مکہ مکرمہ رابطہ عالمی اسلامی کانفرنس کے بعد قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی میڈیا سے گفتگو
17 مارچ 2024
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ آج مکہ مکرمہ میں آپ نے یہ جو مسالک کے درمیان اختلافی امور کے خاتمے کے حوالے سے کانفرنس میں شرکت کی ہے کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے؟
مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم، آج جو یہاں مکہ مکرمہ میں اجتماع منعقد ہوا ہے اس کا جو داعی ہے وہ رابطہ عالم اسلامی ہے اور ان کے اس اجتماع کا جو عنوان ہے وہ مختلف مکاتب فکر، مذاہب، مسالک کے درمیان پُل کی تعمیر ہے، تو عالم اسلامی یقینا اس وقت ایک پُل کا کردار ادا کر رہا ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء مختلف اطراف سے اسلامی دنیا سے یہاں تشریف لائے، ایشیا کا علماء افریقہ کے علماء اور مڈل ایسٹ کے علماء ترکی کے ہر طرف سے علماء یہاں تشریف لائے عراق کے علماء تھے اس میں ایران کے تھے، تو وہ ایک ابتدا کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان جو فرقہ بندی ہے اور پھر فرقہ بندی کے ساتھ ایک تعصب ہے نفرتیں ہیں شدت ہے اس کو اعتدال پر لایا جائے اور جیسے کہ ہمارا ایک نظریہ ہے ہمیشہ سے رہا ہے کہ ہم شاید اختلافات ختم تو نہیں کرا سکتے لیکن اختلافات کو نرم رکھ سکتے ہیں رویوں کے ذریعے سے اور جمعیت علماء کا جو ہمیں آج جو ورثے میں ملا ہے وہ دو چیزیں ہیں، ہمارے اکابر نے 100 سال پہلے اس نظریے کا تعین کیا تھا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو ایک تو نظریہ اور عقیدہ ان کے حوالے کریں گے اور دوسرا اس نظریے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ، سو اعتدال کے رویوں کے ساتھ دین اسلام کی تعلیم کی دی جا سکتی ہے اور اعتدال در حقیقت کمال ہے اگر اعتدال نہ ہو تو پھر یا افراط ہے یا تفریط ہے اور یہ دونوں کمزوریاں ہیں اور خامیاں ہیں اور نقائص ہیں لہذا اعتدال ہی کو ہم کمال تصور کریں اور اسی میں ہم امت کی خیر تلاش کریں، تو اس وقت جو بنیادی مسئلہ امت مسلمہ کو درپیش ہے وہ فلسطین کا مسئلہ ہے اور وہاں پر جو قابض اسرائیلی یا صہیونی حکومت، جس طرح ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے اور جس طرح انسانی حقوق کا خون کر رہا ہے، جنگی جرم کا مرتکب ہو رہا ہے اور پھر جس طرح عالمی قوتیں اس کی پشت پر ہے مغرب اس کی پشت پر ہے امریکہ اس کی پشت پر ہے کس منہ سے وہ آئندہ آنے والی نسلوں کو کہیں گے کہ انسانی حقوق کا خیال رکھو، کس طرح وہ دنیا میں انسانی حق کی بات کر سکیں گے انہوں نے تو ساری دنیا کو اجازت دے دی ہے کہ جس قوم کی خلاف آپ چاہیں آپ ریاستی سطح پہ طاقت کا استعمال کریں، نہ اس کے بچے کو زندہ چھوڑیں نہ اس کی ماؤں کو زندہ چھوڑیں نہ بیواؤں کو زندہ چھوڑیں نہ بوڑھوں کو اور ہر طرح کی انسانیت کا قتلِ عام کرنا تو ان حالات میں اس طرح کا اجتماع ضروری ہے کہ اس میں ہم ایک دوسرے کو اپنے افکار سے اپنے خیالات سے آگاہ کریں اور الحمدللہ ہمیں آج اس اجتماع میں جہاں پوری دنیا کے نمائندے موجود تھے اپنے اس رائے کو اور فکر کو ان کے سامنے رکھنے کا موقع ملا ہے اور ان شاءاللہ آگے بڑھ کر اس کے فائدے امت مسلمہ کو ملے گے۔
صحافی: مولانا صاحب آپ نے تقریر میں غزہ کا ذکر کیا فلسطین کا ذکر بھی کیا اور آپ نے کہا کہ یہ جو بالائے طاق رکھ کے آواز ہونی چاہیے، آپ سمجھتے ہیں کہ جو بڑے ممالک ہیں اسلامی ممالک ہیں سعودی عرب ہے پاکستان ہے ترکی ہے ان سب کو بڑی توانا طریقے سے آواز اٹھانی چاہیے پلیٹ فارم کی شکل میں تاکہ یہ ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوسکے
مولانا صاحب: ہم نے تو یہاں تک تجویز دی ہے کہ اسلامی امت کی اسی حوالے سے ایک تنظیم ہونی چاہیے اور اس تنظیم کی قیادت سعودی عرب کرے کہ مرکز اسلام کی نگرانی وہ کر رہے ہیں مرکز اسلام کی خدمت وہ کر رہے ہیں تو مکہ اور مدینہ دونوں مسلمانوں کے مراکز ہیں اسلام کے مراکز ہیں اور جن کی خدمت کی ذمہ داری جو ہے اس وقت خادم الحرمین الشریفین کے ذمے ہے تو یہ مقام ان کا ہے کہ وہ اسلامی دنیا کی قیادت کریں اس حوالے سے اور اس کو منظم کریں، اسی نظم کے ساتھ اور اسی وحدت کے ساتھ ہم دشمن سے دفاع کر سکیں گے مسلمانوں کا دفاع کر سکیں گے ان سے ان کے بشر حقوق کا دفاع کر سکیں گے ورنہ اسی طریقے سے دنیا ہمارا کھیلے گی کیا ہوا کیا گزرے افغانستان کے اوپر، کیا گزری عراق کے اوپر، کیا گزری لیبیا کے اوپر، کیا گزری شام کے اوپر اور اس وقت سعودی عرب اور یمن کے درمیان جو صورتحال ہے اس پر بھی اسلامی دنیا یقیناً پریشان ہے اور یہ حق ہے اس کا اور اس وقت جو فلسطینیوں پہ گزر رہی ہے حد کر دی ہے کہ کس طریقے سے یہ لوگ آئندہ انسان کی بات کریں گے یا انسانی حق کی بات کریں گے، تو یہ ضروری ہے کہ اسلامی دنیا کی طرف انہوں نے متوجہ کیا ہے اور ہم رابطہ عالمی اسلامی کے اور خادم الحرمین الشریفین کے اور ان کے ولی عہد کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس اقدام سے امت کو اس اہم مقصد کی طرف متوجہ کیا۔
صحافی: مولانا صاحب کچھ ممالک نے اسرائیل کو اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے تو آپ سمجھتے ہیں پاکستان پر بھی دباؤ ہو رہا ہے تو اس ساری صورتحال میں کیا لائحہ عمل ہو سکتا ہے کہ یو این تو اس پہ خاموش ہے امریکہ اس کا ساتھ دے رہا ہے تو کس طرح اسلامی ممالک اسرائیل کو روک سکیں گے؟
مولانا صاحب: اسلامی ممالک کی وحدت اور ایک موقف کے اوپر مجتمع ہونا، آج ایک موقف ہے سب کا کہ اسرائیل جو ہے وہ قابض ہے اور اس کا تسلط ہے اور فلسطینی جو ہے وہ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لہذا اسرائیل کو تسلیم کرنا یہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ فلسطین کی آزادی یہ مسئلہ ہے مسلمانوں کا اور مسلمانوں کو اصل مسئلے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، ہمیں ایک غیر ضروری موقف کی طرف لے جایا جا رہا ہے جس میں خالصتاً یا اسرائیل کا مفاد ہے یا مغربی دنیا اور امریکہ کا مفاد ہے مسلمان کا مفاد کہاں گیا امت مسلمہ کا مفاد کہا گیا اور مسجد اقصیٰ کا حق کہاں چلا گیا جس پر مسلمانوں کا حق ہے پھر فلسطین جو ہے وہ ارض فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے فلسطینیوں کی سرزمین ہے ان کی آزادی کا جو بنیادی سوال ہے جو 75 سال سے زندہ ہے کیا اس مقصد کو بھی ہم حاصل کریں گے یا نہیں کریں گے یہ بڑا بنیادی سوال ہے جی۔
بہت شکریہ جی
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, March 18, 2024
ماشاءاللہ قائد محترم ملت اسلامیہ کی ایک قومی اور مضبوط آواز ہے
جواب دیںحذف کریںMan ضلع پشین قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب زندہ باد 🏁💪💪💪💪
ایک تبصرہ شائع کریں