حافظ مومن خان عثمانی
انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر ماحول اسے اس فطری دین سے برگشتہ کر دیتا ہےآج کل کی مادیت پرستی نے انسان کو اندرسے اس قدر کھوکھلا کردیا ہے کہ دنیا کی معمولی سی لالچ کے لیے وہ اپنا دین وایمان سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے عصری اداروں میں دہریت اور الحاد کی وبا بڑی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے، شہر تو شہر اب تو دیہات بھی اس مہلک وبا کی لپیٹ میں بری طرح پھنس چکے ہیں، ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ ہمارے علاقہ اوگی میں رونما ہوا جس نے اہل علاقہ کے ہوش وحواس اڑا دیے۔
اوگی مذہبی حوالے سے انتہائی پرامن علاقہ شمار ہوتا ہے یہاں صرف اہلسنت والجماعہ دیوبندی بریلوی مسلک ہی پائے جاتے ہیں مگر وہ بھی آپس میں اتفاق و اتحاد کے خوشگوار ماحول میں اپنے اپنے مسلک پر قائم ہیں۔ لیکن اس واقعہ نے اہل علاقہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ کچھ دن قبل ہمارے ایک دوست سید برہان شاہ (جو روزگار کے سلسلہ میں عمان میں مقیم ہیں اور کچھ عرصہ قبل اپنے والد صاحب کی وفات پر گھر آئے تھے اور اب تک یہیں ہیں) نے مجھے ایک فیس بک آئی ڈی کی لنک سینڈ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس آئی ڈی کو چیک کرلیں اس میں بہت زیادہ الحاد و زندقہ کا پرچار کیا جارہاہے جب میں نے وہ آئی ڈی کھولی اور چند پوسٹیں میری نظروں سے گزری تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، اللہ تعالی، اس کے رسولوں خصوصاً خاتم النبیین ﷺ، قرآن کریم، صحابہ کرام، اہل بیت عظام، امہات المومنین، بیت اللہ شریف اور دیگر شعائر اسلام کے خلاف وہ غلیظ اور گندی زبان استعمال کی گئی تھی کہ کوئی مسلمان اس کو سننے اور دیکھنے کی ہمت ہی نہیں کرسکتا۔ جب ہم نے معلومات اکھٹی کیں تو پتہ چلا کہ اس شخص کا نام کامران ولد گلشن ہے جو پہلے یونین کونسل دلبوڑی کے گاؤں چورکلاں میں رہتا تھا اوراب کچھ عرصہ سے شہتوت کے قریب جبڑو نامی گاؤں میں رہائش پذیر ہے، ڈیڑھ سال قبل اس شخص کو گاؤں کے لوگوں نے مسجد میں بٹھا کر اس سے وعدہ لیا تھا کہ آئندہ اس قسم کی شرانگیز پوسٹیں نہیں کرے گا اور اس نے مسجد کے اندر علمائے کرام سمیت تمام معززین کے سامنے توبہ کرتے ہوئے وعدہ کیا تھاکہ آئندہ اس قسم کی زہرآلود پوسٹیں نہیں شائع کرے گا، مگر پھر اس نے ایک فیک آئی ڈی پراپنی گستاخانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔
ایک مہینہ کی تحقیق و تفتیش کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ گستاخانہ مواد شائع کرنے والا چورکلاں کا رہنے والا ملحد کامران ولد گلشن ہے جو طویل عرصہ سے اپنے فیس بک آئی ڈی پر اللہ تعالی، رسول اللہ ﷺ ، دیگر انبیائےکرام، صحابہ کرام، اہل بیت عظام، قرآن پاک، بیت اللہ شریف اور دیگر شعائر اسلام کی گستاخی پر مبنی پوسٹیں شائع کرتاہے جس کے خلاف 22 اپریل 2024 کو راقم الحروف (حافظ مومن خان عثمانی) سید برہان شاہ اور مولانا خلیل الرحمن فاروقی نے اوگی تھانہ میں درخواست دی اور اس کو گرفتارکر کے قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد راقم الحروف نے حاجی عبدالرزاق گل کی معیت میں اے سی اوگی سے ملاقات کرکے انہیں بھی اس معاملہ کی سنگینی سے آگاہ کیا انہوں نے بھی اس معاملہ کو نمٹانے میں بڑے اچھے جذبے کا اظہار کیا۔
چنددنوں کی کاوشوں کے بعد اتوار کے دن اوگی پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد مغرب سے رات دس بجے تک اوگی کے علمائے کرام اور دیگر غیرت مند مسلمان بھائی اوگی تھانہ میں موجود رہے جن میں مولانا عبیدالرحمن حیدری، مفتی امان اللہ شاذلی، مفتی محمد فراست، مولانا مظہر عثمانی، مولانا عماد عثمانی، قاری قیصر اعوان، سید برہان شاہ، مولاناحبیب اللہ شاہ، رضوان ایڈوکیٹ، علی حسن شاہ، خادم شاہ، ایم پی اے اکرام غازی کے بھائی راشد اور ایوان تجارت اوگی کے صدر عطاءاللہ شامل تھے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے اس مرتد گستاخ کے خلاف ایف آئی آر ایس ایچ او تھانہ اوگی وحید مراد کی موجودگی میں کاٹ دی گئی۔ علمائے کرام اور عوام نے شدید بارش اور سردی میں تین گھنٹے تک تھانہ میں موجود رہ کر ایف آئی آر کو درست دفعات 295سی اور298 کے تحت درج کرکے اپنے عشق نبوی ﷺ کاثبوت پیش کیا۔
اس موقع پر ایس پی اوگی زاہدالرحمن صاحب، ڈی ایس پی عارف صاحب، ایس ایچ او تھانہ اوگی وحید مراد صاحب اور اے سی اوگی جناب سلیم صاحب کا شکریہ اور داد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کیس میں انتہائی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مرتد گستاخ کو پابند سلاسل کرکے اپنا فرض ادا کردیا اور علاقہ کو بہت بڑی بدامنی سے بچا لیا، اب تفتیشی ٹیموں کا فرض بنتاہے کہ وہ صحیح تفتیش کرکے عوام کو بتائیں کہ اس شخص کے پیچھے کونسی قوتیں سرگرم عمل ہیں جن کے بل بوتے پر یہ اس قدر بے خوف ہوکر کھلم کھلا اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق اڑا رہا تھا یہ بدبخت نہ صرف اسلام کے خلاف زہر اگل رہا تھا بلکہ پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر بدزبانی کررہاتھا یہ اوگی تھانے کاپہلا افسوسناک واقعہ ہے لوگ اس واقعہ سے انتہائی پریشان ہیں کہ یہاں اس قسم کا الحاد و زندقہ کیسے پیدا ہوا؟ یہاں اور کتنے لوگ اس مکروہ دھندے کے اندر ملوث ہیں جو نوجوان نسل کے عقائد کوتباہ کررہے ہیں ان دیہاتی علاقوں میں اس قسم کے لوگوں کی موجودگی خفیہ اداروں کےلئے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
عوام میں اس واقعہ پر شدید اشتعال پایا جاتا ہے اور ہرشخص اس ملعون کی گردن اڑانے کا خواہش مند ہے مگر چونکہ معاملہ اب قانون کے حوالے کیا جاچکاہے اب ہمیں قانون کے راستے سے ہی اس ملحد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے اور کوئی غیر قانونی اقدام کی طرف نہیں جانا چاہیے جس سے علاقہ کے امن وامان پر کوئی حرف آئے۔
ایک تبصرہ شائع کریں