مکہ مکرمہ: عالمی کانفرنس سے علمائے کرام کا خطاب۔ حافظ مومن خان عثمانی


مکہ مکرمہ: عالمی کانفرنس سے علمائے کرام کا خطاب

حافظ مومن خان عثمانی

مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام 7.8رمضان المبارک1445ھ کو منعقد ہونی والی عالمی کانفرنس ”مذاہب کے درمیان پلوں کی تعمیر“ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے کہا: مجھے امت کی خستہ حالی کاموثر حل یکجہتی اور یک زبان ہونے کے علاوہ کسی دوسری چیز میں نظر نہیں آرہا ہے.... مسلمان ایک جامع وژن اور پر عزم نوجوان قیادت کے بغیر اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتے،جس نے میدان میں ثابت کی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان کے حامی ومددگار معاون اور محافظ ہوں گے....فلسطین کی المناک صورت حال ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم امت میں مسلکی اور نظریاتی اختلافات سے نکل کر ان کی مدد کے لئے سوچیں،یہ شرعی،اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے جس میں غفلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے.....اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں جس نے ہمیں سیکرٹری جنرل کی قیادت میں یہ شجر مبارک رابطہ عالم اسلامی عطاکیا ہے، جو پوری لگن کے ساتھ امت کے مختلف مکاتب فکر اور دھاروں کو متحد کرنے کے لئے کوشاں ہے.... ہم جمعیت علماء اسلام پاکستان کی جانب سے خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کی قیادت میں مملکت سعودی عرب کی کاوشوں اور امت مسلمہ کو متحد کرنے، علم اور علماء کی حمایت پر اپنی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں،اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ”مسلمانوں کے درمیان جو فرقہ بندی ہے اور پھر فرقہ بندی کے ساتھ ایک تعصب ہے نفرتیں ہیں، شدت ہے، اس کو اعتدال پر لایا جائے، جیسے کہ ہمارا ایک نظریہ ہمیشہ سے رہا ہے کہ ہم شاید اختلافات کو تو ختم نہیں کرا سکتے لیکن اختلافات کو رویوں کے ذریعے نرم رکھ سکتے ہیں،جمعیت علماء اسلام کا جو ہمیں ورثہ ملا ہے وہ دو چیزیں ہیں، ہمارے اکابر نے سو سال پہلے اس نظرئے کا تعین کیا تھا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو تو نظریہ اور عقیدہ حوالے کریں گے اور دوسرا اس نظرئے اور عقیدے کے لئے کام کرنے کا منہج اور رویہ، سو اعتدال کے رویوں کے ساتھ دین اسلام کی تعلیم دی جاسکتی ہے اور اعتدال درحقیقت کمال ہے اگر اعتدال نہ ہو تو پھر افراط ہے یاتفریط ہے، اور دونوں کمزوریاں،خامیاں اور نقائص ہیں،لہذا اعتدال کو ہی ہم کمال تصور کریں اور اسی میں ہم امت کی خیر تلاش کریں،اس وقت جو بنیادی مسئلہ امت مسلمہ کو درپیش ہے وہ فلسطین کا مسئلہ ہے،وہاں پر قابض اسرائیلی یا صیہونی حکومت جس طرح ریاستی دہشت کررہی ہے اور جس طرح انسانی حقوق کا خون کررہی ہے جنگی جرم کا مرتکب ہورہی ہے اور پھر جس طرح عالمی طاقتیں اس کی پشت پرہیں، امریکہ اس کی پشت پر ہے،کس منہ سے وہ آئندہ آنے والی نسلوں کو کہیں گے کہ انسانی حقوق کا خیال رکھو،کس طرح وہ دنیا میں انسانی حقوق کی بات کرسکیں گے،انہوں نے تو ساری دیا کو اجازت دے دی کہ جس قوم کے خلاف آپ چاہیں ریاستی سطح پر طاقت کا استعمال کریں،نہ ان کے بچوں کو زندہ چھوڑیں نہ ان کی ماؤں کو زندہ چھوڑیں،نہ بیواؤں کو زندہ چھوڑیں نہ بوڑھوں کو،ان حالات میں ا سطرح کا اجتماع منعقد کرنا ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے اپنے افکار وخیالات سے آگاہ کریں،الحمدللہ آج اس اجتماع میں جہاں پوری دنیا کے نمائندے موجود تھے،اپنی اس رائے کو اس فکر ان کے سامنے رکھنے کا موقع ملا اور ان شاء اللہ آگے بڑھ کر اس کے فائدے امت مسلمہ کو ملیں گے، مولانا فضل الرحمن اس موقع پر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے کہا کہ ہم یہاں ایک تجویز پیش کی ہے کہ امت مسلمہ کی اس حوالے سے ایک تنظیم ہونی چاہئے،اس تنظیم کی قیادت سعودی عرب کرے کہ مرکز اسلام کی نگرانی اور خدمت وہ کررہاہے،مکہ اور مدینہ دونوں مسلمانوں کے مراکز ہیں ان کی خدمت کی ذمہ داری اس وقت خادم حرمین شریفین کے ذمہ ہے تو مقام ان کا ہے کہ وہ اسلامی دنیا کی قیادت کریں اور اس کو منظم کریں،اس طرح نظم اور وحدت کے ساتھ کہ ہم مسلمانوں اور ان کے بشری حقوق کا دفاع کرسکیں،ورنہ اسی طرح دنیا ہمارے ساتھ کھیل کھیلے گی کیا گزری افغانستان، عراق، لیبیا اور شام پر، اس وقت سعودی عرب اور یمن کے درمیان جو صورت حال ہے یقینا اسلامی دنیا اس پر پریشان ہے،اس وقت فلسطینیوں پر جو گزرہی ہے، ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ فلسطین کی آزادی کا ہے،ہمیں ایک غیر ضروری موقف کی طرف لے جایا جارہا ہے جس میں خالصتاً اسرائیل کا مفاد ہے یا مغربی دنیا اور امریکہ کا مفادہے، امت مسلمہ کا مفاد کہاں گیا اور مسجد اقصیٰ کا حق کہاں چلاگیا جس پر مسلمانوں کا حق ہے،ارض فلسطین مسلمانوں اور فلسطینیوں کی سرزمین ہے، اس کی آزادی بنیادی مسئلہ ہے۔

رابطہ عالمی اسلامی کے سیکرٹری جنرل جناب ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ:امت مسلمہ کے علماء اپنے راسخ علم اور حکمت کے ساتھ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ مسلکی تنوع میں اہم امورکا سمجھناضروری ہے،جن میں سے یہ کہ اختلاف اور تنوع الٰہی قوانین میں سے ہے اور وہ ذات اپنی شرعی، مذہبی اور کائناتی تخمینوں کوبہتر طورپر جاننے ولا اور حکیم ہے...حق سب کی ضرورت ہے ہر مسلمان کو اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے،اگر تکبر اور ہٹ دھرمی کے بغیر اس کے مسلک کے دلائل اس پر واضح ہوں تو اس کی اتباع کرے،ہم رابطہ عالم اسلامی میں اپنی نوعیت کی پہلی تاریخی کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر خوشی محسوس کررہے ہیں جو اس مقدس سرزمین پر اور اس بابرکت مہینے میں منعقد ہورہی ہے جوکہ ”میثاق مکہ مکرمہ“ کے مضامین کا تسلسل ہے...اس کانفرنس میں عالم اسلام کے مختلف مسالک کے راسخ علماء کرام شریک ہیں جو ا س بات کی تاکید ہے کہ امت مسلمہ بہتری میں ہے،ان کے علماء ربانی ہیں،وہ بہتر رول ماڈل اور شرعی نمائندے ہیں،وہ الحمدللہ قابل اعتماد اورقابل بھروسہ ہیں اور وہ امت کے قافلے کے قائد اور اس کے بہترین افراد ہیں....اسلامی مکاتب فکر کو مشترکہ موقف اختیار کرنے کی اشدضرورت ہے،جوانہیں متحداسلامی اصولوں کے ذریعے یکجا کرے اور انہیں تقسیم نہ کرے،شہادتین،اسلام کے بقیہ ارکان اور ثوابت ان پر عمل اور اس کی ضروریات سے بڑھ کر کوئی واضح اور واشگاف مشترک نہیں ہے...تاریخی واقعات اورحقائق آنے والی نسلوں کے لئے سبق آموزہیں، فرقہ واریت پر مبنی نعرے اپنے اس طرز عمل کے ساتھ جو فرقہ وارانہ تصادم اور تنازعات کو ہوا دیتے ہیں اس امت کی آفات میں سب سے آگے ہیں۔

سعودی عرب کے مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن عبداللہ آل الشیخ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:اسلام اتحاد کا دین ہے، جب ہم اسلام کے لائے ہوئے عظیم اصولوں کی بات کرتے ہیں جس میں مسلمانوں کو متحد کرنے کے لئے ہرممکن کوشش اور تقسیم کرنے والی ہر چیز سے روکنے کی تعلیم ہے،توہم اس خطاب کو سب سے پہلے ان کے علماء سے شروع کرتے ہیں کیونکہ مسلمان انہیں کو فتاویٰ اور مذہبی رہنمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں جب ایک عالم کی گفتگو میں شائستگی تھی،اس میں نیک نیتی تھی اور اپنے بھائی کے لئے پیٹھ پیچھے دعا کرتا تھا تومسلمانوں میں بھائی چارہ اور قربتیں تھیں،کیونکہ مسلمان کو عموماً اپنے علماء نمونہ اور رول ماڈل کے طو رپر دیکھتے ہیں...سنت مطہرہ میں ہر اس چیز کو کرنے کا حکم ہے جو مسلمانوں میں یکجہتی قائم کرے اور ہر اس چیز سے منع کیاگیا ہے جو نفرت اور دشمنی کا باعث ہو،صحیحین میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓکی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو قوت پہنچاتا ہے،پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا“۔ہم خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ کا اس کانفرنس کی سرپرستی اور مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کے مفادات کے حصول کے لئے ان کی زبردست کاوشوں کے لئے شکریہ اداکرتے ہیں،اسی طرح ان کے مضبوط بازو اور قابل اعتماد ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمدبن سلمان بن عبد العزیز کا جو مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کی صفوں کو مضبوط کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔

صدر جمعیت علماء ہند، استاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے اپنے خطاب میں کہا:اس کانفرنس کی سرپرستی کے لئے ہم خادم حرمین شریفین کا اور کانفرنس کے اہتمام کے لئے رابطہ عالم اسلامی کا شکریہ اداکرتے ہیں جنہوں نے اس عظیم اجتماع کو منظم کیا،یہ کانفرنس ان ان موجودہ حالات کے تناظر میں منعقد ہورہی ہے جن سے امت مسلمہ،اس کے تمام مکاتب فکر مدارس اور مذاہب گزر رہے ہیں،ہمیں مذہبی غلو اور تعصب کے خاتمے کے لئے کوشش کرنی چاہئے،جہاں بھی پایا جائے، اور فقہی اختلافات کو ان کے حقیقی اسلامی بنیادوں کی طرف لوٹانا چاہئے تاکہ علمی تبادلے کے لئے ایک ٹھوس اسلامی بنیاد بنائی جاسکے،مکالمہ وسیع تعمیری معانی اور جہتوں پر مشتمل ایک پرکشش لفظ ہے،یہ ترقی کا عنوان اور تخلیق کی راہ ہے،ہمیں ان تمام منصوبوں پر قابو پانے کے لئے پہل کرنی چاہئے جن کا مقصد اسلام کو بتدریج ختم کرنا ہے۔  

وزیر مذہبی امور جمہوریہ ترکی جناب ڈاکٹر علی عبد الرحمن ارباش نے اپنے خطاب میں کہا:میں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کایہ موقع پر فراہم کرنے پر اور رابطہ کا س کانفرنس کے اہتمام پر شکریہ اداکرتا ہوں...مذہبی اخوت کو شرعی حیثیت اور طاقت اللہ کی طرف سے ملتی ہے،اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں اور سیرت مطہرہ میں اخوت اسلامی کی اہمیت اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور انہیں ایک جسم کے مانند ہونے کا حکم ہے،یہ کانفرنس ایک مبارک وقت اور مقدس سرزمین پر ہمارے عالم اسلام میں امن کے فروغ کے لئے منعقد ہورہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے فلسطینی بھائیوں اور دنیا بھرکے تمام مظلوم مسلمانوں کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے...مسلمانوں کے درمیان اختلافات ان کے درمیان تفرقہ کاسبب نہیں ہونا چاہئے، ہم سب کسی بھی ایسے اسلامی فرقے کو مسترد کرتے ہیں جو دوسروں کو کافر یا گمراہ قرار دے کر انہیں تنہا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس ”اسلامی مذاہب کے درمیان پلوں کی تعمیر“سے خطاب کرنے والے چند اکابر علماء کرام کے خطابات کے کچھ اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں،اللہ کرے دنیا بھر کے مسلمان حکمران اس کا نفرنس میں پیش ہونے والی آراء اور تجاویز کواپنی کانوں سے سن کران کو عملی جامہ پہنا نے کے لئے کچھ اقدامات کرسکیں۔اس عالمی کانفرنس میں پاکستان سے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری، بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد،جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو، مفتی ابرار احمد کے علاوہ کئی دیگر علماء بھی شریک ہوئے۔ 



0/Post a Comment/Comments