قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا 24 نیوز کے نسیم زہرہ کے ساتھ خصوصی گفتگو 16 فروری 2024


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا 24 نیوز کے نسیم زہرہ کے ساتھ خصوصی گفتگو

16 فروری 2024

السلام علیکم ناظرین آپ دیکھ رہے ہیں نسیم زہرہ ایٹ پاکستان، الیکشن کے بعد یہ ہمارا پہلا پروگرام ہے، آپ کو معلوم ہے کہ الیکشن کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھے ہیں ایک طرف نئی حکومت بننے جا رہی ہے دوسری طرف تنقید بہت ہو رہی ہے تیسری طرف پروٹیسٹ ہے اور چوتھی طرف یہ ہو رہا ہے کہ بھئی اب یہ بنے گی بھی حکومت تو چلے گی کتنی دیر، بہت سے سوالات ہیں ان سب معاملات میں ایک انفرادی جو ہم نے دیکھا پوزیشن کو وہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے جے یو آئی کے لیڈر ہے جو ہیڈ ہے جو چیئرمین ہے انہوں نے لی ہے اور مولانا فضل الرحمن صاحب ناظرین ان کا جو تعلق ہے پاکستان کی سیاست سے یہ ان کے والد کے دور سے شروع ہوتا ہے مولانا مفتی محمود صاحب وہ شخص جو کہ 1973 کے آئین پر انہوں نے دستخط کیا اور وہ شخص جن کی سب بہت عزت کرتے ہیں، مولانا صاحب انہیریٹڈ مینٹل اور ان کے بھی معاملات حکومت سے ریاست سے سیاست سے اپوزیشن سے اسٹیبلشمنٹ سے بہت اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن گہرے رہے ہیں وہ تو مولانا فضل الرحمن صاحب سے بات کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب اس سچویشن کو کیسے دیکھتے ہیں

نسیم زہرہ: بہت بہت شکریہ مولانا صاحب کہ آپ نے ٹائم نکالا ہمیں ٹائم دیا مولانا صاحب آپ کے انٹرویوز ابھی دو تین روز سے ہم دیکھ رہے ہیں آپ نے کافی بات نہیں فرمائی ہیں تو یہ بتا دیجئے گا دو ٹوک الفاظ میں جو ناظرین ہیں کہ اس وقت آپ کی ڈیمانڈ کیا ہے؟

مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم، ہمارے اس وقت کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے جی اور جو ڈیمانڈ ہے کس سے کریں کس میں یہ قوت ہے کہ وہ ڈیمانڈ ہمارے سن بھی سکے اور ان کو قبول بھی کر سکے، ہم نے انتخابی نتائج کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور جب یکسر مسترد کر دیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا متبادل یہ ہے کہ دوبارہ الیکشن کرائے جائے فوراً اسمبلی تحلیل کر دی جائے، کیا ان کے لیے ممکن ہے؟

نسیم زہرہ: تو پھر آپ فرما رہے ہیں کہ آپ کی ڈیمانڈ ہے کہ یہ الیکشن تازے ہونے چاہیے

مولانا صاحب: تو ہم نے ایک دوسرے جانب رخ کیا ہوا ہے اور چونکہ ہماری مرکزی مجلس عاملہ کے پاس پارٹی دستور کے مطابق اختیار نہیں ہے تو وہ انہوں نے ریفر کر دیا ہے اپنی جنرل کونسل کی طرف جی تو جنرل کونسل میں اس بات پر مشورہ کیا جائے گا کہ پارلیمانی سیاست سے ترک کر لیجیے اور فیصلے اب ایوان میں نہیں میدان میں ہونگے، تو اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار چکا ہے، پاکستان میں جب تک اس حوالے سے بڑی تبدیلی نہیں آتی اور ایک شفاف الیکشن کے حوالے سے ضمانتیں نہ ملے ہمیں، زبانی کا گفتگو باہر کچھ کہے اندر کچھ کریں اس سیاست سے اب ہمیں نکل جانا چاہیے اور آپ نے اپنے انٹرو میں میرے والد صاحب کا ذکر کیا تو یہ بات سمجھنا آسان ہوگا کہ ہم اتنا سخت سٹینڈ کیوں لے رہے ہیں، 1977 میں جب یہ سوال پیدا ہوا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اس کے خلاف تحریک کی قیادت میرے والد نے کی تھی اور وہ نوجوان تھے میں خود طالب علم تھا اس وقت تو وہ جو اس وقت سے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ الیکشن کیسے ہونے چاہیے الیکشن عوام کی رائے کا نام ہے اسٹیبلشمنٹ کے کمروں کے اندر مرتب کردہ نتائج کا نام نہیں ہے، وہ چیز ہمارے اندر چلی آرہی ہے جب بھی کوئی ایسے نتائج آئے ہیں ہم نے اس پر اپنا رد عمل دیا ہے اور وہ رد عمل وقت کے ساتھ ساتھ سخت ہوتا گیا، اب 2018 کا الیکشن ہوا تو تمام پارٹی نے کہا کہ اس میں دھاندلی ہوئی ہے، آج کیوں نہیں کہا جا رہا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے، مسلم لیگ نون 2018 کے قریب قریب میں ڈیٹ ہے اب بھی ان کا جی زیادہ نہیں ہے، پیپلز پارٹی کا تقریباً اس کے قریب قریب ہے یہ تو اس مینڈیٹ کے ساتھ اس وقت کیوں دھاندلی تھی اور اب کیوں یہ الیکشن منصفانہ ہے اور اس قابل ہے جس پر حکومت قائم کی جائے۔

نسیم زہرہ: آپ کی بھی 2018 میں اتنی کچھ سیٹیں تھیں 17 تھیں

مولانا صاحب: تو ہم نے تو اس وقت بھی کہا تھا نا کہ غلط ہوا ہے اب پی ٹی آئی ہے پی ٹی آئی کا مینڈیٹ بھی تقریباً اُتنا اُتنا ہے 10 آگے پیچھے ہوں گے، اس وقت وہ کہہ رہے تھے کہ شفاف ہوئے ہیں آج کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے تو یہ ان کے سٹانس میں تبدیلی آسکتی ہے مجھ وقت تنقید نہ کرے کوئی میں تو سیدھا سادہ آدمی ہوں اور ایک اصولی موقف میری پارٹی نے دیا سوچ سمجھ کر لیا ہے، آپ کو پتہ ہے الیکشن کے بعد ہم خاموش بیٹھے رہے ساری چیزیں معلوم کرتے رہے معلومات لیتے رہے اور بہت سی چیزیں اکٹھے ہونے کے بعد جو ہماری مجلس عاملہ بیٹھی ہے پرسوں تو انہوں نے جب ساری صورتحال کا جائزہ لے کر ایک رائے قائم کی ہے تو وہ رائے ہم نے اناؤنس کی ہے۔

نسیم زہرہ: تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ الیکشن ہونے چاہیے یعنی کہ نئے الیکشن ہونی چاہیے آپ رد کرتے ہیں سب کو اچھا تو اگر آپ اس کو رد کرتے ہیں آپ نے بڑے سخت الفاظ میں کہا کہ میں خبردار کرتا ہوں یہ کچھ آپ نے کہا کہ بھئی ہر صورت پہ آپ سمجھ لیں نہیں تو پھر ہم اتر آئیں گے میدان میں، تو آپ نے ایک تو فرما دیا کہ آپ جو بلوچستان میں اسمبلی آپ گورنمنٹ نہیں بنائیں گے کیونکہ وہاں تو آپ کی سیٹس ہیں 11 ہیں اور میرے خیال پانچ ملا کر کے 16 نیشنل اسمبلی کے الگ ہے پروونشل کی الگ ہے کچھ لوگ کہتے ہیں مولانا صاحب نے اتنی سخت سٹانس لی ہے کیونکہ پھر وہ چاہ رہے ہیں کہ ان کو کوئی زیادہ ملے کوئی پوزیشن وغیرہ وہ میں لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتی لیکن آپ سن رہے ہیں

مولانا صاحب: جی ہاں وہ باؤ بڑھا رہے ہیں کیا بڑھا رہے ہیں یہ ہمارے ملک کی سیاست کا ایک ٹرینڈ بن گیا ہے جی اور یہی وہ گھٹیا سیاست ہے کہ اگر کوئی شخص ایک موقف لیتا ہے تو اس کے ساتھ ایسی ایسی ہلکی ہلکی چیزیں کہ جس سے اس کو ڈیگرییٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کو نیچے لایا جائے لیکن یہ سب ناکام ہو جائیں گے ہم نے جو سٹانس لیا ہے ہم پیچھے نہیں ہٹتے ان سے اور 2018 میں بھی پیچھے نہیں ہٹیں لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ جتنے ہمارے ساتھی تھے قائدین تھے پارٹیاں تھیں وہ جب اجتماعی مشاورت سے کوئی فیصلہ کرتی تھی تو یقیناً ہم نے دوستوں کے سامنے اپنی رائے سرنڈر کی ہے لیکن آج صورتحال ذرا مختلف ہے اور اس میں ہم ذرا فالحال اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہے ہیں لیکن یہ تنہائی بھی جو ہے یہ عوامی تائید کا سبب بنے گی کیونکہ لوگ جو شعور رکھتے ہیں اور جو اس حوالے سے سوچتے ہیں وہ ایک دن اکر حقائق کو تسلیم کریں گے

نسیم زہرہ: جی تو ابھی جو 2018 کے الیکشن کے بعد جب آپ نے دھرنا وغیرہ دیا پھر آپ کی آئی ایس آئی سے بھی ملاقات ہوئی جس کی وہ پرویز الہی صاحب چوہدری شجاعت صاحب بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کا وہ گرینٹرز تھے تو اس وقت آپ دیکھ رہے تھے ان اداروں کی طرف بحیثیت ایک وہ ادارے جو آپ کی بات کو آگے بڑھا سکتے ہیں یا آپ کو دے سکتے ہیں اب مختلف ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے میری ایک ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ میں اداروں کو متنازعہ نہ بناؤں لیکن بعض دفعہ کچھ چیزیں واضح کرنے کے لیے کچھ کہنا پڑتا ہے، اگر ہم نے اس وقت اداروں سے بات کی ہے تو اس دھاندلی کا ذمہ دار بھی تو ہم اسی کو ٹھہرا رہے تھے نا جی کہ انہی کی پشت پناہی سے اور ان کی منصوبہ بندی سے یہ سارا کچھ ہوا تھا نا جی، تو اگر ہمارے پاس کوئی دوست آئے ہیں کوئی اکابرین آئے ہیں تو ہم نے ان کا احترام بھی کیا ہے اور پھر ایسا بھی نہیں ہے انہوں نے کمٹمنٹس کئیں اور اس سے پیچھے ہٹ گئے وہ جی

نسیم زہرہ: تو آپ کو بیسکلی اس میں نہیں دقت کے جو آئین سے ہٹ کے اداروں کا رول تو آئین سے ہٹ کے ہیں سیاست میں جنرل مشرف جب تھے تو اس وقت آپ لوگ 2002 میں آپ نے وہ اکرم درانی صاحب چیف منسٹر تھے اس وقت جماعت اسلامی کی آپ کی کوئی ڈفرنس بھی ہو گیا آپ نے جنرل مشرف نے وردی جب پہنی ایل ایف او بھی تھا آپ نے سائن کیا تو ہم کیا سمجھیں کہ پہلے آپ کو لگتا تھا کہ جو غیر آئینی چیز ہے جس میں ارٹیکل 6 جاتا ہے اس وقت آپ فرماتے تھے کہ وہ ٹھیک ہے آپ کو لگتا تھا ٹھیک ہے اور اب آپ کو لگتا ہے غلط ہے

مولانا صاحب: وہ تو اس وقت موضوع بحث نہیں ہے

نسیم زہرہ: نہیں نہیں میں آپ سے پوچھ رہی ہوں کیونکہ آپ کی اتنی دور اندیشی ہے آپ کی سیاست ہے آپ کے لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں کیونکہ آپ نے پوزیشن اس وقت لیا ہے تو سمجھنے کی کوشش کی

مولانا صاحب: آرٹیکل 6 تو اپنی جگہ پر ٹھیک ہے یا نہیں اپنی جگہ پر لیکن اگر اس ملک میں اس آرٹیکل کے ہوتے ہوئے ضیا الحق کا مارشل لاء بھی لگا جنرل مشرف کا مارشل لاء بھی لگا سپریم کورٹ کی ایسی تیسی پھیر دی انہوں نے اور نامزد اسمبلیاں یعنی کبھی دنیا میں آپ نے نام نہیں سنا ہوگا کہ اسمبلی بھی نامزد ہوتی ہے اور اس کو شوریٰ کا نام دیا گیا، تو یہ ساری چیزیں ہم نے دیکھا تو غیر موثر کا دفعہ ہے اور اس طرح آئین کو مکمل طور پر ختم کرنا یا جزوی طور پر ختم کرنا تو جو لوگ ختم کرتے ہیں وہ اتنے طاقت ور ہے کہ اس آرٹیکل 6 کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی اور ابھی آپ نے دیکھا پچھلی حکومت میں جب ایک جج صاحب نے مشرف کے خلاف فیصلہ دیا تو آپ لوگوں نے دیکھا اس پورے عدالت کو اڑا دیا انہوں نے جی

نسیم زہرہ: اور پھر سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کو اپ فولڈ کرتے ہیں تو مولانا صاحب اس وقت جو صورتحال ہے اس میں آپ کیا دیکھ رہے ہیں یعنی کہ اداروں کے رول کے حوالے سے آپ نے جیسے فرمایا کہ جنرل فیض کا آپ نے ذکر کیا حالانکہ اس وقت تو وہ پشاور میں 

مولانا صاحب: میں اس بات کا وضاحت کر دوں یہ بات اچھا ہے کہ آپ نے سوال کر لیا یقینا میں نے فیض صاحب کا نام لیا ہے اور اس میں وہ نہیں تھے ان کے بعد والے تھے

نسیم زہرہ: اچھا تو جب وہ ووٹ آف نو کانفیڈنس کے آپ نے فرمایا کہ آپ کو لگا کے دوست کہیں گے کہ آپ عمران خان کو پروٹیکٹ کررہے ہیں لیکن پھر آپ کی حکومت میں آپ حصہ تھے پی ڈی ایم میں آپ کی ڈپٹی سپیکر شپ تھی اور پھر دو منسٹریز تھیں تو اگر وہ آپ کو اصولاً لگ رہا تھا کہ وہ مناسب اور غلط چیز ہے تو دوستی کی خاطر آپ نے کر دیا سپورٹ لیکن پھر گورنمنٹ

مولانا صاحب: دیکھیے ملک میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہے کہ سیاسی طور پر وہ چیز پروان چڑھ جاتی ہے پھر ایک دم اس پوری عمارت کو گرانے سے اور بہت سی پیچیدگیاں ایسی پیدا ہوتی ہیں کہ پھر ملک اس کا متحمل نہیں ہوتا جی اب چونکہ پی ڈی ایم تھا جی تو پی ڈی ایم اور پی ڈی ایم سے باہر کی جماعتیں جب سب دوستوں نے ایک راستہ متعین کر لیا جی تو اس میں ہماری رائے تھی کہ اگر آج میں اس اپنی رائے کا اظہار کروں تو یہ آپ اس کو کاؤنٹر کریں گے آپ اسی سوال سے لیکن ہم نے اپنے دوستوں کے لیے یقیناً اس وقت سے رائے چھوڑی تھی اور رائے ہم نے دیانت دارانہ طور پر دی تھی اب یہ تاریخ کے حوالے کیا جاتا ہے بعض چیزیں کہ پھر وہ جو ہمارے رائے تھی وہ تاریخ اس کو صحیح کہتی ہے یا جو ہم نے دوسروں کے ساتھ دیا تھا ان کے رائے کو

نسیم زہرہ: اور پھر جی حکومت میں بھی آئے تو اس وقت جو صورتحال ہے اس وقت کی صورتحال آپ نے بھی فرمایا بڑی اہم بات آپ نے کہا کبھی معاملات آگے بڑھ جاتے ہیں تو بات کافی نہیں ہوتی تو اسی طریقے سے اگر ہم ابھی دیکھیں کیا ہو رہا ہے کہ ایک طرف تو حکومت بننے جا رہی ہے وہ تو لگ رہا ہے بننے جا رہی ہے تو مولانا صاحب 2018 کے پی ڈی ایم والی ووٹ آف نو کانفیڈنس کے بعد جو حکومت بنی اور جو اب بننے جا رہی ہے اب آپ کو کیسے لگتا ہے کہ یہ پوزیشن اگر آپ لے رہے ہیں کہ ہم میدان میں نکل آئیں گے تو اس وقت کیسے فرق ہے ابھی اگر ہم کہیں گے یہ تو حکومت بنا کے اپنی حکومت چلائیں گے؟

مولانا صاحب: حکومت کوئی بناتا ہے تو لاکھ دفعہ بنائے کوئی چلاتا ہے تو لاکھ دفعہ چلائے ہم نے جو فیصلہ کیا ہے ہم نے اسی کی پیروی کرنی ہے

نسیم زہرہ: یہ اٹل فیصلہ ہے

مولانا صاحب: جی اٹل فیصلہ ہے

نسیم زہرہ: کہ آپ بلوچستان میں حکومت نہیں بنائیں گے؟

مولانا صاحب: آپ کو ایک بلوچستان کیوں نظر آرہا ہے

نسیم زہرہ: نہیں کیونکہ وہاں آپ کی اتنی اکثریت ہے

مولانا صاحب: نہیں ہے اکثریت وہاں پر ہماری کوئی ایسی تعداد نہیں ہے جس پر ہم حکومت بنا سکے تو خوامخواہ بلوچستان کو ٹارگٹ کرنے کا کیا مطلب، ہم نے جو بھی کرنا ہوگا ابھی تک یہ اصولی بات کر چکے ہیں کہ ہمارا پارلمانی کردار ہوگا کیونکہ ہم پارلیمانی کردار سے ہٹنے کا دستوری طور پر اختیار نہیں رکھتے نہ تو میں بطور پارٹی کے امیر کے اختیار رکھتا ہوں نہ میری مجلس عاملہ اختیار رکھتی ہے نہ میری مجلس شوریٰ کو اختیار ہوتی ہے یہ فیصلہ وہ جنرل کونسل میں لینا پڑتا ہے تو اب جس وقت جنرل کونسل بیٹھے گی اور اس کے سامنے سفارش آئے گی تو وہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ وہ ہمیں پارلیمنٹ سے جانے کو رخصت ہو جانے کو کہتی ہے تو ہم سب چھوڑ دیں گے اگر انہوں نے کہا نہیں پارلیمان جاری رہے آپ لوگ اندر کام کرتے رہے تو پھر ہم اس کے مطابق چلیں گے

نسیم زہرہ: مولانا صاحب ابھی جو آپ نے فرمایا کہ اور حکومتوں کو یہ نہیں لگا کہ اس میں ایک اتحادی زیادہ ہو گئی ہے لیکن پی ٹی آئی تو سب سے آگے کہہ رہی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور پی ٹی آئی کے لوگ آپ کو آکے ملے بھی ہیں تو ان کے حوالے سے آپ کچھ فرمائیں گے کہ آپ کس طریقے سے دیکھتے ہوں اس سفر میں جو آپ کا ہے کس طرح آپ کا ساتھ ہو سکتا ہے؟

مولانا صاحب: میرے خیال میں آپ لوگ پہلے قدم کو آخری قدم کہتے ہیں یہ ہمارے ملک کا ایک ٹرینڈ چل رہا ہے

نسیم زہرہ : میں تو آپ سے پوچھ رہی ہوں

مولانا صاحب: اور ہمارے صحافی حضرات بھی جب سوال کرتے ہیں تو جس چیز کا ابھی ہم اس کو ابتدا بھی نہیں کہہ سکتے مکمل اس کو فوراً سوال جو ہے اس کی انتہا و انجام پہ ہوتا ہے

نسیم زہرہ: سر میں نے تو آپ سے پوچھا یہ ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے

مولانا صاحب: میں ذرا عرض کروں آپ کو پوری طرح علم ہے کہ جمیعت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کتنے فاصلے ہیں اور ان کے بارے میں ہماری سوچ کیا ہے ہمارا نظریہ کیا ہے اس پر ہمارے اعتراضات کیا ہیں اپنی جگہ پر قائم رہیں جی اب اگر ان کا ایک وفد ہمارے گھر میں آتا ہے تو وہ پہلی دفعہ تو نہیں ہے اس سے پہلے بھی بالکل اور یہ بھی بتا دوں کہ آپ کو پتہ ہے سوشل میڈیا ہے ورکرز ہیں نیچے لیول تک کارکن ہیں اور کوئی کسی کے اوپر روک ٹوک نہیں ہے وہ سو میڈیا پر جو کمنٹس دے دے جو تبصرہ کر لے اس میں تو کوئی انتہا نہیں ہے جی لیکن ہم نے اس وقت بھی اپنے کارکنوں کو سختی سے روکا تھا کہ اگر میرے گھر میں کوئی مہمان آتا ہے تو وہ آپ سب کا مہمان ہے بے شک اور مہمان گھر سے چلا جائے تو اس کے پیچھے بُرا بولنا غلط بولنا یہ شرعاً حرام ہے ناجائز ہے کہ آدمی کا مہمان چلا جائے اور آپ اس کے پیچھے غیبت شروع کردے جی تو ہم نے کہا کوئی اس قسم کا منفی کمینٹ آج بھی اور کل بھی ہم یہی کہتے تھے اور اگر ایسا کچھ ہوا بھی ہو تو میں نہیں سمجھوں گا کہ پھر وہ اچھا ہوا ہے چاہے جس لیول پر بھی ہو تو لوگ آتے ہیں ہم بھی کسی کے پاس جائیں گے کوئی ہمارے پاس آئے گا ہم ایک دوسرے کی عزت بھی کریں گے اور یہی تو بچا ہے ہمارے ملک میں کہ یم ایک دوسرے کے پاس جائیں ایک دوسرے کے عزت کریں جی تو یہ جو چیز ہوئی ہے یہ ان کے آنا ہے اب آنے کے بعد انہوں نے بسب آنے کی حد تک ہے باقی تو اب آگے جا کر کھلی گی بات ہم بھی اپنے پارٹی کے سامنے یہ ساری چیزیں رکھیں گے ان کا کیا ردعمل آتا ہے وہ جو اختلافات ہیں ہمارے جن بنیادوں کا وہ کیا ہے یکدم ہم ان کو سر کر سکیں ان کو پھلانگ کر ہم ایک دوسرے کو گلے مل سکیں گے تو یہ بڑا سخت اور تلخ مراحل ہے جو اس وقت موجود ہے اور اگر کوئی ایک فریق بھی کہہ دے کہ ہم معاملات کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو بھی ہمیں شریعت کی تعلیمات کو سامنے رکھنا چاہیے

وإنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فاجْنَحْ لَها وتَوَكَّلْ عَلى اللَّهِ إنَّهُ هو السَّمِيعُ العَلِيمُ

اگر وہ صلح کے لیے پَر بچھاتے ہیں تو آپ بھی پَر بچھائیں اور اللہ پر توکل رکھیں، تو ہم کسی کو سخت جواب نہیں دیتے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم جس لیول پر اختلاف رائے رکھتے ہیں پی ٹی آئی سے کیا ان اختلاف رائے کو ہم اس طرح ایک میٹنگ سے تحلیل کر سکتے ہیں جی تو یہ تو بالکل ایک آغاز ہے اور اس آغاز کے بعد ہم دوسری قدم کیسے اٹھائیں گے کس طرح اٹھائیں گے سب چیزیں جماعت کے مشوروں کے ساتھ ہم اٹھائیں گے دوستوں کے مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں گی اور صرف پی ٹی آئی تو نہیں ہے جی اور بھی بہت سی جماعتیں ہیں بلوچستان میں وہ جماعتیں ہیں کے پی میں وہ جماعتیں ہیں سندھ میں جماعتیں ہیں کہ جو ان نتائج پہ اعتراض کر رہے ہیں اور وہ بھی احتجاج پر ہیں ہم ان سے بھی رابطہ رکھیں گے

نسیم زہرہ: جی پی ٹی آئی کی تو دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈی آئی خان میں انہوں نے تقریباً ساری سیٹیں جیتیں ہیں تو جو ہاری ہے آپ کی پارٹی نے تو وہ تو جیت کے بیٹھے ہیں تو اگر کہیں جی وہاں ہوئی ہے دھاندلی تو وہ تو کہہ رہے ہیں ہمیں اور ملنی چاہیے کوئی 

مولانا صاحب: میں گزارش کروں جی ایک بات ہم نے بہت وضاحت کے ساتھ ان سے کہی کہ جی دھاندلی تو ہوئی ہے لیکن ہماری نظر میں تو دھاندلی آپ کے لیے ہوئی ہے اور پھر آپ کو صوبے میں اتنی بڑی اکثریت دی گئی ہیں اور چند سیٹیں بچ گئی ہیں ان کے لیے بھی آپ روڈ روکے ہوئے ہیں کہ یہ کیوں کسی اور کو مل گئی ہے تو یہ چیزیں آپس میں دوستانہ ماحول ہوئی۔

نسیم زہرہ: ہمارے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن صاحب تشریف رکھتے ہیں اور ان سے ہم بات کریں گے ان کی جو حکمت عملی ہے سب کی نظر ان کی حکمت عملی پہ ہے کہ کیا ہوگی، اچھا تو اس کا مطلب کہ پی ٹی آئی کا فی الحال ابھی کوئی بات کسی چیز پہ

مولانا صاحب: ظاہر ہے کہ ابتداء ہوئی ہے وہ تشریف لائے ہیں اور مہمان کے طور پر جب تشریف لاتے ہیں تو ہم ان کو اسی طرح لیں گے اور اگر کوئی ہم سیاسی لوگ ہیں سیاستدان کبھی نہ مذاکرات سے انکار کرتا ہے نہ مذاکرات کے ذریعے کسی مسئلے کے حل سے انکار کرتا ہے، تو اپنے اپنے پوزیشن میں رہتے ہوئے اگر ہم اس کی تحلیل کی طرف جا سکتے ہیں تو یہ ایک اپنی سیاسی دنیا میں اسلام بھی ہمیں اس قسم کی تعلیمات دیتا ہے تلخیاں بھی ہوتی ہیں ایک سخت پوزیشن۔۔۔

نسیم زہرہ: عمران خان کا کوئی پیغام دیا انہوں نے آپ کو کیونکہ انہوں نے کام دیے

مولانا صاحب: نہیں انہوں نے اتنا لفظ کہا ہے کہ ان کی اجازت سے ہم آئے ہیں

نسیم زہرہ: اچھا تو یعنی کہ وہ تو پکے پکے حکومت بھی بنا رہے ہیں وہاں کے پی کے میں اور اپوزیشن میں بیٹھیں گے بھی تو یہ ممکن ہے کہ آپ ان کو کسی عہدے کے لیے سپورٹ کریں یا آپ ان کی سپورٹ لیں یعنی کہ اپوزیشن لیڈر یا کوئی کمیٹیز میں آپ 

مولانا صاحب: نہیں ہم تحفظات کے ساتھ ایوان میں بیٹھ رہے ہیں ہم کسی الیکشن وہاں پر جو ووٹنگ ہوگی اس میں حصہ نہیں لیں گے۔

نسیم زہرہ: کسی کو پرائم منسٹر وغیرہ بنانے کے لیے

مولانا صاحب: نہیں کسی کے لیے نہیں

نسیم زہرہ: اچھا تو مولانا صاحب پھر آپ یہ فرما رہے ہیں کہ آپ جب تک فریش الیکشنز نہیں ہوں گے آپ متحرک نہیں ہوں گے یہ بات درست ہے؟

مولانا صاحب: یہ بات تو ٹھیک ہے اپنی جگہ پر جب فریش الیکشنز نہیں ہوں گے ہم تو۔۔۔ اس وقت مجلس عاملہ نے کوئی پارلیمانی کردار سے انکار نہیں کیا ہے لیکن میں نے جو پہلے آپ سے کہا کہ اگر اس سے آگے ہم جاتے ہیں اور پارلیمانی سیاست کا راستہ ہی ترک کرتے ہیں تو اس کا فیصلہ پھر جنرل کونسل کرے گی جی

نسیم زہرہ: تو اس کا مطلب یہ بڑی اچھی بات ہے خوش آئیند بات ہے کہ آپ یہ نہیں فرما رہے کہ آپ پارلیمانی سیاست چھوڑ کے بیٹھے ہیں اب آپ کہہ رہے ہیں ابھی اس پہ گفتگو ہو رہی ہے یعنی کہ وہ ایک آپشن ہے، اچھا یہ بتائیے گا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر بہت سخت پوزیشن لی مولانا صاحب نے اور اگر سڑک پر باہر نکل آئے تو یہ مارشل لاء کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے تو اس پہ آپ۔۔۔

مولانا صاحب: دیکھیے مارشل لائے پہلی بھی آئی ہیں اور ہم نے میدان میں ان کا مقابلہ کیا ہے مشرف کے دور میں بھی ہم جیلوں میں گئے ہیں وہ ضیاء الحق کے زمانے میں بھی جیلوں میں گئے ہیں، تو وہ جو کمٹمنٹ ہماری آئین کے ساتھ ہے تو وہ کمٹمنٹ تو ہم نے ختم نہیں کرنی جی اس کا تو ہم نے حلف اٹھایا ہوا ہے جی، اب ایک فوج ہے اور فوج کی قیادت ہے کہ وہ حلف اٹھاتی ہے کہ ہم نے سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کرنی اور قدم قدم اپنا حلف توڑتے رہتے ہیں اور ایک سیاستدان ہے کہ وہ حلف اٹھاتا ہے کہ میں نے آئینی راستہ نہیں چھوڑنا اور پھر اس فیصلے پر قائم رہتا ہے تو ہم نے تو حلف اٹھایا ہوا ہے

نسیم زہرہ: جی بس یعنی کہ جنرل مشرف جب تھے اس وقت آپ نے تھوڑا ان کے ساتھ کوآپریٹ کیا؟

مولانا صاحب: نہیں کوآپریٹ کو ایسے ایک غلط رنگ دے رہے ہیں لوگ کوآپریشن کو

نسیم زہرہ: ایل ایف او کو سپورٹ کیا تھا آپ نے

مولانا صاحب: نہیں ایل ایف او ایل ایف او چھوڑے آپ یہ دیکھیے ایک انٹرنل پالیٹکس ہوتی ہے اور ایک ایکسٹرنل پالیٹکس، دونوں چیزیں اس زمانے میں عروج پر تھی افغانستان پر امریکہ کا حملہ پاکستان کا ان کو اڈے دینا پاکستان کا ان کو فضائیں دینا اس میں ملک کے اندر کی سیاست پر ہم نے باہر کی اس ایکشن کو ترجیح دیا اور اس کے مقابلے میں ہم میدان میں نکل آئے تو ہم نے اس وقت مشرف سے بھی جنگ لڑی امریکہ سے بھی جنگ لڑی ناٹو سے بھی جنگ لڑی روڈوں پر آئے تحریک چلائی اور اس کے پاداش میں ہم جیلوں میں گئے، جو ہماری دوسری سیاسی پارٹیاں ہیں انہوں نے اس بین الاقوامی مسئلے کو سوچا ہی نہیں صرف اس پر فوکس کرتے رہے کہ جی ہم مشرف کے ساتھ اقتدار کی جنگ لڑے جی تو اقتدار کی جنگ ایک ثانوی چیز ہوتی ہے جو آپ کو اپنی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے نہ یہ کہ ہمارا حتمی ہدف یہ ہو کہ ہم نے یہی کچھ حاصل کرنا ہے کریں گے اس کے جدوجہد بھی کیا ہے لیکن اس کے لیے یہ نہیں ہے کہ ہم پھر عالمی قوتوں کا ایک اسلامی ملک پر اس طرح حملہ اور ہم مسلمان کے مخالف ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو یہ ایک اس ایشو پر ہم نے مشرف کے ساتھ تھے اور ایل ایف او تو بھی پارلیمنٹ کے راستے سے کیا یہ تو نہیں کہ ہم نے کوئی اسی کے ہاتھ سے تو نکالنے کے لیے تدریجی عمل تھا کہ جتنا ہم ان کے ہاتھ سے نکال سکے چیزوں کو اتنا نکالا جو رہ گئی وہ ہمارے دل میں قلق تھا وہ ہمارے ضمیر پر بوجھ تھا جو ہم نے اٹھارویں میں لکھا

نسیم زہرہ: تو ابھی بھی تو فوج کی جو ڈراپ کمانڈ ہے وہ کہتی ہے حالات دیکھیں دنیا کے دیکھیں حالات مشرق وسطیٰ میں دیکھیں اور ملک کے اندر دیکھیں تو ضرورت ہے کہ سب مل کے چلیں پی ڈی ایم ٹو بنے یہ بھی ہو

مولانا صاحب: ہم تنزل کی طرف گئے ہیں اس دن سے جب ہم نے یہ جملے استعمال کر کے قوم کو بلیک میل کیا

نسیم زہرہ: وہ تو بڑے سال ہو گئے ہیں ان کو تو تین دہائی سے

مولانا صاحب: اول دن سے جا رہے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے تو پھر ارادے باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں وہی بات ہے

نسیم زہرہ: تو مولانا صاحب آپ کے پاس آپ کی پارٹی کے پاس وہ فارم 45 ہیں جس سے کہ جیسے اور پارٹیز کے پاس ہیں پی ٹی آئی وغیرہ کے پاس ہو تو بار بار دکھاتے ہیں ابھی پریس کانفرنس بھی کی جہاں سائن شدہ ہیں کہ جی اتنے ووٹ

مولانا صاحب: ہم نے بھی جلسوں میں دکھائے ہیں جلسوں میں دکھائیں ہمارے لوگوں نے دکھائیں ہیں

نسیم زہرہ: آپ کے پاس بھی ہیں فارم 45 ہے

مولانا صاحب: 45 بھی ہے اور 47 بھی ہے اور اسے تبدیل بھی کیا گیا ہے! 

نسیم زہرہ: تو آپ کے اندازے سے کتنے حلقوں سے آپ لوگوں کو جو جیتنا تھا تو نہیں آپ

مولانا صاحب: میں اس میں پڑتا ہی نہیں ہوا جی مجموعی طور پر ملک کے الیکشن میں

نسیم زہرہ: تو اب جو حکومت بنی ہے شہباز شریف صاحب کو پرائم منسٹر بنا رہے ہیں کچھ جو ان کے حامی ہیں وہ کہتے ہیں جی انہوں نے پی ڈی ایم ٹو اتنے مہینے 16 ، 18 مہینے چلائی وہ کولیشن کے بادشاہ ہیں وہ لے کے چلیں گے سب کو

مولانا صاحب: میں نے ان کو دعوت دی ہے کہ آپ اپوزیشن میں بیٹھے حکومت نہ بنائیں اور اگر اس کے لیے ملاقات کی ضرورت پڑ گئی تو میں نواز شریف سے ملنے بھی جاؤں گا

نسیم زہرہ: تو ان سے آپ کا کوئی رابطہ ہوا ہے

مولانا صاحب: ابھی تک نہیں ہوا لیکن میں آپ سے پہلی مرتبہ شیئر کر رہا ہوں کہ اگر اس کے لیے مجھے ملنا بھی پڑ گیا اب دیکھتے ہیں دوستوں سے مشورہ کروں گا کیونکہ ہم نے ان کو دوست کے طور پر مشورہ دیا ہے ہم نے مل کر کام کیا ہے اور ہم نے ایک دوسرے کا بڑا ایک سہارا بنے ہیں ہم نے بڑی بڑی مشکل میں جب وہ جیلوں میں تھے ان کو باہر کام کرنے نہیں دیا جا رہا تھا تو یہاں چوکوں پہ کھڑے ہو کر ہم نے جلسے میں یہ کہا تھا کہ میاں صاحب ہم قوم کو آپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے جی اور نہیں ہونی دی نہیں ہونے دیا ہم نے جی ہم نے ملین مارچ کئیں ہیں آزادی مارچ کی ہے پی ڈی ایم کے بعد پھر پورے ملک کو چھان لیا ہم نے تو ایسا نہیں کہ ہم نے کوئی ان کے ساتھ دشمنی ہے ہماری نہ پیپلز پارٹی کے ساتھ دشمنی ہے ہماری دوست ہیں اور پتہ نہیں یہ ان کو کیا ہو گیا ہے ایک ملاقات میرے ساتھ ہو گیا وہ بوچھاڑ کر دی انہوں نے ہمارے اوپر کہ جیسے کوئی بہت طوفان آگیا ہے میں اپنے ان دوستوں کو کوئی جواب بھی نہیں دوں گا کوئی تلخ جواب بھی نہیں دوں گا الا یہ کہ کوئی ایسی بات چھیڑ دے کہ جس کی وضاحت کرنا ضروری ہو

نسیم زہرہ: دیکھیے زرداری صاحب تو مفاہمت کے کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے بہتر سمجھتے ہیں مفاہمت کی سیاست تو بڑا عجب لگ رہا ہے کہ آپ میں اور زرداری صاحب میں کوئی اس وقت روابط نہیں ہے یہ بڑا پاکستان کی سیاست اور آپ دونوں کو دیکھتے ہوئے تو یہ بڑا اَن یوژول چیز ہے

مولانا صاحب: محترمہ زرداری صاحب کو شاید آپ اتنا نہیں جانتے کہ میں جانتا ہوں

نسیم زہرہ: یقیناً آپ بہتر جانتے ہیں

مولانا صاحب: وہ میرے ذاتی دوست ہیں اور ایک لمبے عرصے کی دوستی ہے ہماری، مفاہمت کا بادشاہ نہیں ہے مفادات کا بادشاہ ہے، وہ جہاں سے بھی ملے فضل الرحمٰن سے ملے نواز شریف سے ملے جس سے بھی ملے

نسیم زہرہ: اچھا اچھا جی وہ بس یہی ہے وہی نہ وہ لوگ کہتے ہیں لیکن وہ پاکستان کی سیاست میں مولانا صاحب آپ نے تو دیکھی ہر ایک ہی مفاہمت ہر ایک مفادات کا یعنی ہر ایک ملٹری کے ساتھ بھی اس کے ساتھ بھی آج دشمن کل دوستی یہ تو پاکستان کے سیاست میں ہر ایک ہر ایک نے کیا

مولانا صاحب: دیکھیے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر پارٹی کی مفادات بھی ہوتے ہیں اور وہ نظریاتی حوالے سے بھی لیکن اصول کے تابع ہمیں چلنا چاہیے وصول کے تابع نہیں

نسیم زہرہ: لیکن یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر مولانا صاحب کو اس وقت بھی زیادہ سیٹیں ملی ہوتی تو مولانا صاحب ناراض نہ ہوتے اگر پچھلی دفعہ لیا اور

مولانا صاحب: یہ بات صحیح ہے آپ کی اگر اگر میں خراب نہ کیا جائے میرے موقف کو، میں اس پہ اپنی حوالے سے میری جماعت ہے اس نے الیکشن میں حصہ لیا ہے اس کو عوامی قبولیت کا معلوم تھا اس نے بلدیاتی الیکشن میں جو فتوحات حاصل کی وہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سب سے زیادہ جو نشانہ بنایا گیا ہے دھاندلی کا وہ جے یو آئی کو ہے

نسیم زہرہ: مولانا صاحب اسٹیبلشمنٹ سے کسی نے آپ سے کوئی کانٹیکٹ کیا کوئی بات چیت کرنے کی کوشش کی کیونکہ آپ اس پر کوئی بات چیت

مولانا صاحب: نہیں میں اس پر کوئی بات نہیں کرونگا، ہماری طرف سے بالکل نہیں، کلئیر کٹ

نسیم زہرہ: اچھا کلیئر کٹ بولنا نہیں چاہتے نا یہی فرما رہے ہیں

مولانا صاحب: جی جی

نسیم زہرہ: بالکل نہیں بولنا چاہتے تو پھر اگر نہیں بولنا چاہتے ناظرین تو مولانا صاحب آپ کہہ رہے تھے کہ ٹارگٹ کیا جے یو آئی کو تو ہر جماعت کہہ رہی ہے دیکھیں ہم گئے مختلف علاقوں میں تو کے پی کے میں ہمیں لگا کہ ہم اور یہ ہم نے سارا سکرین پہ دکھایا جہاں ہم جا رہے تھے ہم ڈی آئی خان میں گئے ہم نوشہرہ گئے اور مردان گئے پھر ملتان گئے وغیرہ تو لگ رہا تھا کہ جیسے اور میں نے آپ سے کہا جیسے لگ رہا تھا کیونکہ اتنی سے اس میں تو آپ نے بتا سکتے کہ جیسے پی ٹی آئی کی کوئی ویو ہے آپ کو نہیں لگتا جو مشکلات کا آپ کہتے ہیں پی ڈی ایم کے حکومت میں ہوئی تو اس کے رد عمل میں یا جو بھی کہ عمران خان جیل میں یہ وہ تو لوگوں نے ایک ویو تھی تو پی ٹی آئی کہتی ہے سب سے زیادتی ہمارے ساتھ

مولانا صاحب: میرے نظر میرے پی ٹی آئی کا ویو تو وہ دور کی بات ہے جھونکا بھی نہیں تھا اور ہم نے نہیں دیکھا الیکشن کمپین میں کچھ اس طرح کا ویو کیونکہ ہم الیکشن کے میدان میں تو ہم تھے ہم دیکھ رہے تھے کہ کمپیننگ میں جو ہم گاؤں گاؤں جا رہے ہیں محلے محلے جا رہے ہیں گلی گلی جا رہے ہیں تو وہاں تو کوئی ہمارے سامنے کمپین نہیں تھی

نسیم زہرہ: انہوں نے ان لائن کیا

مولانا صاحب: اور ان لائن اگر کیا ہے تو یہ پنجاب میں کیوں نہیں کر سکے یہ پھر سندھ میں کیوں نہیں کر سکے یہ بلوچستان میں کیوں نہیں کر سکے یہاں کیوں کرسکے جی

نسیم زہرہ: پنجاب میں کافی سیٹس لی ہیں انہوں نے

مولانا صاحب: ٹھیک ہے ویو تو نہیں کہا جاسکتا نا اس کو جی اس طرح ضروری نہیں ہے جس طرح کی ویو ہوتی ہے جی

نسیم زہرہ: لیکن ان کے لوگوں کو پکڑا وکڑا ہے انہوں نے سارے جو نکالے ہیں 

مولانا صاحب: اگر آپ نے بات ویو کی کی ہے ان کے لوگ معلوم تھے کہ جب ایک کنڈیڈیٹ آزاد بھی کھڑا ہے لیکن تصویر اپنے ساتھ عمران خان کی لگائی ہوئی ہے وہ ظاہر ہے کہ انہوں اپنے ووٹرز کو ورکرز کو متوجہ کیا ہے اپنی طرف وہ اپنی جگہ پر ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ پر ایک سوال ہے کہ جو چیزیں ان کے حق میں کہی جا رہی ہیں وہ ان کے مجموعی ماحول میں پھر وہی بات تضادات کا شکار ہو جاتی ہے اگر کوئی کہتا ہے کہ آپ کو اس سے وہ نہیں ملا کہ آپ ڈیڑھ سالہ حکومت میں شامل تھے اور اس سے مہنگائی ختم نہیں کی اور معاشی خوشحالی نہیں لاسکی تو پھر اس کے زد میں تو سب سے پہلے مسلم لیگ آنا چاہیے تھا قیادت تو اس کے ہاتھ میں تھی پھر دوسرے نمبر پر سندھ میں آنا چاہیے تھا پیپلز پارٹی کے خلاف آنا چاہیے تھا

نسیم زہرہ: مسلم لیگ کو مولانا صاحب سیٹیں تو بہت کم ملیں ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو دی گئی ہیں سیٹیں اور آپ کیا فرماتے ہیں بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ہاری ہے اس کو سیٹیں دی گئی ہیں

مولانا صاحب: نہیں یہ تو اپنی جگہ پر بات میں کر رہا ہوں اس لیے کہ جو دلیل دے رہے ہیں کہ آپ نے کچھ دیا نہیں تو پھر تمام کو صاف ہو جانا چاہیے تھا، اگر کے پی میں ہمیں صاف کیا گیا اور دلیل یہ ہو جاتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اگر دھاندلی نہیں ہوئی ہے تو پھر میں اسٹبلشمنٹ سے ضرور یہ کہوں گا کہ پھر آپ کا جو نو مئی کا جو بیانیہ وہ دفن ہو گیا نا، تو اس قسم کے اصولی تضاد میں جس طرح وہ پھنسی ہوئی ہے کوئی جواب

نسیم زہرہ: اسٹیبلشمنٹ

مولانا صاحب: ظاہر ہے بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جی کہ اگر آپ اس کو ڈسکس کریں تو ہزار سوالات پیدا ہوتے ہیں اس سے لیکن میں نے جتنا کہہ دیا ہے فالحال اس پہ اکتفا کر لیں اور یہ صورتحال آگے وقت پر چھوڑ دیں ذرا کچھ ہی دیر، ہم اپنے الفاظ سے شاید اس وقت کسی کو مطمئن نہ کر سکے تو پھر ہم حالات کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر وقت بتاتا ہے کہ ہماری بات صحیح تھی

نسیم زہرہ: تو ہم آخر میں یہ کہیں تو درست ہوگا کہ آپ نے ابھی پارلیمانی جو سیاست ہے اس کو خیرباد نہیں کہا ابھی اس پہ دیکھا جائے گا اور دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ابھی پہلی بات ہوئی ہے آگے ہوتی یا نہیں ہوتی وہ وقت پر ہے

مولانا صاحب: ظاہر ہے جی اور پوری جماعت کے مشاورت سے ہم آگے بڑھیں گے کہ بڑھ بھی سکتے ہیں یا نہیں بڑھ سکتے، وہ جو ہمارے درمیان تلخ دیوار نہیں پہاڑ کھڑے ہیں ان کو ہم کس طرح پھلانگیں گے کس طرح عبور کریں گے لیکن تاہم ایک اعادہ کرتا ہوں دو الفاظ میں کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم معاملات کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہم بھی سیاسی لوگ ہیں اور معاملات کو خراب کرنے والے تو ہم بھی نہیں ہے ٹھیک کرتے ہیں کیسے ٹھیک ہو گی ہے یہ اللہ کو علم ہے

نسیم زہرہ: یہ بڑی اہم بات ہے کہ آپ گفتگو کے لیے تیار ہیں

مولانا صاحب: گفتگو تو ہم نے پہلے بھی کئیں ہیں جو وفود آئے ہیں ان کے ساتھ ہم بیٹھے ہیں

نسیم زہرہ: اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہر ایک کے ساتھ گفتگو کے لیے تیار ہیں، بہت بہت شکریہ مولانا صاحب ہم سے بات کرنے کا ناظرین آپ نے مولانا صاحب سے بڑی ہری بھری بات سنی جو انہوں نے فرمایا حضرت نے سوال اٹھایا اب اجازت مانگتے ہیں آپ سے خدا حافظ پاکستان زندہ باد 

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا 24 نیوز کو خصوصی انٹرویو۔ (16-Feb-2024)

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, February 16, 2024



0/Post a Comment/Comments