی نہیں ہے۔
ندیم ملک: سیاست میں وہ کہتے ہیں نا جو ممکنات ہیں اس کے اوپر آپ اپشن تلاش کرتے ہیں تو آپ کر سکتے ہیں آپ جو ایکسپرٹ ان دیٹ وہ ایک ایشو جو ابھی سامنے آئے گا آپ کے سامنے تحریک انصاف والے پرائم منسٹر کا اپنا کینڈیڈیٹ ڈالیں گے پھر ان کے 92 ممبرز ہیں اگر وہ بچے رہے ان کے ساتھ سارے توڑنا لیے گئے تو یا وہ لیڈر آف دی اپوزیشن بنیں گے تو مولانا فضل الرحمن ان کو سپورٹ کریں گے پرائم منسٹر کے کینڈیڈیٹ میں یا لیڈر آف دی ہاوس میں ؟
مولانا صاحب: ہم بالکل بھی اس میں حصہ نہیں لے رہے نہ مسلم لیگ کے لیے اگر ہم کرتے پھر مسلم لیگ کو کرتے لیکن جب ہم ہیں ہی نہیں اس میں تو اس کو ہم تحفظات کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں اور اسمبلی میں جا رہے ہیں جس طرح پہلے بھی ہم گئے تو اس میں تو خیر ہم نے ووٹ بھی استعمال کیا تھا مسلم لیگ ن کے حق میں یہاں پہ باقاعدہ مشاورت کے ساتھ جو اب تو مشاورت ہی نہیں ہے اب تو ہم اکیلے تنہا ہے ناں جی
ندیم ملک: کیا ایسی اسمبلی چل پائے گی کہ جس میں 80 مائنورٹی گورنمنٹ ہے اسی اراکین والی حکومت چلا رہے ہوں گے اور باقیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے جس دن پارٹیز ذرا خفا ہوئی ادھر دیکھا انہوں نے تو حکومت نیچے
مولانا صاحب: میں تو اس طرح کے حکومت بنانے کی جو حکمت عملی ہے اس کو کوئی کامیاب حکمت عملی نہیں کہہ رہا اور لیکن یہ ہے کہ اب اگر انہوں نے فیصلہ کیا ہے تو اچھے بھلے کہ ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔
ندیم ملک: ایک آپ کا نو مئی کے اوپر کل سٹیٹمنٹ تھا نو مئی میں ایسے ایک کہتا ہوں جو اس کے لیے دی گئی ہے کیونکہ اداروں کے اوپر حملہ کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے اپنے ملک کو کھوکھلا نہیں کرنا چاہیے آپ نے کہا کہ نو مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا ۔
مولانا صاحب: اگر اگر اسٹیبلشمنٹ کا یہ موقف ہے اگر اسٹیبلشمنٹ کا یہ موقف ہے کہ الیکشن صاف ہوئے ہیں اور تو پھر اس کا معنی یہ ہے کہ نو مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا ہے اور لوگوں نے غداروں کو ووٹ دیا ہے پھر پاکستان کے اندر
ندیم ملک: کیوں سارے غدار تو نہیں ہے 25 کروڑ کا ووٹ
مولانا صاحب: وہی عرض کر رہا ہوں نا کہ میں تو اصل اعتراض میرا اسٹیبلشمنٹ کے اوپر ہے اور میں انہی کے اوپر دعوی کر رہا ہوں تو اگر وہ کہتے ہیں کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر یہ میں الزام ان کو کہہ رہا ہوں کہ پھر اس کا معنی یہ ہے کہ نو مئی والا بات تو گئی ۔
ندیم ملک: لطیف کھوسہ صاحب کو انہوں نے جناح ہاؤس والے حلقے سے منتخب کر کے تو آپ کو بتایا کہ وہ منتخب کر سکتے ہیں انہوں نے کر لیا۔
مولانا صاحب: اسی پر تو اعتراض ہے انہی نتائج پر ہمارا اعتراض ہے کہ یہ نتائج سامنے آئے ہیں اس وقت ہم اس کو الیکشن نہیں کہا جا سکتا، ہم گلی گلی کوچوں میں پھر رہے ہوتے ہیں گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوتے ہیں محلے میں داری بھی ہماری مخالفتیں ہوتی ہے کوئی ادھر کھینچ رہا ہے تو کوئی ادھر کھینچ رہا ہے دشمنیاں مول لیتے ہیں کہیں پر فائرنگ ہو جاتی ہے لڑائیاں ہو جاتی ہیں پیسہ خرچ ہوتا ہے لوگوں کا اور یہ سارا ایکسرسائز نتیجے میں یہ کہ جو وہ چاہے وہ اسمبلی میں آئیں گے کیا یہ طریقہ ہے ۔
ندیم ملک: مولانا فضل الرحمن صاحب نو مئی نے اس قوم کو بہت تقسیم کیا، کیا وقت نہیں ہے کہ نو مئی کے بیانیے سے واقعتا آگے نکل جائے معاف کرے اور آگے بڑھو وہ والی پالیسی اپنائی جائی ؟
مولانا صاحب: میں اس میں مدعی نہیں ہوں مدعی فوج ہے اسٹبلشمنٹ ہے میں نے پہلے بھی کہا تھا آپ کو یاد ہوگا کچھ چیزیں میں زیادہ وضاحت کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا تو میں آپ سے یہ کہا کرتا تھا کہ مجھے مزہ نہیں آرہا کہ میرا مخالف جو ہے وہ جیل میں ہو اس کے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے ہو اور میں کھلا پھر رہا ہوں تو فوراً سوال ہوتا تھا کہ آپ اس کے رہائی کے مطالبہ کر رہے ہیں تو میں کہتا تھا کہ نہیں رہائی کا مسئلہ قانون کا معاملہ ہے وہ اس میں میں نہیں پڑتا عدالتیں کیا کرتی ہے مدعی کون ہے وہ مدعا علیہ کون ہے عدالت میں کیا فیصلے کرے گی لیکن میں اپنی بات ضرور اس حد تک کرتا رہا کہ یہ چیزیں جو ہیں وہ شاید چلیں گی نہیں سیاسی طور پر ایک کارکن کے طور پر جب میں صورتحال کو دیکھتا ہوں تو کچھ چیزیں ایسی وقوع پذیر ہوتی رہی ہے کہ جو میری نظر میں وہ چلنے والی چیزیں نہیں تھیں ۔
ندیم ملک: کیا معاف کر کے آگے بڑھ جانا یہ بہتر پالیسی ہو سکتی ہے ؟
مولانا صاحب: یہ تو آپ چیف آف آرمی صاحب سے پوچھ سکتے ہیں سوال تو ان سے لگتا ہے کیا تعلق ہے ہاں یہ اپنی جگہ پر ہے کہ مثال کے طور پر امریکہ میں جہاں اس قسم کی جگہوں پہ حملے ہوئے کہ ان کو ایک ریاستی مقام کی حیثیت حاصل تھی تو وہاں پر بھی عدالتوں نے لوگوں کے خلاف فیصلے دیے ہیں یہاں تک سزائے موت بھی دیے ہے اس میں جی اگر برطانیہ میں پارلیمنٹ پہ حملہ ہو جائے یا میتھینیو پیلس پہ حملہ ہو جائے تو اس کو وہ کیا سمجھیں گے یہاں ان کے ایک تو سفارت کار آئے تھے میرے پاس تو اس قسم کی باتیں کرکے میں نے کہا اگر آپ کے ہاں ایسا حملہ ہو جائے آپ کیا کریں گے تو جہاں تک تعلق ہے ریاست کا ریاستی اداروں کا ہمارے دلوں کے لیے احترام ہے سیاست میں کیوں آتے ہیں ہم ان کا احترام کریں وہ ہمارا احترام کریں ہم ان کو سپورٹ کریں گے وہ جمہوری نظام کو سپورٹ کریں لیکن یہ کہ مداخلت کر رہے ہیں اگر میرے میرے پاس اتنا ذرا بھر کا بھی اختیار نہیں ہے کہ میں کسی ایک عام فوجی سپاہی کے بارے میں کوئی رائے دے سکوں ان کو اور یہ پھر مداخلت تصور ہوگی اور یہ قانون ان کے نظام کے خلاف ہوگی تو کیا یہ سیاست کی دنیا میں کوئی نظم و ضبط کی ضرورت نہیں ہے کوئی آئین نہیں ہے کوئی قانون نہیں ہے یہاں پر ؟
ندیم ملک: مولانا فضل الرحمان صاحب ایک چیز جو شاید ایک پاکستانی قوم کو اس وقت بہت تقسیم کر رہی ہے وہ عمران خان کا وہ بیانیہ تھا جو ان کو حکومت لیتے وقت سے پہلے سے ہی انہوں نے اسٹیبلش کرنا شروع کر دی اسٹیبلشمنٹ اس کو سپورٹ بھی کرتی تھی تو ان کے علاوہ ساری چور ڈاکو ہیں ابھی وہ جیل میں لیکن بیانیہ تقریبا ابھی بھی اسی کے اوپر ہے کہ پیپلز پارٹی سے بات نہیں ہوگی نون سے بھی نہیں ہوگی ایم کیو ایم سے بھی نہیں ہوگی سیاسی طور پر مجھے یہ بہتر اپشن نہیں لگتی پیپلز پارٹی سے بات کر کے
مولانا صاحب: مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے یہ بات کیوں کی یہ کیونکہ میرا تو ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور نہ ہمارے اندر کوئی ایسی انڈرسٹینڈنگ ہے کہ میں ان کے فلسفے کو سمجھ سکوں ان کی حکمت عملی کو سمجھ سکوں تو یہ انہوں نے کیوں کیا ہے اور کس طرح انہوں نے اس کو طے کیا ہے یہ تو انہی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی ہے لیکن یہ ہے کہ بات چیت تو دنیا میں چلتی رہتی ہے تو میرے خیال شہباز شریف صاحب وغیرہ ائے تھے تو یہ تو نہیں کہ انہوں نے مجھ سے ملاقات کی احترام اپنے دل میں میں نواز شریف کو بہت احترام کرتا ہوں اب بھی احترام کرتا ہوں آئندہ بھی احترام کروں گا بڑے اچھے مراسم ان کے ساتھ میرے رہے ہیں مل کر کام کیا ہے ہم لوگوں نے تو جو اچھا وقت کسی کے ساتھ گزارے تو پھر زندگی بھر اس اچھے وقت کی قدر کرنی چاہیے۔
ندیم ملک: کیا نواز شریف پاکستانی سیاست میں ابھی ریلیونٹ ہیں یا پھر اریلیونٹ ہو جائیں گے ؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں وہ پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں اور پاکستانی سیاست میں ان کو رول ادا کرنا چاہیے ان کا حق بنتا ہے میں اصول سے کبھی اختلاف نہیں کروں گا اس کو اپنی جگہ پر جو میرے لیے ہے وہ ان کے لیے بھی ہوگا جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں دوسرے کے لیے بھی پسند کرتا ہوں میں مسلم لیگ نون کے ساتھ تو میں نے آپ نے دیکھا کہ میرا کوئی بیان آپ دیکھیں نا جی کہ میں نے کسی کو نہیں کہا کہ اپوزیشن میں آکر بیٹھے میں نے صرف مسلم لیگ سے کہا کہ ہمارے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھے ۔
ندیم ملک: پارلیمان کا مستقبل کیا ہوگا چلے گی ؟
مولانا صاحب: پارلیمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اہمیت ختم ہو گئی میری نظر میں ختم ہو گئی ۔
ندیم ملک: اور جس پارٹی کے بلے کا نشان بھی لیا اور وہ لیڈنگ پارٹی اس وقت سب سے زیادہ نشستوں کے ساتھ اس کو ہم باہر رکھیں اور باقیوں سے حکومت بنائیں تو پھر کیا ہوگا مستقبل میں ؟
مولانا صاحباب:مطلب یہ کہ پارلیمان نہیں رہا جی اب ٹھیک ہے ہال میں ہم سب بیٹھیں گے مراعات انجوائے کریں گے اور کوئی حیثیت نہیں، فیصلے کہیں اور سے آئیں گے، پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گی ہم بیٹھے ہوئے جو ہے وزیراعظم بھی کہلائیں گے اور اپوزیشن بھی کہلائیں گے اور وزیر بھی کہلائیں گے اور اسپیکر بھی کہلائیں گے ۔
ندیم ملک: عمران خان کی حکومت کو ہائبرڈ نظام کہا گیا تھا ۔
مولانا صاحب: یہ ڈبل ہے۔
ندیم ملک: یہ ڈبل ہائبرڈ پلس ہو گیا تو یہ ہائبرڈ پلس تو اگر عمران خان کا نظام تباہی والا نظام تھا تو ہائبرڈ پلس کیا ہوگا ؟
مولانا صاحب: مجھے کچھ نظر نہیں آرہا ایک کارکن کی حیثیت سے جتنا میرا تجربہ ہے اس ملک کی سیاست میں ہر دور دیکھا ہے میں نے جنرل ضیا الحق سے لے کر آج تک اس خار دار وادی سے میں نکلا ہوں اور کیا کیا مراحل میں نے دیکھے ہیں کیسے کیسے میں نے مارشل لائیں بھی دیکھی ہیں ڈکٹیٹرز کو بھی دیکھا ہے جمہوریت کو بھی دیکھا ہے حکمرانوں کو بھی دیکھا ہے ان کے مزاج کو بھی دیکھا ہے سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے اس وقت کی پارليمنٹ کی کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔
ندیم ملک: مولانا صاحب ایک چیز جو پریشان کن ہے جو میجورٹی پارٹی ہے اس کو حکومت نہیں دی جا رہی بلکہ اس کے بندے مجھے لگتا ہے کہ آئندہ ہفتے 10 دن میں کافی تعداد میں توڑ لیے جائے گی لوٹے بنا لیے جائیں گے مائنورٹی پارٹی لیڈ کر رہی ہوگی معاشرے کے اندر اس سے بڑی تقسیم ہو سکتی ہے ؟
مولانا صاحب: یہ آج سے نہیں ہوا جی پنجاب میں لارجسٹ گروپ مسلم لیگ ن تھا ان کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
ندیم ملک: 10 انڈیپینڈنٹس اس وقت جو تھے وہ پی ٹی آئی کو دے دیے گئے بڑی پارٹی وہ تھی لیکن اس کی حیثیت بن گئی ابھی تو وہ حیثیت بھی نہیں ہے ۔
مولانا صاحب: نہیں یہاں بھی بن جائیے گی نا یہ جو مسلم لیگ اکٹھے ہو گی ان کے جو مخصوص نشستیں ہوں گے کچھ آزاد اکٹھے ہو جائیں گے پھر بن جائے گی ۔
ندیم ملک: پیپلز پارٹی تو وزارتوں میں حصہ نہیں لے رہی
مولانا صاحب: نہیں وہ حکومت کو ووٹ دے رہی ہے نا جی تو اسی بینچ پہ بیٹھے گی بینچ تو ایک ہو گیا اسمبلی میں تو کوئی وزیر نہیں ہوتا وہاں تو سارے ممبرز ہوتے ہیں باہر آتے ہیں تو پھر وہ وزیر ہوتے ہیں ۔
ندیم ملک: بوجھ ایک پارٹی پہ ہوگا اور یہ نظام ایسے چلے گا نہیں ۔
مولانا صاحب: اس لیے تو کمزور نظام ہے نا میں تو آپ سے اتفاق کر رہا ہوں۔
ندیم ملک: معاشرتی تقسیم بھی ہوگی سر جس پارٹی کو لوگوں نے ووٹ کیا ہے سب سے بڑی پارٹی کو
مولانا صاحب: معاشرہ تو حضرت جب سے یعنی یہ جو ہمارے ہاں پی ٹی ائی ائی اور اس سے 15 سال 20 سال پہلے تک این جی اوز کے ذریعے سے نٸی نسل پر کام کیا گیا اور اپنے ابا و اجداد کی تاریخ معاشرت طرز معاشرت اس کے بجائے ایک مادر پدر ازاد ایک سوسائٹی نوجوانوں کو اپنے گھر سے باغی کرنا والدین سے باغی کرنا یہ جو ایک تصور ہمارے معاشرے میں آیا ہے اس پر تو کافی لمبے عرصے سے کام ہوتا ہے بیس بائیس سال ہو گئے اس پہ تو کام کرتے کرتے اور یہ سوسائٹی جو بگاڑ آئے ہیں اور مادر پدر آزاد کی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو اس پہ کوئی ایک دن تو تھوڑی لگا ہے اس پہ تو کام ہوا کافی عرصہ سے
ندیم ملک: سر ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر اس سیٹ آپ کے اندر کوئی بھی حکمران بنانے پہ تیار نہ ہو نون لیگ بھی کہے کہ ہم نہیں بناتے ہم تو چھوٹی پارٹی ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ ابھی تو تیار ہے لیکن یہ ایک سوال ہے کیونکہ انہوں نے کہا کہ ہم تو بڑا قربانی دینے لگے میرا نہیں خیال ہے قربانی دینے لگے 66 نشستوں کے ساتھ ہی انہوں نے تو کامیابی کا اعلان کر دیا تھا ۔
مولانا صاحب: وہ سیاست کے ساتھ ملک کو بچانے کے لیے
ندیم ملک: تو اگر وہ پیچھے ہٹ جائیں تو پھر کیا ہوگا کیونکہ ہے تو مائنورٹی پارٹی ہے نا کہ لیڈنگ پارٹی
مولانا صاحب: حضرت میں گزارش کروں آپ سے کہ یہ پارلیمان چلنے والا پارلیمان نہیں ہے سیاسی استحکام نہیں ہوگا معاشی استحکام نہیں ہوگا ملک بحرانوں کا شکار ہوتا چلا جائے گا اس وقت بھی سندھ میں ہو اس وقت بھی بلوچستان میں ہو کے پی میں ہو تمام پارٹیاں جو ہیں اس وقت احتجاج پہ نکلی ہوئی ہے صرف جمعیت علمائے اسلام کا انتظار تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہیں تو ہم نے بھی کل اعلان کر دیا جی اب اس کی شکل کیا بنے گی ہم بڑے احتیاط کے ساتھ آگے جا رہے ہیں کہ ہم کچھ بڑے بہت بڑے فیصلے جو ہیں وہ جنرل کونسل سے لینا چاہیں گے کیونکہ ہمارا دستور جو ہے وہ کونسل سے نیچے کسی ادارے کو اجازت نہیں دے رہا کہ وہ اتنے بڑا فیصلے کر سکے مثلاً 2018 میں ہم نے تحریک اٹھائی سب دوست ساتھ تھے اکٹھے تھے سارے جی اس وقت یہ تھا کہ یہ الیکشن غلط ہے دوبارہ الیکشن کرایا جائے اب جو ہم نے سوال اٹھایا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہم پارلیمانی سیاست کریں یا چھوڑ دیں تو معاملہ آگے چلا گیا ہے۔
ندیم ملک: لیکن جب آپ سڑک کو گرمانے کی بات کرتے ہیں تو لاسٹ ٹائم آپ نے پہلے جلسے کیے لوگوں کی رائے ہموار کی پھر اپ ایک لانگ مارچ لے کر آئے اور پھر یہاں بہت پرامن طریقے سے لیکن پھر آپ نے دھرنا دیا یاد ہے تو اسی طرح کی سٹریٹیجی دوبارہ ہو گی ؟
مولانا صاحب: ندیم صاحب ہم ہیں تو پرامن لوگ نا پرامن بھی ہے منظم بھی ہے ہم نے یہ دیکھیے جب روڈ بلاک ہوتے ہیں اور اتنا بڑا ایک آپ مارچ جا رہا ہوتا ہے تو اس میں کتنے مریض جو ہے وہ متاثر ہوتے ہیں بیمار ہو ہر قسم کے ضرورت مند لوگ بازار میں مزدوری کرنے والے لوگ بھی تھے ہم نے ایک جگہ پر بھی کوئی ٹریفک کی گاڑی نہیں روکی۔
ندیم ملک: بہتر یہی ہے جی کیونکہ روڈ بلاک حل نہیں ہے۔
مولانا صاحب: اور میں نے خود کچھ تبصرہ نگاروں کو ٹی وی پہ سنا اور وہ ہمارا دفاع کر رہے تھے کہ جی اگر انہوں نے کہیں پر دھرنا دیا ہوا ہے کسی چوک کے اوپر دیا ہوا ہے تو وہ ایک علامتی سا ہے کیونکہ وہاں سے تو خواتین بھی گزر سکتی ہے وہاں سے بیمار بھی گزر سکتا ہے وہاں تو ضرورت مند بھی گزر سکتا ہے اگر وہ راستے کو بند کر دے سب کے لیے بند ہو جاتا ہے جی۔
ندیم ملک: لیکن مولانا صاحب دوبارہ جب روڈ گرمانی کی سیاست شروع ہوگی تو پھر وہیں پہ آئے گی کہ لانگ مارچ ہوگا دھرنا بھی ضروری ہے ۔
مولانا صاحب: نہیں یہ ابھی فی الحال میں کچھ آپ کو اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ جب تک ہماری جنرل کونسل اس حوالے سے کوئی سٹریٹجی طے نہیں کرتی تو ابھی ہم نے ایک فیصلہ دے دیا ہے اصولی فیصلہ دیا احتجاجی سیاست کہتے ہیں اس کا طریقہ کار ابھی باقی ہے۔
ندیم ملک: باقی سیاسی جماعتیں آتی ہیں پی ٹی آئی سے زیادہ امکان ہے کہ وہ سڑکوں پہ ائے گی تو کیا آپ ان کی شانہ بشانہ ہو سکتے ہیں ؟
مولانا صاحب: یہ تو اب معاملات کو دیکھنا ہے جی کہ کیا وہ پی ٹی آئی جو ہے کس چیز کے خلاف آرہی ہے حکومت نے ملنے کے خلاف آرہی ہے یا دھاندلی کے خلاف آرہے ہیں کیونکہ ہمارا تو موقف ہے کہ ان کے لیے دھاندلی کی گئی ہے، ان کے لیے ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔ تو یہ بڑا فاصلہ ہے نا اس سے ابھی تک
ندیم ملک: تو اگر سوچیں مل جاتی ہیں تو پھر ؟
مولانا صاحب: وہ تو پھر آگے دیکھیں گے ابھی فلحال ہم اس پر کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے ہے کیونکہ لمبی چوڑے زمانے کا اتنا فاصلہ ہے ان فاصلوں کو ایک لمحے میں سمیٹا نہیں جا سکتا اور اگر ہوتا ہے تو ہم سیاسی لوگ ہیں مذاکرات بات چیت سے نرم رویوں سے اختلاف کو ختم کرنے کی طرف بڑھ سکتے ہیں لیکن ابھی ہم اس پر حتمی بات نہیں کہہ سکتے۔
ندیم ملک: لاسٹ ٹائم جب آپ کو پی ڈی ایم میں حکومت سازی کے لیے موقع ملا تو ایک بہت بڑا چیلنج تھا کہ آپ کو آئی ایم ایف کو واپس لے کر آنا تھا پروگرام ٹوٹا ہوا تھا ابھی آپ کو آئی ایم ایف سے ایک نیا تین سال کا پروگرام کرنا ہے حکومت جو بھی بناتا ہے شہباز شریف کو سب سے پہلا چیلنج یہی ہونا ہے ایک ایسی حکومت جس کے پاس اپنی سادہ اکثریت بھی نہیں ہے مرہون منت ہوگی الائڈ پارٹیز کے کہ اس کو ووٹ کریں بجٹ پاس پاس کرانے کے لیے پرائم منسٹر کے لیے آئی ایم ایف سے تین سال کا پروگرام نیگوشییٹ کرنا جس میں قیمتوں میں اضافہ ہونا ہے کیا یہ ممکن ہوگا ایسی کمزور حکومت کے لیے ؟
مولانا صاحب: حضرت جس وقت ہم 2018 میں تحریک کے لیے نکلے اور دو تین سال تک مسلسل تاریخ میں رہے ہیں تو آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا بہت سی اداروں کو ان کے حوالے کر دینا تو ہم سب اس پر تنقید کر رہے تھے آج ہم اس کو پاکستان کے بقا کا نام دیتے ہیں کہ ناگزیر صورتحال میں ہماری مجبوری ہے ورنہ ملک کیسے بچے گا وغیرہ وغیرہ تو اب یہ ٹوکرا جب انہوں نے اپنے سر پہ رکھا ہے تو اب وہ جانے اس کا کام جانے ۔
ندیم ملک: مولانا صاحب ایک بیان آیا ہے بلکہ ایک سے زائد ان کے لوگوں نے بیان دیا ایک تو انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف پی ڈی ایم میں شریک اقتدار تھے تو جو کچھ ہوا اس راستے میں تو دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں دوسرا ریزگنیشن کے اوپر ایک رانا ثنا اللہ صاحب کی جانب سے بیان آیا اور آئی تھنک یہ 25 مئی والا ذکر ہے جب دھرنا ادھر آگیا تھا کہ اس وقت شہباز شریف حکومت چھوڑنا چاہتے تھے مولانا فضل الرحمن نے منع کیا اس وقت بھی 25 مئی کو آئی ایم ایف سے مذاکرات تھے ڈیٹ بڑی انٹرسٹنگ تھی جو ان کی انہوں نے ڈھونڈی تھی معلوم نہیں پی ٹی آئی کے لیے
مولانا صاحب: میرے خیال میں اس وقت جو سپریم کورٹ پہ تاریخ لگی ہوئی تھی کیس تھا وہ یا تو شہباز شریف صاحب کی اہلیت نہ اہلیت کے حوالے سے تھا یا پھر آرمی چیف کے تقرری کے حوالے سے تھا اب یہ اتنا بڑا فیصلہ اگر اس دن ان کے خلاف آجاتا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دو دن کے نوٹس پر ہم نے شاہرائے دستور کو بھر دیا تھا جی اور سپریم کورٹ اس قابل نہیں تھی کہ وہ پرائم منسٹر کو نااہل قرار دے کر ملک کے اندر ایک انارکی کی کیفیت پیدا کر دے تو وہ سیناریو اپنا تھا اور اس میں یقینا ہمارے کارکن نے بہت بڑے قربانی دی کیونکہ دو دن کے اندر پورے ملک سے اٹھ کے نکلنا اور یہاں تک پہنچنا آسان کام تو نہیں ہے ۔
ندیم ملک: 25 مئی کو کیا آپ نے شہباز شریف کو جنہوں نے وزارت عظمی سنبھال لی ہوئی تھی اور عمران خان دھرنا دے کر لانگ مارچ لے کر پشاور سے لے آئے تھے آپ نے ان کو استعفی دینے سے روکا ؟
مولانا صاحب: کس زمانے میں
ندیم ملک: 25 مئی جب عمران خان پشاور سے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد کی طرف آئے تھے شاہراہ دستور کی طرف ادھر سے بیان یہ ہے کہ اس دن شہباز شریف اس سے پہلے استعفی دینے پہ تیار تھے مولانا فضل الرحمن نے روکا ۔
مولانا صاحب: نہیں ایسی بات تو میری نوٹس میں نہیں ہے کہ وہ کسی مرحلے پر کوئی استعفی دینے کے لیے تیار ہوئے ہوں اور آپ کو یہ یاد ہونا چاہیے ۔
ندیم ملک: وہ استعفی دینے پہ کسی موقع پہ تیار نہیں تھے ؟
مولانا صاحب: نہیں میرے نوٹس میں سے ایسی کوئی بات نہیں ہے البتہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف جب پرائم منسٹر تھے تو اس وقت میرے کانوں تک یہ باتیں پہنچی پارلیمنٹ کے اندر کہ وہ عمران خان یا طاہر القادری صاحب کے دھرنے کے دباؤ میں ہے اور وہ شاید استعفی دے دے تو وہاں ہم نے پارلیمنٹ پہ کھڑے ہو کر ان کو کہا تھا کہ آپ کو ڈٹ جانا چاہیے کسی قیمت پر آپ کا استعفی قبول نہیں ہوگا جی اور وہ ڈٹ گئے اور پوری ایوان ان کے ساتھ ڈٹ گئی ۔
ندیم ملک: سر 25 مئی 2022 یہ وہ دن ہے جس کے متعلق نون لیگ کی پوزیشن یہ ہے کہ شہباز شریف کی استعفی دینے کی تقریر بھی تیار تھی لیکن پھر فیصلہ ہوا کہ استعفی نہیں دے۔
مولانا صاحب: نہیں یہ بات میری نوٹس میں نہیں ہے۔
ندیم ملک: تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ریلٹی سے دور ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے سربراہ تو آپ تھے۔
مولانا صاحب: کوئی ایسی بات ہی نہیں تھی کیوں کہ اتنی بڑی بات ہوتی تو اجلاس بلاتے تھے ہر چیز پہ اور پارٹی ریڈرز کو بھی بلاتے تھے کیبنٹ کو بھی بلاتے تھے اللہ کیبنٹ کو پتہ ہو تو مجھے پتہ ہو ابھی تک ۔
ندیم ملک: اور اتنی بڑی پوزیشن اور پبلکلی لے رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں پی ڈی ایم کے نوٹس بھی نہیں تھے ؟
مولانا صاحب: لیکن یا تو پھر مجھے یاد نہیں ہوگا یا کوئی اتنی بڑی ہائی لائٹ نہیں ہوئی مجھے نہیں معلوم
ندیم ملک: استعفی دینا سر خبر تو پی ڈی ایم کے اپروول کے بغیر تو نہیں ہو سکتی
مولانا صاحب: بہرحال میرے نوٹس میں نہیں تھی ۔
ندیم ملک: آپ کے نوٹس میں نہیں تھی آپ کے ساتھ ڈسکس بھی نہیں ہوئی ؟
مولانا صاحب: نہیں
ندیم ملک: آپ تجویز کیا کرتے ہیں مستقبل کا لائحہ ؟
مولانا صاحب: مستقبل کا لائحہ عمل یہ ہے کہ ہم سڑکوں پہ آئے ہیں ہم احتجاج کریں اور پرامن احتجاج قانون اور آئین کے دائرے میں احتجاج ہو اور اس وقت تک ہم کریں کہ بالاخر یہ طے ہو جائے کہ آئندہ اسٹیبلشمنٹ ملک کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں رکھے۔
ندیم ملک: اس احتجاج کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟
مولانا صاحب: اس احتجاج کا نتيجہ یہ نکلے گا کہ انقلاب آجائے گا اور حالات بہتر ہو جائیں گے اور اگر احترام نہ کیا تو پھر اگر ہم صحیح بات کر رہے ہیں اور اس میں کوئی نہیں مان رہا تو پھر کیا نتیجہ نکلے گا یہ تو ان سے پوچھنا چاہیے۔
ندیم ملک: سر آپ نے ابھی انقلاب کا لفظ استعمال کیا ہے انقلاب کے لیے طاہر القادری صاحب نے بھی یہاں دھرنا دیا میں انہیں کہتا تھا کہ انقلاب نہیں آئے گا ابھی عمران خان نے جو کچھ کیا اس کے بھی شاید سوچ ہی ہوگی کہ انقلاب آجائے گا انقلاب کی بجائے اسٹیبلشمنٹ زیادہ پاور فل پوزیشن میں آگئی ڈیموکریسی پیچھے چلی گئی ۔
مولانا صاحب: یہ سوال میرا ہے اپ کا نہیں ہے میں تمام اپنے اکابرین سے ان کی مجلسوں میں یہ سوال کرتا تھا کہ سیاست دانوں مجھے ذرا اتنا بات تو سمجھاو نا کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ہم جمہوریت کی تحریک چلا رہے ہیں جیلوں میں گئے مارے کھائی ہم نے پھر اس کے بعد مشرف کا زمانہ آیا سر آج اتنی جدوجہد کے بعد آپ لوگ ذرا طے کر لیں کہ اسٹیبلشمنٹ مستحکم ہوئی ہے یا جمہوریت
ندیم ملک: آپ کے خیال میں کیا وجہ ہے جس سے جمہوریت کمزور ہوئی؟
مولانا صاحب: ہماری کمزوری تھی کہ وہ اندر سے مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا کہ پاکستان وہ تو کمزور لوگ تھے اور ہم بڑے تگڑے سیاست کر رہے تھے یعنی ہم سب کے مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم نے جمہوریت کے استحکام کے لیے صرف اقتدار حاصل کرنے کی کوشش تو کی ہے اور جمہوریت صرف اسی کو کہا ہے کہ مجھے کرسی مل جائے بس اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی عوام کے ووٹ اس کا تقدس اس کا احترام مینڈیٹ کوئی حیثیت نہیں ہے کسی کے نزدیک
ندیم ملک: پی ٹی آئی کی جانب سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو جب ہدف تنقید بنایا جاتا ہے وہ تو بڑے سخت لفظ کا چناو کرتے ہیں عمران میں ان کے الفاظ تو نہیں دہراتے لیکن ان کا مدع ہی ہوتا ہے کہ یہ چوری چھپے خفیہ جا کے مذاکرات کرتے ہیں رات گئے ملتے ہیں اور بس جو ان کی خوشیاں اسی میں سارا کچھ کر گزرتے ہیں بوٹ پالش کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیا اس چیز سے اس روش سے بدلا جا سکتا ہے بڑی پارٹیوں کو، تب تک تو تبدیلی نہیں ائی
مولانا صاحب: حضرت اس حمام میں سب ننگے ہیں اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کرنا یا ان کی خواہش پر یا سیاست دانوں کو خواہش پر یہ سلسلے چلتے رہتے ہیں جی بات بنیادی یہ ہے کہ ملاقاتوں سے انکار کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ کوئی انڈیا سے نہیں ائے ہوئے یا کوئی انڈیا کے جنرل نہیں ہے ہمارے ملک کے ہیں ہمارے محلے کے ہیں ہمارے شہر کے ہیں اور ہماری ہی ماحول سے نکل کر وہ کوئی کس مقام پر پہنچتا ہے کوئی کس اور کوئی ارمی چیف بن جاتا ہے جی تو اگر ان سے بات کی جاتی ہے بعد میں کوئی بات یہ ہے کہ سودا گیری کے لیے صرف اس بات کے لیے کہ ہم بس آپ سے کچھ مہربانی کریں جی اور پھر وہ پھر ایسے مہربانی کرتے ہیں کوئی تو اپنے موقف تھوڑا سا ڈٹ کر بھی بات کریں ان سے کہیں بھی کہ آپ غلط بات کر رہے ہیں سو الحمدللہ ہم نے یہ باتیں کی ہیں ہمارے اندر یہ قوت ہے باجوہ صاحب سے بھی پوچھ سکتے ہیں ان سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ آپ نے کیا انداز اختیار کیا ان کے ساتھ
ندیم ملک: ایک لاسٹ کویسچن بالکل اینڈ پہ آگیا ہوں جب آپ پوزیشن لیتے تھے مذاکرات ان سے یا ملاقات ہوتی تھی تو اپ کیا پوزیشن اختیار کرتے تھے کہ کیا کرنا چاہیے کیا ہونا چاہیے آپ اگر انہیں کہیں کہ حکومت گرا دیں عمران خان کی تو یہ تو ظاہر ہے کہ ان کا رول نہیں ہے اس سے ہٹ کے کیا کہتے تھے؟
مولانا صاحب: نہیں ان کا رول ہے بالکل تھا حکومت گرانے میں
ندیم ملک: اور اپ کہتے رہے انہیں
مولانا صاحب: ہم اس لیے کہتے رہے کہ انہوں نے جرم کیا تھا نا
ندیم ملک: آپ کا خیال تھا کہ انہوں نے بنایا ؟
مولانا صاحب: انہوں نے بنایا تھا نا یہ بھی انہوں نے تو گرائے بھی
ندیم ملک: تو پھر اس کا الٹیمیٹ رزلٹ ہوا؟
مولانا صاحب: دیکھیے سیاستدان آئے سیاست دانوں نے پلان تبدیل کیا میرا خیال یہ ہے کہ وہ جو ہم دیوالیہ پن کے کنارے کھڑے تھے اور دنیا ہمیں ڈیفالٹ قرار دیتی تھی اس سے تو نکالا ہے ملک کو، اس میں تو کوئی شک نہیں ہے ہاں پبلک کو جو ریلیف چاہیے تھی وہ نہیں مل سکتی۔
ندیم ملک: کسی سٹیج پہ کبھی انہوں نے آپ کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ہاں ہم سے یہ مسٹیک ہوئی کہ ہم نے کھڑا کیا تھا ؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں جو المجالس بالامانتہ وہ چیزیں ہم آپس میں طے کرتے ہیں اس کو اس طرح پبلک کے سامنے بات کرنا میرا خیال میں یہ شریعت میں بھی جائز نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب جے یو آئی کے سربراہ آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہمیں جوائن کیا۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی سماء ٹی وی کو انٹرویو ۔ (15-Feb-2024)
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, February 15, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں