قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا GTV کے پروگرام جی فار غریدہ میں خصوصی گفتگو 16 فروری 2024


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا GTV کے پروگرام جی فار غریدہ میں خصوصی گفتگو

16 فروری 2024 

غریدہ: جی السلام علیکم آج آپ دیکھ رہے ہیں جی فار غریدہ کا خصوصی پروگرام جس میں ہم اسپیشلی انٹرویو کر رہے ہیں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا

غریدہ: السلام علیکم مولانا فضل الرحمٰن صاحب

مولانا صاحب: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

غریدہ: بہت شکریہ پروگرام کے لیے وقت عنایت فرمانے پہ، کل آپ نے ایک بہت بڑی خبر دی اور پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا آپ نے کہا کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں جنرل باجوہ جنرل فیض کا براہ راست کردار تھا دونوں نے بلایا بلا کر کہا کہ بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی حکومت گرا دی جائے، اس کے بعد دو وضاحتیں آئی ہیں، جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ میں آن اوتھ انڈر اوتھ کہنے کو تیار ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، اور مولانا بھی انڈر اوتھ یہ بات کرے حلف لیں انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ قرآن پر حلف لے کس پہ حلف لے لیکن جنرل باجوہ آپ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر یہ حقیقت ہے تو آپ انڈر اوتھ یہ بات کرے اور جنرل فیض تو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی بھی نہیں تھے انہوں نے وضاحت کی بیان کے کچھ ذرائع سے جاری کی ہے یا کروائی ہے یا کروادی گئی ہے یا بہرحال آئی ہے کہ میں تو اس وقت کور کمانڈر پشاور تھا۔

مولانا صاحب: اس حد تک تو بات صحیح ہے کہ جنرل فیض کا جو میں نے نام لیا ہے تو وہ جیسے غلطی سے زبان پہ آگیا حالانکہ وہ نہیں تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے بعد والے۔

غریدہ: اس کے بعد والے؟

مولانا صاحب: ہاں اس کے بعد والے موجود تھے اس وقت

غریدہ: مولانا صاحب یہ بہت بڑی بات آپ کررہے ہیں ۔

مولانا صاحب: بڑی ہو یا چھوٹی ہو میں جنرل فیض کو جنرل باجوہ کو اور اس کے پورے رجیم کو 2018 کے انتخابات کے دھاندلی کا ذمہ دار سمجھتا ہوں اور اس کو زیادہ زیر بحث لانے کی بجائے اس کو تاریخ کے حوالے کر دیا جائے، رہا یہ کہ ان کو ادراک جو ہوا اس میں کوئی شک نہیں جب ادراک ہوا کہ سیاسی عدم استحکام پھر معاشی عدم استحکام اور اس کے بعد ہاتھ ڈالا جا رہا تھا دفاعی عدم استحکام پر تو یہاں ان کو بھی ادراک ہوا اور پھر انہوں نے سنبھالا دینے کے لیے جو بھی رابطے کئیں سیاست دانوں کے ساتھ وہ اپنی جگہ پر ٹھیک ہے۔

غریدہ: مولانا صاحب کل جس خبر نے تہلکہ مچا دیا جو آج آپ میرے پروگرام میں خبر دے رہے ہیں وہ اس سے زیادہ تہلکہ انگیز ہے اور خطرناک بھی

مولانا صاحب: آپ کیوں اس کو تہلکہ انگیز اور خطرناک۔۔۔ یہ سب چیزیں پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں اور رہی ہے اور چونکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا نا کہ انہوں نے ذرا محفوظ انداز میں گفتگو کی ہوگی اور میں ذرا کھل کر آج پبلک کے سامنے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ملک کی سیاست میں جو اسٹیبلشمنٹ کا رول ہے وہ اپنی جگہ پر ہے اور ہر زمانے میں رہا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ رول ان کا نہیں ہونا چاہیے۔

غریدہ: آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جو عدم اعتماد آئی اور یہ جو الزام ہے یہ نارمل معاملات ہیں ؟

مولانا صاحب: یہ نارمل معاملات ہیں۔

غریدہ: اور یہ چلتے رہنے چاہیے یا نہیں ؟

مولانا صاحب: یہ نہیں ہونی چاہیے نہیں ہونی چاہیے لیکن چل رہی ہے معمول ہے پاکستانی سیاست کا اس میں شک کی کیا بات ہے ۔

غریدہ: کیونکہ آپ کا مطالبہ بھی ہے مولانا صاحب کے ساتھ اس کے ساتھ ساتھ کہ یہ چیزیں اب ختم ہونی چاہیے۔

مولانا صاحب: ہونی چاہیے۔

غریدہ: تو یقینا یہ ساری گفتگو آپ نے اس ملاقات میں بھی کی ہوگی مبینہ ایک ملاقات بھی ہے۔

مولانا صاحب: یہ آپ لوگ بھی عجیب بات کرتے ہیں میں نے ایک بات کہی ہے جو حقائق پر مبنی ہے اور جو چیزیں ہمارے آنکھوں کے سامنے ہوتی رہی ہیں اس پر تو اوتھ کی بات وہ غلط بات ہے، کہاں اوتھ کے احترام ہے ان کے ہاں، یہاں کوئی اوتھ کا احترام ہے، کیا جب ان کو کمیشن ہوتی ہے تو وہ حلف نہیں اٹھاتے کہ ہم سیاست میں مداخلت نہیں کرتے تو کیا ان کو پتہ نہیں ہے کہ وہ مداخلت کر رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ہمیشہ اور اپنا حلف توڑتے رہتے ہیں، جو ہمیشہ اپنے دوران ملازمت میں مداخلت کرتے ہیں اور مداخلت کر کے اپنا حلف توڑتے رہتے ہیں آج وہ مجھے اگر کہتا ہے کہ میں اوتھ اٹھاتا ہوں تو اس کی کیا اہمیت ہوگی میری نظر میں 

غریدہ: آپ جنرل باجوہ کی بات کو رد کرتے ہیں ان کے رد عمل کو رد کرتے ہیں آپ چاہتے ہیں کہ ان معاملات کی تحقیقات آپ چاہتے ہیں ؟

مولانا صاحب: کون تحقیقات کرے گا پہلے یہ تو بتایا جائے کون تحقیقات کرے گا۔

غریدہ: کوئی ٹروتھن بھی کنسیڈیشن کمیشن کو جوڈیشل کمیشن

مولانا صاحب: میرے سے پھر یہ سوال نہ کریں کسی اور سے کریں کہ مجھے اعتماد نہیں ہے ۔

غریدہ: آپ کو پاکستان کے کسی بھی ادارے پر اعتماد نہیں ہے بشمول عدلیہ ؟

مولانا صاحب: کسی پر اعتماد نہیں ہے بشمول عدلیہ

غریدہ: آپ کافی مایوس یا کافی خفا نظر آ رہے ہیں۔

مولانا صاحب: میں تو اس سسٹم کے خلاف ہوں کہ ہم اس پورے سسٹم کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن ملک ہے ملک میں چلنا پڑتا ہے ہم اعتدال کے رویوں کے ساتھ چلے ہیں ہم نے مصلحتوں کے راستے بھی اپنائے ہیں اور ہم نے بہت کچھ برداشت کیا ہے برداشت کرتے چلے آئے ہیں لیکن مسلسل نشتر لگتے رہے اور پھر ہمیں چیخنے کی بھی اجازت نہ ہو رونے کی بھی اجازت نہ ہو یہ کیسے ہوگا ۔

غریدہ: سو آپ کو آج احساس ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف جو عدم اعتماد کی تحریک تھی وہ غلطی تھی یا درست نہیں ؟

مولانا صاحب: نہیں وہ تو ٹھیک تھی دو حیثیتوں سے سوچے ایک یہ کہ اعتماد کا نظریہ میں نے اس کی حمایت نہیں کی تھی میں کہتا تھا کہ تحریک کے ذریعے اور اگر ہم اتنی بڑی تعداد میں ایوانوں میں موجود ہیں اور ہم مستعفی ہو جائیں اور آدھے ایوان خالی ہو جائیں تو وہ پھر ایک مفروضہ ایک تخیلاتی خطرہ کہ صاحب اگر یہ دوبارہ الیکشن ہو گئے پھر دو تہائی اکثریت ہو جائے گی پھر 18 ویں ترمیم کو بھی ختم کر دیں گے پھر وہ صدارتی نظام میں لے آئیں گے وہ اس طرح کے مفروضوں کی بنیاد پر حالانکہ اتنا بڑا بھونچال ہوتا کہ ملک کے اگر تمام اسمبلیوں سے آدھی اسمبلی نکل جاتی ہے اور ایک سندھ کی پوری اسمبلی ٹوٹ جاتی ہے دوبارہ انتخاب کے علاوہ ان کے پاس اور راستہ کیا تھا ان کے پاس تو ہم نے کہا تحریک کی قوت سے تبدیلی لاؤ لیکن جب سب دوستوں نے کہا کہ عدم اعتماد تو عدم اعتماد پہ اتفاق ہو گیا ہم نے رائے چھوڑ دی ان کے لیے دوستوں کے لیے وحدت کے لیے اب بات یہ ہے کہ یہ ایک پیغام تھا جو سب کو دیا گیا بلا کر کہ جی آپ اگر عدم اعتماد نہ لائیں اور وہ ویسے ہی استعفی دے دیں تو

غریدہ: یہ کب کی بات ہے مولانا صاحب ؟

مولانا صاحب: جس کا آپ حوالہ دے رہی ہیں۔

غریدہ: ایک تو 26 مارچ 2022 کا ملاقات

مولانا صاحب: آپ جس چیز کا حوالہ دے رہے ہیں میں اسی پوری وضاحت کر رہا ہوں ایک پیغام تھا کہ بھئی اگر استعفی دے دیا جائے اور عدم اعتماد واپس لے لیا جائے میں تو اس وقت میٹنگ میں بھی نہیں پہنچا تھا سب لوگوں نے جواب دے دیا تھا کہ نہیں اب وقت گزر چکا ہے اب عدم اعتماد ضروری ہے تو یہ ایک چیز تھی جو آئی تھی اور آپ اسے پھیلا کر ایسا سوال کر رہے ہیں ۔

غریدہ: مولانا صاحب آپ نے کل جو بم شیل جو ہے گرایا ہے کہ بہت بڑا انکشاف کیا۔

مولانا صاحب: معمول کی بات ہے اب پتہ آپ کو پتہ بھی ہوتا ہے ان چیزوں کا لیکن سیاستدان کے منہ سے بات نکلے نہیں اگر نکل گئی تو جیسے پہلی مرتبہ کوئی انکشاف ہوا ہے اب خود پتہ ہوتا ہے ساری چیزوں کا

غریدہ: پہلی بار کب آپ سے ملاقات ہوئی جنرل باجوہ کی یا دیگر افسران کی عدم اعتماد کے معاملے میں ؟

مولانا صاحب: مجھ سے اکیلے میں بہت ملاقات ہوئی ہے لیکن ملاقاتوں سے کوئی ہم اصول چھوڑ گئے تھے۔

غریدہ: عدم اعتماد کی بات پہلی بار کب ہوئی ؟

مولانا صاحب: عدم اعتماد میرے لیے کوئی موضوع نہیں ہے میں نے آپ کو ساری بات بتا دی ہے اتنا کافی ہے غیر ضروری سوالات آپ نہ کریں جو میں نے کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا۔

غریدہ: اور آپ اس معاملے کو یہیں پہ کلوز کروگے؟

مولانا صاحب: ختم ہو گئی بات، گزر گئی جو گزر گئی، آپ بلاوجہ سنسنی کیوں پھیلا رہے ہیں۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں یہ آپ لوگوں کو پتہ نہیں ہے کل آپ کتابیں لکھیں گے صحافی لوگ پھر بعد میں کتابیں لکھتے ہیں نا جی پھر اس میں آپ لکھیں گے ہم یہ بھی پتہ تھا یہ بھی پتہ تھا یہ بھی پتہ تھا آپ لوگ خود تو روزانہ سنسنی پھیلاتے رہتے ہیں ایک سینئر صحافی جو ہے سٹیج پہ کھڑے ہو کر وہ پتہ نہیں بوری بسری کوئی کہانی لے آتا ہے اور پھر جناب یہ کریڈٹ لیتا او پہلی مرتبہ ایک انکشاف ہو گیا انکشاف ہو گیا ہمارے انٹرویو میں بھی یہی ہوتا ہے روزانہ بڑے تہلکہ خیز انکشافات کر دیے اور پتہ نہیں کیا کیا ہے تو وہ اپنا ہر ایک نے چورن ہوتا ہے بیچتے رہتے ہیں سارے۔

غریدہ: کیونکہ آپ کے کل اس بیان کو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بیانیے کی ویلیڈیشن کے طور پہ اٹھایا

مولانا صاحب: نہیں اعتماد ہم تحریک کے ذریعے ہٹانا چاہتے تھے ان کی حکومت کو یہ جماعت کی رائے تھی لیکن پی ڈی ایم تھا پی ڈی ایم سے باہر کی جماعتیں تھیں پیپلز باہر چلی گئی تھی ہم سے وہ بھی تھی اے این پی باہر چلی گئی تھی پی ڈی ایم کی حکومت وہ بھی تھی اور اسی طریقے سے باپ بے اے پی وہ بھی تھے اور ایم کیو ایم سب لوگوں موجود تھے۔ کوئی ایک دن نہیں ہمارے تو روزانہ میٹنگ ہوتی تھی اپنے طور پر تو ہوتی تھی۔

غریدہ: کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کا موقف یہ رہا ہے کہ سازش بیرونی ہوئی امریکہ سے اور پھر اندرونی عناصر کے ساتھ مل کے اس سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا تو کیا آپ سمجھتے ہیں۔

مولانا صاحب: وہ تو پھر ہم کورٹ نے بھی ثابت کر دیا کہ باہر کی کوئی سازش نہیں تھی اور امریکہ سے بھی جو ہے وہ وضاحت آگئی کہ کوئی باہر کے سازش نہیں تھی یہاں کے اداروں نے بھی کہہ دیا کہ کوئی باہر کے سازش نہیں تھی تو وہ تو ختم ہو گئی بات

غریدہ: سپریم کورٹ نے اٹھا لیا ہے الیکشنز کے حوالے سے معاملہ، الیکشن کلعدم قرار دینے کی درخواست، آپ نے فرمایا کہ آپ کو عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں رہا، سپریم کورٹ سے اب آپ کو لیکن توقع ہے کچھ الیکشن کے معاملے پہ ؟

مولانا صاحب: دیکھیے وہ تو پھر ہر چیز میرٹ کی بنیاد پر دیکھی جاتی ہے کہ سنجیدگی سے لیا ہے کس طرح اس کی سماعت کا سلسلہ چلے گا بات چیت چلے گی اس سے پتہ چلے گا کہ سنجیدگی کتنی ہے اس میں اور حقائقوں کے ساتھ تسلیم کیا جا رہا ہے، دلائل کتنے طاقتور دیے جا رہے ہیں کیونکہ ہم تو نہیں ہے نہ مدعی ہے مدعا علیہ ہے۔

غریدہ: آپ پشین کی سیٹ سے آپ ماشاءاللہ قومی اسمبلی کی جیت چکے ہیں لیکن جو خیبر پختون خواہ کی سیٹ ہے ڈیرہ اسماعیل خان کی جو آپ کے گھر کی سیٹ ہے وہاں پر آپ پاکستان تحریک انصاف سے جو ہے پاکستان تحریک انصاف وہاں پر کامیاب ہوئی ہے تو کیا آپ کا جو موقف ہے وہ یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں دھاندلی ہوئی ہے پاکستان تحریک انصاف نے کی ہے یا ان کے حق میں ہوئی ہے ؟

مولانا صاحب: میں ایک سیٹ کی بات نہیں کر رہا ہوں میں اپنے سیٹ کی بات نہیں کر رہا ہوں میں مجبوری طور پر پورے ملک کے الیکشن کی بات کر رہا ہوں بالکل اسی طرح کر رہا ہوں جس طرح 2018 میں کی تھی پہلی مرتبہ نہیں کر رہا ہوں ایک بہت بڑی تحریک ہم نے میں نے خود اس کی قیادت کی ہے پورے ملک میں ہم نے ملین مارچ کیے ہیں اور ایک سلسلہ چلا ہے اس لیے کہ ہمیں ایک اچھا شفاف الیکشن مل جائے سو نہیں ملا بدقسمتی سے، نہیں ملا۔

غریدہ: خیبر پختونخواہ میں بھی دھاندلی ہوئی ہے ؟

مولانا صاحب: کہیں بھی صحیح نہیں ہوا نا جی کہیں بھی صحیح نہیں

غریدہ: لیکن جو پاکستان تحریک انصاف اگر آپ کے پاس آرہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مولانا صاحب کی جماعت کا پاکستان تحریک انصاف سے بھی شکوہ ہے تو پھر یہ کس قسم

مولانا صاحب: تو یہی تو ہے بات تو یہی ہے نا کہ ہم تو اگر وہ آئے بھی ہیں پہلی بھی حاضر رہے ہیں تو ہم نے تمام سیاست دانوں کو احترام دیا ہے جی اور شدید اختلافات کے باوجود بھی جب ان کا وفد ہم سے رخصت ہو کر گیا تو آپ کو پتہ ہے آج کا سوشل میڈیا کا زمانہ ہے گاؤں کا ایک عام کارکن بھی اپنے کمنٹس ڈال دیتا ہے تبصرے کرتا ہے ہم نے تو پورے ملک کو روک دیا تھا کہ خبردار جہاں بھی جمعیت کا کوئی کارکن ہے یہ سب کا مہمان تھے جی اور مہمان کے گھر سے جانے کے بعد قطعاً کوئی غیر محتاط قسم کے آپ نے کمنٹ نہیں دینی، تو ہم تو اسی پر کارکنوں کو تربیت بھی کرتے ہیں اور اسی طرح احترام بھی دیتے ہیں باقی رہا معاملات جی وہ معاملات کیسے طے ہوں گے تشریف لے آئے ہیں بات انہوں نے مثبت کہہ دی ہے آگے دیکھتے ہیں کہ کیا صورتحال بنتی ہے۔

غریدہ: لیکن مولانا فضل الرحمن کا اور جے یو آئی کا موقف یہی ہے کہ خیبر پختون خواہ میں بھی دھاندلی ہوئی ہے اور اس کا فائدہ

مولانا صاحب: یہ تو میں نے ان سے کل خود کہا ہے

غریدہ: اچھا کہ کے پی میں دھاندلی ہوئی ہے اور آپ اس کے بینیفشری بھی ہے ؟

مولانا صاحب: یہ تو میں نے کہا کہ آپ کی مہربانی ہیں آپ تشریف لائے ہیں دھاندلی تو یقینا ہوئی ہے اور یہ ہمارا موقف ہے لیکن آپ تو کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ دھاندلی تو آپ کے لیے ہوئی ہے ۔

غریدہ: اس پر پھر آپ کو کیا رد عمل دیا ہے ؟

مولانا صاحب: بس گفتگو چلتی رہتی ہے اچھے انداز اچھے موڈ میں باتیں کی ہم نے کوئی ایسے تلخی کی بات ہے آپ نے جی لیکن ہم نے کہا اپوزیشن اپنی اپنی برقرار ہے ابھی تک اور برقرار رہے گی تو اب آپ دیکھے اگر مذاکرات آگے چلتے ہیں اور وہ تحلیل ہو جاتے ہیں تو بری بات نہیں ہے ہم سیاسی لوگ ہیں مذاکرات پر بھی یقین رکھتے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل پہ بھی یقین رکھتے ہیں تو ایسی صورتحال لیکن چونکہ ہمارے ان کے بیچ میں اختلاف یا تلخیوں کے دیوار نہیں ہے پہاڑ کھڑے ہیں تو ان پہاڑوں کو کیسے ہم نے عبور کرنا ہے ان کو کس طرح ہم نے ریزہ بنانا ہے یہ ایک اپنی جگہ پر ایک اسان کام نہیں ہے ۔

غریدہ: میرا اگلا سوال اسی حوالے سے جو اپ نے تلخیوں کا ذکر کیا اور آپ نے بالکل درست فرمایا کہ چند ذرات نہیں پہاڑ کھڑے ہیں آپ نے بڑا اعلیٰ ظرفی کا بڑی سیاسی رواداری کا مظاہرہ کیا اور آپ نے اپنے گھر پر ان کو جو ہے وہ دعوت دی لیکن کیا آپ نے معاف کر دیا یا بھلائے جا سکتے ہیں یا معاف کیے جا سکتے ہیں جو گفتگو کی گئی آپ کے بارے میں خود عمران خان کی طرف سے بھی پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جو اجازت دیجیے گا مجھے جو القابات کہے گئے کہ آپ معاف کردیں گے ؟

مولانا صاحب: دو چیزیں ہیں ایک ہے اختلاف کسی موضوع پہ کسی مسئلے پہ ہمارا ایک دعوی ہوگا ہمارے موقف ہوگا دوسرا یہ ہے کہ پھر اس پہ تلخی پیدا کرنے کے لیے جو الفاظ برے الفاظ گالیوں کے الفاظ وہ اپنی جگہ پر ہوتے ہیں لیکن سوال بنیادی یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے اصول اسلام بتاتا ہے امپلیمنٹیشن اس کی ہر جگہ پہ ہوتی ہے جب اسلام پہلے ایا تو کفار نے کیا کچھ نہیں کیا تھا ابو سفیان نے کیا کچھ نہیں کیا تھا خالد بن ولید نے کیا کچھ نہیں کیا تھا لیکن آپ نے فرمایا کہ اسلام میں جو کوئی آجاتا ہے تو پچھلی ساری چیزیں منہدم ہو جاتی ہیں ختم ہو جاتی ہے اب یہ ایک اصول طے ہو گیا اگر ہمارے موضوعات پر جس پہ اختلاف رائے تھا وہ طے ہو جاتی ہے تو باقی چیزوں تو پھر اس کے مطابق یعنی میں آپ سے اختلاف کروں گا تو اس کے اوپر کوئی جملہ کسو گا نا ورنہ جملہ کسنے کی کیا ضرورت ہوگی جی اپ اگر میرے سے اختلاف کریں گے تو آپ میرے خلاف کوئی ایک دو چار الفاظ زیادہ کھائیں گے نا جی تو اللہ اسے کیا ضرورت ہوگی لیکن اگر نفس مسئلہ ہی حل ہوتا ہے تو پھر میں ذاتی ناراضگی کو جو ہے پھر مقاصد پر ترجیح نہیں دوں گا ۔

غریدہ: یہ بڑی بات آپ نے کی ہے کہ ذاتی ناراضگی کو مقاصد پر ترجیح نہیں دیں گے تو ذاتی معاملات میں آپ عفو و درگزر سے کام لیں گے ؟

مولانا صاحب: ظاہر ہے جی بالکل ظاہر اگر اختلاف ختم ہو جاتے ہیں خدا کرے کہ ہو جائے ہمیں اختلاف کو برقرار رکھ رہے ہیں کے حق میں تو نہیں ہے لیکن ہیں ہر چند کے ہم نہیں چاہتے لیکن ہیں اپنی جگہ پر حقیقت ہے وہ تو وہ چیزیں جو ہیں وہ تو پھر جماعتوں کے ہیں اس کی ملکیت ایک ادمی کے پاس نہیں ہوتی وہ ایک شخص کی ملکیت نہیں ہے میرا کارکن یہ سوچتا ہے کہ اگر فضل الرحمن کا نام لے کر اس کو گالی دی گئی ہے تو وہ مجھے بھی دی گئی ہے یعنی ہر کارکن کو یہ سمجھتا کہ مجھے بھی وہ گالی دی گئی ہے اور یہ احساسات یہ جذبات ہر جگہ ہر سطح پہ موجود ہیں سو ہم نے ان احساسات و جذبات کو بھی سامنے رکھنا ہے ٹھیک ان قربانیوں کو بھی سامنے رکھنا ہے جو ہمارے کارکن نے دی ہے ہمارے کارکن نے بھی ہے ٹھیک جو سردی گرمی جو ہے وہ روڈوں پہ کھڑا رہا ہے بارش میں کھڑا رہا ہے آندھیوں میں کھڑا رہا ہے صحرا میں کھڑا رہا ہے شہروں میں کھڑا رہا ہے ان کی جو قربانیاں ہیں وہ تو بہت عظیم تر اور اولو العزم قربانیاں ہیں ان کے لیے قدر کرنی چاہیے وہ مخلص کارکن ہے اور جو بیچاروں کی جیب میں پیسہ تک نہیں ہوتا تھا محلے میں قرضے لے کر جی اور مزدوریاں کرتے ہیں یہاں پر اور دن کا خرچ اسے پورا کرتے تھے تو وہ قربانیاں کہاں جائیں گی کیا ہم اس کی قدر نہیں کریں گے کیا اس کو ہم نظر انداز کر کے جو ہے میرا کیا مفاد ہے کہ میں اس مفاد کے لیے جو ہے اتنے سارے قربانیوں کو دور کر رہا ہوں بات ہے مسائل کی اس موضوع پہ اختلاف ہے اس موضوع پہ اختلاف ہے اس موضوع پہ اختلاف ہے میرا یہ دعوی ہے میرا یہ دعوی ہے جب یہ چیزیں حل ہوتی ہیں تو پھر اس کا راستہ تو ہم نے نہیں روکا نہ اسلام روکنے کے لیے کہتا ہے ۔

غریدہ: سو یہ کن امور پہ جو ہے پاکستان تحریک انصاف سے اس کو اتحاد کہا جائے گا یا اس کو کچھ اور نام دیا جائے گا؟

مولانا صاحب: یہ جو پیپلز پارٹی اور ہمارے درمیان تلخی نہیں ہے کسی بڑے موضوع پہ تو اگر نہیں ہے تو ہمارا اتحاد ہے آپس میں اس کو اتحاد کہیں گے وہ اپنی جماعت ہے وہ اپنے منشور کے لیے کام کر رہے ہیں ہم اپنے منشور کے لیے کام کر رہے ہیں ان کی اپنی جماعت ہے ہمارے اپنے نظریات ہیں مسلم لیگ کے ساتھ تو میرا کوئی تلخی نہیں ہے نا جی لیکن وہ اپنی جماعت ہے میں اپنی جماعت ہوں اگر تلخی نہیں ہے تو ہمارے اتحاد ہو گیا ہے کیا تو یہاں پر بھی اگر کوئی مسائل تلخ ہیں اور وہ حل ہو جاتے ہیں تو اس کا معنی اتحا تو نہیں ہوگا ان کی اپنی تشخص ہوگا ہمارا اپنا تشخص ہوگا۔

غریدہ: لیکن زرداری صاحب سے تو آپ کی ویسے بھی دوستی سیاسی دوستی بھی ماشاءاللہ آپ کی ذاتی دوستی بھی سیاسی دوستی

مولانا صاحب: میری ذاتی دوستی اختلافات سے پہلے عمران خان کے ساتھ بھی تھی ایسا نہیں ہے لیکن مقاصد نظریات کے لیے جو ہے وہ دوستی

غریدہ: یہ جنرل مشرف کے دور سے پہلے کی بات کر رہے ہیں اس وقت کی اس سے پہلے آپ بات کر رہے ہیں

مولانا صاحب: مشکلات ہیں اپنی جگہ پر اور یہ اب حالات میں ہے کہ اگر وہ آئے ہیں تو پھر اس پر کیا تبصرہ کیا جائے۔

غریدہ: پاکستان پیپلز پارٹی کل آپ کے بیانات سے کافی ناراض ہوئی ہے کہ ملبہ تحریک عدم اعتماد کا پیپلز پارٹی پہ ڈال دیا گیا

مولانا صاحب: حضرت ان کی تو تحریک تھی ان کا تو پورا پی ڈی ایم کے موقف میں انہوں نے استعفوں کا اپشن نکال دیا تھا وہ تو میں نے جھگڑا کر کے ڈلوایا دوبارہ ان سے تب جا کر میں نے دستخط کی اس کے اوپر، ان کا تو ماٹو یہ تھا کہ عدم اعتماد اس سے انکار کیسے کر سکتے ہیں ۔

غریدہ: یہ عدم اعتماد پیپلز پارٹی کی طرف سے انیشییٹ کیا گیا تھا یا ان کا آئیڈیا تھا یا کہیں اور کا آئیڈیا تھا ؟

مولانا صاحب: کہی اور سے آئیڈیا فیڈ کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ آپ ود اِن دی سسٹم جو ہے کام کریں میں نے کہا میں نہیں کرتا سسٹم میں، میں نہیں کروں گا تو انہوں نے پھر اس بیڑے کو اٹھا لیا کنونس کیا سب کو اور انہوں نے بھی باپ اور ایم کیو ایم کو اس پلڑے میں ڈال دیا اب اگر میں انکار کرتا تو چار ووٹوں سے پورے کامیابی تھی کیونکہ میں نے پی ٹی ائی کا ووٹ لینے سے انکار کر دیا تھا کہ جس منحرف جس پارٹی کے اوپر میرا اعتراض ہے اس کے انتخاب میں میرا اعتراض ہے اگر وہ تیس چالیس آ بھی گئے ہیں ہماری طرف تب بھی ہم وزیراعظم کے لیے ووٹ نہیں لیں گے اس کے باوجود پھر جب جمع کیا گیا تو مشکل سے ہم تین چار ووٹوں سے جیتے ہیں۔ تو یہ چیزیں تو اپنی جگہ پر حقیقت ہے حقیقت ہے اس کا انکار کیوں کیا جائے اور اس میں قباحت والی کون سی بات ہے ۔

غریدہ: پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے کہ پھر آپ یہ بھی بتائیے کہ جو لانگ مارچ کیا گیا تھا وہ کس کے کہنے پہ کیا گیا کس کے کہنے پہ ختم کیا گیا ؟

مولانا صاحب: آپ ایسے ایسے لوگوں کے حوالے دے رہے ہیں جو پارٹی سربراہان کا بیان نہیں ہے اور اسی لیول کے لوگوں کے بیان کا میں جواب دوں گا ہر آدمی بیان پھینک دیتا ہے اور کوئی نہ کوئی منشور نہ کوئی عقل سر نہ پیر ہم کسی کے کہنے پہ کرتے ہیں کس کے کہنے پہ میں کرتے ہیں مجھے بتائیں کس کے کہنے پہ میں کرتا، امریکہ نے مجھے کہا کہ عمران خان کے خلاف تحریک چلاو، امریکہ اعتماد کرتا ہے پاکستان پہ، میں ان کے خلاف مظاہرے کر رہا ہوں پوری دنیا میں اور اینٹی امریکنزم پیدا کر رہا ہوں پورے برصغیر میں اور وہ مجھے کہنے لگے جی اپ یہ کام کریں مجھے باجوہ صاحب کہیں گے کہ آپ تحریک چلائیں مجھے فیض حمید کہے گا، مجھے عمران خان کہے گا کہ میرے خلاف تحریک چلاؤ یہ کوئی عقل کوئی چیز پارٹی کا فیصلہ تو جو باڈی کا فیصلہ ہے جس ترازو جس جس ماحول میں ہے جس فضا میں آج پھر بات کر رہا ہوں اگر یہاں پر میرے اس فیصلے کے پیچھے کسی کا اشارہ نہیں ہو سکتا تو اس وقت بھی کسی کا اشارہ نہیں ہو سکتا، ویسے ہی شکوک و شبہات کیوں پیدا کیے جا رہے ہیں۔

غریدہ: درست بات آپ نے فرمائی سو یہ آپ نے اس موقع کو منتخب کیوں کیا 16 مہینے کی حکومت پی ٹی ایم کے جس وقت آپ پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پہ شامل تھے لیکن اس کے درمیان کبھی ایک عرصہ رہا جب حکومت میں نہیں تھے الیکشن کے درمیان کبھی اینڈ آف دی گورنمنٹ ان دی اپ کمنگ الیکشنز، سو اب آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں ؟

مولانا صاحب: یعنی میں کس بنیاد پر بات کرتا مجھے ذرا سمجھا دو یہ سوال مجھے سمجھا دوں کہ آپ کہہ کیا رہی ہیں ۔

غریدہ: اس درمیان میں آپ نے یہ بات نہیں کی کہ ہمیں عدم اعتماد کہنے کے لیے جنرل باجوہ اور دیگر افسران نے کہا

مولانا صاحب: میں کیوں کہوں گا جب یہ چیز ہو گئی ہے ختم ہو گئی اور میں کہہ چکا ہوں وہ کیوں یاد نہیں ہے آپ کو اس زمانے کی باتیں، پھر کتنی دفعہ کہہ چکا ہوں کتنے انٹرویوز میں یہ بات کہہ چکا ہوں لیکن ہماری سوچ ہمارے رائے چونکہ اس وقت اس کو وہ حمایت نہیں مل رہی تھی تو پھر آپ سوال بھی نہیں کر رہے تھے ہمارے غریب ملّا کے آذان پر تو کلمے بھی آپ لوگ نہیں پڑھتے تو آج جب ہم نے ایک ناراضگی کے اوپر پوری اظہار کیا ہے تو اب ہماری بات بھی آپ سن رہے ہیں اور اس پہ سوالات بھی ہمارے اوپر کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ ماضی اور آج میں کوئی تضاد و متضاد پیدا کر دیا جائے ۔ میرے بیانیہ کو اتنا ہلکا آپ نہ سمجھیں کہ آپ کے ایک انٹرویو سے اور آپ کے اس قسم کے سوالات سے اس بیانیے میں کوئی فرق آئے گا، میں بڑا مستقل مزاج آدمی ہوں اور ان شاءاللہ پورے استقامت و استقلال کے ساتھ ہم میدان میں ہوں گے اور اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے جدوجہد میں سب سے آگے ہوں گے۔

غریدہ: مولانا صاحب آپ ہمیشہ قابل احترام رہے ہیں اور ہمارے تو کوشش ہوتی ہے کہ ہمیشہ انٹرویوز کریں آپ سے سوالات کریں صرف آپ کے اس انکشاف کے بارے میں نہیں بلکہ اوور آل

مولانا صاحب: یہ کوئی بڑا انکشاف نہیں ہے یہ آج آپ ایک خبر بنا رہی ہے آپ متن بنا رہی ہے کہ ایک ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس میں کہ ایک پورا میرا پرسوں کا پریس کانفرنس جو ہے وہ ایک سائیڈ پہ ہو جائے اور یہ ایک جزوی چیز جو ہے جو دو ٹکے کی بات نہیں ہے اس کو آپ اتنے بڑھا چڑھا کر پیش کرے۔

غریدہ: میں تو آپ سے سیاست کے بارے میں بھی دھاندلی کے معاملات کے بارے میں بھی سوالات کر رہی ہوں لیکن کل جو آپ نے سما ٹی وی پہ ندیم ملک صاحب کو انٹرویو دیا وہاں سے تہلکہ کا آغاز ہوا۔

مولانا صاحب: ہم آپ کے سامنے بھی میں نے کوئی بات ایسی بھی کی ہو گی کہ اس انٹرویو میں نہیں کی ہو گی تو پھر اس کو بھی آپ تہلکہ کہیں گے پھر اگلے میں انٹرویو دوں گا کسی اور کو دوں گا اس میں کوئی ایک ایسی بات آجائے گی کہ جو آپ انٹرویو بھی نہیں ہوگی کسی اور بھی نہیں ہوگی تو وہ تہلکہ ہوگا ہر اینکر جب اس سے انٹرویو کرتا ہے اور اس کے انٹرویو میں کوئی ایک ایسی بات آجاتی ہے میری وجہ کسی کی بھی ہو وہ پھر اسی چیز کو منفرد انداز سے اٹھاتا ہے کہ یہ پوزیشن میرے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں ہے یہ جو آپ کا یہ جو تفرق اختیار کرنا اور یہ کہ میرے پاس اس کے شوق میں ہمارے انٹرویوز ہمارے نظریے کو تو خراب نہ کریں آپ لوگ

غریدہ: میں آپ کے اس نظریے کو جو دھاندلی کے بارے میں ہے اور جو شکایات ہیں اس پر مزید فوکس بھی کرنا چاہ رہی ہوں الیکشنز اب ہو گئے نئی حکومت سازی کے اقدامات آگے بڑھ رہے ہیں کل آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خدا کرے یہ حکومت نہ چلے یہ پارلیمان نہ چلے آئی ایم ایف کے پلان میں جانا ہے آپ نہیں سمجھتے کہ یہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام ریاست کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے ؟

مولانا صاحب: حضرت میں ایک عرض کر رہا ہوں میں ایک پارلیمنٹ پر جب اعتماد نہیں کر رہا ہوں تو اس کے کھوک سے جنم پانے والی حکومت کو کیوں میں کہوں کہ وہ چلتی رہے ۔

غریدہ: پھر حل کیا ہے کیا نئے الیکشنز کروائی جائیں ؟

مولانا صاحب: حل کی بات آپ کر رہے ہیں حل جہاں تک مسئلہ ہے جی حل کوئی آسان نہیں ہے جب تک کہ ہم کچھ اصولوں کو ٹھیک نہ کریں جی اور یہ ایسی ایک گھتی ہے جسے اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے۔

غریدہ: سر کچھ تو حل اس کے بارے میں بتائیے کیا نئے الیکشن ہونے چاہیے حکومت کو چلنا چاہیے ؟

مولانا صاحب: میں نے بگاڑا ہو مسئلہ تو پھر میں حل بتاؤں جنہوں نے بگاڑا ہے وہ حال ان سے پوچھو کہ کیا حال ہے۔ وہاں تک آپ کی اپروچ نہیں ہے میرے تک تو آپ کی اپروچ ہے تو اس لیے سوالات وہ بھی مجھ سے جو مجھ سے متعلق نہیں ہے۔

غریدہ: یہ سیاست کا سوال حکومت پارلیمان کا سوال یہ تو آپ کی ڈومین کا سوال ہے جی یہ سیاست کا حکومت پارلیمان کا سوال یہ تو ایک سیاستدان کے ڈومین کا سوال ہے۔

مولانا صاحب: سیاستدان کا ڈومین کا سوال ہے لیکن سیاستدان کے پیچھے جو قوتیں ہیں اور جس سے مجھے شکایت ہے ان سے آپ بات نہیں کر سکے گی جب میں ان پر تبصرہ کر سکوں گا تو آپ ان سے کیوں سوال نہیں کر سکیں گے۔

غریدہ: سوال تو ہم سب سے کرتے ہیں ۔

مولانا صاحب: لیکن وہاں تک آپ کی اپروچ نہیں ہے ذرا جاکے تو دیکھے۔

غریدہ: ہم سے زیادہ ملاقاتيں تو آپ کی ہوتی ہے۔

مولانا صاحب: تو ہم آپنے موقف پہ کھڑے ہے ہم نے تو اپنا موقف تبدیل نہیں کیا نہ اس وقت تبدیل کیا نہ اج تبدیل کیا، بات چیت بھی کریں گے بات چیت میں حضرت گر جانا اور اپنا موقف چھوڑ جانا یہ ہوتی ہے شکست بھی اور یہ ہوتی ہے ایک کمزور سیاست بھی لیکن آپ بات چیت بھی کرتے ہیں خوبصورتی کے ساتھ کرتے ہیں اچھے جملوں کے ساتھ لب و لہجے کے ساتھ بات کرتے ہیں اور اپنے موقف پر دلائل دے رہے ہوتے ہیں اور آپ اس سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہوتے تو یہ ہے ہماری پولیٹکس اور اس کا یہ انداز لہذا کسی سے بھی ملاقات ہو میں اگر پاکستان فوج سے ملاقات کرتا ہوں ارمی چیف سے کرتا ہوں آئی ایس آئی کی چیف سے کرتا ہوں تو یہ کوئی انڈیا کی تو فوج نہیں ہے نا یہ ایران کی فوج تو نہیں ہے یہ کوئی بنگلہ دیش کی فوج تو نہیں ہے میرے پاکستان کی فوج ہے اور میرے معاشرے کا فرد ہے میرے حلقے سے نکلا ہوا ہے میرے گھر سے نکلا ہوا ہے تو ایسے اس میں اچھنبے کی کون سی بات ہے ۔

غریدہ: ملاقاتیں ہونی چاہیے ملاقاتیں اس سسٹم کا حصہ ہیں۔

مولانا صاحب: اگر ملاقات میں یہ ہو کہ ہم نے کوئی اپنا موقف کو چھوڑا یا ہم نے کوئی سرنڈر کیا ہو تو تب تو آپ بات کریں ہم نے موقف نہیں چھوڑا ہے اور ہم ایک اچھے الیکشن کے توقع کر رہے تھے ان سے اور یقینا ہمیں ان سے یہ توقع تھی کہ اب ایک اچھا الیکشن سامنے آئے گا اور ہر پارٹی کی جو بھی اپنی پوزیشن ہے وہ پوزیشن لے اس نے تو ہمیں اعتراض نہیں ہے کیا ہمیں ساری زندگی حکومتیں کی ہیں پاکستان کے 75 سالوں میں میرے والد نے 9 مہینے حکومت کی اور پھر 2002 میں پانچ سال حکومت ہے جو ہمارے کے پی والے ہیں وہ بھی پانچ سال پوری نہ کرسکی، اس کے علاوہ تو ٹھیک ہے حکومتوں کے ساتھ معاہدے بھی ہو جاتے ہیں کسی حکومت میں شریک بھی ہوا جاتا ہے تو ایک ہے حکومت کرنا ایک حکومت کا شریک ہونا دونوں میں بڑا فرق ہے اب جب پارلیمنٹ میں آپ آتے ہیں تو یہ ساری چیزیں تو آپ کریں گے سب چیزیں سب کو درمیان ہوتی ہے تو اس طرح تو نہیں ہے کہ ہم نے ساری زندگی کوئی اتنی بڑی کامیابی حاصل کی اور آج ہم شکایت کر رہے ہیں تو اگر ایک شکایت حقیقت ہے حقیقت کو حقیقت کہنا چاہیے ۔

غریدہ: درست آپ کو شکایات بھی ہیں آپ کی ناراضگی بھی ہے آپ کو شکوے بھی ہیں آپ مایوس بھی ہیں لیکن پھر وہی سوال کہ اس درمیان میں سے حل کیا ہے آپ خود اسی پارلیمان کا حصہ ہیں کل دو سیٹیں جے یو آئی کو مزید مل گئیں کیا یہ آپ کے بیانیے کی قوت سے کہا جائے یا کوئی اگر آپ سے اپروچ کرتا ہے مسلم لیگ نون میں سے نواز شریف صاحب شہباز شریف اگر آپ سے رابطہ کرتے ہیں زرداری صاحب کا رابطہ اگر اپ سے ہوتا ہے تو کیا یہ شکایات شکوے ناراضگیاں تلخیاں کم ہو سکتی ہیں ؟

مولانا صاحب: ملاقات میں ہمیں کوئی انکار نہیں میں بھی ملاقات کر سکتا ہوں میں نے پہلے بھی اپ سے کہا کہ اگر میاں نواز شریف صاحب سے مجھے بات کرنی پڑے تو میں جا بھی سکتا ہوں وہاں پر ایسے کوئی بات تو نہیں ہے میرے لیے ملاقات ہونا احترام دینا ایک دوسرے کو یہ میری سیاست کا کلچر ہے ہماری پارٹی کی سیاست جو ہے وہ اس کا کلچر یہی ہے کہ ہم احترام بھی دیتے ہیں ملاقات بھی کرتے ہیں اپنی بات کرتے ہیں اگر ہمیں سمجھا دیا جائے اور مطمئن کر دیا جائے تو کریں نا ہم بھی انسان ہیں وہ بھی انسان ہیں وہ بھی حالات کو دیکھتا ہے یہی پاکستان ہے یہی گھر ہے اب اس گھر میں اگر ایک کمرہ ٹوٹا ہوا ہے تو آپ بھی کہیں گے کہ بھئی ٹوٹا ہوا ہے میں بھی کہوں گا کہ ٹوٹا ہوا ہے ۔

غریدہ: سر مسلم لیگ نون اگر آپ کو مطمئن کرتی ہے تو آپ اس پہ راضی ہو سکتے ہیں کچھ یا آمادگی ہو سکتی ہے یا پیپلز پارٹی بھی ؟

مولانا صاحب: جی آئی تھے میرے پاس شہباز شریف صاحب تشریف لائے تھے یہاں پر اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میرا آپ کو مشورہ یہ ہو گا کہ آپ اپوزیشن میں بیٹھے حکومت نہ کرے آپ اس ملک کو اس وقت نہیں چلا سکتے اس ہائیبرڈ سسٹم میں یہ جو ڈبل ہائبرڈ ہو گیا ہے پچھلے کہ نسبت اب ہم پنگا لے رہے ہیں۔

غریدہ: لیکن اب تو صورتحال ایسی ہے پاکستان تحریک انصاف کے پاس بھی فی الحال نمبرز تو وہ نہیں ہیں کہ حکومت بنا سکے کسی نہ کسی نے حکومت تو بنانی ہے تو آپ تجویز کیا کر رہے ہیں ؟

مولانا صاحب: میں کوئی تجویر نہیں دے سکتا میں تجویز دے چکا ہوں کہ اب ہم اس ایوانوں سے باہر میدانوں میں ائیں گے فیصلے ایوان میں نہیں ہوں گے میدان میں ہوں گے۔

غریدہ: لیکن آپ پارلیمان کا حصہ رہیں گے ؟

مولانا صاحب: حصہ رہیں گے لیکن تحفظات کے ساتھ

غریدہ: اپ حلف اٹھائیں گے جا کے اپنا سیٹ کا آپ کے باقی اراکین قومی اسمبلی کا بھی 

مولانا صاحب: پبلک نے اگر مجھے ووٹ دیا ہے تو اس وقت تک تو جب تک میری پارٹی جو ہے اس نے جنرل کونسل کوئی فیصلہ نہیں دیتی تو تب تک ہم اس کے بیٹھیں گے تو صحیح

غریدہ: اچھا مولانا صاحب یہ احتجاج کی سیاست سڑکوں کی سیاست کیا یہ پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے درست رہے گی ؟

مولانا صاحب: دیکھیے اس کے بغیر اپ کے ملک کے حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکیں گے ہم ملک کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے اس کی سیاست کو اپنی لائن پر لانے کے لیے اس کی جمہوریت کو جو پٹڑی پہ لانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو ہمارے خیال میں ایک پٹڑی سے اتر چکی ہے اب آپ جمہوریت کا مقدمہ ہار رہے ہیں آپ پارلیمنٹ کی اہمیت کو کھو چکے ہیں اس پر بحث کی جائے نا یہ کیا مطلب کہ باجوہ صاحب کی میٹنگ میں کیا ہوا تھا عدم اعتماد چھوٹی چھوٹی باتیں جو کوئی زیادہ بڑی اہمیت کے حامل نہیں ہے اور شاید کوئی بعض دفعہ لوگ جو ہیں وہ پرندہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں جی تو اس طرح خواہ مخواہ تکلف کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑی باتیں نا بنایا جائے کہ جس سے ہمارے پورے موقف کو جو آپ ایک سائیڈ پر دھکیلنے کی کوشش کریں گے ایسا اب نہیں ہوگا۔

غریدہ: درست ٹھیک ہے میں نے اپنے پروگرام میں تو کم از کم کوشش کی کہ آپ کا جو دھاندلی کا موقف اور نظریہ ہے اور جو شکایات ہیں ان کو بھی بھرپور وقت دیا جائے۔

بہت بہت شکریہ جے یو آئی کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمٰن صاحب آج پروگرام کے لیے وقت دینے پہ انٹرویو کا وقت دینے پہ بہت مہربانی

مولانا صاحب: مہربانی جی

ضبط تحریر: #محمدریاض تصحیح: #سہیل_سہراب

ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات

TeamJuiSwat


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا جی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو ۔ (16-Feb-2024)

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, February 16, 2024


0/Post a Comment/Comments