قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کراچی میں صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس سے پہلے پریس کانفرنس
3 مارچ 2024
اس سال آٹھ فروری کو جو الیکشن ہوئے تھے اس پر جمعیت علماء اسلام کا موقف بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آگیا تھا کہ ہم نے ملک بھر میں اس الیکشن کے نتائج کو مسترد کر دیا تھا اور جو موقف ہم نے اختیار کیا تھا وقت کے ساتھ ساتھ جو شواہد سامنے آرہے ہیں وہ ہمارے موقف کی تصدیق کر رہے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں ہمارا یہ خیال تھا کہ 2018 میں سب سے بڑی دھاندلی ہوئی ہے لیکن 2024 نے تو اس کا بھی ریکارڈ توڑ دیا، اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلسِ عاملہ نے ہرچند کے پارلیمنٹ میں جانے اور تحفظات کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس صورتحال سے چاروں صوبوں میں جا کر صوبائی جو ہمارے جنرل کونسلز ہیں مجالسِ عمومی ہیں ان کو اعتماد میں لینا چنانچہ ہمارا پہلا اجلاس صوبہ خیبر پختونخوا میں ہوا اور ابھی دوسرا اجلاس ہے یہاں کراچی میں ہو رہا ہے اس کے بعد پھر پنجاب میں جائیں گے، بلوچستان میں بہت سخت سردی ہے مختلف اطراف سے لوگوں کے جمع ہونے میں دقتیں آرہی ہیں تو اس کو فی الحال موخر کیا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے اور پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے، اس صورتحال میں اب کیا کیا جائے، یہ پارلیمنٹ جس وقت ہم دیکھ رہے ہیں یہ عوام کے نمائندہ نہیں ہے، یہ دھاندلیوں کی پیداوار ایک پارلیمنٹ ہے جس میں کچھ لوگ اپنے آپ کو حکمران کہلائیں گے اور قوم کے دلوں پر وہ حکومت نہیں کر سکیں گے، ان کے جسموں پہ تو شاید حکومت کر سکیں لیکن قوم دل سے اس کو تسلیم نہیں کرے گی، تو اس حوالے سے ہم آج یہاں کراچی آئے ہیں یہاں کے صوبائی جنرل کونسل اور یہاں کے ورکرز ان کے ساتھ ہم نے ساری صورتحال پہ بات کرنی ہے اور پھر مزید ہم پورے ملک میں تحریک چلانے کا ایک لائحہ عمل بھی بنائیں گے بھرپور تحریک ہوگی عوامی قوت کے ساتھ ہوگی اور وہ ملک کی سیاست کو تبدیل کرے گی اس کا کایا پلٹے گی اس طرح نہیں رہیں گے جس طرح کے ہم پہ مسلط کیا جا رہے ہیں یہ حالات ہم نے تسلیم کرتے ہیں نہ اس کو ہم قبول کرتے ہیں اس کے خلاف بھرپور عوامی رد عمل آئے گا لیکن ہم اس کو منظم طریقے سے آگے بڑھانا چاہیں گے
سوال و جواب
صحافی: نواز شریف صاحب سے کیا شکوے کیا شکایت آپ دیکھ رہے ہیں اور زرداری صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو منا لیں گے، کیا آپ کو منانے میں وہ کامیاب ہونگے؟
مولانا صاحب: دیکھیے ہمارا کوئی ذاتی جھگڑے کسی کے ساتھ نہیں ہے کہ وہ ہمیں منا لیں گے، مسئلہ قوم کا ہے مسئلہ عوام کا ہے پھر انہوں نے اقتدار کی کرسی کو شاید اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے، وہ سمجھتے ہیں ہم پوری اسمبلی جو ہے وہ پیسے کی طاقتور خرید لیتے ہیں، چنانچہ سندھ اسمبلی خریدی گئی ہے، بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ہے اور مختلف صوبوں میں انہوں نے جو پیسہ انویسٹ کیا ہے پیسے کی بنیاد پر اگر ملک کی حکومت چلنی ہے اور اسمبلیاں خریدنی ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ ہم تو فارغ ہیں
صحافی: مولانا صاحب پی ٹی آئی کہہ رہی ہے کہ ملک کی بڑا گریٹ الائنس بنانے جا رہے ہیں سندھ میں جیسا کہ چار جماعتی اتحاد ہے جو جی ڈی اے اور جے یو آئی تمام جماعتیں جو الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف متحرک ہیں، کل رات آپ کی جی ڈی اے کے رہنماؤں سے ملاقات ہوئیے کیا سندھ میں اس اقدام جو جاری ہے اس کو مزید وسیع تر بنایا جائے گا اور گرینڈ الائنس جو بنے جا رہا ہے اس کے حوالے سے
مولانا صاحب: دیکھیے ابھی تک کسی گرینڈ الائنس کا کوئی اس وقت باضابطہ طور پر تجویز نہیں ہے رات کو بھی ہمارے ایک دوست نے گھر میں کھانے میں سب کو بلایا تھا ملاقات ہوئی سب کے ساتھ بڑے اچھے ملاقات رہی، تو یہ ملاقاتیں ہونی چاہیے اس میں مذاکرہ ہوتا ہے اس پہ ڈیبیٹس ہوتی ہیں حالات کو سمجھا جاتا ہے اور یہ ہمیں اندازہ لگانا ضروری ہے کہ ہم آئین اور قانون کے حدود میں رہتے ہوئے اپنا حق اظہار رائے استعمال کریں اور اس وقت نوجوان نسل میں بہت زیادہ شدت آرہی ہے اور ملک کے اندر ایک نظریہ تو نہیں ہے بہت سے لوگ اپنے نظریوں کے حامل ہیں، کچھ لوگ ویسے ہی اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک زمانہ ہو گیا کہ مایوس ہیں مزید ان کو اسمبلیوں اور جمہوریت سے مایوس کیا جا رہا ہے ایک طبقہ وہ بھی ہے جو بالکل جمہوریت کو کفر سمجھتا ہے، ہم نے اس ماحول میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا، ہم نے آئین اور قانون کے روشنی میں جمہوریت کی تشریح کی اور لوگوں کو اس کی طرف آمادہ کیا، اس ساری قربانیوں کے باوجود کون ہے جو ہمارے اس حق پہ ڈاکہ ڈالتا ہے، ہم کوئی ڈاکہ تسلیم نہیں کرتے ہم ڈاکہ ڈالنے والے کو مجرم سمجھتے ہیں، لاکھ دفعہ وہ اسٹیبلشمنٹ ہو لاکھ دفعہ وہ فوج ہو لاکھ دفع وہ مسلح قوت ہو لیکن جبر کو جبر کہا جائے گا اس کو کبھی عدل تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
صحافی: یہ کہا جارہا ہے کہ جس طرح پہلے عام لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب سے بھی آپ کی دوستی ہے میاں صاحب سے بھی آپ کی دوستی رہی ہے اور اب بھی ہے تو اس وقت ایسے کون سی وہ چیز سامنے آئی کہ آپ ان سے اتنے سے دور ہوئے دوسری یہ کہ کس کو سمجھتے ہیں کہ اسمبلیاں خریدنے کا کن کو کہہ رہے ہیں اور اصل ذمہ دار کون ہے؟
مولانا صاحب: جی میں اس میں بڑی وضاحت کے ساتھ عرض کر دینا چاہتا ہوں جی کہ پیپلز پارٹی کو اور مسلم لیگ نون کو تقریباً وہی مینڈیٹ ملا ہے جو 2018 میں ملا تھا پھر اس وقت دھاندلی کیوں تھی اور آج دھاندلی کیوں نہیں ہے؟ پی ٹی آئی کو وہی تقریباً مینڈیٹ ملا ہے جو 2018 میں ملا تھا اس وقت دھاندلی نہیں تھی آج دھاندلی کیوں ہے؟ دونوں سے سوال ہے لیکن جمعیت علماء اپنے اصولی موقف پہ قائم ہیں دھاندلی 18 میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے دھاندلی 2024 میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے، جہاں تک پارٹیوں کا تعلق ہے ضرور سب دوست تشریف لائے ہیں ان کے اکابرین تشریف لائے ہیں ہم نے ان کو احترام دیا ہے احترام کا رشتہ تو پہلے بھی رہا ہے آئندہ بھی رہے گا، پی ٹی آئی کے وفود بھی آئے ہیں ایک سے زیادہ مرتبہ وہ تشریف لائے ہیں ہم نے ان کو بھی احترام دیا ہے عزت دی ہے اور سیاست میں آپ جانتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی تلخی کو فروغ نہیں دیا، تعصبات کو فروغ نہیں دیا، گالم گلوچ کو فروغ نہیں دیا، موقف دیا ہے اتفاق رائے بھی کیا ہے اختلاف رائے بھی کیا ہے اعتدال کے ساتھ اور دلیل کے ساتھ کیا ہے، لیکن میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب تک ہم اپنے موقف پہ قائم ہیں پارلیمنٹ میں جائیں گے احتجاجی اور تحفظات کے طور پر ہم جائیں گے، کوئی ووٹ ہم نے استعمال نہیں کرنا اور ان شاءاللہ العزیز ہمارے جو دوست جماعتیں جو ہمارے پاس تشریف لائے بار بار لائے ان شاءاللہ اب وہ اصرار نہیں کریں گے ہم نے اپنے موقف ان کو تقریباً منوا لیا ہے۔
صحافی: مولانا صاحب آپ نے پی ڈی ایم کی سربراہی کی اس زمانے میں آپ کی فوجی قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئی لیکن یہ کیسے ہوگیا کہ مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کو تو ان کی ساری سیٹیں مل گئی لیکن جن سیٹوں پہ آپ کو جیتنا چاہیے آپ کا امیدوار جیتنا چاہیے مثلاً آپ مذہبی جماعتوں کو اس الیکشن میں بہت دور رکھا گیا ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں اس کے ذمہ دار وہی قوتیں ہیں جو 2018 میں جنہوں نے الیکشن۔۔۔
مولانا صاحب: جی بالکل وہی قوتیں ذمہ دار ہیں، یہ بین الاقوامی دباؤ میں بھی رہتے ہیں، عین ایسے حالات میں جب میں اسرائیل کے خلاف حماس کی قیادت سے ملنے جاؤں گا تو بین الاقوامی سطح پر ناراضگیاں تو پیدا ہوں گی، امریکہ بھی اور یورپ بھی جو اسرائیل کے مظالم کی پشت پناہی کر رہے ہیں ان کو تو تکلیف ہوگی، افغانستان میں شکست کھا چکے ہیں وہاں امارت اسلامیہ کی حکومت ہے ہم پاکستان اور ان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے گئے ہم نے ان کے استحکام کی بات کی اور اس کے استحکام پاکستان کی ضرورت ہے تو ظاہر ہے کہ ان کی ناراضگی تو ظاہر ہے کہ ان کے استحکام کے لیے ہم بات کریں گے تو ناراض تو ہوں گے، تو وہ بین الاقوامی دباؤ جو ہمارے ملک کے اسٹیبلشمنٹ پہ آتا ہے سو ہمارے خلاف اب بھی مستقل طور پر آیا ہے اور یہاں پر بھی جن لوگوں کو یہ خطرہ تھا کہ شاید فضل الرحمن آنے والے وقت میں ہمارے مقابلے میں صدارتی امیدوار بن سکے گا انہوں نے بھی اب تجوریاں کھولی ہیں۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا وزیراعظم کے لیے آپ نے اپنی رائے کا ووٹ جو ہے وہ استعمال نہیں کیا صدر کی امیدوار کے لیے بھی یہی فیصلہ پہ قائم ہے یا؟
مولانا صاحب: اسی فیصلے پہ قائم ہیں، محمود خان صاحب میرے پاس آئے تھے لیکن چونکہ انہوں نے ہم سے پہلے ابتدائی مشورہ نہیں کیا تھا اگر وہ پہلے مشورہ کر لیتے تو شاید ہم ایک اچھی سٹریٹجی بناتے لیکن وہ فیصلہ کر چکے ہیں تو پارٹی کا موقف تو ابھی تک وہی ہے، اب ایک طرف میری خواہش ہے ایک طرف میری خواہش ہے کہ میں محمود خان اچکزئی کو ووٹ دوں لیکن ایک طرف میری پارٹی کا فیصلہ ہے جس کی اطاعت مجھ پر واجب ہے تو خواہش اور واجب کا جب مقابلہ ہوتا ہے تو واجب کی اطاعت کرنی ہوتی ہے خواہش کی نہیں۔
صحافی: اگر آپ اسمبلی جاتے ہیں تو سنی اتحاد کونسل کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھیں گے یا حکومت کے نواز شریف اور نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ؟
مولانا صاحب: بیٹا آپ میرے خیال میں پارلیمان کے نظام سے واقف نہیں ہے پارلیمان میں اپوزیشن اپوزیشن ہوتی ہے حکومت حکومت ہوتی ہے، ہم اپوزیشن کے بنچوں پہ بیٹھے گے وہ جہاں بھی ہوں گے، تو جسموں سے ہمیں کوئی لڑائی نہیں ہے نا کوئی، فکر اور ذہن اور دماغ سے کچھ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جہاں پر بھی اپوزیشن کی بنچز ہوں گی وہیں پر ہم بھی بیٹھے ہوں گے۔
صحافی: مولانا صاحب دیکھیں یہ ملک میں اس طرح کی دھاندلی ہو جو کرتے آرہے ہیں سالوں سے آپ کو بھی پتہ ہے تو اس کو کس طرح روک سکتے ہیں۔۔۔
مولانا صاحب: حضرت اس کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں ایک عوامی بیداری اور ایک سیاستدانوں کے کمٹمنٹ، یہ غلط بات ہے اگر میں ہوں تب میں بھی غلط ہوں اور کوئی اور ہے تو وہ بھی غلط ہے کہ ہم جمہوریت کی بات بھی کرتے ہیں ہم آمروں کے خلاف آواز بھی بلند کرتے ہیں جیلوں میں بھی جاتے ہیں کارکنوں کو بھی پِٹواتے ہیں عوام پر بھی تکلیفیں گزارتے ہیں لیکن جب اقتدار کا مرحلہ آتا ہے تو ہم پھر انہی قوتوں سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں، یہ رویہ جب تک رہے گا سیاست دانوں کا پاکستان میں جمہوریت نہیں آسکے گی، ہمیشہ ان کی خواہش کی حکومتیں بنتی رہیں گی، لہذا سیاست دانوں کو پہلے اپنے کمٹمنٹ ٹھیک کرنی چاہیے کہ وہ جب ایک جمہوریت پر یقین رکھ لیں تو پھر وہ جمہوریت ہی کے لیے ایک بات کریں پھر وہ یہ سودا بازیاں نہ کریں نہ پیسوں کا سہارا لیں نہ آمرانہ قوتوں کا سہارا لیں۔
صحافی: آپ نے ذکر کیا حکومت کی مدت کا آپ نے تخمینہ اندازہ لگایا ہے کہ سال ایک سال چلے گی، زرداری صاحب وہ کتنا عرصہ ان کا اقتدار بطور صدر رہے گا، دوسرا ایک ایکسٹریم پوزیشن عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق تھی کہ وہ ایک یہودیوں کے ایجنٹ تھے اپنی پوزیشن واپس لے کر پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑ گیا
مولانا صاحب: اس بات کی تکرار کی ضرورت نہیں ہے نہ آپ ایک سوال بار بار کریں میں جہاں بھی جاتا ہوں ایک ہی سوال پھر کئی ایک ہی جواب ایک ہی سوال پھر ایک ہی جواب، دیکھیے سب چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ ہی تحلیل ہوں گے موقف جو ہم نے اٹھایا تھا وہ اب بھی ہے اور اس کو ہم نے اگر تحلیل کرنا ہے تو اس پر ہم ایک ماحول تو اب بنا سکتے ہیں کہ ایسے ماحول میں جب ہم بات چیت کر سکیں جو ہمارے تحفظات ہیں وہ کیسے دور کریں گے اس کو جب دور ہوں گے تو پھر تو ظاہر ہے جی کہ وہ بھی پاکستانی ہیں ہمیں پاکستانی لیکن اس کے لیے ایک ماحول تو چاہیے، اب جب تک ہم اختلاف کریں گے تو ظاہر ہے کہ میڈیا کا پیٹ تو بھر سکے گا اس سے، آپ کا کام تو چلتا رہے گا لیکن یہ ہے کہ اس سے ملک کو تو کچھ نہیں ملتا جی، لڑائی رہے گی اور لڑائی رہے گی تو پوری دنیا میں ہم نے اپنا موقف کو تعارف کرایا ہے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے وہ ابھی تک برقرار ہے اور اگر ایک ماحول بنتا ہے کہ جس ماحول میں ہم بیٹھ کر ان اختلاف کو دور کر سکتے ہیں تو ہم اس کو خیر مقدم کرتے ہیں
صحافی: اچھا یہ بتائیے گا کہ آپ نے دو اسمبلیوں کا سندھ اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ہے، کے پی کے میں کیا بالکل ٹھیک الیکشن ہوئے ہیں
مولانا صاحب: ہمیں چاروں صوبوں کے الیکشن پہ اعتراض ہے ہم ایسا نہیں ہے کہ خدانخواستہ کے پی میں الیکشن ہوا تو ہم اس پہ مطمئن ہیں وہاں بھی مطمئن نہیں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ نے کچھ اپنی ہی تقسیم کی ہے کسی کو ایک جگہ کسی کو دوسری جگہ کسی کو تیسری جگہ تو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جمعیت علماء کا معاملہ مختلف ہے وہ بین الاقوامی جو ہمارا ایک ورلڈ وائڈ ایک گیم ہوتی ہے اور جو ڈیپ پولیٹکس ہوتی ہے اس کا حصہ ہیں اور وہاں سے جو چیزیں ہلتی ہیں یہاں پر وہ اس کے حرکتیں جو ہیں وہ پھر نظر آتی ہیں تو ہم اس کو فیس کر رہے ہیں اور ان شاءاللہ ہم نظر فیس کریں گے، پاکستان کے عوام کے دلوں میں امریکہ محبت پیدا نہیں کر سکتا، آج فلسطینی شہید ہو رہا ہے اور 30 ہزار تک شہادتیں پہنچ چکی ہیں، بارشیں ہوتی ہیں تو ان کے سر چھپانے کی جگہ نہیں ہے، بچوں کے لاشیں پڑی ہوئی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں وہ بچے ہیں جو شیر خواں تھے اور آنے والے وقت میں ان کو یہ علم نہیں ہوگا کہ ہم کس کی اولاد ہیں، کیا یہ انسانی حقوق نہیں ہے، کیا امریکہ اور مغربی دنیا کو اس انسانی حق کا احساس نہیں ہے، یہاں وہ حیوان بن چکے ہیں، وحشی بن چکے ہیں اور اسرائیل کی جو درندگی ہے اس کو سپورٹ کر رہے ہیں، کس منہ سے امریکہ اور مغربی دنیا آئندہ پوری دنیا میں انسانی حق کی بات کرے گا شرم نہیں آئے گی ان کو اور اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو بھی حیا کرنی چاہیے، ان کی غیرت حمیت کہاں چلی گئی ہے کہ اسلامی دنیا اس وقت جو ہے وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے ان کو بھی اٹھنا چاہیے اور کھل کر اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے، کسی قسم کے ان کو مفادات کا لحاظ نہیں رکھنا چاہیے، دنیا کو اللہ نے قائم رکھنا ہے، عزت اللہ نے دینی ہے، رزق کا مالک اللہ ہے ترقی کا مالک اللہ ہے اور اللہ پر اعتماد شاید مسلمان حکمرانوں کا ختم ہو چکا ہے وہ صرف دنیا کے حکمرانوں کو خداؤں کو جانتے ہیں، امریکہ کی خدائی کا انکار کر دیں اور اللہ کی خدائی کا اقرار کردے، فلسطینوں پر مصیبت کم ہو جائے گی ہم نے تو ان کو ظلم کے حوالے کر دیا درندوں کے منہ میں چھوڑ دیا ہے، کوئی اسلامی دنیا کا حکمران ہے جس کو کچھ تو حیا آئے کچھ تو شرم آئے کچھ تو اپنے کلمے کی حیاء ان کے پاس ہو، بہت افسوسناک صورتحال ہے اس وقت کہ ہم سب جو ہے اقتدار کی جنگ تو لڑ رہے ہیں لیکن ایک مسلمان قوم کی دو تین مہینے کے اندر 30 ہزار تک شہادتیں یہ بھی تو کوئی منہ سے، ایک گھر نہیں ہے کسی کے پاس بارش آتی ہے بارشوں کے اندر اس کی مائیں جو ہیں اپنے بچوں کو سنبھال نہیں سکتی، کسی کو رحم نہیں آتا ان کی حالت پر، گھاس کھا رہے ہو چھوٹے چھوٹے بچے گھاس کھاتے ہیں اور ان کو پوائزنینگ ہو جاتی ہے اور وہ مر جاتے ہیں اس سے، تو یہ کوئی حالت ہے اس دنیا میں ہو رہی ہے اور ہم خاموش ہیں اس کے اوپر!
صحافی: اچھا مولانا صاحب یہ بتائیے گا جیسے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے آگے آئی ایم ایف کا پروگرام بھی آرہا ہے اب آج آپ نے سٹریٹ پہ آئیں گے اس سے تو اور عدم استحکام جو ہے وہ بڑھے گا کوئی ایسا راستہ نہیں ہے کہ جو
مولانا صاحب: استحکام کے لیے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے، اگر آپ کا گھر جو ہے زلزلے میں کریک ہو جائے تو پھر آپ کہیں گے کہ اس کو گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائے گا دوبارہ بنانا پڑے گا آپ کو، تو استحکام کے لیے آج اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی لحاظ سے سیاسی لحاظ سے اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہو سکتا ہے۔
صحافی: اچھا یہ بتائیں کب سے آپ ملک بند کرنے جا رہے ہیں احتجاج کرنے جا رہے ہیں احتجاج کی کال کب سے شروع ہو جائے گی آپ کی
مولانا صاحب: تھوڑا تھوڑا صبر کر لیں، اسی لیے تو ہم آئے ہوئے ہیں آپ لوگوں سے بات کر رہے ہیں
صحافی: مولانا صاحب آپ نے کہا ہے اسمبلیاں خریدی گئی، تو وہ کس کے ذریعے خریدی گئی کیا جمیعتہ علماء اسلام نہیں خرید سکتی تھی اسمبلیاں؟
مولانا صاحب: جمعیت علماء اسلام کی سیٹیں تو خرید لی گئی ہیں تو اگر ہم خرید سکتے تو اب تو کچھ ہماری بھی حکومت بن جاتی ہے
بہت شکریہ
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
کراچی قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, March 3, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں