قائد جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اے بی این نیوز کے خالد جمیل کے ساتھ خصوصی گفتگو 23 فروری 2024


قائد جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اے بی این نیوز کے خالد جمیل کے ساتھ خصوصی گفتگو

23 فروری 2024

السلام علیکم ناظرین میں ہوں آپ کا میزبان خالد جمیل اور آپ دیکھ رہے ہیں پروگرام مقدمہ عوام کا اور آج ہم پاکستان کی سیاست، حکومت سازی اور سپریم کورٹ کے حالیہ ایک فیصلے کے نتیجے میں جو ملک بھر کے اندر ری ایکشن ہوا اور پھر اس ری ایکشن کے نتیجے میں پنجاب حکومت نے نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کیا جو دائر ہونے کے بعد ایکسیپٹ کی گئی اور اس کو پیر کے لیے ہیرنگ بھی اس کی لگا دی گئی ہے تو ان معاملات پہ بات چیت کریں گے اور ہمارے ساتھ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ اور امیر مولانا فضل الرحمن صاحب ہوں گے جو اس ساری صورتحال کے اوپر بات چیت کریں گے بہت شکریہ مولانا صاحب آپ کا ٹائم دینے کا، بنیادی سوال جو ہے کہ ہم سیاست کے اوپر آپ سے کرنا چاہ رہے ہیں کہ اس وقت پنجاب اسمبلی کی حلف برداری ہو چکی ہے ارکان کی اور حکومت سازی اگلے دو دنوں میں وہاں پہ ہو جائیں گی اس کے بعد مرکز سندھ بلوچستان کے پی وہاں پر بھی حکومت سازی ہوگی اپ کا ایک پرنسپل سٹینڈ ہے الیکشن کے حوالے سے دھاندلی کے حوالے سے اپ پورے ملک کے اندر تحریک بھی چلا رہے ہیں لیکن بلوچستان ایک ایسی اسمبلی ہے جہاں پہ اپ عددی اعتبار سے آپ پیپلز پارٹی اور آپ دونوں نے گیارہ گیارہ نشستیں حاصل کی اور ابھی کچھ آزاد لوگ شامل ہو رہے ہیں نون میں بھی اس پارٹی میں بھی آپ کے ساتھ ہیں تو کیا آپ کی جو ملک گیر پالیسی ہے وہ بلوچستان میں بھی وہی ہوگی یا آپ کی کوشش ہوگی کہ وہاں پہ حکومت آپ بنائیں اور باقی ملک کے اندر جو بھی آپ کا موقف ہے اس کے حوالے سے اسمبلی کے اندر بھی اور اسمبلی کے باہر بھی احتجاج کریں گے؟

مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم، بہت شکریہ جی اللہ تعالی آپ کی اس ملاقات اور انٹرویو کو خیر کا باعث بنائے، جہاں تک ہے الیکشن کے نتائج کا تعلق آٹھ فروری کو ہونے والا الیکشن اس پر تو جمعیت علماء اسلام کی رائے بالکل دو ٹوک غیر مبہم اور واضح ہے کہ ہم نے اس کے نتائج کو مجموعی طور پر مسترد کر دیا ہے اور بالکل جیسے کہ ہمارے ملک کی ادارے ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اس نے دیکھ کر جس کو چاہا جتوایا جس کو چاہا ہرایا اور آج الیکشن میں پہلی مرتبہ جب دو شخص اپس میں بات کرتے ہیں تو یہ نہیں کہتے کہ فلانا جیت گیا فلانا ہار گیا بلکہ یہ کہتے ہیں کہ فلانے کو جتوایا دیا فلانے کو ہروا دیا، فلانے کو اس کو اتنی سیٹیں دے دی سیٹیں چھین لی تو اسٹیبلشمنٹ کا اس حوالے سے اتنا ایکسپوز ہونا اتنا بے نقاب ہو جانا شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے اور بالکل بھی ہم نہیں چاہتے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کہ جو ملک کو چلاتی ہے اور ملک کے دفاع کی بہت بڑی ذمہ داریاں ان کے اوپر ہیں وہ سیاست میں پھر الیکشن میں اس حد تک دخیل ہوں کہ پھر تنقید کا نشانہ بھی وہ بن جائے سو ہم بڑے احتیاط کے ساتھ چل رہے ہیں اور اس وقت ہمارا جو سلسلہ چل رہا ہے ہم چاروں صوبوں کی جو ہماری جماعت کی مجالس عمومی ہے جنرل کونسل اس سے ہم مل رہے ہیں اور ان کو اس پوری صورتحال پر اعتماد میں لے رہے ہیں اور مزید اگے بڑھیں گے یہاں پر کوئی معاملہ رکے گا نہیں کیونکہ ظاہر ہے یہ کہ جب ہمیں انہوں نے پارلیمان کے اندر ہمارے کردار کا راستہ روکا ہے تو پھر فیصلے ایوان میں نہیں تو میدان میں ہی ہوں گے اب ہم ایوان میں بھی نہ ہوں اور ہمارے پارلیمانی حیثیت کو سکیڑ دیا جائے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سکیڑہ گیا ہے تو اس کے بعد پھر ہمارے لیے میدان کے علاوہ کیا رہ گیا ہے۔

اینکر: یہ عوام کے اندر بھی آپ جائیں گے؟

مولانا صاحب: عوام کے اندر تو جائیں گے کیونکہ ایوان کے اندر نہ جانا یا پارلیمنٹ کی سیاست چھوڑ دینا یہ مرکزی مجلس عاملہ کے اختیار میں نہیں ہے۔

اینکر: کیوں کہ 2018 کی میں ہی آپ نے کہا تھا بلکہ ساری جماعتوں کا قائل کر رہے تھے کہ ایوان کے اندر نہ جائے ۔

مولانا صاحب: وہ حلف نہ اٹھائے کیونکہ کچھ عرصے تک ہم حلف نہ اٹھائیں تو پبلک میں جو ہم تحریک اٹھائیں گے سارے جماعتیں مل کر وہ ہماری طرف متوجہ ہی تب ہو سکیں گی اور اگر ہم ابتدائی جو حلف برداری کا اجلاس ہوتا ہے جس میں ایک جشن کا سماں ہوتا ہے اور پبلک بڑے شوق سے اس منظر کو دیکھتی ہے میرے نئے نمائندے حلف اٹھا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ چیزیں پھر اپ کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے آپ کے موقف کی طرف لوگ، اگر لوگوں کو اپنے موقف کی طرف متوجہ کرنا ہے تو پھر آپ حلف نہ اٹھائیں تاکہ ادھی اسمبلی جو ہے وہ خالی رہے اور لوگ سمجھیں کہ کیوں نہیں آئے۔

اینکر: اور ابھی آپ جو ہے کہ آپ کا موقف یا حلف اٹھا لینا چاہیے؟

مولانا صاحب: ابھی تو یہ ہے کہ سارے لوگ جو ہیں ایوان میں چلے گئے اب صرف ہم پانچ یا چھ بندے جو ہیں اگر وہ حلف نہیں اٹھائیں گے تو اس کا کیا اثر ہوگا سیاسی لحاظ سے، جماعت تو یہی ہدایت یہ ہے کہ آپ ریزرویشنز کے ساتھ جائیں گے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ایوان جو ہے یہ عوام کا منتخب کردہ نہیں بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا نامزد کردہ ہے اور انتخابات میں بھرپور دھاندلی کر کے جس کو چاہا جتوایا جس کو چاہا ہروا دیا۔

اینکر: ابھی اپ کے پیرل پالیسی نظر آرہی ہے کہ عوام کے اندر بھی ہے باہر احتجاج بھی ہے اور بلوچستان میں کوئی خاص طور کے اوپر اپ اس پوزیشن میں ہیں کہ وہاں پہ حکومت سازی اپ کر سکتے ہیں اپ اتحاد بنا سکتے ہیں۔

مولانا صاحب: اصولی فیصلہ تو ہمارا یہی ہے کہ ہم کوئی حکومت نہیں بنائیں گے کسی حکومت میں ہم شامل نہیں ہوں گے اپنے بنچوں پہ بیٹھیں گے اور جہاں تک اپ نے خاص طور پر بلوچستان کی بات کی ہے وہاں پر بھی ہم حکومت میں نہیں جا رہے ہیں اور نہیں ایسے حالات ہیں اگر ایسی صورتحال ہو کہ اگر ہم حکومت میں نہ ہوں تو اسمبلی گر جاتی ہے تو اس صورتحال میں شاید ہم کچھ استثنی کی ایک ایک صورت نکال لیتے لیکن ایسا نہیں کرنا ہے۔

اینکر: ابھی آپ کی چوائس جو ہے کہ پیپلز پارٹی ہوگی نون لیگ ہوگی تو اپ وہاں پہ اپوزیشن میں رہیں گے احتجاج کی نوعیت آپ کی جو ہے کہ ابھی جی ڈی اے بھی کر رہی ہے سندھ کے اندر، تحریک انصاف اپنا احتجاج کر رہی ہے تحریک لبیک وہ بھی اس الیکشن رزلٹس کے اوپر وہی موقف ہے جو آپ کا ہے تو کیا اب دیکھ رہے ہیں کہ جیسے 2018 کے بعد آپ سب نے مل کے آپ اس کو لیڈ کر رہے تھے اور آپ نے ساری جماعتوں کو اکٹھا کیا احتجاج کیا دھرنا بھی دیا اس نوعیت کا آپ کر سکتے ہیں یا الگ الگ ہر کوئی کرے گا ؟

مولانا صاحب: ابتدائی طور پر تو ہمارا کسی کے ساتھ کوئی اس وقت تک نہ رابطہ ہے اور نہ ہم کوئی مشترکہ جدوجہد کر رہے ہیں سوائے سندھ میں کہ وہاں جی ڈی اے ہے اور اس سے پہلے الیکشن سے پہلے بھی ہمارا ان کے ساتھ اتحاد تھا تو اسی اتحاد کو جاری رکھتے ہوئے وہاں پر مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن یہ کہ دوسرے صوبوں میں ہم نے کیا کرنا ہے تو اسی لیے ابھی ہم چاروں صوبوں میں جا کر وہاں کے جو مجالس عمومی ہیں ہماری پارٹی کے لوگ ہیں ذمہ دار لوگ ہیں ان کو اعتماد میں لیتے ہیں ان سے بات کرتے ہیں اور پھر اگلے اقدامات کا ہم فیصلہ کریں۔

اینکر: اور یہ کب تک ہو جائے گا؟

مولانا صاحب: یہ رمضان شریف سے پہلے ہو جائے گا اور پھر اگر ہمیں مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس بلانا پڑا تو وہ شاید اس کے بعد ہوگا۔

اینکر: تو آپ کی جو فل فلیج احتجاجی تحریک ہے وہ رمضان کے بعد ہی ہوگی اس سے پہلے چھوٹے چھوٹے جلسے ہوں گے؟

مولانا صاحب: اس سے پہلے لوگوں کے ذہن سازی ہوگی لیکن یہ بات میں آپ کو واضح طور پر کہہ دوں کہ لوگ بہت ناراض ہیں ہمارے اور ہمارا کارکن جو ہے وہ حوصلہ نہیں ہارا ہے کیونکہ جو ہی ہم نے فیصلہ کیا تو پورے ملک کے ہمارے کارکن نے اس کو سراہا اور اس سے وہ زندہ ہو گیا اور الیکشن کے جو ناکامی ہے اس سے جو ایک افسردگی پیدا ہوئی اس سے دوبارہ ان کے اندر جان آگئی اور سب نے احساس کیا کہ ہمیں دوبارہ اگر میدان کی طرف بلایا گیا ہم حاضر ہیں۔

اینکر: یہ سندھ میں سومرو صاحب نے تو اعلان یہ کیا کہ ہم سندھ اسمبلی کا جو پہلا اجلاس ہوگا حلف برداری کا اس کو سندھ اسمبلی کی عمارت کو بلاک کر دیں گے ہم سارے وہاں پہ دھرنا دیں گے ۔

مولانا صاحب: صوبائی لیول پہ یہ ان کا فیصلہ ہے اس میں وہ شامل ہے تو وہ اس حوالے سے انہوں نے بات کی ہے۔


اینکر: اپ کے احتجاج کی نوعیت ہوگی تمام مشاورت کے بعد جو ہے کہ وہ ملک گیر ایک تو ہوتا ہے احتجاجی مظاہرے کرنا ہوتا ہے ایک ہوتا ہے لانگ مارچ ہوتا ہے ایک ہی ہوتا ہے کہ اپ مختلف شہروں کے اندر قومی شاہراہوں کو بند کر دیتے ہیں تو آپ کی ابھی کوئی ذہن میں اپشن ہے کہ کیا کیا جا سکتا ہے؟

مولانا صاحب: اتنے جزیات میں ہم نہیں جاتے کہ پھر ہم نے کس طرح کرنا ہے تو پھر کس طرح کرنا ہے وہ سب کچھ سامنے جائے گا ہم نے پہلے بھی ملین مارچ کیے ہیں اپ کو پتہ ہے کوئی روڈ بند نہیں کیا ہم نے، اپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ جب ہم ازادی مارچ کراچی سے لے کے ا رہے تھے تو ہم نے ٹریفک بھی بند نہیں کی تھی بسیں بھی چل رہی تھی جلسہ بھی ہو رہا تھا اور وہاں جلسے کے بیچ سے بس بھی چل رہی تھی ہم نے راستوں میں اگر کہیں پر کوئی حادثہ سامنے ایا تو ان کو ہمارے لوگوں نے پہلے اٹھایا ان کو ریسکیو کیا ہسپتالوں تک پہنچایا سرکار جب پہنچتے پہنچتے تو اس وقت تو پتہ نہیں کیا صورتحال ہوتی ہے تو کبھی بھی ہم نے پبلک کو کسی ازمائش میں نہیں ڈالا ہاں ہم نے سڑکوں پہ دھرنے بھی دیے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی خواتین جا رہی ہیں تو ہم ان کو بھی روکیں کوئی مریض جا رہا ہے تو اپ ان کو بھی روکیں تو وہ بھی علامتی طور پر کہ چند گھنٹے کر لیا احتجاج نوٹ کرا دیا پھر اس کے بعد ختم کیا تو ہم اس حوالے سے بہت محتاط لوگ ہیں اور ہم سیاسی مقاصد کے حصول اس کے لیے جو کچھ بھی ہم نے کرنا ہوتا ہے ان کے حدود کو بھی سمجھتے ہیں پبلک جو ہے ان کی ضرورتوں کو بھی سامنے رکھتے ہیں اور ہماری پہلی بھی تحریک بھی ہے کوشش تھی کہ ملک کے اندر باغیانہ ماحول نہ پیدا ہو ملک سے وفاداری کے لیے ہم نے کی ہے اور اس ملک کو ہم اپنا ملک سمجھتے ہیں کسی کا جاگیر ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے ہوتا کون ہے اسٹیبلشمنٹ کہ وہ الیکشن سے پہلے فیصلہ کرے گا کہ جے یو ائی کو سکیڑا جائے گا جی اس کی قوت کو پارلیمنٹ میں کم کر لی جائے گی جب وہ کم کرنے کی بات کرے گی تو پھر ہم نے اس پر احتجاج کیا۔

اینکر: خواجہ اصف صاحب نے بھی ریسنٹلی ہمارے ہی ایک ٹی وی پروگرام میں آپ کے موقف کو انڈورس کیا ہے کہ آپ کی جو میٹنگ ہوئی تھی اور جو اپ نے کہا تھا کہ اس وقت یہ عدم اعتماد کے پیچھے جو ہے اسٹیبلشمنٹ تھی آپ یہ جو پولیٹیکل رول ہے اسٹیبلشمنٹ کا کہ اس کو آپ نہیں سمجھتے کہ ایک بار سیاسی جماعتوں کو بیٹھ کے کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمیشہ کندھا فراہم پولیٹیکل جماعت ہی کوئی کرتی ہے تبھی ان کو موقع ملتا ہے اندر وائز اگر ساری جماعتیں اکٹھی ہو جائیں تو پھر تو شاید ان کو یہ موقع نہیں ملے گا ؟

مولانا صاحب: یہ تو پھر آپ کا سوال پورے پی ڈی ایم سے ہوگا کیونکہ ہم اکٹھے تھے جی اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اس کے دو بڑے حصے تھے یہی مینڈیٹ کچھ سیٹوں کے اوپر نیچے کر کے 2018 میں ان کو ملا ایک پارٹی نے تو سندھ میں حکومت بھی بنائی دوسری پارٹی نے کہا کہ ہم پنجاب میں حکومت بنائیں گے جو نہ بنا سکے لیکن ان کا ارادہ تھا کہ ہم بنائیں گے اتنی بڑی مینڈیٹ ان کو ملا تب بھی وہ اس بات کے معترف تھے کہ مجموعی طور پر دھاندلی ہوئی ہے تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ بھئی اس وقت کیوں دھاندلی تھی اور اب کیوں دھاندلی نہیں ہے اور ہم پی ٹی آئی سے بھی پوچھتے ہیں جی کہ آپ کو بھی تقریبا وہی وہی مینڈیٹ ملا ہے تو اس وقت دھاندلی نہیں تھی اور اب کیوں دھاندلی ہے ۔

اینکر: وہ تو کہتے ہیں فارم 45 کے حساب سے دو تہائی ہماری بنتی ہے۔

مولانا صاحب: جو بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آج اس وقت ہم اسی موقف پہ قائم ہیں کسی قیمت پر ہمارا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ملک کی سیاست میں اس حد تک اسٹیبلشمنٹ جا کر مداخلت کرے اگر وہ دفاعی قوت ہے تو سر آنکھوں پہ ہمارے سر کے تاج اور اگر وہ سیاسی قوت بنتے ہیں تو پھر سیاسی دفاع کا حق تو ان کو حاصل ہے نہیں ۔

اینکر: ایک دفعہ پھر آپ کوشش نہیں کر سکتے کہ ساروں کو بٹھا کر ایٹ لیسٹ یہ ون پرنسپل جو ہے کہ جہاں پہ گرینڈ ریکنسلیشن کی یا ٹروتھ اینڈ ریکنسلیشن کی بات ہو رہی ہے پیپلز پارٹی بھی کہتی ہے پی ٹی آئی بھی کہتی ہے تو وہاں پہ ہم یہ چیز طے کر لیں کہ سارے بیٹھ کر یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے جو بھی کرنا ہے اپس میں کریں گے ہم لیکن کسی تیسرے کو جس کی اپ بات کر رہے ہیں ۔

مولانا صاحب: یہ بات اصولی طور پر آپ کی بالکل صحیح ہے اور شاید پانچ چھ مہینے انتظار کر کے یہی صورتحال شاید پیدا ہو بھی جائے لیکن اپ جانتے ہیں کہ جس سے ہم جن سے ہمارا قرب تھا اور ایک بڑے لمبے عرصے تک ہماری باہمی ایک مشاورت کا ماحول تھا وہ چلے گئے حکومت بنانے میں انہوں نے دھاندلی زدہ الیکشن کو قبول کر لیا ہے جس سے ہمارے فاصلے تھے بیٹھ ہی نہیں جا سکتے کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر اس حوالے سے مشاورت کرے۔

اینکر: بہت قریب تو آگئے ہیں ایٹ لیسٹ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

مولانا صاحب: وہ ٹھیک ہے کہ وہ آئے ہیں ہم نے ان کا خیر مقدم بھی کیا خوش آمدید بھی کہا اور یہی چیزیں اگر ہمارے تحفظات کو دور کر رہے ہیں اور مسئلے کے حل کے لیے ماحول تشکیل دیتے ہیں تو سیاسی لوگ جو ہیں وہ نہ مذاکرات کا انکار کرتے ہیں نہ اس ماحول کی تشکیل کا وہ انکار کر سکتا ہے اور اگر اس ماحول سے مسئلے کا حل سامنے اتا ہے تو نہ اس کا ہم انکار کرنے کو تیار ہیں جی لیکن یہ ہے کہ ابھی تک فاصلے ہیں اور ایک ہی ملاقات سے ظاہر ہے معاملات حل نہیں ہو جاتے ۔

اینکر: پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتیں ساری ذمہ داری آپ پہ ڈالتے ہیں کہ اس وقت جو سارا معاملہ ہوا عدم اعتماد کا بھی اور اسٹیبلشمنٹ کے جو کردار تھا کہ شاید آپ بہت زیادہ ایکسٹریم پہ چلے گئے تھے وہ شاید پیچھے انے کے لیے تیار تھے ۔

مولانا صاحب: دیکھیے میں ان پرانی باتوں کو اب دوبارہ نہیں دہرانا چاہتا میں جتنا بھی کہہ چکا ہوں میڈیا پہ کہہ چکا ہوں بڑی کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کی اور ان کا خیال تھا کہ فضل الرحمن جو ہے بس اس میں وضاحتوں میں پھنس جائے گا اس میں یرغمال ہو جائے گا میں وضاحتوں میں یرغمال ہونے والا ادمی نہیں ہوں جی ہاں ایک چیز جو کبھی زبان پہ بھی مثال کے طور پر ائی کہ وہ نام میں نے لیا لیکن کیا اس کا اس کام میں پہلے ہو ہی نہیں تھا کہ وہ تو تھا لیکن وہ جو ایک میٹنگ تھی جس میٹنگ میں سب تھے وہاں وہ موجود نہیں تھے اور میں نے ان کا نام لے لیا کیونکہ ذہن میں وہی تسلسل کے حوالے سے موجود تھا جی تو باقی بات تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے عدم اعتماد والا راستہ لیا اور پیپلز پارٹی نے جب عدم اعتماد والا راستہ لیا تو یہی بات مجھے ایک مہینہ پہلے کہی گئی تھی کہ آپ ود این دی سسٹم جائیں آپ باہر سے استعفوں کی بات نہ کریں تو میں نے نہیں مانی لیکن وہ اتنا انہوں نے لابنگ اندر کر لی کہ اس کے بعد 30 لوگ جو پی ٹی ائی کے وہاں سے ٹوٹ کے آگئے ہمارے ایم کیو والے آگئے باپ والے آگئے صرف میں نے انکار کیا کہ ہم پی ٹی ائی کا ووٹ نہیں لیں گے کیونکہ انہی کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ یہ جعلی سیٹیں ہیں تو اس کا ووٹ نہیں لیں گے تو پھر ان ساروں کو ملا کر ہم صرف چار ووٹوں سے جیتے ہیں تو اگر اس وقت میں انکار کر دیتا کہ اب میں مزید نہیں ہوں اس میں، تو پھر یہ سارے میرے دوست مجھے کہتے کہ عمران خان کو آپ نے بچایا ہے تو ان حالات میں یہ ایک ناگزیر صورتحال بن گئی تھی کہ ہم نے اپنی رائے سرینڈر کی اپنے دوستوں کی خاطر 

اینکر: آپ سے ایک سوال پولیٹیکلی آپ سے کروں گا کہ آپ کے بھی کینڈیڈیٹ اپ بہت سارے پاکستان میں جے یو ائی کے چاروں صوبوں میں اپ کے پاس بھی فارم 45 سارے ائے ہوں گے اپ کی اسیسمنٹ ہے کتنی آپ کی سیٹیں کتنی کم ہوئی سب سے زیادہ کس کی تھی کتنی بنتی تھی اس کے بعد کیا کیا مینڈیٹ تھا ؟

مولانا صاحب: حضرت میں اتنا زیادہ ڈیٹیل میں نہیں جایا کرتا اتنا تو پتہ چل گیا نا کہ دھاندلی ہوئی ہے بس اتنا کافی ہے میرے لیے، بھرپور دھاندلی ہوئی ہے ننگی دھاندلی ہوئی ہے بدمعاشی کے ساتھ ہوئی ہے اور ایکسپوز اپنے اپ کو کر کے دھاندلی کی ہے کس کے فون اتے تھے کس کو اتے تھے کتنا ڈیمانڈ ہوتا تھا کیا اسے کہا جاتا تھا یہ سیٹ چھوڑ دو وہ سیٹ چھوڑ دو تمہاری یہ کر دو تم اس سے اتحاد کر لو تم اس کے لیے کر لو یہ یہ ساری چیزیں الیکشن میں ان کا کام ہے اور طراہ لے کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں جی کہ ہم پھر بھی کریں گے ٹھیک ہے پھر ان کا اپنا ہے چلیں۔

اینکر: یہ یہ جو بیہائینڈ دی کیمرا میٹنگز ہوتی ہیں گفتگو ہوتی ہے تو دونوں آپ کے پرانے دوست اتحادی کہتے ہیں کہ فضل الرحمان صاحب کو اگر ہم صدر پاکستان کی پیشکش کر دیتے تو پھر ایسے ان کا موقف نہ ہوتا۔

مولانا صاحب: میں ایک بات بڑی وضاحت کے ساتھ اپ کو بھی کہنا چاہتا ہوں اور پوری دنیا کو کہنا چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی بھی ڈیمانڈ میرا حق ہے لیکن میں حق کو جانتا ہوں کہ میں نے یہ حق کب مطالبہ کرنا ہے اگر میری ایسی سٹرینتھ پارلیمان میں ہوتی ہے صوبوں میں ہوتی کہ میں اس پر اتحادیوں کے ساتھ بات کر کے اپنا ووٹ جو ہے وہ کھرا کر سکتا تھا اج میں جس پوزیشن میں ہوں اس میں تو یہ مطالبہ کرے گا تصور ہی نہیں ہے جی یہ میرے گھر پہ اگر صدارت میں پھر بھی قبول نہ کروں یعنی پانچ چھ سیٹوں پر میں صدارت کا مطالبہ کروں گا میرے پورے صوبے میں جو 15 16 سیٹیں تھی وہ بھی آگئی ساتھ میں اس کے ہوتے ہوئے میں صدارت کا مطالبہ کروں گا اب تو پلیٹ میں بھی آکر رکھ دیں گے دیں گے تو فضل الرحمن جیسا اصولی آدمی وہ کبھی بھی یہ اب سیاسی لوگ اسی طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں چھوڑو یار اس قسم کی باتیں

اینکر: کے پی میں کوئی ماحول سازگار بنانے کے لیے اگر تحریک انصاف آپ کو شامل کرنا چاہے تو اس پہ بھی غور کر سکتا ہے ؟

مولانا صاحب: میں نے ابھی کہا کہ ان کے اور ہمارے درمیان دیوار حائل نہیں ہے پہاڑ حائل ہے پہاڑ کو کیسے سر کیا جائے گا یہی سوچنا ہے ۔

اینکر: چلے ایک چیز اور جو یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے اپ کا رد عمل بڑا سخت ایا پھر پورے پاکستان میں اج جمعہ کے خطبات کے اندر علماء کرام نے اس کے اوپر کھل کے بات بھی کی لیکن وفاقی حکومت نے بھی اس کو احساس کیا پنجاب حکومت نے بھی اپنی ریویو پٹیشن ڈالی ہے اور اس کی اب منڈے کو سماعت ہونی ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے وضاحتی بیان بھی ایا تو اس وضاحتی بیان اور ریویو پٹیشن انے کے

مولانا صاحب: حضرت یہ بات اپنی جگہ پر ہم اپنے اپ کو آئینی یا قانونی ماہرین میں شمار نہیں کرنا وہ لوگ بھی ہیں جو آئینی قانونی ماہرین ہیں مذہبی لوگوں میں بھی بہت تگڑے لوگ ہیں جو آئین و قانون کو بہتر طور پر جانتے بھی ہے ان کی تشریحات کو بھی جانتے ہیں ان کی دفعات ان کو یاد ہے ہمارا بھی ایک ماحول ہے میں نے بھی ساری زندگی یہاں گزاری ہے جو لوگ حکومت چلا رہے ہیں میں سب سے سینئر ہوں ان سے بھی میں سینئر ہوں جو عدالتوں میں بیٹھے ہیں میں ان سے بھی سینیئر ہوں میں قانون بنانے والوں میں بھی ہوں اور قانون ساز اداروں کے ساتھ میں وابستہ رہا ہوں لہذا یہ لولی پاپ قوم کو نہ دیں یہ لوگ کہ بس یہ تو ہم کوئی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں ہماری کاز ہیں ہم مذہبی ایشو کو بطور کارڈ کبھی استعمال نہیں کرتے یہ ہمارا کاز ہوتا ہے یہ ہمارا عقیدہ ہوتا ہے یہ ہمارا ایمان ہوتا ہے اور ہم اس پر مر مٹنے والے لوگ ہوتے ہیں لہذا نہ حکومت کی کوئی وضاحت ہمیں قبول ہے نہ عدالتی کوئی وضاحت ہمیں قبول ہے ریویو میں ہم جائیں گے پنجاب گورنمنٹ نہ جائے اس پر ہم اعتماد نہیں ہے پنجاب گورنمنٹ کس کے اشارے پہ جا رہی ہے اور وہ کیا پلی لے رہی ہے اس کا کسی کا اعتماد انہوں نے نہیں لیا یہ ہم خود طے کریں گے ہمارے وہ کراتا ہے کریں گے کہ ہم اس پر ریویو کریں گے اور اس پر ٹو دی پوائنٹ ہم جائیں گے پورے دلائل کے ساتھ ہم جائیں گے اور ہم ثابت کریں گے کہ اس فیصلے میں قادیانیوں کو قران میں تحریف کرنے تحریف شدہ قران کی تبلیغ کرنے اپنے ناجائز اور ناپاک عقائد کی ترویج کرنے اس کی ان کو مکمل چھٹی دی گئی ہے غلط فیصلہ کیا گیا معافی مانگے وہ اللہ سے معافی مانگے ۔

اینکر: یہ جو پنجاب گورنمنٹ نے ریویو پٹیشن کیا ہے اس میں آپ فریق بن سکتے ہیں ؟

مولانا صاحب: نہیں اس میں میں کیوں فریق بنوں گا میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ اس لیے کی گئی ہے کہ پھر وہ کہیں گے ہاں ریویو میں بھی ہم ہار گئے اور وہ تو عدالت کا دلائل ٹھیک تھے اور حکومت اس طرح پر اگر کوئی چیز ہوتی ہے ہم تحفظات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں ان سے چیزوں کو اور ہم نے اپنے وکیلوں سے رائے لینی ہے کہ پنجاب کی جو اپیل ہے اس میں لکھا کیا ہے اس کا اس نے پلی کیا لیا دعوی کیا لیا ہے انہوں نے تو وہ ساری چیزیں دیکھیں گے ۔

اینکر: بہت شکریہ مولانا فضل الرحمن صاحب آپ سے بات چیت کر رہے تھے جمیعت علماء اسلام پاکستان کے امیر پاکستان کی سیاسی صورتحال سپریم کورٹ میں بڑا حساس نوعیت کا مقدمہ اس کے حوالے سے بھی ان کی رائے جانی۔

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

تصحیح : #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا اے بی این نیوز کو خصوصی انٹرویو ۔ (23-Feb-2024)

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, February 23, 2024


0/Post a Comment/Comments